بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن شعبة، عن الحكم، عن مصعب بن سعد، عن أبيه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج إلى تبوك، واستخلف عليا فقال أتخلفني في الصبيان والنساء قال " ألا ترضى أن تكون مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه ليس نبي بعدي ". وقال أبو داود حدثنا شعبة عن الحكم سمعت مصعبا.
ترجمہ از داؤد راز
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ بن سمیر قفان نے بیان کیا ، ان سے شعبہ نے ، ان سے حکم بن عتبہ نے ، ان سے مصعب بن سعد نے اور ان سے ان کے والد نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک کے لیے تشریف لے گئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں اپنا نائب بنایا۔ علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑے جا رہے ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ میرے لیے تم ایسے ہو جیسے موسیٰ کے لیے ہارون تھے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔ اور ابوداؤد طیالسی نے اس حدیث کو یوں بیان کیا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حکم بن عتبہ نے اور انہوں نے کہا میں نے مصعب سے سنا۔
1۔صحیح بخاری :کتاب المغازی :باب: غزوہ تبوک کا بیان، اس کا دوسرا غزوہ عسرت یعنی (تنگی کا غزوہ) بھی ہے۔ :حدیث نمبر :4416
2۔ صحیح بخاری :کتاب فضائل اصحاب النبی :باب: حضرت ابوالحسن علی بن ابی طالب القرشی الہاشمی کے فضائل کا بیان :حدیث نمبر :3706
3۔ صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 2404
4۔ مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 9/122
5۔ مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 9/113
6۔ مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 9/112
7۔ صحيح الجامع - الصفحة أو الرقم: 7951
8۔ صحيح الجامع - الصفحة أو الرقم:1484
9۔ مسند أحمد - الصفحة أو الرقم: 5/25
10۔ مسند أحمد - الصفحة أو الرقم: 3/94
11۔ مسند أحمد - الصفحة أو الرقم: 3/88
12۔ مسند أحمد - الصفحة أو الرقم: 3/56
خلاصہ
شام کی طرف سے آنے والے تاجروں کے ایک قافلہ نے حجاز میں داخل ھونے کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ خبر دی کہ روم کی فوج مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاری کررھی ھے کسی حادثہ کے بارے میں حفظ ، ماتقدم اس کے مقابلے سے بھتر ھے ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے مدینہ منورہ اور اس کے اطراف میں فوجی آمادگی کا اعلان ھوا ۔ مدینہ منورہ میں سخت گرمی کا عالم تھا ، پھل پکنے اور فصل کاٹنے کا موسم تھا، اس کے باوجود تیس ہزار شمشیر زن اسلام کی چھاؤنی میں جمع ھوگئے اور اس عظیم جھاد میں شرکت پر آمادگی کا اعلان کیا۔
چند مخبروں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ خبر دی کہ مدینہ کے منافق منصوبہ بندی کررھے ھیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عدم موجودگی میں مدینہ میں بغاوت کرکے خون کی ھولی کھیلیں گے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ھر قسم کے حادثہ کی روک تھام کے لئے حضرت علی کو اپنا جانشین مقرر فرما کر انھیں حکم دیا کہ آپ مدینہ میں ھی رھیں اور میری واپسی تک حالات پر نظر رکھیں اور لوگوں کے دینی و دنیاوی مسائل کو حل کریں۔
جب منافقین حضرت علی کے مدینہ میں رھنے کی خبر سے آگاہ ھوئے ، تو انھیں اپنی سازشیں ناکام ھوتی نظر آئیں ۔ وہ کسی اور تدبیر میں لگ گئے وہ چاھتے تھے کہ کوئی ایسا کام کریں جس سے حضرت علی مدینہ سے باھر چلے جائیں ۔ لہذا انھوں نے یہ افواہ پھیلادی کہ حضرت علی اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درمیان رنجش پیدا ھوگئی ھے اسی لئے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے علی کے ساتھ یہ سلوک کیا ھے کہ انھیں اس اسلامی جھاد میں شرکت کرنے کی اجازت نھیں دی!
مدینہ میں حضرت علی کے بارے میں __جو روز پیدائش سے ھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مھر و محبت کے سائے میں پلے بڑھے__اس قسم کی افواہ کا پھیلنا ، حضرت علی اور آپ کے دوستوں کیلئے شدید تکلیف کا سبب بنا ۔ لہذا حضرت علی اس افواہ کی تردید کیلئے مدینہ سے باھر نکلے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں پھنچے ،جو ابھی مدینہ منورہ سے چند میل کی دوری پر تھے آپ نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس واقعہ سے آگاہ فرمایا۔ یھاں پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی کے تئیں اپنے بے پایاں جذبات اور محبت کا اظھار کرتے ھوئے علی کے مقام و منزلت کو درج ذیل تاریخی جملہ میں بیان فرمایا:
” اما ترضی ان تکون منّی بمنزلة ھارون من موسیٰ ، الّا انہ لا نبیّ بعدی "
یہ حدیث جو اسلامی محدثین کی اصطلاح میں حدیث ”منزلت“ کے نام سے مشھور ھے متواتر اور قطعی احادیث میں سے ھے۔
لہذا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اس حدیث کے بیان کے بارے میں کسی قسم کا شک و شبہ نھیں کرنا چاہئے ، بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر اس حدیث کی دلالت ، مفھوم اور مقصد کے بارے میں قدرے غور کرنا چاہئے ۔
پھلے مرحلہ میں جملہ ” الاّ انہ لا نبی بعدی“ قابل غور ھے کہ اصطلاح میں اسے ” جملہٴ استثنائی “ کھا جاتا ھے ، معمولاً جب کسی کی شخصیت کو کسی دوسرے شخص کے ساتھ تشبیہ دیتے ھیں اورکھا جاتا ھے کہ یہ دونوں مقام و منزلت میں ھم پلہ ھیں ، تو اھل زبان اس جملہ سے اس کے سوا کچھ اور نھیں سمجھتے ھیں کہ یہ دو افراد اجتماعی شاٴن و منصب کے لحاظ سے آپس میں برابر ھیں ۔ اگر ایسی تشبیہ کے بعد کسی منصب و مقام کو استثناء ، قرار دیا جائے تو وہ اس امر کی دلیل ھوتا ھے کہ یہ دو افراد اس استثناء شدہ منصب کے علاوہ ھر لحاظ سے ایک دوسرے کے ھم رتبہ ھیں ۔
ابن مطهّر حلّی صاحب نے ایک کتاب حضرت علی کے فضائل بیان کرنے کے لئے """ منھاج الكرامة """"کے نام سے لکھی اور اس کتاب میں صحیح بخاری کی حدیث منزلت پیش کی
مگر کچھ لوگوں کو ابن مطهّر حلّی کا مناقب علی بیان کرنا اچھا نہیں لگا اور اس کتاب کو رد کرنے کی ناکام کوشش کی گئی اور کتاب لکھی گئی
"منھاج السنتہ" اس میں صحیح بخاری کی حدیث منزلت کو کس انداز میں رد کیا گیا وہ آپ حضرات کی خدمت میں پیش کرتے ہیں
ما ثبت في الصحيحين من قول النبي صلى الله عليه وسلم في حديث الأسارى لما استشار أبا بكر ، وأشار بالفداء ، واستشار عمر فأشار بالقتل . قال : " سأخبركم عن صاحبيكم عن صاحبكم . . مثلك يا أبا بكر كمثل إبراهيم ، ومثل عيسى، ومثلك يا عمر مثل نوح أو مثل . موسى سبق هذا الحديث فيما مضى
فقوله لهذا : مثلك كمثل مثل . إبراهيم ، وعيسى ، ولهذا : مثل نوح ، وموسى - أعظم من قوله : أنت مني بمنزلة هارون من موسى ; فإن نوحا ، وإبراهيم ، وموسى ، وعيسى أعظم من هارون
منهاج السنة النبوية في نقض كلام الشيعة القدرية ۔؎،الجزء السابع ، صفحہ ٣٣٠
ابن تیمیہ اپنی کتاب منهاج السنة میں لکھتےہیں
بہت تلاش کرنے پر بھی صحیحین یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ابن تیمیہ کی بیان کی گئی حدیث نہیں ملی اب دو صورتیں ہوسکتی ہیںبخاری و مسلم میں یہ حدیث ثابت ہے کہ ۔۔۔۔ ابوبکر مثل ابرہیم ہیں اور مثل عیسی ہیں اور عمر مثل نوح اور مثل موسی ہیں ۔۔۔ پس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانا:اے ابوبکر تم مثل ابرہیم اور عیسی ہو اور اسکی [حضرت عمر] کی مثل نوح و موسی سی ہے یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول سے أنت مني بمنزلة هارون من موسى زیادہ افضل ہے اس لئے نوح اور ابراہیم ، موسی ، عیسی، تمام کے تمام ہارون سے افضل ہیں ۔
اول یہ کہ ابن تیمیہ کے زمانے میں جو صحیحین کے نسخے تھے ان میں یہ حدیث بھی موجود تھی لیکن بعد میں ان کتابوں میں تحریف کی وجہ سے یہ حدیث نکال دی گئی ۔
دوم یہ کہ ابن تیمیہ نے یہ حدیث اپنی طرف سے گھڑ کر بیان کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جھوٹ بندھا
پہلی وجہ مانے کی صورت میں ہمیں یہ مانا پڑے گا کہ صحیحین کے موجودہ نسخے تحریف شدہ ہیں کیا کوئی تخریف شدہ کتاب اعتماد کے قابل ہوتی ؟؟
دوسری صورت ماننے کی وجہ سے ابن تیمیہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور بخاری و مسلم پر جھوٹ بندھنے والا ماننا پڑے گا
اگر ہم ابن حجر عسقلانی کی کتاب السان میزان کا مطالعہ کریں تو اس میں ابن مطهّر حلّی کے ذکر کے ضمن میں امام ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ
انا للہ وانا الیہ راجعونرد في رده كثيراً من الأحاديث الجياد التي لم يستحضر حالة التصنيف مظانها لأنه كان لاتساعه في الحفظ يتكل على ما في صدره والإنسان عامد للنسيان وكم من مبالغة لتوهين كلام الرافضي ذاته أحياناً إلى تنقيص علي رضي الله عنه
لسان الميزان : ابن حجر العسقلاني : الصفحة : 1137
اس سے ثابت ہوا کہ دوسری صورت ہی ماننی ہوگی کہ ابن تیمیہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امام بخاری و مسلم پر جھوٹ بندھا ہے[ابن تیمیہ نے ابن مطھرحلی کے] رد کرنے میں ایک بڑی تعداد احادیث کی جو جید تھی رد کی اور ان احادیث کا انکار کیا ہےاور کبھی اس رافضی [ابن مطھر حلی ] کو رد کرنے میں اتنا آگے بڑھ گئے کہ علی رضي الله عنه کی تنقیص تاک پہونچ گئے
والسلام
اللہ اعلم