• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

منکرین حدیث کے ایک شبہے کا جواب درکار ہے

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
اگر قرآن وحدیث کو اپنی عقل کے تابع کریں گے تو گمراہ ہوں گے. جیسا کہ منکرین حدیث کرتے ہیں. اصل میں یہ عقل پرست اور نفس پرست واقع ہوۓ ہیں. اور انکا فتنہ بہت خطرناک ہے. اپنا ایک واقعہ سناتا ہوں. ایک بار صحیح بخاری پڑھتے وقت شیخ محترم سے سوال کیا کچھ منکرین حدیث کے بارے میں. انھوں نے نہ صرف جواب دیا. بلکہ اسکے بعد کئی بار میرے ذہن کو جھنجھوڑا. اور جب جب منکرین حدیث کا رد کرتے میری طرف ضرور دیکھتے. الحمد للہ کافی اطمنان ہوا.
اصول یہ ہونا چاہیۓ کہ ہم اپنی عقل کو قرآن و حدیث کے تابع کریں
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
محترم @عبدالرحمن حمزہ بھائی معذرت فرصت کم ملتی ہے میں کچھ جواب دیتا ہوں
البتہ اس کے ساتھ یہ چاہتا ہوں کہ سوال لگانے والے بھائی سوال کرنے والوں سے ان احادیث کے مکمل حوالے تو بتا دیں تاکہ صحیح طریقے سے جواب دیا جا سکے جیسا کہ محترم خضر بھائی نے کہا کہ اسکو سیاق و سباق کے لحاظ سے دیکھا جائے یا پھر کسی اور بھائی کے پاس فرصت ہو تو وہ حوالے بتا دے جزاکم اللہ خیرا
ویسے تو محترم @خضر حیات بھائی نے اسکا علمی انداز سے اسکا بہترین جواب دے دیا ہے میں اس میں کچھ اضافہ کرنا چاہتا ہوں اور اسکو کچھ الزامی لحاظ سے بتانا چاہتا ہوں
السلام عليكم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم قرآن بھول سکتے ھیں؟

بخاری اور مسلم کے مطابق تو بھول سکتے ھیں ، بلکہ بھول ھی گئے تھے کہ ایک صحابی کو تلاوت کرتے سنا تو فرمایا کہ اللہ اس پر رحم کرے اس نے مجھے بھولی ھوئی آیت یاد کرا دی ھے جو میں فلاں سورت میں سے چھوڑ دیا کرتا تھا -
دوسری روایت میں ھے کہ ایک نماز میں رسول اللہ ﷺ نے ایک آیت چھوڑ دی ( اسقط - گرا دی ) تو نماز کے بعد آپ ﷺ نے پوچھا ابئ ابن کعب ھمارے ساتھ ھے ؟ اس پر ابئ ابن کعب نے کہا کہ اے اللہ کے رسول یہ آیت منسوخ ھو گئ ھے یا آپ بھول گئے ھیں ،، آپ نے فرمایا کہ بھول گیا تھا ،
مگر دوسری جانب یہی کتابیں کہتی ھیں کہ ابوھریرہؓ کوئی حدیث نہیں بھول سکتے تھے
جب تک حوالے کوئی لگاتا ہے
میرا پہلا الزامی سوال ہے کہ

جو نہ یہ لوگو نگل سکیں گے نہ اگل سکیں گے کہ تمھیں یہ کیسے پتا چلا تمھیں یہ کس نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ قرآن بھول سکتے ہیں؟
اگر یہ جواب دیں کہ یہ بخاری میں لکھا ہے
تو پوچھیں کہ یہ بخاری کی حدیث ہم تک صحابہ نے پہنچائی اور یہ قرآن بھی ہم تک صحابہ نے پہنچایا تو
کیا وجہ ہے کہ آپ صحابہ کی ایک بات یعنی قرٓن کو تو مان لیتے ہیں اور انہیں صحابہ کی دوسری بات یعنی حدیث میں انکے ہی پہنچائے گئے قران کے بارے یہ لکھا ہو کہ وہ انکو بھول جاتا تھا تو اسکو آپ نہیں مانتے اسکی وجہ کیا ہے

دوسرا الزامی سوال یہ ہے کہ

آپ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن چونکہ لوگوں کی ہدایت کے لئے آیا ہے اور نبی کا کام ہی لوگوں کی ہدایت ہوتا ہے پس یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ نبی کو بھول جائے اب قرآن نہ بھولنے کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں کہ یا تو نبی کوئی مافوق الفطرت چیز ہوتی ہے یا پھر نبی کو معجزہ کی طرح وہ قران انسٹال کر دیا گیا تھا کیونکہ انکو کام اس کے ذریعے لوگوں کو ہدایت دینا تھا
اب آپ پہلی مافوق الفطرت والی حالت کو تو نہیں مانتے بلکہ یہی کہتے ہیں کہ انکے کام کی مناسبت سے انکو قرآن نسٹال کروا دیا گیا تھا پس وہ بھول نہیں سکتے اور چونکہ وہ بھول نہیں سکتے پس بھولنے والی کوئی بھی بات کرے گا تو وہ خلاف فطرت ہو گی
تو اس پہ سوال ہے کہ پھر جب نبی کا کام قرآن سے دعوت ہی دینا تھا اور یہ بات خلاف عقل ہو جاتی کہ جس سے دعوت دینا تھی وہ بھول جائے تو پھر تو یہ بات بھی خلاف عقل ہو گی کہ جس دعوت کے لئے انکو پیدا کیا گیا وہ وہ دعوت چھپا لیں
یعنی جب آپ کے ہاں یہ بات خلاف عقل ہے کہ جس دعوت یعنی قرآن کی دعوت کے لئے انکو پیدا کیا گیا اسکو ہی وہ بھول جائیں اور اسکے لئے آپ بشری کمزوری کو بھی ماننے کو تیار نہیں تو پھر اسی صول کے تحت یہ بات کیوں خلاف عقل نہیں کہ جس دعوت کے لئے انکو پیدا کیا گیا وہ اس بات کو چھپا لیں
پس یہ وہ بات ہے کہ جو آپ نہ نگل سکتے ہیں نہ اگل سکتے ہیں کیونکہ اسکے بعد قرآن کی یہ آیت بے معنی بن جاتی ہے کہ
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ
رِسَالَتَهُ
یعنی اگر آپ نے کوئی بات چھپائی تو پھر آپ نے رسالت کا حق ہی ادا نہیں کیا

باقی بعد میں ان شاءاللہ
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
62
پوائنٹ
49

اہل علم دوست خوب جواب دے رہے ہیں ۔
میں بھی کچھ باتیں عرض کرنا چاہتا ہے ۔
پہلی بات یہ کہ آج کل بہت فتنہ کا دور ہے ، دین سے عملی طور پہ دوری سے شیطان کی طرف سے ایسے وساوس آتے ہیں۔
لوگ مختلف درجہ میں اس کا شکار ہوتے ہیں ۔ اس لئے ہر آدمی کو منکر حدیث کا عنوان نہ دیں ۔معلوم نہیں ۔۔۔ہوسکتا ہے واقعی کوئی غلط فہمی ہی شکار ہو ۔جیسا کہ اس تحریر میں ایک حدیث سے استدلال کیا کہ نبی کا دل نہیں سوتا۔ اس لئے اس پہلو کو ضرور مد نظر رکھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرا یہ سوال یا وسوسہ منکر حدیث اٹھا سکتے ہیں ۔تو اس سے ملحدین اس سے بڑھ کر وسوسہ پیدا کرسکتے ہیں۔جن کی وجہ سے سوال کرنے والا وسوسہ کا شکار ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملحدین کو پیشگی مد نظر رکھ کر ۔۔۔پہلے امام نوویؒ نے قاضی عیاض ؒ کے حوالے سےایک عبارت نقل کی ہے ۔۔۔وہ ضرور مد نظر رہنی چاہیے۔

وَالْحَقّ الَّذِي لَا شَكّ فِيهِ تَرْجِيح قَوْل مَنْ مَنَعَ ذَلِكَ عَلَى الْأَنْبِيَاء فِي كُلّ خَبَر مِنْ الْأَخْبَار ، كَمَا لَا يَجُوز عَلَيْهِمْ خُلْف فِي خَبَر لَا عَمْدًا وَلَا سَهْوًا ، لَا فِي صِحَّة وَلَا فِي مَرَض ، وَلَا رِضَاء وَلَا غَضَب ، وَحَسْبك فِي ذَلِكَ أَنَّ سِيرَة نَبِيّنَا صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَلَامه وَأَفْعَاله مَجْمُوعَة مُعْتَنَى بِهَا عَلَى مَرّ الزَّمَان ، يَتَدَاوَلهَا الْمُوَافِق وَالْمُخَالِف وَالْمُؤْمِن وَالْمُرْتَاب ، فَلَمْ يَأْتِ فِي شَيْء مِنْهَا اِسْتِدْرَاك غَلَط فِي قَوْل ، وَلَا اِعْتِرَاف بِوَهْمٍ فِي كَلِمَة ، وَلَوْ كَانَ لَنُقِلَ كَمَا نُقِلَ سَهْوه فِي الصَّلَاة وَنَوْمه عَنْهَا
ترجمہ : اور حق بات جس میں کوئی شک نہیں ، ان حضرات کے قول کو ترجیح دینا ہے جو انبیاء کرام علیہم السلام کے حق میں تمام اخبار میں نسیان کو ممنوع قرار دیتے ہیں جس طرح ان سے کسی خبر کا خلاف واقعہ ہونا جائز نہیں ، نہ عمداً نہ سہواً ، نہ صحتیابی میں نہ مرض میں ، نہ رضامندی کی حالت میں نہ غضب کی حالت میں ، اور اس بارے میں تمہیں یہ بات کافی ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ ، مبارک کلام ، پاکیزہ اعمال ایک ایسا مجموعہ ہے جس کو زمانہ گذرنے کے باوجود اہتمام سے بیان کیا جاتا ہے ،موافق ، مخالف ، ایمان والا اور شک کرنے والا اختیار کرتا ہے تو کوئی شخص ان میں سے کسی چیز میں ، کسی قول میں غلطی نہیں دیکھتا اور نہ کسی کلمہ سے متعلق وہم کی نشاندہی ہوتی ہے ، اگر غلطی یا وہم ہوتا تو ضرور منقول ہوتا جس طرح آپ کا نماز سے متعلق سھو اور نوم منقول ہے - (شرح مسلم للنووی – ج 5 ص 62)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب جو نماز میں سھو منقول ہے اس کی ایک توجیہہ ایک روایت سے ہوتی ہے
مؤطا امام مالک ۲۔۱۳۸، میں روایت ہے
مالك أنه بلغه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال إني لأنسى أو أنسى لأسن
‏‏ ترجمہ : امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے انہیں یہ حدیث شریف پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں اس لئے بھولتا یا بھلایا جاتا ہوں کہ تمہیں طریقہ بتلاؤں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ روایت موطا امام مالک کی بلاغات میں سے ہے ۔
جو علماء نسیان والی روایت کو عام مانتے ہیں ۔ ان کو یہ روایت صحیح حدیث کے خلاف لگتی ہے اس لئے وہ اس بلاغ کو صحیح نہیں سمجھتے ۔ لیکن یہ اس کے خلاف بالکل نہیں ہے ۔بلکہ جمع ممکن ہے ۔یہ روایت اس کی توجیہ کرتی ہے ۔
یہ اس لئے بھی کہ یہ بلاغ موطا امام مالک کی ہے جس کے بارے میں امام سفیان ؒ سے منقول ہے

إذا قال مالك بلغني فهو إسناد صحيح
جب امام مالک بلغنی کہہ دیں تو اس کی سند صحیح ہوتی ہے ۔
(زرقانی شرح الموطا ۱۔۳۶۷)
اور علما کی تحقیق ہے کہ موطا کی بلاغات مسند بھی منقول ہیں ۔
یہ اوپر والی روایت اگرچہ ان چار میں سے ہے جو حافظ ابن عبد البرؒ کے مطابق مسند منقول نہیں لیکن ابن صلاحؒ نے ان چار کے اتصال کے لئے ایک رسالہ لکھا ہے اس میں ص ۱۵ پہ
نسیان والی روایت کو اس کی تائید میں نقل کیا ہے ۔

إنما أنا بشر أنسى كما تنسون فإذا نسيت فذكروني
أخرجاه في صحيحيهما , وإنما يتقوى به من حديث مالك رضي الله عنه طرف
منه

بہرحال یہ حدیث نسیان والی حدیث کے خلاف بالکل نہیں بلکہ اس کی تائید و توجیہہ کرتی ہے ۔
حافظ ذہبیؒ ۔الموقظہ ۱۔۴۱ میں منقطع کی بحث میں امام مالکؒ کو بلاغات میں نہ صرف متثبت فرماتے ہیں ۔ بلکہ ان کی مراسیل پر بھی ترجیح دیتے ہیں۔

أجوَدُ ذلك ما قال فيه مالكُ: "بلَغَنِي أنَّ رسولَ الله - صلى الله عليه وسلم - قال: كذا وكذا". فإنَّ مالكاً مُتَثَبِّتٌ، فلعلَّ بلاغاتهِ أقوى من مراسَيل
حافظ ابن عبد البرؒ تمہید۲۴۔۳۷۵ میں فرماتے ہیں کہ یہ بلاغ اگرچہ موصول نہیں ان کو ملی لیکن اس کا اصول میں معنی بالکل صحیح ہے ۔ اور اس معنی کی تائید مشہور حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں صبح کی نماز رہ گئی سورج طلوع ہوگیا اس میں آپﷺ نے فرمایا کہ بے شک روک رکھا تھا اللہ تعالیٰ نے ہماری جانوں کو اور اگر چاہتا تو وہ پھیر دیتا ہماری جانوں کو سوا اس وقت کے)
مَعْنَاهُ صَحِيحٌ فِي الْأُصُولِ وَقَدْ مَضَتْ آثَارٌ فِي بَابِ نَوْمِهِ عَنِ الصَّلَاةِ تَدُلُّ عَلَى هذا المعنى نحو قول صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ قَبَضَ أَرْوَاحَنَا لِتَكُونَ سُنَّةً لِمَنْ بَعْدَكُمْ
وَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ أَنْسَى كَمَا تَنْسَوْنَ

حافظ ابن عبد البرؒ نے بھی حدیث نسیان کو بلاغ مالک کی تائید میں ہی نقل کیا یعنی ان کے نزدیک بھی ان میں کوئی ٹکراو نہیں۔

التمہید ۵۔۲۰۷ پہ بھی حدیث نوم (جس میں نبی ﷺ کی صبح کی نماز رہ گئی)کو اسی قبیل سے قرار دیتے ہیں ۔

وَنَوْمُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ الْوَقْتِ عَنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ حَتَّى طَلَعَتِ الشَّمْسُ أَمْرٌ خَارِجٌ وَاللَّهُ أَعْلَمُ عَنْ عَادَتِهِ وَطِبَاعِهِ وَطِبَاعِ الْأَنْبِيَاءِ قَبْلَهُ وَأَظُنُّ الْأَنْبِيَاءَ مَخْصُوصِينَ بِأَنْ تَنَامَ أَعْيُنُهُمْ وَلَا تَنَامَ قُلُوبُهُمْ عَلَى مَا رُوِيَ عَنْهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
وَإِنَّمَا كَانَ نَوْمُهُ ذَلِكَ لِيَكُونَ سُنَّةً وَاللَّهُ أَعْلَمُ وَلِيَعْلَمَ الْمُؤْمِنُونَ كَيْفَ حُكْمُ مَنْ نَامَ
عَنِ الصَّلَاةِ أَوْ نَسِيَهَا حَتَّى يَخْرُجَ وَقْتُهَا وَهُوَ مِنْ بَابِ قَوْلِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ إِنِّي لَأَنْسَى أَوْ أُنَسَّى لِأَسُنَّ وَالَّذِي كَانَتْ عَلَيْهِ جِبِلَّتُهُ وَعَادَتُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا يُخَامِرَ النَّوْمُ قَلْبَهُ وَلَا يُخَالِطَ نَفْسَهُ وَإِنَّمَا كَانَتْ تَنَامُ عَيْنُهُ وَقَدْ ثَبَتَ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ إِنَّ عَيْنَيَّ تَنَامَانِ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي وَهَذَا عَلَى الْعُمُومِ لِأَنَّهُ جَاءَ عَنْهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّا مَعْشَرَ الْأَنْبِيَاءِ تَنَامُ أَعْيُنُنَا وَلَا تَنَامُ قُلُوبُنَا وَلَا يَجُوزُ أَنْ يَكُونَ مَخْصُوصًا بِذَلِكَ لِأَنَّهَا خَصْلَةٌ لَمْ يَعِدْهَا فِي السِّتِّ الَّتِي أُوتِيَهَا وَلَمْ يُؤْتَهَا أَحَدٌ قَبْلَهُ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ فَلَمَّا أَرَادَ اللَّهُ مِنْهُ مَا أَرَادَ لِيُبَيِّنَ لِأُمَّتِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبَضَ رُوحَهُ وَرُوحَ مَنْ مَعَهُ فِي نَوْمِهِمْ ذَلِكَ وَصَرَفَهَا إِلَيْهِمْ بَعْدَ طُلُوعِ الشمس ليبن لَهُمْ مُرَادَهُ عَلَى لِسَانِ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَى هَذَا التَّأْوِيلِ جَمَاعَةُ أَهْلِ الْفِقْهِ وَالْأَثَرِ وَهُوَ وَاضِحٌ وَالْمُخَالِفُ فِيهِ مُبْتَدَعٌ وَلِلْكَلَامِ عَلَيْهِ مَوْضِعٌ غَيْرُ هَذَا وَبِاللَّهِ تَعَالَى التَّوْفِيقُ

یعنی انبیا کی آنکھیں سوتی ہیں اور دل نہیں سوتا ۔حدیث کے باوجود خاص موقع کے لئے استثنا ہوا کہ امت کو حکم معلوم ہو جائے ۔ یہ حدیث بھی بلاغ مالک والی روایت کے قبیل سے ہے ۔ اور بقول حافظ ابن عبد البرؒ یہ واضح تاویل فقہاء و محدثین کی جماعت سے منقول ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


حافظ ابن رجبؒ ، فتح الباری شرح صحیح البخاری ۲۔۲۷۱پہ بھی ابن عبد البرؒ کی طرح توجیہہ کرتے ہیں ۔

وقد يكون الله - عز وجل - أنامه حتى يسن لأمته قضاء الصلاة بعد فوات وقتها بفعله، فإن ذلك آكد من تعليمه له بالقول، وقد ورد التصريح بهذا من حديث ابن مسعود، أن النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - لما صلى بهم الصبح ذلك اليوم بعد طلوع الشمس وانصرف قال: ((أن الله - عز وجل - لو شاء أن لا تناموا عنها لم تناموا، ولكن أراد أن يكون لمن بعدكم)) . خرجه الإمام أحمد وغيره.
وهذا يشبه ما ذكره مالك في ((الموطإ)) أنه بلغه عن النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -، أنه قال: ((إنما أنسى لأسن))

اور ج۵ص۱۰۶ پہ بھی یہی توجیح دہراتے ہیں اور ساتھ ایک اور افادہ بھی فرماتے ہیں جو دوسرے نقل نہیں کرتے یعنی ایک اور روایت تائید میں۔
وقد قيل: إن هذا لم يعرف له إسناد بالكلية.
ولكن في (تاريخ المفضل بن غسان الغلأبي) : حدثنا سعيد بن عامر، قال: سمعت عبد الله بن المبارك قال: قالت عائشة: قال رسول الله - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: (إنما أنسى - أو أسهو - لأسن)

یہ بھی مرسل ہے لیکن بڑے امام کی مرسل ہے اور ان کی مرسل ہے جن کا قول ہے اسناد من الدین ۔اس لئے اچھی تائید ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اسی طرح شیخ الاسلام ابن تیمیۃؒ نے بھی اپنی مایہ ناز کتاب منہاج السنۃ ۱۔۴۷۲ میں
اس کو بطور دلیل پیش کیا ہے اور احتجاج کیا ہے ۔

وَأَمَّا النِّسْيَانُ وَالسَّهْوُ فِي الصَّلَاةِ فَذَلِكَ وَاقِعٌ مِنْهُمْ، وَفِي وُقُوعِهِ حِكْمَةُ اسْتِنَانِ الْمُسْلِمِينَ بِهِمْ كَمَا رُوِيَ فِي مُوَطَّأِ مَالِكٍ: " «إِنَّمَا أُنَسَّى أَوْ أَنْسَى لِأَسُنَّ» " . وَقَدْ قَالَ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - " «إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ أَنْسَى كَمَا تَنْسَوْنَ فَإِذَا نَسِيتُ فَذَكِّرُونِي» " أَخْرَجَاهُ فِي الصَّحِيحَيْنِ

یہ ایک اور تائید ہوئی ان کے نزدیک بھی حدیث نسیان اور بلاغ مالک میں کوئی تعارض نہیں ۔
اور بھی بہت کچھ کتابوں میں سے نقل ہو سکتا ہے ۔ لیکن اس بلاغ سے متعلق بات کچھ طویل ہو گئی ۔ جو میرے خیال میں ناگزیر تھی ۔کیونکہ بعض علماء اس میں اور حدیث نسیان میں تعارض محسو س کرتے ہیں جو کہ صحیح معلوم نہیں ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بات اور توجیہہ۔۔۔ملحدین کو مدنظر رکھ کر کی گئی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب حدیث نسیان سے متعلق غلط فہمی کے شکار بھائی کے لئے خصوصاََ اور بلاغ مالک کی ایک اور تائید کے لئے ایک قرآن مجید کی آیت ہے ۔


سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسَى إِلا مَا شَاءَ اللَّهُ
(سورۃ الاعلی)
ہم تمہیں پڑھائیں گے ، پھر تم بھولو گے نہیں ، سوائے اس کے جسے اللہ چاہے ۔


ماننسخ۔۔۔والی آیت میں تو شاید آپ کو لفظ نسخ سے ۔۔سابقہ کتب کا اندیشہ ہو گیا۔۔۔سورۃ اعلیٰ کی آیت میں ایسا کوئی قرینہ نہیں ہے ۔ اس لئے ۔۔اس میں موجود ۔۔الا ما شاء اللہ ۔۔کا استثناء کیوں کیا گیا ہے ۔۔؟
یہ استثنا ء۔۔نسخ کے علاوہ ۔۔۔اس معانی کو بھی شامل ہے ۔۔۔جس میں حکمت کے تحت نبی کریم ﷺ کو سہو و نسیان ہوا۔جس کے بارے میں اوپر بات کی جارہی ہے ۔
ایسا ہی علامہ قرطبی ؒ نے اپنی تفسیر ج۲۰ص۲۱ پہ نقل کیا ہے ۔
علامہ قرطبیؒ کا حوالہ ۔۔۔صاحب سوال کے لئے نہیں ہے ۔۔۔ان کے لئے تو آیت کا متن ہی ہے ۔

عقل وفکر کے اعتبار سے جس طرح یہ بات درست ہے کہ اللہ تعالی نے نبی اکرم ﷺکو اپنے احکام پہنچانے کے لئے مبعوث فرمایا ، اگر حضور اکرم ﷺعام لوگوں کی طرح بھولتے تو دشمنان اسلام کا اسلامی تعلیمات پر اعتراض ہوتا کہ نبی ﷺوسلم کچھ احکام بھول گئے ہیں –
اسی طرح عقل وفکر کے اعتبار سے یہ بات بھی درست ہے امت کے سامنے بعض احکام دین سامنے آنے کی حکمت ، تعلیم کی خاطر وغیرہ۔۔ وجوہات کی بناء پران بہت کم مقامات جو سب کے سامنے ہیں پر نسیان ،سہو ،اللہ کی طرف سے ظاہر کیا گیا۔
اسی قبیل سے حدیث نوم ہے ۔اور میرے خیال میں اسی قبیل سے حدیث سحر بھی ہے ۔
واللہ اعلم۔
اس تحریر میں جوغلطی و کوتاہی موجود ہو تو ضرور آگاہ کریں ۔ جزاک اللہ
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قران بھولنا کیا قران کے غیر محفوظ ہونے کی کوئی دلیل ہے۔

ابوبکر قدوسی
صبح تڑکے فیس بک کو دیکھا تو ایک دوست نے قاری حنیف ڈار صاحب کی پوسٹ پر منشن کر رکھا تھا ...پوسٹ کیا تھی بنا دلیل کے ہمیشہ کی "شہباز شریفانہ انداز " کہ میں نہیں مانتا ، میں نہیں مانتا ...حقیقت یہ ہے کہ اب تو ہمیں بھی اعتراف ہے کہ قاری صاحب دلیل کی کوئی بات نہیں مانتے -
خیر موصوف نے ہشام بن عروہ کی روایت کردہ حدیث کو نبی کریم کی ذات کی تنقیص قرار دیتے ہوے انکار کیا اور وہی جذباتی تقریر کہ جو مولوی حضرات منبر پر چڑھ کے کرتے ہیں -
احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک بار نماز میں بی کریم ایک آیت بھول گئے ، صحابی نے نماز کے بعد یاد دلایا تو آپ نے فرمایا کہ یاد کیوں نہ دلایا ، مراد تھی کہ لقمہ کیوں نہ دیا ..اس پر صحابی نے کہا کہ میں نے سمجھا ممکن ہے آیت منسوخ ہو گئی ہو ..یہی واقعہ عبد اللہ بن عمر کی روایت میں بھی ہے اس میں انہوں نے صحابی کا تذکرہ بھی کیا ہے ،،، اوہ سیدنا ابی تھے کہ جو مشہور قاری بھی تھے ....
ایک واقعے کی روایت سیدہ عائشہ نے بھی کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فلاں آدمی کی تلاوت سے آپ کو ایک بھولی آیت یاد آ گئی -
یہ محض انسانی نسیان کی بات تھی جس کو جذباتی رنگ دے کے توہین رسالت تک بنا دیا گیا .....اور راویان حدیث کو قریب قریب بدیانت بنا کے قاری صاحب نے پیش کیا ...پوسٹ اس طرح لکھی ہے کہ جیسے موصوف کو ہی نبی سے پیار ہے اور راویان حدیث نبی کے دشمن تھے .... اس حدیث کے بنیادی راوی سیدنا ہشام بن عروہ ہیں جھ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے پوتے اور سیدنا ابوبکر صدیق کے نواسے کے بیٹے ہیں ...سیدہ عائشہ صدیقہ ان کی رشتے میں نانی لگتی ہیں ...
اب قاری صاحب نے اپنی پوسٹ میں " حسب اخلاق " لتے لیے ہیں ، اور خوب خوب اپنے بغض کا اظہار کیا ہے ..لیکن قارئین کرام دل چسپ امر یہ ہے کہ امت چودہ صدیوں تک نبی کریم پر اس مبینہ الزام سے ناواقف رہی ..وہ تو بھلا ہوا کہ قاری صاحب کا عالم میں ظہور ہوا اور امت کو خبر ہوئی کہ یہ راوی تو اصل میں نبی کے "دشمن " تھے ...لیکن ایک سوال کا قاری صاحب کئی سال سے جواب نہیں دے پائے ....جناب اگر یہ راوی نبی کے دشمن ہیں ، نبی پر جھوٹ باندھتے ہیں ، نبی کی عزت کا مذاق اڑاتے ہیں اور قران کی حیثیت کو مجروح کرتے ہیں ...تو پھر تب آپ کی غیرت کہاں جاتی ہے کہ جب اسی بخاری کی مسلم ، اور ہشام بن عروہ کی اور امام زہری کی دیگر روایات کو درست ہی نہیں بلکہ دین مانتے ہیں ....ان راویوں کی راویات کو نقل کر کر کے اپنے خطبے بیان کرتے ہیں ....
نبی کریم ایک بشر تھے اور بشر سے نسیان کا ہونا کوئی اچنبہے کی بات ہی نہیں - کہ انسان یوں سٹیج ڈرامہ لگا کے بیٹھ جائے - اور موصوف نے لکھا :
................
"رسول اللہ ﷺ نے قرآن ہماری طرح رٹا لگا کر حفظ نہیں کیا تھا بلکہ اللہ پاک نے اس کو رسول اللہ ﷺ کے قلب پر بذریعہ جبرائیل انسٹال کر دیا تھا "
...................
تو پھر وہ ہر سال جبرائیل کا آ کے نبی کریم کے ساتھ مکمل قران کا دور کرنا کیا ہوا ؟
دوستو ! پھر وحی آتے ہی اس کو لکھنے کے اہتمام کی کیا ضرورت تھی ؟
بلا شبہ نبی کریم قران کے حافظ تھے ، لیکن اس کے باوجود ہمیشہ اہتمام رہا کہ جو قران نازل ہوتا وہ اس کو لکھ لیا جاتا ..اگر یہ لکھنے کا اہتمام صرف دوسروں کے لیے ہوتا تو کبھی یہ لکھے مخطوطے خود بی کے گھر میں موجود نہ ہوتے -
مجھے نہیں سمجھ آتی ہمارے احباب کی عقل سے کیا دشمنی ہے کہ اس کا استعمال حرام ہی کیے بیٹھے ہیں - عقل کی بات ہے کہ اللہ نے جو قران کی حفاظت کا وعدہ کیا تو یہ لکھنے کی ترغیب بھی اسی کی ہدایت ہو گی ، اسی طرح اس صحابی کا آپ کو یاد دلانا بھی اصل میں اللہ کا ہی کیا گیا اہتمام تھا - اور ساتھ بشریت رسول کا اظہار بھی - فرماتے ہیں کہ :
......................
"ایک بات نوٹ کر لیجئے کہ یہ جو بار بار جبلی اور فطری بھولنا کہہ رہے ہیں ـ اللہ پاک نے اسی جبلی اور بشری تقاضے سے بھولنے کی حفاظت کا ذمہ لیا تھا ـ اور صرف ایک بھولنے کا استثناء رکھا تھا کہ اللہ پاک جو آیت منسوخ کرنا چاہے گا وہ بھُلا دے گا ، یعنی جونہی لوح محفوظ میں تعدیل کی جائے گی رسول اللہ ﷺ کے قلبِ مبارک سے آٹومیٹک وہ محو ہو جائے گا ، البتہ بشری تقاضے سے آپ کبھی قرآن نہیں بھولیں گے ،،
...................
لیجئے کمال نہیں ہو گیا ؟ قران میں بہت ایسی آیات ہیں کہ جو منسوخ ہیں مگر آپ کو نہ بھلائی گئی ہیں ، نہ قران سے باہر ہیں بلکہ ابھی بھی تلاوت کی جاتی ہیں - تو وہ اصول کہاں گیا کہ موصوف بیان کر رہے ہیں کہ جو آیت منسوخ کرنی ہو گی وہ بھلا دی جائے گی ؟
اسی طرح جب قران نازل ہو گیا ، کاغذ پر لکھا گیا ..لوگوں تک پہنچ گیا ..تو اگر بھلانا مقصود نسخ ہو گیا تو لوگوں کو کس طرح خبر ہو گی کہ یہ آیت تو نبی کریم کو بھلا دی گئی ہے اور آپ بھول چکے ہیں اور لوگ اسے تلاوت کیے جا رہے ہیں - دیکھیے نا نبی کریم تو گئے بھول ..اور جب بھول ہی گئے تو دوسروں کو کیسے خبر دے سکیں گے کہ یہ آیت تھی اب نہیں ہے ،،کیونکہ یہ بتانے کے لیے بھی تو یاد رکھنا ضروری ہے نا ...
قران کا منسوخ ہونا بھلاے جانے کے ساتھ لازم ہے ہی نہیں - قران میں تو بہت سی ایسی آیات ہیں کہ جو نہ تو بھلائی گئیں ،اور نہ ہی نکالی گئی ، تلاوت بھی جاری ہے لیکن منسوخ ہیں جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ امَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ ‘‘ (البقرۃ: ۱۸۳)
اس آیت کریمہ میں اہل کتاب کی طرح روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا تھا کہ رات کو سو جانے سے پہلے پہلے کھانے کی اِجازت تھی، اور اگر کوئی سو گیا تو اس پر کھانا اور بیوی دونوں حرام تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اُمت ِمحمدیہ پر قلت ِتکلیف کے پیش نظر اس کو منسوخ کر دیا۔
عمر بن خطاب اور قیس بن صرمہ رض سے پیش آنے والے واقعات اس ناسخ آیت کے نزول کا سبب بنے:
’’ اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَاؓئِکُمْ … وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ‘‘ (البقرۃ: ۱۸۷)
پہلی آیت میں لفظ کما میں حکم اور وصف دونوں پائے جاتے ہیں- وصف یہ کہ اسی طرح روزے فرض ہیں جس طرح سابقہ امتوں پر یعنی انہی کے طریقے سے رکھنے پڑیں گے ۔ لیکن اس بعد والی مذکورہ آیت سے حکم بعینہٖ باقی رہا لیکن وصف منسوخ ہو گیا۔
اسی طرح شراب والی آیت ہے کہ جس میں نشے کی حالت میں نماز سے منع کیا گیا ، اس کا مفھوم واضح ہے کہ شراب یوں تو پینا جائز تھا لیکن اگر نشہ ہے تو نماز پڑھنا جائز نہ تھا ..اب یہ آیت بھی قران میں موجود ہے لیکن منسوخ ہے - تو ضروری نہیں کہ جو آیات منسوخ ہیں وہ ضرور بھلا ہی دی گئی تھیں -اور ساتھ ہی موصوف اس بات کا کوئی جواب بھی نہیں دے سکے کہ نبی کریم کو تو بھلا دی گئیں لیکن جن صحابہ کے پاس ان کے نسخوں میں لکھی ہوئی تھیں ان کا کیا ہوا ؟-
دوستو ! روایت میں محض ایک انسانی نسیان کا ذکر تھا جو بشریت کا اولین وصف ہے ، اس کا حفاظت قران سے کوئی تعلق نہ تھا ..لیکن حدیث دشمنی میں بات کا بتنگڑ بنا دیا گیا - ایک انسانی وصف کے اظہار اور اس کی خبر پر بے کار شور کیا جا رہا ہے ..اور کمال یہ ہے کہ ڈیڑھ ہزار سال امت اس حدیث کو تسلیم کرتی رہی اور بلاشبہ شک کے تسلیم کرتی رہی - کسی کی غیرت نہ جاگی کہ جی اس حدیث سے تو قران مشکوک ہو رہا ہے ...چودہ صدیوں بعد ہمارے دوستوں پر کوئی نیا الہام ہوا اور خبر ہوئی کہ جی قران کو تو اس روایت سے خطرہ لاحق ہو گیا -
اور آخری بات ! حدیث میں نبی کریم کے الفاظ ہر کچھ واضح کر رہے ہیں کہ جب صحابی نے آپ کو آیت یاد دلائی تو فورا آپ کو یاد بھی آ گئی ..اس کا مطلب ہے کہ بھولی تھی ہی نہیں ...
جو بہت پختہ حافظ ہوتے ہیں کئی کئی سال تراویح میں غلطی نہیں کرتے ..اور کبھی ان سے غلطی ہو جائے تو ان کو یاد دلا دیا جاتا ہے ، وہ فورا درست کر لیتے ہیں ...یعنی ان کے دماغ کی ہارڈ ڈسک میں موجود ڈیٹا بالکل درست ہوتا ہے ، وقتی ایرر یعنی نسیان کا غلبہ ہو جاتا ہے .. پیچھے سے سامع کا لقمہ دراصل وہی درستی ہوتی ہے جو لاشعور سے شعور کی طرف آنے والے ڈیٹا کے ایرر کو دور کرتی ہے ..اس کو کوئی بھی نہیں کہتا کہ قران بھولا جا چکا ہے یا قران غیر محفوظ ہو گیا ....
یہی معاملہ تب ہوا تھا کہ جونہی آپ کو یاد دلایا گیا تو حافظے کی ہارڈ ڈسک سے فورا اصل فائل کھل گئی ...یعنی آپ بھولے ہی نہیں تھے اور نہ قران غیر محفوظ ہو گیا تھا -
 
Top