• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

منکرین حدیث سے 50 سوالات

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
قرآن اور حدیث میں فرق

یہ بات تو واضح ہو گئی کہ قرآن کی طرح سنت و حدیث ﷺ بھی منزل من اﷲ اور وحی الٰہی ہے۔ فرق صرف اس قدر ہے کہ قرآنِ کریم کا مضمون بھی ربانی ہے اور الفاظ بھی ربانی ہیں۔ جبرئیل امین الفاظِ قرآنی رسول اللہ ﷺ پر نازل کرتے تھے۔

جبکہ حدیث نبوی ﷺ کا مضمون تو ربانی ہے مگر الفاظ ربانی نہیں۔ مقامِ تعجب ہے کہ منکرین حدیث جناب محمد رسول اللہ ﷺ کو رسول اللہ تو مانتے ہیں مگر آپ ﷺکے ارشادات کو وحی الٰہی نہیں مانتے بلکہ محمد بن عبداللہ کی ذاتی بات مانتے ہیں۔ یہ لوگ یا تو دِل سے آپ ﷺ کو رسول نہیں مانتے یا پھر رسول کے معنی نہیں جانتے۔ رسول کے معنی ہیں: پیغام پہنچانے والا۔ پیغام پہنچانے والا دوسرے کا پیغام پہنچاتا ہے، اپنی نہیں سناتا۔ اگروہ دوسرے کا پیغام پہنچانے کے بجائے اپنی بات شروع کر دیتا ہے تو وہ ’’امین‘‘ نہیں، خائن ہے۔ (معاذ اللہ)۔ رسول کی پہلی اور آخری صفت یہ ہے کہ وہ ’’امین‘‘ ہو۔ آپ ﷺ مسند رسالت پر فائز ہونے سے قبل ہی ’’امین‘‘ مشہور تھے۔

’’رسول‘‘ اس کو کہتے ہیں جو اپنی بات نہ کہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا پیغام حرف بحرف پہنچا دے۔ جو لوگ محمد رسول اللہ ﷺ کے اِرشادات کو نبی ﷺ کی ذاتی بات سمجھ کر رَدّ کر دیتے ہیں وہ صرف منکرین حدیث ہی نہیں درحقیقت وہ منکر رسالت ہیں۔ اگر رسول اللہ ﷺ کی رسالت کے سچے دل سے قائل ہوتے تو آپ ﷺ کی احادیث آیاتِ قرآنی کی طرح سر آنکھوں پر رکھتے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
محمد بن عبداللہ یا محمد رسول اللہ ﷺ

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اپنی تو وہ کہتا ہے جس کا تعارف ذاتی ہوتا ہے۔ وہ اپنے نام سے متعارف ہوتا ہے، نبی کریم ﷺ کے سوا، سب اپنے باپ کے نام سے پہچانے اور پکارے جاتے ہیں جیسے عثمان بن عفان، عمر بن خطاب، ابوبکر بن ابی قحافہ وغیرہ ] سب اپنے اپنے والد کے نام سے پکارے جاتے ہیں مگر ایک محمد رسول اللہ ﷺ ہیں جو اپنے باپ کے نام سے نہیں بلکہ محمد رسول اللہ ﷺ سے متعارف ہوئے۔ کوئی کافر لاکھ محمد بن عبداللہ کہے، وہ مسلمان نہیں ہو گا۔ لیکن دل سے لا الہ الا اللہ کے ساتھ محمد رسول اللہ ﷺ کہے گا تو مسلمان ہو جائے گا۔

قرآن ہو، اذان ہو، تکبیر ہو، تشہد ہو، کلمہ ہو، ہر جگہ محمد رسول اللہ ﷺ ہیں محمد بن عبداللہ کسی جگہ پر بھی وارد نہیں۔ تو محمد بن عبداللہ، محمد بن عبداللہ ہو کر بھی محمد بن عبداللہ نہ کہلائے بلکہ محمد رسول اللہ ﷺ ہو گئے۔ اب آپ کی بات محمد بن عبداللہ کی بات نہ ہوئی، اب تو آپ کی ہر بات اللہ کی بات ہوئی۔ منصب رسالت کا مطلب ہی یہ ہے کہ آپ ﷺ کا ہر بول جو دین کے احکام سے متعلق ہو وہ اللہ کا بول ہے۔ بس زبان آپ ﷺ کی ہے۔

وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی (النجم:۳،۴)
آپﷺ اپنی خواہش سے نہیں بولتے بلکہ آپ کا ارشاد وحی ہے

تو حقیقت یہ ہے کہ دین کے دائرے کے اندر نبی کا ہر ارشاد اللہ کا ارشاد ہے اور منزل من اللہ ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حکم رسول کو حکم الٰہی مانتے ہیں

اصحابِ رسول آپ ﷺ کے اوامر و نواہی کو اللہ کا اَمر و نہی مانتے تھے۔ سیدنا سعد بن معاذ t فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ہر فرمان کو ہمیشہ اللہ کا اِرشاد سمجھا۔ علقمہ روایت کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ:

’’ان عورتوں پر اللہ نے لعنت کی ہے جو جسم کو گوندتی یا گوندواتی ہیں یا خوبصورتی کے لئے بال چنتی یا چنواتی ہیں، اور دانتوں کو باریک کرتی ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ صورت میں تغیر و تبدل کرنا چاہتی ہیں‘‘۔

ایک عورت ان کے پاس آئی اور کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ نے اس اس قسم کی عورتوں پر لعنت کی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جن پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی ہے، میں ان پر کیوں لعنت نہ کروں اور وہ چیز کتاب اللہ میں بھی موجود ہے۔ اس نے کہا کہ میں نے سارا قرآن پڑھا ہے، اس میں تو یہ بات مجھے نہیں ملی جو آپ فرماتے ہیں۔ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:اگر تو قرآن کو سمجھ کر پڑھتی تو یہ بات ضرور اس میں پالیتی۔ کیا تو نے یہ آیت نہیں پڑھی:

وَمَا اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہ‘ وَ مَا نَھَاکُمْ عَنْہ‘ فَانْتَھُوْا
جو کچھ تمہیں رسول دیں اسے لے لو اور جس سے تمہیں منع کریں، اس سے رُک جاؤ۔

اس عورت نے کہا: ہاں یہ تو پڑھا ہے۔ پھر سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: یقینا رسول اللہ ﷺ نے ان افعال کی ممانعت فرمائی ہے (صحیح بخاری کتاب اللباس)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم احکامِ شریعت کو قرآنی حکم کی تعمیل میں تسلیم کرتے، گویا اس کو کتاب اللہ ہی سمجھتے بلکہ یوں کہئے کہ انہوں نے ہر حدیث کو قرآن کی طرح تسلیم کیا، اس لئے کہ حدیث کے ماننے کا حکم قرآن مجید میں ہے۔ چنانچہ وہ خاتون سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا جواب سن کر مطمئن ہو گئی۔ (صحیح مسلم) قرونِ اولیٰ میں مسلمانوں میں ایسا ہی طرز عمل پایا جاتا تھا۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
حدیث کتاب اللہ ہے

سیدنا ابوہریر رضی اللہ عنہ اور سیدنا زید بن خالد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ:

’’ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اسی اثناء میں ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا کہ میں آپ ﷺ کو اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ آپ ہمارے درمیان کتاب اللہ سے فیصلہ کر دیجئے۔ پھر فریق ثانی کھڑا ہوا … وہ زیادہ سمجھ دار تھا … اس نے بھی کہا: اقض بیننا بکتاب اﷲ اور پھر فیصلہ طلب واقعہ یوں سنایا کہ میرا لڑکا اس شخص کے ہاں مزدور تھا، اس نے اس کی بیوی سے زنا کیا، میں نے اس کی طرف سے سو بکریاں اور ایک خادم بطور فدیہ ادا کیا۔ پھر میں نے اہل علم سے دریافت کیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ میرے لڑکے کو سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی کی سزا دی جائے گی اور اس کی بیوی کو سنگسار کیا جائے گا۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں ضرور تمہارا فیصلہ کتاب اللہ سے کروں گا۔ سو بکریاں اور خادم تمہیں واپس کیا جائے اور تمہارے بیٹے کو سو کوڑے مارے جائیں گے اور ایک سال کیلئے جلاوطن کیا جائے‘‘۔ (صحیح بخاری کتاب المحاربین)

مذکورہ بالا حدیث سے ثابت ہوا کہ احادیث کو بھی کتاب اللہ کہا جاتا ہے کیونکہ جو سزا یہاں بیان کی گئی ہے، وہ حدیث ہی میں ہے، قرآن میں کہیں نہیں۔ صرف قرآن قرآن کا دعویٰ کرنے والوں کو اتنی سیدھی سی بات سمجھ میں نہیں آتی کہ قرآن اور حدیث دونوں ہی وحی ہیں، دونوں زبانِ نبوت سے ادا ہوتے ہیں، اِن میں سے بعض کو ہم قرآن قرار دیتے ہیں اور بعض کو حدیث نبوی ﷺ۔ کیونکہ ہمیں ہمارے نبی ﷺ نے بتایا کہ فلاں الفاظ بطور قرآن ہیں اور فلاں بطور حدیث۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اگر انہیں نبی کریم ﷺ کے فرمان پر یقین نہیں ہے تو پھر بتائیے، قرآن بھی کس کے کہنے سے ’’قرآن‘‘ بنتا ہے؟ فرمانِ نبوی نے ہی بتلایا کہ یہ قرآن ہے۔ ہم سے نہ اللہ نے یہ فرمایا، نہ جبرئیل امین نے کہا کہ یہ قرآن ہے۔ کس قدر گمراہی کی طرف جا رہے ہیں یہ لوگ جو آج قرآن کی آڑ لے کر حدیث کے انکار پر تلے ہوئے ہیں جبکہ احادیث ہی نے انہیں قرآن سے روشناس کیا۔

اگر حدیث سے انکار ہے تو قرآن کا ثبوت کیسے ممکن ہے؟ اگر حدیث کا اعتبار نہیں تو قرآن کا ہم کو کس نے بتایا کہ یہ قرآن ہے؟۔ حدیث ہی نے ہمیں بتلایا کہ یہ قرآن ہے۔ منکرین کس منہ سے قرآن کو ’’کتاب اللہ‘‘ کہتے ہیں؟ قرآن تو صرف انہی بانصیب کے لئے ’’کتاب اللہ‘‘ ہے جن کا حدیث رسول ﷺ پر ایمان ہے اور جن کے لئے حدیث حجت ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
تدوین حدیث

منکرین حدیث میں سے کچھ لوگ تو ایسے ہیں جو احادیث کو اس شرط پر قبول کرتے ہیں کہ وہ انسانی عقل کے مطابق ہوں جبکہ بعض منکرین حدیث ایسے ہیں جو احادیث کی تدوین پر عدم اعتماد کو بنیاد بنا کر کلی طور پر احادیث نبوی کو قبول ہی نہیں کرتے۔ جبکہ قرآن مجید جو حدیث کی بنسبت اعلیٰ معیار پر محفوظ ہے، وہ ان دونوں کی اسنادی تحقیق میں بنیادی فرق ملحوظ رکھے بغیر دونوں کیلئے یکساں اسلوب اور مساوی درجہ حفاظت کا تقاضا کرتے ہیں۔ حالانکہ قرآن کے کلام الٰہی ہونے کی حیثیت سے الفاظ کی بھی محفوظ رہے اور حدیث مفہومِ کلامِ الٰہی ہونے کے ناطے مفہوم کی حفاظت کے اصولوں پر روایت و تدوین ہوتی ہے۔

اسی طرح منکرین حدیث موجودہ حالات پر قیاس کرتے ہوئے صحیح تجزیہ کئے بغیر برسوں قبل کے حالات کو اپنے دور کے اندازوں کے مطابق پرکھنا چاہتے ہیں۔ انسان کی محدود عقل و فراست میں یہ صلاحیت بڑی نادر ہے کہ وہ حالت کے معروضی فرق کو ملحوظ رکھ کر ہر دور کے تقاضوں اور اس کے مسلمات کو سمجھ سکے۔ جس طرح ہمارے مغرب گزیدہ مفکرین نے اسلام کے اسلوبِ استدلال کو ملحوظ نہ رکھ کر اور دونوں کے معروضی حالات کا فرق نہ کر کے جدید علم الکلام کو اپنایا اور اس کو ترقی یافتہ قرار دیا جو کہ داراصل ایمان ویقین کی کمزوری کی علامت کا مظہر ہے۔ اسی طرح دورِ نبوت میں حفاظت کے تقاضوں کو آج کے دور کے حفاظت کے تقاضوں سے پرکھنا بھی ایسی ہی بڑی غلطی ہے۔ موجودہ دور میں اگر کتابت کو حفاظت کا معتمد ذریعہ مانا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیشہ سے کتابت ہی معتمد اور مستند ترین ذریعہ رہا ہو بلکہ شاید مستقبل میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت کتاب و تدوین بھی اپنی موجودہ حیثیت برقرار نہ رکھ سکے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اسلام کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے۔ نبی آخرالزمان ﷺ پر نبوت کا سلسلہ ختم ہوا تو ضروری تھا کہ قیامت تک ایک مکمل دین انسانوں کے لئے محفوظ ترین صورت میں موجود ہو۔ اسی طرح اسلام کے احکام اپنے پیروکاروں کے لئے ہمیشہ ایک جیسے رہے ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی حکم پہلے مخاطبین اوّل صحابہ کرام yکے لئے تو دین کا درجہ رکھتی ہو اور بعد میں آنے والوں کے لئے اس کی کوئی دینی حیثیت نہ ہو۔ احادیث نبویہ کی تعمیل صحابہ کرام پر فرض تھی اور وہ اپنے نبی ﷺ کے احکامات ماننے کے پابند تھے ضروری ہے کہ ان پر لاگو شرعی احکام آگے بھی اسی حیثیت سے منتقل ہوں کیونکہ اسلام تب ہی اللہ کا بھیجا ہوا دائمی آخری دین ہو سکتا ہے جب وہ قیامت تک اپنی اصل شکل اور یکساں حیثیت میں سب کے لئے موجود ہو۔ دین کی حفاظت کی یہ ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے ذریعے اس طرح سادہ انداز میں پوری کرائی ہے جو ہر دور میں حفاظت کا آسان اور مروجہ انداز رہا ہے اور اس پر عمل کرنا، اس کے تقاضے بجالانا انسانوں کے لئے بآسانی ممکن رہا ہے۔ چنانچہ ابتداء میں قرآن و حدیث کو بحفاظت آگے منتقل کرنے کے لئے جو طریقہ اختیار کیا گیا وہ بنیادی طور پر حافظہ پر اعتماد کا طریقہ ہے جس کو بعد میں کتابت اور دیگر ذرائع سے بھی تقویت دی گئی ہے۔

منکرین حدیث نے یہ فرض کر لیا ہے کہ قرآن تو گویا ہمیشہ سے تحریری شکل میں محفوظ چلا آرہا ہے، جبکہ حدیث کی تدوین میں زیادہ اعتماد صرف حافظہ پر رہا ہے، اس لئے احادیث ناقابل اعتماد ہیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
کیا مکتوبہ چیز ہی قابل اعتماد ہے…؟

یہ بات کہی جاتی ہے کہ چونکہ حدیث لکھی ہوئی نہ تھی، عہد رسالت میں صرف حافظہ کی مدد سے ہی اس کو محفوظ رکھا جاتا تھا یا حدیث عہد رسالت یا عہد خلافت میں لکھوائی نہیں گئی تھی اس لئے حجت نہیں (حالانکہ احادیث عہد رسالت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں بھی لکھی گئی تھیں)۔ قرآنِ مجید کو جس وجہ سے لکھوایا گیا تھا وہ یہ تھی کہ اس کے الفاظ و معانی دونوں ہی من جانب اللہ تھے اس کے الفاظ کی ترتیب ہی نہیں اس کی آیتوں، سورتوں کی ترتیب بھی اللہ کی جانب سے تھی۔ اس کے الفاظ کو دوسرے الفاظ سے بدلنا بھی جائز نہ تھا۔ تاکہ جس طرح نازل ہوا لوگ انہی الفاظ و انداز میں اسی ترتیب سے اس کو محفوظ کریں۔ سنت کی نوعیت اس سے مختلف تھی اس کے الفاظ قرآن کے الفاظ کی طرح نازل نہیں ہوئے تھے بلکہ رسول اللہ ﷺ نے اس کو اپنے قول و فعل سے ادا کیا تھا۔ پھر اس کا بڑا حصہ ایسا تھا جسے رسول اللہ ﷺ کے شاگردوں نے اپنے الفاظ میں بیان کیا تھا۔ مثلاً رسول اللہ ﷺ کے اخلاق ایسے تھے، زندگی ایسی تھی، فلاں موقع پر رسول اللہ ﷺ نے فلاں کام کیا، رسول اللہ ﷺ کے اقوال و افعال نقل کرنے میں کوئی پابندی نہ تھی کہ انہیں سامعین لفظ بلفظ نقل کریں بلکہ سامعین کے لئے یہ جائز تھا کہ وہ آپ ﷺ کے قول و فعل کو معنی و مفہوم بدلے بغیر اسے اپنے الفاظ میں بیان کر دیں۔ رسول اللہ ﷺ کے الفاظ کی تلاوت مقصود نہ تھی بلکہ اس تعلیم کی پیروی مقصود تھی جو آپ ﷺ نے دی تھی۔ احادیث میں قرآن کی آیتوں اور سورتوں کی طرح ترتیب محفوظ رکھنا بھی ضروری نہ تھا کہ فلاں حدیث پہلے ہو اور فلاں بعد میں۔ اس بنا پر احادیث کے معاملے میں یہ کافی تھا کہ لوگ انہیں یاد رکھیں اور دیانت کے ساتھ انہیں دیگر لوگوں تک پہنچائیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ کسی چیز کے حجت ہونے کے لئے اس کا لکھا ہوا ہونا ضروری نہیں ہے۔ اعتماد کی اصل بنیاد اس شخص یا اشخاص کا بھروسہ کے قابل ہونا ہے، جس کے ذریعہ بات دوسروں تک پہنچے خواہ مکتوب ہو یا غیر مکتوب اللہ تعالیٰ نے بھی پورا انحصار اس بات پر کیا کہ جو لوگ نبی کو سچا مانیں گے وہ نبی کے اعتماد پر قرآن کو بھی کلام الٰہی مان لیں گے۔

نبی کریم ﷺ کی جتنی تبلیغ و اشاعت تھی زبانی تھی۔ آپ ﷺ کے صحابہ رضی اللہ عنہم مختلف علاقوں میں جا کر تبلیغ کرتے۔ وہ قرآن کی سورتیں لکھی ہوئی نہ لے جاتے تھے۔ تقریباً ساری تبلیغ و اشاعت زبانی ہوتی تھی۔ چند ایک خطوط تھے جو آپ ﷺ نے لکھوائے تھے۔

نئے ایمان لانے والے، صحابہ پر اعتماد کرتے تھے کہ جو کچھ وہ سنا رہے ہیں وہ اللہ کا کلام ہے یا پھر رسول اللہ ﷺ کا حکم ہے، جو حکم وہ پہنچا رہے ہیں۔

تیسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ لکھی ہوئی چیز خود کبھی قابل اعتماد نہیں ہوتی جب تک زندہ انسانوں کی شہادت اس کی توثیق نہ کرے۔ محض لکھی ہوئی چیز اگر ہمیں ملے اور ہم لکھنے والے کا خط (لکھائی کا انداز) نہ پہچانتے ہوں یا لکھنے والا خود نہ بتائے یہ اس کی تحریر ہے یا ایسے شواہد موجود نہ ہوں جو اِس امر کی تصدیق کریں کہ یہ تحریر اسی شخص کی ہے جس کی طرف منسوب کی گئی ہے تو ہمارے لئے وہ تحریر کیا معنی ہو سکتی ہے؟

کسی چیز کا لکھا ہوا ہونا ہی حجت نہیں جب تک زندہ انسانوں کی شہادت موجود نہ ہو۔ قرآن رسول اللہ ﷺ کو تحریری شکل میں نہیں دیا گیا تھا۔ جبرئیل امین زبانی ہی وحی لاتے تھے اور رسول اللہ ﷺ بھی زبانی ہی صحابہ رضی اللہ عنہم کو بتاتے تھے۔ آج بھی قرآن اس لئے حجت نہیں کہ یہ لکھا ہوا ہمارے پاس موجود ہے بلکہ زندہ انسانوں کی شہادت ہے جو مسلسل اس کو سنتے اور بعد میں آنے والوں تک اسے پہنچاتے چلے آرہے ہیں۔ اگر قرآن کے سلسلہ میں زندہ انسانوں کی شہادت حجت ہے تو سنت رسول ﷺ کے بارے میں حجت کیوں نہیں؟؟

اب ان لوگوں سے سوالات کئے جاتے ہیں جو کسی بھی حوالے سے کسی بھی صحیح ثابت شدہ حدیث کا انکار کرتے ہیں وہ اگر اپنے دعویٰ میں سچے ہیں تو ان 50 سوالات کے جوابات صرف قرآن ہی سے دیں ورنہ اپنے باطل عقیدہ سے توبہ کر لیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
سوالات
سوال نمبر1
قرآن مجید کی جو 114 سورتیں ہیں ان سورتوں کے نام کس نے رکھے ہیں کیا قرآن نے خود ان سورتوں کے نام رکھے ہیں؟ اگر یہ نام قرآن نے رکھے ہیں تو کس پارے میں یہ نام موجود ہیں؟ یا یہ نام رسول اللہ ﷺ نے رکھے ہیں؟ اگر یہ نام رسول اللہ ﷺ نے رکھے ہیں تو کیا آپ ﷺ کے پاس اختیار تھا کہ اللہ نے بغیر نام کے سورتوں کو نازل کیا اور آپ نے اُن کے نام رکھ دیئے؟ یا پھر اللہ کے حکم سے رسول اللہ ﷺ نے رکھے ہیں؟
سوال نمبر2۔
قرآن مجید میں 15 مقامات پر (آیت سجدہ پڑھ کر) سجدہ کرنے کا حکم ہے کیا یہ حکم قرآن میں موجود ہے یا یہ حکم رسول اللہ ﷺ نے دیا ہے؟
سوال نمبر3۔
قرآن مجید کی ہر سورت کی ابتداء بسم اللہ الرحمن الرحیم سے ہوتی ہے سوائے سورئہ توبہ کے۔ سورۃ انفال اور سورئہ توبہ کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں ہے۔ یہ کس نے بتایا کہ اب سورۃ توبہ شروع ہو گئی؟ یہ بات قرآن میں موجود ہے یا پھر رسول اللہ ﷺ نے بتایا کہ سورۃ انفال کے بعد بغیر بسم اللہ الرحمن الرحیم کے سورئہ توبہ شروع ہوتی ہے۔ تو کیا رسول اللہ ﷺ کا اِرشاد دین ثابت نہیں ہوتا؟
سوال نمبر4 ۔
کیا قرآن نے حروف مقطعات کے معنی بیان کئے ہیں؟ اگر کئے ہیں تو کس سورت میں بیان کئے ہیں؟ اور اگر قرآن اس پر خاموش ہے تو کیا قرآن نے اس کی وجہ بتائی ہے؟
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
سوال نمبر5۔
مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیٰۃٍ اَوْ نُنْسِھَا نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْھَآ اَوْ مِثْلِھَااَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اﷲَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ (سورہ بقرہ:106)
ہم جس آیت کو منسوخ کر دیتے یا اس کو فراموش کرا دیتے ہیں تو اُس سے بہتر یا ویسی ہی اور آیت لے آتے ہیں۔ کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ ہر بات پر قادر ہے؟

اس آیت قرآنی میں اللہ نے بتایا ہے کہ ہم جس آیت کو چاہیں منسوخ کر دیں۔ کیا قرآنی آیات منسوخ بھی ہوتی ہیں؟ آیات کی منسوخی کے لئے کوئی آیت نازل ہوئی ہے کہ فلاں آیت اب منسوخ ہے یا پھر رسول اللہ ﷺ نے بتایا کہ فلاں آیت اب منسوخ ہے؟ اگر احادیث سے پتہ چلا کہ فلاں آیت منسوخ ہے تو پھر یقینا یہ کہنا پڑے گا اور ماننا پڑے گا کہ جس طرح قرآن حجت اور دین ہے اسی طرح رسول اللہ ﷺ کا اِرشاد دین اور حجت ہے۔

سوال نمبر6۔
وَ مِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ اِنَّہٗ لَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ وَ مَا اﷲُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ وَ مِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ حَیْثُ مَا کُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ شَطْرَہٗ لِئَلاَّ یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَیْکُمْ حُجَّۃٌ اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْھُمْ فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَاخْشَوْنِیْ وَ لِاُتِمَّ نِعْمَتِیْ عَلَیْکُمْ وَ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ (بقرہ 149۔ 150)
اور تم جہاں سے نکلو اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کر لیا کرو بلاشبہ وہ تمہارے رب کی طرف سے حق ہے اور تم لوگ جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے بے خبر نہیں ہے۔ اور تم جہاں سے نکلو مسجد محترم کی طرف منہ کرو اور مسلمانو تم جہاں ہوا کرو اسی (مسجد) کی طرف رخ کیا کرو (یہ تاکید) اس لئے (کی گئی ہے) کہ لوگ تمہیں کسی طرح کا الزام نہ دے سکیں مگر اُن میں سے جو ظالم ہیں (وہ الزام دیں تو دیں) سو اُن سے مت ڈرنا اور مجھ ہی سے ڈرتے رہنا اور یہ بھی مقصود ہے کہ میں تمہیں اپنی تمام نعمتیں بخشوں اور یہ بھی کہ تم راہِ راست پر چلو ۔

اِن آیات میں قرآن کریم نے یہ حکم دیا ہے کہ ہم جب بھی جہاں پر بھی ہوں ہر حال میں ہر وقت اپنے چہرے مسجد الحرام کی طرف کر لیں۔ بتائیں اس آیت پر عمل کیسے ہو گا؟ دنیا میں کون ہے جو اس حکم پر عمل کر سکے؟ جب تک احادیث کو تسلیم نہیں کیا جائے گا جب تک اس حکم پر عمل ممکن ہی نہیں۔ احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ یہ حکم صرف حالت نماز کیلئے ہے۔ اب بتائیے کیا احادیث دین نہیں؟
 
Top