• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ممنوع اور مشروع وسیلہ کی حقیقت

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
ایک مثال​

اِس معاملے میں تمہاری مثال تو اُس مریض جیسی ہے جو علاج کی نیت سے کسی طبیب کے پاس جائے اور طبیب کو اس حالت میں دیکھے کہ وہ خود بیمار ہے اور کسی دوسرے طبیب سے علاج کرارہا ہے 'توکیا اس مریض کا فرض نہیں کہ اپنا علاج بھی اُسی طبیب سے کرالے جس کے پاس اپنے طبیب کو علاج کراتے پایا ہے ۔کیونکہ اس کاطبیب اگر ذرا بھی مفید ہوتا تو پہلے خود کو فائدہ پہنچاتا اور دوسرے طبیب کا محتاج نہ رہتا ۔
جن شخصیتوںکو تم اپنے لئے پکار رہے ہو وہ تو خود اﷲکی رحمت کے اُمیدوار ہیں 'اﷲکے عذاب سے ڈرتے ہیں اور اپنے اعمال صالحہ کے ذریعہ اﷲکا تقرب حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کررہے ہیں ۔تو آخر تم بھی انہیں کی طرح کیوں نہیں کرتے'تاکہ جس طرح وہ اﷲتک پہنچ گئے 'تم بھی پہنچ جاؤ۔
ذرا سوچو!جن لوگوں کو تم اپنا واسطہ بنارہے ہوکیا انہوں نے اپنے توسُّل میں کسی کو واسطہ بنایا تھا ؟انہوں نے اﷲتک پہنچنے کے لئے صرف اپنے اعمال صالحہ کو وسیلہ بنایا تھا؟
بلاشبہ!اس کا صرف ایک ہی جواب ہے'کہ انہوں نے اپنے اعمال صالحہ کو وسیلہ بنایا تھا ،جن کے ذریعہ وہ اﷲکا تقرب چاہتے تھے 'توآخر تم کو کیاہوگیا ہے کہ انہیں کی طرح تم بھی اپنے نیک اعمال کو تقرب الٰہی کا ذریعہ نہیں بناتے ؟جب تم کو ان بزرگوں سے نسبت ہے اور تم ان کی بزرگی پر پورا بھروسہ بھی رکھتے ہو تو آخر ان کی اقتداء کیوں نہیں کرتے ؟ایک طرف اُن سے عقیدت دوسری طرف ان کی مخالفت ؟تمہاری یہ دورنگی صاف چغلی کھارہی ہے کہ تم کونہ ان سے محبت ہے نہ عقیدت 'اگر تمہاری محبت سچی ہوتی تو ضرور تم ان کو اپنا پیشوا بناتے اور اﷲتک پہنچنے کے لئے انہیں کی راہ کو اختیار کرتے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
وسیلہ کی قسمیں​

مطلق وسیلہ لفظ شرعی اور غیر شرعی دونوں پر بولاجاتا ہے 'ایسی صورت میں ہمارے لئے ضروری ہے کہ صحیح دلائل سے وسیلہ کے تمام اقسام کو اچھی طرح پہچان لیں تاکہ اچھے اور برے میں تمیز کرسکیں اور اپنے لئے شرعی وسیلہ کو اختیار کرسکیں ۔پھر ہم اپنے اچھے اور برے عمل کے ذمہ دار ہوں گے۔یعنی فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرہٗ o وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ o
وسیلہ کی دوقسمیں ہیں : مشروع اور ممنوع
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
شرعی وسیلہ کی تعریف​

شرعی وسیلہ جس کا اﷲنے ہمیں اپنی کتاب میں حکم فرمایا اور رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم نے جس کی وضاحت فرمائی ہے۔یعنی اﷲکا تقرب حاصل کرنے کے لئے شریعت کے موافق اعمال صالحہ اور طاعات کو ذریعہ بنانا جن کو اﷲپسند کرتا ہے اور راضی ہے اور اﷲصرف انہیں باتوں کا حکم فرماتا ہے جنہیں پسند کرتا ااور جن سے وہ راضی ہے۔
مشروع وسیلہ کی تین قسمیں ہیں :
۱۔ مومن کا اﷲتعالیٰ سے وسیلہ چاہنا اس کی برتر ذات اس کے اسماء حسنیٰ اور صفات عالیہ کے ذریعہ ۔
۲۔ مومن کا اﷲتعالیٰ سے وسیلہ چاہنا اپنے اعمال صالحہ کے ذریعہ ۔
۳۔ مومن کا اﷲتعالیٰ سے وسیلہ چاہنا اپنے حق میں مومن بھائی کی دعا کے ذریعہ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
مشروع وسیلہ کی پہلی قسم​

اﷲکی بلند ذات 'اُس کے اسما ئِ الحسنیٰ اور صفات عالیہ کے ذریعہ اُس کا وسیلہ چاہنا
اِس مقبول ترین وسیلہ کی تعریف یہ ہے کہ اﷲرب العزت سے دُعا مانگنے سے قبل اس کی جناب میں اس کی بزرگی 'حمد 'اس کی ذات برتر کی تقدیس 'اُس کے اسماء حسنیٰ اور صفات علیا کو پیش کیاجائے ۔پھر جوکوئی حاجت ہو'دعا کی جائے'تاکہ یہ سب تسبیحات اُس کی بارگاہ میں وسیلہ بن جائیں اور اﷲہماری دعائیں قبول کرلے اور ہم اپنا مطلوب حاصل کرلیں۔
مذکورہ بالا وسیلہ اپنی نوعیت اورقبولیت کے اِعتبار سے سب سے اعلیٰ ترین وسیلہ ہے ۔کیونکہ یہ سراپا تقدیس وتمجید اور اﷲکی ویسی ہی تعریف ہے جیسی خود اﷲنے اپنے لئے کی ہے ۔قرآن وحدیث کے صفحات اس وسیلہ کی ترغیب وفضیلت سے بھرے ہیں ۔
مزید وضاحت کے لئے ہم یہاں چند مثالیں پیش کرتے ہیں ۔تاکہ مثال کے ساتھ ساتھ یہ اس صحیح وسیلہ کی دلیل بھی بن سکیں جس کی طرف ہم تمام مسلمانوں کو دعوت دے رہے ہیں 'اور جسے ہم اس شرعی وسیلہ کے لئے صحیح طریقہ اور مثالی راہ سمجھتے ہیں ۔جس کا حکم اﷲنے دیا اور اس کی وضاحت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی۔
پہلی دلیل:
وَلِلّٰہِ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہٗ بِھَا وَذَرُوا الَّذِ یْنَ یُلْحِدُ وْنَ فِیْ اَسْمَآئِہٖ سَیَجْزَوْںَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ o (الاعراف:۱۸۰)​
ترجمہ: ''اور اﷲہی کے لئے اچھے اچھے نام ہیں تو تم اﷲکو انہیں ناموں سے پکارو۔اوران کو چھوڑ دو جو اﷲکے ناموں میں کج روی کرتے ہیں ان کو ان کے کئے کی ضرور سزا ملے گی۔''
اس آیت میں اﷲتعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اس کو اس کے اچھے ناموں سے پکاریں ۔تاکہ ان کی دُعا جلد قبول ہواور ان لوگوں سے کچھ تعلق نہ رکھیں جو اﷲکے ناموں میں ہیراپھیری کرتے ہیں 'کیوں کہ وہ اس کی بھرپور سزا پائیں گے ۔
یہاں الحاد کا مطلب یہ ہے کہ ان اسماء حسنیٰ کے ذریعہ اﷲکو پکارنے کے بجائے غیر اﷲکو پکارا جائے جو بدترین گناہ ہے ۔جو لوگ ایسا کریں گے وہ اس کی ضرور سزا پائیں گے ۔مسلمانوں کو حکم ہے کہ ایسے لوگوں سے کوئی تعلق نہ رکھیں ۔نیز معلوم ہوا کہ مشرع وسائل میں سب سے اعلیٰ وافضل وسیلہ یہی ہے کہ اﷲکے اسماء حسنیٰ اس کی مقدس ذات وصفات کو اس کی بارگاہ میں وسیلہ بنایا جائے ۔کیونکہ اﷲتعالیٰ کی ذات مخلوقات کی ذاتوں سے بزرگ 'اس کے نام مخلوقات کے ناموں سے بلند اور اس کی صفات مخلوقات کی صفات سے مقدس اور اعلیٰ ہیں۔
لَیْسَ کِمِثْلِہٖ شَیْیٔ وَّ ھُوَالسَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ o​
یہ سب سے موثر وسیلہ ہے ۔اﷲاس وسیلے کے ذریعہ دعا مانگنے والے کی دعا سب سے پہلے قبول کرتا ہے ۔
امام ابوحنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کا مسلک :
اِمام ابویوسف رحمۃ اﷲ علیہ نے روایت کی ہے کہ کسی بھی شخص کے لئے جائز نہیں کہ اسماء حسنیٰ کے بغیر اﷲسے دُعا کرے 'کیونکہ جس دُعا کی اِجازت اور حکم ہے وہ وہی ہے جس کی ہدایت وَلِلّٰہِ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہٗ بِھَا میں دی گئی ہے ۔
اور انبیاء ورسل اور اولیاء اور بیت اﷲکے حق کا واسطہ دے کر دُعا مانگنے کو مکروہ کہا ہے ۔اِس لئے کہ مخلوقات کا خالق پر کوئی حق نہیں ۔اور علائی نے تاتارخانیہ سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حضرت اِمام ابوحنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کا فتوی ہے کہ کسی کے لئے جائز نہیں کہ اﷲکے ناموں کے سوا غیر اﷲسے دُعا مانگے ۔اور تمام حنفی کتابوں میں موجود ہے کہ انبیاء اولیاء اور بیت الحرام کے حق کا واسطہ دے کر دعامانگنا مکروہ تحریمی ہے اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے نزدیک اس کی حرمت ایسی ہے جس کی سزا جہنم ہے۔اِن حوالوں کا جو اِنکار کرے وہ مذہب حنفی سے ناواقف ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
اسماء وصفات وذات الٰہی کا وسیلہ احادیث کی روشنی میں​

جس طرح اﷲکی ذات اس کے اسماء وصفات کا وسیلہ لینے کی مثالیں قرآن کریم سے پیش کی گئیں 'اسی طرح اِس بارے میں چند احادیث بھی پیش کی جارہی ہیں جن سے آپ پر واضح ہوجائے گا کہ رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم اپنی دُعاؤں سے قبل اﷲتعالیٰ کی ذات 'اس کے اسماء حسنیٰ اور صفات عالیہ کا وسیلہ اﷲکی جناب میں پیش کرتے تھے ۔اور چونکہ رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم ہمارے پیشوا ہیں 'اس لئے آپ کی اقتداء واِتباع ہم پر فرض ہے ۔اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے :
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسولِ اﷲِ اُسْوَۃٌ حَسَنۃٌ o (الاحزاب:۲۱)​
ترجمہ: ''تمہارے لئے اﷲکے رسول کی ذات بہترین نمونہ ہے۔''​
پہلی حدیث:
عَنْ عبد اﷲ بن بُریدۃَ عن ابیہ انَّ رَسُوْلَ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَمِعَ رَجُلًا یَقُوْل : اَللَّھُمَّ اِنِّیْ أَسْئَلُکَ بِأنِّیْ اَشْھَدُ أَنَّکَ أَنْتَ اﷲُ الَّذِیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا أَنْتَ الْاَحَدُ الصَّمَد ُالَّذِیْ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ ۔ فَقَالَ قَدْ سَألَ بِاسْمِہِ الْاَعْظَمِo(اخرجہ احمد ابوداؤد والترمذی)
ترجمہ:''اے اﷲ!میں تجھ سے سوال کرتاہوں اس وسیلہ سے کہ بے شک میں گواہی دیتا ہوں کہ یقینا تو ہی وہ اﷲہے کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو اکیلا بے نیاز ہے جس کے نہ اولاد ہے نہ وہ کسی کی اولاد ہے نہ اس کے برابر کوئی ہے ۔تو آپ نے فرمایا :اس نے اس اسم اعظم کے ذریعہ سوال کیا ہے جس سے جب بھی سوال کیا گیا ''۔
دوسری حدیث:
عَنْ اَنَسْ بِنْ مَالِکْ رضی اﷲ عنہ اَنَّہُ کَانَ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَالِسًا وَرَجُلٌ یُصَلِّی ثُمَّ دَعَا ' اَللَّھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ بِاَنَّ لَکَ الْحَمْدُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ وَحْدَکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ اَلْمَنَّانُ یَا بَد ِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ' یَا ذَالْجَلَالِ
ِوَالْاِکْرَام ' یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ'' فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَقَدْدَعَا اﷲَ بِاسْمِہِ الْاَعْظَمِ الَّذِیْ اِذَا دُعِیَ بِہٖ اَجَابَ وَاِذَا سُئلَ بِہٖ اَعْطٰی o (اخرجہ الامام احمد وابوداؤد وابن ماجہ والترمذی)

حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور ایک شخص نماز پڑھ رہا تھا پھر اس نے دعامانگی ''اے اﷲ'میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس وسیلہ سے کہ بیشک تیرے ہی لئے سب تعریف ہے 'تیرے سوا کوئی معبود نہیں 'تو ہی احسان کرنے والا ہے 'تو ہی آسمانوں اور زمینوں کاپیدا کرنے والا ہے 'اے جلال وبزرگی کے مالک 'اے زندہ رہنے والے اے بندوبست کرنے والے ۔'' رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا :اس نے اﷲکے اسم اعظم کے ساتھ دعا مانگی جو شخص بھی اس وسیلہ سے دعامانگے گا'اﷲقبول کرے گا اور جب بھی اس کے ذریعہ سوال کیا جائے گا دے گا۔
برادران اسلام !آپ کے سامنے میں نے یہ دوحدیثیں پیش کیں تاکہ ان سے آپ پر واضح ہوجائے کہ اﷲ کے اسماء حسنیٰ دعا کی قبولیت کے لئے سب سے بہترین وسیلہ ہیں اور ان میں بھی خصوصیت سے اﷲکا اسم اعظم ۔اور رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم نے اس صحابی کے سامنے شہادت دی کہ اﷲکے اسم اعظم کے وسیلہ سے جب بھی دعا مانگی جائے 'اﷲقبول کرے گا اور جب بھی اس کے وسیلے سے سوال کیا جائے گا اﷲدے گا۔
دونوں ہی حدیثوں میں دُعاکرنے والے نے اسماء حسنیٰ اور اسم اعظم کے وسیلہ سے دعامانگی جس کی قبولیت کی شہادت رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم دی۔لہٰذا ہرمومن کا فرض ہے کہ اپنی دعا کے اول میں اﷲکے اسماء حسنیٰ کاذکر کرے اور انہیں بطور وسیلہ بارگاہ الٰہی میں پیش کرے 'اس کے بعد دعا مانگے تاکہ اﷲرب العزت اُس کی دُعا جلد قبول فرمائے ۔
دعا کا یہی مسنون طریقہ ہے ۔رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے اور اپنی اُمت کے لئے یہی طریقہ پسند فرمایا تھا۔اِسی پر امت کا عمل ہونا چاہئے تاکہ سب کا گوہر مقصود ہاتھ آئے 'دعائیں جلد قبول ہوں اور لوگ اپنی مُراد پائیں ۔
تیسری حدیث :
حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اﷲعنہا سے پوچھا کہ ''رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم رات کی نماز کس چیز سے شروع کرتے تھے ؟''اُنہوں نے جواب دیا کہ''رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم جب رات کو اٹھتے تو اپنی نماز اِس دعا سے شروع فرماتے تھے:
اَللَّھُمَّ رَبِّ جِبْرَائِیْلَ وَ مِیْکَا ئِیْلَ وَاِسْرَافِیْلَ ' فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ عَالِمَ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ اَنْتَ تَحْکُمُ بَیْنَ عِِبَادِکَ فِیْمَا کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ : اِھْدِنِیْ لِمَا اخْتُلِفَ فِیہِ مِنَ الحَقِّ بِاِذْنِکَ اِنَّکَ تَھْدِیْ مَنْ تَشَآئُ اِلٰی صِراطٍ مُّسْتَقِیْمٍ o (بخاری و مسلم)
ترجمہ: ''اے اﷲ! جبرائیل اورمیکائیل اور اسرافیل کے رب 'آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کرنے والے 'غیب اور حاضر کو جاننے والے 'تو ہی اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرے گا جن باتوں میں وہ اِختلاف کرتے ہیں ۔تو مجھے ہدایت دے اس حق میں جس میں اِختلاف کیا گیا ۔تو ہی جس کو چاہے سیدھی راہ کی طرف چلاتا ہے۔''
رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم حق وہدایت کی راہ پر چلنے کی توفیق پانے کی اﷲسے دُعا مانگ رہے ہیں ۔کیونکہ حق کی راہ میں لوگوں نے بڑا اختلاف کیا ہے اور صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق اﷲکے سوا کوئی نہیں دے سکتا ۔۔اِس اہم ترین متاع کائنات کو اﷲسے مانگنے سے قبل آپ اﷲ کی بارگاہ میں حمد وتقدیس 'تمجید وتعظیم کا وسیلہ پیش کررہے ہیں تاکہ اﷲرب العزت آپ کی دعا کو جلد قبول فرمالیں ۔اِس دُعا کے پردے میں اُمت کی تعلیم مقصود ہے اور انہیں مشروع وسیلہ کی ترغیب بھی دینی ہے۔
چوتھی حدیث:
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم ہمیں حکم فرماتے تھے کہ جب ہم سونے لگیں تو یہ دُعا پڑھ لیا کریں:
اَللَّھُمَّ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَرَبُّ الْاَرْضِ وَ رَبُّ العَرْشِ الْعَظِیْمِ رَبُّنَا وَرَبُّ کُلِّ شَیْیٍٔ فَالِقُ الحَبِّ وَالنَّوٰی مُنزِّلُ التَّورٰۃِ وَالْاِنْجِیْلِ وَالْفُرْقَانِ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ کُلِّ شَیْیٌٔ اَنْتَ اٰخِذٌ بِنَاصِیَتِہٖ ' اَللَّھُمَّ اَنْتَ الْاّوَّلُ فَلَیْسَ قَبْلَکَ شَیْیٌٔ وَاَنْتَ الْاٰخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَکَ شَیْیٌٔ وَاَنْتَ الظَّاھِرُ فَلَیْسَ فَوْقَکَ شَیْیٌٔ وَاَنْتَ البَاطِنُ فَلَیْسَ دُوْنَکَ شَیْیٌٔ اِقْضِ عَنَّا الدَّیْنَ وَاَغْنِنَا مِنَ الْفَقْرِ o (اخرجہ 'احمد ومسلم والترمذی)
ترجمہ:''اے اﷲ!آسمانوں اور زمینوں کے رب،اور عرش عظیم کے رب،ہمارے اور ہر چیز کے رب'دانے اور گٹھلیوں کو پھاڑنے والے تورات اور انجیل اور فرقان کے نازل کرنے والے 'تیری پناہ چاہتا ہوں ہر چیز کے شر سے جس کی پیشانی تو پکڑے ہوئے ہے ۔اے اﷲ'تو ہی اول ہے تجھ سے قبل کچھ نہیں 'تو ہی آخر ہے تیرے بعد کچھ نہیں ۔تو ہی ظاہر ہے تیرے اوپر کچھ نہیں ۔تو ہی باطن ہے تیرے سوا کچھ نہیں ۔ہم سے قرض ادا فرما اور ہم کو فقر سے نجات دے۔
رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم قرض اورمحتاجگی سے نجات پانے کی دعا فرمارہے ہیں اور اس سے اﷲکی قدرت کا حوالہ دے رہے ہیں کہ وہ ارض وسماء اور کائنات کی ہر شئے کا رب ہے وہی دانوں اور گٹھلیوں کو نکالنے والا 'انہیں مختلف شکلیں 'رنگ اور مزا بخشنے والا ہے ۔اپنے بندوں کی ہدایت کے لئے اُس نے مختلف زبانوںمیں تورات 'انجیل اور قرآن کو نازل فرمایا۔
پھر آپ دنیا کی ہر شئے کے شر سے اﷲکی پناہ چاہتے ہیں 'کیونکہ کائنات کی ہر شئے اﷲہی کے قہر وسلطان کے تابع ہے ،وہ نرالی شان والا سب سے اول ہے 'اس سے قبل کوئی چیز نہیں 'وہی آخر ہے 'اس کے بعد کوئی چیز نہیں 'وہی ظاہر ہے اس کے اوپر کوئی نہیں 'وہی باطن ہے اُس کے سوا کچھ نہیں ۔ا س کی ذات 'اسماء وصفات میں نہ اس کا کوئی شریک نہ مثیل 'نہ مشابہ نہ ہمسر ۔
اِن بلند ترین مقدس تسبیحات کو وسیلہ بناکر آپ قرض کی ادائیگی اور فقر سے نجات کی دُعا مانگ رہے ہیں ۔یہی آپ کا طریقہ تھا کہ اپنی دعاؤں سے قبل بارگاہِ اِلٰہی میں اُس کی ذات وصفات واسماء حسنیٰ کا وسیلہ پیش کرتے تھے ۔یہی ہمارا بھی عمل ہونا چاہئے ۔یہی رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی اِطاعت ومحبت کا تقاضا بھی ہے
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
قرآن کا وسیلہ​

پانچویں حدیث :
عمران بن حصین کابیان ہے کہ وہ ایک قصہ گو کے پاس سے گزرے جو قرآن پڑھ کربھیک مانگ رہا تھا تو انہوں نے اِنَّا لِلّٰہِ پڑھا اور کہا :''میں نے رسول اﷲصلی اﷲعلیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے ۔''
مَنْ قَرَأ القُرْاٰنَ فَلْیَسْأَلِ اللّّہَ بِـہٖ فَاِنَّہٗ سَیُجِیْیُٔ اَقْوَامٌ یَقْرَئُوْنَ وَیَسْأَلُوْنَ بِہٖ النَّاسَ o ​
ترجمہ:''جو شخص قرآن پڑھے اس کو چاہئے کہ قرآن کے ذریعہ اﷲسے مانگے 'جلد ہی ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن پڑھ کر لوگوں سے بھیک مانگیں گے۔''
اِس حدیث میں قرآن مجید کو اپنی دعا کا وسیلہ بنانے کا حکم دیا گیا ہے۔اِس لئے کہ قرآن اﷲکا کلام اور اس کی صفت ہے جو ذاتِ الٰہی کی طرح مقدس اور پاک ہے ۔اس کی تلاوت 'اس کے معنی پر غور وتدبر اور اپنی ذات 'اہل وعیال اور اقربا واحباب کی زندگیوں کو اس کے مطابق ڈھالنا 'مقبول عبادت اور اعلیٰ ترین وسیلہ ہے ۔کیوں نہ ہو 'قرآن اﷲکی کتاب ہے ۔اس میں تم سے پہلوں کی تاریخ ہے اور بعد والوں کی پیشن گوئی ہے۔وہ تمہارے آپس کا فیصلہ ہے 'وہ قطعی فیصلہ ہے 'مذاق نہیں ہے۔جس نے کسی ظالم کی وجہ سے اس کو چھوڑا 'اﷲاس کو تباہ کرے گا ۔جس نے قرآن کے علاوہ اور جگہ سے ہدایت چاہی 'اﷲاس کو گمراہ کردے گا ۔وہ اﷲکی مضبوط رسی ہے وہ حکمت بھر اذکر ہے 'وہ صراط مستقیم ہے۔قرآن وہ کتاب ہے جس سے خواہشات کج نہیں ہوتیں اورنہ اس سے زبانین مشتبہ ہوتیں اور نہ اس کے عجائبات ختم ہوں گے اور نہ علماء کبھی اس سے آسودہ ہوں گے ۔جس نے قرآن کے ذریعہ بات کی 'سچ کہا 'جس نے اس پر عمل کیا 'ثواب پائے گا ۔جس نے اس کے ذریعہ فیصلہ کیا 'انصاف کیا 'اور جس نے قرآن کی طرف بلایا 'اسے صراِ مستقیم کی طرف راہ نمائی کی گئی۔
جب اِن اوصاف کریمہ کو سامنے رکھ کر قرآن کریم کی تلاوت کی جائے گی تو قاری کو خود محسوس ہوجائے گا کہ قرآن مجید اﷲکی بارگاہ میں کتنامحبوب وسیلہ ہے اور اس وسیلہ سے مانگی جانے والی دعا ضرور قبول ہوگی 'کیونکہ اﷲکے کلام کا وسیلہ دراصل اس کی صفت کا وسیلہ ہے جو اﷲکے نزدیک محبوب وپسندیدہ عمل بھی ہے اور سب سے اچھا وسیلہ بھی ۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا اِرشاد ہے :''ہر قرآن پڑھنے والے کے لئے ایک مقبول دعا ہے ۔''یعنی جو شخص قرآن پڑھ کر اس کے وسیلے سے دعامانگے گا 'اُس کی دعا قبول ہوگی۔
افسوس!آج قرآن کی صرف لفظی تلاوت باقی رہ گئی 'قاری طوطوں کی طرح رٹ کر اس کو بلا سمجھے پڑھتے ہیں ۔اس کو زندگی کا دستور 'درس عمل 'عبرت ونصیحت 'امرونہی 'حلال وحرام کا قانون اور ہدایت وبرہان اور حجت ونور بنانے کے بجائے تعویذ و گنڈا 'چھومنتر ' مُردوں پر قرآن خوانی'اس آیات سے ترنم وموسیقی کا سرور اور ا پپر شعراء کی طرح داد اور واہ واہ کی بارش 'دیواروں اور الماریوں کی تزئین وغیرہ 'بس یہ ہے قرآن اور اس کا استعمال ۔
اﷲہم پر رحم فرمائے اور قرآن پر صحیح ایمان اور عمل کی توفیق بخشے اور دورنگی ونفاق سے بچائے ۔(آمین)
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
آدم کا اعتراف قصور'ندامت ودعا

قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَمْ تَغْفِرْلَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ o (الاعراف:۲۳)​
ترجمہ:''ان دونوں نے کہا'اے ہمارے رب 'ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہم کو معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت نقصان اُٹھانے والوں میں سے ہوں گے۔''
اس آیت کریمہ کے ان کلمات طیبہ کو اﷲتعالیٰ ہی نے حضرت آدم علیہ السلام کو سکھا یا تھا کہ وہ انہیں وسیلہ بناکر اﷲسے توبہ کریں اور معافی کی درخواست گذاردیں جیسا کہ ارشاد ہے۔
فَتَلَقّٰی اٰدَمُ مِنْ رَّبِہٖ کَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَیْہِ اِنَّـہُ ھُوَالتَّوَّاب الرَّحِیْمُ o (البقرہ:۳۷)​
پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھے(اور معافی مانگی)تو اس نے ان کا قصور معاف کردیا۔بے شک وہ معاف کرنے والا رحم کرنے والا ہے ۔
اور مشہور مفسرین کاا تفاق ہے کہ وہ سیکھے ہوئے کلمات آدم علیہ السلام کی یہی مشہور دعاء استغفار ہے جس کے وسیلہ سے ان کی دعا اﷲنے قبول فرمائی ۔
اس آیت میں ظاہری وسیلہ ''گناہوں کا اقرار ہے اور ''خطا کا اعتراف ''اور اس پر ''توبہ کی ندامت ''بڑا عظیم اور صالح عمل ہے جو مغفرت کے لئے بڑا محبوب وسیلہ ہے ۔چونکہ اس عمل صالح کی تعلیم خود اﷲتعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو دی تھی 'اس لئے یہ اﷲکا تلقین کردہ وسیلہ ہے ۔اور قرآن میں اﷲنے اسے محض اسی لئے ذکر فرمایا ہے کہ یہ وسیلہ صرف آدم علیہ السلام کے لئے مخصوص نہیں 'بلکہ عام مسلمانوں کو اس وسیلہ کی تلقین فرمائی گئی ہے'اور آدم علیہ السلام نے بھی جب تک اس وسیلہ کو استعمال نہیں کیا 'اﷲنے ان کی توبہ قبول نہیں فرمائی ۔
حضرت عبداﷲبن عباس رضی اﷲ عنہما کا بیان ہے کہ آدم علیہ السلام نے اﷲ سے عرض کیا:''کیا تو نے مجھے اپنے ہاتھ سے پیدا نہیں کیا؟''فرمایا گیا بے شک ۔''آدم علیہ السلام نے کہا:اور تو نے میرے اندر اپنی روح نہیں پھونکی ؟فرمایا گیا:''بے شک''آدم علیہ السلام نے کہا :''اور کیا تو نے مجھ پر فرض نہیں کیا کہ میں اس وسیلہ پر عمل کروں ؟'' فرمایا گیا:''بے شک''آدم نے کہا:''اگر میں توبہ کرلوں تو کیا مجھے جنت میں دوبارہ نہیں بھیجے گا ؟''فرمایا گیا:''ضرور'' (مستدرک حاکم)
بس 'یہ ہے وہ عمل صالح کا وسیلہ جسے آدم وحوا نے اپنے قصور کے اعتراف واستغفار کے ذریعہ بارگاہِ اِلٰہی میں پیش کیا اور اﷲ نے اسے قبول فرمایااور تصدیق وترغیب کے لئے اپنی کتاب قرآن کریم میں اس کا ذکرفرمایا
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
اعمال صالحہ کا وسیلہ صحابہ کرامؓ کے عمل کی روشنی میں​

صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم رسول اﷲصلی اﷲعلیہ وسلم کی حیات مبارکہ کا عملی نمونہ تھے میراث نبوی کے سچے محافظ اورمبلغ تھے ۔جو کچھ آپ سے سنا اور سیکھا 'اسے بلاکم وکاست امت تک پہنچا دیا ۔وہ اپنی انفرادی اوراجتماعی زندگی میں رسول اﷲصلی اﷲعلیہ وسلم کی زندگی کی حقیقی اور زندہ مثال تھے ۔اعمال صالحہ کے وسیلہ کے سلسلے میں صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کا طرز عمل بھی حجت ہے'ان کی چند مثالیں پیش کی جارہی ہیں ۔
حضرت عبداﷲبن مسعود رضی اﷲ عنہ تہجد کی نماز کے بعد اس طرح دعا مانگاکرتے تھے :
اَللّّٰھُمَّ اَمَرْتَنِیْ فَاَطَعْتُکَ وَدَعَوْتَنِیْ فَاَجَبْتُکَ ' وَ ھٰذَ ا سِحْرٌ فَاغْفِرْلِیْ o​
ترجمہ:''اے اﷲ'تو نے مجھے حکم دیا میں نے تیری اِطاعت کی 'اور تو نے مجھے بلایا میں نے قبول کیا۔یہ سحر کا وقت ہے تو مجھے بخش دے۔''
سحر کے وقت جب لوگ سوئے ہوئے ہوں 'اٹھ کر نماز پڑھنی بڑا صالح عمل ہے ۔حضرت عبداﷲبن مسعودرضی اﷲ عنہ کی اطاعت اُس کے احکامات کی تعمیل اور سحر کے وقت کی نماز وبیداری کا وسیلہ بارگاہ الٰہی میں پیش کرکے اپنی مغفرت کی دعامانگتے ہیں جو مغفرت اور دعا کی قبولیت کا بہترین وقت ہے ۔
حضرت عراک بن مالک رضی اﷲعنہ جمعہ کی نماز پڑھ کر واپس ہوتے تو مسجد کے دروازے پر کھڑے ہوکر کہتے :
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَجَبْتُ دَعْوَتَکَ ' وَ صَلَّیْتُ فَرِیْضَتَکَ ' وَانْتَشَرْتُ ' کَمَا اَمَرْتَنِیْ ' فَارْزُقْنِیْ مِنْ فَضْلِکَ ' وَاَنْتَ خَیْرُ الرَّازِقِیْنَ o​
ترجمہ:''اے اﷲ'میں نے تیری دعوت قبول کی اور فریضہ جمعہ ادا کیا اور تیرے حکم کے مطابق منتشر ہوگیا اب تو مجھے اپنا فضل عطاکر اور تو ہی بہترین روزی دینے والا ہے ۔''
حضرت عراک بن مالک رضی اﷲ عنی نے اﷲتعالیٰ کی بارگاہ میں اس کے فضل ورزق کی دعا مانگی 'لیکن اس سے قبل اذان جمعہ کے وجوب 'فریضہ جمعہ کی ادائیگی اور جمعہ کے بعد مسجد سے منتشر ہوجانے کے خداوندی حکم کی تعمیل کا وسیلہ پیش کیا ۔جیسا کہ اﷲتعالیٰ کا اِرشاد ہے۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِ یْنَ اٰمَنُوْآ اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمْعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِاﷲِ وَذَرُوا الْبَیْعَ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُونَ o (الجمعہ)​
ترجمہ:''اے ایمان والو!جب جمعہ کے دن نماز کے لئے اذان کہی جائے تواﷲکے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خرید وفروخت چھوڑ دو ۔یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانو۔''
فَاِذَا قَضَیْتَ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اﷲِ وَاذکُرُوْا اﷲَ کَثِیْرًا لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ o (الجمعہ)​
ترجمہ:''اور جب نماز ادا کرلی جائے تو زمین میں پھیل جاؤ ۔اور اﷲکا فضل تلاش کرو اور اﷲکو بہت یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔''
اور اپنے اس عمل صالح کا وسیلہ پیش کرنے کے بعد دعا مانگی ' فَارْزُقْنِیْ مِنْ فَضْلِکَ ' وَاَنْتَ خَیْرُ الرَّازِقِیْن اے اﷲ اپنا فضل عطا کر تو ہی سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔
یہاں عبداﷲبن مسعود رضی اﷲعنہ اور حضرات عراک بن مالک رضی اﷲ عنہ دوصحابہ کرام کے عملی نمونے پیش کئے گئے ہیں ۔یہی طریقہ تمام صحابہ کرام ؓ کا تھا ۔رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کی سُنّت کے اتباع اور اس کی عملی تطبیق میں تمام صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم ہی کے طریق عمل سے معلوم ہوا ۔مشروع وسیلہ بھی ہم نے انہیں صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم
افسوس:
بدقسمتی سے دھیرے دھیرے مسلمانوں میں بھی غیر مشروع وسیلہ کی بدعت پھیل گئی 'اور اب اکثر عوام بلکہ خواص میں بھی (اِلَّا مَاشَاء اﷲ) وسیلہ کے وقت اﷲکی ذات 'اس کے اسماء حسنیٰ وصفات علیایا اپنے اعمال صالحہ کے وسیلہ کاتصور بھی دل میں نہیں آتا اور مخلوقات وشخصیات کا ممنوع وسیلہ اختیار کرتے ہیں اور اسی کو نیکی اور عمل خیر سمجھتے ہیں ۔اس طرح سُنّت بدعت بن گئی اور بدعت سُنّت ہوگئی۔ فلا حول ولا قوۃ الاباﷲ
اور اس سے زیادہ افسوس اس پر ہے کہ ان نادان لوگوں کو قرآن وسُنّت کے دلائل کی روشنی میں سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے تو سمجھنے اور غور کرنے کے بجائے بھڑک اٹھتے ہیں اور غیض وغضب سے ان کی آنکھوں سے سرخ شرارے پھوٹنے لگتے ہیں ۔اﷲان پر رحم کرے اور انہیں صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین
برادران اسلام!:
ضرورت ہے کہ مسلمانوں کو عمل خیر کی دعوت دی جائے اور انہیں سمجھایا جائے کہ ایمان کی تمام شاخیں لَااِلٰـہَ اِلَّا اﷲ کے اقرارسے لے کر راستہ سے تکلیف دہ چیزوں کے ہٹانے تک سب چیزیں عمل صالح ہیں اور مسلم معاشرے میں ان سب حسنات واعمال خیر کی اشاعت کے لئے بھرپور جدوجہد کی ضرورت ہے 'تاکہ عقیدہ صحیحہ اور عمل صالح اور اِسلامی زندگی کا نور مسلمانوں کے گھروں 'سڑکوں 'بازاروں 'مساجد 'دکانوں اور کارخانوں ہر جگہ پھیل جائے اور مسلمانوں کی زندگی کے تمام شعبے اِسلام کے رنگ میں رنگ جائیں۔
یہی اِسلامی زندگی کا عمل صالح کا بہترین وسیلہ اور مسلمانوں کی فلاح وکامرانی کی ضمانت ہے اور امت مسلمہ کا یہی شعارہے کہ وہ اِسلامی تعلیمات کو زندگی کی تمام شاہراہوں کے لئے مشعل ہدایت اور وسیلہ نجات بنائے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
مشروع وسیلہ کی تیسری قسم اپنے مومن بھائی کا دعا کا وسیلہ​

گذشتہ صفحات میں مشروع وسیلہ کی تین قسموں میں سے دو یعنی اﷲکی ذات اور اس کے اسماء وصفات کا وسیلہ 'دوم اعمال صالحہ کا وسیلہ ۔یہ دونوں مباحث کتاب وسُنّت کے دلائل کی روشنی میں پورے ہوئے ۔اُمید ہے قارئین کتاب وسیلہ کی ان دونوں قسموں کے مباحث سے پوری طرح مطمئن ہوئے ہوں گے ۔اس لئے کہ کتاب اﷲاور سُنّت رسول اﷲکے بعد نہ کوئی دوسری دلیل ہے نہ حجت وبرہان ۔ وما ذا بعد الحق الا الضلال (حق کے بعد گمراہی کے سوا کچھ نہیں)
اب ہم مشروع وسیلہ کی تیسری قسم کی بحث کررہے ہیں اور وہ ہے ''مومن کا وسیلہ حاصل کرنا اپنے مومن بھائی کے لئے۔''اور یہ دو طریقے سے ممکن ہے ۔
اول:
ایک مومن بھائی کا دوسرے مومن بھائی سے درخواست کرنا کہ وہ اپنی دعا کے وسیلہ سے اﷲسے اس کی حاجات پوری کرنے کی استدعا کرے ۔مثلاً یوں کہے کہ ''آپ میرے لئے اﷲسے دعا فرمائیں کہ وہ مجھے عافیت دے 'یا میری فلاں ضرورت پوری فرمائے۔'''
دوم:
ایک مومن دوسرے مومن کے لئے اس کے کہے بغیر اﷲسے دعا کرے ۔مثلاً کسی بھائی کو کسی مصیبت میں مبتلا پائے اور اس کو دیکھ کر اﷲ سے کشادگی کی دعا کرے ۔خواہ و بھائی کرنے والے کے پاس ہو یا نہ ہو۔مثلاً اس کی پیٹھ پیچھے اس کے لئے دعا کرنا'یا نماز جنازہ'یا قبر کی زیارت کے وقت مسلمانوں کے لئے دعاکرنا ۔اس سے بھی کچھ فرق نہیں پڑتا کہ بڑا چھوٹے کے لئے دعا مانگے یا چھوٹا بڑے کے لئے دعا مانگے'سب جائز ہے اور اﷲچاہے تو سب مقبول ہے'اور جب رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم زندہ تھے تو اس وقت مسلمان استسقاء میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی دعا کا وسیلہ اﷲکے سامنے پیش کیا کرتے تھے۔رسول اﷲ صلی ا ﷲعلیہ وسلم مسلمانوں کے لئے دعا کرتے تھے اور اﷲآپ کی دعائیں قبول کرتا تھا ۔
اسی طرح رسول صلی اﷲ علیہ وسلم بھی امت سے اپنے لئے اِجتماعی یا اِنفرادی طور پر دعا مانگنے کی درخواست کرتے تھے۔مثلاًآپ کا فرمان ہے کہ جو شخص بھی اذان سنے وہ موذن کی اذان کا جواب دے ۔پھر آپ پر درود بھیجے اور آپ کے لئے وسیلہ 'فضیلت اور اس مقام محمود کے لئے دعا کرے جس کا اﷲنے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے وعدہ فرمایا ہے ۔
اسی طرح آپ نے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ سے ان کے لئے عمرہ کے دن اپنے لئے دعا کی درخواست کی۔اور قرآن وحدیث کے صفحات مومن کی دعا کے وسیلے کی مثالوں سے بھرے ہوئے ہیں ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
اذان کے بعد کی دعا ​

حضرت عبداﷲبن عمرو بن عاص رضی اﷲعنہ کابیان ہے کہ رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کو انہوںنے یہ فرماتے ہوئے سنا ہے ۔
جب تم موذن کو (اذان دیتے ہوئے) سنو توتم بھی ویسے ہی کہو جیسے موذن کہتا ہے ۔اس کے بعد مجھ پر درود بھیجو 'اس لئے کہ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجے گا 'اﷲاس پر دس مرتبہ درود بھیجے گا 'پھرمیرے لئے اﷲسے وسیلہ مانگو 'اس لئے کہ وسیلہ جنت میں ایک درجہ کانام ہے جو صرف ایک ہی بندہ اﷲکے لئے مناسب ہے 'اور مجھے امید ہے وہ ایک بندہ میں ہوں گا ۔پس جو شخص میرے لئے (اﷲسے)وسیلہ مانگے گا س کے لئے میری شفاعت حلال ہوگی۔'' (مسلم'ابوداؤد'ترمذی 'نسائی)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ موذن کی اذان کے جواب کے بعد رسول اﷲصلی اﷲعلیہ وسلم پر درود بھیجنے اور آپ کیلئے وسیلہ مانگنے کا ثواب یہ ہے ک رسول اﷲصلی اﷲعلیہ وسلم پر ایک مرتبہ درود بھیجنے والے پر اﷲتعالیٰ دس بار درود بھیجے گا 'اور رسول اﷲصلی اﷲعلیہ وسلم کے لئے وسیلہ مانگنے والے کے لئے آپ کی شفاعت واجب ہوجائے گی۔
اس حدیث پر غور فرمائیے رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم اپنی امت کو حکم فرمارہے ہیں کہ لوگ آپ کے لئے اﷲسے وسیلہ مانگیں ۔آپ فرماتے ہیں ۔
ثُمَّ سَلُوا اﷲَ لِیَ الوَسِیْلَہَ o ​
ترجمہ:''میرے لئے اﷲسے وسیلہ مانگو اور وسیلہ جنت کے ایک بلند درجہ کا نام ہے۔''​
اس حدیث سے یہ ات کتنی صاف طور پر واضح ہوگئی کہ مومن کی دعا دوسرے مومن کے لئے بارگاہ اِلٰہی میں بہترین وسیلہ ہے ۔اسی لئے رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم اپنی امت کو حکم فرمارہے ہیں کہ آپ کے لئے اﷲ سے جنت کا سب سے بلند مقام (مقام محمود )مانگیں ۔اور اس کے لئے اذان اور اس کے جواب کے بعد اور درود شریف پڑھ کر یہ اہم دعا مانگنے کی ہدایت کی گئی 'کیونکہ یہ دعا کی قبولیت کا خاص وقت اور درود موثر ذریعہ ہے ۔
اس حدیث سے ایک بات اور بھی معلوم ہوئی کہ اعلیٰ شخصیات کے لئے ادنیٰ شخص کی دعا بھی وسیلہ بن سکتی ہے 'کیونکہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اﷲکی سب سے اشرف مخلوق اور اﷲکے نزدیک اس کی مخلوقات میں سب سے معزز ہستی ہیں 'اور اسی لئے جنت کے سب سے بلند مقام 'مقام محمود کا امیدوار وحقدار بھی آپ صرف اپنے کو قرار دے رہے ہیں ۔
حضرت جابر بن عبداﷲرضی اﷲعنہما فرماتے ہیں کہ رسول اﷲصلی اﷲعلیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اذان سننے کے بعد کہے گا :
اَللّٰھُمَّ رَبَّ ھٰذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃِ وَالصَّلَاۃِ الْقَائِمَۃِ اٰتِ مُحَمَّدَا ن الْوَسِیْلَۃَ وَالْفَضِیْلَۃَ وَابْعَثْہُ مَقَامًا مَحْمُوْدًا نِ الَّذِیْ وَِعَدْتَّہٗ حَلَّتْ لَہٗ شَفَاعَتِیْ o (رواہ البخاری 'ابوداؤد'الترمذی'النسائی'ابن ماجہ)
ترجمہ:''اے اﷲاس پوری دعا کے رب اور کھڑی ہونے والی نماز کے رب'عطا فرما محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو ''وسیلہ''اور فضیلت اور بھیج ان کو مقام محمود میںجس کا تونے ان سے وعدہ فرمایا ہے۔''تو اس دعا مانگنے والے کے لئے میری شفاعت حلال ہوگی۔''
یہ دعا رسول اﷲصلی اﷲعلیہ وسلم کی شفاعت کے لئے ایک ترغیب ہے ۔جس کو یہ بات محبوب ہو کہ رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم قیامت کے دن ا س کی شفاعت فرمائیں تو ا س کو چاہئے کہ ہمیشہ ہر اذان کے بعد یہ دعاپڑھ لیا کرے۔
اذان کے بعد اس دعا کو پڑھنے کی تاکید اس لئے کی گئی کہ یہ دعا کی قبولیت کا وقت ہے 'جیسا کہ حضرت انس رضی اﷲ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کا ارشاد ہے:
اَلدُّعَا بَیْنَ الْاَذَانِ وَالْاِقَامَۃِ لَا یُردُّ o (ابوداؤد 'ترمذی'نسائی)
ترجمہ:''اذان اور اقامت کے درمیان کی دعا ردّ نہیں کی جاتی ۔''​
رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لئے فلاح دارین کا کتنا بہتر نسخہ تجویز فرمایا کہ ایک طرف وہ اپنے ہادی اور پیغمبر کے دعاکریں اور امت کی دعا آپ کے درجات کی بلندی اور مقام محمود کے حصول کے لئے بارگاہ الٰہی میں مقبول ''وسیلہ''بن جائے اور اس دعا کی برکت سے آپ کی شفاعت آپ کی امت کے لئے حلال ہوجائے ۔ان شاء اﷲ'اﷲکا وعدہ پورا ہوگا اور امت کی دعائیں آپ کے حق میں وسیلہ ثابت ہوں گی 'اور قیامت کے دن آپ مقام محمود میں داخل ہوں گے۔
مومن کے لئے دوسرے مومن بھائی کی دعا کے مشروع ہونے کی اس سے بہتر دلیل آپ کو اور کہا ں مل سکتی ہے ؟
 
Top