• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

منافق مردوں اور عورتوں پر اللہ کا غضب

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
منافق مردوں اور عورتوں پر اللہ کا غضب

اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی قدر ہے:
{وَیُعَذِّبَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَالْمُنٰفِقَاتِ وَالْمُشْرِکِیْنَ وَالْمُشْرِکٰتِ الظَّآنِّیْنَ بِاللّٰہِ ظَنَّ السَّوْئِ ط عَلَیْہِمْ دَآئِرَۃُ السَّوْئِ وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ وَلَعَنَہُمْ وَاَعَدَّ لَہُمْ جَہَنَّمَ وَسَآئَ تْ مَصِیْرًاo} [الفتح:۶]
''اور (تاکہ) ان منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو اللہ تعالیٰ سزا دے جو اللہ کے بارے میں گمان کرنے والے ہیں، برا گمان انھی پر بری گردش ہے اور اللہ ان پر غصے ہوا اور اس نے ان پر لعنت کی اور ان کے لیے جہنم تیار کی اور وہ لوٹنے کی بری جگہ ہے۔''
نفاق:
نفاق کا مطلب ہوتا ہے باطن کی ظاہر سے مخالفت۔ خیر بھلائی کا اظہار اور شر کا چھپانا۔ نفاق کی دو اقسام ہیں:
(۱)... اعتقادی نفاق؛ اس نفاق سے متصف آدمی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہے گا۔
(۲)... عملی نفاق؛اس کا شمار کبیرہ گناہوں میں ہوتا ہے۔ اس لیے کہ منافق کا قول اپنے فعل کی اور اس کا بھید اس کے علانیہ مخالفت کرر ہا ہوتا ہے۔ مگر اس کے ارتکاب سے آدمی ملت اسلامیہ سے خارج نہیں ہوتا۔ ہاں یہ البتہ ممکن ہے کہ عملی نفاق کا ارتکاب کرتے ہوئے یہ مذموم عادت آدمی کے لیے اعتقادی نفاق میں شامل کرنے کا ذریعہ بن جائے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1- صحیح سنن النسائي، رقم: ۵۲۳۲۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
منافقین:
اعتقادی منافقین وہ لوگ ہوتے ہیں جو اسلام میں ایک طرف سے داخل ہوتے ہیں اور دوسری طرف سے نکل جاتے ہیں۔ یہ لوگ ایمان و اسلام کا اظہار کرتے ہیں اور کفر کو اپنے اندر چھپائے ہوئے ہوتے ہیں۔ اللہ عزوجل نے سورۃ البقرہ کے آغاز میں پانچ آیات اہل ایمان کی صفات میں، اگلی دو آیتیں کافروں کی پہچان میں اور پھر ان سے اگلی تیرہ آیات منافقوں کی علامتوں اور ان کی پہچان میں بیان فرمائی ہیں۔ اور اس بنا پر کہ ان کا معاملہ اکثر لوگوں کے ہاں مشتبہ رہتا ہے اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی متعدد علامتوں کے بیان کو مفصل بیان کیا ہے۔ ان علامتوں میں سے ہر علامت نفاق ہے۔ اسی طرح سے ان کی پہچان میں سورۃ البراء ۃ کا ایک بڑا حصہ، سورۃ النور کا ایک بڑا حصہ، سورۃ المنافقون مکمل اور ان کے علاوہ دیگر سورتوں میں بھی (کہ جن کا تعلق مدنی سورتوں سے ہے) ان کا مفصل ذکر ہوا ہے۔ ایسا اللہ تعالیٰ نے ان کے احوال کی پہچان کروانے کے لیے کیا ہے تاکہ اہل ایمان ان سے باخبر رہتے ہوئے ان سے ہمیشہ الگ تھلگ رہیں۔
یہ منافقین اہل ایمان و اسلام کے لیے یہود و نصاریٰ اور مشرکین و ہنود سے بھی زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ ان کا اہل ایمان و اسلام کے لیے زیادہ خطرناک ہونا اس بنا پر ہوتا ہے کہ یہ مسلمانوں کے درمیان رہتے ہیں۔ انہی جیسی زبان بولتے ہیں (الحمد للہ، ماشاء اللہ، السلام علیکم جیسے الفاظ بولنا) اور مسلمانوں جیسے نام رکھنا۔ اس سے ان کو مسلمانوں میں شمار کیا جاتا ہے اور یہ خود بھی اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں۔
انہی منافقین کے بارے میں اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے:
{وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا ہُمْ بِمُؤْمِنِیْنo یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ مَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَہُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَo فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ فَزادَہُمُ اللّٰہُ مَرَضًا وَ لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنo} [البقرۃ:۸ تا ۱۰]
'' اور لوگوں میں سے کچھ وہ ہیں جو کہتے ہیں ہم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے، حالانکہ وہ ہر گز مومن نہیں۔ اللہ سے دھوکا بازی کرتے ہیں اور ان لوگوں سے جو ایمان لائے، حالانکہ وہ اپنی جانوں کے سوا کسی کو دھوکا نہیں دے رہے اور وہ شعور نہیں رکھتے۔ ان کے دلوں ہی میں ایک بیماری ہے تو اللہ نے انھیں بیماری میں اور بڑھا دیا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے، اس وجہ سے کہ وہ جھوٹ کہتے تھے۔ ''
یہی وہ لوگ ہیں کہ جن کے متعلق اگلی آیات میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
{وَ اِذَا قِیْلَ لَہُمْ اٰمِنُوْا کَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ کَمَآ اٰمَنَ السُّفَہَآئُ اَلَآ اِنَّہُمْ ہُمُ السُفَہَآئُ وَ لٰکِنْ لَّا یَعْلَمُوْنَo} [البقرہ:۱۳]
''اور جب ان سے کہا جاتا ہے ایمان لائو جس طرح لوگ ایمان لائے ہیں، توکہتے ہیں کیا ہم ایمان لائیں جیسے بے وقوف ایمان لائے ہیں؟ سن لو! بے شک وہ خود ہی بے وقوف ہیں اور لیکن وہ نہیں جانتے۔ ''
یہی وہ منافق لوگ ہیں کہ جن کی ایک قبیح علامت یوں بھی ہے:
{وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّا وَ اِذَا خَلَوْا اِلٰی شَیٰطِیْنِہِمْ قَالُوْٓا اِنَّا مَعَکُمْ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَہْزِئُ وْنَo اَللّٰہُ یَسْتَہْزِیُٔ بِہِمْ وَ یَمُدُّ ہُمْ فِیْ طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُوْنo}[البقرۃ:۱۴،۱۵]
''اور جب وہ ان لوگوں سے ملتے ہیں جو ایمان لائے تو کہتے ہیں ہم ایمان لے آئے اور جب اپنے شیطانوں کی طرف اکیلے ہوتے ہیں تو کہتے ہیں بے شک ہم تمھارے ساتھ ہیں، ہم تو صرف مذاق اڑانے والے ہیں۔ اللہ ان کا مذاق اڑاتا ہے اور انھیں ڈھیل دے رہا ہے، اپنی سرکشی ہی میں حیران پھرتے ہیں۔''
منافقین اہل ایمان سے جو کہتے ہیں کہ: ہم بھی ایمان والے ہیں۔ یہ نفاق، دکھاوے اور جھوٹ (تقیہ) کی بنا پر کہتے ہیں۔ جبکہ صورت حال یہ ہے کہ جب یہ لوگ اپنے شیطانوں (چاہے جنوں سے ہوں یا انسانوں سے) کے پاس پھر کر جاتے ہیں کہ جو ان کے سردار اور قائد ہوتے ہیں اور ان کے یہ بڑے یہود و نصاریٰ میں سے ہوتے ہیں جو ان کو مسلمانوں کے ساتھ جھوٹ بولنے اور جو دین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں اسے جھٹلانے کا حکم دیتے ہیں۔ چنانچہ ان یہود و نصاریٰ کے پاس پہنچ کر منافقین ان سے کہتے ہیں: ہم تو تمہارے دین و ملت پر ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم مسلمانوں سے استہزاء کرتے ہیں۔ مگر ان بدبختوں کو معلوم نہیں کہ اللہ عزوجل ان سے انتقام لینے کے لیے ان کے ساتھ ٹھٹھہ کا سامان کرتا ہے۔ یہ لوگ اپنی گمراہی اور اپنے کفر میں حیران و پریشان ہوکر باؤلے ہوئے پھرتے ہیں اور اس ضلالت و کفر اور نفاق سے نکلنے کا کوئی استہ بھی نہیں پاتے۔ اس لیے کہ اللہ عزوجل نے ان کے خبث باطن کی وجہ سے اُن کے دلوں پر مہر لگا دی ہے، ان کی نظروں کو اندھا کردیا ہے کہ جس سے وہ حق بات کو دیکھ نہیں سکتے اور نہ ہی وہ صراطِ مستقیم پر چل سکتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
چنانچہ اللہ عزوجل فرماتے ہیں:
{اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَۃِ بِالْہُدٰی فَمَا رَبِحَتْ تِّجَارَتُہُمْ وَ مَا کَانُوْا مُہْتَدِیْنo} [البقرۃ:۱۶]
''یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی، تو نہ ان کی تجارت نے نفع دیا اور نہ وہ ہدایت پانے والے بنے۔''
یہ منافقین وہی لوگ ہیں کہ جنہیں ہمراز اور مصاحب و ہم نشین بنانے سے اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو منع فرمایا ہے اور یہ کہ:
{قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآئُ مِنْ اَفْوَاہِہِمْ وَمَا تُخْفِیْ صُدُوْرُہُمْ اَکْبَرُo} [آل عمران:۱۱۸]
''ان کے دلوں کا بغض و حسد ان کے مونہوں سے ظاہر ہوا پڑ رہا ہے اور ان کے دلوں میں جو کچھ چھپا ہے وہ کہیں اس سے بڑا ہے۔''
منافقین اپنی مکمل جدوجہد اور طاقت کے مطابق اہل ایمان کی مخالفت میں پوری کوشش کرتے ہیں اور ہر ممکن حد تک انہیں تکلیف پہنچانے کی سعی کرتے ہیں۔ حسب استطاعت جس قدر ممکن ہو وہ اہل ایمان کو فریب، دھوکہ دینے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ یہ منافقین ہر وہ کام چاہتے ہیں جس سے اہل ایمان مشقت و مصیبت میں پڑے رہیں۔ اسلام اور اہل اسلام کے متعلق جو کچھ منافقین کے دلوں میں بغض و عداوت ہوتی ہے وہ ان کے چہروں سے عیاں ہوتا ہے اور دشمنی ان کی زبانوں سے بغیر سوچے سمجھے بیان ہوجاتی ہے اور یہ کسی بھی عقل مند آدمی پر مخفی نہیں ہوتا۔
یہی وہ منافقین ہیں کہ جن کے بارے میں اللہ عزوجل نے ایمان والوں کو خبر دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ:
{اِنْ تَمْسَسْکُمْ حَسَنَۃٌ تَسُؤْہُمْ وَ اِنْ تُصِبْکُمْ سَیِّئَۃٌ یَّفْرَحُوْا بِہَا وَ اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُہُمْ شَیْئًا اِنَّ اللّٰہَ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌo} [آل عمران:۱۲۰]
''اگر تمھیں کوئی بھلائی پہنچے تو انھیں بری لگتی ہے اور اگر تمھیں کوئی تکلیف پہنچے تو اس پر خوش ہوتے ہیں اور اگر تم صبر کرو اور ڈرتے رہو تو ان کی خفیہ تدبیر تمھیں کچھ نقصان نہیں پہنچائے گی۔ بے شک اللہ، وہ جو کچھ کرتے ہیں، اس کا احاطہ کرنے والا ہے۔ ''
منافقین کی یہ حالت ایمان والوں سے شدت عداوت پر دلالت کرتی ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ اہل ایمان و اسلام کو جب کوئی خوش حالی، اللہ کی طرف سے تائید اور فتح حاصل ہوتی ہے تو منافقوں کو یہ بہت برا لگتا ہے اور اگر اہل ایمان کو قحط سالی و تنگ دستی پہنچتی ہے یا ان کے دشمن ان پر اللہ کی آزمائش کے تحت چڑھ دوڑتے ہیں تو منافقین اس سے خوش ہوجاتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
{اِنْ تُصِبْکَ حَسَنَۃٌ تَسُؤْہُمْ وَ اِنْ تُصِبْکَ مُصِیْبَۃٌ یَّقُوْلُوْا قَدْ اَخَذْنَآ اَمْرَنَا مِنْ قَبْلُ وَ یَتَوَلَّوْا وَّ ہُمْ فَرِحُوْنَo} [التوبۃ:۵۰]
''اگر تجھے کوئی بھلائی پہنچے تو انھیں بری لگتی ہے اور اگر تجھے کوئی مصیبت پہنچے تو کہتے ہیں ہم نے تو پہلے ہی اپنا بچائو کر لیا تھا اور اس حال میں پھرتے ہیں کہ وہ بہت خوش ہوتے ہیں۔''
اس آیت کریمہ میں اللہ عزوجل نے اپنے محترم پیغمبر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے منافقین کی عداوت کے متعلق خبردار فرمایا ہے۔ اس لیے کہ جب بھی نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ کچھ حاصل ہوتا ہے کہ جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آسانی پہنچے اور آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم کو بھی تو یہ بات ان منافقوں کو بہت بری لگتی ہے۔ اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی مصیبت پہنچے تو کہتے ہیں: اسی لیے تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے سے احتراز کر رہے تھے۔ یہ کہہ کر وہ خوشی خوشی وہاں سے منہ موڑ کر چل دیتے ہیں۔ اسی لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی مکمل دشمنی کے مقابلے میں اہل ایمان کو ان منافقین کے لیے جواب کی خاطر یوں راہنمائی فرمائی ہے:
{قُلْ لَّنْ یُّصِیْبَنَآ اِلَّا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَنَا ہُوَ مَوْلٰنَا وَ عَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَo}[التوبۃ:۵۱]
''کہہ دے ہمیں ہرگز کوئی نقصان نہ پہنچے گا مگر جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دیا، وہی ہمارا مالک ہے اور اللہ ہی پر پس لازم ہے کہ ایمان والے بھروسا کریں۔''
یعنی منافقو! اپنے متعلق اب تم ہم سے دو میں سے ایک بھلائی کا انتظار کرو، شہادت یا پھر تم پر کامیابی۔ جب کہ ہم تمہارے بارے میں اس بات کا انتظار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی طرف سے کوئی خاص عذاب دے یا ہمارے ہاتھوں وہ تمہیں قیدی بنوا دے یا تمہیں قتل کروا دے۔
{وَلِیَعْلَمِ الَّذِیْنَ نَافَقُوْا وَقِیْلَ لَہُمْ تَعَالَوْا قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَوِ ادْفَعُوْا قَالُوْا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّا اتَّبَعْنٰکُمْ ہُمْ لِلْکُفْرِ یَوْمَئِذٍ اَقْرَبُ مِنْہُمْ لِلْاِیْمَانِ یَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاہِہِمْ مَّا لَیْسَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا یَکْتُمُوْنَo} [آل عمران:۶۷]
''اور تا کہ وہ ان لوگوں کو جان لے جنھوں نے منافقت کی اور جن سے کہا گیا آئو اللہ کے راستے میں لڑو، یا مدافعت کرو تو انھوں نے کہا اگر ہم کوئی لڑائی معلوم کرتے تو ضرور تمھارے ساتھ چلتے۔ وہ اس دن اپنے ایمان (کے قریب ہونے) کی بہ نسبت کفر کے زیادہ قریب تھے، اپنے مونہوں سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں اور اللہ زیادہ جاننے والا ہے جو وہ چھپاتے ہیں۔''
اور ان منافقین کی ایک چال کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں:
{یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا خُذُوْا حِذْرَکُمْ فَانْفِرُوْا ثُبَاتٍ اَوِ انْفِرُوْا جَمِیْعًاo وَ اِنَّ مِنْکُمْ لَمَنْ لَّیُبَطِّئَنَّ فَاِنْ اَصَابَتْکُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالَ قَدْ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیَّ اِذْ لَمْ اَکُنْ مَّعَہُمْ شَہِیْدًاo وَ لَئِنْ اَصَابَکُمْ فَضْلٌ مِّنَ اللّٰہِ لَیَقُوْلَنَّ کَاَنْ لَّمْ تَکُنْ بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَہٗ مَوَدَّۃٌ یّٰلَیْتَنِیْ کُنْتُ مَعَہُمْ فَاَفُوْزَفَوْزًا عَظِیْمًاo} [النساء:۷۱تا۷۳]
''اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے بچائو کا سامان پکڑو، پھر دستوں کی صورت میں نکلو، یا اکٹھے ہو کر نکلو۔ اور بے شک تم میں سے یقینا کوئی ایسا بھی ہے جو ہر صورت دیر لگا دے گا، پھر اگر تمھیں کوئی مصیبت آپہنچی تو کہے گا بے شک اللہ نے مجھ پر انعام فرمایا، جب کہ میں ان کے ساتھ موجود نہ تھا۔ اور اگر بے شک تمھیں اللہ کی طرف سے کوئی فضل حاصل ہوگیا تو یقینا وہ ضرور کہے گا، جیسے تمھارے درمیان اور اس کے درمیان کوئی دوستی نہ تھی، اے کاش کہ میں ان کے ساتھ ہوتا تو بہت بڑی کامیابی حاصل کرتا۔''
یعنی اگر ایمان والوں کو قتل اور شہید کردیا جائے تو منافق آدمی کہتا ہے: اللہ کا میرے اوپر کس قدر احسان ہے کہ میں لڑائی کے وقت اہل ایمان کے ساتھ نہیں تھا۔ گویا جہاد و قتال فی سبیل اللہ سے دور اور غائب رہنے کو وہ اپنے اُوپر اللہ کا انعام سمجھتا ہے ۔وہ یہ نہیں جانتا کہ اگر اسے اللہ کی راہ میں قتل کردیا جاتا تو اسے فی سبیل اللہ صبر و استقامت یا اللہ کی راہ میں شہید ہوجانے پر کس قدر اجر و انعام ملتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اور اگر اہل ایمان کو اللہ کی مدد، کامیابی اور مال غنیمت حاصل ہو تو پھر منافق آدمی یوں کہتا ہے گویا وہ اہل ایمان کے دین و ملت پر ہے ہی نہیں: اے کاش کہ میں بھی ان مسلمان مجاہدین کے ساتھ ہوتا اور بہت بڑی کامیابی حاصل کرتا۔ وہ اس طرح کہ جو کچھ مسلمانوں نے حاصل کیا ہے، اس میں سے مجھ بھی حصہ ملتا۔ یہی منافق آدمی کا بہت بڑا مقصود العین اور اس کی غرض و غایت ہوتی ہے۔
یہی وہ منافقین ہیں کہ جن کے متعلق اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی یہ بھی ہے:
{الَّذِیْنَ یَتَرَبَّصُوْنَ بِکُمْ فَاِنْ کَانَ لَکُمْ فَتْحٌ مِّنَ اللّٰہِ قَالُوْٓا اَلَمْ نَکُنْ مَّعَکُمْ وَ اِنْ کَانَ لِلْکٰفِرِیْنَ نَصِیْبٌ قَالُوْٓا اَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَیْکُمْ وَ نَمْنَعْکُمْ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ط فَاللّٰہُ یَحْکُمُ بَیْنَکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ط وَ لَنْ یَّجْعَلَ اللّٰہُ لِلْکٰفِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلًاo}[النساء:۴۱]
''وہ جو تمھارے بارے میں انتظار کرتے ہیں، پھر اگر تمھارے لیے اللہ کی طرف سے کوئی فتح ہو جائے تو کہتے ہیں کیا ہم تمھارے ساتھ نہ تھے اور اگر کافروں کو کوئی حصہ مل جائے تو کہتے ہیں کیا ہم تم پر غالب نہیں ہوگئے تھے اور ہم نے تمھیں ایمان والوں سے نہیں بچایا تھا۔ پس اللہ تمھارے درمیان قیامت کے دن فیصلہ کرے گا اور اللہ کافروں کے لیے مومنوں پر ہر گز کوئی راستہ نہیں بنائے گا۔''
یہاں اللہ عزوجل منافقوں کے بارے میں اس بات کی خبر دے رہے ہیں کہ وہ ہمیشہ مسلمانوں کی حکومت کے گرنے، ان کی ملت کے پارہ پارہ ہونے اور ان پر کفر کے غلبہ کے انتظار میں رہتے ہیں۔ اگر مسلمانوں کو اللہ عزوجل کی طرف سے فتح حاصل ہو، یعنی انہیں اللہ کی مدد کے بعد کامیابی اور غنیمت کا مال حاصل ہو تو وہ اہل ایمان سے دوستی اور مودت کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں: کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ اور اگر کافروں کو کبھی مسلمانوں پر کامیابی حاصل ہو تو وہ ان سے کہتے ہیں: ہم نے دراصل اندرون خانہ تمہاری مدد کی تھی اور ایمان والوں کو ہم بے وقوف بناتے رہے اور انہیں رسوا کرنے کے لیے ہم تمہاری مدد میں رہے حتیٰ کہ تم مسلمانوں پر کامیابی و فتح حاصل کرگئے۔ اس لیے اب ہمیں اپنی کامیابی اور حکومت میں شریک کرو۔
یہی وہ منافقین ہیں کہ جن کے متعلق اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی یوں بھی ہے: فرمایا:
{فَتَرَی الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ یُّسَارِعُوْنَ فِیْہِمْ یَقُوْلُوْنَ نَخْشٰٓی اَنْ تُصِیْبَنَا دَآئِرَۃٌ فَعَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّاْتِیَ بِالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عَنْدِہٖ فَیُصْبِحُوْا عَلٰی مَآ اَسَرُّوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ نٰدِمِیْنَo} [المائدہ:۵۲]
''پس تو ان لوگوں کو دیکھے گا جن کے دلوں میں ایک بیماری ہے کہ وہ دوڑ کر ان میں جاتے ہیں، کہتے ہیں ہم ڈرتے ہیں کہ ہمیں کوئی چکر آ پہنچے، تو قریب ہے کہ اللہ فتح لے آئے، یا اپنے پاس سے کوئی اور معاملہ تو وہ اس پر جو انھوں نے اپنے دلوں میں چھپایا تھا، پشیمان ہو جائیں۔ ''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اس سے پچھلی آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو یہود و نصاریٰ کے ساتھ راہ و رسم بڑھا کر دوستیاں لگانے سے منع فرمایا ہے۔ وہ یہود و نصاریٰ کہ جو دین اسلام کے بھی دشمن ہیں اور مسلمانوں کے بھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو کھول کر بیان فرمایا ہے کہ اہل اسلام میں سے جو بھی ان یہود و نصاریٰ سے دوستی لگائے گا وہ بھی اُنہیں میں سے شمار ہوگا۔ اس کے بعد یہاں اس آیت کریمہ میں اللہ کریم نے منافقین کے بارے میں خبر دے دی ہے کہ ان کے دلوں میں اللہ رب العالمین، اللہ کے نبیوں اور اللہ کے دین کے متعلق پورا پورا شک اور نفاق ہوتا ہے۔ یہ لوگ ظاہری اور باطنی دونوں طرح سے یہود و نصاریٰ کے ساتھ دوستی لگانے اور ان سے محنت کرنے میں بھاگ بھاگ کر آگے بڑھا کرتے ہیں۔ (جیسے آج کل پاکستان کے تمام بوھری، بہائی، ذاکری، قادیانی، آغا خانی، اسماعیلی اور رافضی فرقے اپنی بدکرداری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ یہود و نصاریٰ سے عشق کی پینگیں بڑھا کر اہل ایمان مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے میں ان کا آج کوئی ثانی نہیں۔ یہود و نصاریٰ کے تہذیب و تمدن، علوم و فنون، نظام تعلیم و حکومت اور ان کے پاکستان میں غلبہ کے لیے یہ لوگ کون سا جتن ہے جو نہ کر رہے ہوں!) یہ لوگ یہود و نصاریٰ سے اپنی محبت اور دوستی کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ: اُنہیں اس بات کا ڈر ہے : مسلمانوں پر کافروں کی کامیابی والا معاملہ اگر واقع ہوجائے تو پھر یہ منافقین اہل اسلام کے لیے یہود و نصاریٰ کے ہاں مددگار ثابت ہوسکیں اور ان کی یہ دوستی مسلمانوں کو کوئی نفع پہنچا سکے۔ مگر اللہ عزوجل ارشاد فرماتے ہیں:
{تَرٰی کَثِیْرًا مِّنْہُمْ یَتَوَلَّوْنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَہُمْ اَنْفُسُہُمْ اَنْ سَخِطَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ وَ فِی الْعَذَابِ ہُمْ خٰلِدُوْنَo وَ لَوْ کَانُوْا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ النَّبِیِّ وَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مَا اتَّخَذُوْہُمْ اَوْلِیَآئَ وَ لٰکِنَّ کَثِیْرًا مِّنْہُمْ فٰسِقُوْنَo} [المائدہ:۸۰،۸۱]
''تو ان میں سے بہت سوں کو دیکھے گا وہ ان لوگوں سے دوستی رکھتے ہیں جنھوں نے کفر کیا۔ یقینا برا ہے جو ان کے نفسوں نے ان کے لیے آگے بھیجا کہ اللہ ان پر غصے ہوگیا اور عذاب ہی میں وہ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ اور اگر وہ اللہ اور نبی پر اور اس پر ایمان رکھتے ہوتے جو اس کی طرف نازل کیا گیا ہے تو انھیں دوست نہ بناتے اور لیکن ان میں سے بہت سے نافرمان ہیں۔''
یہاں وہ منافقین یں کہ جن کے بارے میں اللہ ربّ العزت نے یوں بھی ارشاد فرمایا ہے:
{وَدُّوْا لَوْ تَکْفُرُوْنَ کَمَا کَفَرُوْا فَتَکُوْنُوْنَ سَوَآئً فَلَا تَتَّخِذُوْا مِنْہُمْ اَوْلِیَآئَ حَتّٰی یُہَاجِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَخُذُوْہُمْ وَ اقْتُلُوْہُمْ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْہُمْ وَ لَا تَتَّخِذُوْامِنْہُمْ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیْرًاo} [النساء:۸۹]
''وہ چاہتے ہیں کاش کہ تم کفر کرو جیسے انھوں نے کفر کیا، پھر تم برابر ہو جائو، تو ان میں سے کسی طرح کے دوست نہ بنائو، یہاں تک کہ وہ اللہ کے راستے میں ہجرت کریں، پھر اگر وہ منہ پھیریں تو انھیں پکڑو اور انھیں قتل کرو جہاں انھیں پائو اور نہ ان سے کوئی دوست بنائو اور نہ کوئی مدد گار۔ ''
اس آیت کریمہ میں اللہ عزوجل نے وضاحت سے بیان فرمایا ہے کہ: یہ منافقین اہل اسلام کو گمراہ کرنے کی آرزو رکھتے ہیں کہ دونوں گروہ گمراہی میں برابر ہوجائیں۔ اُن کی یہ خواہش صرف اور صرف اہل ایمان سے شدت عداوت اور ان کے ساتھ بغض و حسد کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اسی لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس بات سے منع فرمایا ہے کہ وہ منافقین کو دوست بنائیں، جب تک کہ وہ اللہ کی راہ میں ہجرت کرکے مسلمانوں کے ملک اور وطن میں نہ جابسیں۔ اگر وہ ہجرت کرنے سے انکار کردیں اور اپنے کفر کا اظہار کرنے لگیں تو پھر اے ایمان والو! انہیں جہاں کہیں بھی پاؤ، گرفتار کرکے قتل کردو۔ نہ ان سے دوستی اس وقت آڑے آئے اور نہ ہی کبھی اللہ کے دشمنوں... یہود و نصاریٰ اور ہنود و مشرکین پر غلبہ پانے کے لیے ان سے مدد طلب کرو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
یہی وہ منافقین ہیں:
{اَلَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِیْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ فِی الصَّدَقٰتِ وَ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ اِلَّا جُہْدَہُمْ فَیَسْخَرُوْنَ مِنْہُمْ سَخِرَ اللّٰہُ مِنْہُمْ وَ لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌo} [التوبۃ:۷۹]
''وہ لوگ جو صدقات میں خوش دلی سے حصہ لینے والے مومنوں پر طعن کرتے ہیں اور ان پر بھی جو اپنی محنت کے سوا کچھ نہیں پاتے، سو وہ ان سے مذاق کرتے ہیں۔ اللہ نے ان سے مذاق کیا ہے اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔''
یہ منافقوں کی ایک اور پہچان ہے کہ مسلمانوں کے صدقات و خیرات جیسے تمام اموال پر عیب لگاتے ہوئے ان کی زبانوں کے تیروں سے کوئی بھی ایمان والا محفوظ نہیں رہ سکتا۔ چنانچہ اگر کوئی مسلمان کھلے مال کے ذریعے اللہ کے دین اور اس کے بندوں کی مدد کرتے ہوئے صدقہ کرتا ہے تو اس کے متعلق یہ بدبخت کہتے ہیں کہ: دیکھو! یہ آدمی ریاکاری کر رہا ہے۔ اور اگر کوئی ایمان والا حسب توفیق تھوڑے مال کے ذریعے صدقہ کرتا ہے تو کہتے ہیں: اس جیسے مسلمان کی خیرات سے اللہ تعالیٰ مستغنی ہے۔ (اُسے اتنے سے مال کی کیا ضرورت ہے؟)
یہی وہ منافقین ہیں کہ:
{وَ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ رِئَآئَ النَّاسِ وَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَنْ یَّکُنِ الشَّیْطٰنُ لَہٗ قَرِیْنًا فَسَآئَ قَرِیْنًاo} [النساء:۳۸]
''اور وہ لوگ جو اپنے اموال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرتے ہیں اور نہ اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور نہ یوم آخرت پر، اور وہ شخص کہ شیطان اس کا ساتھی ہو تو وہ برا ساتھی ہے۔''
منافقین کی انتہائی بدعادت یہ ہے کہ وہ اپنے اموال ریاکاری کے لیے خرچ کرتے ہیں (اور اس کا الزام ایمان والوں پر لگا رہے ہوتے ہیں کہ وہ زیادہ مال ریاکاری کے لیے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں حالانکہ اہل ایمان تو اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔) ریاکاری تو منافقوں کی صفت اور پہچان ہے۔ اللہ عزوجل اس بات کی خبر دے رہے ہیں کہ: یہ منافق لوگ اطاعت و فرمانبرداری کرتے ہوئے کسی قسم کا اور جہاں کہیں بھی خرچ کریں یا مجبوری کی حالت میں، ان سے یہ خرچ کیا ہوا مال قطعاً قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس لیے کہ انہوں نے اللہ تبارک و تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کفر کا ارتکاب کیا ہے۔ قاعدہ یہ ہے کہ: اعمال صالحہ کی درستگی ایمان باللہ، ایمان بالرسول اور ایمان سے متعلقہ تمام امور پر ایمان لانے اور ایمان رکھنے کے ساتھ مشروط ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
یہی وہ منافق لوگ ہیں:
{یَّسْتَخْفُوْنَ مِنَ النَّاسِ وَ لَا یَسْتَخْفُوْنَ مِنَ اللّٰہِ وَ ہُوَ مَعَہُمْ اِذْ یُبَیِّتُوْنَ مَا لَا یَرْضٰی مِنَ الْقَوْلِ وَ کَانَ اللّٰہُ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطًاo} [النساء:۱۰۸]
''وہ لوگوں سے چھپائو کرتے ہیں اور اللہ سے چھپائو نہیں کرتے، حالانکہ وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے جب وہ رات کو اس بات کا مشورہ کرتے ہیں جسے وہ پسند نہیں کرتا اور اللہ ہمیشہ اس کا جو وہ کرتے ہیں، احاطہ کرنے والا ہے۔''
یعنی یہ لوگ اپنی قبیح عادات اور جرائم کو لوگوں سے تو چھپاتے ہیں تاکہ وہ ان کو برا بھلا نہ کہیں جبکہ اللہ عزوجل سے شرم نہیں کرتے اور اس کے سامنے اپنے جرائم کا ارتکاب کیے چلے جاتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تبارک و تعالیٰ تو ان کے بھیدوں سے باخبر ہے اور جو کچھ اُن کے دلوں اور ضمیروں میں ہوتا ہے وہ تو اس سے بھی مطلع ہوتا ہے۔
یہی وہ منافق لوگ ہیں کہ جن کے بارے میں اللہ رب العزت نے یوں بھی فرمایا ہے:
{اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ وَ ہُوَ خَادِعُہُمْ وَ اِذَا قَامُوْٓا اِلَی الصَّلٰوۃِ قَامُوْا کُسَالٰی یُرَآئُ وْنَ النَّاسَ وَ لَا یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ اِلَّا قَلِیْلًاo مُّذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِکَ لَآ اِلٰی ہٰٓؤُلَآئِ وَ لَآ اِلٰی ہٰٓؤُلَآئِ وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰہُ فَلَنْ تَجِدَلَہٗ سَبِیْلًاo} [النساء:۱۴۲،۱۴۳]
''بے شک منافق لوگ اللہ سے دھوکا بازی کر رہے ہیں، حالانکہ وہ انھیں دھوکا دینے والا ہے اور جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو سست ہو کر کھڑے ہوتے ہیں، لوگوں کو دکھاوا کرتے ہیں اور اللہ کو یاد نہیں کرتے مگر بہت کم۔ اس کے درمیان متردد ہیں، نہ ان کی طرف ہیں اور نہ ان کی طرف اور جسے اللہ گمراہ کر دے پھر تو اس کے لیے ہر گز کوئی راستہ نہ پائے گا۔''
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے تمام اعمال صالحہ سے افضل اور سب سے بہتر عمل کے بارے میں یہاں منافقوں کی پہچان کے بارے میں واضح فرمایا اور یہ افضل عمل، نماز کا ہے کہ: جب منافق لوگ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو اس کے بارے میں نہایت سستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے۔ اس لیے کہ: نماز کے متعلق اُن کی نیت پڑھنے کی ہوتی ہی نہیں، نہ ان کا نماز پر ایمان ہوتا ہے کہ یہ بھی اللہ کے ہاں کوئی نفع بخش عمل ہوگا۔ اور نہ ہی نماز میں انہیں خشوع حاصل ہوتا ہے۔ نہ یہ لوگ نماز کے معانی و مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ اُن کی ظاہری حالت کی پہچان ہے۔ جہاں تک اُن کے خبث باطن کی پہچان کا تعلق ہے تو نماز پڑھنے سے اُن کا مقصود لوگوں کو دکھلانا ہوتا ہے، اخلاص اُن سے قطعاً مفقود ہوتا ہے۔ نہ ہی ان کا معاملہ نماز میں اللہ سے جڑا ہوا ہوتا ہے بلکہ وہ تو اپنے تقیہ اور ریاکاری کے لیے لوگوں کو گواہ بنالیتے ہیں۔ اسی لیے وہ ہمیشہ ایسی ہر نماز سے پیچھے رہتے ہیں کہ جس میں اکثر ان کو دیکھا نہ جاتا ہو۔ جیسے کہ فجر اور عشاء کی نمازیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
یہ منافق لوگ کفر اور ایمان کے درمیان متذبذب رہا کرتے ہیں۔ ظاہری اور باطنی طور پر نہ ہی تو وہ اہل ایمان کے ساتھ ہوتے ہیں اور نہ ہی کافروں کے ساتھ۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کے ظواہر ایمان والوں کے ساتھ ہوتے ہیں اور ان کے باطن کافروں کے ساتھ۔ ان منافقوں میں سے بعض ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جنہیں ہمیشہ شک لاحق رہتا ہے چنانچہ وہ کبھی تو ایمان والوں کی طرف مائل ہوجاتے ہیں اور کبھی کافروں کی طرف۔
یہی وہ منافق لوگ ہیں کہ جن کے جزع، فزع اور واویلا کے متعلق خبر دیتے ہوئے اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں۔
{وَ یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰہِ اِنَّہُمْ لَمِنْکُمْ وَمَا ہُمْ مِّنْکُمْ وَ لٰکِنَّہُمْ قَوْمٌ یَّفْرَقُوْنَo} [التوبہ:۵۶]
''اور وہ اللہ کی قسم کھاتے ہیں کہ بے شک وہ ضرور تم میں سے ہیں، حالانکہ وہ تم میں سے نہیں اور لیکن وہ ایسے لوگ ہیں جو ڈرتے ہیں۔ ''
چنانچہ انہیں اگر کوئی قلعہ مل جائے تو یہ اس میں قلعہ بند ہوکر بیٹھ جائیں یا کوئی غار، سرنگ وغیرہ مل جائے تو اس میں جاگھسیں۔ ان جگہوں کی طرف پلٹتے ہوئے یہ لوگ دوڑیں لگا دیں۔ اس لیے کہ یہ لوگ تمہارے درمیان تو مجبوری کی حالت میں بیٹھتے ہیں نہ کہ محبت کے ساتھ۔ یہ تو چاہتے ہیں کہ تمہارے ساتھ ملیں جلیں ہی نہیں۔ مگر ان کی مجبوری یہ ہے کہ بعض فیصلے ضرورت کے لیے بھی ہوتے ہیں۔
یہ لوگ ہمیشہ حزن و ملال اور غم میں رہتے ہیں۔ اس لیے کہ اسلام اور مسلمان تو ہمیشہ عزت و وقار، اللہ کی مدد اور رفعت و عظمت میں رہتے ہیں۔ چنانچہ جب کبھی مسلمانوں کو کشادگی اور خوشی ملتی ہے انہیں یہ بہت برا لگتا ہے۔ چنانچہ وہ چاہتے ہیں کہ اہل ایمان سے بالکل میل جول نہ رکھیں۔
یہی وہ منافق لوگ ہیں کہ جن کے بارے میں اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی یوں بھی ہے:
{یَحْذَرُ الْمُنٰفِقُوْنَ اَنْ تُنَزَّلَ عَلَیْہِمْ سُوْرَۃٌ تُنَبِّئُہُمْ بِمَا فِیْ قُلُوْبِہِمْ قُلِ اسْتَہْزِئُ وْا اِنَّ اللّٰہَ مُخْرِجٌ مَّا تَحْذَرُوْنَo} [التوبہ:۶۴]
''منافق ڈرتے ہیں کہ ان پر کوئی ایسی سورت اتاری جائے جو انھیں وہ باتیں بتا دے جو ان کے دلوں میں ہیں۔ کہہ دے تم مذاق اڑائو، بے شک اللہ ان باتوں کو نکالنے والا ہے جن سے تم ڈرتے ہو۔''
منافقین آپس میں کوئی بات کیا کرتے تھے اور پھر کہتے: ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارا یہ بھید ہم پر افشاء نہ کرے۔ چنانچہ اللہ عزوجل نے فرمایا:
{قُلِ اسْتَہْزِئُ وْا اِنَّ اللّٰہَ مُخْرِجٌ مَّا تَحْذَرُوْنَo}
''اے ہمارے حبیب و خلیل نبی! آپ ان سے کہہ دیجیے! اڑا لو ٹھٹھہ، مذاق اللہ تعالیٰ اس بھید کو کھولنے والا ہے جس سے تم ڈرا کرتے ہو۔''
یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول پر ایسی وحی عنقریب اتارے گا جس سے تمہاری فضیحت ہوگی (معاشرے میں رسوا ہوجاؤ گے) اور وہ تمہارے معاملے کو کھول کر بیان کردے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
یہی منافقین ہیں کہ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یوں بھی فرمایا ہے:
{وَلَئِنْ سَاَلْتَہُمْ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّمَا کُنَّا نَخُوْضُ وَ نَلْعَبُ قُلْ اَبِاللّٰہِ وَ اٰیٰتِہٖ وَرَسُوْلِہٖ کُنْتُمْ تَسْتَہْزِئُ وْنَo} [التوبہ:۶۵]
''اور بلاشبہ اگر تو ان سے پوچھے تو ضرور ہی کہیں گے ہم تو صرف شغل کی بات کر رہے تھے اور دل لگی کر رہے تھے۔ کہہ دے کیا تم اللہ اور اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ مذاق کر رہے تھے؟''
چنانچہ یہی وہ منافق لوگ ہیں کہ جنہوں نے دین اسلام اور مسلمانوں کو ٹھٹھہ مذاق اور استہزاء کا مادہ بنا رکھا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں:
{لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ کَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ اِنْ نَّعْفُ عَنْ طَآئِفَۃٍ مِّنْکُمْ نُعَذِّبْ طَآئِفَۃً بِاَنَّہُمْ کَانُوْا مُجْرِمِیْنَo} [التوبہ:۶۶]
''بہانے مت بنائو، بے شک تم نے اپنے ایمان کے بعد کفر کیا۔ اگر ہم تم میں سے ایک گروہ کو معاف کر دیں تو ایک گروہ کو عذاب دیں گے، اس وجہ سے کہ یقینا وہ مجرم تھے۔''
یہی وہ منافقین ہیں کہ جن کے متعلق اللہ رب العزت یوں بھی فرماتے ہیں:
{وَ مِنْہُمْ مَّنْ عٰہَدَ اللّٰہَ لَئِنْ اٰتٰنَا مِنْ فَضْلِہٖ لَنَصَّدَّقَنَّ وَ لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَo فَلَمَّآ اٰتٰہُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ بَخِلُوْا بِہٖ وَ تَوَلَّوْا وَّ ہُمْ مُّعْرِضُوْنَo فَاَعْقَبَہُمْ نِفَاقًا فِیْ قُلُوْبِہِمْ اِلٰی یَوْمِ یَلْقَوْنَہٗ بِمَآ اَخْلَفُوا اللّٰہَ مَا وَعَدُوْہُ وَ بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنَo} [التوبہ:۷۵تا۷۷]
''اور ان میں سے بعض وہ ہیں جنھوں نے اللہ سے عہد کیا کہ یقینا اگر اس نے ہمیں اپنے فضل سے کچھ عطا فرمایا تو ہم ضرور ہی صدقہ کریں گے اور ضرور ہی نیک لوگوں سے ہو جائیں گے۔ پھر جب اس نے انھیں اپنے فضل میں سے کچھ عطا فرمایا تو انھوں نے اس میں بخل کیا اور منہ موڑ گئے، اس حال میں کہ وہ بے رخی کرنے والے تھے۔ تو اس کے نتیجے میں اس نے ان کے دلوں میں اس دن تک نفاق رکھ دیا جس میں وہ اس سے ملیں گے۔ اس لیے کہ انھوں نے اللہ سے اس کی خلاف ورزی کی جو اس سے وعدہ کیا تھا اور اس لیے کہ وہ جھوٹ کہتے تھے۔''
اور یہی وہ منافق ہیں کہ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو مخاطب کرکے یوں فرماتے ہیں:
{اِسْتَغْفِرْلَہُمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْلَہُمْ اِنْ تَسْتَغْفِرْلَہُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً فَلَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَہُمْ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ کَفَرُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ اللّٰہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَo} [التوبہ:۸۰]
''ان کے لیے بخشش مانگ، یا ان کے لیے بخشش نہ مانگ، اگر تو ان کے لیے ستر بار بخشش کی دعا کرے گا تو بھی اللہ انھیں ہرگز نہ بخشے گا۔ یہ اس لیے کہ بے شک انھوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور اللہ نا فرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔''
{وَ لَا تُصَلِّ عَلٰٓی اَحَدٍمِّنْہُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّ لَا تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ اِنَّہُمْ کَفَرُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ مَاتُوْا وَ ہُمْ فٰسِقُوْنَo} [التوبہ:۸۴]
''اور ان میں سے جو کوئی مر جائے اس کا کبھی جنازہ نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا، بے شک انھوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور اس حال میں مرے کہ وہ نافرمان تھے۔''
 
Top