• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

منکرین حدیث کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت پر اعتراض۔

شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
منکرین حدیث کا ایک گروہ جو بینک کے سود کو جائز قرار دینے کی سر توڑ کوششوں میں مصروف ہے، اور آج کل ان کے اس مشن میں پیش پیش ایک نام نہاد اہلحدیث عالم (عبد الکریم اثری) بھی ان کے معاون ہیں، ان کا ایک روایت پر مندرجہ ذیل اعتراض نقل کر رہا ہوں، علماء سے رہنمائی کی گزارش ہے:


اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے:
وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیهم
ہم نے آپ کی طرف یہ قرآن نازل کیا تاکہ آپ کھول کر بیان فرما دیں جو نازل کیا گیا ان کی طرف

إنا علينا جمعه و قرآنه ، فإذا قرأناه فاتبع قرآنه ، ثم إنا علينا بيانه
۔۔۔۔ پھرقرآن کا بیان (احکام کی تشریح) ہمارے ذمہ ہے

اب جس قرآن کا بیان، اور اس کہ احکام کی تشریح اللہ تعالی نے اپنے ذمہ لی ہے، اور اللہ کے نبی محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی یہ ذمہ داری تھی کہ آیات کو کھول کھول کر بیان کر دیں، تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آیات متعلقہ سود کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکمل وضاحت کئے بغیر ہی اس دنیا فانی سے رخصت ہو جائیں؟۔۔۔ جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ:

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم میں سب سے آخری آیت سود سے متعلق نازل ہوئی ہے، اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے وصال مبارک سے قبل اس کی مکمل وضاحت کا موقع نہیں مل سکا، اس لئے سود کو بھی چھوڑ دو اور جس چیز میں ذرا بھی شک ہو اسے بھی چھوڑ دو۔ مسند احمد:جلد اول:حدیث نمبر 238

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول شان نبوی میں نعوذباللہ گستاخی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آیت کی وضاحت ہی نا کر سکے، اس لیئے یہ روایت من گھڑت ہے۔ ""
-------------------------------------------------------
منکرین حدیث اس روایت کو موضوع کہتے ہیں، اور رافضی حضرات اس روایت سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر تعن کرتے ہیں، اور یہ دونوں گمراہ گروہ حدیث رسول کے صریح دشمن ہیں۔ منکرین حدیث کا اصل حدف اس روایت کے ذریعے سود کے احکام میں وارد احادیث کو مشکوک بنانا اور بڑے ہی ٹیکنکل طریقہ سے قرآن میں وارد لفظ "الرباء" کی من مانی تشریع کر کے بینک کا سود جائز قرار دینے کی سعی لا حاصل کرنا ہے۔ رہنمائی فرمائیں۔
جزاک اللہ۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
منکرین حدیث کا ایک گروہ جو بینک کے سود کو جائز قرار دینے کی سر توڑ کوششوں میں مصروف ہے، اور آج کل ان کے اس مشن میں پیش پیش ایک نام نہاد اہلحدیث عالم (عبد الکریم اثری) بھی ان کے معاون ہیں، ان کا ایک روایت پر مندرجہ ذیل اعتراض نقل کر رہا ہوں، علماء سے رہنمائی کی گزارش ہے:


اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے:
وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیهم
ہم نے آپ کی طرف یہ قرآن نازل کیا تاکہ آپ کھول کر بیان فرما دیں جو نازل کیا گیا ان کی طرف

إنا علينا جمعه و قرآنه ، فإذا قرأناه فاتبع قرآنه ، ثم إنا علينا بيانه
۔۔۔۔ پھرقرآن کا بیان (احکام کی تشریح) ہمارے ذمہ ہے

اب جس قرآن کا بیان، اور اس کہ احکام کی تشریح اللہ تعالی نے اپنے ذمہ لی ہے، اور اللہ کے نبی محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی یہ ذمہ داری تھی کہ آیات کو کھول کھول کر بیان کر دیں، تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آیات متعلقہ سود کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکمل وضاحت کئے بغیر ہی اس دنیا فانی سے رخصت ہو جائیں؟۔۔۔ جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ:

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم میں سب سے آخری آیت سود سے متعلق نازل ہوئی ہے، اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے وصال مبارک سے قبل اس کی مکمل وضاحت کا موقع نہیں مل سکا، اس لئے سود کو بھی چھوڑ دو اور جس چیز میں ذرا بھی شک ہو اسے بھی چھوڑ دو۔ مسند احمد:جلد اول:حدیث نمبر 238

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول شان نبوی میں نعوذباللہ گستاخی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آیت کی وضاحت ہی نا کر سکے، اس لیئے یہ روایت من گھڑت ہے۔ ""
-------------------------------------------------------
منکرین حدیث اس روایت کو موضوع کہتے ہیں، اور رافضی حضرات اس روایت سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر تعن کرتے ہیں، اور یہ دونوں گمراہ گروہ حدیث رسول کے صریح دشمن ہیں۔ منکرین حدیث کا اصل حدف اس روایت کے ذریعے سود کے احکام میں وارد احادیث کو مشکوک بنانا اور بڑے ہی ٹیکنکل طریقہ سے قرآن میں وارد لفظ "الرباء" کی من مانی تشریع کر کے بینک کا سود جائز قرار دینے کی سعی لا حاصل کرنا ہے۔ رہنمائی فرمائیں۔
جزاک اللہ۔
1۔ اول تو منكرین حدیث اس بات کو مانتے ہی نہیں کہ حدیث مبارکہ قرآن کریم کی تفسیر ہے۔ اسی لئے تو وہ تفسیر بالماثور کو چھوڑ کر قرآن کریم کی من مانی تفسیریں کرتے ہیں۔

2۔ منکرین حدیث حدیث وسنت کو اللہ کی طرف سے وحی بھی نہیں مانتے۔ اگر وہ وحی مانتے ہوتے تو کبھی صحیح احادیث مبارکہ کا اپنی ناقص عقل کی بناء پر انکار نہ کرتے۔ اسی لئے اپنے زعم میں وہ حدیث کو قرآن (یعنی قرآن کے اپنے ناقص وغلط فہم) پر پرکھتے ہیں۔ جو انہیں اپنی عقل کے مطابق لگے مان لیتے ہیں ورنہ رد کر دیتے ہیں خواہ وہ صحیح ترین حدیث (متواتر یا بخاری ومسلم کی) ہی کیوں نہ ہو۔

گویا پہلے وہ حدیث کی سند نہیں دیکھتے بلکہ پہلے وہ یہ دیکھتے ہیں کہ یہ حدیث ہماری عقل وفہم کے مطابق ہے یا نہیں۔

3۔ اس حدیث مبارکہ میں بھی انہوں نے یہی کیا ہے۔

حالانکہ اصل طریقہ کار یہ ہے کہ پہلے حدیث مبارکہ کی سند دیکھی جائے، اگر ضعیف ہے تو پھر وہ حجت نہیں۔ لیکن اگر وہ بلحاظِ سند صحیح ہے اور ہمیں اس کا معنیٰ سمجھ میں نہیں آرہا۔ یا ہمیں بظاہر اس میں بعض دیگر نصوص (قرآن یا حدیث) میں تعارض نظر آرہا ہے تو پھر ہمیں اس پر غور کرنا چاہئے اور علماء سے اس کے متعلق پوچھنا چاہئے۔ ایک صحیح حدیث کو سمجھ نہ آنے پر ردّ کر دینا بہت بڑی گمراہی ہے۔ سورۃ یونس میں اللہ تعالیٰ نے اس کی سخت مذمت کی ہے:
﴿ بَل كَذَّبوا بِما لَم يُحيطوا بِعِلمِهِ وَلَمّا يَأتِهِم تَأويلُهُ ۚ كَذٰلِكَ كَذَّبَ الَّذينَ مِن قَبلِهِم ۖ فَانظُر كَيفَ كانَ عـٰقِبَةُ الظّـٰلِمينَ ٣٩ ﴾ ۔۔۔ سورة يونس
درحقیقت ان لوگوں نے اس چیز کی تکذیب کی ہے جس کا مکمل علم بھی نہیں ہے اور اس کی تاویل بھی ان کے پاس نہیں آئی ہے اسی طرح ان کے پہلے والوں نے بھی تکذیب کی تھی اب دیکھو کہ ظلم کرنے والوں کا انجام کیا ہوتا ہے (39)

درج بالا حدیث مبارکہ سنن ابن ماجہ کی ہے، علامہ البانی﷫ نے اسے صحیح قرار دیا ہے:

إنَّ آخرَ ما نزَلَت آيةُ الرِّبا وإنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ قُبِضَ ولم يفسِّرْها لَنا فدعوا الرِّبا والرِّيبةَ
الراوي: عمر بن الخطاب المحدث: الألباني - المصدر: صحيح ابن ماجه - الصفحة أو الرقم: 1860
خلاصة حكم المحدث: صحيح


سیدنا عمر﷜ کا یہ فرمانا کہ یہ آخر میں نازل ہونے والی آیات کریمہ میں سے ہے۔
اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ یہ منسوخ نہیں ہے۔ بلکہ اس کا حکم قیامت تک باقی ہے۔

آپ نے اس کی تفسیر نہیں فرمائی
سے سیدنا عمر﷜ کی مراد ایسی جامع ومانع وضاحت ہے جس کے بعد مزید کوئی سوال یا اجتہاد وقیاس کی ضرورت باقی نہ رہ جائے۔ ورنہ سود کی کافی تفصیلات احادیث مبارکہ میں موجود ہیں۔

سیدنا عمر ﷜ کا مقصود یہاں یہ ہے کہ ہمیں سود کے متعلق انتہائی محتاط ہونا چاہئے۔ اسی لئے فرمایا:

کہ سود بھی چھوڑ دو اور اس سے متعلق مشکوک معاملات بھی۔

سیدنا عمر﷜ کے اس فرمان میں کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ سوائے ان لوگوں کے جن کے دلوں میں مرض ہے۔

سیدنا عمر﷜ کے پیش نظر نبی کریمﷺ کا یہ فرمان عالی شان ہے:

الْحَلاَلُ بَيِّنٌ وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ، وَبَيْنَهُمَا مُشَبَّهَاتٌ لاَ يَعْلَمُهَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ، فَمَنِ اتَّقَى الْمُشَبَّهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِيِنِهِ وَعِرْضِهِ، وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ كَرَاعٍ يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى، يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَهُ‏.‏ أَلاَ وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى، أَلاَ إِنَّ حِمَى اللَّهِ فِي أَرْضِهِ مَحَارِمُهُ، أَلاَ وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ‏.‏ أَلاَ وَهِيَ الْقَلْبُ ۔۔۔ صحيح البخاري
حلال کھلا ہوا ہے اور حرام بھی کھلا ہوا ہے اور ان دونوں کے درمیان بعض چیزیں شبہ کی ہیں جن کو بہت لوگ نہیں جانتے ( کہ حلال ہیں یا حرام ) پھر جو کوئی شبہ کی چیزوں سے بھی بچ گیا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا اور جو کوئی ان شبہ کی چیزوں میں پڑ گیا اس کی مثال اس چرواہے کی ہے جو ( شاہی محفوظ ) چراگاہ کے آس پاس اپنے جانوروں کو چرائے ۔ وہ قریب ہے کہ کبھی اس چراگاہ کے اندر گھس جائے ( اور شاہی مجرم قرار پائے ) سن لو ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے ۔ اللہ کی چراگاہ اس کی زمین پر حرام چیزیں ہیں ۔ ( پس ان سے بچو اور ) سن لو بدن میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو گا سارا بدن درست ہو گا اور جہاں بگڑا سارا بدن بگڑ گیا ۔ سن لو وہ ٹکڑا آدمی کا دل ہے ۔

واللہ تعالیٰ اعلم!
 
Top