• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

منصور اعجاز …… پاکستان دشمن شخصیت

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
منصور اعجاز …… پاکستان دشمن شخصیت

محمد نوید شاہین، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ​
یوں تو ہر قادیانی اپنی خباثت کے اعتبار سے پورے باون گز کا ہوتا ہے لیکن قادیانی نواز سوا باون گز کا ہوتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ اسلام اور پاکستان کو اتنا نقصان شائد قادیانیوں نے نہیں پہنچایا جتنا کلیدی عہدوں پر براجمان قادیانی نواز ٹولے نے پہنچایا ہے۔ بدنام زمانہ جسٹس منیر سے لے کر حسین حقانی تک سب قادیانی عیش و طرب کے اسیر رہے اور اس کے عوض ان کے مفادات کا بھرپور تحفظ کرتے رہے۔ حال ہی میں میمو سکینڈل کیس نے پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کردیا ہے۔ اس صورتحال کا ذمہ دار منصور اعجاز ہے جو قادیانی مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ 1961ء میں امریکی ریاست فلوریڈا میں پیدا ہوا۔ اس کے والد کا نام ڈاکٹر مجدد احمد اعجاز تھا جس کا تعلق قادیانی جماعت سے تھا۔
وہ مشہور سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی کا کزن تھا۔ اس کا دادا اسماعیل اعجاز اور نانا نذیر حسین قادیانی جماعت کے بانی آنجہانی مرزا قادیانی کے ابتدائی 313 ساتھیوں میں شامل تھے۔ منصور اعجاز کا والد ایٹمی سائنسدان کی حیثیت سے پاکستان کے جوہری توانائی کمیشن میں خدمات سرانجام دے رہا تھا لیکن 1974ء میں جب قادیانیوں کو ملک کی منتخب پارلیمنٹ نے غیر مسلم اقلیت قرار دیا تو وہ امریکہ فرار ہوگیا۔ بعض اطلاعات کے مطابق وہ ایٹمی پروگرام کی اہم دستاویزات بھی اپنے ساتھ ہی لے گیا اور وہاں سیاسی پناہ حاصل کرلی۔ چونکہ مجدد اعجاز پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں رہا اور اس کی ایٹمی سائنسدانوں سے دوستیاں تھیں۔ لہٰذا اس نے کلنٹن انتظامیہ کو یہ پیشکش بھی کی کہ وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
منصور اعجاز کا والد امریکہ کی مشہور ورجینیا ٹیک یونیورسٹی کا پروفیسر تھا جس نے امریکہ کے ایٹمی ہتھیاروں کے ڈیزائن کی تیاری میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ 1992ء میں کثرت شراب نوشی کی وجہ سے پھپھڑوں اور دماغ کے کینسر سے 55 سال کی عمر میں اس کا انتقال ہوگیا تھا۔ منصور اعجاز کی والدہ شہزادی لبنیٰ اعجاز بھی فزکس میں پی ایچ ڈی اور پروفیسر تھی۔ نیویارک میں مقیم منصور اعجاز ایک ارب پتی امریکی بزنس مین ہے۔ اس نے 3 شادیاں کیں۔ آج کل وہ اپنی اسرائیلی نژاد بیوی کے ساتھ مناکو میں رہائش پذیر ہے۔ منصور اعجاز پچھلی دو دہائیوں سے امریکی سی آئی اے کے لیے ایجنٹ کے طور پر کام کر رہا ہے۔ سی آئی اے کا سابق ڈائریکٹر جیمز وولسی اس کا انتہائی قریبی رفیق کار ہے۔ منصور اعجاز بہت سالوں سے دنیا کے اہم چینلوں مثلاً سی این این، فاکس اور بی بی سی کے علاوہ کئی دوسرے یورپین ممالک کے پروگراموں میں تجزیہ کار کی حیثیت سے شریک ہورہا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے کالم اور مضامین باقاعدگی سے فنانشل ٹائمز، وال سٹریٹ جرنل، کرسچین سائنس مانیٹر، نیوز ویک اور انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹربویون وغیرہ میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ وہ ٹائمز آف انڈیا میں بھی کئی سال سے لکھ رہا ہے۔ اپنے ٹی وی تبصروں اور اخباری مضامین میں اس کا خاص نشانہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام اور آئی ایس آئی ہے جن کے خلاف وہ پچھلے 15 سال سے لکھ رہا ہے۔ منصور اعجاز کے مبینہ طور پر یہودی میڈیا سے انتہائی قریبی تعلقات ہیں اور فاکس نیوز پر اس کے 100 سے زائد پروگرام نشر ہوچکے ہیں۔
سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے عراق پر حملے کے لیے تباہ کن ہتھیاروں کا جواز ڈھونڈا تو منصور اعجاز اس پراپیگنڈے میں پیش پیش تھا۔ فروری 2007ء میں بھارتی صحافی رام نندہ سین گپتا کو انٹرویو دیتے ہوئے منصور اعجاز نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ اسی صورت میں حل ہوسکتا ہے اگر پاکستان کا ایٹمی پروگرام ختم اور آئی ایس آئی پر کڑی نظر رکھی جائے۔ 7 جنوری 2004ء کو منصور اعجاز نے واشنگٹن پوسٹ میں اپنے مضمون میں لکھا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام اس کینسر کی طرح ہے جس نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ منصور اعجاز نے 10 اکتوبر 2011ء کو فنانشل ٹائمز میں ایک آرٹیکل لکھا جس میں آئی ایس آئی کے خلاف خوب ہرزہ سرائی کی گئی۔
منصور اعجاز کا کہنا تھا کہ اس نے یہ آرٹیکل پاکستانی میڈیا کے ایڈمرل مائیک مولن کے خلاف سٹینڈ لینے پر ایک محبت وطن امریکی شہری کے طور پر لکھا جو اپنی فوج کے سربراہ کی پاکستانی میڈیا کے ہاتھوں بے عزتی برداشت نہ کرسکا۔ اگلے مہینے نومبر میں منصور اعجاز نے میڈیا میں ایک میمو جاری کیا جو بقول اس کے اسے واشنگٹن میں پاکستانی سفیر حسین حقانی نے لکھوایا تھا۔ اس میمو گیٹ سکینڈل نے پاکستانی سیاست میں بھونچال پیدا کردیا اور اس کے نتیجہ میں ساڑھے تین سال سے واشنگٹن میں پاکستانی سفیر کے عہدے پر فائز حسین حقانی کو اسلام آباد واپس آکر استعفیٰ دینا پڑا۔ منصور اعجاز سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے بھی بہت قریب سمجھا جاتا تھا۔ 1995ء میں اس نے وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو خط لکھ کر اطلاع دی کہ جنرل علی قلی خان، یوسف ہارون کے ساتھ مل کر ان کی حکومت گرانے کی سازش کر رہے ہیں۔
معتبر ذرائع کے مطابق اکتوبر 1995ء میں منصور اعجاز نے وزیراعظم بے نظیر بھٹو سے ملاقات کی اور امریکی سینیٹ میں برائون ترمیم کی منظوری کے لیے ایک کروڑ 55 لاکھ ڈالر کی خطیر رقم لابنگ کی لیے مانگی اور مطالبہ کیا کہ یہ رقم اس کی ملکیت ڈیفنس ڈویلپمنٹ انٹرنیشنل نامی لابنگ فرم کو بطور فیس ادا کردی جائے۔ بے نظیر بھٹو نے اتنی خطیر رقم دینے سے انکار کردیا۔ جس پر منصور اعجاز نے بے نظیر بھٹو سے کہا کہ اگر حکومت کے پاس اتنی رقم نہیں ہے تو حکومت پاکستان برائون ترمیم کی منظوری کے لیے امریکی سینیٹروں کو راضی کرنے کے لیے ان کے تین مطالبات منظور کرلے۔
(1) اسرائیل کو تسلیم کیا جائے۔
(2) 1974ء میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دئیے جانے والی ترمیم ختم کی جائے۔
(3) قانون توہین رسالت ختم کیا جائے۔ بے نظیر بھٹو نے ان مطالبات پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے ملاقات ختم کردی۔
واشنگٹن کے پاکستانی سفارت خانے کے مطابق منصور اعجاز نے ایف سولہ طیاروں کے لیے کانگریس میں لابنگ کے لیے 15 ملین ڈالر مانگے اور یہ پیشکش بھی بے نظیر بھٹو کو کی کہ اگر مذکورہ بالا مطالبات تسلیم کر لیے جائیں تو پاکستان کو ایف سولہ طیارے بطور تحفہ مل سکتے ہیں۔ صدر پرویز مشرف کے دور میں منصور اعجاز کو مشیر سرمایہ کاری بنانے کی کوشش ہوئی تاہم حساس ادارے آڑے آگئے اور وہ حکومتی مشیر نہ بن سکا۔ ذرائع کے مطابق مشرف دور میں ہی منصور اعجاز کی والدہ لبنیٰ اعجاز کو مشیر سائنس و ٹیکنالوجی مقرر کرنے کی تجویز کافی آگے بڑھ گئی لیکن ایک مرتبہ پھر پاکستان کے حساس ادارے رکاوٹ بن گئے۔ اگر لبنیٰ اعجاز مشرف دور میں مشیر بن جاتی تو NIST اور CIT جیسے ادارے بھی اس کی تحویل میں دیے جانے کی تجویز تھی جس سے ان اداروں میں اخلاقی بے راہ روی پھیل جانے کا شدید خدشہ تھا۔ کہتے ہیں اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ انٹرنیٹ پر ۔۔۔۔کے نام سے ایک ویڈیو موجود ہے جس میں 2004ء میں نیویارک امریکہ میں ایک ریسلنگ مقابلہ میں دو ننگی عورتوں کو کشتی کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ منصور اعجاز بڑے جذباتی انداز میں اس مقابلہ کی براہِ راست کمنٹری کر رہا ہے۔ گذشتہ دنوں تمام ٹی وی چینلز نے بھی اس ویڈیو کو بریکنگ نیوز کے طور پر نشر کیا۔ ہمارے وہ دوست جو قادیانی اخلاق اور شرافت کے سحر میں مبتلا ہیں، یہ ویڈیو ان کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔
یہ بات ایک تلخ حقیقت ہے کہ امریکہ میں پاکستانی سفیر کی تعیناتی اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک کہ وہ اپنے ملحد، اسلامی تعلیمات سے متنفر ہونے کا برملا اعلان اور مخلوط پروگراموں میں نائو نوش نہ کرے۔ محمد علی بوگرہ، عزیز احمد، ملیحہ لودھی، بیگم عابدہ حسین، حسین حقانی اور شیری رحمان اس کی بین دلیل ہیں۔ بیگم عابدہ حسین نے اپریل 1993ء میں توہین رسالت کے مرتکب ڈاکٹر اختر حمید خان کے خلاف عدالتی کارروائی ختم کرنے کے لیے حکومت پاکستان پر بھرپور دبائو ڈالا اور کہا کہ اسے ملزم اختر حمید کے خلاف مقدمہ درج کیے جانے پر سخت ذہنی اذیت پہنچی ہے۔ یاد رہے یہ وہی اختر حمید خان تھے جنہوں نے اپنی متنازعہ کتاب ’’شیر اور احمق‘‘ میں حضور نبی کریم ﷺ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شان میں بدترین توہین کی تھی۔ جہاں تک شیری رحمان کا تعلق ہے، یہ وہی بدنام زمانہ خاتون ہے جس نے 2010ء میں اسلام دشمن طاقتوں کے ایما پر قانون توہین رسالت کو ختم کرنے کے لیے قومی اسمبلی میں بل پیش کیا تھا۔ جہاں تک حسین حقانی کا تعلق ہے، ان کے دوست انہیں لڈو کا سانپ کہتے ہیں۔ ان سے دشمنی خطرناک اور دوستی اس سے زیادہ بھیانک۔ انہوں نے شروع میں بنیاد پرستی کا لبادہ اوڑھا۔ پھر دنیاوی مفادات اور حرص و ہوس کے ڈینگی بخار میں اس قدر مبتلا ہوئے کہ اب تک نہ سنبھل سکے۔ حسین حقانی کی کتاب ’’Pakistan Between Mosque and Military‘‘ اردو میں یہ کتاب ’’فوج اور ملائوں کے درمیان‘‘ کے نام سے چھپی جس کا ترجمہ شفیق الرحمن میاں نے کیا، اس کتاب پر ایک اسرائیلی آرگنائزیشن ’’Smith Richardson Foundation‘‘ نے حسین حقانی کو ایک لاکھ ڈالر انعام دیا، اس کتاب کے حوالے سے روزنامہ ’’جنگ‘‘ لاہور نے ’’حسین حقانی کی کتاب کے مندرجات ’’میمو سے مماثل ہیں‘‘ کے عنوان سے شائع کیا ہے جس میں درج ہے کہ ’’حسین حقانی نے منصور اعجاز کو مبینہ طور پر جو میمو ڈکٹیٹ کرایا، اس میں اُن کی کتاب ’’مسجد اور ملٹری کے درمیان پاکستان‘‘ کا عکس جھلکتا ہے اور امریکہ میں سابق سفیر میمو گیٹ کے تنازعے میں پھنسنے کے باوجود اس کتاب کے مندرجات کو فخریہ انداز میں قبول کرتے ہیں، حسین حقانی پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر نتقید کرتے رہے ہیں بلکہ انہوں نے قیام پاکستان کو بھی جلد بازی میں رونما ہونے والا ایک واقعہ قرار دیا ہے جس کے مختلف پہلوئوں پر قوم کو غور کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔ مزید برآں حقانی اپنے ایک آرٹیکل میں قادیانیوں کو مسلمانوں ہی کا ایک فرقہ قرار دیتے ہیں اور جب انہوں نے یہودیوں کی وکالت کی تو امریکہ میں تمام مسلمان برادری ان کے خلاف ہوگئی تھی اور اس سے حقانی کے مشن کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں ابہام پیدا ہوا تھا۔‘‘ (روزنامہ ’’جنگ‘‘ لاہور 6 دسمبر 2011ء صفحہ نمبر 1)
قارئین کو یاد ہوگا کہ یہ وہی حسین حقانی ہیں کہ جب نومبر 2010ء میں ایک گستاخ رسول عیسائی خاتون آسیہ کو سیشن جج ننکانہ صاحب نے جرم ثابت ہونے پر سزائے موت سنائی تو قانون توہین رسالت ختم کرنے کے لیے مغربی ممالک نے حکومت پاکستان پر زبردست دبائو ڈالا۔ عیسائی پوپ بینڈکٹ نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ قانون توہین رسالت کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔ پوپ کے بیان کے بعد حسین حقانی نے صدر پاکستان آصف علی زرداری کو قانون توہین رسالت ختم کرنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ ان کے اس اقدام سے امریکہ پاکستان کے تمام قرضے معاف کردے گا۔ آصف علی زرداری ایسا گھاگ سیاستدان سمجھتا تھا کہ اس قانون کو ختم کرنے کے کیا بھیانک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں؟ تاہم انہوں نے سابق وزیر قانون بابر اعوان سے مشاورت کے بعد اس تجویز کو مسترد کردیا۔ حسین حقانی کرائے کے صحافی کے طور پر بھی مشہور ہیں۔ انہوں نے تہمینہ درانی سے بھاری معاوضے کے عوض اس کے خاوند مصطفی کھر کے خلاف معروف کتاب ’’مینڈا سائیں‘‘ لکھی جس میں مصطفی کھر اور پیپلز پارٹی کے کئی رہنمائوں کی کردار کشی کی۔ آج کل انٹرنیٹ فیس بک پر حسین حقانی کی بیگم فرح ناز اصفہانی کی نیم عریاں تصاویر بڑی تعداد میں گردش کر رہی ہیں۔ یاد رہے کہ فرح ناز اصفہانی ماضی میں غنویٰ بھٹو کی طرح کلب ڈانسر تھیں جن کے قصے یورپی میڈیا میں شائع ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے والے بہت سارے پردہ نشینوں کے نام آتے ہیں۔

بڑا مزا ہو تمام چہرے اگر کوئی بے نقاب کردے​
 
Top