• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

منکرین حدیث کا اعتراض صحیح مسلم کی حدیث پر

شمولیت
مئی 20، 2012
پیغامات
128
ری ایکشن اسکور
257
پوائنٹ
90
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2463 حدیث مرفوع مکررات 3 متفق علیہ 2 قتیبہ بن سعید، لیث، محمد بن قیس قاص عمر بن عبدالعزیز ابی صرمہ حضرت ابوایوب انصاری سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی موت کے وقت کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی ایک حدیث تم سے چھپائے رکھی تھی میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے اگر تم گناہ نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ ایسی مخلوق پیدا فرماتا جو گناہ کرتی اور اللہ انہیں معاف فرماتا۔
منکرین حدیث کا ایتراذ ہے کے اس حدیث میں گناہ کرنے کو کہا گیا ہے۔۔
براے مہربانی اس سوال کا جواب دیجیے۔۔شکریہ
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس روایت میں گناہ کرنے کا حکم نہیں ہے بلکہ انسان کے عجز کا بیان ہے کہ انسان کس قدر عاجز اور ضعیف ہے۔ انسان میں وہ کمالات پیدا نہیں ہو سکتے ہیں جو اللہ تعالی کی ذات میں ہیں۔ جن کمزوریوں سے اللہ کی ذات پاک ہے، انسان ان سے پاک نہیں ہے۔ یہ تو اللہ کی قدرت اور کمال کے مقابلہ میں انسانی عجز اور بشری ضعف کا بیان ہے۔ گناہ کرنا ایک کمزوری ہے اور انسان فرشتہ نہیں ہے کہ اس سے گناہ نہ ہو۔
وَخُلِقَ الْإِنسَانُ ضَعِيفًا ﴿٢٨﴾
اور انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔

انسان ایک صاحب اختیار مخلوق ہے اور اس کا صاحب اختیار ہونا ایک صفت ہے۔ اب صاحب اختیار ہونا اللہ کی بھی ایک صفت ہے۔ پس انسان اپنی اس صفت میں اللہ کی صفت جیسا باکمال نہیں ہے کہ اپنی اس صفت کو ہمیشہ خیر ہی میں استعمال کرے لہذا وہ اپنے اس ارادے اور اختیار سے شر کا بھی ارتکاب کر لیتا ہے۔ اس روایت میں اس حقیقت کا بیان ہے کہ انسان عاجز اور کمزور ہے اور اس سے گناہ ہونے ہیں۔ انسان سے اللہ تعالی کا مطالبہ یہ نہیں ہے کہ اس سے گناہ نہ ہو بلکہ مطالبہ یہ ہے کہ وہ گناہ کرنے کے بعد اس پر اصرار نہ کرے یا ڈٹ نہ جائے جیسا کہ ابلیس لعین نے کیا تھا۔
أَسْتَكْبَرْتَ أَمْ كُنتَ مِنَ الْعَالِينَ ﴿٧٥﴾
کیا تو کچھ گھمنڈ میں آگیا ہے؟ یا تو سرکشوں میں سے ہے۔

اللہ کو معلوم تھا کہ انسان سے گناہ ہونے ہیں لہذا اس نے توبہ کا دروازہ کھلا رکھا۔ پس گناہ میں ایک اعتبار سے شر کا پہلو یہ ہے اس میں رب کی نافرمانی ہے جبکہ اس میں ایک اعتبار سے خیر کا پہلو یہ ہے کہ یہ انسانی عجز و کمزوری کا اظہار ہے اور اس پر ندامت کی صورت دل کا سوز و گداز اور اللہ کا مزید تقرب حاصل ہوتا ہے۔ اس روایت میں اس دوسرے پہلو کی طرف اشارہ ہے۔ پس اللہ کا مطالبہ یہ ہر گز نہیں ہے کہ ہم سے گناہ نہ ہوں بلکہ یہ مطالبہ ہے کہ ہم اس کے باغی نہ ہوں۔ اب آخر میں ان آیات میں متقین کی جو صفات بیان کی گئی ہیں، ان پر غور کریں۔ قرآن متقین کی صفات بیان کرتے ہوئے یہ کہہ رہا ہے کہ ان سے گناہ کے کام بھی ہو جاتے ہیں لیکن وہ اس پر اصرار نہیں کرتے ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:
أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ ﴿١٣٣﴾ الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّـهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ﴿١٣٤﴾ وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّـهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّـهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَىٰ مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ ﴿١٣٥﴾ أُولَـٰئِكَ جَزَاؤُهُم مَّغْفِرَةٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَجَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ ﴿١٣٦﴾
جو پرہیزگاروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔ جو لوگ آسانی میں سختی کے موقع پر بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں، غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ ان نیک کاروں سے محبت کرتا ہے۔ جب ان سے کوئی ناشائستہ کام ہو جائے یا کوئی گناه کر بیٹھیں تو فوراً اللہ کا ذکر اور اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے ہیں، فی الواقع اللہ تعالیٰ کے سوا اور کون گناہوں کو بخش سکتا ہے؟ اور وه لوگ باوجود علم کے کسی برے کام پر اڑ نہیں جاتے۔ انہیں کا بدلہ ان کے رب کی طرف سے مغفرت ہے اور جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، جن میں وه ہمیشہ رہیں گے، ان نیک کاموں کے کرنے والوں کا ﺛواب کیا ہی اچھا ہے۔

جزاکم اللہ خیرا
 
شمولیت
مئی 20، 2012
پیغامات
128
ری ایکشن اسکور
257
پوائنٹ
90
وعلیکم سلام۔۔شکریہ۔۔
میں نے اس حدیث کو اس طرح سمجا تھا کہ اللہ تعالی ان گناہو کا کہ رہے ہے جو انسانی فطرت مین شامل ہے جن کے کرنے سے کوئی بھی انسان نہیں بچ سکا تو اللہ نے یہی فرمایا کہ اگر یہ گناہ جو انسان کی فطرت میں شامل ہے یہ بھی انسان نا کرے تو مٹا دیئے جائے گا۔۔۔جس وقت انسان زنا یہ قتل کرتا ہے تو ایمان کی حالت میں نہین ہوتا ۔صحیح مسلم۔۔۔
اللہ تعالی نے انسانی فطرت کے مطابق جو گناہ ہوتے اللہ تعالی نے ان گناہو کو بخش دیا ہے ۔۔۔لعزشے ،انجانے میں گناہ، صغیرہ گناہ کے بارے میں کہا جا رہا ہے۔۔۔
اللہ کا فرمان ہے۔۔۔
اَلَّذِيْنَ يَجْتَنِبُوْنَ كَبٰۗىِٕرَ الْاِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ اِلَّا اللَّمَمَ ۭ اِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ ۭ
جو لوگ چھوٹے گناہوں (اور لغزشوں) کے سوا بڑے گناہوں اور بےحیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں، بیشک آپ کا رب بخشش کی بڑی گنجائش رکھنے والا ہے۔ سورہ النجم ٣٣
یعنی صغائر کے مرتکب کا معاف کر دیا جانا کچھ اس وجہ سے نہیں ہے کہ صغیرہ گناہ، گناہ نہیں ہے ، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ تنگ نظری اور خوردہ گیری کا معاملہ نہیں فرماتا۔ بندے اگر نیکی اختیار کریں اور کبائر و فواحش سے اجتناب کرتے رہیں تو وہ ان کی چھوٹ چھوٹی باتوں پر گرفت نہ فرمائے گا اور اپنی رحمت بے پایاں کی وجہ سے ان کو ویسے ہی معاف کر دے گا۔
حڈیث مین صغیرہ گناہو کے بارے میں کہا جا رہا ہے جو قرآن میں اللہ نے معاف کیئے ہے اگر ھم کبیرہ گناہو سے بجے گے۔۔۔اس کے بدلے۔۔
جزاک اللہ خیرا۔۔۔
 
Top