• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

منکر قراء ات علامہ تمناعمادی کے نظریات کاجائزہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
منکر قراء ات علامہ تمناعمادی کے نظریات کاجائزہ

اِفادات : قاری محمد طاہر رحیمی
جمع و ترتیب: قاری محمد صفدر​
علم قراء ات کو اردو زبان میں منتقل کرنے میں پانی پتی سلسلہ کے مشائخ ِقراء ات کی خدمات برصغیر کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ اس سلسلہ کی نمایاں شخصیات(شیخ المشائخ قاری محی الاسلام عثمانی پانی پتی رحمہ اللہ، شیخ القراء قاری محمد فتح اعمی پانی پتی رحمہ اللہ، شیخ القراء قاری رحیم بخش پانی پتی رحمہ اللہ اور شیخ القراء قاری محمدطاہر رحیمی رحمہ اللہ) کے نام اپنی عظیم خدمات کی بنا پرآب ِزر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ ان مشائخ میں آخر الذکر اس اعتبار سے فائق ہیں کہ علم تجوید و قراء ات کے علاوہ دیگر علوم میں بھی مہارت تامہ رکھتے تھے۔ درس نظامی، عالمیہ کے امتحانات میں انہوں نے ’وفاق المدارس العربیہ‘ میں پاکستان بھر میں اَول پوزیشن حاصل کی۔ اسی وجہ سے علم ِقراء ات کے تعارف، حجیت وثبوت وغیرہ پر انہوں نے مفصلا قلم اٹھایا۔ کشف النظر اردو ترجمہ کتاب النشر کا ساڑھے چار سو صفحات پر لکھا گیا مقدمہ ہویا علامہ تمنا عمادی کے انکارِ قراء ات کے نظریات کا تفصیلی رد، ان کی قابلیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
مجلس التحقیق الاسلامی کے رفیق کار جناب قاری محمد صفدر حفظہ اللہ نے علامہ تمنا عمادی کی کتاب ’اعجاز قرآن واختلاف قراء ات‘ پر شیخ القراء قاری طاہر رحیمی رحمہ اللہ کی تقریبا ہزار صفحات پر مشتمل مفصل کتاب ’دفاع قراء ات‘ کی قارئین ِ رشد کے لیے یوں تلخیص کردی ہے کہ علامہ تمنا کے نمایاں اعتراضات وشبہات کا شافی جواب سامنے آگیا ہے۔ تفصیلی نقد کے شائقین اصل کتاب کی طرف رجوع فرما سکتے ہیں۔ (ادارہ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ماضیہ ہے کہ اس نے انسانوں کی رشد وہدایت اور راہنمائی کے لیے انبیاء کاسلسلہ جاری فرمایا اور انہیں تعلیمات سے نوازا تاکہ وہ بغیر کسی ٹیڑھ اور کج رَوی کے لوگوں کو ظلمت کے گھٹاٹوپ اندھیروں سے نکال کر ہدایت اورروشنی دکھائیں۔اس سلسلہ کی آخری کڑی جناب محمد رسول اللہﷺ کو قرآنی معجزہ کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ یہ ہردور کے لوگوں کی روِش رہی ہے کہ انہوں نے تعلیمات انبیاء کا انکار اور استہزاء کیا۔جب آپﷺ نے اپنی نبوت کا اِعلان کیا اور مشرکین مکہ پر قرآن پیش کیاتو وہ آپﷺ کے درپے ہوگئے اور آپ کی تعلیمات کااِنکار کرنے کے لیے طرح طرح کے حیلے بہانے تراشنے لگے،کبھی تو آپﷺ کی ذات مبارکہ پر طعن و تشنیع کرتے ہوئے آپ کو مجنون،جادوگر اور مخبوط الحواس کہا اور کبھی انکار قرآن کے لیے اسے اَساطیر الاولین، اَقوام عالم کے قصے کہانیاں اور اختراعی باتیں قرار دیا، لیکن وہ اپنے ارادوں میں ناکام رہے۔
کفر کی پیشانی پہ ہے خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
جس طرح ماضی میں اعداء اسلام نے قرآن اور اس کی تعلیمات کو تارِ عنکبوت ثابت کرنے کی سعی لاحاصل کی۔ اسی طرح موجودہ زمانہ میں بھی مستشرقین نے اپنی بھرپور کوشش اور وسائل کو صرف کیا جس کی وجہ سے چند ضعیف الاعتقادات اورسطحی علم رکھنے والے ’’علامہ صاحبان بھی ان باطل نظریات و عقائد کے نہ صرف حامی ہوئے بلکہ ان کی ترویج و اِشاعت میں بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ انہی میں سے ایک علامہ تمنا عمادی ہیں جنہوں نے اس کارِ خیر میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے ’جمع قرآن اوراعجاز القرآن ‘ نامی کتب تحریر کیں لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں خاب وخاسر اور ناکام ونامراد کرنے کے لیے ایسے افراد پیدا کئے، جنہوں نے قرآن اور اس کے متعلقہ علوم معارف کو خوب اَحسن طریقے سے لوگوں کے سامنے واضح کیا۔
ان کتب میں موصوف نے قراء اتِ قرآنیہ کو باطل ثابت کرنے کے لیے کبھی تو انہیں اختراع قراء کہا اور کبھی ناقلین پر جرح کی اور کبھی روایات جمع و تدوین قرآن اوراَحادیث سبعہ اَحرف کو روافض وملاحدہ کی طرف سے وضع کردہ قرار دیا۔ زیر نظر مضمون میں ہم انہی کے اعتراضات کا جائزہ پیش کریں گے۔ موصوف کے اِعتراضات بنیادی طور پر دو طرح کے ہیں:
(١) قراء اتِ قرآنیہ اختراع روافض و ملاحدہ ہیں۔
(٢) قراء و ناقلین قراء ات پرجرح۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ذیل میں ہم انہی کو بیان کرتے ہیں:
پہلی قسم کے اعتراضات اور ان کے جوابات
قراء اتِ قرآنیہ کے موضوع ہونے کے دلائل دیتے ہوئے کہتے ہیں:
(١) مصاحف کا غیر منقوط اور غیر معرب ہونا اختلاف قراء ات کی دلیل نہیں بن سکتا اور یہ کہنا غلط ہے کہ قرآنی نقاط و اِعراب بعد کی ایجاد ہیں۔اگر نقطے بعدمیں ایجاد کئے گئے تو عرب متشابہ الصور حروف میں تمیز کیسے کرتے تھے۔ جب عربی حروف وضع کئے گئے اسی وقت سے نقطے بھی وضع کئے گئے ہیں، کیونکہ ابن عباس5 کا قول ہے سب سے پہلے نقطے عامر بن جدرہ نے وضع کئے اس قول کو ابن ندیم نے الفہرست ص۷ میں نقل کیا ہے، اسی طرح عثمان جنی نے أمالي میں عہد جاہلیت کاایک شعر بطورِ استشہاد نقل کیا ہے کہ نقطے پہلے سے ہی ہیں۔ وہ شعر یہ ہے:
رعتنی بسھم نقطت منہ جفتنی
وإذ نفطت عین نذرف کالغین​
اس کام کے کرنے کے نسبت حجاج جیسے فاسق فاجر کی طرف کی جاتی ہے اور ایسے آدمی سے اسلام کے لیے خیر کی کیسے توقع کی جاسکتی ہے۔ ؟ (ملخصاً اعجاز القرآن)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جوابات
مذکورہ بالااعتراضات کے جواب مندرجہ ذیل ہیں:
(١) قرآن مجید کے لفظ اور اعراب کی موجودہ شکل قطعاً قبل از اسلام موجود نہ تھی اور اس بات کا جناب کو بھی اِعتراف ہے۔علامہ موصوف اپنی کتاب ’إعجاز القرآن‘ میں جہاں مصاحف کا تعارف کرواتے ہیں وہاں جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مصحف کا تعارف پیش کیا تو اس میں یہ بات لکھی ہے کہ اس مصحف پرجسے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ سے تحریر کیا تھا،اعراب موجودہ شکل میں نہیں بلکہ سرخ روشنائی سے نقطوں کی صورت میں لگے ہوئے ہیں۔(إعجاز القرآن)
(٢) علامہ عبدالعظیم زرقانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’یہ بات معروف ہے کہ مصاحف عثمانیہ نقطوں سے خالی تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ تمام منقول وجوہ قراء ات اس سے اَخذ کی جاسکیں۔ اگرچہ وضع نقاط میں مؤرخین کااختلاف ہے، لیکن یہ بات بالکل درست ہے کہ مصاحف میں موجودہ نقطوں کا کام عبدالملک بن مروان کے عہد میں ان کے حکم سے حجاج بن یوسف نے،یحییٰ بن یعمر اور نصر بن عاصم سے لگوائے۔‘‘ (ملخصاً مناھل العرفان: ۱؍۳۹۹،۴۰۰)
(٣) علاماتِ اعراب کے متعلق علامہ زرقانی رحمہ اللہ کاقول :
’’اس بات پر مؤرخین کا اتفاق ہے کہ عرب اولاً حروف و کلمات کے اِعراب سے ناآشنا تھے وہ زبان دانی میں ماہر تھے۔ اس لیے اس کی ضرورت محسوس نہ کرتے تھے۔ہاں جب عجمی مسلمان ہوئے تو قرآن و لغت قرآن پر زیادتی کرنے لگے اور ابوالاسود الدؤلی والا واقعہ بیان کیاہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو ’’إن اﷲ برئ من المشرکین ورسولہٖ‘‘ غلط پڑھتے سنا تو زیاد کے حکم کوبجا لاتے ہوئے زبر، زیر اور پیش وغیرہ کی علامات مقرر کیں جو نقطوں پر مشتمل تھیں ۔بعد میں عبدالمالک بن مروان نے اِعراب اور نقطوں کی موجودہ صورتیں وضع کروائیں۔ ( ملخصاً مناہل :۱؍۴۰۱،۴۰۰)
(٤) خزینۃ الاسرارص۱۴ میں روح البیان کے حوالہ سے بھی یہی بات تاریخی پس منظر کے ساتھ موجود ہے۔ صاحب اسرار نے باب قائم کیا ہے’’أول من وضع الاعراب والنقط الذین فی المصاحف العظیم‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دلیل نمبر ۲ کا جواب:
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ عربوں میں لکھے پڑھے افراد بہت کم تھے ان میں زیادہ تر حفظ پر اعتماد تھا (اور جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے وہ قدرت کی طرف سے ودیعت کردہ ملکہ کے ساتھ ان میں امتیاز کرلیتے تھے) جب ان کا عام معاملہ حفظ سے ہوتا تھا تو پھر نہ کتابت رہی نہ ممتاز کرنے کی ضروت پیش آئی۔ دوسری بات یہ کہ اس وقت ان میں امتیاز کے لیے موجودہ نقطے استعمال نہیں کئے جاتے تھے بلکہ کسی کے شوشے کو موڑا ہوا ہوتا کسی کے شوشے کو بڑھایاہوا ہوتا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دلیل نمبر ۳:
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ نقطے حجاج نے خود نہیں لگائے بلکہ اس وقت کے علماء نے لگائے۔دوسری بات یہ کہ نقطے حجاج کے حکم پر نہیں عبدالملک بن مروان کے حکم پر لگوائے گئے ۔ حجاج محض سرکاری نگران تھا۔ اگر حجاج نے لگائے یا لگوائے ہوں تب بھی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اگر یہ کام غلط ہوتا تو اس وقت کے علماء اس کی ضرور مخالفت کرتے کہ اس نے قرآن میں معاذ اللہ تحریف لفظی یا معنوی کی ہے۔ بھلے حجاج جیسا آدمی بھی ہو، لیکن اللہ تعالیٰ اس دین کی نصرت کبھی فاسق آدمی سے بھی کرواتے ہیں ،جس طرح شیطان نے آیۃ الکرسی کاوظیفہ بتایا۔
تیسری بات یہ کہ ایک طرف تو محترم سعید بن جبیر اور عاصم بن ابی النجود کے اقوال کی بنا پر حجاج کو فاسق بنا رہے ہیں اور دوسری طرف جب قراء پر جرح کرتے ہیں تو اسی فاسق آدمی (بقول ان کے) کی جرح سے مذکورین کو مجروح قرار دیتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دلیل نمبر ۴: شعر جاہلی:
موصوف نے اپنی اس بات کی ایک دلیل یہ دی ہے کہ کتاب ’الامالی‘میں ابن جنی متوفی ۳۹۳ھ نے بھی ابتداء سے ہی عربی حروف پرنقطوں کا دعویٰ کرتے ہوئے دلیل کے طور پر یہ شعر نقل کیا ہے۔
رمتنی بسھم نقطت منہ جفنتی
واذ نفطت عین نذرف کالعین​
’’ جب کسی آنکھ پر نقطہ جیسا زخم لگا تو وہ بادل کے برسنے کی مانند رونے لگی۔‘‘
جواب:اس شعر میں نقطہ کا ذکر ہے وہ موجودہ نقطوں کی بات نہیں ہے اور مزید یہ کہ نقطے صرف متشابہ حروف میں امتیاز کے لیے نہیں بلکہ اعتبارو محوس کی علامات کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دلیل نمبر ۵: ابن ندیم کا کہنا کہ عامر نے نقطے لگائے؟
سب سے پہلے تو ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اس قول کی استنادی حیثیت کیا ہے؟ دوسرا یہ کہ اس قول کی صحت ثابت بھی ہوجائے تو صرف یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک مؤقف یہ بھی تھا، لیکن جمہور مؤرخین و محققین کے ہاں معتبر مذہب دوسرا ہے اور اس مؤقف کوبھی سامنے رکھا جائے تو اس میں حالیہ نقطوں کی بات نہیں ہورہی اور مزید یہ کہ تاریخی شواہد، آنحضرتﷺ کے مکتوباتِ گرامی اور دیگر تحریرات بھی اس بات پر دلیل ہیں کہ اس وقت حروف نقطوں سے اور کلام اِعراب سے خالی ہوتی تھی۔
اِعتراض نمبر ۲: اختلاف قراء ت کا سبب مصاحف کا نقطوں اور اعراب سے خالی ہونا ہے نہ کہ رسول اللہﷺ سے منقول ہونا، کیونکہ رسول اللہﷺ کی تعلیمات لوگوں کے لیے مختلف نہیں ہوسکتیں۔
جواب: یہ عجیب منطق ہے کہ ایک طرف تو علامہ موصوف مصاحف کے نقاط و اعراب کے قائل ہیں اور دوسری طرف یہ بات کررہے ہیں کہ اختلاف قراء ت نقطے و اعراب نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوا۔ دوسری بات یہ کہ اختلاف قراء ت اگر مصاحف کے خالی از نقاط و اعراب کے سبب وجود میں آیا تو اس طرح تو اور بہت سارے اختلاف ہوسکتے تھے اور رسم میں ان کی گنجائش بھی موجود تھی لیکن وہ اختلافات نہ کسی نے پڑھے اور نہ نقل کئے مثلاً سورہ بقرہ:۴۸ میں ہے۔’’یَوْمَ لَا تَنْفَعُھَا شَفَاعَۃٌ‘‘ اور اسی سورۃ کی آیت نمبر :۱۲۳ میں دیکھیں تو ’’یَنْصُرُوْنَ‘‘ ان کو نہ کسی نے ینفعھااور نہ کسی نے تنصرون نقل کیاہے۔
اس سے اور اس جیسی دیگر مثالوں سے یہ بات واضح ہوئی کہ اختلاف قراء ت کا سبب مصاحف کا نقطوں سے خالی ہونا نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس اختلاف قراء ت کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن کا خاص رسم اختیار کیاگیا۔ نیز یہ کہ اختلاف قراء ت کا اصل مدار زبانی تلقین و تعلیم پر ہے جس کی زبردست دلیل یہ ہے۔ قرآن مجید میں بے شمار ایسے کلمات ہیں جن میں ایک طرح سے زائد ادائیگی کے احتمالات ہیں لیکن انہیں صرف ایک طرح پڑھا گیاہے اسی طرح بہت سے کلمات مرسومہ کا تلفظ رسم کے خلاف ہے مثلاً جآء ئ مثلاً ’الم‘ کیااس کو کبھی کسی نے الم پڑھا ہے لاذبحنّہ، کو کبھی کسی نے لا اذبحنہ پڑھا ہے ، نہیں تو اس کا مطلب سوائے اس کے کیا ہے کہ اختلاف قراء ت محض رسم پر منطبق نہیں ہوتا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اسی طرح وہ روایات جن میں صحابہ کے اختلاف قراء ت کی بات ہے وہ بھی اس بات پر شاہد ہیں کہ رسم مصاحف کی وجہ سے اختلاف قراء ت رونما نہیں ہوا بلکہ یہ تو اس سے بہت پہلے کی بات ہے کیونکہ مصاحف تو اس وقت موجود نہ تھے۔معلوم یہ ہوا کہ اختلاف قراء ت مصاحف میں نقطے اور اعراب نہ ہونے پر منحصر نہیں ہے بلکہ صحیح سند اور سماع پر محمول ہے اس میں ذاتی رائے یا اجتہاد کو کوئی عمل دخل نہیں ہے۔جیسا کہ امام شاطبی قصیدہ شاطبیہ کے باب قراء ات میں فرماتے ہیں۔
وما لقیاس فی القراء ۃ مدخل
فدونک ما فیہ الرضا متکفلا​
اور اسی طرح امام نافع اور ابوعمرو بصری سے بھی منقول ہے کہ اگر قراء ات میں نقل و روایت کی پابندی نہ ہوتی تو میں فلاں حرف کو فلاں طرح اور فلاں کو فلاں طرح پڑھتا۔ (النشر:۱؍۱۷، إبراز المعانی ص۴)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِعتراض نمبر ۳:
اِختلاف قراء ات کوفہ میں روافض کے ایجنٹوں نے گھڑ کر مختلف وضعی سلسلہ اَسانید کے ساتھ ان کو معروف کیا۔
جواب: قراء ات اسلامی مراکز میں بطورِ حجت تسلیم کی جاتی تھیں۔
علامہ موصوف کے اعتراض کے پہلے حصے پراگر غور کیاجائے تو یہ بات سمجھ آتی ہے کہ قراء ات اسلامی مراکز میں بطورِ حجت شرعیہ اور قرآن کے تسلیم شدہ تھیں۔ تب ہی تو لوگوں نے قراء ات وضع کرنا شروع کیں تاکہ منقول قراء ات کے مقابلہ میں خود ساختہ پیش کرکے اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کیا جاسکے۔اگر قراء ات حجت ہی نہ تھیں،ان کا کوئی وجود ہی سرے سے نہ تھا تو ان کو گھڑنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی، کیونکہ جب ایک نئی چیز جو غیرقرآن تھی، قرآن کے طور پر پیش کی جاتی تو لوگ اسے کیونکر قبول اور تسلیم کرتے؟
 
Top