• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ملحدوں سے بحث مباحثہ

شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
85
ملحدوں سے بحث مباحثہ

فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پہ جذبۂ ایمانی سے سرسار کچھ سادہ لوح مسلم اپنی کم علمی کے باوجود ملحدوں سے بحث مباحثہ میں لگے رہتے ہیں۔ ٹھوس دینی و دنیاوی علم کے بغیر اس بحث مباحثے کے نتیجے میں کسی ملحد کو تو ایمان والا بنتے نہیں دیکھا البتہ بعض ایمان والوں کے ایمان کے لالے پڑتے دیکھا ہے۔

فیس بک پہ مختلف فورم چلانے والے ملحد پیشہ ور اور مکمل تربیت یافتہ ہیں جو وجود باری تعالیٰ‘ پیغمبراسلام ﷺ ‘ قرآن اور احادیث کے خلاف شکوک و شبہات پیدا کرنے میں مہارت رکھتے ہیں اور بڑی آسانی سے نا پختہ اذہان و ایمان کے حامل کم علم والے سادہ لوح مسلمانوں کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کر دیتے ہیں۔

لہذا اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ کل تک جوشخص اسلام کا دفع کر رہا تھا آج وہ خود ملحدوں کے صف میں کھڑا ہے۔

جو لوگ پختہ ایمان‘ علمی اور عقلی دلائل کے بغیر ایسے فورم پہ جہاں اللہ‘ رسول ﷺ اور قرآن و احادیث کا تمسخر اڑایا جارہا ہو‘ گھنٹوں گزارتے ہیں وہ اصل میں اپنی جذبۂ ایمانی کا ثبوت نہیں دیتے بلکہ اللہ سبحانہ و تعالٰی کی حکم عدولی کرتے ہیں ۔۔۔ کیونکہ اللہ تعالٰی کا حکم ہے:

وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّـهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ۚ إِنَّكُمْ إِذًا مِّثْلُهُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا ﴿١٤٠﴾سورة النساء

’’ اور اللہ تعالیٰ تمہارے پاس اپنی کتاب میں یہ حکم اتار چکا ہے کہ تم جب کسی مجلس والوں کو اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرتے اور مذاق اڑاتے ہوئے سنو تو اس مجمع میں ان کے ساتھ نہ بیٹھو! جب تک کہ وه اس کے علاوه اور باتیں نہ کرنے لگیں، (ورنہ) تم بھی اس وقت انہی جیسے ہو، یقیناً اللہ تعالیٰ تمام کافروں اور سب منافقوں کو جہنم میں جمع کرنے واﻻ ہے۔۔‘‘

ملحد‘ دہریہ‘ سیکولر‘ لبرل وغیرہ شیطان کے چیلے ہیں۔ ان کا کام اللہ کے بندوں کو شکوک و شبہات میں ڈال کر گمراہ کرنا ہے جس کیلئے وہ قرآن کی متشابہ آیتوں‘ ضعیف و موضوع احادیث و روایات وغیرہ کا سہارا لیتے ہیں۔

جسے اللہ تعالٰی نے ہمیں پہلے ہی بتا دیا ہے:

… فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ … ﴿۷﴾سورة آل عمران

’’ … پسجن کے دلوں میں کجی ہے وہ اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں تاکہ فتنہ برپا کریں اور من مانی تاویلیں کریں … ۔‘‘

انسانی عقل محدود ہے۔ ہم اپنی محدود عقل سے ملحدوں کے اعتراجات کا جواب دینے سے قاصر ہیں اور اگر ہم جواب دے بھی دیں تو وہ کب مانیں گے بلکہ ایک کے بعد ایک اپنے پر فریب اعتراجات میں ہمیں پھانسنے کی کوشش کریں گے۔ لہذا ان سے زیادہ الجھنے کی صورت میں یا انکی فورم / مجلس میں زیادہ وقت گزارنے سے ہم خود شکوک و شبہات کا شکار ہو سکتے ہیں۔

اور اگر ان شکوک و شبہات سے نکلنے کی فوراً ہی سعی نہ کی جائے تو شیطانی وسوسے اسے بڑھاتے رہتے ہیں اور ایک مرحلے پہ یہ اتنا تباہ کن اور خترناک ہوتا ہے کہ انسان اپنے خالق کی پہچان کھو دیتا ہے اور پھر خالقِ کائنات کا منکر اور ملحد بن جاتا ہے۔

اسی لئے اللہ سبحانہ و تعالٰی نے اہل ایمان کو ایسے مجلسوں سے دور رہنے کا حکم دیا ہے جہاں شک و شبہ پیدا کرنے والے لوگ ہوں‘ جہاں شک و شبہ کا بیان ہو‘ جہاں اسلام کا‘ قرآن و سنت کا تمسخر اڑایا جاتا ہو۔

لہذا اگر کسی کے دل میں شک و شبہ پیدا ہوجائے تو سب سے پہلے ایسی مجلس فورم میں جانا ترک کرے‘ علماء حق کی صحبت اختیار کرے اور ان سے اپنا مسٔلہ بیان کرے‘ استغفار کی کثرت کرے‘معوذتین پڑھے اور دعاؤں کا سہارا لے۔

دلوں کی کجی دور کرنے کیلئے ذیل کی دعائیں ہیں:

رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ ﴿٨﴾سورة آل عمران

’’ اے پروردگار جب تو نے ہمیں ہدایت بخشی ہے تو اس کے بعد ہمارے دلوں میں کجی نہ پیدا کر دیجیو اور ہمیں اپنے ہاں سے نعمت عطا فرما تو تو بڑا عطا فرمانے والا ہے۔‘‘

... يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ...

’’ اے دلوں کو الٹنے پلٹنے والے ! میرے دل کو تو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ ۔‘‘

اور سب سے اہم ہے قرآن کریم میں غرق ہونا۔ جو شکوک و شبہات کی مرض سے نکلنا چاہتا ہو وہ اخلاص کے ساتھ قرآن کریم سے شفاء حاصل کرے کیونکہ قرآن شفاء ہے‘ اس میں ایسی روشن دلیلیں اور قطعی براہین ہیں جو حق کو باطل سے بالکل واضح کر دیتی ہیں جن سے شک و شبہ کا روگ ختم ہو جاتا ہے لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ اسے سمجھ کر پڑھا جائے‘ اس میں تدبر و تفکر کیا جائے‘ اس سے نصیحت و عبرت حاصل کی جائے اور اس کے احکام کی مکمل پابندی و تابعداری کی جائے۔

ایسے لوگ جو ملحدوں کی فورم پہ جاکر ملحدانہ شکوک و شبہات میں پڑ گئے ہیں وہ مایوس نہ ہو‘ ان کیلئے بھی رب کے دروازے کھلے ہیں۔ پس لوٹ آئیں اپنے رب کی طرف:

قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّـهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ﴿٥٣﴾ سورة الزمر

(اے نبیؐ) کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ، بالیقین اللہ تعالیٰ سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے، واقعی وه بڑی بخشش بڑی رحمت واﻻ ہے

لوٹ آئیں اپنے رب کی طرف کیونکہ:

اللہ تعالٰی فرماتا ہے: جب میرا بندہ میری جانب ایک بالشت قریب ہوتا ہے تو میں اس کی جانب ایک ہاتھ آتا ہوں‘ اور جب وہ میری جانب ایک ہاتھ آتا ہے تو میں اس کی جانب دو ہاتھ آتا ہوں ‘ اور جب وہ میرے پاس چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔ ( حدیث قدسی )

آخر میں اللہ سبحانہ و تعالٰی سے دعا کرتا ہوں کہ مجھے اور آپ سب کو اپنے دین حق پر استقامت اور ثابت قدمی عطا فرمائے اور فتنۂ الحاد سے ہماری اور ہماری ذریت کی حفاظت فرمائے۔ آمین
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
"خدا مرچکا ہے" کہنے والے کے پست افکار

(زاہد صدیق مغل صاحب)
درج بالا مشہور و معروف جملہ نطشے کا ہے۔ نطشے کو پوسٹ ماڈرن ازم کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ عموما لوگ اس کے خیالات سے واقفیت نہیں رکھتے، آئیے اس کا ایک خلاصہ ملاحظہ فرمائیے کہ ایسی گھٹیا بات کیسے پست خیالات کا نتیجہ تھا:
- کسی معروضی حقیقت کا کوئی وجود نہیں۔ انسان ایک ایسی کائنات کا باسی ہے جو بے مقصد حادثاتی طور پر وجود میں آئی اور جہاں لامعنویت کا راج ہے
- ہیومن بینگ جس کلی تناظر پر یقین رکھتا ہے اس کے مفروضات لازماً خود اختیاری اور حادثاتی ہوتے ہیں۔ یہ تاریخ سے اخذ نہیں کیے جاتے بلکہ تاریخی مطالعہ اور تجربہ کا مقصد ان حادثاتی تناظراتی مفروضات کا جواز فراہم کرنا ہوتا ہے (نطشے ھیگل کے تاریخی نظرئیے کا ناقد تھا)۔
- ہیومن بینگ پیہم وہ بنتا رہتا ہے جو وہ بنتا رہنا چاہتا ہے۔ اسی معنی میں وہ اپنا وجود خود تخلیق کرتا ہے۔
- حق اور زندگی میں تصادم ہے۔ حق یہ ہے کہ حقیقت مطلق کا کوئی وجود نہیں ہے اور ہر تناظر لغو، لایعنی اور حادثاتی ہوتا ہے۔ لیکن ہیومن بینگ اس حقیقت کو قبول کر کے زندہ نہیں رہ سکتا، وہ لازماً اپنے تناظر اور اس کے بنیادی مفروضات کو معروضی حق تصور کرکے معنی دینے پر مجبور ہے۔ لہٰذا ہیومن بینگ کے لیے لازم ہے کہ لامحالہ لایعنی تناظر کو حقیقت مطلق تصور کرے۔
- ہر تناظر لازماً دیومالائی ہوتا ہے لیکن اپنے دیومالائی تناظر کو حق تسلیم کر کے ہیومن بینگ شرف حاصل کرتا ہے۔ تاریخ ساز وہی عظیم ہیرو ہوتے ہیں جو کسی دیومالائی حادثاتی تناظر کے استحکام اور فروغ کے لیے عظیم قربانیاں دیتے ہیں اور کارہائے نمایاں انجام دیتے ہیں۔
- نطشے عیسائیت کا سخت دشمن تھا، اسکے خیال میں عیسائیت غلامانہ اخلاقیات کا اظہار ہے کیونکہ وہ حاکمانہ اخلاقیات یعنی قوت کے اظہار کو اچھا نہیں سمجھتی۔ نطشے سفاکانہ اخلاقیات کا مداح تھا اور مذھبی اخلاقیات کو انسانیت پر بے کار کا بوجھ قرار دیتا ہے (اخلاقیات کو وہ اونٹ پر لدا ہوا بوجھ قرار دیتا ہے)
- عیسائیت کی آفاقی حق کے بیان کی جستجو سے جمہوریت اور سوشل ازم نے جنم لیا اور یہ دونوں بھی غلامانہ اخلاقیات کا مظہر ہیں کیوں کہ ان کی بنیادی تعلیمات بھی معاشرتی مساوات کو فروغ دینے والی ہے۔ نطشے کے خیال میں اس کے دورکی معاشرت ایک ذلیل اور پس ماندہ ہجومی انفرادیت تعمیر کرکے اعلیٰ اور ارفع جذبات اور ان کے اظہار کو ناممکن بنا دیتی ہے۔
- اس کے خیال میں سائنس بھی انسانی عظمت اور شوکت کو فروغ دینے کا ذریعہ نہیں بن رہی کیوں کہ وہ ایسے آفاقی اصولوں کے ادراک کی جستجو کر رہی ہے جو واقعتاً حق ہوں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ حق کا کوئی معروضی وجود نہیں ہے اور بقول نطشے خدا مر گیا ہے۔ خدا کی ذات پر اب یقین نہیں کیا جا سکتا۔ انسان نے خدا کا تصور آفاقی معنی کی تلاش میں وضع کیا تھا مگر اب اس کے بغیر بھی انسان یہ کام اس سے بہتر طریقے پر کرسکتا ہے۔
- شیر کی صحرا نوردی بے مقصد ہوتی ہے اور بقول نطشے یہی دورحاضر کا المیہ ہے۔ اس دور میں انسان کسی حقیقت پر ایمان و یقین نہیں رکھ سکتا۔ دورِ حاضر کا المیہ یہ ہے کہ انسان ایک بے مقصد اور لامعنوی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
- اس لامعنویت سے نجات نظریہ قوم پرستی فراہم کرتی ہے جو قوم پرستی شوکت اور عظمت کی پرستش سکھاتی ہے۔ وہ ایک نئی اشرافیہ تخلیق کرتی ہے جو انسان کے لیے ممکن بناتی ہے کہ وہ بے راہ روی اور گمراہی کی ایک کے بعد دوسری حد پھلانگتا چلا جائے۔ یہی نطشے کا تصور ارتقا ہے۔ ضلالت میں ترقی کرتے چلے جانے کی جدوجہد اور تکبر کی مسلسل جستجو انسان کو فوق البشر (Ubermensh) بنا دیتی ہے اور یہی Ubermensh (سپرمین) یورپی قوم پرستی کی تجسیم ہے۔
- خدا کی موت کے نتیجے میں یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ انسان تمام جستجو اور کاوش کو ترک کر دیں۔ وہ تمام اقدار اور مقاصد کے حصول کی جدوجہد کو ترک کر کے محض ایک آرام دہ زندگی گزارنے پر اکتفا کریں۔ موجودہ معاشرے میں اکثریت یہی رویہ اختیار کرتی ہے اور نطشے ایسے افراد کو آخری یا اختتامی آدمی کہتا ہے۔ عوام اسی اختتامی آدمی کو اپنا مثالیہ تصور کرنے لگے ہیں۔
- اس المیہ سے ابدی نجات تو ممکن نہیں لیکن اگر انسان کو یہ احساس ہو جائے کہ خدا کی موت کے ذریعے وہ حقیقی آزادی حاصل کر گیا ہے تو وہ مستقبل کے اقدار تخلیق کر سکتا ہے۔ وہ ایک ایسا سنہرا حیوان بن سکتا ہے جو پوری معصومیت کے ساتھ تسخیر کائنات کا عمل جاری رکھے۔ انسان جان گیا ہے کہ کوئی حقیقت وجود نہیں رکھتی اور چوں کہ کوئی حقیقت موجود نہیں لہٰذا ہر وہ چیز ممکن ہے جس کی انسان خواہش رکھتا ہے۔ احساس گناہ سے آزاد ہو کر انسان خود خدا بن گیا ہے یا بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
عیسائیت کی جگہ نطشے نے جس آفاقی نظریے کی وکالت کی ہے اس کو "Will to Power" یعنی قوت کی پرستش کا نام دیا ہے۔ اس نظریہ کے مطابق:
۱۔ انسان کی فطرت حیوانی ہے۔
۲۔ وہ فطرتاً تسخیر کائنات اور تخریب کائنات کا خواہش مند ہے۔
۳۔ چوں کہ کوئی آفاقی حقیقت موجود نہیں، انسان مکمل طور پر آزاد ہے کہ وہ تخلیق اور تسخیر کائنات کا جو طریقہ اختیار کرنا چاہے کرے
۴۔ انسان قادرمطلق ہے اور قائم بالذات ہے۔ اس کی فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے دعوائے الوہیت کا مستقل اظہار کرتا رہے۔ اس اظہار الوہیت کا کوئی اور مقصد نہیں اور وہ خود اپنا مقصد ہے۔
- فوق البشر اس اظہار الوہیت کی شخصیت کاری ہے جو شعوری طور پر اقدار تخلیق کرتا ہے۔ وہ کبھی خدا کے وجود پر یقین نہیں رکھتا اور وہ تمام قوانین سے بالاتر ہوتا ہے۔
 
Top