• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ملحدین کا اعتراض : كیا قران نے امرؤ القیس كے اشعار كی نقل كی ہے؟

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
كیا قران نے امرؤ القیس كے اشعار كی نقل كی ہے؟


ملحدوں كا مستشرقین سے نقل كردہ ایك شبہہ اور اس كا جواب

شبہہ (جو ہر طرح كی خیانتوں جھوٹ اور فریب سے بھر پور ہے) :امرؤ القیس قبلِ اسلام کا ایک شاعر ہے جس کا اِنتقال سن 540ء میں ہؤا (یعنی آنحضرت محمد کی وِلادت سے بھی تِیس برس پہلے اور نزول وحی سے ستر سال پہلے)۔ اُس کا ایک مشہور قصِیدہ ہے جس سے قُرآنِ مجید میں بہُت سارے اِقتِباسات آئے ہیں۔ اِس کا ثبوت یہ چند اشعار ہیں:

دنت الساعة وانشق القمر عن غزال صاد قلبي ونفرأحورٌ قد حِرتُ في أوصافه ناعس الطرف بعينيه حوَر مرّ يوم العيد بي في زينة فرماني فتعاطىفعقر بسهامٍ من لحاظٍ فاتك فرَّ عنّي كهشيم المحتظر وإذا ما غاب عني ساعة كانت الساعة أدهى وأمركُتب الحُسن على وجنته بسحيق المسك سطراً مختصر عادةُ الأقمارِتسري في الدجى فرأيتُالليل يسري بالقمر بالضحى والليل من طرته فرقهذا النور كم شيء زهرقلت إذ شقّ العذار خده دنت الساعة وانشق القمر

پہلے شعر کا پہلا مصرعہ سُورة القمر (54)، آیت 1 میں آیا ہے: اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَا نْشَقَّ القَمَرُ۔تیسرے شعر کا دُوسرا مصرعہ بھی سُورة القمر (54) کی آیت 29 میں آیا ہے:

فَنَادَوْا صَاحِبَهُمْ فَتَعَاطَى فَعَقَرَ۔

چوتھے شعر کا دُوسرا مصرعہ بھی اِسی سُورةٔ مبارکہ میں آیا ہے، آیت 31: فَكَانُوا كَهَشِيمِ المُحْتَظِرِ .


آٹھویں شعر کا پہلا مصرعہ سُورة الضحیٰ کی آیات 1 اور 2 میں آیا ہے: وَالضُّحَى وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَى .

------------------





اب اس كا جواب ملاحظہ فرمائیے:


(1) اشعار ان اشعار كا كوئی وجود سرے سے عربی زبان وادب كی كتابوں میں نہیں پایا جاتا!!

(2) دیوان امرؤ القیس كی مختلف طبعات موجود ہیں، ان میں سے كسی میں بھی یہ ابیات موجود نہیں ہیں!!

(3) عربی ادب كا كوئی بھی اسكالر اور اسپشیلسٹ، اور خاص طور پر امرؤ القیس كے اشعار كا اسپیشیلسٹ ہو، اچھی طرح جانتا ہے كہ امرؤ القیس كوئی غیر معروف شاعر نہیں تھا، نابغہ روز گار تھا، لہذا اس كے اشعار كو جو توجہ ملی ہے شاید ہی كسی شاعر كو ملی ہو، محدثین اور قدماء نے اس كے اشعار جمع كرنے، روایت كرنے اور اس كی نشر واشاعت پر بڑی محنت صرف كی ہے، اور اس كے دیوان كے كئی مشہور نسخے ہیں، جیسے الأعلم الشنتمري كا نسخہ، الطوسي كا نسخہ، السكري كا نسخہ، البطليوسي كا نسخہ، ابن النحاس كا نسخہ وغیرہ وغیرہ!! ان ابیات كا ذكر ان میں سے كسی میں بھی موجود نہیں ہے! اب یہ امرؤ القیس كے اشعار كے ماہرین اس كے اشعار كو زیادہ جانتے ہیں یا آپ كے خائن اور جھوٹے پروپیگنڈے باز نام نہاد نقل باز محققین جن سے آپ نے یہ اشعار نقل كیے ہیں؟؟؟ (یاد رہے كہ یہ جھوٹے محققین یہ سارے اعتراضات مستشرقین سے نقل كرتے ہیں)

(4) اس دور میں بھی امرؤ القیس كے اشعار اور دواوین پر نیز جو كچھ اس كی طرف منسوب كیا گیا ہے اس پر كافی ریسرچ ہوئی ہے، ان میں سے كسی بھی رسرچ میں ان ابیات كا ذكر سرے سے موجود نہیں۔۔ نہ اس طور پر كہ یہ اس كے اشعار ہیں نہ اس طور پر كہ یہ اس كی جانب منسوب كردیے گئے ہیں!!

(5) امرؤ القیس اور دیگر مشہور شعراء كی جانب پورے پورے قصائد منسوب كردیے گئے ہیں چہ جائیكہ چند اشعار، بلكہ ایسے لمبے چوڑے قصے تك گھڑ لیے گئے ہیں جن كا كوئی سر پیر ہی نہیں! اور مشہور شعراء كی جانب اشعار كا منسوب كیا جانا ایك ایسی حقیقت ہے جس كا ہم آج تك سامنا كررہے ہیں!! حماد الراویۃ نامی ایك معروف اشعار كا ناقل ہے، اور اسی كی طرح خلف الاحمر! ان كا كام ہی یہ تھا كہ یہ اشعار گھڑتے اور قدیم شعراء كے نام سے بیان كرنا شروع كردیتے۔۔۔ ابن عبد ربہ نے اپنی كتاب "العقد الفرید" میں نشاندہی كے ساتھ ان من گھڑت اشعار كی مثالیں دی ہیں۔۔۔ بلكہ خود حماد كا قول نقل كیا ہے، (فخریہ كہتا ہے) كہ كوئی شاعر ایسا نہیں ہے جس كے اشعار میں میں نے اپنے اشعار كی ملاوٹ نہ كی ہو۔۔اسی طرح كی بات الصفدی نے اپنی كتاب "الوافی بالوفیات" میں بھی نقل كی ہے۔۔۔ دراصل ان لوگوں كو قدماء كے كلام پر قرار واقعی دسترس بھی حاصل تھی چنانچہ نہ انہیں كے الفاظ اور اسالیب لے كر كچھ اس طرح اشعار گھڑتے تھے كہ اچھے اچھے فرق نہ كرپاتے! آج كی طرح نہیں كہ بھونڈے اور بے وزن اشعار علامہ اقبال كی طرف منسوب كردیے جائیں!


تو جو اشعار آپ نے ذكر كیے ہیں، اگر كسی اور موضوع كی كسی كتاب میں امرؤ القیس كی طرف بلا كسی سند، دلیل اور حوالے كے منسوب كردیے گئے ہیں تو كون سی تعجب كی بات ہے؟


(6) بہت سے ایسے اشعار جو قدماء كی طرف كہیں منسوب كیے گئے ہیں، دوسری جگہ بالسند ان كے اصل شاعر كا نام بھی مل جاتا ہے۔۔۔

روح المعانی میں آلوسی، رازی كے حوالے سے اسی طرح كے كچھ اشعار پر تبصرہ كرتے ہوئے كہتے ہیں كہ جس كو عرب كے اشعار كی ذرہ برابر معرفت ہوگی وہ اچھی طرح جانتا ہے كہ اس كا شاعر مولد ہے (بعد كی پیداوار ہے)


(7) اہل عرب امرؤ القیس كے كلام سے آپ اور مجھ سے زیادہ واقف تھے، یہ كوئی پوشیدہ خزانہ نہیں تھا كہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم كو مل گیا ہو! اگر ایسا ہوتا تو اہل عرب فورا آپ پر كلام كی چوری كا الزام لگاتے!! آپ كی پوری زندگی میں آپ پر ایسا كوئی الزام نہیں لگا!


(8) ان اشعار كی ركاكت، بے معنی پن، تركیب كا پھسپھسا پن ان كی چغلی كھا رہا ہے۔۔بھلا الساعۃ سے كیا مراد ہے؟؟ قیامت؟؟ اطلاعا عرض ہے كہ وہ قیامت كو نہیں مانتے تھے! پورا قران قیامت كے سلسلے میں دلائل سے بھرا ہوا ہے! اگر وہ مانتے ہوتے تو اس كی ضرورت نہیں تھی۔۔ پھر اس انشقاق قمر سے كیا مراد ہے؟؟ انشقاق قمر كا كوئی واقعہ جاہلیت میں ہوا تھا؟؟ اگر ساعت سے ملاقات كی گھڑی مراد ہے تو اس كے ساتھ انشقاق قمر كا واقعہ ملانے سے بڑی ركاكت اور كیا ہوگی؟؟؟ انشقاق قمر سے اور كیا مراد ہوسكتا ہے؟ بھلا محبوب كے حسن كو بھی انشقاق قمر سے تشبیہ دی جاتی ہے؟؟ ہوسكتا ہے مستشرقین كے یہاں دی جاتی ہو، عربی میں تو ایسی كوئی احمقانہ تعبیر نہیں پائی جاتی۔۔۔امرؤ القیس كے اشعار ایسے ہوتے ہیں كہ اگر عربی نہ جاننے والا بھی سنے تو جھومنے لگے۔۔ اس كے مقابلے میں یہ اشعار بالكل ویسے ہی ہیں، جیسے فیس بك پر آئے دن علامہ اقبال كے نام سے ہمیں دیكھنے كو ملتے ہیں!!اس كا بھلا اقتربت الساعۃ انشق القمر سے كیا مقابلہ؟؟

(9) اسی طرح فتعاطی فعقر والے اشعار میں صاف طور پر یہ تعبیر قران سے چرا كر منسوب كی گئی ہے! ذرہ برابر بھی كوئی میل نہیں كھاتی اس مقام سے!! ایك طرف كہا رمانی، مجھے تیر كا نشانہ بنایا، پھر كہا تعاطی جب تیر چلا ہی دیا گیا تو اب كس چیز كی تعاطی ہو رہی ہے؟؟ اور كوچیں كیوں كاٹی جارہی ہیں؟؟ حق یہ ہے كہ یہاں یہ تعبیر صرف شعر كے قبح میں اضافہ كررہی ہے، كیونكہ یہ انتہائی بے محل ہے، اور ویسے بھی غزل میں كونچیں كاٹنے جیسی كوئی تعبیر نہیں استعمال ہوتی!!اور لفظ عقر ذبح كرنے كے معنی میں اونٹ اور گھوڑے كے سوا استعمال ہوتا ہی نہیں لغت میں۔۔ اگر اس سے مراد زخمی كرنا ہو، جیسا كہ اكثر غزل كے اشعار میں تیر نگاہ سے زخمی كرنے كی بات كی جاتی ہے، تو اس ركاكت اس كے من گھڑت ہونے كا اعلان كررہی ہے۔۔۔جبكہ قران میں یہ تعبیر صالح علیہ السلام كی اونٹنی كے عقر كے لئے استعمال ہوئی ہے، اور اپنے محل میں ہے!!

(10) یہی حال ہشیم المحتظر والے شعر كا ہے۔۔۔ ہشیم محتظر كا معنی كیا ہوتا ہے؟؟ اس كا معنی ہوتا ہے باڑے وغیرہ میں بكریوں كے سموں سے روندا ہوا چارہ یا بھوسہ! فر عنی كہشیم المحتظر كا معنی ہوا مجھ سے بھاگ كھڑا ہوا باڑے میں روندے ہوئے چارے كی طرح؟؟ یہ كون سی تشبیہ ہے؟؟ صاف ظاہر ہے كہ بس الفاظ كی قوت كے سبب اسے قران سے چرا كر اشعار میں فٹ كیا گیا اور امرؤ القیس كی طرف منسوب كردیا گیا!!اس كا {إنا أرسلنا عليهم صيحة واحدة فكانوا كهشيم المحتظر} سے كیا مقابلہ؟؟


(11) جہاں سے یہ شعر نقل كیا گیا ہے (میں كتاب كا نام جانتا ہوں اور وہ بہت بعد كی ہے، اس میں سند بھی نہیں ہے، اور نہ مقصود شعروں كی تحقیق وغیرہ ہے چنانچہ) وہاں یہ شعر اس طرح ہےاقتربت الساعة وانشق القمر من غزال صاد قلبي ونفر ناقل نے اس كی بے وزنی كو چھپانے كے لئے اقتربت كو دنت میں بدل دیا! :D

(12) باقی یہ سارے دلائل اپنی جگہ ہیں كہ الفاظ تو ظاہر ہے قران عربی ہی كے استعمال كرے گا عبرانی كے تو نہیں كرے گا!! نیز ذرا باقی آیات كے مصادر بھی تلاش كرلائیں!

یہ من گھڑت كہانی آج كی نہیں ہے بلكہ انیسویں صدی كے آغاز ہی سے مستشرقین سے خرافات پھیلارہے ہیں!! تنویر الافہام كے نام سے ایك كتاب نصرانیت كی دعوت كے لئے لكھی گئی، اسی سے یہ اشعار چرائے گئے ہیں!ان پر تبصرہ كرتے ہوئے علامہ رشید رضا مصری فرماتے ہیں محال ہے كہ یہ اشعار كسی عربی كے ہوں، بلكہ عربی كے كسی مبتدی اور تلمیذ كے ظاہر ہوتے ہیں، لغت كے اعتبار سے انتہائی ركیك اور مخنثین كی تہذیب كے حاملین كے! اپنی ركاكت اسلوب وعبارت نیز انكی عربی اور موضوع كی كمزوری كے سبب عربی بھی ان سے بری ہے چہ جائیكہ یہ جاہلی شعرا كے اشعار ہوں۔۔۔ (مزید اشارہ كیا ہے كہ یہ مردوں سے لواطت کرنے والوں كے اشعار ہیں، اس لئے كہ اس میں محبوب كا مذكر ہونا صاف ظاہر ہورہا ہے، جبكہ امرؤ القیس كیا كوئی بھی جاہلی شاعر ایسا نہیں تھا۔۔ ) [مجلة المنار7/الجزء 5/ص161] مزید بھی ان اشعار میں ركاكت كے بہت سارے پہلو ہیں۔۔ جنہیں ذكر كركے میں آپ كو بوجھل نہیں كرنا چاہتا! لہذا عقلا ونقلا كسی طور پر بھی یہ امرؤ القیس كے اشعار ہو ہی نہیں سكتے!!

تو جناب یہ ہے ملحدین كی تحقیقات كا حال! ان كی دال جھوٹ، فریب، خیانت، دجل اور مغالطہ بازی كے بغیر تو گلتی ہی نہیں!!

حوالہ
 
Top