• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

منهج سلف صالحين اور اس سے انحراف

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
بندہ ابن داود صاحب کے "جاری ہے" کے اختتام کا منتظر ہے۔

ابن داؤد صاحب اپنے "طرز" کے مطابق ایک دوسرے سے منسلک تحریر کے ٹکڑے کرکے جواب دیتے ہیں تاکہ مکمل تحریر کا جو ایک مطلب نکل رہا ہے وہ نہ نکلے اور قاری غلط فہمی میں مبتلا ہو سکے۔ حتی کہ بسا اوقات ایک پیراگراف کے بھی ٹکڑے کر دیتے ہیں۔
یحرفون الکلم عن مواضعہ

بہر حال میں نوٹ کر رہا ہوں اور اختتام کا منتظر ہوں۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اولآتو اس بحث کو سابقہ منہج سلف صالحین سے الگ کردیناچاہئے، وہاں تبلیغی جماعت پر لگائے گئے الزام پرنقدپر اگرکوئی بات کرسکتاہوتوکرے،اہل الرائے پر بحث کو کہیں اورمنتقل کردیناچاہئےایک مناسب عنوان کے ساتھ۔
جیسے مناسب ہو، موضوع تو یہاں بھی عنوان سے متعلق ہے۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے ترجمان القرآن کے مقدمہ میں مفسروں کا شکوہ کرتے ہوئے لکھاہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جب یہ مفسرین قرآن کریم کی بلندیوں کا ساتھ نہیں دے سکے تو یہ قرآن کو اپنی پست سطح پر لے آئے،
اور مولانا ابو الکلام آزاد کی بیباکی کی بھی دوسروں نے شکایت کی ہے! بہر حال مفسرین کرام خطاء سے خالی نہیں اور نہ ہی مولانا آزاد!
یہی حال غیرمقلدین کا حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ کے بارے میں ہے،یہ حضرات شاہ ولی اللہ کے ایک دوکلام سے ان کی تمام کتابوں اورتصنیفات پر پانی پھیرناچاہتے ہیں، حالانکہ شاہ ولی اللہ ایک بلند مرتبت صوفی بھی تھے،ایک عالی مرتبت فقیہ تھے ،مایہ نازمحدث تھے، اوراگر بعض لوگوں کو گراں نہ گزرے تویہ بھی کہہ دوں کہ وہ بڑے فلسفی اور متکلم بھی تھے،کسی گروہ کے چند اشخاص کی بے اعتدالیوں پر تنقید کا یہ مطلب نہیں ہوتاکہ پورے گروہ کی خدمات پرپانی پھیردیاجائے،
مرجئی و جہمی صاحب! آپ جنہیں ''غیر مقلدین'' کہتے ہیں وہ اہل الحدیث، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ہوں یا شیخ الإسلام ابن تیمیہ یا کوئی اور، خواہ امام اہل السنہ امام احمد بن حنبل ہوں یا امام دار الھجرہ امام مالک ہوں، کسی کی بھی خطاء کو اپنے گلے میں نہیں باندھتے!
اس بات کو خضر حیات بھائی نے بھی اس فورم پر اس طرح بیان کیا تھا:

مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کےبارے میں معروف ہے کہ قرآن مجید کی تفسیر اور عقائد کے بعض معاملات میں ان سے بڑی بڑی غلطیاں ہوئیں ، عذر یہ بیان کیا گیا کہ وہ مختلف فرق و ادیان کے خلاف مناظروں میں مصروف رہے ، جس کے رد میں ان سے یہ غلطیاں صادر ہوئیں ۔
یہاں ہم مولانا رحمہ اللہ کا عذر سمجھتےہیں ، لیکن جو انہوں نے غلطی کی ، اس کو غلطی ہی کہیں گے ، درست نہیں کہا جاسکتا ۔ واللہ اعلم ۔
اور اہل الحدیث شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی کتابوں اور تصنیفات پر کوئی پانی نہیں پھیرتے، ہاں ان کی خطاء کو ، خواہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی خود اس سے رجوع کر چکے ہوں یا نہیں، ان خطاؤں کو اپنے گلے کا طوق نہیں بناتے۔ فتدبر!
نوٹ: جو حنفی مقلدین ہمیں اہل الحدیث کہنا پسند نہیں کرتے، ہم بھی انہیں ''حنفی مقلدین '' کہنا پسند نہیں کرتے، بلکہ انہیں ان کے دوسرے اوصاف، جیسے مرجئی و جہمی سے مخاطب کرنا پسند کرتے ہیں۔

حضرت شاہ ولی اللہ نے بعض اوقات محدثین پر بھی تنقید کی ہے،چنانچہ شفاء العلیل میں لکھتے ہیں۔
’’یہ وصیت ہے کہ صحبت نہ اختیار کرے صوفیان جاہل کی اورنہ جاہلان عبادت شعار کی اورنہ فقیہوں کی جو زاہد خشک ہیں اورنہ محدثین ظاہری کی جو فقہ سے عداوت رکھتے ہیں اورنہ اصحاب معقول اورکلام کی جو منقول کو ذلیل سمجھ کر استدلال عقلی میں افراط کرتے ہیں بلکہ طالب حق کو چاہئے کہ عالم صوفی ہو،دنیا کا تارک،ہردم اللہ کے دھیان میں ،حالات بلند میں ڈوباہوا، سنت مصطفویہ میں راغب ‘‘الخ ص 116-117،
اول تو اس تساہل کی نشابدہی کر دوں کہ ''شفاء العلیل'' شاہ ولی اللہ کی تصنیف نہیں، بلکہ شاہ ولی اللہ کی عربی تصنیف ''القول الجميل في بيان سواء السبيل'' کا اردو ترجمہ اور حاشیہ ہے، جو خرم علی بلہوری نے کیا ہے۔ خیر یہ تو تساہل ہے، ایسا ہو جاتا ہے۔
دوم کہ فقہ سے عداوت رکھنے والے محدثین ظاہری بلکل قابل نقد ورد ہیں۔ ہمیں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی اس بات پر کوئی اعتراض نہیں!
اور یہاں تو بحث ہی اہل الحدیث کی فہم و فقہ کے معتبر اور اہل الرائے کی فہم وفقہ کے ''غیر معتبر'' ہونے پر ہو رہی ہے، اب ان کو فقہ کیونکر معتبر ہو، جو فقہ سے عدوات رکھتے ہوں! وہ تو خود ہی دستبردار ہوتے ہیں۔

اس اقتباس میں دیکھاجاسکتاہےکہ حضرت شاہ ولی اللہ نے محدثین پر بھی تنقید کی ہے
ذرا فرق کر لیجئے، کہ جیسا کہ آپ کی پیش کردہ عبارت میں فقہ سے عداوت رکھنے والے محدثین ظاہری پر تنقید کی گئی ہے، نہ کہ محدثین پر!
اور یہ فرق اسی تھریڈ میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی زبانی بھی بتلایا گیا تھا، اسے نظر انداز نہ کریں۔
اس کے علاوہ ایک اورکتاب میں انہوں نے محدثین کی اس روش پر بھی تنقید کی ہے کہ معمولی باتوںوصل وارسال کو بہانہ بناکر حدیث کو چھوڑدیتے ہیں،
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی عبارت پیش کی جائے تو معلوم ہوگا کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے دراصل کیا کہا ہے، اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی تنقید درست ہے یا وہ اس تنقید کے سبب خود قابل تنقید بنتے ہیں!
ہاں انہوں نے جاہل صوفی سے بچنے کی نصیحت کے ساتھ صوفی بننے کی تاکید بھی ہے۔
جی شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے جاہل صوفی سے بچنے کی نصیحت کی ہے اور ایسا صوفی کی صحبت اختیار کرنے کا کہا ہے، جو سنت کے ماتحت ہو۔
آپ کی پیش کردہ عبارت کے سے کچھ آگے ہی شاہ ولی اللہ ،حدث دہلوی کے الفاظ یہ ہیں:

وأصحاب السلوك الجامعين بين العلم والتصوف غير المتشددين علی أنفسهم والمدققين زيادة علی السنة ولا يصحب إلا من اتصف بهذه الصفات.
ان اصحاب سلوک کے کلام سے جو جامع ہیں علم اور تصوف کے تشدد کرنے والے نہیں اپنے نفوس پر اور نہ دقت کرنے والے سنت نبویہ پر بڑھ کر اور نہ صحبت اختیار کرے مگر اس شخص کی جو متصف بصفات مذکورہ ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 158 شفاء العلیل ترجمہ القول الجمیل – خرم علی بلہوری- ایچ. ایم. سعید کمپنی، کراچی
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 194 شفاء العلیل ترجمہ القول الجمیل – خرم علی بلہوری- مکتبہ رحمانیہ، لاہور

اصحاب طریقت میں سے ان لوگوں کی اتباع کرے جو علم اور تصوف کے جامع ہوں۔ ایسے نہ ہوں جو اپنے نفس پر بے جا بوجھ ڈالتے ہیں یا سنت پر اضافہ کرتے ہیں۔ جو شخص ان صفات کا حامل نہ ہو۔ سالک کو اس کی صحبت اختیار نہیں کرنی چاہیئے۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 107 القول الجميل في بيان سواء السبيل ترجمہ اردو (رسائل شاہ ولی اللہ دہلوی -اردو) – مترجم: محمد فاروق القادری – تصوف فاؤنڈیشن

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی مذکوہ عبارت پر ہمیں اگر اعتراض ہوگا تو وہ اتنا ہی کہ یہاں صوفی کا لفظ استعمال کیاگیاہے، وگرنہ بات انہوں نے اسی زہد وتقوی کی کی ہے جو سنت میں مذکور ہے!
گو کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی اسی کتاب میں بہت سی باتیں قابل اعتراض ونقد ہیں۔
بہر حال یہ فی الوقت موضوع بحث نہیں!

اس سے واضح ہے کہ کسی گروہ کے بعض افراد پر تنقید ہے ،پورے گروہ پر تنقید نہیں ہے
جی بات آپ کی بلکل درست ہے کہ کسی گروہ کے بعض افراد پر تنقید ، پورے گروہ پر تنقید نہیں ہوتی، بلکہ کسی فرد کے بعض افکار پر تنقید بھی اس کے تمام افکار پر تنقید نہیں ہوتی!
ضرورت اس بات کی ہے کہ شاہ ولی اللہ کو ان کی تصنیفات کے آئینہ میں دیکھاجائے نہ کہ اپناخودساختہ آئینہ بناکر شاہ ولی اللہ کو اس میں فٹ کیاجائے۔
جی جناب بلکل درست فرمایا، لیکن یہاں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی شخصیت کا بیان نہیں کیا گیا!
(جاری ہے)
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
متقشف کا ترجمہ خشک دماغ یاکوڑھ مغز کرنامترجم کی خشک دماغی اور کوڑھ مغزی ہے،مترجم کویہی نہیں معلوم کہ متقشف کا ترجمہ کیاہوتاہے اورکیاہوناچاہئے،تقشف کاترجمہ سخت گیر،دنیاوی عیش وآرام سے کنارہ کش وغیرہ ہےاورادبی انداز میں کیاجائے تو زاہد خشک ہے، زاہد خشک اور خشک دماغ میں فرق وفاصلہ جو محسوس نہ کرے اس کی کوڑھ مغزی میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتاہے۔تقشف کا معنی اس پر ابن دائود صاحب دیکھ لیں اوردیگر لغات میں بھی دیکھ لیں۔
http://www.almaany.com/ar/dict/ar-ar/تقشف/

{ثُمَّ تولى إِلَى الظل} أي ظل سمرة وفيه دليل جواز الاستراحة في الدنيا بخلاف ما يقوله بعض
المتقشفة ولما طال البلاء عليه أنس بالشكوى إذ لا نقص في الشكوى إلى المولى

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 636 جلد 02 تفسير النسفي (مدارك التنزيل وحقائق التأويل) - أبو البركات عبد الله بن أحمد بن محمود حافظ الدين النسفي (المتوفى: 710هـ) - دار الكلم الطيب، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 859 تفسير النسفي (مدارك التنزيل وحقائق التأويل) - أبو البركات عبد الله بن أحمد بن محمود حافظ الدين النسفي (المتوفى: 710هـ) - مكتبة نزار مصطفى الباز
﴿پھر وہ سایہ کی طرف لوٹ گئے﴾ کیکر کے درخت کا سایہ۔
مسئلہ: دنیا میں استراحت کا جواز اس سے نکلتا ہے۔ اگرچہ شدت پسند صوفیوں کا مذہب اس کے خلاف ہے۔ جب آزمائش طویل ہوجائے تو مولیٰ کی بارگاہ میں شکایت کرنا نقص نہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 960 تفسیر مدارک للنسفی (اردو) – مترجم: استاذ التفسیر والحدیث شمس الدین – مکتبۃ العلم، لاہور

یہاں المتقشفة کا ترجمہ شدد پسند صوفی کیا گیا ہے، جو سیاق کے لحاظ سے درست ہے۔

وبعد انقضاء صحابہ تابعین جمع پیدا شدند، کہ بہ تعمق وتشدد افتادند، واحتیاط وکسرِ نفس کہ از شرع بگوش ایشاں رسیدہ بود، بغیر رعایت وزن وتشخیص ہردوائے برائے ہردائے پیش گرفتند، وگفتند کہ مانع بجز نفس، وعادت، ورسم نیست، پس اقصی الغایۃ سعی باید کرد، ونفسی شہوی، وسبع باید نمود۔
پس ترک جماع وطعام لذیذ، ولباس ناعم، اختیار کردیند، تاآنکہ طبیعیت ایشاں مثل طبیعت ناقہین گشت، کہ تقاضا ہارا فراموش کردہ باشد، یا مثل طبیعت متقشفین کہ باتنعمات اہل حضر آشنا نباشد۔

صحابہ اور تابعین کا دور گذر جانے کے بعد کچھ ایسے لوگ پیدا ہوگئے جنہوں نے تعمق اور تشدد کی راہ اختیار کرلی، اور احتیاط اور کسر نفس کے بارہ میں جو بات ان کے کانوں میں شریعت کی طرف سے پڑی تھی، تو ان لوگوں نے وزن (مقدار) اور تشخیص کے بغیر ہی ہر دوا، ہر بیماری کے لئے تجویز کی، اور انہوں نے یہ کہا کہ نفس اور عادت اور رسم ورواج کے علاوہ کوئی چیز اللہ تعالیٰ کے تقرب سے مانع نہیں، پس انہوں نے کہا کہ انتہائی درجہ کی کوشش کرنی چاہئے اور نفس سبعی کو خوب روندنا توڑنا چاہیئے۔
پس ان لوگوں نے مجامعت، لذیذ کھانا، اور اچھا لباس پہنا ترک کردیا، بالآخر ان کی طبیعت ایسی ہو گئی جیسے بیماری سے اٹھنے کے بعد ناتوانوں کی طبیعت ہوتی ہے جسی بنا پر وہ وہ نفس کے تمام تقاضوں کو بھول گئےہوں، یا ان کی طبیعت ایسی ہوگئی جس طرح خشک مزاج زاہد لوگوں کی طبیعت ہوتی ہے جو شہر والے لوگوں کی نعمتوں سے بالکل آشنا نہیں ہوتے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 69 - 70 الطاف القدس فی معرفۃ لطائف النفس مع ترجمہ اردو – شاہ ولی اللہ محدث دہلوی - مترجم: عبد الحمید سواتی – ادارۂ نشر واشاعت مدرسہ نصرۃ العلوم، گوجرانوالہ

صحابہ اور تابعین کے مبارک دور کے بعد کچھ ایسے لوگ پیدا ہو گئے جنہوں نے تعمق (ہربات کی کھال اتارنا) اور تشدد کا طریقہ اختیار کیا اور کسرِ نفس کے بارے میں شریعت سے ایک بھِنک ان کے کانوں میں پڑگئی تو انہوں نے تشخیص اور مقدار کا لحاظ کئے بغیر ہر بیماری کے لئے ہر دوا تجویز کردی اور کہنے لگے کہ اس راہ میں نفس وعادت اور رسوم ورواج کے علاوہ کوئی دوسری چیز مانع نہیں ہے، لہٰذا انتہائی کوشش کرکے نفس سبعی اور شہوی کو مغلوب کرنا چاہیئے، ان لوگوں نے نفسانی خواہشات، لذیذ طعام اور عمدہ لباس ترک کردیئے اور ان کی طبیعت ان بیماری زدہ لوگوں کی سی ہو جاتی ہے جو مسلسل بیماری کی وجہ سے نفس کے تمام تقاضوں کو فراموش کرچکے ہوتے ہیں یا پھر ان کی طبیعت ان خشک مزاج زاہدوں کی سی ہوجاتی ہے جو متمدن لوگوں کی تہذیب سے بالکل بے خبر ہوتے ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 53 الطاف القدس فی معرفۃ لطائف النفس مع ترجمہ اردو – شاہ ولی اللہ محدث دہلوی - مترجم: سید محمد فاروق القادری – تصوف فاؤنڈیشن، لاہور


یہاں متقشفین کا ترجمہ خشک مزاج زاہد کیا گیا ہے، اور یہ درست ہے، کیونکہ یہاں مزاج و طبیعت کے سیاق میں کلام کیا جارہا ہے۔

اول وصیت: این فقیر چنگ زدن ست بکتاب وسنت دراعتقاد وعمل وپیوستہ بتدبیر ہر دو مشغول شدن و ہر روز حصۂ از ہر دو خواندن واگر طاقت خواندن ندارد ترجمۂ ورقی از ہر دوشنیدن در عقائد مذہب قدمای اہل سنت اختیار کردن و از تفصیل و تفتیش آنچہ سلف تفتیش نکردند اعراض نمودن و بہ تشکیکات خام معقولیات التفات نکردن
ودر فروع پیروی علماء محدثین کہ جامع باشند میان فقہ وحدیث کردن ودائما تفریعات فقیہ را بر کتاب وسنت عرض نمودن آنچہ موافق باشد درحیّز قبول آوردن والا کالائ بد بریش خاونددادن امت را ہیچ وقت از عرض مجتہدات بر کتاب و سنت استغنا حاصل نیست وسخن متقشفۂ فقہا کہ تقلید عالمی رادست اآویز ساختہ تتبع سنت را ترک کردہ اند نشنیدن و بیشان التفات نکردن و قریب خدا جستن بدوی اينان۔

ترجمہ: فروعی مسائل میں ان علمائے محدثین کا اتباع کرنا چاہئے جو فقہ و حدیث کے جامع ہوں، تفریعات فقہیہ کو ہمیشہ کتاب و سنت نے منطبق کرتے رہنا چاہئے جو مسائل تفریعی کتاب و سنت کو موافق ہوں قبول کئے جائیں، جو خلاف ہوں ان کو ترک کر دیا جائے۔ امت محمدی کے واسطے اجتہادی مسائل کو کتاب وسنت کی کسوٹی پر پرکھنا نہایت ضروری ہے۔ کسی حال میں اس سے مفر نہیں۔ ایسے
خشک دماغ فقہا کی بات کبھی نہ سننا چاہئے جو کسی ایک عالم کی تقلید کو اپنی دستاویز سمجھ لے اور سنت رسول کو ترک کردے۔ اس قسم کے کوڑھ مغز فقہا کی طرف کبھی بھی التفات نہیں کرنا چاہئے بلکہ خدا کی خوشنودی اور قرب ان لوگوں سے دور رہنے میں ہے۔
صفحہ 02 – 03 وصیت نامہ ورسالہ دانشمندی - شاہ ولی اللہ محدث دہلوی – مطبوعہ منشی نول کشور، کانپور

اور یہ ترجمہ غلط نہیں، کیونکہ جیسا کہ آپ نے بھی اس کا معنی ''سخت گیر'' بھی لکھا ہے، اور اس عبارت میں ''متقشفہ فقہا'' انہیں قرار کہا گیا ہے جو تقلید کو اپنی دستاویز سمجھتے ہیں اور سنت کو ترک کرتے ہیں، اور اس کا تعلق مزاج و طبیعت کی سخت گیری سے نہیں کہ ''خشک مزاج'' کہا جائے، بلکہ عقل وخرد کی سخت گیری ہے، لہٰذا یہاں'' متقشفہ'' کا'' خشک دماغ'' یا''کوڑھ مغز ''کہنا غلط نہیں!

ویسے بھی اپنے عالم کی تقلید میں سنت کو ترک کرنے والے کے کم از کم ''خشک دماغ ''و ''کوڑھ مغز'' ہونے میں تو کوئی شک نہیں۔
دوم کہ ''زاہد خشک''' کے معنی میں بھی ''زاہد جاہل'' شامل ہے۔

زاهد خشك ۔ كنايه از زاهدی است که نهايت اهتمام در زهد وپرهيزگاری داشته باشد ۔ و زاهد بی درد وزاهد جاهل را نيز گويند.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 1002 جلد 02 برهان قاطع – محمد حسين بن خلف تبريزی متخلص ببرهان – كتاب فروشی ابن سينا، تهران





ویسے ميں نے اس عبارت کا ترجمہ ڈاکٹر رضیہ حامد کی کتاب ''نواب صدیق حسن خان'' سے لکھا تھا، اس کتاب پر سید ابولحسن علی ندوی نے مقدمہ لکھا ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 282 – 283 نواب صدیق حسن خان – ڈاکٹر رضیہ حامد – بھوپال یونیورسٹی، انڈیا












محدث علماء جو فقہ وحدیث کے جامع ہوں، ان کی پیروی سے اہل حدیث علماء کے معتبرہونے پر استدلال کرنامارے گھٹناپھوٹے سر والی بات ہے،شاہ ولی اللہ تویہ کہہ رہے ہیں کہ ایسے علماء کی پیروی کرنی چاہئے جو حدیث اورفقہ کے جامع ہوں اس میں جہاں یہ بات شامل ہے کہ ایسے فقیہ کی پیروی جس کو حدیث میں مہارت نہ ہو پیروی نہ کرنااولیٰ ہے وہیں ایسے محدث کی پیروی سے بھی بچناچاہئے جو فقہ سے عاری اورخالی ہے۔
آگے جو شاہ ولی اللہ نے مقلدین فقہاء سے دور رہنے کی نصحیت کی ہے، اسے نظر انداز کرکے ایسا مطلب کشید کرنا، دل کے خوش رکھنے کے لئے تو اچھا خیال ہے، مگر درست نہیں!
شاوہ ولی اللہ نے علمائے محدثین یعنی کہ اہل الحدیث علماء سے رجوع کرنے کی نصیحت کی ہے اور مقلدین سے دور رہنے کی نصیحت کی ہے!
اور یہ ''اولیٰ'' کہاں سے آگیا!
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی تو فرماتے ہیں کہ:
''نشنیدن وبیشان التفات نکردن وقریب خدا جستن بدوی اينان''
''اس قسم کے فقہا کی طرف کبھی بھی التفات نہیں کرنا چاہئے بلکہ خدا کی خوشنودی اور قرب ان لوگوں سے دور رہنے میں ہے۔''

ویسے آپ یہ جملہ یاد رکھیئے گا بہت کام آئے گا:
ایسے فقیہ کی پیروی جس کو حدیث میں مہارت نہ ہو پیروی نہ کرنااولیٰ ہے وہیں ایسے محدث کی پیروی سے بھی بچناچاہئے جو فقہ سے عاری اورخالی ہے۔

اگرابن دائود کا مطلب یہ ہے کہ ہرمحدث فقیہ ہوتاہے جیساکہ بعض غالی غیرمقلدین کا دعویٰ ہے تویہ جہاں دلیل سے عاری ایک دعویٰ ہے وہیں ارشاد رسول کے خلاف بھی ہے کیونکہ ارشاد صلی اللہ علیہ وسلم واضح ہے "فرب حامل فقہ لافقہ لہمسند احمد،رقم الحدیث 16738۔
اشماریہ صاحب شاید اسے ''بین ''سمجھ رہے ہیں کہ آپ نے غلط چیز کے آگے بجا دی!
یوں تو اشماریہ صاحب بھی ''غالی غیر مقلدین'' کی صف میں کھڑے ہوجائیں گے!
کیونکہ اشماریہ صاحب رقم طراز ہیں:

محدث اور راوی میں ذرا سا فرق کیجیے. ہر راوی حدیث کو محدث نہیں کہا جاتا. اور اس حدیث میں رواۃ کو حکم ہے کہ آگے پہنچاؤ تاکہ سمجھ والوں تک پہنچے. اور یہ حقیقت ہے کہ بے شمار رواۃ حدیث فقیہ نہیں ہوتے. وہ صرف وہ چند روایات جانتے ہیں جو ان کے پاس ہوتی ہیں. ایک محدث کی روایات کا ذخیرہ ان سے کہیں زیادہ ہوتا ہے جبہی وہ فقہ اور سمجھ رکھتا ہے.
و اللہ اعلم


(جاری ہے)
 

اٹیچمنٹس

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جیساکہ میری امید تھی کہ ابن دائود نے یہی راگ الاپاکہ میری مطلب نہیں سمجھاگیاہے اورفلاں کا مطلب نہیں سمجھاگیاہے،
میاں جی! ہم جسے تحریر کی فہم میں غلط فہمی یا کج فہمی کہتے ہیں اس کا بیان بادلیل کیا کرتے ہیں!
انہوں نے یہ بات واضح نہیں کی کہ شافعی مالکی اورحنبلی جو تقلید کے قائل ہیں وہ اہل حدیث ہیں یانہیں ہیں،
اب کوئی حالت مراقبہ میں مراسلہ پڑھے گا تو اسے خاک معلوم ہو گا!
ہم نے بالکل واضح الفاظ میں لکھا تھا:

شافعی مالکی اور حنبلی اہل الحدیث ہیں، اگر مقلدین نہیں!
کیونکہ ان کی عادت اورفطرت ہے کہ دوسروں سے تو دوٹوک جواب کا مطالبہ کرتے ہیں اورخود گول گول گھوم کردوسروںکو گھماناچاہتے ہیں۔
رحمانی صاحب! آپ کی عادت حالت مراقبہ میں لکھنے پڑھنے کی ہو، تو اپنی کوتاہ نظری کا دوش کسی اور کو نہ دیں!
آپ نے غلط چیز کے آگے بین بجا دی ہے رحمانی بھائی.
یہ پھر وہی راگ الاپیں گے کلام سمجھ نہ آنے والا مرغ کی ایک ٹانگ کی طرح.
اصل میں اس کے بغیر دکان داری مشکل ہے.
ویسے میں سوچ رہا تھا کہ یہ جو بار بار سب کو یہ کہا جا رہا ہے کہ میرا کلام نہیں سمجھتے تو کہیں ایسا تو نہیں کہ خود اس مثال کے مطابق ہوں: أَحَدُهُمَا أَبْكَمُ لَا يَقْدِرُ عَلَىٰ شَيْءٍ وَهُوَ كَلٌّ عَلَىٰ مَوْلَاهُ أَيْنَمَا يُوَجِّههُّ لَا يَأْتِ بِخَيْرٍ؟
من ترا ملا بگویم تو میرا حاجی بگو!
یہ ٹائپنگ ۔اور ۔۔جاری ہے ۔۔۔کی مشقت کیوں کر رہے ہیں بھائی ۔
نشر الصحیفہ اور اللمحات کا لنک دے دیں ۔شاید بات جلدی ختم ہو جائے۔
تاکہ سند رہے اور باوقت ضرورت کام آوے!
ویسے ابن عثمان بھائی! آپ درست پہنچے! کہ میں خود کوئی اپنی جرح پیش نہیں کیا کرتا، بلکہ علمائے اہل الحدیث کی تحریر سے ہی پیش کیا کرتا ہوں، میں صرف ساتھ اصل کتاب کے اسکین صفحات بطور ثبوت پیش کردیتا ہوں!

رحمانی صاحب نے دو عبارت پر کچھ جواب تحریر فرمایا ہے، اشماریہ بھائی کے جواب کے بعد اگلے دور میں ان کا جواب الجواب بھی لکھا جائے گا۔ ان شاء اللہ!
(جواب مکمل ہوا)
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ابن داؤد صاحب اپنے "طرز" کے مطابق ایک دوسرے سے منسلک تحریر کے ٹکڑے کرکے جواب دیتے ہیں تاکہ مکمل تحریر کا جو ایک مطلب نکل رہا ہے وہ نہ نکلے اور قاری غلط فہمی میں مبتلا ہو سکے۔ حتی کہ بسا اوقات ایک پیراگراف کے بھی ٹکڑے کر دیتے ہیں۔
یحرفون الکلم عن مواضعہ
مجھے وہ مقام بتلائیے گا کہ جہاں آپ کی تحریر کا مطلب تبدیل ہوا ہو!
آپ کی تحریر کا کیا مطلب تھا، اور پھر کیا ہو گیا! اس بات کو دم تحریر میں لا کر!
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

مجھے وہ مقام بتلائیے گا کہ جہاں آپ کی تحریر کا مطلب تبدیل ہوا ہو!
آپ کی تحریر کا کیا مطلب تھا، اور پھر کیا ہو گیا! اس بات کو دم تحریر میں لا کر!
ابتسامہ
جسے آپ تسلیم نہیں فرمائیں گے!

بہرحال شکر ہے کہ آپ کی یہ داستان امیر حمزہ نما تحریر ختم ہوئی. ان شاء اللہ آج سے عرض کرتا ہوں.
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
امام شافعی کے مذکورہ قول میں امام ابوحنیفہ کی فقہ کا معتبر ہونا کہاں ہے؟
آپ کی عقل پر ماتم کرنے کا بھی دل چاہتا ہے اور اٹکلوں پر ہنسنے کا بھی۔
امام شافعیؒ کے اس قول میں ابو حنیفہ کی فقہ کی تعریف ہے۔ اور غیر معتبر اور بے حیثیت چیز کی تعریف آپ جیسا کوئی شخص کرے تو کرے، امام شافعیؒ سے میں اس کی امید نہیں رکھ سکتا۔
مجھے امید ہے کہ اب آپ اگلا پھول یہ جھڑیں گے کہ اس میں ابو حنیفہ کی فقہ کی تعریف کہاں ہے؟؟
تو میں پہلے ہی عرض کر دوں:
امام شافعیؒ کا قول یہ ہے:

النَّاسُ فِي الفِقْهِ عِيَالٌ عَلَى أَبِي حَنِيْفَةَ.
عیال کا معنی ہے:
{والعيال، ككتاب: جمع} عيل، كسيد، وهم الذين يتكفل بهم الرجل
تاج العروس 30۔82، ط: دار الہدایۃ
"اور 'عیال' کتاب کی طرح: 'عیل' (سید کی طرح) کی جمع ہے۔ اور وہ وہ لوگ ہیں جن کی کوئی شخص کفالت کرے۔"

وقال ابن بري: {العيال ياؤه منقلبة عن واو، لأنه من} عالهم {يعولهم: إذا كفاهم معاشهم
تاج العروس، 30۔74، ط: دار الہدایۃ
"ابن بری کہتے ہیں: 'العیال' اس کی یاء واؤ سے بدلی ہوئی ہے کیوں کہ یہ عالھم یعولھم سے ہے: جب وہ (فاعل) ان (مفعولین) کی معاش کو کافی ہو جائے۔"

امام شافعیؒ نے لوگوں کو فقہ میں ابو حنیفہ کے عیال قرار دیا ہے۔ عیال کا اصل اطلاق گھر والوں پر ہوتا ہے۔ یعنی لوگ فقہ میں امام ابو حنیفہ کے بال بچے ہیں۔
شاید آپ علم بلاغت سے واقف ہوں۔ لیکن جو قارئین واقف نہیں ہیں ان کے لیے تفصیلا عرض کرتا ہوں:
عربی میں جب کسی چیز کی کوئی حالت بتانی مقصود ہوتی ہے تو اسے اس حالت میں اس سے کامل چیز سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر زید کی شجاعت بتانی ہے تو اسے شیر کی طرح کہا جاتا ہے: زید کالاسد (زید شیر کی طرح ہے)۔ اور جب اس تشبیہ میں مزید مبالغہ مقصود ہو تو اس میں سے حروف تشبیہ کو ختم کر دیتے ہیں اور یوں کہتے ہیں : زید اسد (زید تو شیر ہے)۔ بالکل اسی طرح یہاں لوگوں کو فقہ میں ابو حنیفہؒ کے عیال کہا گیا ہے۔ یعنی جس طرح کسی کے اہل و عیال اس پر انحصار کرتے ہیں اور وہ ان کی کفالت کرتا ہے اسی طرح فقہ میں لوگ امام ابو حنیفہ پر انحصار کرتے ہیں اور وہ ان کی کفالت کرتے ہیں۔
اس کے باجود ابن داؤد صاحب فرماتے ہیں کہ اس میں امام ابو حنیفہ کی فقہ کا معتبر ہونا کہاں ہے؟ لا حول ولا قوۃ الا باللہ۔
بالکل ایسے ہی جیسے کہا جائے کہ زید اپنے بچوں کی معاش میں کفالت کرتا ہے۔ اور ابن داؤد صاحب فرمائیں کہ اس میں کہاں ہے کہ زید کی معاش میں کفالت معتبر ہے؟؟ یاحسرتیٰ علی عقلک۔

پھر مزید یہ کہ میری بات میں اسی سے متصل علامہ ذہبی کا یہ قول تھا:
قُلْتُ: الإِمَامَةُ فِي الفِقْهِ وَدَقَائِقِه مُسَلَّمَةٌ إِلَى هَذَا الإِمَامِ، وَهَذَا أَمرٌ لاَ شَكَّ فِيْهِ.
وَلَيْسَ يَصِحُّ فِي الأَذْهَانِ شَيْءٌ ... إِذَا احْتَاجَ النَّهَارُ إِلَى دَلِيْلِ
"میں (علامہ ذہبی) کہتا ہوں: فقہ اور اس کی باریکیوں میں امامت اس امام کے لیے مسلم ہے اور یہ ایسا معاملہ ہے جس میں کوئی شک نہیں۔
اور ذہنوں میں سے کوئی ذہن بھی صحیح نہ رہ جائے۔۔۔۔۔۔ جب دن کو بھی دلیل کی ضرورت پڑ جائے۔"

اس قول سے واضح طور پر یہ پتا چلتا ہے کہ علامہ ذہبیؒ بھی امام شافعیؒ کے اس قول کو امام ابو حنیفہ کی فقہ کی مدح سمجھے ہیں۔ ذہبی نے اس قول کو امام کے مناقب پر اپنی کتاب میں بھی بطور مدح ذکر کیا ہے۔ ان کے علاوہ مزی نے تہذیب الکمال میں، صیمری نے اخبار ابی حنیفہ میں، خطیب نے تاریخ بغداد میں، ابو طاہر الازدی نے منازل الائمہ میں، صفدی نے الوافی میں، ابن حجر نے تہذیب میں اور سیوطی نے طبقات الحفاظ میں اس قول کو ذکر کیا ہے۔ اگر یہ مدح بھی نہیں ہے، خبر ہونا اس کا ممکن نہیں ہے، ذم کی یہ کیفیت نہیں رکھتا تو ان سب نے اسے کیوں ذکر کیا ہے؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ امام کی فقہ کی مدح ہے۔ ابن نجار نے تو الرد علی الخطیب میں اس قول کو باقاعدہ عبد اللہ بن مبارکؒ کے ایک قول کی درایۃ تضعیف میں مدح کے طور پر ذکر کیا ہے۔

میں نے علامہ ذہبی کی پوری بات نقل کی تھی تاکہ یہ واضح ہو جائے کہ اس قول سے مراد مدح لی گئی ہے۔ لیکن آپ نے آدھی کاٹ دی اور اس پر بحث شروع کر دی۔ اور یہ آپ کا عمومی طرز ہے کہ ایک دوسرے کی وضاحت کرتے ہوئے دو جملوں کو آپ پہلے الگ کرتے ہیں اور پھر ان میں سے ہر ایک کا مستقل معنی لیتے ہوئے جواب دیتے ہیں۔ حالانکہ اکثر اس کی توضیح دوسرے جملے میں موجود ہوتی ہے جس توضیح کی طرف آپ بالکل نہیں جاتے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اگر آپ یہ نہ کریں تو پھر اس سے اپنی مرضی کا معنی کشید کر کے اس کا جواب کیسے دیں؟

امام شافعی نے امام ابو حنیفہ کی فقہ کا غیر معتبر ہونا بھی بتلایا ہے،دیکھیئے امام شافعی امام ابو حنیفہ کی فقہ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں:
أنا أَبُو الْحَسَنِ، أنا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي حَاتِمٍ فِيمَا قُرِئَ عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْحَكَمِ، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ يَقُولُ: قَالَ لِي مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ: أَيُّهُمَا أَعْلَمُ: صَاحِبُنَا أَوْ صَاحِبُكُمْ؟، يَعْنِي: مَالِكًا وَأَبَا حَنِيفَةَ.
قُلْتُ: عَلَى الإِنْصَافِ؟ قَالَ: نَعَمْ.
قُلْتُ: فَأَنْشُدُكَ اللَّهَ، مَنْ أَعْلَمُ بِالْقُرْآنِ: صَاحِبُنَا أَوْ صَاحِبُكُمْ؟ قَالَ: صَاحِبُكُمْ، يَعْنِي مَالِكًا.
قُلْتُ: فَمَنْ أَعْلَمُ بِالسُّنَّةِ: صَاحِبُنَا أَوْ صَاحِبُكُمْ؟ قَالَ: اللَّهُمَّ صَاحِبُكُمْ.
قُلْتُ: فَأَنْشُدُكَ اللَّهَ، مَنْ أَعْلَمُ بِأَقَاوِيلِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُتَقَدِّمِينَ: صَاحِبُنَا أَوْ صَاحِبُكُمْ؟ قَالَ: صَاحِبُكُمْ.
قَالَ الشَّافِعِيُّ: قُلْتُ: فَلَمْ يَبْقَ إِلا الْقِيَاسُ، وَالْقِيَاسُ لا يَكُونُ إِلا عَلَى هَذِهِ الأَشْيَاءِ، فَمَنْ لَمْ يَعْرِفِ الأُصُولَ عَلَى أَيِّ شَيْءٍ يِقِيسُ؟!

محمد بن عبداللہ بن الحکم کہتے ہیں کہ انہوں نے امام شادفعی کو کہتے سنا کہ؛
امام شافعی نے کہا: مجھ سے محمد بن الحسن نے کہا کہ ہمارے استاذ ابو حنیفہ زیادہ بڑے عالم ہیں یا آپ کے استاذ امام مالک؟
میں نے (امام شافعی نے )نے کہا : انصاف والی بات کہوں؟
امام محمد نے کہا : ہاں انصاف ہی والی بات کہیئے۔
میں نے (امام شافعی نے )کہا: میں آپ پر اللہ کی قسم رکھ کر میں آپ ہی سے پوچھتا ہوں قرآن مجید کا زیادہ علم ہمارے استاذ (یعنی امام مالک) کو ہے یا آپ کے استاذ یعنی (مام ابو حنیفہ) کو؟
امام محمد نے کہا: آپ کے استاذ یعنی امام مالک۔
میں نے (امام شافعی نے )نے کہا: پھر سنت کا زیادہ علم ہمارے استاذ (یعنی امام مالک) کو ہے یا آپ کے استاذ یعنی (مام ابو حنیفہ) کو؟

امام محمد نے کہا: اللهم! آپ کے استاذ (یعنی امام مالک) کو۔
میں نے (امام شافعی نے )نے کہا: میں آپ پر اللہ کی قسم رکھ کر میں آپ ہی سے پوچھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور متقدمین کے اقوال کا علم ہمارے استاذ (یعنی امام مالک) کو ہے یا آپ کے استاذ یعنی (مام ابو حنیفہ) کو؟
امام محمد نے کہا: آپ کے استاذ (یعنی امام مالک) کو۔
امام شافعی نے کہا: پھر میں نے (امام محمد سے) کہا: قیاس کے علاوہ کچھ نہیں بچا، اور قیاس کا دارو مدار انہیں پر ہے، تو جو شخص ان اصولوں سے ناواقف ہو وہ قیاس (قیاس شرعی) بھلا کس طرح کر سکے گا؟

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 119 - 120 جلد 01 آداب الشافعي ومناقبه - ابن أبي حاتم الرازي (المتوفى: 327هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 159 - 160 جلد 01 آداب الشافعي ومناقبه - ابن أبي حاتم الرازي (المتوفى: 327هـ) - مكتبة الخانجي، القاهرة

وأما محمد بن الحسن فحدثنا محمد بن عبد الله بن عبد الحكم قال سمعت الشافعي يقول قال لي محمد بن الحسن: أيهما أعلم صاحبنا أم
صاحبكم؟ يعني أبا حنيفة ومالك بن أنس - قلت: على الانصاف؟ (3 ك) قال: نعم.
قلت: فأنشدك الله من أعلم بالقرآن - صاحبنا أو صاحبكم؟ قال: صاحبكم - يعنى مالكا.

قلت فمن أعلم بالسُّنة - صاحبنا أو صاحبكم؟ قال: اللهم صاحبكم، قلت: فأنشدك الله من أعلم بأقاويل أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم والمتقدمين - صاحبنا أو صاحبكم؟ قال: صاحبكم، قال الشافعي: فقلت: لم يبق إلا القياس، والقياس لا يكون إلا على هذه الأشياء فمن لم يعرف الاصول فعلى أي شئ يقيس؟

محمد بن عبداللہ بن الحکم کہتے ہیں کہ انہوں نے امام شادفعی کو کہتے سنا کہ ؛
امام شافعی نے کہا: مجھ سے امام محمد نے کہا کہ ہمارے استاذ ابو حنیفہ زیادہ بڑے عالم ہیں یا آپ کے استاذ امام مالک؟
میں نے (امام شافعی نے) کہا: انصاف والی بات کہوں؟
امام محمد نے کہا : ہاں، انصاف ہی والی بات کہیئے۔
میں نے (امام شافعی نے ) کہا: میں آپ پر اللہ کی قسم رکھ کر میں آپ ہی سے پوچھتا ہوں کہ آپ ہی انصاف سے بتلائیں کہ قرآن مجید کا زیادہ علم ہمارے استاذ (یعنی امام مالک) کو ہے یا آپ کے استاذ یعنی (مام ابو حنیفہ) کو؟
امام محمد نے کہا: آپ کے استاذ یعنی امام مالک۔
میں نے (امام شافعی نے )کہا: پھر سنت کا زیادہ علم ہمارے استاذ (یعنی امام مالک) کو ہے یا آپ کے استاذ یعنی (مام ابو حنیفہ) کو؟

امام محمد نے کہا: اللهم! آپ کے استاذ (یعنی امام مالک) کو۔
میں نے (امام شافعی نے ) کہا: میں آپ پر اللہ کی قسم رکھ کر میں آپ ہی سے پوچھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور متقدمین کے اقوال کا علم ہمارے استاذ (یعنی امام مالک) کو ہے یا آپ کے استاذ یعنی (مام ابو حنیفہ) کو؟
امام محمد نے کہا: آپ کے استاذ (یعنی امام مالک) کو۔
امام شافعی نے کہا: پھر میں نے (امام محمد سے) کہا: قیاس کے علاوہ کچھ نہیں بچا، اور قیاس کا دارو مدار انہیں پر ہے، تو جو شخص ان اصولوں سے ناواقف ہو وہ قیاس (قیاس شرعی) بھلا کس طرح کر سکے گا؟

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 04 جلد 01 الجرح والتعديل - ابن أبي حاتم الرازي (المتوفى: 327هـ) - طبعة مجلس دائرة المعارف العثمانية، بحيدر آباد الدكن، الهند - تصوير دار الكتب العلمية


امام شافعی نے امام ابو حنیفہ کو امام مالک کے مقابلہ میں قرآن وسنت اور آثار صحابہ رضی اللہ عنہم سے ناواقف قرار دیا ہے، اور امام صاحب کے قیاسات کو بے بنیاد۔

کاش کہ صرف و نحو ہی پڑھ لیتے!

آپ نے دعوی یہ قائم کیا ہے:
امام شافعی نے امام ابو حنیفہ کی فقہ کا غیر معتبر ہونا بھی بتلایا ہے
اور نتیجہ یہ نکالا ہے:
امام شافعی نے امام ابو حنیفہ کو امام مالک کے مقابلہ میں قرآن وسنت اور آثار صحابہ رضی اللہ عنہم سے ناواقف قرار دیا ہے، اور امام صاحب کے قیاسات کو بے بنیاد۔
اور رہ گئی دلیل! تو وہ دعوے کے مطابق ہی نہیں!
دعوی ہے کہ امام ابو حنیفہ کی فقہ کا غیر معتبر ہونا امام شافعیؒ نے بتایا ہے۔ اور دلیل ہے:
أنا أَبُو الْحَسَنِ، أنا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي حَاتِمٍ فِيمَا قُرِئَ عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْحَكَمِ، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ يَقُولُ: قَالَ لِي مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ: أَيُّهُمَا أَعْلَمُ: صَاحِبُنَا أَوْ صَاحِبُكُمْ؟، يَعْنِي: مَالِكًا وَأَبَا حَنِيفَةَ.
قُلْتُ: عَلَى الإِنْصَافِ؟ قَالَ: نَعَمْ.
قُلْتُ: فَأَنْشُدُكَ اللَّهَ، مَنْ أَعْلَمُ بِالْقُرْآنِ: صَاحِبُنَا أَوْ صَاحِبُكُمْ؟ قَالَ: صَاحِبُكُمْ، يَعْنِي مَالِكًا.
قُلْتُ: فَمَنْ أَعْلَمُ بِالسُّنَّةِ: صَاحِبُنَا أَوْ صَاحِبُكُمْ؟ قَالَ: اللَّهُمَّ صَاحِبُكُمْ.
قُلْتُ: فَأَنْشُدُكَ اللَّهَ، مَنْ أَعْلَمُ بِأَقَاوِيلِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُتَقَدِّمِينَ: صَاحِبُنَا أَوْ صَاحِبُكُمْ؟ قَالَ: صَاحِبُكُمْ.


آپ تو واقف ہوں گے لیکن قارئین کے لیے عرض ہے کہ عربی زبان میں ایک اسم استعمال ہوتا ہے جسے اسم تفضیل کہتے ہیں۔ یعنی دو یا زیادہ چیزوں میں ایک چیز کو دوسری چیز سے زیادہ بتانا۔ مثال کے طور پر امام بخاری اور امام مسلم کی صحیحین کا تقابل کیا جائے اور کہا جائے کہ "بخاری مسلم سے زیادہ صحیح ہے" تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ مسلم صحیح نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مسلم بھی صحیح ہے لیکن بخاری اس سے زیادہ صحیح ہے۔
بالکل اسی طرح امام شافعیؒ نے یہاں لفظ "اعلم" استعمال کیا ہے یعنی زیادہ بڑے عالم۔ اگر ہم فی الوقت مان لیتے ہیں کہ امام مالکؒ امام ابو حنیفہ سے زیادہ قرآن و سنت اور اقوال صحابہ کے عالم تھے تو کیا اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ امام ابو حنیفہ بالکل ہی قرآن و سنت اور آثار صحابہ سے ناواقف تھے؟ ہر گز نہیں!
ہو سکتا ہے کہ آپ کہیں کہ آپ نے یہ کہا ہے کہ امام مالک کے مقابلے میں ناواقف قرار دیا ہے۔ یہ درست ہے اور میں اسی کی دوسری سمت جناب کی توجہ مبذول کروا رہا ہوں کہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ بالکل ناواقف تھے۔

پھر امام شافعیؒ نے فرمایا ہے:
قَالَ الشَّافِعِيُّ: قُلْتُ: فَلَمْ يَبْقَ إِلا الْقِيَاسُ، وَالْقِيَاسُ لا يَكُونُ إِلا عَلَى هَذِهِ الأَشْيَاءِ، فَمَنْ لَمْ يَعْرِفِ الأُصُولَ عَلَى أَيِّ شَيْءٍ يِقِيسُ؟!
امام شافعی نے کہا: پھر میں نے (امام محمد سے) کہا: قیاس کے علاوہ کچھ نہیں بچا، اور قیاس کا دارو مدار انہیں پر ہے، تو جو شخص ان اصولوں سے ناواقف ہو وہ قیاس (قیاس شرعی) بھلا کس طرح کر سکے گا؟
ایک تو جناب کا یہ ترجمہ غلط ہے! امام شافعیؒ کے الفاظ ہیں:
عَلَى أَيِّ شَيْءٍ يِقِيسُ؟!
آپ نے اس کا ترجمہ کیا ہے:
وہ قیاس (قیاس شرعی) بھلا کس طرح کر سکے گا؟
اس کا درست ترجمہ ہے:
"وہ قیاس کس چیز پر کرے گا؟"
اور اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ اس کے پاس جتنا علم ہے اس پر قیاس کرے گا۔ شافعیؒ نے علم کی بالکل نفی نہیں کی بلکہ امام مالک کے مقابلے میں نفی کی ہے۔ تو اگر امام ابو حنیفہؒ کا علم امام مالکؒ سے کم بھی ہو تو بھی اتنا کم ثابت نہیں ہوتا کہ غیر معتبر کہلائے۔
امام شافعیؒ فرماتے ہیں:
و قال أبو عبيد الله أحمد بن عبد الرحمن بن وهب ابن أخى عبد الله بن وهب : سمعت الشافعى يقول : الليث أفقه من مالك إلا أن أصحابه لم يقوموا به .
تهذیب الكمال للمزی
"لیث مالک سے زیادہ فقیہ ہیں مگر یہ کہ ان کے اصحاب نے ان کی قدر نہیں کی"
اس قول کا کیا یہ مطلب لیں کہ امام مالکؒ کی فقہ معتبر ہی نہیں ہے؟

و قال حرملة بن يحيى : سمعت الشافعى يقول : الليث أتبع للأثر من مالك .
تہذیب الکمال للمزی
"لیث مالکؒ سے زیادہ آثار کی اتباع کرنے والے تھے۔"
اس قول کا مطلب کیا یہ لیں کہ اب امام مالک کی آثار و احادیث کی اتباع بھی معتبر نہیں ہے؟
لگتا ہے کہ آپ کو معلوم نہیں ہوتا کہ آپ کے دماغ سے کیا نکل رہا ہے۔

یہ تو ایک بات تھی۔ دوسری بات:
امام شافعیؒ کے الفاظ ہیں:
سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ يَقُولُ: قَالَ لِي مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ: أَيُّهُمَا أَعْلَمُ: صَاحِبُنَا أَوْ صَاحِبُكُمْ؟، يَعْنِي: مَالِكًا وَأَبَا حَنِيفَةَ.
"مجھے محمد بن الحسن نے کہا: کون زیادہ "عالم" ہے؟ ہمارے استاد یا آپ کے استاد؟ ان کی مراد مالک اور ابو حنیفہ تھے۔"
ابن داؤد صاحب! یہاں فقہ کی بات ہی کہاں ہوئی ہے؟ یہاں تو بات ہی علم کی ہوئی ہے کہ کون زیادہ علم رکھتا ہے۔ اور یہ عین ممکن ہے کہ زیادہ علم رکھنے والا فقیہ نہ ہو یا کم فقیہ ہو۔
نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: رب حامل فقہ غیر فقیہ (او کما قال)۔ "بہت سے فقہ کو اٹھائے ہوئے لوگ فقیہ نہیں ہوتے"۔ یعنی علم تو ہوتا ہے لیکن فقہ اور سمجھ نہیں ہوتی۔
اس لیے علم کی بحث الگ ہے اور فقہ کی الگ۔ بات علم کی نہیں فقہ کی ہو رہی ہے۔
اب پتا نہیں آپ کو یہ معلوم نہیں تھا یا جوش تحریر میں آپ اس روایت کو لے آئے۔ اور یا پھر جگہ بھر کر عوام کو متاثر کرنے کی سعی تھی۔
بہر حال آپ کو واقعی یہ پتا نہیں چلتا کہ آپ کے سر سے کیا برآمد ہو رہا ہے۔ لا حول و لا قوۃ الا باللہ۔

یہی نہیں کہ صرف امام مالک کے مقابلہ میں امام شافعی نے امام ابو حنیفہ کی فہم وفقہ کو کمزور قرار دیا ہو، بلکہ امام شافعی نے امام صاحب کی فہم و فقہ کو خطا در خطا قرار دیا ہے:
أنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، ثنا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمُرَادِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ يَقُولُ: «أَبُو حَنِيفَةَ يَضَعُ أَوَّلَ الْمَسْأَلَةِ خَطَأً، ثُمَّ يَقِيسُ الْكِتَابَ كُلَّهُ عَلَيْهَا»
امام شافعی نے کہا: ابو حنیفہ پہلے ایک غلط مسئلہ گھڑتے، اور پھر پوری کتاب اسی پر قیاس کرتےتھے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 129 جلد 01 آداب الشافعي ومناقبه - ابن أبي حاتم الرازي (المتوفى: 327هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 171 جلد 01 آداب الشافعي ومناقبه - ابن أبي حاتم الرازي (المتوفى: 327هـ) - مكتبة الخانجي، القاهرة
یہ بات بلکل درست ہے کہ اہل الرائے ایک غلط بنیاد گڑھ کر کے اس پر مزید اٹکل لڑا لڑا کر خطا درخطا کرتے ہی چلے جاتے ہیں!

ایک بار پھر پچھلا والا معاملہ!

سب سے پہلے دعوی یہ قائم کیا:
امام شافعی نے امام صاحب کی فہم و فقہ کو خطا در خطا قرار دیا ہے
اور آخر میں نتیجہ یہ نکالا ہے:
یہ بات بلکل درست ہے کہ اہل الرائے ایک غلط بنیاد گڑھ کر کے اس پر مزید اٹکل لڑا لڑا کر خطا درخطا کرتے ہی چلے جاتے ہیں!
اب یہ نتیجہ اگر آپ کی اپنی رائے ہے جیسا کہ محسوس ہو رہا ہے تو پھر تو مجھے اس پر خاموش رہنا چاہیے۔ کیوں کہ آپ کی رائے کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ آپ کا تو جب جو دل چاہے بول دیں۔

امام شافعیؒ کے اس قول پر سب سے پہلا سوال تو یہ ہے کہ ابو حنیفہؒ کی اپنی کون سی ایسی تصنیف ہے جو انہوں نے فقہ میں لکھی ہو اور اس میں یہ طریقہ اختیار کیا ہو؟ امام صاحب سے (حسب علمی) فقہ کی کوئی کتاب لکھی ہوئی موجود نہیں ہے۔
اور اگر یہ کہا جائے کہ امام شافعیؒ کی مراد اس سے املاء کروائی ہوئی کتاب ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ امام ابو حنیفہؒ سے فقہ میں املاء کروائی ہوئی کتاب بھی کون سی اس طرح كی ثابت ہے؟ اور اس میں یہ طرز کہاں ہے؟
اور دوسرا سوال یہ ہے کہ امام شافعیؒ کی امام ابو حنیفہؒ سے ملاقات ہی نہیں ہے تو انہیں اس املاء کا علم کہاں سے ہوا؟
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قول درایۃ درست نہیں ہے اور انتہائی معلول ہے۔

اگلی روایت آپ نے بیان کی ہے اصحاب ابی حنیفہ کے متعلق!

مام شافعی اور ابن ابی حاتم نے بھی یہ خرابی امام ابو حنیفہ ہی نہیں بلکہ ان کے شاگردو یعنی دیگر اہل الرائے کی بھی بیان کی ہے:
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، قَالَ: ثَنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْحَكَمِ، قَالَ: قَالَ لِي مُحَمَّدُ بْنُ إدْرِيسَ الشَّافِعِيُّ: «نَظَرْتُ فِي كُتُبٍ لأَصْحَابِ أَبِي حَنِيفَةَ، فَإِذَا فِيهَا مِائَةٌ وَثَلاثُونَ وَرَقَةً، فَعَدَدْتُ مِنْهَا ثَمَانِينَ وَرَقَةً، خِلافَ الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ».
قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: لأَنَّ الأَصْلَ كَانَ خَطَأً، فَصَارَتِ الْفُرُوعُ مَاضِيَةً عَلَى الْخَطَأِ

امام شافعی نے کہا: میں نے ابو حنیفہ کے اصحاب کی کتب کو دیکھا، تو اس میں 130 اوراق تھے، جس میں سے 80 اوراق، قرآن وسنت کے خلاف تھے۔
ابو محمد ابن ابی حاتم نے کہا: کیونکہ جب اصل (بنیاد) ہی غلط تھی تو اس کی فروع بھی غلط ہوئیں!

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 129 - 130 جلد 01 آداب الشافعي ومناقبه - ابن أبي حاتم الرازي (المتوفى: 327هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 171 - 172 جلد 01 آداب الشافعي ومناقبه - ابن أبي حاتم الرازي (المتوفى: 327هـ) - مكتبة الخانجي، القاهرة

ابو حنیفہؒ کے اصحاب تو بہت تھے۔ ان میں سے کن کی کتب کو امام شافعیؒ نے دیکھا؟
اور مزے کی بات کتب کا لفظ جمع استعمال کیا ہے۔ جمع کا ادنی فرد تین ہوتا ہے۔ بھلا اصحاب ابی حنیفہ کی ایسی کون سی تین کتب ہیں جن کے صرف ایک سو تیس صفحات ہیں اور ان میں اسی صفحات امام شافعیؒ نے پڑھے ہیں؟ لہذا یہ قول بھی معلول ہے۔

دوسری بات:
ابن داؤد صاحب! اس ابو حنیفہ والی پہلی روایت سے تو صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ ابو حنیفہؒ کا ایک مسئلہ غلط تھا اور انہوں نے اس پر مزید کی تفریع کر لی۔ ہم نے بھی یہ نہیں کہا کہ امام ابو حنیفہؒ کی فقہ کے معتبر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کا ہر مسئلہ صحیح ہوگا!
علامہ ذہبی جن کے قول کی ہم نے بات کی ہے، خود شافعی ہیں یعنی امام ابو حنیفہ کی مسائل میں تقلید نہیں کرتے لیکن ان کی فقہ کے مدح سرا ہیں۔
اور یہ بھی ہر گز ضروری نہیں ہے کہ ایک امام کے نزدیک جو مسئلہ کتاب و سنت کے خلاف ہو دوسرے کے نزدیک بھی وہ ویسا ہی ہو۔ اگر ایسا ہے تو امام شافعیؒ کا اپنا بیع عینہ کا مسئلہ صحیح حدیث کے خلاف ہے۔ پھر اب آپ کیا امام شافعیؒ پر بھی عدم فقہ کا الزام لگائیں گے؟

یہ بلکل درست بات ہے کہ اہل الرائے نے جو فقہ کا جو طریقہ واصول اختیار کیا ہے وہی غلط ہے ، جیسے عام و خاص، خبر واحد سے استدلال وغیرہ کے معاملہ میں، تو اس سے اخذ فقہ بھی غلط ہوتی ہے!
چوں کہ یہ "درست بات" آپ کی رائے ہے اس لیے اس کی ذرہ برابر بھی حیثیت نہیں ہے۔ معذرت!

اسی فورم پر دیکھا جا سکتا ہے کہ اہل الرائے پہلے شاذ کی غلط اصطلاحی تعریف کشید کرتے ہیں اور پھر اس پر خطا در خطا کرتے ہوئے، عجیب وغریب مؤقف اختیار کرتے چلے جاتیں ہیں! اور اپنی کشید کردہ تعریف کو غلط تسلیم کر لینے کے باوجود بھی اس بنیاد پر جو اٹکل لڑائی تھی اسے درست باور کروانے پر مصر ہیں!
یہ بھی آپ کی رائے ہے۔ کوئی حیثیت نہیں!

یہی نہیں، امام شافعی نے امام ابو حنیفہ اور اہل الرائے کی فہم و فقہ کو جادوگر ی سے تشبیہ دی ہے:
أَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ الْوَاسِطِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِدْرِيسَ الشَّافِعِيَّ، يَقُولُ: «مَا أُشَبِّهُ رَأْيَ أَبِي حَنِيفَةَ إِلا بِخَيْطِ سَحَّارَةٍ، تَمُدُّهُ هَكَذَا فَيَجِيءُ أَصْفَرَ، وَتَمُدُّهُ هَكَذَا فَيَجِيءُ أَخْضَرَ»
امام شافعی نے فرمایا: میں ابوحنیفہ کی رائے کو جادو گر کے دھاگے کے سوا کچھ نہیں سمجھتا، کہ جسے ایک طرف کھینچیں تو پیلا ہوجائے اوردوسری طرف کھینچیں تو ہرا ہوجائے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 130 جلد 01 آداب الشافعي ومناقبه - ابن أبي حاتم الرازي (المتوفى: 327هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 172 جلد 01 آداب الشافعي ومناقبه - ابن أبي حاتم الرازي (المتوفى: 327هـ) - مكتبة الخانجي، القاهرة

أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ مَرَّةً أُخْرَى، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ يَقُولُ: «مَا أُشَبِّهُ أَصْحَابَ الرَّأْيِ إِلا بِخَيْطِ سَحَّارَةٍ، تَمُدُّهُ هَكَذَا فَيَجِيءُ أَصْفَرَ، وَتَمُدُّهُ هَكَذَا فَيَجِيءُ أَخْضَرَ»
امام شافعی نے فرمایا: میں اصحاب الرئے (کی رائے) کو جادو گر کے دھاگے کے سوا کچھ نہیں سمجھتا، کہ جسے ایک طرف کھینچیں تو پیلا ہوجائے اوردوسری طرف کھینچیں تو ہرا ہوجائے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 130 جلد 01 آداب الشافعي ومناقبه - ابن أبي حاتم الرازي (المتوفى: 327هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 172 جلد 01 آداب الشافعي ومناقبه - ابن أبي حاتم الرازي (المتوفى: 327هـ) - مكتبة الخانجي، القاهرة

مزے کی بات یہ ہے کہ ابن داؤد صاحب ایسے ایسے چٹکلے چھوڑتے ہیں کہ ہنسی آتی ہے۔

ابن داؤد صاحب! کلام اور آراء کو جادوگری سے تشبیہ ان کے حسن اور عمدگی میں دی جاتی ہے۔
نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:
ان من البیان لسحرا
بخاری، 7۔138، ط: دار طوق النجاۃ
"بے شک بعض بیان جادو ہوتے ہیں۔"

حافظ ابن عبد البر فرماتے ہیں:
وفي هذا دليل على مدح البيان وفضل البلاغة والتعجب بما يسمع من فصاحة أهلها وفيه المجاز والاستعارة الحسنة لأن البيان ليس بسحر على الحقيقة وفيه الإفراط في المدح لأنه لا شيء في الإعجاب والأخذ بالقلوب يبلغ مبلغ السحر
التمہید، 5۔174، ط: وزارۃ عموم الاوقاف
"اور اس میں بیان کی مدح اور بلاغت کی فضیلت اور اہل فصاحت سے جو فصاحت سنی جاتی ہے اس پر تعجب پر دلیل ہے۔ اور اس میں مجاز اور خوب صورت استعارہ ہے اس لیے کہ بیان حقیقت میں سحر نہیں ہوتا۔ اور اس میں تعریف میں اضافہ ہے کیوں کہ دلوں کو کھینچنے اور تعجب خیز معلوم ہونے میں کوئی چیز سحر تک نہیں پہنچ سکتی۔"

تو ابن داؤد بھائی! کسی کلام کو سحر سے تشبیہ دینا تو اس کی عمدگی کی دلیل ہوتا ہے اور اس میں تعریف کی زیادتی ہوتی ہے۔ امام شافعیؒ نے بھی ابو حنیفہؒ اور اہل الرائے کے کلام کو ساحر کے دھاگے سے تشبیہ دی ہے جو اتنا تعجب خیز اور حیران کن حد تک عمدہ ہوتا ہے کہ ایک جانب سے کھینچو تو زرد ہوتا ہے اور دوسری جانب سے کھینچو تو سبز۔ اسی طرح کلام ابو حنیفہؒ اور کلام اصحاب الرائے اتنا عمدہ ہوتا ہے کہ اس کے ہر پہلو میں کوئی عمدگی چھپی ہوتی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ آپ فن بلاغت کے ساتھ ساتھ کلام عرب سے بھی انتہائی ناواقف ہیں۔ اللہ پاک آپ کے حال پر رحم فرمائے۔
جب آپ جیسے لوگ علمی ابحاث میں شرکت کریں گے تو قوم کا کیا حال ہوگا؟

جاری ہے۔۔۔۔۔۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اب
بہرحال شکر ہے کہ آپ کی یہ داستان امیر حمزہ نما تحریر ختم ہوئی. ان شاء اللہ آج سے عرض کرتا ہوں.
ابتسامہ
حد کر دی ہے آپ نے اشماریہ بھائی ۔۔۔۔۔۔۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اگر محسوس نہ کریں تو یہ تعبیر ۔۔۔ داستان امیر حمزہ ۔۔۔ ایک مخفی تبرا ہے اس سے اجتناب کریں
عمرو ہمیشہ عیار ہوتا ہے اور دو نمبر ہمیشہ جعلی ہوتا ہے اور نو دو گیارہ ہونا ، تین دو پانچ کرنا
مشکوک پس منظر کے حامل
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اگر محسوس نہ کریں تو یہ تعبیر ۔۔۔ داستان امیر حمزہ ۔۔۔ ایک مخفی تبرا ہے اس سے اجتناب کریں
عمرو ہمیشہ عیار ہوتا ہے اور دو نمبر ہمیشہ جعلی ہوتا ہے اور نو دو گیارہ ہونا ، تین دو پانچ کرنا
مشکوک پس منظر کے حامل
جزاکم اللہ خیرا.
میں نے در اصل تحریر کی طوالت اور مختلف الانواع چیزوں کے جمع کے اعتبار سے کہا تھا. آئیندہ ان شاء اللہ احتیاط رکھوں گا.
 
Top