• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

منكرين دين پرويزى اور قرباني

رانا اویس سلفی

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
387
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
109
بسم اللہ الرحمن الرحيم

سوال

منکرين دين کے مرکز "ادارہ طلوع اسلام" لاہور نے ايک کتاب شائع کي ہے جس کا نام ان لوگوں نے "قرآني فيصلے" رکھا ہے۔ اس کتاب کے صفحے 57 پر مذکور ہے۔

"يہ جو ہم بقر عيدکے موقع پر ہر شہر اور ہر قريہ ، ہر گلي اور ہر کوچہ ميں بکرے اور گائيں ذبح کرتے ہيں، يہ قرآن کے کس حکم کي تعميل ہے؟ قرآن ميں اس کے متعلق کوئي حکم نہيں، يہ ايک ايسي رسم ہے جو ہم ميں متوارث چلي جارہي ہے۔"

اسي کتاب کے صفحہ 63 پر منکر حديث نے کہا ہے:

"سارے قرآن ميں کسي ايک جگہ بھي نہيں لکھا کہ مکہ کے علاوہ کسي اور جگہ بھي قرباني دي جائے گي۔"

اسي صفحے پر بزعم خودمحققانہ انداز ميں کہا گيا ہے:

"يہ کچھ ہزار برس سے ہوتا چلا آرہا ہے اور کوئي اللہ کا بندہ اتنا نہيں سوچتا کہ يہ کيا ہورہا ہے۔"

اس کے بعد صفحہ 65 پر انکشاف کيا گيا ہے:

"خود رسول اللہ ﷺ نے بھي مدينہ ميں قرباني نہيں دي۔"

پھر اپني گمراہ کن کوششوں کي تکميل اس طرح کي گئي ہے:

"ہر جگہ قرباني دينا نہ حکم خداوندي ہے ، نہ سنت ابراہيمي اور نہ ہي سنت محمدي"

سوا ل يہ ہے کہ منکر دين کي مندرجہ بالا تصريحات کي حيثيت کيا ہے؟

جواب:

منکر دين کا بيان قطعاً غلط ہے۔اس کا يہ کہنا کہ قرآن ميں کہيں قرباني کا حکم نہيں اور يہ کہ سارے قرآن ميں کسي ايک جگہ بھي نہيں لکھا کہ مکہ کے علاوہ کسي اور جگہ بھي قرباني دي جاسکتي ہے، سرتاپا غلط اور گمراہ کن ہے۔ قرآن کريم ايک جامع کتاب ہے او ر اس ميں صراحۃً يہ بات مذکور ہے ۔ يہ اور بات ہے کہ منکر حديث کو بنا بر بے بضاعتي و ہ نظر نہ آئي ہو۔ حق تعاليٰ فرماتا ہے:

وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۗ (حج: 34)ہم نے ہر امت کے ليے قرباني مقرر کي ہے تاکہ وہ اللہ کا نام ليں ان چوپائے جانوروں پر جو اس نے ان کو ديئے ہيں۔

اس آيت سے صاف ظاہر ہے کہ ہر امت ميں قرباني موجود تھي۔ تفصيل يہ ہے کہ ہر امت کے ليے رسول ثابت ہے جيسا کہ فرمايا: وَلِكُلِّ أُمَّةٍ رَسُولٌ (يونس:47)تو جتنے رسول ہوئے اتني ہي امتيں ہوئيں۔ بالفاظ ديگر دنيا ميں جہاں جہاں رسول آئے وہاں امتيں تھيں۔ لہٰذا جہاں جہاں امتيں تھيں، وہاں چوپايوں کي قرباني تھي۔

خلاصہ يہ کہ امتيں نہ صرف مکہ بلکہ تمام روئے زمين پر آباد تھيں ، اور قرباني (جيسا کہ آيت مذکورہ سے ظاہر ہے) ہر امت پر مقرر تھي ، تو معلوم ہوا کہ قرباني تمام روئے زمين پر ہوتي تھي۔ لہٰذا منکر حديث کا يہ کہنا کہ قرآن ميں کہيں قرباني کا حکم نہيں اور يہ کہ سارے قرآن ميں کسي جگہ بھي مذکور نہيں کہ مکہ کے علاوہ کسي اور جگہ بھي قرباني دي جاسکتي ہے ۔ نہ صرف گمراہي بلکہ بے بضاعتي علم کي بين دليل ہے۔ علاوہ ازيں قرباني کو حج يا حاجي ، کعبہ يا مکہ کے ساتھ مختص کرنا بھي درست نہيں، کيونکہ کعبہ کي تعمير سےقبل دنيا ميں امتيں موجود تھيں، اور جہاں جہاں امتيں موجود تھيں وہاں قرباني تھي (جيسا کہ آيت سے ظاہر ہے) لہٰذا قرباني کو حج يا حاجي ، کعبہ يا مکہ کے ساتھ مختص کرنا صحيح نہيں ہے۔

يہاں ايک نکتہ ہے اور وہ يہ ہے کہ اللہ تعاليٰ نے امتوں پر جو قرباني مقرر کي ہے وہ (جيسا کہ مندرجہ ٔبالا آيت سے ظاہر ہے)رسولوں کے واسطے سے کي اور رسولوں نے بحکم خداوندي اپني اپني امتوں کو وہ قرباني سکھائي ۔ بالفاظ ديگر اللہ تعاليٰ نے رسولوں کو قرباني کي ہدايت کي اور رسولوں نے (حسب ہدايت خداوندي) اپني اپني امتوں کو اس قرباني کي ہدايت کردي۔ اس طرح قرباني (بحکم آيۃ کريمہ) تمام رسولوں کي سنت قرار پائي۔ لہٰذا منکر حديث کا يہ قول کہ "يہ نہ سنت ابراہيمي ہے نہ سنت محمدي" قطعاً غلط ہے۔ کيونکہ يہ تو اللہ کي طرف سے ہر امت پر مقرر کي گئي ہے ، اور ظاہر ہے کہ امت کو صرف رسول ہي بتاسکتا ہے۔ لہٰذا يہ قطعاً ہر رسول کي سنت ہے۔اب ديکھئے قرآن کريم ميں وَنُوحًا هَدَيْنَا مِنْ قَبْلُ ۖ سے وَهَدَيْنَاهُمْ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ تک رسولوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمايا۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ ۖ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ (الانعام: 84—90)

يعني يہ جتنے رسول ہيں اللہ سے ہدايت پائے ہوئے ہيں۔ اے رسول تو ان کي پيروي کر۔ چونکہ ہدايت خداوندي (جيسا کہ اوپر بيان کيا گيا) متضمن قرباني ہے ، لہٰذا پيروئ انبياء سابقين کا متضمن ِ قرباني ہونا قطعاً ثابت ہے۔ معلوم ہوا قرباني حکم خداوندي ہے۔ سنت رسل ہے اور سنت محمدي ہے ، نظر بايں منکر حديث کا يہ کہنا کہ قر باني نہ حکم خداوندي ہے نہ سنت ابراہيمي اور نہ سنت محمدي ، يہ بالکل غلط اور گمراہ کن ہے۔ کيونکہ قرباني (جيسا کہ اوپر بيان کيا گيا) حکم خداوندي بھي ہے اور تمام رسولوں کي سنت بھي، لہٰذا حکم خداوندي ہونے کے ساتھ ساتھ سنت ابراہيمي بھي ہے اور سنت محمدي بھي ۔

علاوہ ازيں منکر حديث نے کہا ہے کہ قرباني ايک رسم ہے جو ہزار برس سے رائج ہے۔ اس کے متعلق قارئين کرام کو خوب اچھي طرح سمجھ لينا چاہيے کہ يہ اسي قسم کي ديگر خرافات صرف اس ليے کي جارہي ہيں کہ عامۃ المسلمين کو صحيح راستے سے بيزار کرديا جائے تاکہ رفتہ رفتہ وہ الحاد دہريت کي طرف بآساني مائل ہوسکيں۔ سيدھي سي بات ہے کہ اگر قرباني محض ايک رسم يا بدعت ہوتي اور دين نہ ہوتي (جيسا کہ منکر حديث کا خيال ہے) تو ابتدائے رواج ہي سے اس ميں اختلاف ہوتا جيسا کہ خلقِ افعال ِ عباد، مرجئہ اور امامت کے مسائل ميں رونما ہوا۔ حالانکہ تواتر سے ثابت ہے کہ قرباني کے مسئلہ ميں کسي زمانے ميں بھي اختلاف نہيں ہوا۔ يہ کيسي قرباني کي رسم تھي ، يہ کيسي قرباني کي بدعت تھي کہ سارے جہاں کے مسلمانوں نے بلااختلاف اس کو اپنا ليا اور دين قرار دے ديا۔

خلاصہ ٔ کلام يہ ہے کہ دين ميں کسي رسم يا نئي بات کے پيدا ہوتے ہي اختلاف ہوا ہے ۔ ايسا کبھي نہيں ہو اکہ کوئي رسم بدعت يا نئي بات دين ميں پيدا ہوئي ہو اور سارے عالم کے مسلمان بلا اختلاف اس پر متفق ہوگئے ہوں۔ چونکہ قرباني ايک ايسا مسئلہ ہے جس پر تمام مسلمان بلا کسي اختلاف متفق رہے ہيں اس ليے يہ رسم بدعت نہيں بلکہ دين ہے اور يہي وجہ ہے جو شہر شہر ،قريہ قريہ بلکہ گھر گھر رائج ہے۔ لہٰذا منکر حديث کا يہ کہنا کہ يہ ايک رسم ہے ، قطعاً غلط اور بعيد از فہم ہے۔

اب رہا منکر حديث کا يہ قول کہ قرباني (محض) ہزار سال سے رائج ہے، تو اس کي رکاکت ظاہر ہے۔ سيدھي سي بات ہے کہ اگر قرباني محض ايک رسم يا بدعت ہوتي اور صرف ہزار سال سے ہوتي چلي آتي تو ان ہزار سال سے پہلے تين سو ستر سالہ دور ميں قطعاً اس کا ذکر نہ ہوتا۔ حالانکہ اس ہزار سالہ دوسر سے قبل کي تصنيفات ميں يہ مضمون موجود ہے۔ بخاري کي کتاب اور مؤطا امام مالک دونوں اس ہزار سالہ دور سے پہلے کي کتابيں ہيں اور قرباني کے ذکر سے بھري پڑي ہيں۔
اب اگر يہ کہا جائے کہ يہ استدلال کتب احاديث پر مبني ہے اور منکر حديث کتب احاديث کا قائل ہي نہيں تو اس کا جواب يہ ہے کہ منکر حديث خواہ ان کتابوں ميں مندرجہ احاديث کو مانے يا نہ مانے، يہاں اس سے بحث ہي نہيں۔ بحث تو يہ ہے کہ يہ کتب دوسري اور تيسري صدي ميں تاليف ہوتي ہيں اور ان ميں قرباني کے مضمون کا ہونا اس بات کي بيّن دليل ہے کہ زمانہ ٔ تاليف سے قبل اور زمانہ ٔ تاليف ميں قرباني کا ذکر اور چرچہ موجود تھا، لہٰذا يہ کہنا کہ قرباني ايک رسم ہے جو ہزاروں سال سے رائج ہے ، قطعاً غلط اور بے بنياد ہے ۔ بخاري ميں مندرجہ حديث منکر حديث کے نزديک غلط ہو يا صحيح ، مگر يہ ايک حقيقت ہے کہ وہ کتاب ہزار برس سے قبل کے دور ميں تاليف ہوئي۔ لہٰذا اس ميں مندرجہ احاديث ِ قرباني ہزار برس سے پہلے کي قرار پائيں۔ يہي دليل ہے اس بات کي کہ قرباني اس ہزار سالہ دور سے پہلے دور ميں موجود تھي ۔اب اگرقرباني رسم و بدعت ہوتي اور سنت و دين نہ ہوتي تو يقيناً اس ميں اختلاف ہوتا اور وہ اختلاف منقول بالتواتر ہوتا۔ حالانکہ اس کے برعکس قرباني پر اتفاق منقول بالتواتر ہے اور يہي وجہ ہے کہ يہ سنت ہے اور دين ہے ، ديکھئے عيدالاضحيٰ کي نماز منقول بالتواتر ہے اور دين ہے۔ بعينہٖ ا سي طرح نماز بعد قرباني منقول بالتواتر ہے اور دين ہے جس ذريعہ سے عيدالاضحٰي کي نماز کا دين ہونا منقول ہے ، اسي ذريعہ سے نماز کے بعد قرباني کا دين ہونا منقول ہے۔ خلاصہ يہ ہے کہ منکر حديث کا يہ کہنا کہ قرباني ہزار سالہ پيداوار يا بدعت ہے بالکل غلط اور بے بنياد ہے۔ کيونکہ تقريباً بارہ سو سال کي جتني پيداواريں يا بدعات ہيں وہ سب کو معلوم ہيں ، مثلاً تشيع، خروج، اعتزال، ارجاء وغيرہ سب ہزار سال سے پہلے کي چيزيں ہيں اور سب جانتے ہيں کہ يہ بدعات ہيں يعني ان کا بدعات ہونا منقول بالتواتر ہے۔ اسي طرح اگر قرباني بھي کوئي رسم ، بدعت يا نئي پيداوار ہوتي تو يقيناً اس ميں اختلاف ہوتا اور وہ اختلاف منقول بالتواتر ہوتا۔ حالانکہ ايسا نہيں ہے، معلوم ہوا قرباني کوئي رسم، بدعت يا نئي پيداوار نہيں بلکہ دين ہے اور اس کا دين ہونا اسي طرح بلا اختلاف منقول بالتواتر ہے جس طرح نماز عيدالاضحٰي کا دين ہونا۔ اب اگر يہ کہا جائے کہ قرباني کا بلا اختلاف منقول بالتواتر ہونا اس بات مقتضي نہيں ہے کہ قرباني دين ہو۔ہوسکتا ہے کہ سارا عالم اسلام کسي لاديني چيز پر متفق ہوجائےمگر اس سے يہ لازم نہيں آتا کہ وہ لاديني چيز ديني چيز بن جائے تو اس کا جواب يہ ہے کہ قرباني کا بلا اختلاف منقول بالتواتر ہونا قطعاً اس بات کا مقتضي ہے کہ قرباني دين ہو، کيونکہ اگر ايسا نہ ہو تو پھر قرآن بھي قابل وثوق نہيں رہے گا اور اس کي حيثيت بھي مشتبہ ہوجائے گي۔ اس اجمال کي تفصيل يہ ہے کہ منکر حديث کہتا ہے کہ قرباني محض ہزار سال سے رائج ہے، اس سے پہلے يہ نہ تھي ، لہٰذا يہ دين نہيں ہے۔ منکرحديث کا يہ قول (جيسا کہ گزشتہ صفحات ميں بيان کيا گيا ) قطعاً غلط اور گمراہ کن ہے ، کيونکہ اول تو قرباني کو ہزار سالہ قرار دينا ہي غلط ہے جبکہ اس کا ثبوت ہزار سال سے قبل کي کتب سے ملتا ہو، دوسرے يہ کہ اگرقرباني ہزار سالہ رسم يا بدعت ہو جيسا کہ منکر حديث کا خيال ہے تو اس کے معني يہ ہوں گے کہ سارا عالم اسلام ايک لا ديني امر پر بلا اختلاف متفق ہوگيا ( کيونکہ قرباني بلا اختلاف منقول بالتواتر ہے) اس صورت ميں حيثيت قرآن بھي مشتبہ ہوجائے گي۔ کيونکہ جب سارا عالم اسلام يعني جملہ مسلمانان عالم ايک لاديني امر پر بلا اختلاف متفق ہوگئے تو ان کي يہ نقل کہ "يہ قرآن ،قرآن ہے" کيسے اور کيونکر قابل قبول ہوگي! بالفاظ ديگر جب سارا عالم اسلام قرباني پر (جوبقول منکر ايک لاديني امر ہے) بلا اختلاف متفق ہوگيا ، تو ہوسکتا ہے کہ اس بات پر بھي متفق ہوجائے کہ غير قرآن کو قرآن بتادے اور اس طرح قرآن بھي ہزار سال سے غلط نقل ہوتا چلا آيا ہو! خلاصہ کلام يہ ہے کہ سارا عالم اسلام کسي لاديني چيز کو دين قرا ر نہيں دے سکتا اگر سارا عالم اسلام کسي لاديني چيز کو دين قرار دے سکتا ہو، تو اس وقت سارے عالم اسلام کي بات غير معتبر اور غلط ہو جائے گي۔ اور جب سارے عالم اسلام کي بات غير معتبر اور غلط ہوتو پھر قرآن بھي غير معتبر اور غلط ہوسکتا ہے کيونکہ قرآن بھي اسي عالم اسلام کي نقل پر موقوف ہے۔ ليکن عند الفريقين قرآن معتبر ہے، تو معلوم ہوا جس جماعت نے بالتواتر قرآن نقل کيا ہے وہ جماعت قابل اعتبار ہے۔ بنا بريں جس جماعت کے اعتبار پر قرآن کو قرآن تسليم کيا ہے، اس جماعت کے اعتبار پر قرباني کو دين تسليم کرنے ميں کيا حرج ہے؟ اب رہا منکر حديث کا يہ قول کہ نبي ﷺ نے مدينہ ميں قرباني نہيں کي تو اس کے متعلق ميں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ نبي ﷺ کا مدينہ ميں نماز عيدالاضحٰي ادا کرنا اور نماز کے بعد قرباني کرنا تواتر سے ثابت ہے ، يعني جس طرح نماز عيدالاضحٰي تواتر سے ثابت ہے بعينہٖ اسي طرح قرباني بعد از نماز بھي تواتر سے ثابت ہے، نظر بايں اس قول کي رکاکت اہل علم سے مخفي نہيں۔ اس کے علاوہ ميں اس سلسلے ميں پوچھتا ہوں ، بتاؤ نبي ﷺ نے مدينہ ميں نماز عيدالاضحٰي پڑھي يا نہيں؟ دو ہي صورتيں ہيں يا پڑھي يا نہيں پڑھي۔ اگر کہو نہيں پڑھي تو پھر يہ عيدالاضحٰي کہاں سے آئي؟ حج کے بعد منيٰ ميں تو نماز عيدالاضحٰي ہوتي ہي نہيں، پھر يہ رسم نماز عيدالاضحٰي کدھر سے آئي؟ اگر کہو پڑھي، تو جس طرح اور جس ذريعے سے نماز عيدالاضحٰي کا مدينہ ميں پڑھنا ثابت ہے، بالکل اسي طرح اور اسي ذريعے سے قرباني بعد از نماز ثابت ہے۔ لہٰذا قرباني کو حديث سے ثابت کرنے کي ضرورت نہيں ، جس ذريعے سے نماز عيدالاضحٰي ثابت ہے اور دين ہے ، اسي طريقے سے قرباني بعد از نماز ثابت ہے اور دين ہے۔ مندرجہ بالا بيان سے صاف ظاہر ہے کہ قرباني کوئي رسم يا بدعت نہيں بلکہ ايک ديني امر ہےاور قرآن سے ثابت ہے جيسا کہ فرمايا: وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۗ (حج: 34)يہ اجماع سے بھي ثابت ہے، کيونکہ اگر اس پر اجماع نہ ہوتا (يعني تمام مسلمان اس پر متفق نہ ہوتے ) تو يقيناً اختلاف ہوتا اور وہ اختلاف يا کليۃً ہوتا يا جزئيۃً (کليۃً کےمعني يہ کہ کوئي بھي قرباني کو دين نہ مانتا اور جزئيۃً کے معني يہ کہ کچھ لوگ اس کو دين مانتے اور کچھ نہ مانتے) بہر صورت وہ اختلاف منقول بالتواتر ہوتا۔ حالانکہ ايسا نہيں ہے۔ اس تيرہ سو سالہ دور ميں کسي نے بھي عيدالاضحٰي کي نماز کے بعد قرباني سے اختلاف نہيں کيا۔ معمولي معمولي اختلاف برابر منقول ہوتے چلے آرہے ہيں۔ ليکن "قرباني بعد از نماز عيدالاضحٰي" کے متعلق کوئي اختلاف منقول نہيں۔ معلوم ہوا يہ ايسي ہي متفق عليہ ہے جيسي نماز عيدالاضحٰي ۔ اس پر ايسا ہي اجماع ہے جيسا نماز عيدالاضحٰي پر۔ يہ رسم بدعت نے کيا۔]نہيں بلکہ ايک ديني چيز ہے۔ اس کو حضور ﷺ نے کيا۔ صحابہ کرام تابعين و سلف صالحين نے کيا۔ اور بعد ازاں آج تک يہ متوارث و متواتر چلي آرہي ہے۔ کسي زمانے ميں اس پراختلاف نہيں ہوا۔ کسي دور ميں يہ غير شرعي يا لاديني امر قرار نہيں پائي۔ يہ نہ رسم ہے ، نہ بدعت ہے ، نہ فضول خرچي ہے نہ اصراف بيجا ہے، جو لوگ اس کو ايسا سمجھتے ہيں يقيناً وہ منافق ہيں۔ وَٱللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ ٱلْمُنَـٰفِقِينَ لَكَـٰذِبُونَ
 
Top