• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مقلد کے جاہل ہونے پر اجماع

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
  1. اگر اس حدیث کے مخالف حدیث یا آیت موجود ہو؟
  2. اگر اس حدیث سے بعض صحابہ نے کچھ اور مطلب لیا ہو؟
  3. اگر اس روایت سے بعض فقہاء نے کچھ اور مطلب لیا ہو دیگر قرائن کی روشنی میں؟
  4. اگر اس روایت کو کسی فقیہ یا محدث نے معلول قرار دیا ہو؟
  5. اگر اس روایات کی تطبیق دوسری روایات کے ساتھ کسی فقیہ نے کسی خاص انداز سے کی ہو؟
  6. اگر اس روایت کے خلاف واضح عمل صحابہ موجود ہو اور صحابہ نے اس روایت کو اختیار نہیں کیا ہو؟
نمبر وار جواب عنایت فرمائیے گا۔
الحمدللہ! محدثین نے جب کسی ایک مسئلہ کو اختیار کیا ہے تو ان تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی کیا ہے جن کا ذکر آپ ان چھ پوائنٹس کے ذریعے کررہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ محدیثین کا مسلک یعنی مسلک اہل حدیث ہی اس زمین کی پشت پر حق ہے باقی سب باطل۔

حنفی اپنا باطل مذہب صحیح ثابت کرنے کے لئے یہ ہتھیار استعمال کرتے ہیں کبھی وہ کسی قرآنی آیت کو یہ کہہ کر پیش کرتے ہیں کہ یہ اہل حدیث کے مسلک کے خلاف ہے اور ہمارے حق میں ہے۔ جیسے امام کے پیچھے قرات کرنے پر یہ لوگ قرآنی آیت کہ جب قرآن پڑھا جائے تو خاموش رہو اپنے حق میں اپنے خلاف حدیث مسئلہ کو صحیح ثابت کرنے کے لئے پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ آیت امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے سے مانع نہیں۔ اس سچائی کا اقرار خود اشرف علی تھانوی صاحب نے بھی کیا ہے۔

یہی حال دوسرے مسائل کا ہے جہاں یہ حنفی لوگ ضعیف،موضوع اور مردود روایات و آثار اور قرآنی آیات اور صحیح احادیث کی فاسد تاؤیلات کے سہارے اپنے مسائل کے بارے میں دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ بھی قرآن و حدیث کے دیگر دلائل سے ثابت ہیں۔ لیکن حقیقی بات یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے امام کی ہی اندھی تقلید کررہے ہوتے ہیں انہیں قرآن و حدیث سے صرف اتنی ہی غرض ہوتی ہے کہ عام مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لئے اپنے مسائل کے لئے قرآن و حدیث کو استعمال کرتے ہیں اور ہر ممکن کوشش کے ذریعے شریعت کو اپنے مذہب کے تابع کرتے ہیں۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
مقتدى كے ليے امام كے پيچھے سورۃ فاتحہ كے علاوہ اور قرآت كرنى جائز نہيں

كيا جب امام قرآت لمبى كرے تو مقتدى كے ليے امام كے ساتھ قرآن پڑھنا جائز ہے ؟

الحمد للہ:

جھرى نمازوں ميں مقتدى كے ليے سورۃ الفاتحہ سے زيادہ قرآت كرنى جائز نہيں، بلكہ مقتدى سورۃ الفاتحہ كے بعد خاموشى سے امام كى قرآت سنے( يعنى سورۃ الفاتحہ پڑھنے كے بعد )-

كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" لگتا ہے تم اپنے امام كے پيچھے قرآت كرتے ہو ؟

ہم نے عرض كيا: جى ہاں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
تم سورۃ الفاتحہ كے علاوہ نہ پڑھا كرو، كيونكہ جو سورۃ الفاتحہ نہيں پڑھتا اس كى نماز ہى نہيں ہوتى "

اور اس ليے بھى كہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

﴿اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے خاموشى سے سنو تا كہ تم پر رحم كيا جائے﴾.

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جب امام قرآت كرے تو تم خاموش رہو "

مندرجہ بالا حديث اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اس فرمان:

" جو فاتحۃ الكتاب نہيں پڑھتا اس كى نماز ہى نہيں "

متفق على صتحہ.

كے عموم كى بنا پر سورۃ الفاتحہ مستثنى ہو گى.

واللہ اعلم .
شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كا فتوى ماخوذ از: فتاوى اسلاميۃ ( 1 / 291 ).
براہ کرم میری بات کا جواب عنایت فرمائیے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
الحمدللہ! محدثین نے جب کسی ایک مسئلہ کو اختیار کیا ہے تو ان تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی کیا ہے جن کا ذکر آپ ان چھ پوائنٹس کے ذریعے کررہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ محدیثین کا مسلک یعنی مسلک اہل حدیث ہی اس زمین کی پشت پر حق ہے باقی سب باطل۔

حنفی اپنا باطل مذہب صحیح ثابت کرنے کے لئے یہ ہتھیار استعمال کرتے ہیں کبھی وہ کسی قرآنی آیت کو یہ کہہ کر پیش کرتے ہیں کہ یہ اہل حدیث کے مسلک کے خلاف ہے اور ہمارے حق میں ہے۔ جیسے امام کے پیچھے قرات کرنے پر یہ لوگ قرآنی آیت کہ جب قرآن پڑھا جائے تو خاموش رہو اپنے حق میں اپنے خلاف حدیث مسئلہ کو صحیح ثابت کرنے کے لئے پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ آیت امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے سے مانع نہیں۔ اس سچائی کا اقرار خود اشرف علی تھانوی صاحب نے بھی کیا ہے۔

یہی حال دوسرے مسائل کا ہے جہاں یہ حنفی لوگ ضعیف،موضوع اور مردود روایات و آثار اور قرآنی آیات اور صحیح احادیث کی فاسد تاؤیلات کے سہارے اپنے مسائل کے بارے میں دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ بھی قرآن و حدیث کے دیگر دلائل سے ثابت ہیں۔ لیکن حقیقی بات یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے امام کی ہی اندھی تقلید کررہے ہوتے ہیں انہیں قرآن و حدیث سے صرف اتنی ہی غرض ہوتی ہے کہ عام مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لئے اپنے مسائل کے لئے قرآن و حدیث کو استعمال کرتے ہیں اور ہر ممکن کوشش کے ذریعے شریعت کو اپنے مذہب کے تابع کرتے ہیں۔
ظاہر ہے یہ میری بات کا جواب نہیں ہے۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
براہ کرم میری بات کا جواب عنایت فرمائیے۔
میرے بھائی یہ اتنی واضح حدیث ہے اس میں آپکے تمام سوالوں کا جواب ہیں -

ھمارے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ جب نبی كريم صلى اللہ عليہ وسلم کا فرمان سامنے آ جائے ہمیں اس کو قبول کر لینا چاھیے -

اللہ تعالی آپ کو سمجھنے کی توفیق دے - آمین

فجر كى نماز ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر قرآت بوجھل ہو گئى اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمايا:

لگتا ہے آپ اپنے امام كے پيچھے پڑھتے ہو ؟
تو ہم نے جواب ديا: جى ہاں.
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:
سورۃ فاتحہ كے علاوہ ايسا نہ كيا كرو، كيونكہ جو اسے ( سورۃ فاتحہ ) نہيں پڑھتا اس كى نماز ہى نہيں ہوتى " اھـ
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
ظاہر ہے یہ میری بات کا جواب نہیں ہے۔
یہ آپ ہی کی بات کا درست جواب ہے۔ کیونکہ حنفیوں کا کوئی بھی اختلافی مسئلہ ایسا نہیں ہے جن کی انکے پاس قرآن کی کوئی آیت، کوئی صحیح حدیث یا کوئی صحیح آثار کی صورت میں دلیل موجود ہو۔ اور جو کچھ بھی یہ لوگ پیش کرتے ہیں سب جھوٹ اور دھوکہ دہی ہوتا ہے تحقیق کرنے پرپتا چلتا ہے کہ حنفیوں کی اپنے حق میں پیش کی گئی قرآنی آیت کی وہ تفسیر نہیں جو وہ اپنے مطلب برآوری کے لئے بیان کررہے ہیں اور اپنے حق میں پیش کئی گئی حدیث ضعیف یا موضوع ہے اور اپنے حق میں پیش کئے گئے آثار غیرثابت شدہ ہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ حنفی بوقت ضرورت قرآنی آیات بھی گھڑ لیتے ہیں اور جھوٹی احادیث بھی تیار کرلیتے ہیں۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
ثانیا
ابن القیم کا مجتھد کی تقلید کے حوالہ سے یہ موقف ہے
وأما تقليد من بذل جَهْده في اتباع ماأنزل الله وخفي عليه بعضه فقلّد فيه من هو أعلم منه، فهذا محمود غير مذموم، ومأجور غير مأزور) (اعلام الموقعين) 2/169.
منردجہ بالا اقتباس کا مفہوم ہے
جو شخص اللہ کے اتارے ہوئے احکام کی اتباع کی کوشش کرتا ہے اور اس کے باوجود کچھ امور اس سے مخفی رہ جاتے ہیں تو اپنے سے زیادہ اہل علم کی تقلید کرتا ہے تو یہ عمل قابل تعریف ہے نہ کہ قابل مذمت اور اس شخص کو اجر ملے گا
یہی موقف احناف کا ہے
ابن القیم رحمہ اللہ نے یہاں جو بات بیان فرمائی ہے ہم اس سے سو فیصد متفق ہیں۔ اسکی ایک صورت یہ ہے کہ وہ مسائل جو زندگی میں بہت کم اور کبھی کبھی ہی پیش آتے ہیں یعنی ایسے مسائل جن کے بارے میں قرآن و حدیث خاموش ہوتے ہیں ان میں کسی خاص شخص کا تعین کئے بغیر کسی بھی اہل علم کی تقلید کرلینا مذموم نہیں ہے۔ اور ایسے شخص کو مقلد بھی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ وہ اپنی اسطاعت کے مطابق تقلید کئے بغیر زندگی کے مسائل اور عقائد میں قرآن و حدیث کی پیروی کرتا ہے یعنی متبع اورمحقق ہوتا ہے۔اور جس مسئلہ میں قرآن و حدیث کے واضح احکامات نہیں پاتا یا اپنے کم علم کی وجہ سے کسی مسئلہ کی تحقیق نہیں کرسکتا تو اس مسئلہ میں کسی اہل علم کے فتوے یا فیصلے پر عمل پیرا ہوجاتا ہے۔ چونکہ کسی شخص کے مسلک کا فیصلہ اسکے اکثری رجحانات اور اعمال پر کیا جائے گا اس لئے بیان کئے گئے شخص کو مقلد نہیں کہا جاسکتا کیونکہ اس کا اکثر عمل تحقیق پر مبنی ہے تقلید پر نہیں۔ اگر کسی غیرمقلد نے اپنی زندگی میں کسی ایک فروعی مسئلے پر کسی عالم کی تقلید کرلی تو وہ غیرمقلد ہی کہلائے گا کیونکہ اتنی معمولی تقلید اسکے مسلک پر اثر انداز نہیں ہوگی۔

تنبیہ: میری نظر میں کسی ایسے مسئلہ میں جس میں قرآن و حدیث کی نصوص موجود نہ ہوں کسی اہل علم کے فیصلے کو قبول کرنا تقلید نہیں ہے۔ کیونکہ بعض اہل حدیث علماء نے جو تقلید کی تعریف کی ہے میری نظر میں وہ تعریف جامع اور صحیح ترین ہے۔ اور وہ تعریف ہے: قرآن و حدیث کے مقابلے میں کسی شخص کی بات کو لینا تقلید ہے۔ اس لئے کسی ایسے مسئلہ میں جس میں قرآن و حدیث خاموش ہوں کسی اہل علم کی رائے کو اختیار کرلینا تقلید نہیں ہوگا کیونکہ اس میں قرآن وحدیث کی مخالفت نہیں پائی جائیگی۔ اور ویسے بھی ایک اہل حدیث کسی بھی اہل علم کی رائے کو اسکے دلائل دیکھ کر ہی قبول یا رد کرے گا جو کہ تحقیق ہے تقلید نہیں۔

تلمیذ صاحب ابن القیم رحمہ اللہ کا موقف ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ یہی موقف احناف کا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ جھوٹ ہے کیونکہ ابن القیم تو ایسے شخص کی بات کررہے ہیں جو اپنے تمام عقائد اور اکثری مسائل میں غیرمقلد ہے اور صرف گنے چنے مسائل میں جن میں وہ تحقیق نہیں کرسکا اس میں غیرشخصی یعنی مطلق تقلید کرتا ہے۔ جبکہ احناف کے ہاں تو مقلد وہ ہے جو اپنے تمام مسائل میں اور تمام عقائد میں تقلید کرتا ہے اور کسی بھی مسئلہ میں اپنے امام کے قول سے باہر نہیں جاتا حنفی مقلد کو قرآن وحدیث پر براہ راست عمل کا حکم اور اختیار بھی نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے امام کے اقوال پر عمل کرکے ہی اس خوش فہمی کا شکار رہتا ہے کہ اس نے قرآن وحدیث پر عمل کرلیا۔

ابن القیم رحمہ اللہ کی نظر میں تقلید کی جو صورت جائز اور صحیح ہے احناف کے ہاں پائی ہی نہیں جاتی کیونکہ ابن القیم ہر معاملہ میں قرآن و حدیث کا اتباع کا حکم دے کر صرف اس مسئلہ میں تقلید کرنے کی رعایت دے رہے ہیں جس مسئلہ میں کوئی شخص اسطاعت کے باوجود تحقیق نہ کرسکے اور وہ مسئلہ اسکے بس سے باہر ہو تو اگر اس مسئلہ میں وہ تقلید کرلے تو ابن القیم رحمہ اللہ کی نظر میں یہ تقلید کی جائز شکل ہے جبکہ احناف کے ہاں تو مقلد کے لئے تحقیق حرام ہے۔ اس لئے ابن القیم رحمہ اللہ کا یہ حوالہ احناف کو مفید مطلب نہیں۔ تلمیذ صاحب آپ اپنے دعوے پر کوئی اور دلیل پیش کریں۔شکریہ
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
میرے بھائی یہ اتنی واضح حدیث ہے اس میں آپکے تمام سوالوں کا جواب ہیں -
ھمارے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ جب نبی كريم صلى اللہ عليہ وسلم کا فرمان سامنے آ جائے ہمیں اس کو قبول کر لینا چاھیے -

اللہ تعالی آپ کو سمجھنے کی توفیق دے - آمین

فجر كى نماز ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر قرآت بوجھل ہو گئى اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمايا:

لگتا ہے آپ اپنے امام كے پيچھے پڑھتے ہو ؟
تو ہم نے جواب ديا: جى ہاں.
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:
سورۃ فاتحہ كے علاوہ ايسا نہ كيا كرو، كيونكہ جو اسے ( سورۃ فاتحہ ) نہيں پڑھتا اس كى نماز ہى نہيں ہوتى " اھـ


میں نے یہ عرض کیا تھا اور اسی کا جواب طلب کیا ہے:۔
بالکل درست محترم بھائی
اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کے مقابلے میں کسی کی بات کو اہمیت نہیں دینی چاہیے۔ لیکن مجھے ذرا ان شقوں کا جواب دیجیے کہ ان صورتوں میں کیا کیا جائے گا۔
اگر اس حدیث کے مخالف حدیث یا آیت موجود ہو؟
اگر اس حدیث سے بعض صحابہ نے کچھ اور مطلب لیا ہو؟
اگر اس روایت سے بعض فقہاء نے کچھ اور مطلب لیا ہو دیگر قرائن کی روشنی میں؟
اگر اس روایت کو کسی فقیہ یا محدث نے معلول قرار دیا ہو؟
اگر اس روایات کی تطبیق دوسری روایات کے ساتھ کسی فقیہ نے کسی خاص انداز سے کی ہو؟
اگر اس روایت کے خلاف واضح عمل صحابہ موجود ہو اور صحابہ نے اس روایت کو اختیار نہیں کیا ہو؟
نمبر وار جواب عنایت فرمائیے گا۔


اگر آپ ان باتوں کے بارے میں جواب نہیں دیں گے تو میں بات آگے کیسے چلاؤں گا؟ یہ مسئلہ فاتحہ خلف الامام کی بحث تو ہے نہیں۔
 
Top