• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مناقب سیدنا علی رضی اللہ عنہ: حدیث منزلت

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

حدثنا مسدد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا يحيى،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن شعبة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن الحكم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن مصعب بن سعد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبيه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج إلى تبوك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ واستخلف عليا فقال أتخلفني في الصبيان والنساء قال ‏"‏ ألا ترضى أن تكون مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه ليس نبي بعدي ‏"‏‏.‏ وقال أبو داود حدثنا شعبة عن الحكم سمعت مصعبا‏.
ترجمہ از داؤد راز
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ بن سمیر قفان نے بیان کیا ، ان سے شعبہ نے ، ان سے حکم بن عتبہ نے ، ان سے مصعب بن سعد نے اور ان سے ان کے والد نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک کے لیے تشریف لے گئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں اپنا نائب بنایا۔ علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑے جا رہے ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ میرے لیے تم ایسے ہو جیسے موسیٰ کے لیے ہارون تھے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔ اور ابوداؤد طیالسی نے اس حدیث کو یوں بیان کیا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حکم بن عتبہ نے اور انہوں نے کہا میں نے مصعب سے سنا۔

1۔صحیح بخاری :کتاب المغازی :باب: غزوہ تبوک کا بیان، اس کا دوسرا غزوہ عسرت یعنی (تنگی کا غزوہ) بھی ہے۔ :حدیث نمبر :4416
2۔ صحیح بخاری :کتاب فضائل اصحاب النبی :باب: حضرت ابوالحسن علی بن ابی طالب القرشی الہاشمی کے فضائل کا بیان :حدیث نمبر :3706
3۔ صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 2404
4۔ مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 9/122
5۔ مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 9/113
6۔ مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 9/112
7۔ صحيح الجامع - الصفحة أو الرقم: 7951
8۔ صحيح الجامع - الصفحة أو الرقم:1484
9۔ مسند أحمد - الصفحة أو الرقم: 5/25
10۔ مسند أحمد - الصفحة أو الرقم: 3/94
11۔ مسند أحمد - الصفحة أو الرقم: 3/88
12۔ مسند أحمد - الصفحة أو الرقم: 3/56
خلاصہ


شام کی طرف سے آنے والے تاجروں کے ایک قافلہ نے حجاز میں داخل ھونے کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ خبر دی کہ روم کی فوج مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاری کررھی ھے کسی حادثہ کے بارے میں حفظ ، ماتقدم اس کے مقابلے سے بھتر ھے ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے مدینہ منورہ اور اس کے اطراف میں فوجی آمادگی کا اعلان ھوا ۔ مدینہ منورہ میں سخت گرمی کا عالم تھا ، پھل پکنے اور فصل کاٹنے کا موسم تھا، اس کے باوجود تیس ہزار شمشیر زن اسلام کی چھاؤنی میں جمع ھوگئے اور اس عظیم جھاد میں شرکت پر آمادگی کا اعلان کیا۔
چند مخبروں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ خبر دی کہ مدینہ کے منافق منصوبہ بندی کررھے ھیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عدم موجودگی میں مدینہ میں بغاوت کرکے خون کی ھولی کھیلیں گے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ھر قسم کے حادثہ کی روک تھام کے لئے حضرت علی کو اپنا جانشین مقرر فرما کر انھیں حکم دیا کہ آپ مدینہ میں ھی رھیں اور میری واپسی تک حالات پر نظر رکھیں اور لوگوں کے دینی و دنیاوی مسائل کو حل کریں۔
جب منافقین حضرت علی کے مدینہ میں رھنے کی خبر سے آگاہ ھوئے ، تو انھیں اپنی سازشیں ناکام ھوتی نظر آئیں ۔ وہ کسی اور تدبیر میں لگ گئے وہ چاھتے تھے کہ کوئی ایسا کام کریں جس سے حضرت علی مدینہ سے باھر چلے جائیں ۔ لہذا انھوں نے یہ افواہ پھیلادی کہ حضرت علی اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درمیان رنجش پیدا ھوگئی ھے اسی لئے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے علی کے ساتھ یہ سلوک کیا ھے کہ انھیں اس اسلامی جھاد میں شرکت کرنے کی اجازت نھیں دی!
مدینہ میں حضرت علی کے بارے میں __جو روز پیدائش سے ھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مھر و محبت کے سائے میں پلے بڑھے__اس قسم کی افواہ کا پھیلنا ، حضرت علی اور آپ کے دوستوں کیلئے شدید تکلیف کا سبب بنا ۔ لہذا حضرت علی اس افواہ کی تردید کیلئے مدینہ سے باھر نکلے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں پھنچے ،جو ابھی مدینہ منورہ سے چند میل کی دوری پر تھے آپ نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس واقعہ سے آگاہ فرمایا۔ یھاں پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی کے تئیں اپنے بے پایاں جذبات اور محبت کا اظھار کرتے ھوئے علی کے مقام و منزلت کو درج ذیل تاریخی جملہ میں بیان فرمایا:
” اما ترضی ان تکون منّی بمنزلة ھارون من موسیٰ ، الّا انہ لا نبیّ بعدی "

یہ حدیث جو اسلامی محدثین کی اصطلاح میں حدیث ”منزلت“ کے نام سے مشھور ھے متواتر اور قطعی احادیث میں سے ھے۔
لہذا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اس حدیث کے بیان کے بارے میں کسی قسم کا شک و شبہ نھیں کرنا چاہئے ، بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر اس حدیث کی دلالت ، مفھوم اور مقصد کے بارے میں قدرے غور کرنا چاہئے ۔
پھلے مرحلہ میں جملہ ” الاّ انہ لا نبی بعدی“ قابل غور ھے کہ اصطلاح میں اسے ” جملہٴ استثنائی “ کھا جاتا ھے ، معمولاً جب کسی کی شخصیت کو کسی دوسرے شخص کے ساتھ تشبیہ دیتے ھیں اورکھا جاتا ھے کہ یہ دونوں مقام و منزلت میں ھم پلہ ھیں ، تو اھل زبان اس جملہ سے اس کے سوا کچھ اور نھیں سمجھتے ھیں کہ یہ دو افراد اجتماعی شاٴن و منصب کے لحاظ سے آپس میں برابر ھیں ۔ اگر ایسی تشبیہ کے بعد کسی منصب و مقام کو استثناء ، قرار دیا جائے تو وہ اس امر کی دلیل ھوتا ھے کہ یہ دو افراد اس استثناء شدہ منصب کے علاوہ ھر لحاظ سے ایک دوسرے کے ھم رتبہ ھیں ۔
ابن مطهّر حلّی صاحب نے ایک کتاب حضرت علی کے فضائل بیان کرنے کے لئے """ منھاج الكرامة """"کے نام سے لکھی اور اس کتاب میں صحیح بخاری کی حدیث منزلت پیش کی
مگر کچھ لوگوں کو ابن مطهّر حلّی کا مناقب علی بیان کرنا اچھا نہیں لگا اور اس کتاب کو رد کرنے کی ناکام کوشش کی گئی اور کتاب لکھی گئی
"منھاج السنتہ" اس میں صحیح بخاری کی حدیث منزلت کو کس انداز میں رد کیا گیا وہ آپ حضرات کی خدمت میں پیش کرتے ہیں
ما ثبت في الصحيحين من قول النبي صلى الله عليه وسلم في حديث الأسارى لما استشار أبا بكر ، وأشار بالفداء ، واستشار عمر فأشار بالقتل . قال : " سأخبركم عن صاحبيكم عن صاحبكم . . مثلك يا أبا بكر كمثل إبراهيم ، ومثل عيسى، ومثلك يا عمر مثل نوح أو مثل . موسى سبق هذا الحديث فيما مضى

فقوله لهذا : مثلك كمثل مثل . إبراهيم ، وعيسى ، ولهذا : مثل نوح ، وموسى - أعظم من قوله : أنت مني بمنزلة هارون من موسى ; فإن نوحا ، وإبراهيم ، وموسى ، وعيسى أعظم من هارون

منهاج السنة النبوية في نقض كلام الشيعة القدرية ۔؎،الجزء السابع ، صفحہ ٣٣٠

ابن تیمیہ اپنی کتاب منهاج السنة میں لکھتےہیں
بخاری و مسلم میں یہ حدیث ثابت ہے کہ ۔۔۔۔ ابوبکر مثل ابرہیم ہیں اور مثل عیسی ہیں اور عمر مثل نوح اور مثل موسی ہیں ۔۔۔ پس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانا:اے ابوبکر تم مثل ابرہیم اور عیسی ہو اور اسکی [حضرت عمر] کی مثل نوح و موسی سی ہے یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول سے أنت مني بمنزلة هارون من موسى زیادہ افضل ہے اس لئے نوح اور ابراہیم ، موسی ، عیسی، تمام کے تمام ہارون سے افضل ہیں ۔
بہت تلاش کرنے پر بھی صحیحین یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ابن تیمیہ کی بیان کی گئی حدیث نہیں ملی اب دو صورتیں ہوسکتی ہیں
اول یہ کہ ابن تیمیہ کے زمانے میں جو صحیحین کے نسخے تھے ان میں یہ حدیث بھی موجود تھی لیکن بعد میں ان کتابوں میں تحریف کی وجہ سے یہ حدیث نکال دی گئی ۔
دوم یہ کہ ابن تیمیہ نے یہ حدیث اپنی طرف سے گھڑ کر بیان کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جھوٹ بندھا
پہلی وجہ مانے کی صورت میں ہمیں یہ مانا پڑے گا کہ صحیحین کے موجودہ نسخے تحریف شدہ ہیں کیا کوئی تخریف شدہ کتاب اعتماد کے قابل ہوتی ؟؟
دوسری صورت ماننے کی وجہ سے ابن تیمیہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور بخاری و مسلم پر جھوٹ بندھنے والا ماننا پڑے گا

اگر ہم ابن حجر عسقلانی کی کتاب السان میزان کا مطالعہ کریں تو اس میں ابن مطهّر حلّی کے ذکر کے ضمن میں امام ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ
رد في رده كثيراً من الأحاديث الجياد التي لم يستحضر حالة التصنيف مظانها لأنه كان لاتساعه في الحفظ يتكل على ما في صدره والإنسان عامد للنسيان وكم من مبالغة لتوهين كلام الرافضي ذاته أحياناً إلى تنقيص علي رضي الله عنه
لسان الميزان : ابن حجر العسقلاني : الصفحة : 1137
انا للہ وانا الیہ راجعون
[ابن تیمیہ نے ابن مطھرحلی کے] رد کرنے میں ایک بڑی تعداد احادیث کی جو جید تھی رد کی اور ان احادیث کا انکار کیا ہےاور کبھی اس رافضی [ابن مطھر حلی ] کو رد کرنے میں اتنا آگے بڑھ گئے کہ علی رضي الله عنه کی تنقیص تاک پہونچ گئے
اس سے ثابت ہوا کہ دوسری صورت ہی ماننی ہوگی کہ ابن تیمیہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امام بخاری و مسلم پر جھوٹ بندھا ہے
والسلام
اللہ اعلم
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
"علیہ السلام" کا لقب انبیاء کے ساتھ لگایا جاتا ہے اور صحابہ کرام کے ساتھ "رضی اللہ عنہ" اور صحابیات کے ساتھ "رضی اللہ عنہا"
اور بہرام صاحب ایک بات یاد رکھ لیں ہم لوگ تمام صحابہ و صحابیات مع اہل بیت رضی اللہ عنھم اجمعین کےساتھ محبت کرتے ہیں اور ان کا دل سے احترام کرتے ہیں۔الحمدللہ
 
شمولیت
اگست 05، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
57
شام کی طرف سے آنے والے تاجروں کے ایک قافلہ نے حجاز میں داخل ھونے کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ خبر دی کہ روم کی فوج مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاری کررھی ھے کسی حادثہ کے بارے میں حفظ ، ماتقدم اس کے مقابلے سے بھتر ھے ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے مدینہ منورہ اور اس کے اطراف میں فوجی آمادگی کا اعلان ھوا ۔ مدینہ منورہ میں سخت گرمی کا عالم تھا ، پھل پکنے اور فصل کاٹنے کا موسم تھا، اس کے باوجود تیس ہزار شمشیر زن اسلام کی چھاؤنی میں جمع ھوگئے اور اس عظیم جھاد میں شرکت پر آمادگی کا اعلان کیا۔

نبی کریمﷺ کے ایک اشارے لبیک کہنے والے ان جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں رافضی کیسے بکواس کر تے ہیں کہ یہ سب مرتد ہوگئے تھے؟؟؟

یہ حدیث جو اسلامی محدثین کی اصطلاح میں حدیث ”منزلت“ کے نام سے مشھور ھے متواتر اور قطعی احادیث میں سے ھے۔
لہذا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اس حدیث کے بیان کے بارے میں کسی قسم کا شک و شبہ نھیں کرنا چاہئے ، بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر اس حدیث کی دلالت ، مفھوم اور مقصد کے بارے میں قدرے غور کرنا چاہئے ۔
احادیث مبارکہ کے متعلق روافض نے کیسی دوغلی پالیسی اپنائی ہوئی ہے کہ میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو!
یا تو سب احادیث صحیحہ کو مانا جائے یا سب کو ردّ کر دیا جائے (بمعہ احادیث فضیلت اہل بیت کے)

منھاج السنتہ"اس میں صحیح بخاری کی حدیث منزلت کو کس انداز میں رد کیا گیا وہ آپ حضرات کی خدمت میں پیش کرتے ہیں
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے حدیثِ منزلت کو کہاں ردّ کیا ہے؟

"منھاج السنتہ" اس میں صحیح بخاری کی حدیث منزلت کو کس انداز میں رد کیا گیا وہ آپ حضرات کی خدمت میں پیش کرتے ہیں
ما ثبت في الصحيحين من قول النبي صلى الله عليه وسلم في حديث الأسارى لما استشار أبا بكر ، وأشار بالفداء ، واستشار عمر فأشار بالقتل . قال : " سأخبركم عن صاحبيكم عن صاحبكم . . مثلك يا أبا بكر كمثل إبراهيم ، ومثل عيسى، ومثلك يا عمر مثل نوح أو مثل . موسى سبق هذا الحديث فيما مضى

فقوله لهذا : مثلك كمثل مثل . إبراهيم ، وعيسى ، ولهذا : مثل نوح ، وموسى - أعظم من قوله : أنت مني بمنزلة هارون من موسى ; فإن نوحا ، وإبراهيم ، وموسى ، وعيسى أعظم من هارون

منهاج السنة النبوية في نقض كلام الشيعة القدرية ۔؎،الجزء السابع ، صفحہ ٣٣٠

بہت تلاش کرنے پر بھی صحیحین یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ابن تیمیہ کی بیان کی گئی حدیث نہیں ملی اب دو صورتیں ہوسکتی ہیں
اول یہ کہ ابن تیمیہ کے زمانے میں جو صحیحین کے نسخے تھے ان میں یہ حدیث بھی موجود تھی لیکن بعد میں ان کتابوں میں تحریف کی وجہ سے یہ حدیث نکال دی گئی ۔
دوم یہ کہ ابن تیمیہ نے یہ حدیث اپنی طرف سے گھڑ کر بیان کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جھوٹ بندھا
پہلی وجہ مانے کی صورت میں ہمیں یہ مانا پڑے گا کہ صحیحین کے موجودہ نسخے تحریف شدہ ہیں کیا کوئی تخریف شدہ کتاب اعتماد کے قابل ہوتی ؟؟
دوسری صورت ماننے کی وجہ سے ابن تیمیہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور بخاری و مسلم پر جھوٹ بندھنے والا ماننا پڑے گا
ان باطل اور مردود احتمالات کے علاوہ اور احتمالات بھی ہو سکتے ہیں،
مثلاً امام صاحب کی مراد یہ ہے کہ اس حدیث کی اصل اختصار کے ساتھ صحیحین میں موجود ہے (اور تفصیل دیگر کتب جامع ترمذی اور مسند احمد وغیرہ میں ہے۔ )
یہ بھی احتمال ہو سکتا ہے کہ امام ابن تیمیہ نے غلطی سے صحیحین کا حوالہ دے دیا ہو۔

اپنی کم فہمی یا کسی کی سبقت قلم وغیرہ کی بناء پر اس قسم کے الٹے سیدھے الزام لگانا روافض کا کام ہی ہوسکتا ہے، جو امہات المؤمنین اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر اس سے بھی بڑے الزامات عائد کرتے ہیں۔

اگر ہم ابن حجر عسقلانی کی کتاب السان میزان کا مطالعہ کریں تو اس میں ابن مطهّر حلّی کے ذکر کے ضمن میں امام ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ
رد في رده كثيراً من الأحاديث الجياد التي لم يستحضر حالة التصنيف مظانها لأنه كان لاتساعه في الحفظ يتكل على ما في صدره والإنسان عامد للنسيان وكم من مبالغة لتوهين كلام الرافضي ذاته أحياناً إلى تنقيص علي رضي الله عنه
لسان الميزان : ابن حجر العسقلاني : الصفحة : 1137




انا للہ وانا الیہ راجعون
[ابن تیمیہ نے ابن مطھرحلی کے] رد کرنے میں ایک بڑی تعداد احادیث کی جو جید تھی رد کی اور ان احادیث کا انکار کیا ہےاور کبھی اس رافضی [ابن مطھر حلی ] کو رد کرنے میں اتنا آگے بڑھ گئے کہ علی رضي الله عنه کی تنقیص تاک پہونچ گئے
عربی عبارت کے ترجمہ میں بھی اپنے مطلب کے مطابق کانٹ چھانٹ کی گئی ہے؟؟!
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437

اللہ اعلم

بہرام بھائی!۔
شیخ ابن حجر عسقلانی نے ابن مطھر حلی کے ذکر کے ضمن میں تنقیدی بیان جاری کیا ہےہے یا عام تاثر جو پیدا کیا گیا تھا اس پر رائے دی ہے۔۔۔ تاکہ رافضی مزید فتنے پیدا کرنے سے باز رہیں۔۔۔کیونکہ یہ مسئلے دو ہزار تین میں عربی فورمز پر اٹھائے جاچکے ہیں جس کا رد اس وقت دیا جاچکا تھا۔۔۔ لیکن پھر بھی آپ اپنا شوق پورا کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔۔۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
"علیہ السلام" کا لقب انبیاء کے ساتھ لگایا جاتا ہے اور صحابہ کرام کے ساتھ "رضی اللہ عنہ" اور صحابیات کے ساتھ "رضی اللہ عنہا"
اور بہرام صاحب ایک بات یاد رکھ لیں ہم لوگ تمام صحابہ و صحابیات مع اہل بیت رضی اللہ عنھم اجمعین کےساتھ محبت کرتے ہیں اور ان کا دل سے احترام کرتے ہیں۔الحمدللہ
پہلے آپ صحیح بخاری کا مطالعہ فرمالیں پھر آپ کو معلوم ہوجائے گا لیکن صحیح بخاری کے عربی متن کا مطالعہ کیجئے گا کیونکہ اردو ترجمہ میں تحریف کی گئی ہے
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
نبی کریمﷺ کے ایک اشارے لبیک کہنے والے ان جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں رافضی کیسے بکواس کر تے ہیں کہ یہ سب مرتد ہوگئے تھے؟؟؟
سب صحابہ نہیں لیکن ان 30 ہزار میں سے 12 لوگ یقیناً منافق تھے کیونکہ اس کی گواہی صفی الرحمٰن مبارکپوری نے اپنی کتاب " الرحیق المختوم " میں دی ہے آپ رقم طراز ہیں کہ

اسلامی لشکر تبوک سے مظفر و منصور واپس آیا ۔ کوئی ٹکر نہ ہوئی ۔ اللہ جنگ کے معاملے میں مومنین کے لیے کافی ہوا ۔ البتہ راستے میں ایک جگہ ایک گھاٹی کے پاس بارہ منافقین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی کوشش کی ۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس گھاٹی سے گزر رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف حضرت عمار رضی اللہ عنہ تھے جو اونٹنی کی نکیل تھامے ہوئے تھے اور حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ تھے جو اونٹنی ہانک رہے تھے ۔ باقی صحابہ کرام دور وادی کے نشیب سے گزر ہے تھے اس لیے منافقین نے اس موقع کو اپنے ناپاک مقصد کے لیے غنیمت سمجھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف قدم بڑھایا ۔ ادھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ساتھی حسب معمول راستہ طے کررہے تھے کہ پیچھے سے ان منافقین کے قدموں کی چاپیں سنائی دیں ۔ یہ سب چہروں پہ ڈھاٹا باندھے ہوئے تھے اور اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تقریباً چڑھ ہی آئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو ان کی جانب بھیجا ۔ انہوں نے ان کی سواریوں کے چہروں پر اپنی ایک ڈھال سے ضرب لگانی شروع کی ، جس سے اللہ نے انہیں مرعوب کردیا اور وہ تیزی سے بھاگ کر لوگوں میں جا ملے ۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے نام بتائے اور ان کے ارادے سے باخبر کیا اسی لیے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ’’ رازدان ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ اسی واقعہ سے متعلق اللہ کا یہ ارشاد نازل ہوا کہ ’’ وَھَمُّوْا بِمَا لَم یَنَالُوْا (9: 74) انہوں نے اس کام کا قصد کیا جسے وہ نہ پا سکے ‘‘۔
سورۃ توبہ کی آیت 74 میں کچھ لوگوں کا نام لیے بغیر اللہ انہیں منافقین کہہ رہا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے جنگ تبوک سے واپسی میں چاہا کہ رسولِ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کر دیں۔ نعوذباللہ
لیکن اس سے ظاہر نہیں ہو رہا ہے کہ وہ کونسے اصحاب تھے لیکن کچھ علماء اھل سنت مثلا ابن حزم اندلسی جو اہلسنت کے پایہ کے عالم گزرے ہیں ان افراد کا نام بتاتے ہیں
أما حديث حذيفة فساقط: لأنه من طريق الوليد بن جميع - وهو هالك - ولا نراه يعلم من وضع الحديث فإنه قد روى أخباراً فيها أن أبا بكر، وعمر وعثمان، وطلحة، وسعد بن أبي وقاص - رضي الله عنهم - أرادوا قتل النبي صلى الله عليه وآله وسلم وإلقاءه من العقبة في تبوك - وهذا هو الكذب الموضوع الذي يطعن الله تعالى واضعه - فسقط التعلق به - والحمد لله رب العالمين.

المحلى ابن حزم الصفحة : 2125

المحلى - resource for arabic books
البتہ ابن حزم کا نقل کرتے ہوئے ایک اعتراض یہ ہے کہ سلسلہ سند میں وليد بن عبد الله بن جميع ہے اس کی روایت پر اعتراض کیا ہے لہذا کہتے ہیں کہ روایت موضوع اور کذب ہے لیکن علماء اہلسنت نے وليد بن عبد الله بن جميع کو ابن حزم کے دعوے کے بر خلاف ثقہ بتایا ہے اوراس کی توثیق کی ہے
اس لنک پر

اور سب سے بڑی بات یہ کہ امام مسلم نے صحیح مسلم میں وليد بن جميع سےدو روایت لی ہے

حدثنا زهير بن حرب حدثنا أبو أحمد الكوفي حدثنا الوليد بن جميع حدثنا أبو الطفيل قال كان بين رجل من أهل العقبة وبين حذيفة بعض ما يكون بين الناس فقال أنشدك بالله كم كان أصحاب العقبة قال فقال له القوم أخبره إذ سألك قال كنا نخبر أنهم أربعة عشر فإن كنت منهم فقد كان القوم خمسة عشر وأشهد بالله أن اثني عشر منهم حرب لله ولرسوله في الحياة الدنيا ويوم يقوم الأشهاد وعذر ثلاثة قالوا ما سمعنا منادي رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا علمنا بما أراد القوم وقد كان في حرة فمشى فقال إن الماء قليل فلا يسبقني إليه أحد فوجد قوما قد سبقوه فلعنهم يومئذ

صحيح مسلم » كتاب صفات المنافقين وأحكامهم الصفحة أو الرقم: 2779

وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة حدثنا أبو أسامة عن الوليد بن جميع حدثنا أبو الطفيل حدثنا حذيفة بن اليمان قال ما منعني أن أشهد بدرا إلا أني خرجت أنا وأبي حسيل قال فأخذنا كفار قريش قالوا إنكم تريدون محمدا فقلنا ما نريده ما نريد إلا المدينة فأخذوا منا عهد الله وميثاقه لننصرفن إلى المدينة ولا نقاتل معه فأتينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبرناه الخبر فقال انصرفا نفي لهم بعهدهم ونستعين الله عليهم

صحيح مسلم » كتاب الجهاد والسير » باب الوفاء بالعهد الصفحة أو الرقم: 1787

پس یہ سب قرینہ اس بات پرشاھد ہیں کہ یہ وليد بن جميع قابل اعتماد شخص ہے اور روایت نتجاتاً صحیح کہلائےگی
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
بہرام بھائی!۔
شیخ ابن حجر عسقلانی نے ابن مطھر حلی کے ذکر کے ضمن میں تنقیدی بیان جاری کیا ہےہے یا عام تاثر جو پیدا کیا گیا تھا اس پر رائے دی ہے۔۔۔ تاکہ رافضی مزید فتنے پیدا کرنے سے باز رہیں۔۔۔کیونکہ یہ مسئلے دو ہزار تین میں عربی فورمز پر اٹھائے جاچکے ہیں جس کا رد اس وقت دیا جاچکا تھا۔۔۔ لیکن پھر بھی آپ اپنا شوق پورا کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔۔۔
لیجئے میں لسان المیزان کا متعلقہ صفحہ آپ کی خدمت میں پیش کئے دیتا ہوں آپ سے گذارش ہے کہ اس کا اردو ترجمہ فرمادیں تاکہ مجھ جیسے کم علم حضرات بھی مستفض ہوسکیں
يوسف والد الحسن بن المطهر الحلي الرافضي المشهور:
وكان رأس الشيعة الإمامية في زمانه وله معرفة بالعلوم العقلية شرح مختصر بن الحاجب الموصلي شرحا جيد بالنسبة إلى حل ألفاظة وتوضيحه وصنف كتابا في فضائل علي رضي الله عنه نقضه الشيخ تقي الدين بن تيمية في كتاب كبير وقد أشار الشيخ تقي الدين السبكي إلى ذلك في أبياته المشهورة حيث قال:
وابن المطهر لم يظهر خلائقه ..................
ولابن تيمية رد علـيه وفـى بمقصد الرد واستيفاء أضربه
لكنا نذكر بقية الأبيات في ما يعاب به بن تيمية من العقيدة طالعت الرد المذكور فوجدته كما قال السبكي في الاستيفاء لكن وجدته كثير التحامل إلى الغاية في رد الأحاديث التي يوردها بن المطهر وإن كان معظم ذلك من الموضوعات والواهيات لكنه رد في رده كثيراً من الأحاديث الجياد التي لم يستحضر حالة التصنيف مظانها لأنه كان لاتساعه في الحفظ يتكل على ما في صدره والإنسان عامد للنسيان وكم من مبالغة لتوهين كلام الرافضي ذاته أحياناً إلى تنقيص علي رضي الله عنه وهذه الترجمة لا تحتمل أيضاح ذلك وإيراد أمثلته وكان بن المطهر مقيماً وقد بلغه تصنيف بن تيمية فكاتبه بأبيات يقول فيها: يوسف بن الخطاب: يأتي بعد ترجمة.
يوسف بن حوشب: حدث عنه عبد الله بن عمر مشكدانه لا يكاد يعرف انتهى. وهذا ذكره بن عدي وقال إنه كوفي روى عن ابن يزيد الأعور في المهدي قال أحاديثه مختلفة وليست بالكبيرة.
يوسف بن خطاب المدني: حدث عنه شبابة بن سوار مجهول قد مر والظاهر أن الخطاب بخاء معجمة انتهى. وهذا يقتضي أن يكون الخطاب عنده بالمعجمة وقد قال لما ذكر في المهملة الظاهر أنه بالمعجمة لكنه ذكره في النسب تبعاً للأمير قال الأمير يوسف بن الخطاب يروي عن عبادة بن الوليد بن عبادة عن جابر روى عنه شبابة بن سوار وكذا في كتاب بن أبي حاتم ذكره في من اسم أبيه على الحاء المهملة ولم يذكره في من اسم أبيه على الخاء المعجمة و ذكره ابن حبان في الثقات فقال: يروي عن عبادة بن الوليد بن عبادة بن الصامت.
يوسف بن أبي ذرة: عن جعفر بن عمرو بن أمية عن أنس رضي الله عنه مرفوعاً "من بلغ أربعين سنة صرف الله عنه الجنون والجذام والبرص فإذا بلغ الخمسين لين الله عليه الحساب فإذا بلغ الستين رزقه الله الإنابة فإذا بلغ السبعين أحبه الله وأهل السماء فإذا بلغ الثمانين قبل الله حسناته وتجاوز عن سيئاته فإذا بلغ التسعين غفر الله له ما تقدم من ذنبه وما تأخر وسمي أسير الله في أرضه وشفع لأهل بيته" رواه أنس عن عياض الليثي وأبو ضمرة المدني عنه ورواه أحمد في مسنده عنه ووقع لنا عاليا في رابع الخلعيات عنه قال يحيى بن معين: يوسف بن أبي ذر لا شيء وقال بن حبان لا يجوز الاحتجاج به بحال.
يوسف بن زياد البصري أبو عبد الله: عن ابن أنعم الإفريقي وابن أبي خالد قال البخاري: منكر الحديث وقال الدار قطني: هو مشهور بالأباطيل وكان ببغداد قاله البخاري وقال أبو حاتم: أيضاً منكر الحديث وبعض الناس فرق بين الراوي عن ابن أبي خالد وبين الراوي عن الإفريقي انتهى. وقال النسائي في الكنى ليس بثقة وضعفه الساجي وذكره العقيلي في الضعفاء وقال لا يتابع على حديثه وأورد له من رواية بن أنعم عبد الرحمن بن زياد بن أنعم عن الإغر عن أبي هريرة رضي الله عنه "أن النبي صلى الله عليه وسلم اشترى سراويل بأربعة دراهم فقال: زن وارجح".
يوسف بن سرج: يروي المراسيل وعنه سليمان التيمي من ثقات بن حبان.
يوسف بن سعيد الجذامي: عن عبد الملك بن مروان مجهول انتهى. و ذكره ابن حبان في الثقات فقال: يروي المقاطيع روى عنه محمد بن شعيب بن شابور قلت: ورأيت في النسخة الخزابي فليحترز.
يوسف بن سعيد بن مسافر بن جميل بن أبي طاهر الأرحبي: قال بن النجار كانت له حرمة وافرة في الطلب كان ورعاً متدينا إلا أنه بدت منه هفوة فكذبه أهل الحديث لأجلها ثم إنه مات لم تبد منه حركة بعدها ولا رأينا منه إلا الخير وكان شيخنا أبو الأخضر يملي من أصوله مع أنه كان ممن أنكر عليه ما تقدم. قلت: وحاصل ما أنكروا عليه أنه ضرب على عدة طباق قرأت على بعض شيوخه من مسند أحمد وزعم أن ذلك السماع باطل فظهر لهم أن السماع صحيح وأن رده باطل فأنكروا عليه فرجع وكانت وفاته سنة إحدى وستمائة.


لسان الميزان ابن حجر العسقلاني الصفحة : 1137
لسان الميزان
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
لیجئے میں لسان المیزان کا متعلقہ صفحہ آپ کی خدمت میں پیش کئے دیتا ہوں آپ سے گذارش ہے کہ اس کا اردو ترجمہ فرمادیں تاکہ مجھ جیسے کم علم حضرات بھی مستفض ہوسکیں
میں تو خود کہتا ہوں کے بھائی جو بھی عربی عبارت پیش کرے ساتھ میں ترجمہ بھی پیش کردیا کرے۔۔۔تاکہ جہاں ڈنڈی ماری گئی ہے اس کی نشاندہی کردی جائے آپ الٹی گھنٹی میرے گلے باندھ رہے ہیں۔۔۔بہرام بھائی کچھ تو خیال کیجئے۔۔۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
میں تو خود کہتا ہوں کے بھائی جو بھی عربی عبارت پیش کرے ساتھ میں ترجمہ بھی پیش کردیا کرے۔۔۔تاکہ جہاں ڈنڈی ماری گئی ہے اس کی نشاندہی کردی جائے آپ الٹی گھنٹی میرے گلے باندھ رہے ہیں۔۔۔بہرام بھائی کچھ تو خیال کیجئے۔۔۔
میں نے جو ترجمہ کیا اس پر آپ نے یہ اعتراض اٹھایا
بہرام بھائی!۔
شیخ ابن حجر عسقلانی نے ابن مطھر حلی کے ذکر کے ضمن میں تنقیدی بیان جاری کیا ہےہے یا عام تاثر جو پیدا کیا گیا تھا اس پر رائے دی ہے۔۔۔
اس وجہ سے میں نے آپ سے گذارش کی کہ پھر آپ ہی اس پورے صفحہ کا ترجمہ فرمادیں کہ مجھ کم علم کو بھی پتہ چل جائے کہ امام ابن حجر نے یہ تنقیدی بیان کس پرجاری کیا ہے اور آپ نے گھنٹی بجادی !!!
 
Top