• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

منهج سلف صالحين اور اس سے انحراف

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
عصر حاضر میں جس میں اصلاح کے نام سے موسوم کئی جماعتیں مختلف بہروپ دھار کر معرض وجود میں آ رہی ہیں جبکہ اسلام نے ہر قسم کی تفرقہ بازی، اختلافات اور گروہ بندیوں سے منع فرمایا اور اجتماعیت اور کتاب و سنت کو مضبوطی سے تھامنے کی دعوت دی ہے۔ جیسا کہ قران مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَلَا تَكُونُوا۟ كَٱلَّذِينَ تَفَرَّقُوا۟ وَٱخْتَلَفُوا۟ مِنۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ ٱلْبَيِّنَٰتُ ۚ وَأُو۟لَٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴿١٠٥﴾ آل عمران
ترجمہ: اور ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جو متفرق ہوگئے اور واضح احکام آنے کے بعد ایک دوسرے سے اختلاف کرنے لگے یہ وہ لوگ ہیں جن کو (قیامت کے دن) بڑا عذاب ہوگا۔
اوریہ کہ:
وَإِنَّ هَٰذِهِۦٓ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَٰحِدَةً وَأَنَا۠ رَبُّكُمْ فَٱتَّقُونِ ﴿٥٢﴾ فَتَقَطَّعُوٓا۟ أَمْرَهُم بَيْنَهُمْ زُبُرًا ۖ كُلُّ حِزْبٍۭ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ ﴿٥٣﴾ المؤمنون
ترجمہ: اور یہ تمہاری جماعت (حقیقت میں) ایک ہی جماعت ہے اور میں تمہارا پروردگار ہوں تو مجھ سے ڈرو تو پھر آپس میں اپنے کام کو متفرق کرکے جدا جدا کردیا۔ جو چیزیں جس فرقے کے پاس ہے وہ اس سے خوش ہو رہا ہے۔
منہج سلف کی مخالفت میں سرگرم عمل گروہ بندی اور انکی مذمت کو دلائل سے ثابت کرکے ان پر حجت قائم کی جائے ناکہ صرف استھزاء اورمذاق، جیسا کہ اہل تحریش کا وطیرہ ہے جو لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف برانگیختہ کرتے ہیں۔جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان گرامی ہے: " یقیناً تم سے پہلے لوگ کثرت سوال اور انبیاء سے اختلاف کرنے کی وجہ سے ہلاک و برباد ہوئے۔ "اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں کتاب و سنت کو مضبوطی سے تھامنے اور مہاجرین و انصار صحابہ اور انکے پیروکاروں کے منہج سلیم پر گامزن ہونے کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
مسلمانوں کی موجودہ حالت زار کسی باشعور انسان سے مخفی نہیں جس دور میں ہم زندگی گزار رہے ہیں مسلمانوں کی حالت ابتر ہے ہر قسم کا فسق وفجور اور بے راہ روی اپنے عروج پر ہے لیکن اس پر مستزاد یہ کہ ہر روز نت نئی جماعتوں کا ظہور ہورہاہے ۔ کسی اسلامی خوبصورت ناموں سے مزین ہوکر معرض وجود میں آرہی ہیں۔ باوجود اس کے دین میں تفرقہ بازی، گروہ بندی کی قطعاً اجازت نہیں ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے :
مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ (٣٢)وَإِذَا مَسَّ النَّاسَ ضُرٌّ دَعَوْا رَبَّهُمْ مُنِيبِينَ إِلَيْهِ ثُمَّ إِذَا أَذَاقَهُمْ مِنْهُ رَحْمَةً إِذَا فَرِيقٌ مِنْهُمْ بِرَبِّهِمْ يُشْرِكُونَ (٣٣) (سورۃ الروم)
‘‘ان مشرکوں میں سے نہ ہونا جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور خود بھی گروہ گروہ ہوگئے ہر گروہ اس چیز پر خوش ہے جو اس کے پاس ہے ۔’’
یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی بھی نافرمانی کررہے ہیں ۔
وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (١٥٣) (سورۃ الانعام)
‘‘ اور یہ کہ دین میرا سیدھا راستہ ہے جو مستقیم ہے ، سو اس راہ پر چلو اور دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کر دیں گی۔’’
ایک صحیح حدیث میں اس کا مکل نقشہ کھینچا گیا ہے ۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: خَطَّ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطًّا ، ثُمَّ قَالَ: «هَذَا سَبِيلُ اللَّهِ» ، ثُمَّ خَطَّ خُطُوطًا عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ، ثُمَّ قَالَ: " هَذِهِ سُبُلٌ عَلَى كُلِّ سَبِيلٍ مِنْهَا شَيْطَانٌ يَدْعُو إِلَيْهِ "، ثُمَّ قَرَأَ: ( وَإِنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ، فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ ) (مسند أحمد : 4142)
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے زیمن پر ایک سیدھی خط کھینچی اور اس پر دست مبارک رکھ کر فرمایا ‘‘یہ اللہ کی راہ ہے ’’ پھر آپ ﷺ نے اس سیدھی خط کے اردگرد مزید خطوط کھینچے اور فرمایا ‘‘یہ وہ مختلف راہیں ہیں جن میں سے ہر ایک کے سر پر ایک شیطان بیٹھا لوگوں کو اپنی طرف دعوت دے رہا ہے ’’ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ
اس سے معلوم ہوا کہ صراط مستقیم صرف ایک ہی راہ ہے ، جس پر سلف صالحین کاربند تھے لیکن یہ نومولود جماعتیں منہج سلف سے روگردانی کرتے ہوئے فتنہ وفساد برپا کرتی رہتی ہیں۔ جس کا مشاہدہ ہر صاحب بصیرت کررہا ہے لیکن ہر دور میں اللہ تعالیٰ ایسے جلیل القدر علماء پیدا فرمائے جو ان فتنہ پرور جماعتوں کی حقیقت کو لوگوں کے سامنے پیش کرتے رہے ۔ پردے میں ڈھکے چھپے ان کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کیا ،
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
ہر صاحب علم پر واجب ہے کہ وہ علم کو چھپائے نہیں بلکہ اسے لوگوں کے سامنے بیان کرے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے :
وَإِذْ أَخَذَ
ٱللَّهُ مِيثَٰقَ ٱلَّذِينَ أُوتُوا۟ ٱلْكِتَٰبَ لَتُبَيِّنُنَّهُۥ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُۥ فَنَبَذُوهُ وَرَآءَ ظُهُورِهِمْ وَٱشْتَرَوْا۟ بِهِۦ ثَمَنًا قَلِيلًا ۖ فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُونَ ﴿١٨٧﴾ آل عمران
ترجمہ: اور جب خدا نے ان لوگوں سے جن کو کتاب عنایت کی گئی تھی اقرار کرلیا کہ (جو کچھ اس میں لکھا ہے)اسے صاف صاف بیان کرتے رہنا۔ اور اس (کی کسی بات)کو نہ چھپانا تو انہں نے اس کو پس پشت پھینک دیا اور اس کے بدلے تھوڑی سی قیمت حاصل کی۔ یہ جو کچھ حاصل کرتے ہیں برا ہے۔
مخالفین حق کا رد کرنا دین کےاہم واجبات میں سے ہے اور اس کو ترک کرنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں۔ اور حق بات کو بیان نہ کرنے والا گونگا شیطان ہے۔ اسی وجہ سے میں نے سلفیوں کے دشمنوں پر رد لکھا ہے جن کاطریقہ سلف صالحین کے منہج کے خلاف ہے اور وہ اس کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ اورلوگوں کو سلفیوں سے ڈراتے ہیں چنانچہ یہ ہر مسلمان پر واجب ہےکہ وہ حکمت و دانائی اور اچھی نصیحت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی سنّت کا عَلم بلند کرےاور منحرفین و مخالفین کے کذب و افتراء اور ان کے نقص و عیب کا پردہ چاک کردے۔ کیونکہ یہ رسولوں کے مخالف ہیں اور یہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی قبیل سے بھی ہے جس کی وجہ سے اس امت کو فضیلت دی گئی ہے۔
ان انحرافات کی بنیاد افراط و تفریط پر مبنی ہے اور اس زمانہ میں تو منہج سلیم سے انحراف جس کے مظاہر فتنہ و فساد، غلو اور اعراض وغیرہ ہیں۔ پس یہ ضروری ہے کہ درست کامل شرعۃ کے ساتھ ان میں سے صحیح شرعی مؤقف بیان کیا جائے۔ کیونکہ یہ ہی شریعت محمدیہ کا شعار ہے تاکہ دین اسلام پاک اور صاف نبوی منہج کے مطابق رہے اور ہر مسئلے کی بنیاد دلیل ہو جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

ۗ قُلْ هَاتُوا۟ بُرْهَٰنَكُمْ إِن كُنتُمْ صَٰدِقِينَ ﴿١١١﴾ البقرۃ
ترجمہ: (اے پیغمبر ان سے) کہہ دو کہ اگر سچے ہو تو دلیل پیش کرو۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
أَمِ
ٱتَّخَذُوا۟ مِن دُونِهِۦٓ ءَالِهَةً ۖ قُلْ هَاتُوا۟ بُرْهَٰنَكُمْ ۖ هَٰذَا ذِكْرُ مَن مَّعِىَ وَذِكْرُ مَن قَبْلِى ۗ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ٱلْحَقَّ ۖ فَهُم مُّعْرِضُونَ ﴿٢٤﴾ الانبیاء
ترجمہ: کیا لوگوں نے خدا کو چھوڑ کر اور معبود بنالئے ہیں۔ کہہ دو کہ (س بات پر)اپنی دلیل پیش کرو۔ یہ (میری اور)میرے ساتھ والوں کی کتاب بھی ہے اور جو مجھ سے پہلے (پیغمبر)ہوئے ہیں۔ ان کی کتابیں بھی ہیں۔ بلکہ (بات یہ ہے کہ) ان میں سے اکثر حق بات کو نہیں جانتے اور اس لئے اس سے منہ پھیر لیتے ہیں۔
اور آپﷺنے تو ان لوگوں کو جنہوں نے رسول اللہﷺ کی عبادت کو کم سمجھا ، ارشاد فرمایا کہ : " اللہ کی قسم میں تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا خوف رکھنے والا اور ڈرنے والا ہوں لیکن میں روزہ بھی رکھتا ہوں، افطار بھی کرتا ہوں، نماز بھی پڑھتا ہوں اور نیند بھی کرتا ہوں اور میں نے شادیاں بھی کی ہیں۔ چنانچہ جو شخص میری سنّت سے منہ پھیرے گا وہ ہم میں سے نہیں ۔" ( صحیح بخاری)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار اس دین حنیف سے غالی قسم کے لوگوں کی تحریف، کذابین کی نسبت کو اور جاہلوں کی تاویل کی نفی کرتے ہیں۔ اسی لئے تو علماء کرام نے ناقلین حدیث کے اوہام کو بھی بیان فرمایا ہے۔ امام احمد ؒ نے فرمایا " جب آپ بھی خاموش ہوجائیں اور میں بھی خاموش ہوجاؤں تو جاہل صحیح کو ضعیف سے کیسے پہچانے گا۔"
اور یہ بہت ضروری ہے کہ اہل بدعت اور منہج سلف کے مخالف گروہوں کی غلطیوں اور گمراہیوں کو واضح کیا جائے۔ جیسا کہ ہمارے دور میں اخوان المسلمین اور تبلیغیوں کا دور دورہ ہے۔ چنانچہ یہ اہم ترین واجبات میں سے ہے کیونکہ دلوں کا بگڑ جانا بہت ہی سخت اور نقصان دہ ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے ہم نے اپنی اس مختصر سی کتاب میں اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتے ہوئے کہ حق کا دامن ہم سے نہ چھوٹ جائے، ان اہل باطل کا رد کیا ہے جبکہ ہم نے اہل حق علماء کے منہج کو بیان کیا ہے اور اصول دین کے مخالفین کی کج رویوں کی بھی خوب وضاحت کر دی ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:
" ائمہ دین تو صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے منہج پر ہیں اور صحابہ تو سارے ہی متفق و متحد تھے اگرچہ انہوں نے بعض فروعی مسائل جو کہ طہارت، نماز، حج، طلاق اور فرائض وغیرہ سے متعلق ہیں ،میں اختلاف ہوا ہے لیکن ان کا اجماع قطعی ہے۔ جو شخص کسی ایک کے لئے تعصب کرتا ہے وہ گویا ایسا ہے کہ کوئی صرف کسی ایک صحابی کو مانے اور اس کےلئے تعصب کرے۔ جیسے رافضی ہیں جو تین خلفاء راشدین کے علاوہ صرف علی رضی اللہ عنہ کو مانتے ہیں اور اسی طرح خارجی ہیں جو سیّد عثمان رضی اللہ عنہ اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ پر طعن کرتے ہیں۔ یہ سارے طریقے اہل بدعات کے ہیں جو کہ قابل مذمت ہیں۔ جن کے بارے میں کتاب سنت اور اجماع سے ثابت ہو چکا ہے کہ یہ شریعت سے خارج ہیں اور اس منہج سے انحراف کر چکے ہیں جس کے ساتھ اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا تھا ۔چنانچہ جو صرف ایک امام کو مانتا ہے اور اس کے لئے تعصب کرتا ہے وہ ان مذکورہ لوگوں کے مشابہہ ہے۔ خواہ وہ مالک، شافعی، ابو حنیفہ اور احمد بن حنبل میں سے کسی ایک کی تقلید کرے اور ان کیلئے تعصب کرے۔
اورحقیقت یہ ہے کہ جو ان ائمہ میں کسی ایک کی تقلید کو واجب قرار دینے والا بنسبت دوسروں کے علم و دین میں جاہل ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ جاہل اور ظالم ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے علم اور عدل و انصاف کا حکم دیا ہے اور جہالت و ظلم سے منع فرمایا ہے۔
إِنَّا عَرَضْنَا
ٱلْأَمَانَةَ عَلَى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَٱلْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا ٱلْإِنسَٰنُ ۖ إِنَّهُۥ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا ﴿٧٢﴾ الاحزاب
ترجمہ: ہم نے(بار) امانت کو آسمانوں اور زمین پر پیش کیا تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے۔ اور انسان نے اس کو اٹھا لیا۔ بےشک وہ ظالم اور جاہل تھا۔
ابو یوسف اور محمد بن حسن کو دیکھئے ، یہ باقی لوگوں کی بنسبت امام ابو حنیفہ کے زیادہ اتباع کرنے والے اور ان کی بات کو خوب سمجھنے والے تھے لیکن اس کے باوجود بھی انہوں نے کئی مسائل میں ان سے اختلاف کیا ہے جن کا شمار کرنا مشکل ہے اس کی وجہ یہی تھی کہ جب ان کے پاس کتاب و سنت سے کوئی چیز ظاہر ہوتی تو وہ صرف نصوص کی اتباع کرتے اس کے باوجود وہ امام صاحب کی تعظیم کرنے والے شمار کیے جاتے ہیں ۔ ان کو تذبذب کا شکار نہیں کہا گیا بلکہ امام ابو حنیفہ اور دوسرے کبھی کوئی بات کہتے پھر ان کے مخالف کوئی دلیل آجاتی تو وہ اس دلیل کو اپنا لیتے تھے ان کو بھی تذبذب کا شکار نہیں کہا گیا۔
انسان ہمیشہ ہی علم و ایمان کو حاصل کرتا رہتا ہے۔ جب کوئی مخفی بات اس پر ظاہر ہوجاتی تو وہ اس کی اتباع کرتا ہے تو اس کو متردد نہیں بلکہ ہدایت یافتہ کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَقُل رَّبِّ زِدْنِى عِلْمًا ﴿١١٤﴾ طہ
ترجمہ: اور دعا کرو کہ میرے پروردگار مجھے اور زیادہ علم دے۔
ہر ایک مومن مسلمان پر واجب ہے کہ مومنین اور نیک علماء کی صحبت اختیار کرے اور حق کی جستجو میں رہے اور جہاں سےبھی حق ملے اسکی اتباع کرے اور اس حقیقت کو جان لے کہ جو اجتہاد کرتا ہے اگر وہ درستگی کو پہنچا تو اس کے لئے دو اجر ہیں اور جس نے اجتہاد کیا مگر غلطی لگ گئی تو اس کو اجتہاد کرنے کی وجہ سے ایک اجر ملے گا اور اس کی غلطی معاف کر دی جائیگی۔ اور یہ کسی کے لئے بھی جائز نہیں کہ کسی ایک عالم کے قول کو ہی اپنا شعار بنائے ، اسکی اتباع کو واجب قرار دے اور باقی سب سے روکے۔" ( مجموعہ فتاوی 22/252)
شیخ الاسلام ایک جگہ فرماتے ہیں:
" ہر وہ آدمی سزا کا مستحق ہے جو اہل بدعت کی طرف نسبت کرتا ہے ۔ جس نے ان کا دفاع کیا یا انکی تعریف کی یا ان کی کتب کی تعظیم کی یا جس نے ان کی مدد و معاونت کی یا انکے خلاف بات کو ناپسندیدہ جانا یا ان کی باتوں کے لئے عذر تلاش کرنے لگا کہ یہ بات میں نہیں جانتا کیسی ہے ۔ اس قسم کے عذر تو جاہل یا منافق کے علاوہ اور کوئی نہیں کرتا۔ اس طرح وہ بھی مستحق سزا ہے جس نے ان مبتدعین کے حالات کو جانتے ہوئے ان کے خلاف تعاون نہیں کیا۔ کیونکہ ان کے خلاف کھڑا ہونا عظیم واجبات میں سے ہے۔ کیونکہ ان صوفیوں، علماء، بادشاہوں اور امراء نے ہی لوگوں کی عقل اور دین کو بگاڑا ہے۔ یہ زمین میں فساد مچانے والے ہیں اور اللہ کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ ان لوگوں نے دینی اعتبار سے مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچایا بنسبت ان لوگوں کے جنہوں نے مسلمانوں کو دنیاوی نقصان دیا جیسے ڈاکو، راہزن اور تاتاری جنہوں نے مسلمانوں کا مال تو چھین لیا مگر ان کے دین کو باقی رکھا۔" (مجموعہ فتاوی 2/132)
ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں:
" یہ دین حنیف اب کبھی بھی منسوخ نہیں ہوگا لیکن اس میں کچھ لوگ تحریف ، تبدیل اور کذب داخل کردیتے ہیں یا حق چھپاتے ہیں جس کے ذریعے حق کو باطل کے ساتھ گڈ مڈ کر دیتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ رسولوں کے بعد ایسے لوگوں کو پیدا فرماتے ہیں جن کے ذریعے حجت قائم کرتا ہے چنانچہ یہ لوگ غلو کرنے والوں کی تحریف اور جھوٹوں کے غلط انتساب اور جاہلوں کی تاویل کی نفی کرتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ حق کو ثابت اور باطل مٹا دیتے ہیں اگرچہ مشرک ناپسند کرتے ہوں۔
آسمانوں سے نازل شدہ کتب نبی آخر الزماںﷺ سے وارد آثار کے ذریعے اللہ تعالیٰ حق و باطل میں تمیز فرماتے ہیں اور ان لوگوں کے درمیان فیصلہ فرمائے گا جس چیز میں وہ اختلاف کرتے تھے۔"(مجموعہ فتاوی 11/435)
اور یہ بھی فرمایا کہ:
" اہل علم کا اہل بدعات اورمنحرف مناہج پر سکوت اختیار کرنا درحقیقت فریضہ امربالمعروف اور نہی عن المنکرکو معطل کرنے کے مترادف ہے کیونکہ اسی فریضہ کی بدولت امت محمدیہ کو فضیلت حاصل ہوئی ۔ اور مصیبتوں اور بلاؤں کے نزول کا سبب بھی اس کا سقوط ہی ہے جیسا کہ بنی اسرائیل کے ساتھ ہوا کہ اللہ کی نازل کردہ کتب توریت، انجیل اور زبور میں ان پر لعنت کی گئی اور ان کو رحمت الٰہی سے دھتکارا گیا۔"
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ:
لُعِنَ
ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ مِنۢ بَنِىٓ إِسْرَٰٓءِيلَ عَلَىٰ لِسَانِ دَاوُۥدَ وَعِيسَى ٱبْنِ مَرْيَمَ ۚ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا۟ وَّكَانُوا۟ يَعْتَدُونَ ﴿٧٨﴾ كَانُوا۟ لَا يَتَنَاهَوْنَ عَن مُّنكَرٍ فَعَلُوهُ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا۟ يَفْعَلُونَ ﴿٧٩﴾ المائدۃ
ترجمہ: جو لوگ بنی اسرائیل میں کافر ہوئے ان پر داؤد اور عیسیٰ بن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی یہ اس لیے کہ نافرمانی کرتے تھے اور حد سے تجاوز کرتے تھے (اور) برے کاموں سے جو وہ کرتے تھے ایک دوسرے کو روکتے نہیں تھے بلاشبہ وہ برا کرتے تھے۔
امام ذھبیؒ فرماتے ہیں:
" حق بات کو کھلم کھلا بیان کرنا بہت عظیم بات ہے۔ اس میں قوت اور اخلاص کی ضرورت ہے۔ کمزور مخلص آدمی اس کو ادا کرنے سے عاجز ہوتا ہے اور طاقتور بغیر اخلاص کے سر انجام دے نہیں سکتا اور جس نے ان دونوں کے ساتھ اسے ادا کیا وہ صادق ہے۔"( سیر اعلام النبلاء: 21/278)
باری تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حق دکھائے اور پھر اس کی اتباع کی توفیق عنایت فرمائے اور باطل بھی دکھائے اور پھر اس سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ وہ ہی دعاؤں کو سننے والا اور قبول فرمانے والا ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اسلام میں دعوتی مناہج
ارض اسلام میں کئی دعوتی مراکز پائے جاتے ہیں ۔ جن میں قابل ذکر اور اہم کبار علماء کا وجود ہے جو کہ احکام کا استنباط کرتے ہیں۔ جبکہ اس کے علاوہ اخوان المسلمین، السروریون اور تبلیغیوں کے مراکز بھی ہیں۔سلفی علماء جو کہ توسط اور اعتدال کی راہ اختیار کئے ہوئے ہے، کی فضیلت کا بیان اور ان کی دعوتی صفات کی وضاحت بیان کی جا رہی ہے ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
مدرسہ کبار علماء کرام
کبار علماء کرام نے ہر دور میں منحرف مواقف کی نشاندہی کی ان کے نقص و عیوب کو عیاں کیااور جس سے حق و صداقت کی وضاحت ممکن ہوئی ۔ اللہ کی ذات اقدس کے بعد مدرسہ حقہ کے کبار علماء نہ ہوتے تو ان شہروں سے توحید کا وجود ہی ختم ہوجاتا جس پر یہ قائم ہیں۔ یقیناً انہوں نے ہر دور میں حق کا ساتھ دیا ، باطل کی بیخ کنی کی۔ اسی طرح افغان جہاد کے قائدین کی غلطیوں اور عیوب کی پردہ کشائی فرمائی اور برملا کہا کہ شیخ جمیل الرحمٰن سلفی ہی حق بجانب ہیں۔ اہل حدیث سلفیوں، اور انصار السنہ کے منہج کی توضیح فرمائی۔ لوگوں کو کبار علماء کرام اور حکمرانوں کے اردگرد رہنے کی دعوت دی۔ شرک و بدعت، فتنہ پردازی، گروہ بندی سے لوگوں کو ڈرایا۔ اخوان المسلمین، سروریوں اور تبلیغیوں وغیرہ جیسی منحرفہ جماعتوں کی خطاؤں اور غلطیوں کی نشاندہی فرمائی۔
اس مدرسہ حقہ کے علماء کرام میں سے والدی عزیز شیخ عبدالعزیز بن بازؒ سر فہرست ہیں۔ جن کو اللہ تعالیٰ نے تنقیص اور مبالغہ سے ہٹ کر حق کے طالب کے لئے قدوہ اور پیشوا بنایا ہے۔ بلاشبہ اس عظیم شخصیت نے علم و عدل، توسط، مختلف امور کے مابین موازنہ کرنا، محسن کو احسان کی ترغیب دینے مخطی کو اس کی خطا پر تنبیہ کرنے میں حکمت و دانائی کے ساتھ سبیل حق پر گامزن ہیں۔
اوراسی طرح ان کے معاونین و متبعین علماء و طلبہ ان کے نقش قدم پر چلتے ہیں پس مناسب تو یہ ہے کہ اس مدرسہ کے ساتھ وابستہ ہوجاؤ کیوں کہ اس مدرسہ سے فراغت پانے والے متوازن اور معتدل ہوتے ہیں۔ یہ ہی وہ مدرسہ ہے جو کسی کے حق کو غصب نہیں کرتا اور نہ ہی اس کا انکار کرتا ہے نہ تو کسی کی خوبیوں کو چھپاتا ہے اور نہ کسی کی مدح و تعریف میں مبالغہ آرائی سے کام لیتا ہے اور نہ ہی مخالفت میں شدت سے پیش آتا ہے۔ الغرض یہ ہی وہ مدرسہ ہے جسے ہر عام و خاص کے نزدیک قبولیت عام حاصل ہوئی اور جن کی اطاعت کا حکم اپنی اطاعت کے ضمن دیا ہے۔
پس یہ ہمارے ملک سعودی عرب میں ہیں جن میں دیگر کی نسبت خیر کے پہلو بہت زیادہ پائے جاتے ہیں ۔ اورحق کے متلاشی کثرت سے اس عظیم مدرسہ کی جانب رجوع کرتے ہیں اور یہ امر بھی واضح ہوا کہ یہ محض اللہ تعالیٰ کی اپنے مومن اور مخلص بندوں کی مدد و اعانت ہے۔ اور اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ان مشائخ عظام جیسے عبداللہ بن بازؒ ، محمد عثیمینؒ ، صالح فوزان اور البانی رحمہم اللہ وغیرہ کی مدح سرائی ہر خاص و عام نے بیان کی ہے ۔ حتی کہ جو لوگ ساری زندگی ان مشائخ اور خصوصاً ابن باز رحمہ اللہ کی مخالفت کرتے رہے ہیں، وہ بھی ان کے منہج سلیم کے معترف ہیں۔ ان کے فضل و کرم پر امت کا اجماع ہی ان کے منہج سلیم کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ اگر مسلمان فتنہ سے تحفظ اور سلامتی چاہتے ہیں تو وہ ان صاحب عقل و دانش، علم ، فہم و فراست، حکمت و بصیرت استنباط اور اہل الذکر کبار علماء کی اتباع کریں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے کہ:
وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الأمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الأمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ وَلَوْلا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلا قَلِيلا (٨٣)
" اور جب ان کے پاس امن یا خوف کی کوئی خبر پہنچتی ہے تو اسے مشہور کردیتے ہیں۔ اور اگر اس کو پیغمبر اور اپنے سرداروں کے پاس پہنچاتے تو تحقیق کرنے والے تحقیق کرلیتے۔" (النساء)
اور ارشاد گرامی ہے کہ:
فَسْ
ـَٔلُوٓا۟ أَهْلَ ٱلذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ﴿٤٣﴾
" اگر تم نہیں جانتے تو اہل ذکر سے پوچھ لو" (النحل)
اس مدرسہ سے ہر وہ آدمی جو راہ اعتدال ، عدل و انصاف اور حق کا متلاشی ہو، راضی ہے۔ حقیقت میں ان کا منہج رسول اکرم ﷺ کے منہج سے ماخوذ ہے جن کو اگر دو چیزوں میں اختیار دیا جاتا توآپ ان میں سے آسان کو اختیار فرماتے بشرط یہ کہ اس میں گناہ یا قطع رحمی نہ ہوتی۔ اور یہ ان کی ذات کریمہ ہی تھی کہ حکمت و دانائی کے ساتھ دعوت الی اللہ دیتے رہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو بجا لاتے ہوئے کہ:
ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (١٢٥)
(اے پیغمبر) لوگوں کو دانش اور نیک نصیحت سے اپنے پروردگار کے رستے کی طرف بلاؤ۔ اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو۔ جو اس کے رستے سے بھٹک گیا تمہارا پروردگار اسے بھی خوب جانتا ہے اور جو رستے پر چلنے والے ہیں ان سے بھی خوب واقف ہے
دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے:
فَقُولَا لَهُ
ۥ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهُۥ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَىٰ ﴿٤٤﴾ طہ
ترجمہ: اور اس سے نرمی سے بات کرنا شاید وہ غور کرے یا ڈر جائے۔
ارشاد ربانی ہے :
قُلْ يَٰٓأَهْلَ
ٱلْكِتَٰبِ تَعَالَوْا۟ إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَآءٍۭ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا ٱللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِۦ شَيْـًٔا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ ٱللَّهِ ۚ فَإِن تَوَلَّوْا۟ فَقُولُوا۟ ٱشْهَدُوا۟ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ ﴿٦٤﴾ آل عمران
ترجمہ: کہہ دو کہ اے اہل کتاب جو بات ہمارے اور تمہارے دونوں کے درمیان یکساں (تسلیم کی گئی) ہے اس کی طرف آؤ وہ یہ کہ خدا کے سوا ہم کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں اور ہم میں سے کوئی کسی کو خدا کے سوا اپنا کار ساز نہ سمجھے اگر یہ لوگ (اس بات کو)نہ مانیں تو (ان سے) کہہ دو کہ تم گواہ رہو کہ ہم (خدا کے)فرماں بردار ہیں۔
یہ انبیاء و رسل ؑ ہی ہیں جو اپنی قوم سے بہت ہی عمدہ احسن طریقے سے مناظرہ کرتے ہیں۔ تواضع کی بنا پر وہ کہتے تھے:
سورۃ سبا آیت 24
قُل لَّا تُسْ
ـَٔلُونَ عَمَّآ أَجْرَمْنَا وَلَا نُسْـَٔلُ عَمَّا تَعْمَلُونَ ﴿٢٥﴾ سبا
ترجمہ: کہہ دو کہ نہ ہمارے گناہوں کی تم سے پرسش ہوگی اور نہ تمہارے اعمال کی ہم سے پرسش ہوگی۔
اللہ تعالیٰ انصاف برتتے ہوئے یہو د و نصاریٰ کے بارے میں فرماتے ہیں:
وَمِنْ أَهْلِ
ٱلْكِتَٰبِ مَنْ إِن تَأْمَنْهُ بِقِنطَارٍ يُؤَدِّهِۦٓ إِلَيْكَ وَمِنْهُم مَّنْ إِن تَأْمَنْهُ بِدِينَارٍ لَّا يُؤَدِّهِۦٓ إِلَيْكَ إِلَّا مَا دُمْتَ عَلَيْهِ قَآئِمًا ۗ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا۟ لَيْسَ عَلَيْنَا فِى ٱلْأُمِّيِّۦنَ سَبِيلٌ وَيَقُولُونَ عَلَى ٱللَّهِ ٱلْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ﴿٧٥﴾ آل عمران
ترجمہ: اور اہلِ کتاب میں سے کوئی تو ایسا ہے کہ اگر تم اس کے پاس (روپوں کا) ڈھیر امانت رکھ دو تو تم کو (فوراً) واپس دے دے اور کوئی اس طرح کا ہے کہ اگر اس کے پاس ایک دینار بھی امانت رکھو تو جب تک اس کے سر پر ہر وقت کھڑے نہ رہو تمہیں دے ہی نہیں یہ اس لیے کہ وہ کہتے ہیں کہ امیوں کے بارے میں ہم سے مواخذہ نہیں ہوگا یہ خدا پر محض جھوٹ بولتے ہیں اور (اس بات کو) جانتے بھی ہیں۔
کاش کہ ہمارے نوجوان اس عظیم مدرسہ سے وابستہ ہوں اور ان کبار علماء کی طرف توجہ فرمائیں، ان سے علم و ادب اور حکمت و بصیرت کسب کریں۔ حکمران کے بارے میں گفت و شنید سے گریز کریں تاکہ ان کو وہ چیز لاحق نہ ہو جو بلاد اسلامیہ کے کئی جوانوں کو قید و بند کی مصیبت پیش آئی۔ کاش! کہ حوادثات زمان اور مسائل کے بارے میں فتوی کا معاملہ کبار علماء کے حوالے کرتے اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر لبیک کہتے ہوئے ان کو قدوہ و پیشوا بنائیں۔ جب ان پر کوئی اشکال آجائے تو ان سے سوال کرکے حل پوچھ لیں۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
فَسْ
ـَٔلُوٓا۟ أَهْلَ ٱلذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ﴿٤٣﴾ النحل
ترجمہ: اگر تم لوگ نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو۔
کاش! کہ وہ صاحب امر حکمران سے اختلاف نہ کریں اور اللہ کی اطاعت میں ان کی فرمانبرداری کریں۔ جبکہ عصر حاضر میں ہر طرف سے کفار مسلمانوں پر جھپٹ رہے ہیں اور کئی فتنوں کا دور دورہ ہے، چنانچہ نوجوان نسل پر لازم ہے کہ اس مدرسہ عظیمہ سے اپنا تعلق مظبوط بنالیں، اسکی دعوت دیں کیونکہ یہ صحیح و سلیم، حکمت اور عدل و انصاف پر مبنی ہے۔ یہ ہی صراط مستقیم ہے ، یہ انبیاء، صدیق ، شہید اور صالحین کا راستہ ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل و کرم کیا۔بارگاہ الٰہی سے دعا ہے کہ ہمیں بھی ان میں شامل کردے اور جوار رحمت میں ان کے ساتھ کردے۔آمین
کاش کہ یہ اترانا، لوگوں کی جدا جدا قسمیں بنانا، عامل دعاۃ کی تشہیر اور بغیر کسی واضح دلیل کے ان سے کئی سلفیوں کو نکالنا اور بلاجواز اختلافات کرنے کو چھوڑ دیں۔ اور جدید وسائل کو دعوت الی اللہ اور خیر کے پھیلانے میں استعمال کریں۔
کاش! کہ وہ گمراہ کن اور صراط مستقیم سے منحرف جماعتوں جیسا کہ اخوان المسلمین اور تبلیغی اور حزب تحریر کو چھوڑ دیں جن کے بارے میں شیخ بکربن عبداللہ بن ابو زیدؒ اپنی معروف کتاب " حكم الانتماء إلى الفرق والأحزاب والجماعات الإسلامية " میں فرماتے ہیں: " یہ فرقہ ناجیہ میں سےنہیں ہیں بلکہ یہ تو منہج اہل السنہ والجماعۃ سے خارج ہیں اور ان بہتّر (72) فرقوں میں سے ہیں جن کے بارے میں نبیﷺ نے خبر دی کہ وہ سارے جہنمی ہیں۔"
کاش! کہ یہ لوگ دعوت و تبلیغ میں شدت کو اور گمراہ کن فرقوں سے اپنی محبت کو ترک کردیں اور ہر اس جماعت کو خیر باد کہہ دیں جو منہج سلیم اور صحیح عقیدہ کے منافی ہے۔
کاش! کہ یہ لوگوں کو لایعنی امور کی وجہ سے سلفیت سے نکالنے سے توقف اختیار کریں۔ اپنے پیرومرشد کے لئے شدید تعصب ، ان کی خطاؤں کے لئے معذرت اور مدح اور ذم میں مبالغہ آمیزی کو ترک کردیں۔ اور دعاۃ کے مابین جزئی ، فرعی یا ظنی اختلاف کی وجہ سے تفریق پیدا نہ کریں اور نہ ہی ان کے عیوب کو تلاش کریں۔ اگرچہ ان کی خطائیں فرقہ و جدائی تک نہ پہنچتی ہوں۔ چنانچہ ہم وہ اہل السنہ و الجماعۃ ہیں جو حق پر اکٹھے ہوتے ہیں اور لوگوں کے درمیان حق و تقویٰ اور علم کی بنیاد پر ہی تفریق کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
يَرْفَعِ
ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ مِنكُمْ وَٱلَّذِينَ أُوتُوا۟ ٱلْعِلْمَ دَرَجَٰتٍ ۚ وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ ﴿١١﴾ المجادلۃ
ترجمہ: اللہ ان کو بلند درجے عطا فرمائے گا، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔
کاش ! کہ یہ لوگ ، نوجوانوں کو حکومت کے خلاف بغیر کسی بصیرت و علم کے اکسانا چھوڑ دیں اور اپنی تمام تر توجہ عقیدہ توحید خالص کی طرف مبذول کردیں جو کہ تمام رسولوں کی پہلی دعوت تھی اور ہر چھوٹے بڑے مسئلے میں کبار علماء کرام کی طرف رجوع کریں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَإِذَا جَآءَهُمْ أَمْرٌ مِّنَ
ٱلْأَمْنِ أَوِ ٱلْخَوْفِ أَذَاعُوا۟ بِهِۦ ۖ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى ٱلرَّسُولِ وَإِلَىٰٓ أُو۟لِى ٱلْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ ٱلَّذِينَ يَسْتَنۢبِطُونَهُۥ مِنْهُمْ ۗ﴿٨٣﴾ النساء
ترجمہ: اور جب ان کے پاس امن یا خوف کی کوئی خبر پہنچتی ہے تو اس کو مشہور کردیتے ہیں اور اگر اس کو پیغمبر اور اپنے سرداروں کے پاس پہنچاتے تو تحقیق کرنے والے اس کی تحقیق کر لیتے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَا تَكُونُوا
۟ مِنَ ٱلْمُشْرِكِينَ ﴿٣١﴾ مِنَ ٱلَّذِينَ فَرَّقُوا۟ دِينَهُمْ وَكَانُوا۟ شِيَعًا ۖ كُلُّ حِزْبٍۭ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ ﴿٣٢﴾ الروم
ترجمہ: مشرکوں میں نہ ہونا (اور نہ) اُن لوگوں میں (ہونا) جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور (خود) فرقے فرقے ہو گئے۔ سب فرقے اسی سے خوش ہیں جو اُن کے پاس ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اکابر اخوان المسلمین کے اقوال کا نمونہ
عزیزم آپ کے سامنے ان جماعتوں کے اکابر کے اقوال کا ذکر کرتے ہیں جو کہ شیخ محمد عجمی کی کتاب وقفات سے منقول ہیں۔ یہ اقوال اخوان المسلمین کے کسی عام فرد کے ہوتے ہم اس کو معذور سمجھتے لیکن یہ تو ان کے کبار پیرو مرشد کے ہیں جن سے ہم کیسے چشم پوشی کریں۔
اللہ تعالیٰ سے دست بدعا ہیں کہ ہمیں اپنی طرف آنے والے سیدھے راستے پر چلائے اور حق کو دیکھنے اور اس کی اتباع کی توفیق بخشے اور باطل کو پرکھنے اور اس سے اجتناب کی توفیق عنایت فرمائے۔
سعید حوی جو کہ ان کے مفکرین میں سے ہیں ، اپنی کتاب " جولات في الفقهين الكبير و الاكبر و اصولهما" کے صفحہ 2 پر کہتے ہیں:
" یقیناً گذشتہ زمانہ میں مسلمانوں کے عقیدہ ، فقہ اور تصوف میں مختلف ائمہ ہوتے تھے۔ چنانچہ عقیدہ میں ان کے ائمہ ابوالحسن اشعری اور ابو منصور ماتریدی ہیں جبکہ فقہ اور تصوف میں ان کے اور ائمہ تھے۔ ماحول اور تعلیم کے اعتبار سے ان کی امامت مختلف ہوتی ہے۔"
عمر تلمسانی جو کہ مصر میں اس جماعت کے مربی (مرشد ثالث) ہیں ، اپنی کتاب " شہید المحراب" کے صفحہ 225 اور 226 پر کہتے ہیں:
" کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جب وہ آپﷺ کی حیات مبارکہ میں ان کے پاس جائیں تورسولﷺ ان کے لئے استغفار کرتے تھے ۔ لیکن آیۃ مبارکہ میں ایسی کوئی دلالت نہیں کہ آپ صرف اپنی حیات میں ہی ان کے لئے استغفار کرتے تھے۔ رسولﷺ کا وفات کے بعد دعا کرنا اور ان سے استغفار کی طلب کرناجائز ہے"
مزید کہتے ہیں :
" لہٰذا میں تو اس رائے کا قائل ہوں جو کہتے ہیں کہ نبیﷺ زندگی اور وفات کے بعد بھی ہر اس شخص کے لئے دعاء و استغفار کرتے ہیں جو ان کے کاشانہ نبوت پر آئے گا۔
اسی صفحہ پر لکھتے ہیں کہ:
"اس شخص پر سختی اور نکیر کا تو جواز ہی نہیں جو اولیاء کی کرامت، انکی پاکیزہ قبروں میں ہی ان سے سہارا لینے، مصائب و مشکلات کے وقت ان کی قبور کے پاس دعا کرنے اور اولیاء کی کرامات کو معجزات انبیاء کی دلیلوں میں سے ہونے کا عقیدہ رکھتا ہو۔"
یہ تو ان کے رہبر و رہنما کا حال ہے ، باقی عام لوگوں کا کیا حال ہوگا ( الامان و الحفیظ)۔ ان قبور میں سے ایک اس بدوی کی قبر ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک زندیق ، گمراہ، فاطمیت کا داعی، کبھی جماعت کے ساتھ نماز نہیں پڑھی، اس کے علاوہ اور بہت کچھ کہا جاتا ہے۔ صوفیوں کی قبریں جیسا کہ شاذلی، دسوقی، حسین، سیدہ زینب اور قناوی کی ہیں، جن کے بارے میں عمر تلمسانی اپنی کتاب " شہید المحراب" کے صفحہ 23 میں لکھتے ہیں کہ :" اس میں کسی قسم کا شرک، بت پرستی اور الحاد نہیں ہے۔" یہ حال ہے اخوان المسلمین کے رہبر و رہنما کا۔
محترم علامہ محمود تویجریؒ لکھتے ہیں کہ :
" یہ ہی تو اسلام سے خارج کرنے والا شرک اکبر ہے۔"
اسی طرح شیخ تقی الدین ھلالی فرماتے ہیں:
" یقیناً یہ انبیاء پر بہت بڑی جرأت کی گئی ہے۔"
سوریا میں اخوان المسلمین کے پیر و مرشد مصطفی سباعی نے تو 10/1/1984م میں عصر کی نماز کے بعد رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارکہ پر کھڑے ہوکر یہ قصیدہ پڑھا:
اے مکہ وکعبہ کے سوار اور اے مدینہ کے قاصد کہ تو سید الأمم کی زیارت کا خواہاں ہے
زیارتِ مصطفی کیلئے تیرا جانا اگر نفلی عبادت ہے تو میرے جیسوں کی یہ کوشش عالی ہمت لوگوں کی نظر میں فرض ہے
اے سید! اے حبیب خدا! آیا ہوں تیری چوکھٹ پر ، اپنی تکلیف پیش کرنے
اے سید! میرے جسم کی بیماری بڑھ چلی ہے شدتِ بیماری سے نہ توجہ ہٹی ہے نہ آنکھ لگی ہے
اہل خانہ میرے آس پاس نیند میں ڈھت پڑے ہیں میں اکیلا ہوں کہ جس سے بوجہ تکلیف نیند دور بھاگ گئی ہے۔
ایک لمبا زمانہ میں نے کام ہی کام میں گزاراہے آج سوائے باتوں اور تحریروں کے کچھ پاس نہیں
اے سید! جہاد کا میرا شوق بڑھ گیا ہے کیا آپ میرے لیے اللہ سے سربلندی والی واپسی مانگ سکتے ہیں؟
قسم بخدا! شفا یابی کی حرص اس زندگی کی رغبت کی بنا پر نہیں نہ ہی جاہ ومرتبت اور نعمتوں کی طلب کیلئے ہے
بلکہ محض یہ لالچ ہے کہ کل کلاں یہ زباں زدعام ہوکہ کہ تم نے اسلام کی طرف ہر بے بہرہ کو راہنمائی بخشی ہے
اسماعیل شطی رئیس تحریر مجلہ مجتمع اور کویت میں اخوان المسلمین کا کارکن مسجد علیان میں کہتا ہے کہ :
" مجھے نہیں پتا کہ میں کیسے اللہ تعالیٰ کے لئے ہاتھ کو ثابت کروں۔"
شیخ حمود تویجری فرماتے ہیں :
" جس نے توحید ، اسماء صفات کا انکار کیا وہ جھمی ہے کہ جیسا کہ کوئی ہاتھ کا انکار کرے۔"
بلاشبہ اکابر علماء کرام نے اس آدمی کی تکفیر کی ہے جو اللہ کی صفت ید کے انکار کا عقیدہ رکھے۔ جیسا کہ عبداللہ بن امام احمد بن ابن قیم کہتے ہیں کہ : " پانچ سو علماء نے جھمیہ کی تکفیر کے قول کو لیا ہے۔"
عمر تلمسانی اللہ تعالیٰ کے اس فرمان وَ
ٱلسَّمَٰوَٰتُ مَطْوِيَّٰتٌۢ بِيَمِينِهِ ( زمر-67) کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ :
" آسمان و زمین کو مضبوطی سے تھام لیا"۔
یہ ہی عقیدہ اشعریوں، اخوان المسلمین کے بعض قائدین کا اور عمر تلمسانی اور جھمیہ کا ہے۔
حسن البنا کہتے ہیں کہ:
" اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے وقت مخلوق کا واسطہ و وسیلہ دینا کیفیت دعا میں ایک فرعی اختلاف ہے اس کا عقیدے کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔"
لیکن میں کہتا ہوں کہ امام ابن تیمیہؒ نے اپنی کتاب التوسل و الوسیلہ اور مجموع فتاویٰ مجلد اول میں اس کے باطل ہونے کو بیان کیا ہے۔
شیخ تویجری تو فرماتے ہیں کہ :
" حدیث تو اس نہی پر دلالت کرتی ہے کہ آپ کی ذات کا وسیلہ بنایا جائے کیونکہ صحابہ تو یہ نہیں کیاکرتے تھے۔ یہ بہت بعد کی پیداوار ہے جو کہ باطل اور مردود ہے۔ پس دلیل وہی ہےجو اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے آئے۔"
شیخ صالح فوزان ان پر رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: " یہ وسیلہ تو بدعت ہے۔"

 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اخوان المسلمین کی صوفیانہ بیعت
برادر عزیز! ذرا سعید حوی کی ہفوات اور لچر باتوں کو دیکھئے۔ اپنی کتاب " تربیتنا الروحیة" کے صفحہ 28 میں لکھتے ہیں کہ " مجھے ایک عیسائی نے ایک واقعہ سنایا جو اس کو پیش آیا تھا کہ وہ ایک حلقہ میں حاضر ہوا وہاں موجود ذکر کرنے والوں میں سے ایک نے اس کو پشت پر سیخ ماری جو کہ سینہ سے نکل آئی یہاں تک کہ اس پر موت منڈلانے لگی۔ پھر جب وہ سیخ نکالی گئی تو اس پر کسی قسم کے اثر کا نام و نشان نہ تھا ۔"
یہ ہے اخوان المسلمین کے سعید حوی، کیسے ان کی باتوں کو پڑھتے ہو اور اس کو سراہتے ہو۔ حقیقت میں اخوان المسلمین کی دعوت وہ زنبیل ہے جس میں موٹا پتلا، کھوٹا کھرا، حق و باطل، سچ و جھوٹ، خرافات و جہالت، حماقت و زندیقیت بیک وقت موجود ہے۔ اور بطور نص اپنی کتاب کے صفحہ نمبر 244 پر لکھتا ہے کہ بلاشبہ ہمارے مشائخ صوفیہ کی بیعت اور اس کے حلقات ذکر کو صحیح سمجھتے تھے اور اس ان کی بیعت کو اسی طرح سمجھتے تھے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بیعت تھی۔
اسکے علاوہ اپنی مذکورہ کتاب کے صفحہ 147 پر لکھتا ہے کہ :
گوشہ نشینی، خاموشی، رات کی بیداری اور بھوک ارکان مجاہدہ ہیں۔
اسی کتاب کے صفحہ 181 پر ان کا خیال ہے کہ:
ہر مسجد میں حلقات مجالس کا قیام ہو یعنی اجتماعی ذکر کی مجلس، نبیﷺ پر سلام بھیجنے کی اجتماعی مجلس وغیرہ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
باہمی قربت کا دھوکہ
دنیا میں اخوان المسلمین نے ہی خمینی رافضی کے انقلاب کا ساتھ دیا۔ سنی اور شیعہ کے مابین قربت کی دعوت دی۔ اس کے لئےمجلہ مجتمع کویتیہ اخوانیہ عدد شمارہ 434 کو ملاحظہ فرمائیں جو کہ 25/2/1979م میں شائع ہوا تھا۔ اخوان المسلمیننے ترکی، پاکستان، انڈیا، انڈونیشیا، افغانستان، مالیزیا، فلپائن، عالم عرب، یورپ اور امریکہ کی اسلامی تحریکوں کے قائدین کو طہران کی جانب وفدکی صورت میں اکٹھے ہونے کی دعوت دی۔ اسلامی تحریکوں اوراخوانیوں یعنی ترکی کی حزب السلامہ، پاک و ہند کی جماعت اسلامی، انڈونیشیا کی حزب ماشومبی ، مالیزیا کی شباب الاسلام اور فلپائن کی جماعت اسلامی نے اظہار یکجہتی کی تاکید کے لئے آیۃ اللہ خمینی سے ملاقات کی۔ چنانچہ خمینی نے ان سب کو خوش آمدید کہا۔ اخوانی وفد نے اپنی جانب سے خمینی کو یقین دہانی کرائی کہ بلاشبہ اخوانی تحریکات اس ایرانی انقلاب کی خدمت گزاری کے عہد پر ہی قائم رہے گی۔ جبکہ 16/3/1979م جمعہ کی نماز میں ان کے شہداء پر غائبانہ نماز جنازہ ادا کی۔
تلمسانی کہتا ہے کہ:
شیعہ اور سنی کے مابین تقریب واجب ہے۔
اس کے لئے جولائی 1985 م شمارہ 105 بعنوان " شیعہ و سنہ" کو دیکھئے۔ یہ ہی بات اردن کے اخوان المسلمیننے اور جامعہ کویت کے اتحاد الطلبہ نے کہی۔ اس کے علاوہ لبنان میں ان کے پیرومرشد فتحی یکن اپنی کتاب " الموسوعة الحركية" ص279، "ابجدیات التصور الحرکی للعمل الاسلامی" ص 148 ، اور " الاسلام فكرةوحركةوانقلاب" میں اور محمد الغزالی نے اپنی کتاب " کیف نفهم الاسلام" ص 142، 144، 145 پر اور محمد حسن نے اور راشد غنوشی نے اپنی کتاب " الحركة الإسلامية والتحدیث" ص17 پر کہی۔ اور اسکی تائید ابو الاعلی مودودی نے مجلہ الدعوۃ شمارہ 19 اگست 1979م میں ، اسماعیل الشطی نے مجلہ المجتمع شمارہ 478 ، 1980م میں کی ہے۔ صفحہ 15 پر بعنوان " خسارة علمية " کے تحت لکھتے ہیں کہ:
" عصر حاضر میں مذہب جعفری کے مشہور علماء جن کی طرف رجوع کیا جاتا ہے، ان میں ایک شیخ محمد باقر صدر بھی ہیں۔"
اس طرح کی کئی باتیں آپ " صحیفہ الصباح الجدید" میں ملاحظہ فرماسکتے ہیں۔ جس کو اخوان المسلمینجامعہ خرطوم سے شائع کرواتے ہیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
رافضیوں کے معاونین
اخوان المسلمیناثنا عشری رافضہ کے ممدو معاون ہیں ۔ ہر لحاظ سے ان کی مدد کرتے ہیں۔ ان کا یہ زعم باطل ہے کہ شیعہ و سنی میں کوئی فرق نہیں ہے اور پانچ مذاہب یعنی حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اور جعفری کے قائل ہیں۔ خمینی اور اس کے انقلاب کی تائید کرتے ہیں جس کو انہوں نے مجلہ المجتمع شمارہ 434 بتاریخ 25 دسمبر 1979م میں نشر کیا۔
وفد کی صورت میں ایرانی رئیس ڈاکٹر مہدی بازرگان سے ملاقات کی اور ان کی تائید بھی کی۔ اور اس دن کا نام انہوں نے " تمام عالم اسلام میں ایرانی انقلاب کے ساتھ اظہار یکجہتی کا دن" رکھا۔ اس کے علاوہ ہم نے کبھی بھی اخوان المسلمینکو قبور کی مخالفت کرتے نہیں دیکھا جن کی اللہ کے ماسوا عبادت کی جاتی ہے۔ جن سے اسلامی ممالک مصر، پاکستان، سوریا، انڈونیشیا اور سوڈان وغیرہ کی مساجد بھری پڑی ہیں۔ بلکہ ان کے ایک بڑے عالم تو مسجد حسین میں پڑھاتے ہیں جو کہ قبر پر تعمیر کی گئی ہے اور اس کی چادرپوشی میں مشارکت بھی کرتے ہیں۔ یہاں دو بڑی تصویریں ہیں جس میں ان کے بڑے بڑے علماء کرام مصری رئیس کے ساتھ قبر حسین کی چادر پوشی کے وقت کھڑے ہیں۔
 
Top