• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ملت ابراہیم علیہ السلام

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ملت ابراہیم علیہ السلام

حافظ طاہر اسلام عسکری
ذوالحجہ کا مہینہ اسلامی تقویم میں خاص اہمیت رکھتا ہے۔اس ماہ مبارک میں ایک طرف لاکھوں فرزندانِ توحید حجاز مقدس کی پر انوار فضاؤں میں مناسک حج ادا کرتے ہیں تو دوسری جانب کروڑوں کی تعداد میں اربابِ ایمان قربانی کے ذریعہ سنت ابراہیمی کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ حج اور قربانی دونوں ہی حضرت خلیل علیہ السلام کے گھرانے کی یادگارہیں۔
اظہارعبودیت کی ہر دو صورتوں کو اہل اسلام کے مراسم بندگی میں تا قیامت باقی رکھنے میں یقینا خداے حکیم و دانا کی عظیم حکمتیں پنہاں ہیں جنہیں آشکار کر کے فہم وفکر کی گرفت میں لانا ضروری ہے۔ قرآن حکیم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر آخرالزماں حضرت محمد مصطفی ﷺ کو عمومی و اجمالی طور پر اگرچہ تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی اقتدا کا حکم دیا گیا ہے
اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ ہَدَی اللّٰہُ فَبِہُدٰہُمُ اقْتَدِہْ(انعام:90)
لیکن کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار فرستادگان الٰہی میں جناب خلیل اللہ علیہ السلام ہی وہ واحد ہستی ہیں جن کے طریق فکر وعمل کی پیروی کی بہ تصریح ہدایت کی گئی ہے۔چنانچہ دو مقامات پر جناب رسول معظم ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ آپ ملت ابراہیم علیہ السلام کی پیروی کیجیے (النسائ135:، النحل123:)پھر محض ایجابی پہلو سے اتباع ملت ابراہیم کے حکم ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ سلبی اعتبار یہ بھی بتلا دیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ملت سے اعراض و بے التفاتی وہی کر سکتا ہے جو عقل و دانش سے تہی دامن ہو اور حماقت و جہالت کی وادیوں میں سرگرداں ہو
وَمَنْ یَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّۃِ اِبْرٰہٖمَ اِلاَّ مَنْ سَفِہَ نَفْسَہٗ (البقرہ:130)
یہاں غوروفکر کی سطح پر یہ سوال اُبھر کر سامنے آتا ہے کہ وہ ملت ابراہیم کیا ہے، جسے اپنانے کی اِس قدر تاکید کی جارہی ہے؟
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ملت دو عناصر سے ترکیب پذیر ہے۔
ایک یہ کہ اِس کاینات میں سب سے بڑھ کر محبتوں کا مرکز و محور صرف خداوند عالم کی ذات والا صفات کو بنایا جائے۔ محبت و الفت کے یہ جذبات اس قدر بلند ہوں کہ ان کے مقابلے میں عقل و خرد کے ظاہری اقتضا کو بھی لائق اعتنا نہ گردانا جائے۔ مال و دولت اور ملک و وطن تو ایک طرف رہے اگر ضرورت محسوس ہو کہ اب محبوبِ حقیقی کی خوشنودی کے لیے اپنے لخت جگر کے حلقوم پر چھری پھیر دینا ضروری ہے تو اِس میں قطعاً تامل نہ ہو، نہ دل میں جذباتِ پدری اس درجہ ہیجان میں آئیں کہ عشق الٰہی پر غالب آسکیں اور نہ ارادہ و عزم میں کوئی تزلزل پیدا ہو۔ ہاتھ بڑھیں اور اپنے فرزند اور اپنے عصاے پیری کے گلے پر خنجر چلا دیں۔ یہ وہ جذبۂ اطاعت ہے جو خدا مسلمانوں میں پیدا کرنا چاہتا ہے کہ جب یہ معلوم ہوجائے کہ منشاے الٰہی کیا ہے تو پھر سوچنا گناہ ہے۔ اُس وقت ضروری ہوتا ہے کہ مطالبۂ خداوندی کی تکمیل کے سلسلہ میں اگر عزیز ترین تعلقات کو بھی چھوڑنا پڑے تو چھوڑ دیئے جائیں۔
ملت ابراہیم کا دوسرا عنصر یہ ہے کہ خدا کے دشمنوں اور اُن کے معبودوں سے کھلم کھلا اظہارِ لاتعلقی کیا جائے۔ یہ امر قابل غور ہے کہ حضرت خلیل علیہ السلام جب خلعت نبوت سے سرفراز کیے گئے تو اُن کے گرد و پیش کی فضا کیسی تھی؟ کس درجہ شرک کا دور دورہ تھا، پوری قوم بت پرست تھی اور حکومت وقت اُس کی پشت پر۔ مگر انہوں نے کمالِ جرأت کے ساتھ کہہ دیا کہ میں تم سے اور تمہارے عقاید سے کاملاً بیزار ہوں اور اعلانِ توحید کے بعد اب میں تمہارا کھلا دشمن ہوں۔ مجھ سے کسی رعایت کی توقع نہ رکھنا۔ (الممتحنۃ:4) چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیاتِ طیبہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انہوں نے کبھی باطل کے سامنے اور قوت کے مقابلہ میں اپنا سر نہیں جھکایا اور کبھی مخالفت اور عناد کی پروا نہیں کی۔ ملت ابراہیم کے مؤخر الذکر پہلو کے تذکرہ میں قرآن مجید کے اسالیب بیان سے اربابِ تفسیر نے ایک نقطہ یہ بھی اخذ کیا ہے کہ اظہار برأت میں کفار و مشرکین کو اُن کے معبودوں پر مقدم رکھا جائے گا
وَاَعْتَزِلُکُمْ وَمَا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ (مریم:48)
یہ نقطہ روشن تر قرآن حکیم کے متعدد مقامات پر بیان ہوا ہے۔
ان لمحات میں جبکہ ڈیڑھ ارب اہل اسلام حج اور قربانی کی صورت میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی یادگاروں کو قائم کرنے جارہے ہیں، ہم میں سے ہر ایک کو سوچنا چاہیے کہ
کیا ہمارے قلب و ذہن میں عشق و محبت ِ الٰہی کے پاکیزہ خیالات دنیا کی تمام محبتوں پر اس درجہ غالب آچکے ہیں کہ اپنی ہر متاعِ عزیز کو بے تامل خدا کی راہ میں قربان کرسکیں؟
اور کیا ہم کامل شعور سے اہل شرک اور اُن کے معبودانِ باطلہ سمیت ہر طرح کے طاغوت سے بہ آواز بلند بے زاری و لاتعلقی کا اعلان کرنے پر آمادہ و تیار ہیں؟
عالمی سطح پر حق و باطل کی موجودہ معرکہ آرائی میں ایک طرف اپنا تن من دھن نچھاور کرنے والے مٹھی بھر شوریدہ سر ہیں اور دوسری جانب پوری دنیا کا کفر و طاغوت اور الحاد و ارتداد کا شکار اس کے کارندے بھی ہیں، اسی صورتحال میں یہ سوال اور بھی اہمیت اختیار کرجاتا ہے۔ یہی حج و قربانی کا اصل پیغام ہے اور یہی ملت ابراہیم کی اتباع کا حقیقی تقاضا!!
 
Top