• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

منکرینَ تاریخ۔ ایک فتنہ

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
پچھلے کُچھ عرصے سےایک نیا فتنہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ جب بھی کوئی تاریخی واقعہ اور خاص کر واقعہ کربلا زیرِ بحث آتا ہے تو یہ سوال کیا جاتا ہے کہ اس کی صحیح سند بیان کریں، صحیح سند سے ثابت کریں کہ اس واقعے میں یہ ہوا، صحیح سند سے ثابت کریں کہ اس واقعے میں کون کون ملوّث تھا وغیرہ وغیرہ۔
دراصل یہ فتنہ انکارِ تاریخ ہے ۔۔۔۔ اس بیماری میں ملوّث ہونے کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔ مثلاََ انکارِ تاریخ کر کے انکارِ حدیث کی طرف رغبت دلانا، ناصبی ہونا ، اپنے مرضی کے واقعات کو غلط یا پھر صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرنا ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔
اگر ہم علوم اسلامی کا مطالعہ کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ تاریخ کو ایک الگ علم کی حیثیت سے پذیرائی حاصل ہوئی اور حدیث کو ایک بالکل الگ علم کی حیثیت سے۔۔۔۔۔نبی اکرمﷺ کے ساتھ مناسبت کی وجہ سے حدیث کے علم میں سند کو بہت ذیادہ اہمیت ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نبی اکرمﷺ کے ساتھ کوئی جھوٹی بات منسوب نہ ہو جائے اور وہ دین کا حصہ نہ بنادی جائے ۔۔
جبکہ تاریخ کے حوالے سے ایسی کوئی قید نہیں ہے ۔ اگرچہ صحیح سند کو اہمیت حاصل ہے مگر اسلامی تاریخ کے ابتدائی ماہرین نے صرف اور صرف ان واقعات کو جو دین و نبی اکرمﷺکے ساتھ وابستہ ہیں کی چھان بین و تحقیق کی مگر بہت سارے ایسے واقعات کو بھی قبول کیا جن کی اسناد موجود نہیں تھیں۔
صرف وہی واقعات جن کی بنیاد پر ایمان و عقیدہ و حلال و حرام یا پھر بنیادی مذہبی امور کا تعین کیا جاتا ہے کو پرکھنے کیلیے سند کو نہایت ضروری قرار دیا گیا ۔ سلف صالحین نے بھی تاریخی واقعات کو بے سند یا ضعیف السند ہونے کی بنیاد پر رد کیا ہو (یہ بیماری صرف آج کل کے دور میں ہی سامنے آئی ہے)۔۔۔۔مثال کے طور پر سلف میں واقعہ کربلا کے حوالے سے صرف غلو پر مبنی روایات کے علاوہ کسی روایت کے بارے میں یہ نہیں پوچھا گیا کہ اس بات کی سند کیا ہے یا یہ روایت ضعیف ہے۔
اس کی ایک واضح مثال تاریخ ابن کثیر ہے۔۔ اس کتاب میں ابن کثیر نے واقعہ کربلا کے آغاز میں جلی حروف میں ہیڈنگ دی ہے کہ ۔۔۔۔۔"واقعہ کربلا کا بیان ایک شان کے آئمہ سے نہ کہ ایسا جیسا کہ شیعہ کہتے ہیں"۔ اور پھر انہوں نے وہی روایتیں بیان کی ہیں جن کو ابو مخنف لوط بن یحییٰ نے روایت کیا ہے۔ سند کی اہمیت سر آنکھوں پر اور لوط بن یحییٰ نے جتنی جھوٹی باتیں روایت کی ہیں وہ جھوٹی ہی ہیں مگر تاریخی واقعات کو یکسر سند کے حوالے سے ٹھکرا دینا کہیں بھی کسی بھی جگہ سلف سے ثابت نہیں ہے۔۔۔ میرا ان لوگوں سے جو اس منہج پر چل پڑے ہیں سوال ہے کہ کسی سلف کا منہج اس بارے میں واضح کریں۔
اس کے علاوہ میں مزید دو سوال آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔۔
1۔ صحیح سند سے ثابت کریں کہ "اصحاب الفیل" یا ابرہہ نے مکہ میں کعبہ پر حملہ کیا تھا ۔ اگر آپ ثابت نہیں کرسکتے تو پھر ان تمام مفسرین کو غلط کہیں جنہوں نے یہ واقعہ بیان کیا ہے اور یہ متصل السند بھی نہیں ہے۔ پھر اس واقعے کو بھی (نعوذ باللہ) ایک افسانہ ہی مانا جائے اور غامدی صاحب کی پیروی کی جائے اور ان کو نقطہ نظر اس کے حوالے سے صحیح مانا جائے(حالانکہ یہی لوگ ہیں جنہوں نے غامدیت کا لفظ ہی بنا دیا ہے ان لوگوں کے لیے جو احادیث کا انکار کرتے ہیں۔ اب میرا مشورہ یہ ہے کہ خود انہی لوگوں کے لیے ایک اور لفظ "منکرِ تاریخ" کے علاوہ "منی غامدی" بھی استعمال کرنا چاہئئے کیونکہ تاریخ کے انکار کے بعد بتدریج وہ حدیث کا مکمل انکار کرنا بھی شروع کر ہی دیں گے)۔
2۔ ایک اور واقعہ جو نہایت زور و شور سے اہلِ حدیث و سلفی منہج کی کتب میں بیان کیا جاتا ہے کہ مامون و معتصم کے دور میں معتزلہ کو مضبوط کرنے کے لیے علماء پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے اور بہت سارے علماء پر کورے بھی برسائے گئے وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔ کیا یہ صحیح سند سے ثابت ہے؟
اگر نہیں تو پھر کیوں یہ واقعہ بے سند ہی کتابوں میں بیان کیا جاتا ہے اور پھر آسمان اور زمین کے قلابے ملائے جاتے ہیں۔
براہ مہربانی صرف سنجیدہ حضرات ہی جواب دیں۔ آپ کی مہربانی ہو گی۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
کیا ہی بہتر هو اگر آپ اپنا موقف وضاحت سے پیش کریں تاکہ آپ کا پنا موقف هر هرمعاملہ میں کیا هے پتہ چل سکے ۔ تاریخ کے حوالے سے واقعہ کربلا کی اصلیت پر اور دیگر متعلق موضوعات پر فورم پر بہت زیادہ لکها هوا مواد موجود هے آپ ان تمام کی سٹڈی کریں ۔
اسلامی کسی بهی معاملہ میں سنجیدہ جواب ہی دیا جاتا رها هے اس فورم پر چاهے کسی کو اتفاق هو یا نا هو ۔ پس آپ اپنا موقف واضح کر دیں کسی بهی معاملہ پر آپکی اپنی ذاتی رائے اور حتمی موقف کیا هے تاکہ سنجیدہ جواب دیا جاسکے ۔
اہل حدیث کا موقف واضح هے اور دوٹوک هے ، بہرحال ان امور پر اہل حدیث کی رائےکسی کے لیئے اجباری نہیں ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
پچھلے کُچھ عرصے سےایک نیا فتنہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ جب بھی کوئی تاریخی واقعہ اور خاص کر واقعہ کربلا زیرِ بحث آتا ہے تو یہ سوال کیا جاتا ہے کہ اس کی صحیح سند بیان کریں، صحیح سند سے ثابت کریں کہ اس واقعے میں یہ ہوا، صحیح سند سے ثابت کریں کہ اس واقعے میں کون کون ملوّث تھا وغیرہ وغیرہ۔
دراصل یہ فتنہ انکارِ تاریخ ہے ۔۔۔۔ اس بیماری میں ملوّث ہونے کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔ مثلاََ انکارِ تاریخ کر کے انکارِ حدیث کی طرف رغبت دلانا، ناصبی ہونا ، اپنے مرضی کے واقعات کو غلط یا پھر صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرنا ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔
اگر ہم علوم اسلامی کا مطالعہ کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ تاریخ کو ایک الگ علم کی حیثیت سے پذیرائی حاصل ہوئی اور حدیث کو ایک بالکل الگ علم کی حیثیت سے۔۔۔۔۔نبی اکرمﷺ کے ساتھ مناسبت کی وجہ سے حدیث کے علم میں سند کو بہت ذیادہ اہمیت ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نبی اکرمﷺ کے ساتھ کوئی جھوٹی بات منسوب نہ ہو جائے اور وہ دین کا حصہ نہ بنادی جائے ۔۔
جبکہ تاریخ کے حوالے سے ایسی کوئی قید نہیں ہے ۔ اگرچہ صحیح سند کو اہمیت حاصل ہے مگر اسلامی تاریخ کے ابتدائی ماہرین نے صرف اور صرف ان واقعات کو جو دین و نبی اکرمﷺکے ساتھ وابستہ ہیں کی چھان بین و تحقیق کی مگر بہت سارے ایسے واقعات کو بھی قبول کیا جن کی اسناد موجود نہیں تھیں۔
صرف وہی واقعات جن کی بنیاد پر ایمان و عقیدہ و حلال و حرام یا پھر بنیادی مذہبی امور کا تعین کیا جاتا ہے کو پرکھنے کیلیے سند کو نہایت ضروری قرار دیا گیا ۔ سلف صالحین نے بھی تاریخی واقعات کو بے سند یا ضعیف السند ہونے کی بنیاد پر رد کیا ہو (یہ بیماری صرف آج کل کے دور میں ہی سامنے آئی ہے)۔۔۔۔مثال کے طور پر سلف میں واقعہ کربلا کے حوالے سے صرف غلو پر مبنی روایات کے علاوہ کسی روایت کے بارے میں یہ نہیں پوچھا گیا کہ اس بات کی سند کیا ہے یا یہ روایت ضعیف ہے۔
اس کی ایک واضح مثال تاریخ ابن کثیر ہے۔۔ اس کتاب میں ابن کثیر نے واقعہ کربلا کے آغاز میں جلی حروف میں ہیڈنگ دی ہے کہ ۔۔۔۔۔"واقعہ کربلا کا بیان ایک شان کے آئمہ سے نہ کہ ایسا جیسا کہ شیعہ کہتے ہیں"۔ اور پھر انہوں نے وہی روایتیں بیان کی ہیں جن کو ابو مخنف لوط بن یحییٰ نے روایت کیا ہے۔ سند کی اہمیت سر آنکھوں پر اور لوط بن یحییٰ نے جتنی جھوٹی باتیں روایت کی ہیں وہ جھوٹی ہی ہیں مگر تاریخی واقعات کو یکسر سند کے حوالے سے ٹھکرا دینا کہیں بھی کسی بھی جگہ سلف سے ثابت نہیں ہے۔۔۔ میرا ان لوگوں سے جو اس منہج پر چل پڑے ہیں سوال ہے کہ کسی سلف کا منہج اس بارے میں واضح کریں۔
اس کے علاوہ میں مزید دو سوال آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔۔
1۔ صحیح سند سے ثابت کریں کہ "اصحاب الفیل" یا ابرہہ نے مکہ میں کعبہ پر حملہ کیا تھا ۔ اگر آپ ثابت نہیں کرسکتے تو پھر ان تمام مفسرین کو غلط کہیں جنہوں نے یہ واقعہ بیان کیا ہے اور یہ متصل السند بھی نہیں ہے۔ پھر اس واقعے کو بھی (نعوذ باللہ) ایک افسانہ ہی مانا جائے اور غامدی صاحب کی پیروی کی جائے اور ان کو نقطہ نظر اس کے حوالے سے صحیح مانا جائے(حالانکہ یہی لوگ ہیں جنہوں نے غامدیت کا لفظ ہی بنا دیا ہے ان لوگوں کے لیے جو احادیث کا انکار کرتے ہیں۔ اب میرا مشورہ یہ ہے کہ خود انہی لوگوں کے لیے ایک اور لفظ "منکرِ تاریخ" کے علاوہ "منی غامدی" بھی استعمال کرنا چاہئئے کیونکہ تاریخ کے انکار کے بعد بتدریج وہ حدیث کا مکمل انکار کرنا بھی شروع کر ہی دیں گے)۔
2۔ ایک اور واقعہ جو نہایت زور و شور سے اہلِ حدیث و سلفی منہج کی کتب میں بیان کیا جاتا ہے کہ مامون و معتصم کے دور میں معتزلہ کو مضبوط کرنے کے لیے علماء پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے اور بہت سارے علماء پر کورے بھی برسائے گئے وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔ کیا یہ صحیح سند سے ثابت ہے؟
اگر نہیں تو پھر کیوں یہ واقعہ بے سند ہی کتابوں میں بیان کیا جاتا ہے اور پھر آسمان اور زمین کے قلابے ملائے جاتے ہیں۔
براہ مہربانی صرف سنجیدہ حضرات ہی جواب دیں۔ آپ کی مہربانی ہو گی۔
آپ کی بات بنیادی طور پر قابل غور ہے. لیکن مزید وضاحت کی ضرورت ہے.
کیا ہم ہر تاریخی روایت کو من و عن قبول کر لیں؟
 

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
آپ کی بات بنیادی طور پر قابل غور ہے. لیکن مزید وضاحت کی ضرورت ہے.
کیا ہم ہر تاریخی روایت کو من و عن قبول کر لیں؟
میں نے ایک سوال کر دیا ہے اور ساتھ دو مثالیں بھی رکھ دی ہیں۔۔۔اب انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ آپ تاریخ پر اصول علم تاریخ کے مطابق یقین کریں(جیسے حدیث کی پرکھ اصول حدیث پر کی جاتی ہے) ..یا پھر ان دونوں واقعات کو غامدی صاحب کی طرح رد کردیں۔۔۔میں نے صرف دو مثالیں چن کر دی ہیں۔۔اگر میں مزید حوالہ جات بھی پیش کروں تو بہت کچھ بالکل ہی غائب کرنا پڑ جائے گا اور تاریخ کی قابل اعتبار روایات کو بھی اصول حدیث پر پرکھ کر بہت ساروں کو غامدی بننا پڑے گا۔۔
 

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
کیا ہی بہتر هو اگر آپ اپنا موقف وضاحت سے پیش کریں تاکہ آپ کا پنا موقف هر هرمعاملہ میں کیا هے پتہ چل سکے ۔ تاریخ کے حوالے سے واقعہ کربلا کی اصلیت پر اور دیگر متعلق موضوعات پر فورم پر بہت زیادہ لکها هوا مواد موجود هے آپ ان تمام کی سٹڈی کریں ۔
اسلامی کسی بهی معاملہ میں سنجیدہ جواب ہی دیا جاتا رها هے اس فورم پر چاهے کسی کو اتفاق هو یا نا هو ۔ پس آپ اپنا موقف واضح کر دیں کسی بهی معاملہ پر آپکی اپنی ذاتی رائے اور حتمی موقف کیا هے تاکہ سنجیدہ جواب دیا جاسکے ۔
اہل حدیث کا موقف واضح هے اور دوٹوک هے ، بہرحال ان امور پر اہل حدیث کی رائےکسی کے لیئے اجباری نہیں ۔
میرا مواف واضح ہے۔۔۔حدیٹ کا چند خاص اصولوں پر پرکھا جاتا ہے۔ اں اصولوں کا احاطہ علم حدیث کرتا ہے ۔۔بالکل اسی طرح تاریخی روایات کو جن ا صو لوں کی بنیاد پر دیکھا جاتا ہے وہ علم تاریخ کور کرتا ہے ۔حدیث کو اصول تاریخ پر پرکھنا حماقت ہے ویسے ہی تاریخ کو اصول حدیث پر پرکھنا حماقت ہے۔۔۔فزکس کے تجربات کیمسٹری کے اصولوں پر نہیں کیے جا سکتے نہ کیمسٹری کے تجربات فزکس کے اصولوں پر۔۔۔۔
میں نے دو مثالیں دی ہیں ان کے جوابات لازمی دیں۔۔یہ دو تاریخی واقعات ہیں جو تاریخ کی ہر کتاب کا حصہ ہیں ۔۔ان کو تو ذرا صحیح سند سے ثابت کریں۔۔۔سینکڑوں تاریخی روایات ایسی ہیں ۔۔جن کس کو آپ رد کر دیں گے تو آپ غامدی صاحب کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آئیں گے۔۔بے شمار واقعات ہیں۔۔
نبی پاک کی کس کس بیٹی کو ابو لہب کے بیٹوں نے طلاق دی صحیح سند سے ثابت کریں۔۔
حضرت عمر کے اسلام لانے کا واقعہ صحیح سند سے ثابت کریں۔۔
حسین بن منصور حلاج نے انا الحق کا نعرہ لگایا صحیح سند سے ثابت کریں
ہلاکو نے بغداد مین قتل عام کیا صحیح سند سے ثابت کریں
اندلس میں عیسائیوں نے مسلمانوں کا قتل عام کیا صحیح سند سے ثابت کریں وغیرہ وغیرہ۔۔
 

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
کسطرح انصاف طلب کیا جاسکتا هے ! جب تک مکمل وضاحت نا پیش کی جائے .
میرے بھائی صرف اس بات کو صحیح سند سے ثابت کردیں کہ مامون. ے احمد بن حنبل اور دوسرے علماء پر ظلم و جبر کیا تھا عقیدہ خلق قرآن کے حوالے سے۔۔۔۔کوئی صحیح سند ہے آپ کے پاس تو ضرور پیش کریں۔۔۔پھر آگے بات کرتے ہی ۔۔۔باقی میں نے اپنا مزید موقف اس سے پہلے کے ایک جواب میں دے دیا ہے وہ پڑھ لیں۔۔۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
ہمارے لیئے کسی چیز کو لازمی قرار دینے کا اختیار هم نے آپ کو کب دے دیا؟
هاں هم نے سنجیدگی سے وضاحت ضرور طلب کی .
یہ کیمسٹری اور فزکس کی مثالیں نا دو ، اگر خود سنجیدہ هو تو وضاحتیں پیش کرو .
محترم اشماریہ بهائی کے سوال پر سنجیدہ توجہ کی ضرورت هے .
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
میرا مواف واضح ہے۔۔۔حدیٹ کا چند خاص اصولوں پر پرکھا جاتا ہے۔ اں اصولوں کا احاطہ علم حدیث کرتا ہے ۔۔بالکل اسی طرح تاریخی روایات کو جن ا صو لوں کی بنیاد پر دیکھا جاتا ہے وہ علم تاریخ کور کرتا ہے ۔حدیث کو اصول تاریخ پر پرکھنا حماقت ہے ویسے ہی تاریخ کو اصول حدیث پر پرکھنا حماقت ہے۔۔۔فزکس کے تجربات کیمسٹری کے اصولوں پر نہیں کیے جا سکتے نہ کیمسٹری کے تجربات فزکس کے اصولوں پر۔۔۔۔
میں نے دو مثالیں دی ہیں ان کے جوابات لازمی دیں۔۔یہ دو تاریخی واقعات ہیں جو تاریخ کی ہر کتاب کا حصہ ہیں ۔۔ان کو تو ذرا صحیح سند سے ثابت کریں۔۔۔سینکڑوں تاریخی روایات ایسی ہیں ۔۔جن کس کو آپ رد کر دیں گے تو آپ غامدی صاحب کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آئیں گے۔۔بے شمار واقعات ہیں۔۔
نبی پاک کی کس کس بیٹی کو ابو لہب کے بیٹوں نے طلاق دی صحیح سند سے ثابت کریں۔۔
حضرت عمر کے اسلام لانے کا واقعہ صحیح سند سے ثابت کریں۔۔
حسین بن منصور حلاج نے انا الحق کا نعرہ لگایا صحیح سند سے ثابت کریں
ہلاکو نے بغداد مین قتل عام کیا صحیح سند سے ثابت کریں
اندلس میں عیسائیوں نے مسلمانوں کا قتل عام کیا صحیح سند سے ثابت کریں وغیرہ وغیرہ۔۔
آپ سے پہلے یہ حماقت (بقول آپ کے) کئی محدثین کر چکے ہیں.
جس میں کسی صحابہ وغیرہ کی توہین ہو اسکو بھی آپ صحیح مان لیں؟؟؟؟ فیا للعجب؟؟؟؟
آپ نے گویا علم اسناد و رجال کو احادیث کے ساتھ خاص کر دیا. کیا آپ مجھے یہ بتانا پسند کریں گے کہ کسی بات کو پرکھنے کا کیا اصول ہے؟؟؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
میں نے ایک سوال کر دیا ہے اور ساتھ دو مثالیں بھی رکھ دی ہیں۔۔۔اب انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ آپ تاریخ پر اصول علم تاریخ کے مطابق یقین کریں(جیسے حدیث کی پرکھ اصول حدیث پر کی جاتی ہے) ..یا پھر ان دونوں واقعات کو غامدی صاحب کی طرح رد کردیں۔۔۔میں نے صرف دو مثالیں چن کر دی ہیں۔۔اگر میں مزید حوالہ جات بھی پیش کروں تو بہت کچھ بالکل ہی غائب کرنا پڑ جائے گا اور تاریخ کی قابل اعتبار روایات کو بھی اصول حدیث پر پرکھ کر بہت ساروں کو غامدی بننا پڑے گا۔۔
محترم بھائی! سوال یہ ہے کہ اصول علم تاریخ کیا ہیں؟ کہاں موجود ہیں؟ کس قدر مقبول ہیں ائمہ میں؟
اتنی بات تو سمجھ آتی ہے کہ علم حدیث کے اصولوں سے علم تاریخ کو پرکھنا نہیں چاہیے کیوں کہ عین ممکن ہے کہ ایک شخص حدیث میں تو ضعیف ہو لیکن تاریخ میں قوی ہو۔ بالکل اسی طرح جیسے حفص اور عاصم قراءۃ کے امام ہیں لیکن حدیث میں ان پر جرح ہے۔ لکل فن رجال۔
لیکن تاریخ کے رد و قبول کے لیے اصول ہیں کہاں؟
 
Top