• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مقلدوں کی حالت ِزار اور اُن سے چند گذارشات

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
کیا نواب صدیق حسن خاں نے اہلحدیث کی مذمت کی ہے؟

اس کے بعد نواب صاحب نے متعدد مقامات پر نظم اور نثر کے ذریعہ سے اہلحدیث کی فضیلت اُجاگر کی ہے جس کی تفصیل، طوالت سے بچنے کے لئے یہاں دینا مناسب معلوم نہیں ہوتا،
لیکن بھلا ہو اس تقلیدی ذہن کا جس نے نواب صاحب اور ان کی اس کتاب کواہلحدیث کے خلاف استعمال کرنے سے بھی گریز نہ کیا، اور اس کا ایک اقتباس حوالہ کی نشاندہی کئے بغیر غیر مقلدین کی مذمت میں پیش کردیا، حالانکہ وہ عبارت اہلحدیث کے خلاف نہیں ہے، اور نہ ہی نواب صاحب جو مضمون نگار کے بقول خود بھی غیر مقلد تھے۔ غیر مقلدین کے خلاف ایسی کوئی بات لکھ سکتے تھے،
اب ہم نواب صدیق حسنؒ کی کتاب ’’الحطۃ‘‘ کی وہ مفصل عبارت نقل کرتے ہیں جس کا ترجمہ ’’الفاروق‘‘ کے مضمون نگار نے، بزعم خویش اہلحدیث کے خلاف سمجھ کر اسے ان کی مذمت میں کتاب کا حوالہ دیئے بغیرنقل کیا ہے، تاکہ قارئین کرام کومعلوم ہوسکے کہ یہ اقتباس اہلحدیث کے خلاف نہیں بلکہ اسے نواب صاحب نے اہل تقلید کے خلاف ذکر کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
’’فقد نبتت فی ھذا الزمان فرقۃ ذات سمعۃ وریاء تدعی لأنفسہا علم الحدیث والقرآن والعمل بہما علی العلات فی کل شان مع أنہا لیست فی شییٔ من أھل العلم والعمل والعرفان لجہلہا عن العلوم الاٰلیۃ التی لابد منہا لطالب الحدیث في تکمیل ھذا الشان وبعدھا من الفنون العالیۃ التی لا مندوحۃ لسالک طریق السنۃ عنہا کالصرف والنحو واللغۃ والمعاني والبیان فضلا عن کمالات أخریٰ وإن تشبہوا بالعلماء و یظہروا فی زیّ أھل التقوی۔
نظم:
تصدر للتدریس کل مھوس بلید یسمی بالفقیہ المدرس
ولذلک تراھم یقتصرون منھا علی النقل ومبانیھا ولا یصرفون العنایۃ إلی فہم السنۃ وتدبر معانیھا ویظنون أن ذلک یکفیہم وھیہات بل المقصود من الحدیث فہمہ وتدبر معانیہ دون الاقتصار علی مبانیہ فالأول في الحدیث السماع ثم الحفظ ثم الفہم ثم العمل ثم النشر وھؤلاء قد اکتفوا بالسماع والنشر من دون ثبت وفہم وإن کان لا فائدۃ فی الاقتصار علیہ والاکتفاء بہ فالحدیث فی ھذا الزمان لقراء ۃ الصبیان دون أصحاب الایقان وھم فی غفلتہم یعمھون… وأما ھؤلاء الجہلۃ فجل تحدیثہم عبارۃ عن اختیار بعض المسائل المختلف فیہا بین المجتہدین والمحدثین فی باب الطاعات دون المعاملات الدائرۃ بینہم کل یوم علی العلات و تمام اتباعہم حکایۃ خلاف أہل الاجتہاد مع أہل الحدیث الواقع في العبادات دون الارتفاقات ومن ثم لا یھتدون إلی ما انتقدہ أھل الحدیث في الباب سبیلا ولا یعرفون من فقہ السنۃ فی المعاملات شیئا قلیلا وکذلک لا یقدرون علی استخراج مسئلۃ واستنباط حکم علی أسلوب السنن وأھلیہا… فیا للہ العجب من أین یسمّون أنفسہم الموحّدین المخلصین وغیرہم بالمشرکین المبتدعین وھم أشدالناس تعصّبا وغلوا في الدین قد انفقوا في غیر شییٔ نفائس الأوقات والانفاس واتعبوا أنفسہم وحیروا من خلفہم عن الناس…
آگے فرماتے ہیں:
وھذا الداء العضال إنما تولد من تعصّب العلماء والفقہاء بینہم و کثرۃ القیل والقال حتی عمّت بہ البلوٰی والجدال…
اس کے بعد تقلید کے خلاف لکھی جانے والی کتاب ’’إیقاظ الہمم‘‘ کی عبارت نقل کرتے ہیں، اور شاہ ولی اللہ ؒ کی ’الانصاف‘ کا اقتباس یوں ذکر کرتے ہیں:
قال صاحب الإنصاف ونشأت من بعدہم قرون علی التقلید الصرف لا یمیزون الحق من الباطل ولا الجدال من الاستنباط فالفقیہ یومئذ ھو الثرثار المتشدق الذي حفظ أقوال الفقہاء قوبہا وضعیفہا من غیر تمییز وسددھا بشقشقۃ شدقیہ والمحدث من عدّ الأحادیث صحیحہا وسقیمہا بقوۃ لحییہ ولا أقول ذلک مطردا کلیا وإن قلوا ولم یأت قرن بعد ذلک إلا وھو أکثرفتنۃ وأوفر تقلیدا وأشد انتزاعا للأ مانۃ من صدور الناس حتی اطمأنوا بترک الخوض فی الدین وبأن یقولوا (إِنَّا وَجَدْنَا اٰبَائَ نَا عَلٰی اُمّۃ وَإِنَّا عَلیٰ آثَارِھِمْ لَمُقْتَدُوْنَ) وإلٰی اللہ المشتکی(الحطّۃ: ص۱۵۲ تا ۱۵۷)
یعنی ’’اس زمانے میں ایک شہرت پسند اور رِیا کار فرقہ ظاہر ہوا ہے جو خامیوں کے باوجود اپنے لیے قرآن وحدیث کے علم اور اس پر عامل ہونے کا دعویٰ کرتا ہے حالانکہ وہ اہل علم و عمل اور اہل معرفت میں سے نہیں ہے، کیونکہ وہ علومِ آلیہ سے جاہل ہے جن کی واقفیت طالب ِحدیث کے لئے اس فن کی تکمیل میں بہت ضروری ہے اوریہ فرقہ علومِ عالیہ سے بھی ناواقف ہے جن کے بغیر سنت پر چلنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، مثلاً صرف، نحو، لغت، معانی، بیان، وغیرہ چہ جائیکہ وہ دوسرے کمالات کا حامل ہو۔ اور یہ لوگ علماء کی شکل و صورت اور اہل تقویٰ کے بھیس میں نمودار ہوتے ہیں،
شعر: ہر ہوس پرست احمق مسند ِتدریس سنبھال بیٹھا ہے، اس کا نام اُستاذ فقیہ رکھا جاتا ہے،
آپ دیکھیں گے کہ وہ نقل کرنے پر اور ابتدائی چیزوں پر اکتفا کرتے ہیں اور حدیث کو سمجھنے اور اس کے مفاہیم پر غور وفکر کرنے کی زحمت نہیں کرتے اور وہ سمجھتے ہیں کہ بس یہی کافی ہے جبکہ یہ حقیقت سے بہت دور ہے، حدیث پڑھنے کا مقصد تو یہ ہے کہ اسے سمجھا جائے اور اس کے معانی پر غور کیا جائے، یہ تو نہیں کہ اس کے مبادیات پر ہی اکتفا کر بیٹھے۔
حدیث کا پہلا مرتبہ تو یہ ہے کہ اس کا سماع کرے پھر اسے حفظ کیا جائے اور اس پر عمل کیا جائے، اس کے بعد اس کی نشرواشاعت کی جائے، مگر یہ لوگ اسے سننے اور اس کی نشرواشاعت پر ہی اکتفا کرکے بیٹھ گئے ہیں، اسے سمجھنے اور اس کی تحقیق کرنے کے لئے تیار نہیں، حالانکہ اس کے بغیر سماع اور نشرواشاعت کا کوئی فائدہ نہیں، اس دور میں تو حدیث بچوں کے پڑھنے کے لئے رہ گئی ہے اور اصحابِ یقین اپنی غفلت میں سرگرداں ہیں، لیکن یہ جاہل لوگ ان کی حدیث دانی صرف یہ ہے کہ یہ اُن مسائل کواچھالتے رہتے ہیں جو عبادات سے متعلق ہیں اورمجتہدین اور محدثین کے درمیان اِختلافی ہیں، ان معاملات سے انہیں کوئی سروکار نہیں جولوگوں سے متعلق ہیں،
ان کے ہاں اِتباع سے مراد یہ ہے کہ عبادات کے بارے میں اہل اجتہاد کا جو اِختلاف اہل حدیث کے ساتھ ہے اسے نقل کردیا جائے۔ تدبیراتِ نافعہ سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے، اسی وجہ سے یہ لوگ اہلحدیث کے نقد کے شدبد نہیں رکھتے اور نہ ہی انہیں معاملات کے بارے میں فقہ الحدیث سے کچھ واقفیت ہے، اور حدیث نیز اہلحدیث کے اُصول پرانہیں استنباطِ مسائل کی قدرت بھی حاصل نہیں ہے۔ حیرت ہے کہ ایسے لوگ اپنے آپ کو مخلص موحد کہتے ہیں اور اپنے مخالفوں کو مشرک، بدعتی گردانتے ہیں،
حالانکہ یہ لوگ خود بڑے متعصب اور غالی قسم کے ہیں جو اپنے قیمتی وقت اور زندگی کو بے فائدہ صرف کر رہے ہیں، خود بھی مصیبت میں پڑتے ہیں اور اپنے پچھلوں کو بھی حیرت میں ڈالتے ہیں…
آگے فرماتے ہیں: یہ لاعلاج مرض علماء اور فقہاء کے باہمی تعصب اور زیادہ لے دے سے پیدا ہوئی ہے حتیٰ کہ یہ مصیبت اور لڑائی جھگڑا عام ہوگیا۔‘‘ … اس کے بعدتقلید کے خلاف لکھی جانے والی کتاب ’’إیقاظ ھمم أولی الأبصار‘‘ کی عبارت نقل کی ہے، بعد ازیں شاہ ولی اللہؒ کی ’الانصاف‘ کا ایک اقتباس یوں نقل کرتے ہیں جومقلدوں کے خلاف ہے:
’’صاحب ِانصاف نے کہا ہے:
بعد ازیں ایسے اہل زمان آئے جن کی نشوونما خالص تقلید پر ہوئی جس کی وجہ سے وہ حق و باطل اور جدال و استنباط میں فرق نہیں کرسکتے، اس وقت فقیہ سے مراد وہ شخص لیا جاتاہے جو باچھیں کھول کر بک بک کرنا جانتا ہو اور اس نے بلا تمیز فقہاء کے صحیح اور ضعیف اقوال یاد کررکھے ہوں، اور منہ زوری سے انہیں درست بنالیا ہواور محدث سے مراد وہ شخص لیا جاتاہے جس نے صحیح وضعیف احادیث کو شمار کر لیا ہو۔میںیہ بات علیٰ وجہ العموم نہیں کہتا، اگرچہ وہ لوگ کم ہیں جو اس سے مستثنیٰ ہیں۔ اس کے بعد جو زمانہ بھی آیا وہ پہلے سے بڑھ کر پر فتن اور تقلید میں اَٹا ہوا تھا، اور لوگوں کے دلوں سے اَمانت داری کو سلب کردینے والا تھا، نوبت یہاں تک جا پہنچی کہ وہ دین میںغوروخوض کو چھوڑ کر مطمئن ہو کر بیٹھ گئے اور یہ کہنے لگے کہ ہم نے اپنے باپ دادوں کو ایک دین پرپایا ہے اور ہم بھی انہی کے نشانات پر چلتے جائیں گے، وإلی اللہ المشتکی‘‘
یہ وہ اقتباس ہے جس کا ترجمہ ماہنامہ ’الفاروق‘ نے ہاتھ کی صفائی سے اہلحدیث کے خلاف پیش کرنے کی جسارت کی ہے اورکتاب کا حوالہ دیئے بغیر نقل کیا ہے تاکہ کوئی شخص آسانی کے ساتھ اصل کتاب کی طرف مراجعت کرکے اصل حقیقت سے آگاہ نہ ہوسکے، اگرچہ ہم تمام اہلحدیث کے علم و عرفان کی بلندیوں سے ہمکنار ہونے کا دعویٰ نہیں کرتے لیکن اس مذکورہ بالا اقتباس کی مختلف عبارتیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ
نوا ب صاحب نے اسے اہل حدیث کے خلاف نہیں بلکہ اہل تقلید کے خلاف نقل کیا ہے جوبزعم خویش فقیہ کہلاتے ہیں حالانکہ وہ استنباط اور مسائل کے استخراج پرقادر نہیں ہوتے ا ور اپنے لیے محدث اور مفسر ہونے کے دعویدار ہوتے ہیں، جبکہ وہ فقہ الحدیث اور اہلحدیث کی تنقیدات سے نابلد ہوتے ہیں، اور نواب صاحب کا یہ کہنا کہ یہ لوگ حدیث کے سماع کو ہی کافی سمجھتے ہیں اور اس کے معانی و مفاہیم پرتوجہ نہیں دیتے، یہ جملہ بھی ان لوگوں پر ہی صادق آتا ہے جو سالہا سال تک فقہ حنفی کی کتابیں ہضم کرنے میں لگاتے ہیں اور دورۂ حدیث کے نام سے تمام کتب ِحدیث کا سماع ایک سال سے بھی کم عرصے میں کر گزرتے ہیں،
اس کے بعد نواب صاحب کا الایقاظ اور الانصاف کی عبارتیں نقل کرنا بھی اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ اہل تقلید کی مذمت کرنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ دونوں کتابیں تقلید شخصی کے ردّ میں لکھی گئی ہیں
ایسے مقلدین کے بارے میں نواب صاحب نے اپنی کرب و بے چینی کا اظہار ان لفظوں سے کیا ہے:
’’والمقصود أن ھؤلاء القوم رؤیتہم قذاء العیون وشجی الحلوق وکرب النفوس وحمی الأرواح وغم الصدور ومرض القلوب أن أنصفتہم لم تقبل طبیعتہم الانصاف‘‘ (الحطۃ فی ذکر الصحاح الستۃ :ص۱۵۵)
’’ مقصد یہ ہے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جن کا دیکھنا آنکھوں کی چبھن، گلوں کی گھٹن، جانوں کے کرب اورروحوں کی مرض، سینوں کے غم اور دلوں کی بیماری کا باعث ہے اگر آپ ان سے انصاف کی بات کریں تو ان کی فطرت انصاف کی بات قبول کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہے۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
کیا انگریزوں نے ’اہل حدیث‘ نام الاٹ کیاہے؟

٭ الفاروق کے مفتی صاحب اہلحدیث پر الزام لگاتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’انگریزوں سے الاٹ کراکے اپنا نام ’اہلحدیث‘ رکھ لیاہے، جبکہ قرآن و حدیث میں کس جگہ امت ِمسلمہ کے لئے یہ نام استعمال نہیں ہوا، سورۂ حج کے آخری رکوع میں فرمایا ہے: (ھُوَسَمَّا کُمُ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ قَبْلُ وَفِیْ ھٰذٰا) جس میں صاف تصریح ہے کہ فخر دو عالم خاتم الانبیاء والمرسلین ﷺ کی امت کا نام المسلمون ہے۔ یہ الگ بٹ جانا اور اپنا نیا نام رکھ لینا کیا اس بات پر دلالت نہیںکرتا کہ انہوں نے اپنے کو جماعت مسلمین سے علیحدہ کرلیاہے‘‘ (ص۱۸)
ہم مفتی مذکور سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ
اہلحدیث کہلانے والا ہی المسلمون سے علیحدہ کیوں ہوتا ہے، اور مقلد کہلانے والااس سے خارج کیوں نہیں ہوتا۔ جب المسلمون کے نام کے ہوتے ہوئے ’مقلد‘ حنفی، قادری وغیرہ کہلانے والا المسلمون سے خارج نہیں ہوتا تو اہلحدیث کہلانے والا بھی مسلمون میں داخل ہی رہے گا۔
کیونکہ اللہ تعالیٰ نے امت ِمسلمہ کانام مسلمون رکھا ہے لیکن ا س کے ہوتے ہوئے کوئی صفاتی نام رکھنے سے روکا بھی نہیں ہے ، اس لئے صحابہ کرام ’مسلمین‘ نام کے ہوتے ہوئے ’اَنصار‘ اور ’مہاجرین‘ بھی کہلاتے تھے اس طرح وہ المسلمون سے علیحدہ نہیں ہوگئے۔ اللہ ربّ العزت نے خود قرآنِ کریم میں ان کے یہ صفاتی نام ذکر فرمائے ہیں۔
آپ کا انگریزوں سے اہلحدیث نام اَلاٹ کرانے کا دعویٰ بھی بلادلیل ہے، حالانکہ یہ نام خیر القرون سے لے کر آج تک ہر دور کے مسلمان مصنّفین نے اپنی تالیفات میں ذکر کیا ہے جیساکہ گذشتہ صفحات میں اسے تفصیل کے ساتھ ثابت کیا جاچکا ہے اوریہ نام غیر قرآنی بھی نہیں ہے بلکہ
قرآنِ کریم کو ’حدیث‘ کہا گیا ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ)(الزمر:۲۳) ’’یعنی اللہ تعالیٰ نے بہترین حدیث نازل کی ہے‘‘
نیز ارشادِ الٰہی ہے
(فَبِاَیِّ حَدِیْثٍ بَعْدَہٗ یُؤْمِنُوْنَ) (المرسلات :۵۰)
ادھر رسول اللہﷺ کے اَقوال واَفعال اور تقریرات کو بھی حدیث کہا جاتاہے، اسی حدیث کے لفظ کے شروع میں ’اہل‘ کا لفظ… جو کہ قرآنِ کریم میں ہی وارد ہے… ملانے سے اہلحدیث کا مبارک نام حاصل ہوتا ہے۔
بتائیے قرآنِ کریم کے ایک لفظ کے ساتھ قرآن ہی کا دوسرا لفظ ملانے سے اس نام کو غیر قرآنی یا غیر اسلامی کیسے قرار دیا جاسکتاہے،؟؟

لہٰذا اہلحدیث کا معنی ہوا کہ قرآن اور حدیث نبوی دونوں کو ماننے والے۔ بنا بریں جبکہ ’حدیث‘ کے لفظ میں قرآن و سنت دونوں مراد ہوتے ہیں تو ہمیں اہل القرآن و الحدیث نام رکھنے کا تکلف کرنے کی ضرورت نہیں ، جیسا کہ آپ نے سمجھا ہے۔ جبکہ اس سے قبل ہر دور کے علماء و محدثین، ا س جماعت کو اہلحدیث کے نام سے ہی یاد کرتے آرہے ہیں تو اسی لئے کہ یہ نام قرآن و سنت دونوں کو شامل ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
٭ مفتی صاحب اہلحدیث سے شکایت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’حضرات ائمہ کرام نے اپنے اجتہاد و استنباط سے جو مسائل بتائے ہیں، ان کے بارے میں غیر مقلدین عوام کوکہتے ہیں کہ یہ حدیث کے خلاف ہیں، یہ لوگ مخالفت ِحدیث کے معنی بھی نہیں سمجھتے، کوئی حدیث ہوتی تب تو مخالفت ہوتی جب حدیث بعض اُمور کے بارے میں موجود ہی نہیں تو مخالفت کیسے لازم آئی؟‘‘ (ص ۱۹)
حالانکہ حنفی علماء کا طرزِ عمل مفتی صاحب کے دعوے کے سراسر خلاف ہے، کیونکہ اکثر احناف کا اجتہاد، صریح حدیث ِنبوی کے خلاف ہوتا ہے، جس کی تفصیل میں جانے کا موقع تونہیں ہے لیکن ہم اس کی ایک مثال ذکر کرنے پر اکتفا کریں گے، حدیث سے یہ امر ثابت ہے کہ رسول اللہﷺ اپنی نماز کو ’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘ پرختم کرتے تھے اور آپ کا ارشادِ گرامی ہے:
تحریمہا التکبیر وتحلیلہا التسلیم
یعنی’’ خارجِ نمازمباح اشیا ’اللہ اکبر‘ کہنے سے حرام ہوجاتی ہیں اور دورانِ نماز حرام شدہ چیزیں ’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘ کہنے سے حلال ہو جاتی ہیں‘‘(جامع ترمذی: ج۱، ص ۱۲۶)
لیکن دوسری طرف حنفی فقہ کی کتابیں اس حدیث کے خلاف ایک انوکھا ہی اجتہاد و استنباط پیش کرتی ہیں، اسے آپ بھی سنیں اوربتائیں کہ قرآن و سنت کی کس نص سے یہ استنباط کیا گیا ہے:
منیۃ المصلّی میں ہے
:’’إن المصلی إذا حدث عمدا بعد ما قعد قدر التشھد أو تکلم أوعمل عملاینافی الصلوٰۃ تمّت صلوتہ بالاتفاق‘‘
یعنی ’’حنفیوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نمازی اپنی نماز میں تشہد کے بقدر بیٹھنے کے بعد قصداً جان بوجھ کر ہوا خارج کر دے تو اس کی نماز ہوجائے گی‘‘
(دیکھئے: منیۃ المصلی:ص ۸۴…شرح وقایۃ: ج۱ ،ص۱۵۹… کنز الدقائق: ص۳۰)
اب آپ ہی بتائیں کہ حنفیوں کا یہ انوکھا اجتہاد حدیث ِمذکور کے خلاف ہے یا نہیں؟
اور یہ بھی وضاحت فرما دیں کہ ’سلام‘ کا یہ نعم البدل کسی آیت یا حدیث سے مستنبط کیا گیا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
٭ الفاروق کے مفتی مزید گوہر افشانی کرتے ہوئے ص۱۹،۲۰پرلکھتے ہیں:
’’آپ (اہلحدیث) تو حضرات صحابہ کے بھی مخالف ہیں دیکھئے حضرت عمرؓ نے رمضان المبارک میں ایک امام کے پیچھے تراویح پڑھنے کے لئے سب کو جمع فرمایا اور جتنے بھی صحابہ تھے، ان سب نے حضرت عمرؓ سے اتفاق کرکے بیس رکعت تراویح پڑھنا شرو ع کیا۔ ہم تو کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے کسی ایسی دلیل پر عمل کرتے ہوئے بیس رکعت تراویح کا سلسلہ جاری فرمایا جو ان کو معلوم تھی۔ اسی لیے حضرات صحابہ کرامؓ نے ان سے موافقت فرمائی۔ پھر وہ خلفائِ راشدین میں سے تھے جن کے بارے میں ارشادِ نبوی ہے:علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین لیکن غیر مقلد کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے بدعت جاری کی، اور اس اعتبار سے اس زمانے کے سب صحابہ بدعتی ہوگئے‘‘
العیاذ باللہ! حضرت عمر فاروقؓ اور صحابہ کرامؓ کو بدعتی کون کہہ سکتا ہے؟ اورنہ ہی رسول اللہﷺ کے صحابہ کرامؓ بدعتی ہوسکتے ہیں۔
ہم تو صرف یہ کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ سے بیس رکعت تراویح والی روایت صحیح ثابت ہی نہیں ہے بلکہ خود حنفی حضرات نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔ عبداللہؓ بن عباسؓ کے واسطے سے جو روایت رسول اللہﷺ سے پیش کی جاتی ہے کہ آپ رمضان میں بیس رکعت پڑھا کرتے تھے،
علامہ زیلعی حنفی اس روایت کے ضعف کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں (نصب الرایۃ:ج۲ ،ص۱۵۳)
ھو معلول بأبی شیبۃ إبراہیم بن عثمان جد الامام أبی بکربن أبي شیبۃ وھو متفق علی ضعفہ ولینہ ابن عدي فی الکامل ثم إنہ مخالف للحدیث الصحیح عن أبي سلمۃ بن عبدالرحمٰن أنہ سأل عائشۃ کیف کانت صلوٰۃ رسول اللہﷺ في رمضان قالت ما کان یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی إحدی عشرۃ رکعۃ
’’یعنی (بیس رکعت تراویح والی روایت) ابوشیبہ ابراہیم بن عثمان کی وجہ سے ضعیف ہے اور اس کے ضعف پر سب علماء کا اتفاق ہے۔ ابن عدی نے بھی الکامل میں اسے ضعیف قرا ردیاہے۔پھر یہ اس صحیح حدیث کے بھی خلاف ہے جوابوسلمہ بن عبدالرحمن سے مروی ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہؓ سے رسول اللہﷺ کی رمضان کے مہینہ میںنماز کے متعلق سوال کیا تو آپؓ نے فرمایا کہ نبی اکرمﷺ رمضان، غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھا کرتے تھے۔‘‘
حضرت عمر بن خطابؓ سے بیس تراویح ثابت ہی نہیں اور نہ ہی ان کے دورِ خلافت میں یہ صحابہ کرامؓ کا معمول تھا، بلکہ حضرت عمرؓ سے گیارہ رکعات پڑھنے کا حکم صحیح ثابت ہے جس کی طرف آپ آتے نہیں اور نہ دوسرے لوگوں کو آنے دیتے ہیں۔ مؤطا امام مالک میں ہے:
عن محمد بن یوسف عن السائب بن یزید أنہ قال أمر عمربن الخطاب أبی بن کعب وتمیما الداري أن یقوما للناس بإحدی عشرۃ رکعۃ قال فقد کان القاریٔ یقرء بالمئین حتی کنا نعتمد علی العصی من طول القیام وما کنا ننصرف إلا فی فروع الفجر(مؤطا امام مالک مترجم:ج۱،ص۱۳۹،باب ماجاء فی قیام رمضان)
یعنی ’’سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ خلیفۃ المسلمین حضرت عمر بن خطابؓ نے اُبی بن کعبؓ اور تمیم ؓداری کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعت پڑھایا کریں۔ سائب بن یزید کہتے ہیں کہ امام ایک ایک رکعت میں سو سو آیتیں پڑھتا تھا، یہاں تک کہ ہم طول قیام کی وجہ سے لاٹھیوں کا سہارا لیتے اور فجر کے قریب فارغ ہوا کرتے تھے‘‘
حضرت عمرؓ سے صحیح ثابت حدیث کو پیش نظر رکھ کر غور فرمائیں، صحابہ کرامؓ کے مخالف اہلحدیث نہیں ہیں بلکہ مقلدین ہیں جو کھری چیز کو چھوڑ کر کھوٹی اور غیرثابت شدہ چیز پر اصرار کئے ہوئے ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
٭ اب ہم آپ کے سوالات کی طرف آتے ہیں جو اہلحدیث کو عاجز کرنے کے لئے پیش کئے گئے ہیں ۔ اہل تقلید کے ہاں اگرچہ درجن بھر اُٹھائے ہوئے سوالات انوکھے ہوں گے کیونکہ وہ تقلید کی تاریکیوں میں رہنے والے ہوتے ہیں لیکن جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے قرآن و سنت کی روشنی عطا فرمائی ہے ان کے ہاں ایسے سوالات کوئی انوکھے نہیں ہیں۔ ہم ان سوالات کو سوال و جواب کی صورت میں پیش کرتے ہیں :
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اہل تقلید:
نماز میں جہر سے بسم اللہ الرحمن الرحیم کی صحیح صریح مرفوع حدیث پیش کریں؟
اھلحدیث:
سوال سے مترشح ہوتا ہے کہ اہل تقلید نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اہلحدیث نما زمیں بسم اللہ الرحمن الرحمن جہر سے پڑھنے کے قائل ہیں، حالانکہ اہلحدیث کو اس کے جہر پراصرار نہیں ہے۔ کیونکہ اسے آہستہ پڑھنے کی احادیث زیادہ قوی ہیں اور اکثر اہل حدیث کا عمل بھی آہستہ پڑھنے پر ہے، اس کے باوجود جو حضرات بسم اللہ کے جہر کو جائز سمجھتے ہیں، ان کا استدلال ان متعدد احادیث سے ہے جو اس موضوع پر وارد ہیں، مثال کے طور پرمستدرک حاکم میں ہے:
’’عن أنس بن مالک قال سمعت رسول اللہﷺ یجھر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم‘‘ رواۃ ھذا الحدیث عن اٰخرھم ثقات (مستدرک حاکم:ج۱ ص۲۳۳، کتاب الصلوٰۃ)
’’انس بن مالک سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو بسم اللہ جہری آواز سے پڑھتے سنا ، اس حدیث کے آخر تک راوی ثقہ ہیں‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اہل تقلید:
سورۃ فاتحہ اور دوسری سورت کے درمیان بسم اللہ پڑھنے کا صحیح اور مرفوع حدیث سے ثبوت دیں؟
اہل حدیث:
قراء ت کا آغاز جب کسی سورت کی ابتداء سے کیا جائے تو بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی پڑھنی چاہئے کیونکہ بسم اللہ الرحمن الرحیم ہر سورت کی پہلی آیت ہے اور سوائے سورۃ البراءۃ کے ہر سورت کے شروع میں نازل ہوئی جیسا کہ عبداللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے
کان النبیﷺ لا یعلم ختم السورۃ حتی ینزل بسم اللہ الرحمٰن الرحیم قلت أما ھذا فثابت ( مستدرک حاکم ج۱، ص۲۳۱ ؍ ابو داود: ج ۱، ص ۲۸۸)
’’بسم اللہ الرحمن الرحیم کے نزول پر رسول اللہﷺ جان لیتے تھے کہ پہلی سورت ختم ہوچکی ہے ‘‘
جب بسم اللہ ہر سورت کی پہلی آیت ہے، تو سورت کے آغاز میں اسے تلاوت کرنا چاہئے اور رسول اللہﷺ کا بھی اس پر عمل تھا کہ آپ سورت کے شروع میں بسم اللہ بھی تلاوت فرمایا کرتے تھے جیسا کہ انس بن مالکؓ سے مروی ہے:
’’قال بینما ذات یوم بین أظہرنا یرید النبیﷺ إذا غفی اغفاء ۃ ثم رفع رأسہ متبسما فقلنا لہ ما أضحک یارسول اللہ قال: نزلت علیّ اٰنفا سورۃ (بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ، إِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ، فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ، اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْاَبْتَرُ) (سنن نسائی: ج۱،ص۳۰۶ ؍ سنن ابو داود: ج۱، ص ۲۸۶)
’’انس بن مالک سے مروی ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان تشریف فرما تھے کہ آپ ذرا اونگھے پھر مسکراتے ہوئے اپنا سر اُٹھایا ۔ ہم نے اس کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا : مجھ پر ایک سورت نازل ہوئی ہے اور وہ (بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ، إِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ، فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ، اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْاَبْتَرُ) ہے‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اہل تقلید:
آمین بالجہر کی صحیح ، صریح، مرفوع حدیث پیش کریں جس پر کسی قسم کا کسی محدث نے کلام نہ کیا ہو اوروہ کسی آیت یا حدیث کے معارض نہ ہو اور اس میں لفظ جہر بالتصریح مذکور ہو؟
اھلحدیث:
حضرت وائل بن حجرؓ بیان کرتے ہیں:
سمعت النبیﷺ قرأ غیر المغضوب علیہم ولا الضالین وقال آمین ومدَّ بھا صوتہ (جامع ترمذی: ج۱، ص۷۹)
یعنی’’ حضرت وائل بن حجر سے مروی کہتے ہیں: ’’میں نے سنا کہ رسول اللہﷺ نے ’’غیر المغضوب علیہم و لا الضالین‘‘ پڑھا اور آپ نے آمین کہی اور اونچی آواز سے کہی۔‘‘
رسول اللہﷺ نے آمین بلند آواز سے کہی، تب ہی تو حضرت وائل نے اسے سنا اوراسے سَمِعْتُ (میں نے سنا)سے بیان کیا ہے۔
سنن ابوداود میں ہے:
عن وائل بن حجر أنہ صلّی خلف رسول اللہﷺ فجہر بآمین وسلّم عن یمینہ وعن شمالہ حتی رأیت بیاض خدہ‘‘ (ابوداود: ج۱، ص۳۶۰)
’’حضرت وائل کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کی اقتداء میں نماز پڑھی تو آپ ؐ نے پکار کر آمین کہی اور دائیں، بائیں سلام پھیرا تو مجھے آپ کے رخسار کی سفیدی نظر آئی‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اہل تقلید:
ایک شخص ایسے وقت نماز میں شریک ہوا جبکہ امام سورۃ فاتحہ کی چھ آیتیں پڑھ چکا تھا، سوال یہ ہے کہ یہ مقتدی سورۃ فاتحہ کب پڑھے۔ خصوصاً اس وقت جبکہ امام ایسا شخص ہو جو سورئہ فاتحہ کے بعد سکتہ بھی نہیں کرتا ہو۔ پھر یہ سوال ہے کہ یہ شخص امام کے ساتھ آمین کہے یا نہ کہے، اگر امام کے ساتھ آمین کہے تو پھر اپنی فاتحہ ختم کرکے آمین کہے یا نہ کہے؟
اھلحدیث:
اِمام کے پیچھے مقتدی پر سورۃ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے، خواہ اما م سکتہ کرے یا نہ کرے، اور وہ فاتحہ کی چھ آیات پڑھ چکا ہو یا سورۃ فاتحہ مکمل کرچکا ہو۔ بہرحال اس کی اقتداء میں سورۃ فاتحہ کا پڑھنا فرض ہے اور اس سے متعلق سوال حضرت ابوہریرہؓ سے بھی کیا گیا تھا جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے:
’’قیل لأبی ہریرۃ: إنا نکون وراء الامام فقال إقرأ بھا فی نفسک‘‘
یعنی ’’حضرت ابوہریرہؓ سے پوچھا گیا کہ جب ہم امام کے پیچھے ہوں تو کیا کریں ؟…فرمایا: اس وقت تم لوگ آہستہ سورۃ فاتحہ پڑھا کرو‘‘ (صحیح مسلم: ج۲ ،ص۲۲)
لہٰذا پیچھے رہ جانے والا امام کے سورۂ فاتحہ کی چھ آیات پڑھ لینے کے بعد ملتا ہے تو وہ فاتحہ کا جتنا حصہ پڑھ سکتا ہے وہ پڑھے اورامام کے ساتھ آمین کہے کیونکہ مقتدی کی آمین کو امام کی آمین کے ساتھ معلق کیا گیا ہے۔ فرمانِ رسولؐ ہے :
اِذَا أَمَّنَ الْامِامُ فَأمِّنُوْا (صحیح مسلم)
’’جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو‘‘
اس کے بعد سورۃ فاتحہ کومکمل کرے جو کہ نماز میں فرض ہے، اور فاتحہ کی تکمیل پرمقتدی کو دوسری بار آمین کہنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ آمین، سورۃ فاتحہ کا جز نہیں ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اہل تقلید:
کسی مرفوع صحیح صریح حدیث سے نماز میں سینے پر ہاتھ رکھنا ثابت کریں؟
اھلحدیث:
’’عن قبیصۃ بن ھلب عن أبیہ قال رأیت رسول اللہﷺ ینصرف عن یمینہ وعن یسارہ ورأیتہ یضع ھٰذہ علی صدرہ ووصف یحییٰ: الیمنی علی الیسری فوق المفصل‘‘ (مسند احمد، ج۵ ص۲۲۶)
یعنی’’ حضرت ھلب فرماتے ہیں کہ میںنے رسول اللہﷺ کو (نماز سے سلام پھیر کر مقتدیوں کی طرف) دائیں جانب سے مڑتے دیکھا اورکبھی بائیں جانب سے اورمیں نے دیکھا کہ آپؐ اپنے ہاتھ سینے پر باندھتے تھے اور یحییٰ نے اس کی یوں وضاحت کی کہ آپ نے دائیں ہاتھ کو بائیں کے جوڑ پر رکھ کر سینے پر باندھا‘‘
 
Top