• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

منهج سلف صالحين اور اس سے انحراف

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
اولآتو اس بحث کو سابقہ منہج سلف صالحین سے الگ کردیناچاہئے، وہاں تبلیغی جماعت پر لگائے گئے الزام پرنقدپر اگرکوئی بات کرسکتاہوتوکرے،اہل الرائے پر بحث کو کہیں اورمنتقل کردیناچاہئےایک مناسب عنوان کے ساتھ۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے ترجمان القرآن کے مقدمہ میں مفسروں کا شکوہ کرتے ہوئے لکھاہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جب یہ مفسرین قرآن کریم کی بلندیوں کا ساتھ نہیں دے سکے تو یہ قرآن کو اپنی پست سطح پر لے آئے،یہی حال غیرمقلدین کا حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ کے بارے میں ہے،یہ حضرات شاہ ولی اللہ کے ایک دوکلام سے ان کی تمام کتابوں اورتصنیفات پر پانی پھیرناچاہتے ہیں، حالانکہ شاہ ولی اللہ ایک بلند مرتبت صوفی بھی تھے،ایک عالی مرتبت فقیہ تھے ،مایہ نازمحدث تھے، اوراگر بعض لوگوں کو گراں نہ گزرے تویہ بھی کہہ دوں کہ وہ بڑے فلسفی اور متکلم بھی تھے،کسی گروہ کے چند اشخاص کی بے اعتدالیوں پر تنقید کا یہ مطلب نہیں ہوتاکہ پورے گروہ کی خدمات پرپانی پھیردیاجائے،حضرت شاہ ولی اللہ نے بعض اوقات محدثین پر بھی تنقید کی ہے،چنانچہ شفاء العلیل میں لکھتے ہیں۔
’’یہ وصیت ہے کہ صحبت نہ اختیار کرے صوفیان جاہل کی اورنہ جاہلان عبادت شعار کی اورنہ فقیہوں کی جو زاہد خشک ہیں اورنہ محدثین ظاہری کی جو فقہ سے عداوت رکھتے ہیں اورنہ اصحاب معقول اورکلام کی جو منقول کو ذلیل سمجھ کر استدلال عقلی میں افراط کرتے ہیں بلکہ طالب حق کو چاہئے کہ عالم صوفی ہو،دنیا کا تارک،ہردم اللہ کے دھیان میں ،حالات بلند میں ڈوباہوا، سنت مصطفویہ میں راغب ‘‘الخ ص 116-117،

اس اقتباس میں دیکھاجاسکتاہےکہ حضرت شاہ ولی اللہ نے محدثین پر بھی تنقید کی ہے اس کے علاوہ ایک اورکتاب میں انہوں نے محدثین کی اس روش پر بھی تنقید کی ہے کہ معمولی باتوںوصل وارسال کو بہانہ بناکر حدیث کو چھوڑدیتے ہیں،یہاں انہوں نے جاہل صوفی سے بچنے کی نصیحت کے ساتھ صوفی بننے کی تاکید بھی ہے۔اس سے واضح ہے کہ کسی گروہ کے بعض افراد پر تنقید ہے ،پورے گروہ پر تنقید نہیں ہے
ضرورت اس بات کی ہے کہ شاہ ولی اللہ کو ان کی تصنیفات کے آئینہ میں دیکھاجائے نہ کہ اپناخودساختہ آئینہ بناکر شاہ ولی اللہ کو اس میں فٹ کیاجائے۔
وسخن مقشقۂ فقہا

ایسے خشک دماغ فقہا کی بات کبھی نہ سننا چاہئے جو کسی ایک عالم کی تقلید کو اپنی دستاویز سمجھ لے اور سنت رسول کو ترک کردے۔ اس قسم کے کوڑھ مغز فقہا

متقشف کا ترجمہ خشک دماغ یاکوڑھ مغز کرنامترجم کی خشک دماغی اور کوڑھ مغزی ہے،مترجم کویہی نہیں معلوم کہ متقشف کا ترجمہ کیاہوتاہے اورکیاہوناچاہئے،تقشف کاترجمہ سخت گیر،دنیاوی عیش وآرام سے کنارہ کش وغیرہ ہےاورادبی انداز میں کیاجائے تو زاہد خشک ہے، زاہد خشک اور خشک دماغ میں فرق وفاصلہ جو محسوس نہ کرے اس کی کوڑھ مغزی میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتاہے۔تقشف کا معنی اس پر ابن دائود صاحب دیکھ لیں اوردیگر لغات میں بھی دیکھ لیں۔
http://www.almaany.com/ar/dict/ar-ar/تقشف/
شاہ ولی اللہ دہلوی نے بھی علمائے اہل الحدیث کو معتبر باور کرواتے ہوئے انہیں سے رجوع کرنے کی وصیت کی ہے، اور علمائے مقلدین کو کوڑھ مغز قرار دیتے ہوئے ان سے رجوع نہ کرنے کی وصیت کی ہے!

و در فروع پیروی علماء محدثین کہ جامع باشند میان فقہ وحدیث کردن

شاہ ولی اللہ دہلوی نے بھی علمائے اہل الحدیث کو معتبر باور کرواتے ہوئے انہیں سے رجوع کرنے کی وصیت کی ہے، اور علمائے مقلدین کو کوڑھ مغز قرار دیتے ہوئے ان سے رجوع نہ کرنے کی وصیت کی ہے!
محدث علماء جو فقہ وحدیث کے جامع ہوں، ان کی پیروی سے اہل حدیث علماء کے معتبرہونے پر استدلال کرنامارے گھٹناپھوٹے سر والی بات ہے،شاہ ولی اللہ تویہ کہہ رہے ہیں کہ ایسے علماء کی پیروی کرنی چاہئے جو حدیث اورفقہ کے جامع ہوں اس میں جہاں یہ بات شامل ہے کہ ایسے فقیہ کی پیروی جس کو حدیث میں مہارت نہ ہو پیروی نہ کرنااولیٰ ہے وہیں ایسے محدث کی پیروی سے بھی بچناچاہئے جو فقہ سے عاری اورخالی ہے۔اگرابن دائود کا مطلب یہ ہے کہ ہرمحدث فقیہ ہوتاہے جیساکہ بعض غالی غیرمقلدین کا دعویٰ ہے تویہ جہاں دلیل سے عاری ایک دعویٰ ہے وہیں ارشاد رسول کے خلاف بھی ہے کیونکہ ارشاد صلی اللہ علیہ وسلم واضح ہے "فرب حامل فقہ لافقہ لہمسند احمد،رقم الحدیث 16738۔
جیساکہ میری امید تھی کہ ابن دائود نے یہی راگ الاپاکہ میری مطلب نہیں سمجھاگیاہے اورفلاں کا مطلب نہیں سمجھاگیاہے، انہوں نے یہ بات واضح نہیں کی کہ شافعی مالکی اورحنبلی جو تقلید کے قائل ہیں وہ اہل حدیث ہیں یانہیں ہیں،کیونکہ ان کی عادت اورفطرت ہے کہ دوسروں سے تو دوٹوک جواب کا مطالبہ کرتے ہیں اورخود گول گول گھوم کردوسروںکو گھماناچاہتے ہیں۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اولآتو اس بحث کو سابقہ منہج سلف صالحین سے الگ کردیناچاہئے، وہاں تبلیغی جماعت پر لگائے گئے الزام پرنقدپر اگرکوئی بات کرسکتاہوتوکرے،اہل الرائے پر بحث کو کہیں اورمنتقل کردیناچاہئےایک مناسب عنوان کے ساتھ۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے ترجمان القرآن کے مقدمہ میں مفسروں کا شکوہ کرتے ہوئے لکھاہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جب یہ مفسرین قرآن کریم کی بلندیوں کا ساتھ نہیں دے سکے تو یہ قرآن کو اپنی پست سطح پر لے آئے،یہی حال غیرمقلدین کا حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ کے بارے میں ہے،یہ حضرات شاہ ولی اللہ کے ایک دوکلام سے ان کی تمام کتابوں اورتصنیفات پر پانی پھیرناچاہتے ہیں، حالانکہ شاہ ولی اللہ ایک بلند مرتبت صوفی بھی تھے،ایک عالی مرتبت فقیہ تھے ،مایہ نازمحدث تھے، اوراگر بعض لوگوں کو گراں نہ گزرے تویہ بھی کہہ دوں کہ وہ بڑے فلسفی اور متکلم بھی تھے،کسی گروہ کے چند اشخاص کی بے اعتدالیوں پر تنقید کا یہ مطلب نہیں ہوتاکہ پورے گروہ کی خدمات پرپانی پھیردیاجائے،حضرت شاہ ولی اللہ نے بعض اوقات محدثین پر بھی تنقید کی ہے،چنانچہ شفاء العلیل میں لکھتے ہیں۔
’’یہ وصیت ہے کہ صحبت نہ اختیار کرے صوفیان جاہل کی اورنہ جاہلان عبادت شعار کی اورنہ فقیہوں کی جو زاہد خشک ہیں اورنہ محدثین ظاہری کی جو فقہ سے عداوت رکھتے ہیں اورنہ اصحاب معقول اورکلام کی جو منقول کو ذلیل سمجھ کر استدلال عقلی میں افراط کرتے ہیں بلکہ طالب حق کو چاہئے کہ عالم صوفی ہو،دنیا کا تارک،ہردم اللہ کے دھیان میں ،حالات بلند میں ڈوباہوا، سنت مصطفویہ میں راغب ‘‘الخ ص 116-117،

اس اقتباس میں دیکھاجاسکتاہےکہ حضرت شاہ ولی اللہ نے محدثین پر بھی تنقید کی ہے اس کے علاوہ ایک اورکتاب میں انہوں نے محدثین کی اس روش پر بھی تنقید کی ہے کہ معمولی باتوںوصل وارسال کو بہانہ بناکر حدیث کو چھوڑدیتے ہیں،یہاں انہوں نے جاہل صوفی سے بچنے کی نصیحت کے ساتھ صوفی بننے کی تاکید بھی ہے۔اس سے واضح ہے کہ کسی گروہ کے بعض افراد پر تنقید ہے ،پورے گروہ پر تنقید نہیں ہے
ضرورت اس بات کی ہے کہ شاہ ولی اللہ کو ان کی تصنیفات کے آئینہ میں دیکھاجائے نہ کہ اپناخودساختہ آئینہ بناکر شاہ ولی اللہ کو اس میں فٹ کیاجائے۔
وسخن مقشقۂ فقہا

ایسے خشک دماغ فقہا کی بات کبھی نہ سننا چاہئے جو کسی ایک عالم کی تقلید کو اپنی دستاویز سمجھ لے اور سنت رسول کو ترک کردے۔ اس قسم کے کوڑھ مغز فقہا

متقشف کا ترجمہ خشک دماغ یاکوڑھ مغز کرنامترجم کی خشک دماغی اور کوڑھ مغزی ہے،مترجم کویہی نہیں معلوم کہ متقشف کا ترجمہ کیاہوتاہے اورکیاہوناچاہئے،تقشف کاترجمہ سخت گیر،دنیاوی عیش وآرام سے کنارہ کش وغیرہ ہےاورادبی انداز میں کیاجائے تو زاہد خشک ہے، زاہد خشک اور خشک دماغ میں فرق وفاصلہ جو محسوس نہ کرے اس کی کوڑھ مغزی میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتاہے۔تقشف کا معنی اس پر ابن دائود صاحب دیکھ لیں اوردیگر لغات میں بھی دیکھ لیں۔
http://www.almaany.com/ar/dict/ar-ar/تقشف/
شاہ ولی اللہ دہلوی نے بھی علمائے اہل الحدیث کو معتبر باور کرواتے ہوئے انہیں سے رجوع کرنے کی وصیت کی ہے، اور علمائے مقلدین کو کوڑھ مغز قرار دیتے ہوئے ان سے رجوع نہ کرنے کی وصیت کی ہے!

و در فروع پیروی علماء محدثین کہ جامع باشند میان فقہ وحدیث کردن

شاہ ولی اللہ دہلوی نے بھی علمائے اہل الحدیث کو معتبر باور کرواتے ہوئے انہیں سے رجوع کرنے کی وصیت کی ہے، اور علمائے مقلدین کو کوڑھ مغز قرار دیتے ہوئے ان سے رجوع نہ کرنے کی وصیت کی ہے!
محدث علماء جو فقہ وحدیث کے جامع ہوں، ان کی پیروی سے اہل حدیث علماء کے معتبرہونے پر استدلال کرنامارے گھٹناپھوٹے سر والی بات ہے،شاہ ولی اللہ تویہ کہہ رہے ہیں کہ ایسے علماء کی پیروی کرنی چاہئے جو حدیث اورفقہ کے جامع ہوں اس میں جہاں یہ بات شامل ہے کہ ایسے فقیہ کی پیروی جس کو حدیث میں مہارت نہ ہو پیروی نہ کرنااولیٰ ہے وہیں ایسے محدث کی پیروی سے بھی بچناچاہئے جو فقہ سے عاری اورخالی ہے۔اگرابن دائود کا مطلب یہ ہے کہ ہرمحدث فقیہ ہوتاہے جیساکہ بعض غالی غیرمقلدین کا دعویٰ ہے تویہ جہاں دلیل سے عاری ایک دعویٰ ہے وہیں ارشاد رسول کے خلاف بھی ہے کیونکہ ارشاد صلی اللہ علیہ وسلم واضح ہے "فرب حامل فقہ لافقہ لہمسند احمد،رقم الحدیث 16738۔
جیساکہ میری امید تھی کہ ابن دائود نے یہی راگ الاپاکہ میری مطلب نہیں سمجھاگیاہے اورفلاں کا مطلب نہیں سمجھاگیاہے، انہوں نے یہ بات واضح نہیں کی کہ شافعی مالکی اورحنبلی جو تقلید کے قائل ہیں وہ اہل حدیث ہیں یانہیں ہیں،کیونکہ ان کی عادت اورفطرت ہے کہ دوسروں سے تو دوٹوک جواب کا مطالبہ کرتے ہیں اورخود گول گول گھوم کردوسروںکو گھماناچاہتے ہیں۔
آپ نے غلط چیز کے آگے بین بجا دی ہے رحمانی بھائی.
یہ پھر وہی راگ الاپیں گے کلام سمجھ نہ آنے والا مرغ کی ایک ٹانگ کی طرح.
اصل میں اس کے بغیر دکان داری مشکل ہے.
ویسے میں سوچ رہا تھا کہ یہ جو بار بار سب کو یہ کہا جا رہا ہے کہ میرا کلام نہیں سمجھتے تو کہیں ایسا تو نہیں کہ خود اس مثال کے مطابق ہوں: أَحَدُهُمَا أَبْكَمُ لَا يَقْدِرُ عَلَىٰ شَيْءٍ وَهُوَ كَلٌّ عَلَىٰ مَوْلَاهُ أَيْنَمَا يُوَجِّههُّ لَا يَأْتِ بِخَيْرٍ؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اور ره گئی بات امام ابو حنیفہ کی "فہم و فقہ" کی جو آپ کے نزدیک معتبر نہیں ہے تو صرف ایک حوالہ عرض ہے:
وَقَالَ الشَّافِعِيُّ: النَّاسُ فِي الفِقْهِ عِيَالٌ عَلَى أَبِي حَنِيْفَةَ.
ترجمہ: "اور شافعیؒ نے کہا ہے: لوگ فقہ میں ابو حنیفہ کے عیال ہیں۔
امام شافعی کے مذکورہ قول میں امام ابوحنیفہ کی فقہ کا معتبر ہونا کہاں ہے؟
امام شافعی نے امام ابو حنیفہ کی فقہ کا غیر معتبر ہونا بھی بتلایا ہے،دیکھیئے امام شافعی امام ابو حنیفہ کی فقہ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں:
أنا أَبُو الْحَسَنِ، أنا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي حَاتِمٍ فِيمَا قُرِئَ عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْحَكَمِ، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ يَقُولُ: قَالَ لِي مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ: أَيُّهُمَا أَعْلَمُ: صَاحِبُنَا أَوْ صَاحِبُكُمْ؟، يَعْنِي: مَالِكًا وَأَبَا حَنِيفَةَ.
قُلْتُ: عَلَى الإِنْصَافِ؟ قَالَ: نَعَمْ.
قُلْتُ: فَأَنْشُدُكَ اللَّهَ، مَنْ أَعْلَمُ بِالْقُرْآنِ: صَاحِبُنَا أَوْ صَاحِبُكُمْ؟ قَالَ: صَاحِبُكُمْ، يَعْنِي مَالِكًا.
قُلْتُ: فَمَنْ أَعْلَمُ بِالسُّنَّةِ: صَاحِبُنَا أَوْ صَاحِبُكُمْ؟ قَالَ: اللَّهُمَّ صَاحِبُكُمْ.
قُلْتُ: فَأَنْشُدُكَ اللَّهَ، مَنْ أَعْلَمُ بِأَقَاوِيلِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُتَقَدِّمِينَ: صَاحِبُنَا أَوْ صَاحِبُكُمْ؟ قَالَ: صَاحِبُكُمْ.

قَالَ الشَّافِعِيُّ: قُلْتُ: فَلَمْ يَبْقَ إِلا الْقِيَاسُ، وَالْقِيَاسُ لا يَكُونُ إِلا عَلَى هَذِهِ الأَشْيَاءِ، فَمَنْ لَمْ يَعْرِفِ الأُصُولَ عَلَى أَيِّ شَيْءٍ يِقِيسُ؟!

محمد بن عبداللہ بن الحکم کہتے ہیں کہ انہوں نے امام شادفعی کو کہتے سنا کہ؛
امام شافعی نے کہا: مجھ سے محمد بن الحسن نے کہا کہ ہمارے استاذ ابو حنیفہ زیادہ بڑے عالم ہیں یا آپ کے استاذ امام مالک؟
میں نے (امام شافعی نے )نے کہا : انصاف والی بات کہوں؟
امام محمد نے کہا : ہاں انصاف ہی والی بات کہیئے۔
میں نے (امام شافعی نے )کہا: میں آپ پر اللہ کی قسم رکھ کر میں آپ ہی سے پوچھتا ہوں قرآن مجید کا زیادہ علم ہمارے استاذ (یعنی امام مالک) کو ہے یا آپ کے استاذ یعنی (مام ابو حنیفہ) کو؟
امام محمد نے کہا: آپ کے استاذ یعنی امام مالک۔
میں نے (امام شافعی نے )نے کہا: پھر سنت کا زیادہ علم ہمارے استاذ (یعنی امام مالک) کو ہے یا آپ کے استاذ یعنی (مام ابو حنیفہ) کو؟
امام محمد نے کہا:
اللهم! آپ کے استاذ (یعنی امام مالک) کو۔
میں نے (امام شافعی نے )نے کہا: میں آپ پر اللہ کی قسم رکھ کر میں آپ ہی سے پوچھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور متقدمین کے اقوال کا علم ہمارے استاذ (یعنی امام مالک) کو ہے یا آپ کے استاذ یعنی (مام ابو حنیفہ) کو؟
امام محمد نے کہا: آپ کے استاذ (یعنی امام مالک) کو۔

امام شافعی نے کہا: پھر میں نے (امام محمد سے) کہا: قیاس کے علاوہ کچھ نہیں بچا، اور قیاس کا دارو مدار انہیں پر ہے، تو جو شخص ان اصولوں سے ناواقف ہو وہ قیاس (قیاس شرعی) بھلا کس طرح کر سکے گا؟
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 119 - 120 جلد 01 آداب الشافعي ومناقبه - ابن أبي حاتم الرازي (المتوفى: 327هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 159 - 160 جلد 01 آداب الشافعي ومناقبه - ابن أبي حاتم الرازي (المتوفى: 327هـ) - مكتبة الخانجي، القاهرة

وأما محمد بن الحسن فحدثنا محمد بن عبد الله بن عبد الحكم قال سمعت الشافعي يقول قال لي محمد بن الحسن: أيهما أعلم صاحبنا أم
صاحبكم؟ يعني أبا حنيفة ومالك بن أنس - قلت: على الانصاف؟ (3 ك) قال: نعم.
قلت: فأنشدك الله من أعلم بالقرآن - صاحبنا أو صاحبكم؟ قال: صاحبكم - يعنى مالكا.
قلت فمن أعلم بالسُّنة - صاحبنا أو صاحبكم؟ قال: اللهم صاحبكم، قلت: فأنشدك الله من أعلم بأقاويل أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم والمتقدمين - صاحبنا أو صاحبكم؟ قال: صاحبكم
، قال الشافعي: فقلت: لم يبق إلا القياس، والقياس لا يكون إلا على هذه الأشياء فمن لم يعرف الاصول فعلى أي شئ يقيس؟

محمد بن عبداللہ بن الحکم کہتے ہیں کہ انہوں نے امام شادفعی کو کہتے سنا کہ ؛
امام شافعی نے کہا: مجھ سے امام محمد نے کہا کہ ہمارے استاذ ابو حنیفہ زیادہ بڑے عالم ہیں یا آپ کے استاذ امام مالک؟
میں نے (امام شافعی نے) کہا: انصاف والی بات کہوں؟
امام محمد نے کہا : ہاں، انصاف ہی والی بات کہیئے۔
میں نے (امام شافعی نے ) کہا: میں آپ پر اللہ کی قسم رکھ کر میں آپ ہی سے پوچھتا ہوں کہ آپ ہی انصاف سے بتلائیں کہ قرآن مجید کا زیادہ علم ہمارے استاذ (یعنی امام مالک) کو ہے یا آپ کے استاذ یعنی (مام ابو حنیفہ) کو؟
امام محمد نے کہا: آپ کے استاذ یعنی امام مالک۔
میں نے (امام شافعی نے )کہا: پھر سنت کا زیادہ علم ہمارے استاذ (یعنی امام مالک) کو ہے یا آپ کے استاذ یعنی (مام ابو حنیفہ) کو؟
امام محمد نے کہا:
اللهم! آپ کے استاذ (یعنی امام مالک) کو۔
میں نے (امام شافعی نے ) کہا: میں آپ پر اللہ کی قسم رکھ کر میں آپ ہی سے پوچھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور متقدمین کے اقوال کا علم ہمارے استاذ (یعنی امام مالک) کو ہے یا آپ کے استاذ یعنی (مام ابو حنیفہ) کو؟
امام محمد نے کہا: آپ کے استاذ (یعنی امام مالک) کو۔

امام شافعی نے کہا: پھر میں نے (امام محمد سے) کہا: قیاس کے علاوہ کچھ نہیں بچا، اور قیاس کا دارو مدار انہیں پر ہے، تو جو شخص ان اصولوں سے ناواقف ہو وہ قیاس (قیاس شرعی) بھلا کس طرح کر سکے گا؟
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 04 جلد 01 الجرح والتعديل - ابن أبي حاتم الرازي (المتوفى: 327هـ) - طبعة مجلس دائرة المعارف العثمانية، بحيدر آباد الدكن، الهند - تصوير دار الكتب العلمية


امام شافعی نے امام ابو حنیفہ کو امام مالک کے مقابلہ میں قرآن وسنت اور آثار صحابہ رضی اللہ عنہم سے ناواقف قرار دیا ہے، اور امام صاحب کے قیاسات کو بے بنیاد۔

یہی نہیں کہ صرف امام مالک کے مقابلہ میں امام شافعی نے امام ابو حنیفہ کی فہم وفقہ کو کمزور قرار دیا ہو، بلکہ امام شافعی نے امام صاحب کی فہم و فقہ کو خطا در خطا قرار دیا ہے:

أنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، ثنا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمُرَادِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ يَقُولُ: «أَبُو حَنِيفَةَ يَضَعُ أَوَّلَ الْمَسْأَلَةِ خَطَأً، ثُمَّ يَقِيسُ الْكِتَابَ كُلَّهُ عَلَيْهَا»
امام شافعی نے کہا: ابو حنیفہ پہلے ایک غلط مسئلہ گھڑتے، اور پھر پوری کتاب اسی پر قیاس کرتےتھے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 129 جلد 01 آداب الشافعي ومناقبه - ابن أبي حاتم الرازي (المتوفى: 327هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 171 جلد 01 آداب الشافعي ومناقبه - ابن أبي حاتم الرازي (المتوفى: 327هـ) - مكتبة الخانجي، القاهرة

یہ بات بلکل درست ہے کہ اہل الرائے ایک غلط بنیاد گڑھ کر کے اس پر مزید اٹکل لڑا لڑا کر خطا درخطا کرتے ہی چلے جاتے ہیں!

امام شافعی اور ابن ابی حاتم نے بھی یہ خرابی امام ابو حنیفہ ہی نہیں بلکہ ان کے شاگردو یعنی دیگر اہل الرائے کی بھی بیان کی ہے:

أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، قَالَ: ثَنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْحَكَمِ، قَالَ: قَالَ لِي مُحَمَّدُ بْنُ إدْرِيسَ الشَّافِعِيُّ: «نَظَرْتُ فِي كُتُبٍ لأَصْحَابِ أَبِي حَنِيفَةَ، فَإِذَا فِيهَا مِائَةٌ وَثَلاثُونَ وَرَقَةً، فَعَدَدْتُ مِنْهَا ثَمَانِينَ وَرَقَةً، خِلافَ الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ».
قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: لأَنَّ الأَصْلَ كَانَ خَطَأً، فَصَارَتِ الْفُرُوعُ مَاضِيَةً عَلَى الْخَطَأِ

امام شافعی نے کہا: میں نے ابو حنیفہ کے اصحاب کی کتب کو دیکھا، تو اس میں 130 اوراق تھے، جس میں سے 80 اوراق، قرآن وسنت کے خلاف تھے۔
ابو محمد ابن ابی حاتم نے کہا: کیونکہ جب اصل (بنیاد) ہی غلط تھی تو اس کی فروع بھی غلط ہوئیں!

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 129 - 130 جلد 01 آداب الشافعي ومناقبه - ابن أبي حاتم الرازي (المتوفى: 327هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 171 - 172 جلد 01 آداب الشافعي ومناقبه - ابن أبي حاتم الرازي (المتوفى: 327هـ) - مكتبة الخانجي، القاهرة

یہ بلکل درست بات ہے کہ اہل الرائے نے جو فقہ کا جو طریقہ واصول اختیار کیا ہے وہی غلط ہے ، جیسے عام و خاص، خبر واحد سے استدلال وغیرہ کے معاملہ میں، تو اس سے اخذ فقہ بھی غلط ہوتی ہے!

اسی فورم پر دیکھا جا سکتا ہے کہ اہل الرائے پہلے شاذ کی غلط اصطلاحی تعریف کشید کرتے ہیں اور پھر اس پر خطا در خطا کرتے ہوئے، عجیب وغریب مؤقف اختیار کرتے چلے جاتیں ہیں! اور اپنی کشید کردہ تعریف کو غلط تسلیم کر لینے کے باوجود بھی اس بنیاد پر جو اٹکل لڑائی تھی اسے درست باور کروانے پر مصر ہیں!

یہی نہیں، امام شافعی نے امام ابو حنیفہ اور اہل الرائے کی فہم و فقہ کو جادوگر ی سے تشبیہ دی ہے:

أَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ الْوَاسِطِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِدْرِيسَ الشَّافِعِيَّ، يَقُولُ: «مَا أُشَبِّهُ رَأْيَ أَبِي حَنِيفَةَ إِلا بِخَيْطِ سَحَّارَةٍ، تَمُدُّهُ هَكَذَا فَيَجِيءُ أَصْفَرَ، وَتَمُدُّهُ هَكَذَا فَيَجِيءُ أَخْضَرَ»
امام شافعی نے فرمایا: میں ابوحنیفہ کی رائے کو جادو گر کے دھاگے کے سوا کچھ نہیں سمجھتا، کہ جسے ایک طرف کھینچیں تو پیلا ہوجائے اوردوسری طرف کھینچیں تو ہرا ہوجائے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 130 جلد 01 آداب الشافعي ومناقبه - ابن أبي حاتم الرازي (المتوفى: 327هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 172 جلد 01 آداب الشافعي ومناقبه - ابن أبي حاتم الرازي (المتوفى: 327هـ) - مكتبة الخانجي، القاهرة

أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ مَرَّةً أُخْرَى، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ يَقُولُ: «مَا أُشَبِّهُ أَصْحَابَ الرَّأْيِ إِلا بِخَيْطِ سَحَّارَةٍ، تَمُدُّهُ هَكَذَا فَيَجِيءُ أَصْفَرَ، وَتَمُدُّهُ هَكَذَا فَيَجِيءُ أَخْضَرَ»
امام شافعی نے فرمایا: میں اصحاب الرئے (کی رائے) کو جادو گر کے دھاگے کے سوا کچھ نہیں سمجھتا، کہ جسے ایک طرف کھینچیں تو پیلا ہوجائے اوردوسری طرف کھینچیں تو ہرا ہوجائے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 130 جلد 01 آداب الشافعي ومناقبه - ابن أبي حاتم الرازي (المتوفى: 327هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 172 جلد 01 آداب الشافعي ومناقبه - ابن أبي حاتم الرازي (المتوفى: 327هـ) - مكتبة الخانجي، القاهرة

امام شافعی کے یہ اقوال اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ امام شافعی نے امام ابو حنیفہ کو ااہل الرائے کا فقیہ ہی سمجھتے تھے، امام شافعی کی امام ابو حنیفہ اور اہل الرائے کی فہم وفقہ پر اس شدید تنقید کے باوجود امام شافعی کے قول جسے اشماریہ صاحب نے پیش کیا، یہ اخذ کرنا کہ امام شافعی امام ابو حنیفہ اور اہل الرائے کی فہم وفقہ کو معتبر سمجھتے تھے درست نہیں! بلکہ امام شافعی تو امام ابوحنیفہ اور اہل الرائے کی فہم وفقہ کو جادوگر کی جادوگری کی طرح دھوکہ وفریب سمجھتے تھے، یہ بات امام شافعی کے اپنے الفاظ میں موجود ہے!
(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
قُلْتُ: الإِمَامَةُ فِي الفِقْهِ وَدَقَائِقِه مُسَلَّمَةٌ إِلَى هَذَا الإِمَامِ، وَهَذَا أَمرٌ لاَ شَكَّ فِيْهِ.
وَلَيْسَ يَصِحُّ فِي الأَذْهَانِ شَيْءٌ ... إِذَا احْتَاجَ النَّهَارُ إِلَى دَلِيْلِ
سیر اعلام النبلاء، 6۔403، ط: الرسالۃ
میں (علامہ ذہبی) کہتا ہوں: فقہ اور اس کی باریکیوں میں امامت اس امام کے لیے مسلم ہے اور یہ ایسا معاملہ ہے جس میں کوئی شک نہیں۔
اور ذہنوں میں سے کوئی ذہن بھی صحیح نہ رہ جائے۔۔۔۔۔۔ جب دن کو بھی دلیل کی ضرورت پڑ جائے۔"
بلکل جناب! امام ابو حنیفہ اہل الرائے کے امام و فقیہ ہیں، ہم نے اس کا انکار نہیں کرتے، امام ذہبی نے بھی امام ابو حنیفہ کے امام اہل الرائے ہونے کی تصریح کی ہے، اس بات کا تو کسی کو انکار ہی نہیں:
النعمان بن ثابت بن زوطى، أبو حنيفة الكوفي.
إمام أهل الرأى.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 265 جلد 04 ميزان الاعتدال في نقد الرجال - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد الذهبي (المتوفى: 748هـ) - دار المعرفة للطباعة والنشر، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 37 - 38 جلد 07 ميزان الاعتدال في نقد الرجال - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد الذهبي (المتوفى: 748هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت

امام ذہبی کے امام ابو حنیفہ کو فقیہ کہنے پر ہی اگر امام ابو حنیفہ کی فہم و فقہ معتبر قرار پاتی ہے،تو پھر محمد بن ادریس بن احمد العجلی الحلی رافضی کی فہم وفقہ کا معتبر ہونا بھی آپ کو ہی مبارک ہو، کیونکہ امام ذہبی نے اس رافضی کو بھی علم فقہ میں عدیم النظیر قرار دیا ہے۔
مُحَمَّد بْن إدريس بْن أَحْمَد بْن إدريس، الشيخ أبو عبد الله العجلي الحلي، فقيه الشيعة وعالم الرافضة في عصره. [المتوفى: 597 هـ]
كان عديم النّظير فِي عِلم الفِقه،
صنَّف كتاب الحاوي لتحرير الفتاوي، ولقّبه بكتاب السّرائر، وهو كتاب مشكور بين الشّيعة، وله كتاب خلاصة الاستدلال، وله منتخب كتاب التبيان فقه، وله مناسك الحجّ، وغير ذلك فِي الأُصول والفروع، قرأ على الفقيه راشد بْن إِبْرَاهِيم، والشّريف شرف شاه.
وكان بالحِلَّة، وله أصحاب وتلامذة، ولم يكن للشّيعة فِي وقته مثله، ولبعضهم فِيهِ قصيدة يفضّله فيها على مُحَمَّد بْن إدريس الشّافعيّ رَضِيَ اللَّه عَنْهُ، وما بينهما أفعل التفضيل.

محمد بن ادریس بن احمد بن ادریس، الشیخ ابو عبد اللہ العجلی، الحلی، فقیہ شیعہ اور اپنے وقت کا رافضیوں کا عالم۔
علم الفقہ میں عدیم النظیر تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 1120 جلد 12 تاريخ الإسلام وَوَفيات المشاهير وَالأعلام - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد الذهبي (المتوفى: 748هـ) - دار الغرب الإسلامي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 314 جلد 42 تاريخ الإسلام وَوَفيات المشاهير وَالأعلام - شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد الذهبي (المتوفى: 748هـ) - دار الكتاب العربي، بيروت

لہٰذا آپ کے پیش کردہ امام ذہبی کے الفاذ سے اہل الرائے کے امام اعظم ، امام ابو حنیفہ کی فہم و فقہ کا معتبر ہونا قرار نہیں پاتا۔ جس طرح علم الفقہ میں عدیم النظیر شیعہ فقیہ کی فہم و فقہ کا معتبر قرار نہیں پاتا۔

نوٹ:
اول: کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ میں نے امام أبو حنیفہ رحمہ اللہ کو ایک رافضی سے تشبیہ دی ہے! میں نے فقط یہ بتلایا ہے کہ فقیہ اور وہ بھی عدیم النظیر فقیہ تو امام ذہبی نے شیعہ کے ایک رافضی فقیہ کو بھی قرار دیا ہے۔
ابن داؤد صاحب!! ابو حنیفہ کی فقہ کے بارے میں علامہ ذہبی کے یہ الفاظ آپ کے ذہن اور آپ کی عقل کی حیثیت مقرر کرتے ہیں۔ اس چیز میں شک جس میں کوئی شک نہ ہو! لا حول ولا قوۃ الا باللہ!
امام ابو حنیفہ کے فقیہ وامام اہل الرائے ہونے میں، جیسا کہ امام ذہبی نے بیان کیا ہے، ہمیں تو کوئی شک نہیں!
اور اگر پھر بھی آپ بضد ہوں، جو کہ آپ کی عادت ہے، تو میں یہ کہتا ہوں کہ امام ذہبی اور ان جیسے علماء کے مقابلے میں آپ کی اپنی فہم مجروح ہے
ایک تو آپ پہلے ہم پر غلط بات منسوب کرتے ہو، پھر ضد کی تہمت بھی دھرتے ہو!
امام ابوحنیفہ کو فقیہ ماننے کا ہم کب انکار کیا ہے؟
امام ذہبی نے بھی انہیں فقیہ کہا ہے اور یہ ہم تسلیم کرتے ہیں!
آپ خواہ مخواہ ہم پر غلط باتیں کیوں منسوب کرتے ہو!
کیا جھوٹ بولنے کو شیعہ کی طرح عبادت سمجھ بیٹھے ہو!
ہم بھی امام ابو حنیفہ کو اہل الرائے کا امام و فقیہ مانتے ہیں او امام ذہبی بھی امام ابو حنیفہ کو اہل الرائے کا امام وفقیہ قرار دیتے ہیں ۔
اور ابو حنیفہ کی فہم پر شک کرتے ہوئے آپ خود جاہل ثابت ہوتے ہیں۔
کیوں میاں! شیعہ روافض کے عقیدہ امامت کی طرح اپنے امام اعظم کے معصوم عن الخطاء کا عقیدہ اختیار کر کے اسلام کو خیر آباد تو نہیں کہہ دیا!
یہ ہوتا ہے عقیدت کا غلو!
امام ذہبی نے تو یہ بات نہیں کہی!

ہاں ! ابن ابی العز نے آپ جیسی فکر رکھنے والے حنفیوں سے متعلق کہا ہے:

وَقد إنحرف فِي شَأْن أبي حنيفَة رَحمَه الله طَائِفَتَانِ: فطائفة قد غلبت فِي تَقْلِيده فَلم تتْرك لَهُ قولا وأنزلوه منزلَة الرَّسُول صلى الله عَلَيْهِ وَسلم.
اور ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی شان میں دو گروہوں نے انحراف کیا ہے۔ ایک گروہ وہ ہے جس نے ان کی تقلید میں غلو کیا، اور ان کے قول کو نہیں چھوڑا ، اور امام ابو حنفیہ کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بٹھا دیاہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 30 الاتباع - ابن أبي العز الحنفي - عالم الكتب بيروت

میاں! امام صاحب کی فہم پر شک کیا ! اسے مردود قرار دیا گیا ہے، امام بخاری اور امام شافعی کا حوالہ پیش کیا جا چکا ہے، اور بھی مزید قطار میں ہیں!
اور تو اور، امام صاحب کے اپنے شاگردوں نے بھی امام صاحب کی فہم وفقہ کو رد کیا ہے!

إنّهم أدرجوا أبا يوسف ومحمّد في طبقة مجتهدي المذهب، الذين لا يخالفون إمامه في الأصول، وليس كذلك، فإنّ مخالفتَهما لإمامهما في الأصول غير قليلة، حتى قال الإمامُ الغَزاليُّ في كتابه ((المنخول)): إنّهما خالفا أبا حنيفةَ في ثُلُثي مذهبه. انتهى.
۔۔ ۔ قاضی ابو یوسف اور محمد بن حسن شیبانی کو طبقہ مجتہد فی المذہب میں لکھا ہے، جو اپنے امام کی اصول میں مخالفت نہیں کرتے؛لیکن ایسا نہیں ہے، دونوں شاگردوں کی اپنے امام، (امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ) سے اصول میں بھی کچھ کم مخالفت نہیں، حتی کہ امام غزالی نے اپنی کتاب ''المخول'' میں کہا کہ انہوں نے اپنے استاذ کے مذہب سے دو تہائی مسائل میں اختلاف کیا ہے۔''
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 08 عمدة الرعاية بتحشية شرح الوقاية - أبو الحسنات محمد عبد الحي اللكنوي (المتوفى: 1304هـ) – مير محمد كتب خانه، کراتشي
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 08 عمدة الرعاية بتحشية شرح الوقاية - أبو الحسنات محمد عبد الحي اللكنوي (المتوفى: 1304هـ) - المطبع اليوسفي، لكنؤ – الهند

تو جناب! آپ کے مطابق تو امام ابوحنیفہ کی فہم و فقہ پر شک سے بڑھ کر اس کو رد کرنے پر قاضی ابو یوسف اور محمد بن حسن الشیبانی کو جاہل قرار یقیناً جاہل قرار پائیں گے!

اور ہاں! امام غزالی سے یاد آیا کہ امام غزالی تو آپ کے امام اعظم کو مجتہد ماننے سے ہی انکارکرتے ہیں! اور یہاں تک کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کو لغت کی معرفت نہیں بھی نہیں تھی اور نہ ہی علم الحدیث کی معرفت تھی، اور درحقیقت فقیہ بھی نہیں تھے۔
مجھے تو ڈر لگتا ہے کہ یہ پڑھ کر امام صاحب کی عقیدت کے بت کی پوجا کرنے والوں کو دل کا دورہ ہی نہ پڑھ جائے!


وأما أبو حنيفة فلم يكن مجتهدا لأنه كان لا يعرف اللغة وعليه يدل قوله ولو رماه بأبو قبيس وكان لا يعرف الأحاديث ولهذا ضري بقبول الأحاديث الضعيفة ورد الصحيح منها ولم يكن فقيه النفس بل كان يتكايس لا في محله على مناقضة مآخذ الأصول

ابوحنیفہ مجتہد نہیں تھے،کیونکہ انہیں عربی لغت کی معرفت نہیں تھی، جس پر ان کا قول ''بأبو قبيس'' دلالت کرتا ہے، اور نہ ہی وہ احادیث کی معرفت رکھتے تھے، اس وجہ سے وہ ان میں ضعیف احادیث قبول کر لیتے اور صحیح احادیث رد کردیتے تھے، وہ ( فقیہ النفس )حقیقی فقیہ نہ تھے ، بس بے موقع اپنی خلاف اصول دانائی کا اظہار فرماتے رہتے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 471 المنخول من تعليقات الأصول - أبو حامد محمد بن محمد الغزالي (المتوفى: 505هـ) - دار الفكر، دمشق

پھر کیا فرماتے ہیں حضرت! امام غزالی کے بارے میں! امام غزالی کو بھی صرف جاہل کہنے پر اکتفاء کیجئے گا یا اس سے بڑھ کر حکم صادر فرمایا جائے گا! اگر کہا جائے کہ بعد میں امام غزالی نے اپنے موقف سے رجوع کر لیا تھا، تو بہر حال اس وقت تک امام غزالی کے بارے میں کیا ارشاد فرماتے ہیں!
حفص بن غیاث کا قول امام ذہبی نے نقل کیا ہے (سند پر بحث کرنے سے پہلے یہ سوچ لیجیے گا کہ امام ذہبی آپ سے بہت زیادہ علم جرح و تعدیل سے واقف ہیں):
وَقَالَ حَفْصُ بنُ غِيَاثٍ: كَلاَمُ أَبِي حَنِيْفَةَ فِي الفِقْهِ، أَدَقُّ مِنَ الشَّعْرِ، لاَ يَعِيبُه إِلاَّ جَاهِلٌ.
ایضاً
ترجمہ: "اور حفص بن غیاث نے کہا: ابو حنیفہ کا فقہ میں کلام بال سے زیادہ باریک ہے۔ اس میں کوئی عیب نہیں نکالتا سوائے جاہل کے۔"
میں سوچ سمجھ کر ہی گفتگو کیا کرتا ہوں! تو جناب میں نے سوچ لیا ہے، پہلے تو امام ذہبی سے حفص بن غیاث تک کی سند پیش کریں!

ہم پیشگی ہی ،امام ابو حنیفہ کی فہم وفقہ کے متعلق حفص بن غیاث کا ہی مؤقف باسند پیش کردیتے ہیں:

حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمٌ، سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: «كُنْتُ أَجْلِسُ إِلَى أَبِي حَنِيفَةَ فَأَسْمَعُهُ يُفْتِي فِي الْمَسْأَلَةِ الْوَاحِدَةِ بِخَمْسَةِ أَقَاوِيلَ فِي الْيَوْمِ الْوَاحِدِ، فَلَمَّا رَأَيْتُ ذَلِكَ تَرَكْتُهُ وَأَقْبَلْتُ عَلَى الْحَدِيثِ»
حفص بن غیاث نے کہا: میں ا بو حنیفہ کے پاس بیٹھا تھا تو میں نے ایک ہی مسئلہ میں ایک ہی دن میں انہیں پانچ مختلف فتاوی دیتے سنا، جب میں نے ان کا یہ حال دیکھا، تو میں نے انہیں ترک کردیا اور علم الحدیث کی طرف توجہ کی۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 205 جلد 01 السنة - أبو عبد الرحمن عبد الله بن أحمد بن حنبل (المتوفى: 290هـ) - الناشر: دار ابن القيم، الدمام
اور یہ حفص بن غیاث فقیہ بھی ہیں اور محدث بھی:
الإِمَامُ، الحَافِظُ العَلاَّمَةُ القَاضِي، أَبُو عُمَرَ النَّخَعِيُّ الكُوْفِيُّ، قَاضِي الكُوْفَةِ، وَمُحَدِّثُهَا، وَوَلِيَ القَضَاءَ بِبَغْدَادَ أَيْضاً.
سیر الاعلام، 9۔22
جی جناب! اور اس فقیہ ومحدث حفص بن غیاث نے امام صاحب کے فہم و فقہ کے بے انتہا اضطرب کے سبب امام ابوحنیفہ کی فقہ کو ''غیر معتبر'' جانتے ہوئے، امام ابو حنیفہ کو ترک کردیا!

(جاری ہے)
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اور ان کی عقل کی تعریف امام احمد بھی کرتے ہیں:
وقال عبد الله: سمعتُ أَبي يقول: كان حفص بن غياث له عقل ووقار وهيئة، ما يكاد يتكلم حتى يُسأل. «العلل»
موسوعۃ 1۔280، عالم الکتب۔
جی! امام احمد بن حنبل ، حفص بن غیاث کی تو تعریف کرتے ہیں، مگر امام ابوحنیفہ اور اہل الرائے کی فقہ کی فہم وفقہ کو ''غیر معتبر''قرار دیتے ہیں:
سَأَلْتُ أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ عَنِ الرَّجُلِ، يُرِيدُ أَنْ يَسْأَلَ، عَنِ الشَّيْءِ، مِنْ أَمْرِ دِينِهِ مَا يُبْتَلَى بِهِ مِنَ الْأَيْمَانِ فِي الطَّلَاقِ وَغَيْرِهِ فِي حَضْرَةِ قَوْمٍ مِنْ أَصْحَابِ الرَّأْي وَمِنْ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ لَا يَحْفَظُونَ وَلَا يَعْرِفُونَ الْحَدِيثَ الضَّعِيفَ الْإِسْنَادِ وَالْقَوِيَّ الْإِسْنَادِ فَلِمَنْ يَسْأَلُ، أَصْحَابَ الرَّأْي أَوْ أَصْحَابَ الْحَدِيثِ عَلَى مَا كَانَ مِنْ قِلَّةَ مَعْرِفَتِهِمْ؟ قَالَ: يَسْأَلُ أَصْحَابَ الْحَدِيثِ وَلَا يَسْأَلُ أَصْحَابَ الرَّأْي، الضَّعِيفُ الْحَدِيثِ خَيْرٌ مِنْ رَأْي أَبِي حَنِيفَةَ.
امام عبداللہ بن احمد ؒ نے کہا میں نے اپنے باپ (امام احمد بن حنبلؒ) سے ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا جو اپنے کسی دینی معاملہ میں پوچھنا چاہتا ہے۔ یعنی وہ طلاق سے متعلق قسم اٹھانے یا اس کے علاوہ کسی اور معاملہ میں مبتلا ہوا اور اس کے شہر میں اصحاب الرائے بھی ہوں اور ایسے اصحاب حدیث بھی ہوں جنہیں حدیث صحیح سے ياد نہیں ہو، ضعیف حدیث کو اور اسناد کے قوی ہونے کی پہچان نہیں رکھتے تو یہ آدمی اس دوطبقوں میں سے کس سے مسئلہ پوچھے ۔ اصحاب الرائے سے یا ان اصحاب الحدیث سے جو معرفت میں کمزور ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ وہ آدمی اصحاب الحدیث سے پوچھے اور اصحاب الرائے سے نہ پوچھے کیونکہ ضعیف حدیث بھی ابو حنیفہ کے رائے سے تو بہتر ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 180 - 181 جلد 01 السنة - أبو عبد الرحمن عبد الله بن أحمد بن حنبل (المتوفى: 290هـ) - دار ابن القيم، الدمام
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 438 جلد 01 مسائل أحمد بن حنبل رواية ابنه عبد الله - أبو عبد الرحمن عبد الله بن أحمد بن حنبل (المتوفى: 290هـ) - المكتب الإسلامي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 397 جلد 01 مسائل أحمد بن حنبل رواية ابنه عبد الله - أبو عبد الرحمن عبد الله بن أحمد بن حنبل (المتوفى: 290هـ) - دار التأصيل - دار المودة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 1312 - 1313 جلد 01 مسائل أحمد بن حنبل رواية ابنه عبد الله - أبو عبد الرحمن عبد الله بن أحمد بن حنبل (المتوفى: 290هـ) - مكتبة الدار بالمدينة

تو جناب! امام احمد بن حنبل نے امام ابوحنیفہ اور ان کے شاگرد و پیروکار، تمام اہل الرائے کی فہم وفقہ کو ''غیر معتبر'' قرار دیتے ہوئے ان سے شرعی مسائل کے متعلق سوال کرنے سے بھی منع کردیا ہے!
(جاری ہے)
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جس پوسٹ کے آگے آپ نے جاری ہونے کی تصریح کی ہے اس کا جواب اس کے مکمل ہونے پر.
آپ نے ایک جگہ فرمایا تھا کہ:
اور اب آپ کے ان الفاظ کو پڑھ کر میں اس بحث سے معذرت چاہتا ہوں۔ آپ کا انداز اس قابل نہیں ہے کہ آپ کے ساتھ کوئی علمی بحث کی جا سکے۔ ہر جگہ مناظرہ کا طرز ایسے لاتے ہیں جیسے اور کچھ آتا ہی نہ ہو۔
اس لیے میں اب حکم قرآنی کے مطابق آپ کو سلام کہتا ہوں۔
میں اس بحث میں اب مزید جواب نہیں دوں گا۔
انداز تو ہمارا یہاں بھی وہی ہے!
وہاں بھی بحث سے فرار ہونے کی وجہ کچھ اور ہی معلوم ہوتی ہے، وگرنہ یہاں بھی جواب لکھنے کے خواہاں نہ ہوتے!
خیر یہ تو ایک ضمنی سی بات ہے، آپ کا حق ہے کہ آپ جواب لکھیں، اور آپ کو جواب لکھنا چاہیئے!

تو جناب نے "اہل الحدیث کی فہم" کہا ہے!
جی جناب! ہم نے اہل الحدیث کی فہم کو ہی کہا ہے! اور کبھی بھی ''میری فہم'' نہیں کہا!
یہی تو جناب کی دسیسہ کاری کا طرز بے بہا ہے. کیوں کہ جناب خود کو بھی اہل الحدیث میں شمار فرماتے ہیں.
بالکل میں اہل الحدیث ہوں، لیکن جب فہم ''اہل الحدیث'' کہا جائے تو اس کا معنی ''میری فہم'' نہیں ہوتا!
میں تو کیا اہل الحدیث امام شافعی کی فہم اگر کسی جگہ غلط ہوگی تو وہاں بھی دیگر اہل الحدیث کی فہم ہی معتبر قرار پائے گی۔ فتدبر!
اگر آپ اس کے برخلاف سمجھتے ہیں توپھر آپ ہر عامی اور جاہل حنفی کی ہفوات کو بھی فقہ حنفی سمجھ لیا کریں۔

اور جب بات رائے کی آتی ہے تو اپنی رائے پر اصرار فرماتے ہیں. یہ معروف طرز ہے جناب کا.
ابن داود صاحب! لفاظی کے مظاہرے کہیں اور!
ہم جب بھی اپنی رائے پیش کرتے ہیں، تو ساتھ اہل الحدیث علماء کی عبارات بھی پیش کرتے ہیں، اور وہ بھی ثبوت کے ساتھ!
یہ لفاظی نہیں میرے مراسلوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔

اور اگر بالفرض ابن داود صاحب کی اس بات کو مان لیا جائے.....
بالفرض کیا مطلب! آپ اقتباس پیش کریں کہ میں نے ''میری فہم'' کہا ہو!
تو جناب عالی کیا آپ مجھے کوئی لسٹ دے سکتے ہیں ان کی جو آپ کے نزدیک "اہل الحدیث" ہیں. ناراض مت ہوئیے گا.
حدیث سوز وساز ما دراز است
آپ اگر کبھی کسی ایسے شخص کو اہل الحدیث باور کراواؤ گے تو ہم آپ کو بتلا دیں گے۔

اصل میں آپ کو جب کوئی حوالہ دیا جائے اور آپ سے جواب نہ بن پڑے تو آپ اکثر یہ فرما دیتے ہیں کہ یہ شخصیت معتبر نہیں.
اشماریہ صاحب! جھوٹ بولنے سے پرہیز کیجئے!
اس مراسلہ سے قبل میرے 1638 مراسلے ہیں، ان میں کسی ایک اقتباس پیش کر دیجیئے کہ میں نے کسی اہل الحدیث عالم کی شخصیت کے بارے میں کہا ہو کہ یہ معتبر نہیں!
آپ تو اکثر کہہ رہے ہیں، آپ صرف ایک اقتباس پیش کر دیں!

ظاہر ہے اس کے بغیر آپ کی دکان کیسے چل سکتی ہے.
آپ مطلوبہ اقتباس پیش کریں، وگرنہ یہ بات ضرور ثابت ہو جائے گی کہ جھوٹ، فریب اور دجل کے بغیر آپ کا کام نہیں چلتا!
حالاں کہ اکثر جو "آپ" کے یہاں معتبر نہیں ہوتا وہ باقی دنیا میں معتبر قرار پاتا ہے.
جی، اہل البدعۃ والضلال کے ہاں!
وہ ہاں! ہو سکتا ہے آپ مثال مانگیں! تو صاحب ایک مثال ہے بدر الدین العینی کی, جنہیں ابھی کچھ دن پہلے آپ نے ایک تھریڈ میں اثناء بحث غیر معتبر قرار دیا ہے
لو جی! بدر الدین عینی حنفی ، معاملہ اہل الحدیث کا ہے اور صاحب مثال حنفی مقلد کی دے رہے ہیں!
دوم کہ میں نے وہاں عینی وغیرہ کے متعلق لکھا تھا:
ویسے تو زیلعی رحمہ اللہ کے علاوہ دیگر کے کلام کی علم الحدیث میں کوئی خاص اہمیت نہیں ہے، مگر پھر بھی عبارت پیش کریں!
حالاں کہ شیخ صالح المنجد انہیں "اہل العلم و الانصاف" کے نام سے یاد کرتے ہیں. حوالہ چاہیے ہو تو بتائیے گا
جی، آپ اس پر مدعا قائم کرنا چائیں تو ضرور کیجئے! اور سیاق دیکھنا نہیں بھولئے گا۔
ہمارے مؤقف پر ہم بھی ابن حجر العسقلانی وغیرہ سے ثبوت پیش کر دیں گے۔

تو سب سے پہلے لسٹ چاہیے ان کی جو آپ کے یہاں "معتبر رائے" والے "اہل الحدیث" ہیں.
حدیث سوز وساز ما دراز است
آپ اگر کبھی کسی ایسے شخص کو اہل الحدیث باور کراواو گے تو ہم آپ کو بتلا دیں گے۔

پھر ہمیں یہ بھی پتا چل جائے گا کہ ہم سب کو کلام کی سمجھ نہیں ہے.
''ہم سب'' میں مقلدین حنفیہ کو ہی شمار کیجئے گا! کہ جن کی علم الکلام میں جھک مار مار کر کلام کو سمجھنے کی مت ماری گئی ہے، دیگر کے ساتھ تو یہ معاملہ نہیں!
یا آپ اپنے "ضلوا و أضلوا" کے منصب کو برقرار رکھنے کے لیے ایسی باتیں کرتے ہیں.
یہ آپ کا باطل گمان ہے!
ویسے اس پر مجھے یاد آیا کہ کسے گمراہ قرار دیا گیا ہے:

حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن علي بن مخلد الوراق- لفظا- قال في كتابي عَنْ أَبِي بَكْر مُحَمَّد بْن عَبْد اللَّه بن صالح الأسدي الفقيه المالكي قَالَ: سمعت أبا بكر بْن أَبِي داود السجستاني يوما وهو يقول لأصحابه: ما تقولون في مسألة اتفق عليها مالك وأصحابه، والشافعي وأصحابه، والأوزاعي وأصحابه، والحسن بن صالح وأصحابه، وسفيان الثوري وأصحابه، وأحمد بن حنبل وأصحابه؟ فقالوا له: يا أبا بكر لا تكون مسألة أصح من هذه. فقال: هؤلاء كلهم اتفقوا على تضليل أبي حنيفة.
ابو بکر بن أبی داود السجستانی رحمہ اللہ نے ايک دن اپنے شاگردوں کو کہا کہ تمہارا اس مسئلہ کے بارہ ميں کيا خيال ہے جس پر مالک اور ان کے اصحاب، شافعی اوران کے اصحاب، اوزاعی اور ا ن کے اصحاب، حسن بن صالح اور ان کے اصحاب، سفيان ثوری اور ان کے اصحاب، احمد بن حنبل اور ان کے اصحاب سب متفق ہوں؟ تو وہ کہنے لگے اس سے زيادہ صحيح مسئلہ اور کوئی نہيں ہو سکتا۔
تو انہوں نے فرمايا: يہ سب ابو حنیفہ کو گمراہ قرار دينے پر متفق تھے۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 527 جلد 15 تاريخ بغداد - أبو بكر أحمد بن علي الخطيب البغدادي (المتوفى: 463هـ) - دار الغرب الإسلامي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 383 - 384 جلد 13 تاريخ بغداد - أبو بكر أحمد بن علي الخطيب البغدادي (المتوفى: 463هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت

(جاری ہے)
 
Last edited:
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
62
پوائنٹ
49
یہ ٹائپنگ ۔اور ۔۔جاری ہے ۔۔۔کی مشقت کیوں کر رہے ہیں بھائی ۔
نشر الصحیفہ اور اللمحات کا لنک دے دیں ۔شاید بات جلدی ختم ہو جائے۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
پھر ۔۔۔ عام قاری پر ۔۔۔ ان کی ۔۔۔ علمیت کی ۔۔۔ دھاک ۔۔۔ کیسے بیٹھے گی؟
ویسے محدث فورم والوں نے جتنے بھی ۔۔۔ مناظر (ابتسامہ) ۔۔۔ رکھے ہوئے ہیں ۔۔۔ سب ۔۔۔ کاپی پیسٹ ۔۔۔ کے ماہر ۔۔۔ منفی لٹریچر ۔۔۔ پر عبور رکھنے والے ۔۔۔ قرآن سے بے تعلق ۔۔۔ حدیث کے متون سے عاری ۔۔۔ جس حدیث کو چاہیں ۔۔۔ ضعیف ۔۔۔ قرار دینے میں ۔۔۔ ماہر اور ۔۔۔ اس میں ۔۔۔ ان کا ۔۔۔ کوئی ثانی نہیں ۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
ویسے اس پر مجھے یاد آیا کہ کسے گمراہ قرار دیا گیا ہے:
حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن علي بن مخلد الوراق- لفظا- قال في كتابي عَنْ أَبِي بَكْر مُحَمَّد بْن عَبْد اللَّه بن صالح الأسدي الفقيه المالكي قَالَ: سمعت أبا بكر بْن أَبِي داود السجستاني يوما وهو يقول لأصحابه: ما تقولون في مسألة اتفق عليها مالك وأصحابه، والشافعي وأصحابه، والأوزاعي وأصحابه، والحسن بن صالح وأصحابه، وسفيان الثوري وأصحابه، وأحمد بن حنبل وأصحابه؟ فقالوا له: يا أبا بكر لا تكون مسألة أصح من هذه. فقال: هؤلاء كلهم اتفقوا على تضليل أبي حنيفة.
ابو بکر بن أبی داود السجستانی رحمہ اللہ نے ايک دن اپنے شاگردوں کو کہا کہ تمہارا اس مسئلہ کے بارہ ميں کيا خيال ہے جس پر مالک اور ان کے اصحاب، شافعی اوران کے اصحاب، اوزاعی اور ا ن کے اصحاب، حسن بن صالح اور ان کے اصحاب، سفيان ثوری اور ان کے اصحاب، احمد بن حنبل اور ان کے اصحاب سب متفق ہوں؟ تو وہ کہنے لگے اس سے زيادہ صحيح مسئلہ اور کوئی نہيں ہو سکتا۔
تو انہوں نے فرمايا: يہ سب ابو حنیفہ کو گمراہ قرار دينے پر متفق تھے۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 527 جلد 15 تاريخ بغداد - أبو بكر أحمد بن علي الخطيب البغدادي (المتوفى: 463هـ) - دار الغرب الإسلامي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 383 - 384 جلد 13 تاريخ بغداد - أبو بكر أحمد بن علي الخطيب البغدادي (المتوفى: 463هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت
http://forum.mohaddis.com/threads/ابن-ابی-دائود-کے-ایک-قول-کی-وضاحت.30507/
اسے بھی پڑھنے کی زحمت گواراہ کرلیجئے ،آپ اگرتقلید سے دوربھاگتے ہیں تو کسی کے قول پر آمناصدقناکہہ کر مقلدین کی صف میں کیوں آجاتے ہیں، کیوں کسی قول کی تحقیق کی زحمت گوارانہیں کرتے ۔سند حسن سے ابن ابی دائود کے والد کا قول موجود ہے کہ اللہ امام مالک پر رحم کرے وہ امام تھے، اللہ شافعی پر رحم کرے وہ امام تھے اوراللہ ابوحنیفہ پر رحم کرے وہ امام تھے،تعجب ہے کہ ابن ابی دائود اپنے والد کو ہی امام احمد بن حنبل کے اصحاب میں شمارنہیں کرتے ہیں۔
 
Top