• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مقلد کے جاہل ہونے پر اجماع

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
میں نے یہ عرض کیا تھا اور اسی کا جواب طلب کیا ہے:۔


اگر آپ ان باتوں کے بارے میں جواب نہیں دیں گے تو میں بات آگے کیسے چلاؤں گا؟ یہ مسئلہ فاتحہ خلف الامام کی بحث تو ہے نہیں۔

میں نے شروع میں آپکے سامنے فاتحہ خلف الامام کی حدیث پیش کی تھی آپ مجھے صرف یہ بتا دیں - کیا اتنی واضح حدیث سامنے آنے کے بعد بھی کیا آپ اس پر عمل کرے گے ؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
میں نے شروع میں آپکے سامنے فاتحہ خلف الامام کی حدیث پیش کی تھی آپ مجھے صرف یہ بتا دیں - کیا اتنی واضح حدیث سامنے آنے کے بعد بھی کیا آپ اس پر عمل کرے گے ؟
محترم بھائی یہ تو آپ نے مثال کے طور پر پیش کی تھی اس لیے اس کا مرحلہ بعد میں نہیں آنا چاہیے؟
آپ کی اس حدیث کی مخالف آیت بھی موجود ہے، حدیث بھی، صحابہ کا فتوی بھی، مجتہدین کے فتاوی بھی بلکہ ذرا آگے چلوں تو ابن تیمیہؒ نے امام احمد سے جہری نمازوں میں مقتدی پر قراءت کے عدم وجوب پر اجماع بھی نقل کیا ہے۔
لیکن یہاں اس مسئلے پر بات نہیں چل رہی۔ آپ ذرا مہربانی کر کے یہ بتا دیں کہ ان صورتوں میں کیا کرنا چاہیے؟
بالکل درست محترم بھائی
اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کے مقابلے میں کسی کی بات کو اہمیت نہیں دینی چاہیے۔ لیکن مجھے ذرا ان شقوں کا جواب دیجیے کہ ان صورتوں میں کیا کیا جائے گا۔
  1. اگر اس حدیث کے مخالف حدیث یا آیت موجود ہو؟
  2. اگر اس حدیث سے بعض صحابہ نے کچھ اور مطلب لیا ہو؟
  3. اگر اس روایت سے بعض فقہاء نے کچھ اور مطلب لیا ہو دیگر قرائن کی روشنی میں؟
  4. اگر اس روایت کو کسی فقیہ یا محدث نے معلول قرار دیا ہو؟
  5. اگر اس روایات کی تطبیق دوسری روایات کے ساتھ کسی فقیہ نے کسی خاص انداز سے کی ہو؟
  6. اگر اس روایت کے خلاف واضح عمل صحابہ موجود ہو اور صحابہ نے اس روایت کو اختیار نہیں کیا ہو؟
نمبر وار جواب عنایت فرمائیے گا۔


آخر ان کے نمبروار جواب لکھنے میں آپ کو کیا مشکل درپیش ہے؟
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
محترم بھائی یہ تو آپ نے مثال کے طور پر پیش کی تھی اس لیے اس کا مرحلہ بعد میں نہیں آنا چاہیے؟
آپ کی اس حدیث کی مخالف آیت بھی موجود ہے، حدیث بھی، صحابہ کا فتوی بھی، مجتہدین کے فتاوی بھی بلکہ ذرا آگے چلوں تو ابن تیمیہؒ نے امام احمد سے جہری نمازوں میں مقتدی پر قراءت کے عدم وجوب پر اجماع بھی نقل کیا ہے۔
لیکن یہاں اس مسئلے پر بات نہیں چل رہی۔ آپ ذرا مہربانی کر کے یہ بتا دیں کہ ان صورتوں میں کیا کرنا چاہیے؟


آخر ان کے نمبروار جواب لکھنے میں آپ کو کیا مشکل درپیش ہے؟
پہلی حدیث:

حدثنا علي بن عبد الله، قال حدثنا سفيان، قال حدثنا الزهري، عن محمود بن الربيع، عن عبادة بن الصامت، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب‏‏‏
(صحیح بخاری کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ) حدیث نمبر : 756)

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہری نے بیان کیا محمود بن ربیع سے، انھوں نے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس شخص نے سورہ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں ہوئی۔

مشہورشارح بخاری حضرت علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ شرح صحیح بخاری، جلد2، ص: 439 میں اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں

ای فی کل رکعۃ منفردا اواماما اوماموما سواءاسرالامام اوجہر

یعنی اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ ہر رکعت میں ہرنماز کو خواہ اکیلا ہو یاامام ہو، یامقتدی، خواہ امام آہستہ پڑھے یا بلند آواز سے سورۃ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے۔

علامہ کرمانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

وفی الحدیث ( ای حدیث عبادۃ ) دلیل علی ان قراۃ الفاتحۃ واجبۃ علی الامام والمنفرد والماموم فی الصلوٰت کلہا۔

( عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، جلد3، ص: 63 )

یعنی حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث اس امر پر صاف دلیل ہے کہ سورۃ فاتحہ کا پڑھنا امام اور اکیلے اورمقتدی سب کے لیے تمام نمازوں میں واجب ہے۔

نیز حنفیوں کے مشہور شارح بخاری امام محمود احمدعینی المتوفی 855ھ عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، ج3، ص: 84 ) میں لکھتے ہیں

استدل بہذاالحدیث عبداللہ بن المبارک والاوزاعی ومالک و الشافعی واحمد واسحاق وابوثور وداؤد علی وجوب قراۃ الفاتحۃ خلف الامام فی جمیع الصلوٰت

یعنی اس حدیث ( حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ ) سے امام عبداللہ بن مبارک، امام اوزاعی، امام مالک، امام شافعی، امام احمد، امام اسحاق، امام ابوثور، امام داؤد رحمۃ اللہ علیہم نے ( مقتدی کے لیے ) امام کے پیچھے تمام نمازوں میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کے وجوب پر دلیل پکڑی ہے۔

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ المجموع شرح مہذب، جلد3، ص: 326 مصری میں فرماتے ہیں :

وقرا ۃ الفاتحۃ للقادر علیہا فرض من فروض الصلوٰۃ ورکن من ارکانہا ومتعینۃ لایقوم ترجمتہا بغیرالعربیۃ ولاقراۃ غیرہا من القرآن ویستوی فی تعینہا جمیع الصلوٰت فرضہا ونفلہا جہرہا و سرہا والرجل المراۃ والمسافر والصبی والقائم والقاعد والمضظجع وفی حال الخوف وغیرہا سواءفی تعینہا الامام والماموم والمنفرد

یعنی جو شخص سورۃ فاتحہ پڑھ سکتاہے ( یعنی اس کو یہ سورہ یاد ہے ) اس کے لیے اس کا پڑھنا نماز کے فرائض میں سے ایک فرض اورنماز کے ارکان میں سے ایک رکن ہے اوریہ سورۃ فاتحہ نماز میں ایسی معین ہے کہ نہ تو اس کی بجائے غیرعربی میں اس کا ترجمہ قائم مقام ہوسکتاہے اورنہ ہی قرآن مجید کی دیگر آیت۔ اوراس تعین فاتحہ میں تمام نمازیں برابر ہیں فرض ہوں یا نفل، جہری ہوں یاسری اور مردعورت، مسافر، لڑکا ( نابالغ ) اورکھڑا ہوکر نماز پڑھنے والااوربیٹھ کر یالیٹ کر نماز پڑھنے والا سب اس حکم میں برابر ہیں اور اس تعین فاتحہ میں امام، مقتدی اوراکیلا نماز پڑھنے والا ( سبھی ) برابر ہیں۔

دوسری حدیث :

عن عبادۃ بن الصامت قال کنا خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی صلوٰۃ الفجر فقرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فثقلت علیہ القراۃ فلما فرغ قال لعلکم تقرءون خلف امامکم قلنا نعم ہذا یارسول اللہ قال لا تفعلوا الابفاتحۃ الکتاب فانہ لا صلوٰۃ لمن لم یقرا ءبھا۔

( ابوداؤد، ج1، ص: 119، ترمذی، ج1، ص: 41 وقال حسن )

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ فجر کی نماز میں ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے آپ نے جب قرآن شریف پڑھا توآپ پر پڑھنا مشکل ہوگیا۔ جب آپ ( نمازسے ) فارغ ہوئے تو فرمایا کہ شاید تم اپنے امام کے پیچھے ( قرآن پاک سے کچھ ) پڑھتے رہتے ہو۔ ہم نے کہا، ہاں یا رسول اللہ! ہم جلدی جلدی پڑھتے ہیں آپ نے فرمایا کہ یادرکھو سورۃ فاتحہ کے سوا کچھ نہ پڑھا کرو۔ کیونکہ جو شخص سورۃ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو حسن کہاہے۔

اس حدیث کے ذیل میں امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

والعمل علی ہذا الحدیث فی القراءۃ خلف الامام عند اکثر اہل العلم من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم والتابعین وہو قول مالک ابن انس وابن المبارک والشافعی واحمد واسحاق یرون القراءۃ خلف الامام۔

( ترمذی، ج1، ص:41 )

یعنی امام کے پیچھے ( سورۃ فاتحہ ) پڑھنے کے بارے میں اکثراہل علم، صحابہ کرام اورتابعین کا اسی حدیث ( عبادہ رضی اللہ عنہ ) پر عمل ہے اور امام مالک، امام عبداللہ بن مبارک ( شاگرد امام ابوحنیفہ ) ، امام شافعی، امام احمد، امام اسحاق ( بھی ) امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کے قائل تھے۔

امام خطابی معالم السنن شرح ابوداؤد، ج1، ص: 205میں لکھتے ہیں :

ہذاالحدیث نص صریح بان قراۃ الفاتحۃ واجبۃ علی من صلی خلف الامام سواءجہرالامام باالقراۃ اوخافت بہا و اسنادہ جید لا طعن فیہ۔

( مرعاۃ، ج1، ص: 619 )

یعنی یہ حدیث نص صریح ہے کہ مقتدی کے لیے سورۃ فاتحہ کا پڑھنا واجب ہے۔ خواہ امام قرات بلند آواز سے کرے یا آہستہ سے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص مقتدیوں کو خطاب کرکے سورۃ فاتحہ پڑھنے کاحکم دیااوراس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ سورۃ فاتحہ پڑھے بغیرکسی کی نماز ہی نہیں ہوتی۔ اس حدیث کی سند بہت ہی پختہ ہے۔ جس میںطعن کی کوئی گنجائش نہیں۔

تیسری حدیث:

عن ابی ہریرۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال من صلی صلوٰۃ ولم یقرا فیہا بام القرآن فہی خداج ثلاثا غیرتمام فقیل لابی ہریرۃ انا نکون وراءالامام فقال اقرابہا فی نفسک فانی سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول قال اللہ تعالیٰ قسمت الصلوٰۃ بینی وبین عبدی نصفین الحدیث۔

( صحیح مسلم، ج1، ص:169 )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جو شخص کوئی نماز پڑھے اور اس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھے تووہ نماز ناقص ہے ( مردہ ) ناقص ہے ( مردہ ) ناقص ہے ( مردہ ) پوری نہیں ہے۔ جضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ لوگ امام کے پیچھے ہوتے ہیں۔ ( تب بھی پڑھیں ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ( ہاں ) اس کو آہستہ پڑھاکرو، کیونکہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ میں نے نماز کو اپنے اوربندے کے درمیان دوحصوں میں تقسیم کردیاہے۔

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ شرح مسلم، جلد1، ص: 170میں لکھتے ہیں :

ففیہ وجوب قراۃ الفاتحۃ وانہا متعینۃ لایجزی غیرھا الالعاجزعنہا وہذا مذہب مالک والشافعی وجمہور العلماءمن الصحابۃ والتابعین فمن بعدہم۔

یعنی اس حدیث ( ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ ) میں سورۃ فاتحہ کے فرض ہونے کا ثبوت ہے اورعاجز کے سوا سورۃ فاتحہ نماز میں متعین ہے۔ کوئی دوسری آیت اس کی جگہ کفایت نہیں کرسکتی اور یہی مذہب امام مالک اورامام شافعی اور جمہورصحابہ کرام اورتابعین اوران کے بعد علماءوائمہ عظام کاہے۔

امام خطابی معالم السنن شرح ابوداؤد، جلد1، ص: 203 پر فہی خداج کا معنی لکھتے ہیں :

معناہ ناقصۃ نقص فساد وبطلان یقول العرب اخدجت الناقۃ اذا القت ولدہا وہو دم لم یستبن خلقہ فہی مخدج والخداج اسم مبنی عنہ۔

( مرعاۃ، ج1، ص: 588 )

حاصل اس کا یہ ہے کہ جس نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی جائے، وہ فاسداور باطل ہے۔ اہل عرب اخدجت الناقۃ اس وقت بولتے ہیں جب اونٹنی اپنے بچے کو اس وقت گرادے کہ وہ خون ہو اور اس کی خلقت وپیدائش ظاہر نہ ہوئی ہو۔ اوراسی سے لفظ خداج لیا گیاہے۔ ثابت ہوا کہ خداج وہ نقصان ہے جس سے نماز نہیں ہوتی اوراس کی مثال اونٹنی کے مردہ بچہ جیسی ہے۔

امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

والمراد بقولہ اقرابہا فی نفسک ان یتلفظ بہا سرا دون الجہر بہا ولایجوز حملہ علی ذکرہا بقلبہ دون التلفظ بہا لاجماع اہل اللسان علی ان ذلک لایسمی قراۃ ولاجماع اہل العلم علی ان ذکرہا بقلبہ دون التلفظ بہا لیس بشرط ولامسنون ولایجوز حمل الخبر علی مالا یقول بہ احد ولایساعدہ لسان العرب۔

( کتاب القرات، ص: 17 )

یعنی اس قول ( اقرابہا فی نفسک ) سے مراد یہ ہے کہ زبان سے آہستہ آہستہ پڑھ اور اس کو ذکر قلب یعنی تدبر و تفکر و غور پر محمول کرنا جائز نہیں۔ کیونکہ اہل لغت کا اس پراجماع ہے کہ اس کو قراۃ نہیں کہتے اوراہل علم کا اس پر بھی اجماع ہے کہ زبان سے تلفظ کئے بغیر صرف دل سے ذکر کرنا نماز کی صحت کے لیے نہ شرط ہے اورنہ ہی سنت۔ لہٰذا حدیث کو ایسے معنی پر حمل کرنا جس کا کوئی بھی قائل نہیں اورنہ ہی لغت عرب اس کی تائید کرے جائز نہیں۔

تفسیرجلالین، جلد1، ص: 148مصری میں واذکر ربک فی نفسک کا معنی لکھاہے

ای سرا یعنی اللہ تعالیٰ کو زبان سے آہستہ یادکر۔

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ شرح مسلم، جلد1، ص: 170 اقرابہا فی نفسک کا معنی لکھتے ہیں :

فمعناہ اقراہا سرا بحیث تسمع نفسک واما ماحملہ علیہ بعض المالکیۃ وغیرہم ان المراد تدبر ذلک فلایقبل لان القراۃ لاتطلق الاعلی حرکۃ اللسان بحیث یسمع نفسہ۔

اورحدیث میں قرات ( پڑھنے ) کا حکم ہے۔ لہٰذا جب تک مقتدی فاتحہ کو زبان سے نہیں پڑھے گا، اس وقت تک حدیث پر عمل نہیں ہوگا۔

ہدایہ، جلد1، ص: 98 میں ہے

لان القراۃ فعل اللسان کیونکہ قراۃ ( پڑھنا ) زبان کا کام ہے۔

کفایہ، جلد1، ص: 64 میں ہے

فیصلی السامع فی نفسہ ای یصلی بلسانہ خفیا

یعنی جب خطیب آیت یآیہا الذین آمنوا صلوا علیہ وسلموا تسلیما ( الاحزاب: 56 ) پڑھے توسامعین کو چاہئیے کہ اپنی زبان سے آہستہ درود پڑھ لیں۔ یعنی فی نفسہ کا معنی زبان سے آہستہ اورپوشیدہ پڑھنا ہے۔

ان حوالہ جات سے واضح ہوگیا کہ فی نفسک کا معنی دل میں تدبر اور غوروفکر کرنا، لغت اوراہل علم اور خودفقہاءکی تصریحات کے خلاف ہے اورصحیح معنی یہ ہے کہ زبان سے آہستہ پڑھا کراوریہی حدیث کا مقصود ہے۔

چوتھی حدیث :

عن عائشہ رضی اللہ عنہا قالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من صلی صلوٰۃ لم یقرافیہا بفاتحۃ الکتاب فہی خداج غیر تمام۔

( جزءالقرات، ص: 8، دہلی، کتاب القرات، ص: 31 )

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی وہ نماز ناقص ہے پوری۔
خداج کی تفسیر اوپر گزر چکی ہے۔

پانچویں حدیث:

عن انس رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی باصحابہ فلما قضی صلوٰتہ اقبل علیہم بوجہہ فقال اتقرءون فی صلوٰتکم خلف الامام والامام یقرا فسکتوا فقال لہا ثلاث مرات فقال قائل اوقائلون انا لنفعل قال فلا تفعلوا ولیقرا احدکم فاتحۃ الکتاب فی نفسہ۔

( کتاب القرات، ص: 48، 49، 50، 55، جزءالقراۃ دہلی، ص: 28 )

حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھائی۔ نماز پوری کرنے کے بعد آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا۔ جب امام پڑھ رہا ہو توتم بھی اپنی نماز میں امام کے پیچھے پڑھتے ہو؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خاموش ہوگئے۔ تین بار آپ نے یہی فرمایا۔ پھر ایک سے زیادہ لوگوں نے کہا، ہاں! ہم ایسا کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ایسا نہ کرو۔ تم میں سے ہر ایک صرف سورۃ فاتحہ آہستہ پڑھا کرے۔

چھٹی حدیث:

عن ابی قلابۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال لعل احدکم یقرا خلف الامام والامام یقرافقال رجل انالنفعل ذلک قال فلا تفعلوا ولکن لیقرا احدکم بفاتحۃ الکتاب۔

( کتاب القراۃ، ص: 50 )

ابوقلابہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، شایدجب امام پڑھ رہا ہو تو ہر ایک تمہارا امام کے پیچھے پڑھتاہے۔ ایک آدمی نے کہا بے شک ہم ایسا کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسا مت کرو اورلیکن ہر ایک تمہارا ( امام کے پیچھے ) سورۃ فاتحہ پڑھا کرے۔

ساتویں حدیث:

عن عبداللہ بن سوادۃ القشیری عن رجل من اہل البادیۃ عن ابیہ وکان ابوہ اسیرا عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال سمعت محمدا صلی اللہ علیہ وسلم قال لاصحابہ تقرؤن خلفی القرآن فقالوا یارسول اللہ نہذہ ہذا قال لا تقروا الابفاتحۃ الکتاب۔

( کتاب القراۃ، ص: 53 )

عبداللہ بن سوادۃ ایک دیہاتی سے، وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں اور اس کا باپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسیر تھا۔ اس نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو فرماتے ہوئے سنا۔ کیا تم نماز میں میرے پیچھے قرآن پڑھتے ہو؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ہم جلدی جلدی پڑھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا سوائے سورۃ فاتحہ کے کچھ نہ پڑھا کرو۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

وتواترالخبرعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لاصلوٰۃ الابقراۃ ام القرآن۔

( جزءالقراۃ، ص: 4، دہلی )

یعنی اس بارے میں کہ بغیرسورۃ فاتحہ پڑھے نماز نہیں ہوتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر ( یعنی جم غفیر روایت کرتے ہیں ) کے ساتھ احادیث مروی ہیں۔

امام عبدالوہاب شعرانی میزان کبریٰ، جلد1، ص: 166، طبع دہلی میں فرماتے ہیں :

من قال بتعین الفاتحۃ وانہ لایجزی قراۃ غیرہا قددار مع ظاہرالاحادیث التی کادت تبلغ حدالتواتر مع تائید ذلک بعمل السلف والخلف۔

یعنی جن علماء نے سورۃ فاتحہ کو نماز میں متعین کیاہے اورکہاکہ سورۃ فاتحہ کے سوا کچھ اور پڑھنا کفایت نہیں کرسکتا۔ اولاً توان کے پاس احادیث نبویہ اس کثرت سے ہیں کہ تواتر کو پہنچنے والی ہیں۔ ثانیاً سلف وخلف ( صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وتابعین وتبع تابعین وائمہ عظام ) کا عمل بھی تعین فاتحہ درنماز کی تائید کرتاہے۔

مسک الختام شرح بلوغ المرام، جلد1، ص: 219 مطبع نظامی میں ہے۔

وایں حدیث راشواہد بسیاراست۔

یعنی قراۃ فاتحہ خلف الامام کی حدیث کے شواہد بہت زیادہ ہیں۔

تفسیر ابن کثیر، ص: 12 میں ہے

والاحادیث فی ہذا الباب کثیرۃ یعنی قراۃ فاتحہ کی احادیث بکثرت ہیں۔ http://forum.mohaddis.com/threads/سوره-فاتحہ-نماز-میں-پڑھنا.11875/ میرے بھائی اس پوسٹ پر فاتحہ خلف امام پر اتنے دلائل اور واضح حدیث دینے کے بعد میں یہی کہہ سکتا ہو کہ واقعی مقلدکے جاہل ہونے میں کوئی شک نہیں- کیونکہ مقلد اپنے امام کی اندھی تقلید کرتا ہیں-
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
آپ کی اس حدیث کی مخالف آیت بھی موجود ہے،
ایک مسلمان ہوتے ہوئے آپ ایک حدیث کے ایک مخالف آیت کی بات کر رہے ہیں، اللہ کا خوف کرو یار کچھ، کیا یہ بات کسی مسلمان کو زیب دیتی ہے کہ معاذاللہ وہ قرآنی آیات اور احادیث کو ایک دوسرے کے مخالف کہے، یہی بات تو منکرین حدیث کرتے ہیں، پھر آپ میں اور ان میں فرق کیا ہے؟ ابوحنیفہ کی محبت میں اتنا آگے نہ بڑھیں حضرت کہ اپنی آخرت برباد کر بیٹھیں، کیونکہ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ آدمی ایک لفظ کہتا ہے اسے معلوم نہیں ہوتا وہ اس کی وجہ سے جہنم کی گہرائیوں میں گر جاتا ہے، اور ایک لفظ کہتا ہے اسے معلوم نہیں ہوتا وہ جنت میں اس کے درجات بلند ہو جاتے ہیں (او کما قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم)
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
محمد عامر یونس نے کہا ہے -
میرے بھائی یہ اتنی واضح حدیث ہے اس میں آپکے تمام سوالوں کا جواب ہیں -
ھمارے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ جب نبی كريم صلى اللہ عليہ وسلم کا فرمان سامنے آ جائے ہمیں اس کو قبول کر لینا چاھیے -
اللہ تعالی آپ کو سمجھنے کی توفیق دے - آمین
فجر كى نماز ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر قرآت بوجھل ہو گئى اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمايا:
لگتا ہے آپ اپنے امام كے پيچھے پڑھتے ہو ؟
تو ہم نے جواب ديا: جى ہاں.
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:
سورۃ فاتحہ كے علاوہ ايسا نہ كيا كرو، كيونكہ جو اسے ( سورۃ فاتحہ ) نہيں پڑھتا اس كى نماز ہى نہيں ہوتى " اھـ
اشماریہ نے کہا ہے: ↑
اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کے مقابلے میں کسی کی بات کو اہمیت نہیں دینی چاہیے۔ لیکن مجھے ذرا ان شقوں کا جواب دیجیے کہ ان صورتوں میں کیا کیا جائے گا۔
اگر اس حدیث کے مخالف حدیث یا آیت موجود ہو؟
اگر اس حدیث سے بعض صحابہ نے کچھ اور مطلب لیا ہو؟
اگر اس روایت سے بعض فقہاء نے کچھ اور مطلب لیا ہو دیگر قرائن کی روشنی میں؟
اگر اس روایت کو کسی فقیہ یا محدث نے معلول قرار دیا ہو؟
اگر اس روایات کی تطبیق دوسری روایات کے ساتھ کسی فقیہ نے کسی خاص انداز سے کی ہو؟
اگر اس روایت کے خلاف واضح عمل صحابہ موجود ہو اور صحابہ نے اس روایت کو اختیار نہیں کیا ہو؟
ایک مسلمان ہوتے ہوئے آپ ایک حدیث کے ایک مخالف آیت کی بات کر رہے ہیں، اللہ کا خوف کرو یار کچھ، کیا یہ بات کسی مسلمان کو زیب دیتی ہے کہ معاذاللہ وہ قرآنی آیات اور احادیث کو ایک دوسرے کے مخالف کہے، یہی بات تو منکرین حدیث کرتے ہیں، پھر آپ میں اور ان میں فرق کیا ہے؟ ابوحنیفہ کی محبت میں اتنا آگے نہ بڑھیں حضرت کہ اپنی آخرت برباد کر بیٹھیں، کیونکہ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ آدمی ایک لفظ کہتا ہے اسے معلوم نہیں ہوتا وہ اس کی وجہ سے جہنم کی گہرائیوں میں گر جاتا ہے، اور ایک لفظ کہتا ہے اسے معلوم نہیں ہوتا وہ جنت میں اس کے درجات بلند ہو جاتے ہیں (او کما قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم)
اللہ پاک ہم سب پر اپنا رحم فرمائے ۔

آمین یا رب العالمین

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا !

"بندہ ایک بات کرتا ہے ، اس میں غور و فکر نہیں کرتا ، اور وہ اس بات کی وجہ سے مشرق و مغرب کی درمیانی مسافت سے بھی زیادہ جہنم کی آگ کی طرف گر جاتا ہے ."

صیح بخاری #٦٤٧٧
**********
10001425_638755739530042_2061486958_n.jpg
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
پہلی حدیث:

حدثنا علي بن عبد الله، قال حدثنا سفيان، قال حدثنا الزهري، عن محمود بن الربيع، عن عبادة بن الصامت، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب‏‏‏
(صحیح بخاری کتاب الاذان (صفۃ الصلوٰۃ) حدیث نمبر : 756)

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہری نے بیان کیا محمود بن ربیع سے، انھوں نے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس شخص نے سورہ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں ہوئی۔

مشہورشارح بخاری حضرت علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ شرح صحیح بخاری، جلد2، ص: 439 میں اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں

ای فی کل رکعۃ منفردا اواماما اوماموما سواءاسرالامام اوجہر

یعنی اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ ہر رکعت میں ہرنماز کو خواہ اکیلا ہو یاامام ہو، یامقتدی، خواہ امام آہستہ پڑھے یا بلند آواز سے سورۃ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے۔

علامہ کرمانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

وفی الحدیث ( ای حدیث عبادۃ ) دلیل علی ان قراۃ الفاتحۃ واجبۃ علی الامام والمنفرد والماموم فی الصلوٰت کلہا۔

( عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، جلد3، ص: 63 )

یعنی حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث اس امر پر صاف دلیل ہے کہ سورۃ فاتحہ کا پڑھنا امام اور اکیلے اورمقتدی سب کے لیے تمام نمازوں میں واجب ہے۔

نیز حنفیوں کے مشہور شارح بخاری امام محمود احمدعینی المتوفی 855ھ عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، ج3، ص: 84 ) میں لکھتے ہیں

استدل بہذاالحدیث عبداللہ بن المبارک والاوزاعی ومالک و الشافعی واحمد واسحاق وابوثور وداؤد علی وجوب قراۃ الفاتحۃ خلف الامام فی جمیع الصلوٰت

یعنی اس حدیث ( حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ ) سے امام عبداللہ بن مبارک، امام اوزاعی، امام مالک، امام شافعی، امام احمد، امام اسحاق، امام ابوثور، امام داؤد رحمۃ اللہ علیہم نے ( مقتدی کے لیے ) امام کے پیچھے تمام نمازوں میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کے وجوب پر دلیل پکڑی ہے۔

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ المجموع شرح مہذب، جلد3، ص: 326 مصری میں فرماتے ہیں :

وقرا ۃ الفاتحۃ للقادر علیہا فرض من فروض الصلوٰۃ ورکن من ارکانہا ومتعینۃ لایقوم ترجمتہا بغیرالعربیۃ ولاقراۃ غیرہا من القرآن ویستوی فی تعینہا جمیع الصلوٰت فرضہا ونفلہا جہرہا و سرہا والرجل المراۃ والمسافر والصبی والقائم والقاعد والمضظجع وفی حال الخوف وغیرہا سواءفی تعینہا الامام والماموم والمنفرد

یعنی جو شخص سورۃ فاتحہ پڑھ سکتاہے ( یعنی اس کو یہ سورہ یاد ہے ) اس کے لیے اس کا پڑھنا نماز کے فرائض میں سے ایک فرض اورنماز کے ارکان میں سے ایک رکن ہے اوریہ سورۃ فاتحہ نماز میں ایسی معین ہے کہ نہ تو اس کی بجائے غیرعربی میں اس کا ترجمہ قائم مقام ہوسکتاہے اورنہ ہی قرآن مجید کی دیگر آیت۔ اوراس تعین فاتحہ میں تمام نمازیں برابر ہیں فرض ہوں یا نفل، جہری ہوں یاسری اور مردعورت، مسافر، لڑکا ( نابالغ ) اورکھڑا ہوکر نماز پڑھنے والااوربیٹھ کر یالیٹ کر نماز پڑھنے والا سب اس حکم میں برابر ہیں اور اس تعین فاتحہ میں امام، مقتدی اوراکیلا نماز پڑھنے والا ( سبھی ) برابر ہیں۔

دوسری حدیث :

عن عبادۃ بن الصامت قال کنا خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی صلوٰۃ الفجر فقرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فثقلت علیہ القراۃ فلما فرغ قال لعلکم تقرءون خلف امامکم قلنا نعم ہذا یارسول اللہ قال لا تفعلوا الابفاتحۃ الکتاب فانہ لا صلوٰۃ لمن لم یقرا ءبھا۔

( ابوداؤد، ج1، ص: 119، ترمذی، ج1، ص: 41 وقال حسن )

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ فجر کی نماز میں ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے آپ نے جب قرآن شریف پڑھا توآپ پر پڑھنا مشکل ہوگیا۔ جب آپ ( نمازسے ) فارغ ہوئے تو فرمایا کہ شاید تم اپنے امام کے پیچھے ( قرآن پاک سے کچھ ) پڑھتے رہتے ہو۔ ہم نے کہا، ہاں یا رسول اللہ! ہم جلدی جلدی پڑھتے ہیں آپ نے فرمایا کہ یادرکھو سورۃ فاتحہ کے سوا کچھ نہ پڑھا کرو۔ کیونکہ جو شخص سورۃ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو حسن کہاہے۔

اس حدیث کے ذیل میں امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

والعمل علی ہذا الحدیث فی القراءۃ خلف الامام عند اکثر اہل العلم من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم والتابعین وہو قول مالک ابن انس وابن المبارک والشافعی واحمد واسحاق یرون القراءۃ خلف الامام۔

( ترمذی، ج1، ص:41 )

یعنی امام کے پیچھے ( سورۃ فاتحہ ) پڑھنے کے بارے میں اکثراہل علم، صحابہ کرام اورتابعین کا اسی حدیث ( عبادہ رضی اللہ عنہ ) پر عمل ہے اور امام مالک، امام عبداللہ بن مبارک ( شاگرد امام ابوحنیفہ ) ، امام شافعی، امام احمد، امام اسحاق ( بھی ) امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کے قائل تھے۔

امام خطابی معالم السنن شرح ابوداؤد، ج1، ص: 205میں لکھتے ہیں :

ہذاالحدیث نص صریح بان قراۃ الفاتحۃ واجبۃ علی من صلی خلف الامام سواءجہرالامام باالقراۃ اوخافت بہا و اسنادہ جید لا طعن فیہ۔

( مرعاۃ، ج1، ص: 619 )

یعنی یہ حدیث نص صریح ہے کہ مقتدی کے لیے سورۃ فاتحہ کا پڑھنا واجب ہے۔ خواہ امام قرات بلند آواز سے کرے یا آہستہ سے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص مقتدیوں کو خطاب کرکے سورۃ فاتحہ پڑھنے کاحکم دیااوراس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ سورۃ فاتحہ پڑھے بغیرکسی کی نماز ہی نہیں ہوتی۔ اس حدیث کی سند بہت ہی پختہ ہے۔ جس میںطعن کی کوئی گنجائش نہیں۔

تیسری حدیث:

عن ابی ہریرۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال من صلی صلوٰۃ ولم یقرا فیہا بام القرآن فہی خداج ثلاثا غیرتمام فقیل لابی ہریرۃ انا نکون وراءالامام فقال اقرابہا فی نفسک فانی سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول قال اللہ تعالیٰ قسمت الصلوٰۃ بینی وبین عبدی نصفین الحدیث۔

( صحیح مسلم، ج1، ص:169 )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جو شخص کوئی نماز پڑھے اور اس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھے تووہ نماز ناقص ہے ( مردہ ) ناقص ہے ( مردہ ) ناقص ہے ( مردہ ) پوری نہیں ہے۔ جضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ لوگ امام کے پیچھے ہوتے ہیں۔ ( تب بھی پڑھیں ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ( ہاں ) اس کو آہستہ پڑھاکرو، کیونکہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ میں نے نماز کو اپنے اوربندے کے درمیان دوحصوں میں تقسیم کردیاہے۔

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ شرح مسلم، جلد1، ص: 170میں لکھتے ہیں :

ففیہ وجوب قراۃ الفاتحۃ وانہا متعینۃ لایجزی غیرھا الالعاجزعنہا وہذا مذہب مالک والشافعی وجمہور العلماءمن الصحابۃ والتابعین فمن بعدہم۔

یعنی اس حدیث ( ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ ) میں سورۃ فاتحہ کے فرض ہونے کا ثبوت ہے اورعاجز کے سوا سورۃ فاتحہ نماز میں متعین ہے۔ کوئی دوسری آیت اس کی جگہ کفایت نہیں کرسکتی اور یہی مذہب امام مالک اورامام شافعی اور جمہورصحابہ کرام اورتابعین اوران کے بعد علماءوائمہ عظام کاہے۔

امام خطابی معالم السنن شرح ابوداؤد، جلد1، ص: 203 پر فہی خداج کا معنی لکھتے ہیں :

معناہ ناقصۃ نقص فساد وبطلان یقول العرب اخدجت الناقۃ اذا القت ولدہا وہو دم لم یستبن خلقہ فہی مخدج والخداج اسم مبنی عنہ۔

( مرعاۃ، ج1، ص: 588 )

حاصل اس کا یہ ہے کہ جس نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی جائے، وہ فاسداور باطل ہے۔ اہل عرب اخدجت الناقۃ اس وقت بولتے ہیں جب اونٹنی اپنے بچے کو اس وقت گرادے کہ وہ خون ہو اور اس کی خلقت وپیدائش ظاہر نہ ہوئی ہو۔ اوراسی سے لفظ خداج لیا گیاہے۔ ثابت ہوا کہ خداج وہ نقصان ہے جس سے نماز نہیں ہوتی اوراس کی مثال اونٹنی کے مردہ بچہ جیسی ہے۔

امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

والمراد بقولہ اقرابہا فی نفسک ان یتلفظ بہا سرا دون الجہر بہا ولایجوز حملہ علی ذکرہا بقلبہ دون التلفظ بہا لاجماع اہل اللسان علی ان ذلک لایسمی قراۃ ولاجماع اہل العلم علی ان ذکرہا بقلبہ دون التلفظ بہا لیس بشرط ولامسنون ولایجوز حمل الخبر علی مالا یقول بہ احد ولایساعدہ لسان العرب۔

( کتاب القرات، ص: 17 )

یعنی اس قول ( اقرابہا فی نفسک ) سے مراد یہ ہے کہ زبان سے آہستہ آہستہ پڑھ اور اس کو ذکر قلب یعنی تدبر و تفکر و غور پر محمول کرنا جائز نہیں۔ کیونکہ اہل لغت کا اس پراجماع ہے کہ اس کو قراۃ نہیں کہتے اوراہل علم کا اس پر بھی اجماع ہے کہ زبان سے تلفظ کئے بغیر صرف دل سے ذکر کرنا نماز کی صحت کے لیے نہ شرط ہے اورنہ ہی سنت۔ لہٰذا حدیث کو ایسے معنی پر حمل کرنا جس کا کوئی بھی قائل نہیں اورنہ ہی لغت عرب اس کی تائید کرے جائز نہیں۔

تفسیرجلالین، جلد1، ص: 148مصری میں واذکر ربک فی نفسک کا معنی لکھاہے

ای سرا یعنی اللہ تعالیٰ کو زبان سے آہستہ یادکر۔

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ شرح مسلم، جلد1، ص: 170 اقرابہا فی نفسک کا معنی لکھتے ہیں :

فمعناہ اقراہا سرا بحیث تسمع نفسک واما ماحملہ علیہ بعض المالکیۃ وغیرہم ان المراد تدبر ذلک فلایقبل لان القراۃ لاتطلق الاعلی حرکۃ اللسان بحیث یسمع نفسہ۔

اورحدیث میں قرات ( پڑھنے ) کا حکم ہے۔ لہٰذا جب تک مقتدی فاتحہ کو زبان سے نہیں پڑھے گا، اس وقت تک حدیث پر عمل نہیں ہوگا۔

ہدایہ، جلد1، ص: 98 میں ہے

لان القراۃ فعل اللسان کیونکہ قراۃ ( پڑھنا ) زبان کا کام ہے۔

کفایہ، جلد1، ص: 64 میں ہے

فیصلی السامع فی نفسہ ای یصلی بلسانہ خفیا

یعنی جب خطیب آیت یآیہا الذین آمنوا صلوا علیہ وسلموا تسلیما ( الاحزاب: 56 ) پڑھے توسامعین کو چاہئیے کہ اپنی زبان سے آہستہ درود پڑھ لیں۔ یعنی فی نفسہ کا معنی زبان سے آہستہ اورپوشیدہ پڑھنا ہے۔

ان حوالہ جات سے واضح ہوگیا کہ فی نفسک کا معنی دل میں تدبر اور غوروفکر کرنا، لغت اوراہل علم اور خودفقہاءکی تصریحات کے خلاف ہے اورصحیح معنی یہ ہے کہ زبان سے آہستہ پڑھا کراوریہی حدیث کا مقصود ہے۔

چوتھی حدیث :

عن عائشہ رضی اللہ عنہا قالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من صلی صلوٰۃ لم یقرافیہا بفاتحۃ الکتاب فہی خداج غیر تمام۔

( جزءالقرات، ص: 8، دہلی، کتاب القرات، ص: 31 )

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی وہ نماز ناقص ہے پوری۔
خداج کی تفسیر اوپر گزر چکی ہے۔

پانچویں حدیث:

عن انس رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی باصحابہ فلما قضی صلوٰتہ اقبل علیہم بوجہہ فقال اتقرءون فی صلوٰتکم خلف الامام والامام یقرا فسکتوا فقال لہا ثلاث مرات فقال قائل اوقائلون انا لنفعل قال فلا تفعلوا ولیقرا احدکم فاتحۃ الکتاب فی نفسہ۔

( کتاب القرات، ص: 48، 49، 50، 55، جزءالقراۃ دہلی، ص: 28 )

حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھائی۔ نماز پوری کرنے کے بعد آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا۔ جب امام پڑھ رہا ہو توتم بھی اپنی نماز میں امام کے پیچھے پڑھتے ہو؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خاموش ہوگئے۔ تین بار آپ نے یہی فرمایا۔ پھر ایک سے زیادہ لوگوں نے کہا، ہاں! ہم ایسا کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ایسا نہ کرو۔ تم میں سے ہر ایک صرف سورۃ فاتحہ آہستہ پڑھا کرے۔

چھٹی حدیث:

عن ابی قلابۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال لعل احدکم یقرا خلف الامام والامام یقرافقال رجل انالنفعل ذلک قال فلا تفعلوا ولکن لیقرا احدکم بفاتحۃ الکتاب۔

( کتاب القراۃ، ص: 50 )

ابوقلابہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، شایدجب امام پڑھ رہا ہو تو ہر ایک تمہارا امام کے پیچھے پڑھتاہے۔ ایک آدمی نے کہا بے شک ہم ایسا کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسا مت کرو اورلیکن ہر ایک تمہارا ( امام کے پیچھے ) سورۃ فاتحہ پڑھا کرے۔

ساتویں حدیث:

عن عبداللہ بن سوادۃ القشیری عن رجل من اہل البادیۃ عن ابیہ وکان ابوہ اسیرا عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال سمعت محمدا صلی اللہ علیہ وسلم قال لاصحابہ تقرؤن خلفی القرآن فقالوا یارسول اللہ نہذہ ہذا قال لا تقروا الابفاتحۃ الکتاب۔

( کتاب القراۃ، ص: 53 )

عبداللہ بن سوادۃ ایک دیہاتی سے، وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں اور اس کا باپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسیر تھا۔ اس نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو فرماتے ہوئے سنا۔ کیا تم نماز میں میرے پیچھے قرآن پڑھتے ہو؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ہم جلدی جلدی پڑھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا سوائے سورۃ فاتحہ کے کچھ نہ پڑھا کرو۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

وتواترالخبرعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لاصلوٰۃ الابقراۃ ام القرآن۔

( جزءالقراۃ، ص: 4، دہلی )

یعنی اس بارے میں کہ بغیرسورۃ فاتحہ پڑھے نماز نہیں ہوتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر ( یعنی جم غفیر روایت کرتے ہیں ) کے ساتھ احادیث مروی ہیں۔

امام عبدالوہاب شعرانی میزان کبریٰ، جلد1، ص: 166، طبع دہلی میں فرماتے ہیں :

من قال بتعین الفاتحۃ وانہ لایجزی قراۃ غیرہا قددار مع ظاہرالاحادیث التی کادت تبلغ حدالتواتر مع تائید ذلک بعمل السلف والخلف۔

یعنی جن علماء نے سورۃ فاتحہ کو نماز میں متعین کیاہے اورکہاکہ سورۃ فاتحہ کے سوا کچھ اور پڑھنا کفایت نہیں کرسکتا۔ اولاً توان کے پاس احادیث نبویہ اس کثرت سے ہیں کہ تواتر کو پہنچنے والی ہیں۔ ثانیاً سلف وخلف ( صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وتابعین وتبع تابعین وائمہ عظام ) کا عمل بھی تعین فاتحہ درنماز کی تائید کرتاہے۔

مسک الختام شرح بلوغ المرام، جلد1، ص: 219 مطبع نظامی میں ہے۔

وایں حدیث راشواہد بسیاراست۔

یعنی قراۃ فاتحہ خلف الامام کی حدیث کے شواہد بہت زیادہ ہیں۔

تفسیر ابن کثیر، ص: 12 میں ہے

والاحادیث فی ہذا الباب کثیرۃ یعنی قراۃ فاتحہ کی احادیث بکثرت ہیں۔ http://forum.mohaddis.com/threads/سوره-فاتحہ-نماز-میں-پڑھنا.11875/ میرے بھائی اس پوسٹ پر فاتحہ خلف امام پر اتنے دلائل اور واضح حدیث دینے کے بعد میں یہی کہہ سکتا ہو کہ واقعی مقلدکے جاہل ہونے میں کوئی شک نہیں- کیونکہ مقلد اپنے امام کی اندھی تقلید کرتا ہیں-
اتنی طویل پوسٹ کے لیے شکریہ
بھائی میں نے جو پوچھا ہے اگر وہ بتا سکتے ہیں تو مہربانی
ورنہ معذرت۔
یہ بحث پہلے بھی بہت سے علماء کر چکے ہیں اور ہم بھی پھر کبھی کر لیں گے۔
سردست آپ میری بات کا جواب دے سکتے ہیں تو میں شکر گزار ہوں گا۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
ایک مسلمان ہوتے ہوئے آپ ایک حدیث کے ایک مخالف آیت کی بات کر رہے ہیں، اللہ کا خوف کرو یار کچھ، کیا یہ بات کسی مسلمان کو زیب دیتی ہے کہ معاذاللہ وہ قرآنی آیات اور احادیث کو ایک دوسرے کے مخالف کہے، یہی بات تو منکرین حدیث کرتے ہیں، پھر آپ میں اور ان میں فرق کیا ہے؟ ابوحنیفہ کی محبت میں اتنا آگے نہ بڑھیں حضرت کہ اپنی آخرت برباد کر بیٹھیں، کیونکہ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ آدمی ایک لفظ کہتا ہے اسے معلوم نہیں ہوتا وہ اس کی وجہ سے جہنم کی گہرائیوں میں گر جاتا ہے، اور ایک لفظ کہتا ہے اسے معلوم نہیں ہوتا وہ جنت میں اس کے درجات بلند ہو جاتے ہیں (او کما قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم)
جزاک اللہ خیرا
یار میں نے لکھتے وقت بہت سوچا لیکن میرے دماغ میں اردو زبان کا کوئی دوسرا لفظ آیا ہی نہیں۔ مجبورا یہی لکھ دیا۔ آپ اسے فن اصول حدیث والا معارض سمجھ لیں۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
جزاک اللہ خیرا
یار میں نے لکھتے وقت بہت سوچا لیکن میرے دماغ میں اردو زبان کا کوئی دوسرا لفظ آیا ہی نہیں۔ مجبورا یہی لکھ دیا۔ آپ اسے فن اصول حدیث والا معارض سمجھ لیں۔
آپ کی بات سے ہم ظاہری طور پر تو یہ بات مان لیتے ہیں لیکن آپ کی پوسٹس سے ایسا کہیں محسوس نہیں ہو رہا کہ آپ نے یہ سب کچھ اپنے ذہن میں دوسرا کوئی لفظ نہ آنے کی صورت میں مجبورا لکھا۔ غور کیجئے ، آپ لکھتے ہیں:
آپ کی اس حدیث کی مخالف (1)آیت بھی موجود ہے، (2)حدیث بھی، (2)صحابہ کا فتوی بھی، (4)مجتہدین کے فتاوی بھی بلکہ ذرا آگے چلوں تو (5)ابن تیمیہؒ نے امام احمد سے جہری نمازوں میں مقتدی پر قراءت کے عدم وجوب پر اجماع بھی نقل کیا ہے۔
میں نے اوپر آپ کی بات میں پوائنٹس لگا دئیے ہیں، آپ ان پر غور کریں، نا صرف آپ نے آیت کے مخالف ہونے کی بات کی، بلکہ آپ کے مطابق حدیث کے "مخالف" نہ صرف ایک آیت، بلکہ حدیث کے مخالف حدیث، حدیث کے مخالف صحابہ کرام کے فتاویٰ جات، حدیث کے مخالف مجتہدین کے اجتہاد پر مبنی فتاویٰ جات، اور حدیث کے مخالف ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا امام احمد سے جہری نمازوں میں مقتدی پر قراءت کے عدم وجوب پر اجماع ہے۔ نعوذباللہ
آپ اگر غور کیا جائے تو کیا:
  • اللہ کی کتاب کی کوئی ایک آیت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی ایک حدیث کے مخالف ہو سکتی ہے؟
  • رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث کسی دوسری حدیث کے مخالف ہو سکتی ہے؟
  • کیا کوئی صحابی حدیثَ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف فتویٰ دے سکتا ہے؟
  • کیا کسی مجتہد کا اجتہاد حدیثِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف قابل حجت ہو سکتا ہے؟
  • کیا کوئی اجماع حدیثِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف حجت بن سکتا ہے؟

نہیں تو پھر اپنے الفاظوں پر سنجیدگی سے غور کریں، اور دوسری بات آپ نے جس آیت (وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ﴿٢٠٤﴾۔۔۔الاعراف) کو جس حدیث (لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب‏‏‏)کے خلاف قرار دیا ہے، قرآن کی اس آیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث میں تو تعارض ہے ہی نہیں، اس کی بہترین وضاحت حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ نے "تفسیر احسن البیان" میں بیان کی ہے۔ ملاحظہ کریں:

"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں اس کی خوب وضاحت کردی گئی ہے فرمایا۔ لاصلوۃ لمن لم یقرابفاتحہ الکتاب (صحیح بخاری ومسلم ) اس شخص کی نماز نہیں جس نے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی ۔ اس حدیث میں (من ) کا لفظ عام ہے جو ہرنمازی کو شامل ہے منفرد ہو یاامام کے پیچھے مقتدی ۔ سری نماز ہویا جہری فرض نماز ہو یانفل ہرنمازی کے لئے سورۃ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے ۔
اس عموم کی مزید تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ نماز فجر میں بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن کریم پڑھتے رہے جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرات بوجھل ہوگئی ،نماز ختم ہونے کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم بھی ساتھ پڑھتے رہے ہو؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لاتفعلواالابام القرآن فانہ لاصلوۃ لمن لم یقرابھا تم ایسا مت کرو(یعنی ساتھ ساتھ مت پڑھا کرو) البتہ سورۃ فاتحہ ضرورپڑھا کرو کیونکہ اس کے پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی (ابوداؤد ،ترمذی ،نسائی) اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ نے فرمایا من صلی صلوۃ لم یقرافیھا بام القرآن فھی خداج ۔ثلاثا غیر تمام جس نےبغیر فاتحہ کے نماز پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کیا گیا (انانکون وراء الامام (امام کے پیچھے بھی ہم نمازپڑھتے ہیں اس وقت کیا کریں؟) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا (اقرابھا فی نفسک (امام کے پیچھے تم سورۃ فاتحہ اپنے جی میں پڑھو) صحیح مسلم ۔
مذکورہ دونوں حدیثوں سے واضح ہواکہ قرآن مجید میں جوآتا ہے (وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ)7۔ الاعراف:204)۔ جب قرآن پڑھا جائے تو سنو اور خاموش رہو،یاحدیث (واذاقرافانصتوا(بشرط صحت) جب امام قرات کرے توخاموش رہو۔ کا مطلب یہ ہے کہ جہری نمازوں میں مقتدی سورۃ فاتحہ کے علاوہ باقی قرات خاموشی سے سنیں ۔ امام کے ساتھ قرآن نہ پڑھیں ۔ یاامام سورۃ فاتحہ کی فاتحۃ کی آیات وقفوں کے ساتھ پڑھے تاکہ مقتدی بھی احادیث صحیحہ کے مطابق سورۃ فاتحہ پڑھ سکیں یاامام سورۃ فاتحہ کے بعد اتنا سکتہ کرے کہ مقتدی سورۃ فاتحہ پڑھ لیں۔
اس طرح آیت قرآنی اور احادیث صحیحہ میں الحمد للہ کوئی تعارض نہیں رہتا۔دونوں پر عمل ہوجاتا ہے ۔ جب کہ سورۃ فاتحہ کی ممانعت سے یہ بات ثابت ہوتی کہ خاکم بدہن قرآن کریم اور احادیث ٹکراؤ ہے اور دونوں میں سے کسی ایک پرہی عمل ہوسکتا ہے ۔ بیک وقت دونوں پر عمل ممکن نہیں ۔ فتعوذباللہ من ھذا۔دیکھئے سورۃ اعراف آیت ۲۰۴کا حاشیہ (اس مسئلے کی تحقیق کے لئے ملاحظہ ہو کتاب تحقیق الکلام ازمولاناعبدالرحمن مبارک پوری وتوضیح الکلام مولانا ارشادالحق اثری حفظہ اللہ وغیرہ )۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ کے نزدیک سلف کی اکثریت کا قول یہ ہے کہ اگرمقتدی امام کی قرات سن رہاہوتو نہ پڑھے اور اگر نہ سن رہاہو تو پڑھے (مجموع فتاوی ابن تیمیہ ۲۳/۲۶۵ )"
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
آپ کی بات سے ہم ظاہری طور پر تو یہ بات مان لیتے ہیں لیکن آپ کی پوسٹس سے ایسا کہیں محسوس نہیں ہو رہا کہ آپ نے یہ سب کچھ اپنے ذہن میں دوسرا کوئی لفظ نہ آنے کی صورت میں مجبورا لکھا۔ غور کیجئے ، آپ لکھتے ہیں:
میں نے اوپر آپ کی بات میں پوائنٹس لگا دئیے ہیں، آپ ان پر غور کریں، نا صرف آپ نے آیت کے مخالف ہونے کی بات کی، بلکہ آپ کے مطابق حدیث کے "مخالف" نہ صرف ایک آیت، بلکہ حدیث کے مخالف حدیث، حدیث کے مخالف صحابہ کرام کے فتاویٰ جات، حدیث کے مخالف مجتہدین کے اجتہاد پر مبنی فتاویٰ جات، اور حدیث کے مخالف ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا امام احمد سے جہری نمازوں میں مقتدی پر قراءت کے عدم وجوب پر اجماع ہے۔ نعوذباللہ
آپ اگر غور کیا جائے تو کیا:
  • اللہ کی کتاب کی کوئی ایک آیت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی ایک حدیث کے مخالف ہو سکتی ہے؟
  • رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث کسی دوسری حدیث کے مخالف ہو سکتی ہے؟
  • کیا کوئی صحابی حدیثَ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف فتویٰ دے سکتا ہے؟
  • کیا کسی مجتہد کا اجتہاد حدیثِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف قابل حجت ہو سکتا ہے؟
  • کیا کوئی اجماع حدیثِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف حجت بن سکتا ہے؟

نہیں تو پھر اپنے الفاظوں پر سنجیدگی سے غور کریں، اور دوسری بات آپ نے جس آیت (وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ﴿٢٠٤﴾۔۔۔الاعراف) کو جس حدیث (لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب‏‏‏)کے خلاف قرار دیا ہے، قرآن کی اس آیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث میں تو تعارض ہے ہی نہیں، اس کی بہترین وضاحت حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ نے "تفسیر احسن البیان" میں بیان کی ہے۔ ملاحظہ کریں:


محترم عقل لڑانے سے بہتر ہے علمی نکات لائیے۔ اصول حدیث میں احادیث معارضہ کی ابحاث موجود ہیں جس سے معلوم ہوتا کہ احادیث و آیات معارض ہوتی ہیں۔
البتہ یہ الگ بات ہے کہ یہ معارضہ صوری ہوتا ہے اس لیے اس کو ختم کرنے کے مختلف طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔ حقیقت میں معارضہ عموما نہیں ہوتا۔
یہاں ایک اور بات بھی بتاتا چلوں کہ آپ نے جو فرمایا کہ:۔
اللہ کی کتاب کی کوئی ایک آیت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی ایک حدیث کے مخالف ہو سکتی ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث کسی دوسری حدیث کے مخالف ہو سکتی ہے؟

یہ راوی کی غلطی کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ اور غلطی ثقہ راوی سے بھی ہو سکتی ہے۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ ثقہ راوی کی روایت کو ان سے زیادہ ثقات رواۃ کی مخالفت پر رد کر دیا جاتا ہے؟ اگر مخالف نہیں ہو سکتی تو پھر یہ کیا ہے؟
لیکن اس پر محمول کرنے کے بجائے نسخ یا تطبیق وغیرہ پر محمول کیا جائے تو وہ الگ بات ہے۔

آپ نے جو حافظ صلاح الدین یوسف صاحب کا اقتباس دیا تو میرے محترم یہ انہوں نے تطبیق کی ایک کوشش کی ہے۔ اگرچہ عبد اللہ بن مسعود رض نے اس آیت سے جو مسئلہ نکالا ہے یہ اس کے بالکل الٹ ہے۔ لیکن یہ حافظ صاحب کا اپنا فہم ہے۔ اس میں کچھ سقم بھی موجود ہیں جیسے اذا قرأ فأنصتوا میں جو تاویل کی ہے وہ الفاظ سے کہیں سے ظاہر نہیں ہوتی۔ میں فی الحال اس مسئلہ پر بحث نہیں کرنا چاہتا۔

اور اگر آپ کو میرے الفاظ سے ایسا کچھ نہیں محسوس ہو رہا تو آپ اسے میری غلطی سمجھ لیجیے۔ مجھے آپ کے سمجھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جہاں مجھ سے غلطی ہوتی ہے وہاں میں تسلیم کر لیتا ہوں۔ جیسا کہ آپ مجھے ان شاء اللہ اور لاحول ولا قوۃ الا باللہ کے الفاظ پر ٹوک کر دیکھ چکے ہیں۔
جو میں نے پوچھا ہے مجھے اس کا جواب عنایت فرمایا جائے۔
 
Top