• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

منافقین کی کیفیت + کفار سے دوستی پر اللہ کی ڈانٹ۔ تفسیر السراج۔ پارہ:4

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
وَلِيَعْلَمَ الَّذِيْنَ نَافَقُوْا۝۰ۚۖ وَقِيْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا قَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ اَوِ ادْفَعُوْا۝۰ۭ قَالُوْا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّااتَّبَعْنٰكُمْ۝۰ۭ ھُمْ لِلْكُفْرِ يَوْمَىِٕذٍ اَقْرَبُ مِنْھُمْ لِلْاِيْمَانِ۝۰ۚ يَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاہِھِمْ مَّا لَيْسَ فِيْ قُلُوْبِھِمْ۝۰ۭ وَاللہُ اَعْلَمُ بِمَا يَكْتُمُوْنَ۝۱۶۷ۚ اَلَّذِيْنَ قَالُوْا لِاِخْوَانِھِمْ وَقَعَدُوْا لَوْ اَطَاعُوْنَا مَا قُتِلُوْا۝۰ۭ قُلْ فَادْرَءُوْا عَنْ اَنْفُسِكُمُ الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۝۱۶۸
نیز ان لوگوں کو ظاہر کرے جو منافق ہوئے اور انھیں کہا گیا کہ آؤ خدا کی راہ میں لڑو۔ یا دشمنوں کو دفع کروتو کہنے لگے۔اگرہم لڑائی جانتے تو ضرور ہم تمہارے ساتھ چلتے۔ اس دن وہ لوگ ایمان کی نسبت کفر کے زیادہ قریب تھے۔۱؎ اپنے منہ سے وہ کچھ کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہے اور خدا خوب جانتا ہے جو وہ چھپاتے ہیں۔(۱۶۷)وہ لوگ جو آپ بیٹھ رہے اور اپنے بھائیوں کو کہا کہ اگر وہ ہماری مانتے تو مارے نہ جاتے ۔ توکہہ اب تم اپنی جانوں پرسے موت کو ہٹادینا۔ اگرتم سچے ہو۔۲؎ (۱۶۸)
۱؎ اس آیت میں ترک جہاد کو کفر سے تعبیر کیا ہے یعنی وہ لوگ جو وقت آنے پر حیل وتدابیر تراشتے رہتے ہیں ان کی دوں ہمتی انھیں میدان جہاد میں نکلنے نہیں دیتی ۔ انھیں اپنے ایمان کی تجدید کرنا چاہیے۔ مسلمان روز ازل سے توحید کا قرار کر چکا ہے۔ اس کے لیے ناممکن ہے کہ ایک لمحہ بھی کفر سے موالات رکھے۔ کم از کم اس کے دل میں ضرور کفرواستبداد کے خلاف جذبات نفرت وحقارت موجزن رہتے ہیں اور اگر یہ بھی نہیں تو قرآن حمید کی یہ ڈانٹ سن رکھیں ۔ ھُمْ لِلْکُفْرِ یَوْمَئِذٍ اَقْرَبُ مِنْھُمْ لِلْاِیْمَانِ یعنی اس دن وہ لوگ ایمان کی نسبت کفر کے زیادہ قریب تھے۔

۲؎ قعود استعارہ ہے تخلف عن الجہاد سے یعنی وہ منافقین جو جہاد میں شریک نہیں ہوتے اور طرح طرح کے فلسفے چھانٹتے ہیں۔ جن کی حیثیت فریب نفس سے زیادہ نہیں۔ وہ کہتے ہیں اگرمجاہدین جہادمیں شرکت نہ اختیار کرتے تو ضرور بچ جاتے۔آج بھی منافقین اور پست ہمت لوگوں کا یہی وطیرہ ہے ۔جہاد اورقربانی کے نام سے کانپ اٹھتے ہیں اور جب مجاہدین پابجولاں کشاں کشاں جیلوں میں جاتے ہیں تو یہ ناصح مشفق بن کر نہایت ہمدردانہ انداز میں کہتے ہیں کہ اس شورش کا کیا صلہ ملا؟ یہی ناکہ یہ لوگ قید وبند کی سختیاں جھیلیں گے۔

قرآن حمید نے ان کے ان اعذار باردہ کو اس لیے دوبارہ سہ بارہ ذکر کیا ہے ،تاکہ مسلمان ہرزمانہ میں منافقین کی وسوسہ پردازیوں سے محفوظ رہیں، کیوں کہ یہ گروہ دشمنوں سے بھی زیادہ مضر ہے ۔ دشمن تو واشگاف طورپر مقابلہ پرآتا ہے۔ یہ مسلمان بن کر شجر اسلامی کی بیخ کنی میں مصروف رہتے ہیں۔جوسامنے سے آئے،اس کا علاج توممکن ہے مگرگھن کا کیا علاج، اس لیے اس گروہ سے بچنا نہایت ضروری ہے۔
 
Top