• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

منہج سلف کا مفہوم اوراہمیت

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
منہج سلف کا مفہوم اوراہمیت

ڈاکڑ سید شفیق الرحمن حفظہ اللہ
اہل سنت کا منہج تعامل
سلف اور منہج سلف کا مفہوم و معنی:
منہج سلف سے مراد دین کو سمجھنے کا وہ منہج ہے جو صحابہ کرام،تابعین عظام اورتبع تابعین رحمہم اللہ کے ہاں پایا گیا۔جسے ائمہ اہل سنت نے اپنی کتب میں محفوظ کرتے ہوئے ہم تک منتقل کیا۔اس منہج پر چلنے والے گروہ کو اہل سنت والجماعت کہتے ہیں اور اس کوترک کرنے والا گروہ اہل بدعت کہلاتا ہے۔
علامہ خلیل ھراس رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’جماعت کا مطلب ہے اجتماع،اس کی ضد فرقہ ہے۔جب’’جماعت‘‘کا لفظ’’سنت‘‘کے ساتھ بولا جائے مثلاً اہل السنۃ والجماعۃ تو وہاں اس امت کے سلف مراد ہوتے ہیں یعنی صحابہ اور تابعین جو اللہ کی کتاب اور رسول اکرمﷺکی سنت مطہرہ سے ثابت شدہ حق صریح پر رہے ہوں‘‘(شرح الواسطیۃ ازھراس،ص:۱۶)
منہج سلف کی دو اساسی بنیادیں مصدر تلقی اور منہج تلقی ہیں۔
مصدر تلقی:

دین کہاں سے لینا ہے اسے مصدر تلقی کہتے ہیں۔دین کے مصدر صرف اورصرف کتاب و سنت ہیں،اس کے علاوہ کوئی چیز دین کا مصدر نہیں ہے۔
آپﷺنے فرمایا:
’’میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے چلا جا رہا ہوں جب تک تم انہیں مضبوطی سے پکڑے رکھو گے ہر گز گمراہ نہ ہوگےایک اللہ کی کتاب اوردوسری اسکے رسول کی سنت‘‘(المستدرک علی الصحیحین کتاب العلم۱/۹۳)
کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺہی وہ ذریعہ ہےجس سے ہمارے ایمان اور عمل کی اصلاح ہوتی ہے۔کتاب و سنت وہ ذخیرہ ہے جس کی تازگی کا کوئی بدل نہیں،کوئی چیز ان کا متبادل نہیں۔ہر دور میں ایمان کی پیاس صرف اورصرف کتاب و سنت سے ہی بجھ سکتی ہے کیونکہ یہ ایک مومن کا اصل نصاب ہے۔ایک طالب علم قرآن و سنت سے فائدہ اٹھانے کے لیےمنطق اور فلسفہ کا محتاج نہیں۔
اس لیے ہر وہ شخص اور گروہ جو دین لینے کے لیےکتاب و سنت کے علاوہ کسی اور چیز کو مصدر تسلیم کرتا ہےگمراہ اور بدعتی ہے،جیسے رافضہ اپنے ائمہ کے اقوال کو،معتزلہ’عقل‘کو،صوفیہ کشف و الہام کوسیکولر’خواہش نفس‘کودین کے مصدر کی حیثیت دیتے ہیں،یہ تمام گروہ ہلاکت کی طرف بلانے والے ہیں،عقیدہ کی اصطلاح میں انہیں اہل بدعت کہا جاتا ہے۔
اہل سنت کے ہاں دین کے مصادر کے حوالے سے اتفاق پایا جاتا ہے کہ یہ کتاب و سنت کے علاوہ اور کوئی نہیں۔جس طرح کتاب اللہ قرآن مجید اللہ کی وحی ہے اسی طرح حدیثﷺبھی اللہ کی وحی ہے۔ان میں سے کسی ایک کا انکار بھی کفر ہے۔
منہج تلقی:

دین کیسے لینا ہے؟اسے منہج تلقی کہتے ہیں۔
منہج کے حوالے سے اہل سنت کی طرف منسوب گروہوں اور افراد میں کئی ایک خامیاں پائی جاتی ہیں۔
مصدر تلقی اور منہج تلقی میں فرق نہ کرنا
بہت سارے لوگ منہج تلقی اور مصدر تلقی میں فرق نہیں کرتے۔چنانچہ اگر ان سے کہا جائے تم نے دین کا فہم کہاں سے حاصل کیا ہے؟وہ جواباً کہتے ہیں’’قرآن و حدیث‘‘سے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ رہتی دنیا تک حق کا پیمانہ قرآن و حدیث کے سوا اور کوئی نہیں ہےمگر یہاں سوال کی نوعیت مختلف ہے۔زیادہ واضح کرنے کے لیے ہم سوال یوں رکھ دیتے ہیں کہ’’آن نے قرآن و حدیث کو کہاں سے سمجھا ہے؟‘‘
آخر قرآن و حدیث کو بھی سمجھنے کا بھی تو کوئی ذریعہ ہوگا؟یہ ذریعہ یہاں کے درسی نصاب ہیں؟تنظیمی لڑیچر ہے؟اسٹال پر فروخت ہونے والی کتب اور رسائل ہیں؟جلسے اور پروگرام ہیں؟تقریری اور تحریری مناظرے ہیں؟ادیبوں اور شاعروں کا کلام ہے؟’ذاتی مطالعہ‘ہے؟ریڈیو اور ٹی وی کی دینی نشریات ہیں؟اخبارات کے روحانی ایڈیشن ہیں؟۔۔۔یا پھر منہج سلف؟
جو صرف علمائے اہل سنت کے ہاں سےہی ملتا ہے۔یاد رہے ہمارا مقصد کسی لڑیچریا تقریر و تحریر کی افادیت کم کرانا نہیں۔اصل بات یہ ہے کہ یہ لڑیچر،نصاب،پروگرامز جن سے ہم جڑے ہیں اُن کے بارے میں یہ دیکھنا ہے کہ وہ’’سلف‘‘سے کس قدر جوڑتے ہیں اور اپنے آپ سے کس قدر؟
قرآن و حدیث دین کا اصل مصدر ہیں۔بلکہ دین ہیں۔یہ بات ہر بحث اور شبہ سے بالاتر ہے۔اس کے سوا رب تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے اپنے رسول ﷺپر کچھ نہیں اتارا۔دین کا یہ منبع محکم ہے اور اپنے آپ میں انتہائی واضح۔مگر پھر بھی اس کی’’ تفسیر‘‘ اور’’بیان‘‘ایک باقاعدہ علم ہے اور اس علم کو درست طور پر جاننے اور سمجھنے والے تاریخی طور پر کچھ متعین لوگ ہیں۔کیا سب لوگ قرآن و حدیث کو ایک ہی طرح سمجھ سکتے ہیں؟
سچ تو یہ ہے کہ درست مراجع اورصحیح ضوابط نہ ہوں توقرآن و حدیث کو صحیح معنوں میں سمجھا بھی نہیں جا سکتا۔
یہ درست مرجع اور علم فہم سلف کا نام ہے۔جس کے بغیر اس دین کو سمجھنا گمراہی کے دروازے کھولنا ہے۔
آیات اور احادیث کے فہم اور تطبیق کے بارے میں جب بعض لوگوں کو صحابہ اورسلف کے راستے کی پابندی کرنے کو کہا جاتا ہے تو وہ جواب دیتے ہیں:’’ہم ان کی بات کیوں مانیں،وہ کوئی نبی تو نہیں ہیں؟حقیقت تو یہ ہے کہ سلف اور ائمہ کے اقوال کا اللہ اور اس کے رسول کے قول سے مقابلہ نہیں بلکہ وہ اللہ اور اس کے رسولﷺکے فرامین کا’’فہم‘‘حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں۔اس بات کو خود اللہ اوراس کے رسول نے بیان فرمایا ہے۔
نماز کی ہر رکعت میں یہ دعا اس حقیقت کو بیان کرتی ہے۔
صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْۦغَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَؒ(سورۃ الفاتحہ:۷)
’’ہمیں ان کی راہ چلا جن پر تو نے انعام کیا نہ کہ ان کی جن پرتیرا غضب ہوا اور نہ گمراہوں کی‘‘
جاری ہے۔۔۔۔۔۔​
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
سلف امت۔۔۔نہ کے اکابرین جماعت

ایک طرف وہ لوگ ہیں جو سلف کے فہم سے آزاد ہوکرقرآن و سنت کو اپنی،اپنی جماعتوں اور گروہوں کی تحقیق سے دیکھتے ہیں تو دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو سلف کی اتباع کے نام سے اُن متاخرین سے جڑے ہوئے ہیں کہ جن میں بدعات بلکہ بسااوقات شرک تک پایا جاتا ہے۔وہ انہیں سلف کے اس مقدس مقام پر فائز کیے ہوئے ہیں کہ جو مقام صحابہ کرام،تابعین وتبع تابعین کا ہے۔یہ بھی سیدھی راہ سے ہٹی ہوئی سوچ اور فکر ہے۔
ہمارے معاشرے میں’’اکابرین‘‘ اور ’’بزرگوں‘‘کی اصطلاح بکثرت استعمال ہوتی ہے۔اپنے بڑوں کا احترام کرنا اور ان کے علمی ورثہ کو قیمتی جاننا بے حد مستحسن امر ہے مگر انہیں قرآن وسنت کے فہم کا معیار سمجھنا اور جو کچھ انہوں نے کہہ دیا اسے ناقابل تنقید جاننا نہایت غلط روش ہے۔یہ حیثیت تو صرف پہلے تین زمانوں کے سلف صالحین کو حاصل ہے کہ کتاب و سنت کی تشریح میں جس بات پر وہ متفق رہے اُسے ناقابل تنقید جانا جائے۔باقی جو کچھ ان کے بعدوجود میں آیا ہے بہرحال اس کی تحقیق کرنا اور اسے کتاب وسنت کے سلفی مفہوم پر پرکھنا بے حد ضروری ہے۔
آج سے دوسو سال پہلےآنے والے بزرگوں اور بڑوں کو سلف کا مقام دینا نہایت غلط ہے۔صفات باری تعالیٰ میں اشعریت و ماتریدیت کی تاویلات،صوفیاء کے چشتی،نقشبندی،سہروردی اور دیگر سلسلے،علم کلام اور علم تصوف کیاابوبکر،عمر اور ابن مسعودرضی اللہ عنہم ایسی اسلام کی نسل اول کے ہاں پا ئے گئے ہیں؟یا عمر بن عبدالعزیز،مجاہد اور عکرمہ رحمہ اللہ علیہم ایسی اسلام کی نسل دوئم سے منقول ہیں؟یا یہ سب کچھ امام ابو حنیفہ،مالک،شافعی،ابن حنبل،ثوری رحمہم اللہ ایسی نسل سوئم کے علمی ذخیروں میں پایا جاتا ہے؟۔۔۔یا پھر یہ پہلے تین زمانے گزر جانے کے بعد امت میں دیکھی جانے لگیں؟
کسی چیز کی تعظیم میں خاموش ہو اجاسکتا ہے تو وہ کتاب اللہ،سنت رسول اللہﷺ اورخیرالقرون کا فہم اسلام ہے۔اس کے سوا کوئی ایسی چیز نہیں جس پر بات نہ ہوسکے۔
یہ سوچ کہ بزرگوں نے کتاب و سنت سے جو نچوڑ نکالنا تھا وہ نکال لیا ہے اور ہمیں بزرگوں پر ہی انحصار کرناہے،نسل درنسل اب قیامت تک انہی کی دہرائی ہوئی باتوں عبارتوں کو دہرانا ہے۔۔۔ہلاکت خیز سوچ ہے۔کتاب و سنت کا نچوڑ نکالنے کا کیا مطلب؟یہ تو وہ چشمہ ہے کہ اس سے جتنا بھی نکالا جائے اس کی سطح ذرا بھر بھی نیچی نہ ہو۔زمانے اس سے سیراب ہو لیں اس میں کچھ کمی نہ آئے۔پھر نچوڑ کے حق ہونے کے لیے بھی لازم ہے کہ یہ’’سلف صالحین‘‘سے سند یافتہ ہے۔
’’فہم سلف‘‘کتاب و سنت کا متبادل نہیں بلکہ وہ وحی کے چشمہ سے سیراب ہونے کا ہی وہ ادب اور طریقہ ہے جس کے بغیر انسانوں کو شفا اور سریابی ہونے کی بجائے کوئی روگ لگ سکتا ہے۔ارشاد ربانی ہے:
يُضِلُّ بِهٖ كَثِيْرًا وَّ يَهْدِيْ بِهٖ كَثِيْرًا(سورۃ البقرہ:۲۶)
’’بہتوں کو وہ اس کے ذریعے ہدایت دیتا ہے اور بہتوں کی گمراہی‘‘
فہم سلف کسی ایک امام کی فقہ میں مقید نہیں

فہم سلف کے حوالے سے یہ ایک اور انحراف ہے جو تقلید جامد کی صورت میں امت میں بڑے عرصے سے پایا جارہا ہے جسے اہل سنے کے تمام مکاتب فکر اہل حدیث،حنفیہ،مالکیہ،شافعیہ،حنبلیہ اور اہل ظاہر نے ہمیشہ رد کیا ہے۔اپنے’’ائمہ‘‘ اور اپنی کتب فقہ کے علاوہ کہیں اور سے رجوع کیے جانے کو باطل سمجھنااورانہی کے اندرواردہونے والے مسائل کو قیامت تک کے لیے حرف آخر جاننا۔اس سے اختلاف کو برداشت نہ کرنا چاہے وہ کتنی ہی علمی بنیاد پرکیوں نہ کیا گیا ہواوردیگر مستندائمہ دین سےاس کا ثبوت کیوں نہ ملتا ہو،ایسی گمراہی ہے جس نے امت کو تفرقہ اورفساد میں مبتلا کردیا ہے۔یہ وہ عمل شر ہے جس کا سلف نے ہمیشہ ہی رد کیا ہے۔
ائمہ کے اقوال اس کے بہترین شاھد ہیں:
علامہ شامی حنفی لکھتے ہیں:
اذاصح الحدیث وکان علی خلاف المذہب عمل بالحدیث ویکون ذلک مذھبہ ولا یخرج مقلدہ عن کونہ حنفیا بالعمل بہ فقد صح عن ابی حنیفۃ أنہ قال اذا صح الحدیث فھو مذھبی۔(شرح عقود رسم المفتی لابن عابدین،ص۱۹)
’’جب صحیح حدیث ملے اور وہ حدیث ہمارے مذہب کے خلاف ہو پھر حدیث پر ہی عمل کیا جائے گا اور وہی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب ہوگا اور اس صحیح حدیث پر عمل کرنے کی وجہ سے کوئی حنفیت سے نہیں نکلے گا کیونکہ امام صاحب کا فرمان ہے کہ جب حدیث صحیح ہو وہی میرامذہب ہوگا‘‘
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
منہج سلف کی اہمیت

اتباع رسول کا معیاراصحاب رسول رضوان اللہ علیہم اجمعین اور سلف امت ہیں۔
اللہ تعالیٰ صحابہ کرام کی یوں تعریف فرماتا ہے:
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ وَ الَّذِيْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا١ٞ سِيْمَاهُمْ فِيْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرٰىةِ(سورۃ الفتح:۲۹)
’’ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں ، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں (یعنی صحابہ)وہ کفار پر سخت ہیں اور آپس میں رحیم ہیں۔ تم جب دیکھو گے انہیں رکوع و سُجود ، اور اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب میں مشغول پاؤ گے۔ سُجود کے اثرات ان کے چہروں پر موجود ہیں جن سے وہ الگ پہچانے جاتے ہیں۔ یہ ہے اُن کی صفت (تمثیل ) توراۃ میں‘‘
صحابہ وہ مومن تھے کہ جنہیں اللہ رب العزت نے اپنے نبیﷺکی صحبت کے لیےچنا تھا اور انہیں لوگوں پر اپنا گواہ بنایا تھا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ وَ سَلٰمٌ عَلٰى عِبَادِهِ الَّذِيْنَ اصْطَفٰى(سورۃ النمل:۵۹)
’’آپ کہہ دیجیے سب تعریف اللہ کے لیے ہے اور اس کے بندوں پر سلامتی ہو جنہیں اس نے منتخب کیا‘‘
ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’یہاں مراد اصحاب محمد ہیں‘‘(تفسیر ابن کثیر381/3)
اور فرمایا:
وَ جَاهِدُوْا فِي اللّٰهِ حَقَّ جِهَادِهٖ هُوَ اجْتَبٰىكُمْ وَ مَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ مِلَّةَ اَبِيْكُمْ اِبْرٰهِيْمَهُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِمِيْنَ مِنْ قَبْلُ وَ فِيْ هٰذَا لِيَكُوْنَ الرَّسُوْلُ شَهِيْدًا عَلَيْكُمْ وَ تَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ(سورۃ الحج:۷۸)
’’ اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے ۔ اُس نے تمہیں اپنے کام کے لیے چن لیا ہے اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی ۔ قائم ہو جاؤ اپنے باپ ابراہیم ؑ کی ملت پر ۔ اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام ’’ مسلم ‘‘ رکھا تھا اوراِس (قرآن) میں بھی (تمہارا یہی نام ہے) تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ‘‘
صحابہ امت کے وہ مبارک لوگ ہیں جن کے علم ودیانت کی گواہی اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں دی ہے۔
وَ يَرَى الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ الَّذِيْۤ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ هُوَ الْحَقَّ(سورۃسبا:۶)
’’ اے نبی ﷺ ، علم رکھنے والے خوب جانتے ہیں کہ جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ سراسر حق ہے‘‘
جو لوگ محمدﷺکے ساتھ ایمان لائے وہ سب سے بڑھ کر اللہ کی بندگی اور اطاعت کرنے والے اور دین کی اتباع میں سبقت لے جانے والے لوگ تھے۔انہوں نے اللہ کی خوشنودی کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانےپیش کئے۔
انہوں نے قرآن مجید کو رسول اللہﷺ سے سیکھا۔نزول قرآن،نزول کے اسباب اورقرآن کی تفسیر سے براہ راست مستفید ہوئے انہوں نے رسول اللہ سے جہاں قرآن مجید کے الفاظ سیکھے وہاں قرآن کے معانی بھی سیکھے۔
صحابہ کرام نےقرآن کے حفظ کے ساتھ اس کا فہم بھی حاصل کیا رسول اللہﷺسے قرآن کی تفسیر سنی آپ کے حالات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا آپ کی دعوت کو اپنے دلوں میں محفوظ کیا۔
اس لحاظ سے صحابہ کرام کوجوفضیلت حاصل ہوئی وہ کسی اور کو حاصل نہیں ہو سکتی،کیونکہ صحابہ کرام نے رسول اللہﷺسے بلاواسطہ علم حاصل کیااورآپس میں ایک دوسرے سے سیکھا چنانچہ سب صحابہ’’عدالت‘‘کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے،
یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اسناد،راویوں کے حالات،سند کی جرح وتعدیل کی ضرورت ہی نہ تھی۔
پس صحابہ کرامسے بڑھ کرکتاب اللہ تو سمجھنے والا،سنت کاعلم رکھنے والا اورکوئی نہیں ہو سکتا۔
امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
’’یہ بات جاننا ضروری ہے کہ رسول اللہﷺنے اپنے اصحاب کو جس طرح قرآن کے الفاظ بیان فرمائے ویسے ہی اس کے معانی بھی واضح فرمائے،چنانچہ اللہ کے اس فرمان:
وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ وَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ(سورۃ النحل:۴۴)
’’تاکہ تم لوگوں کے سامنے وہ تعلیم جو تم پر اتاری گئی کھول کھول کر بیان کر دو‘‘
میں جہاں الفاظ کے پہنچانے کا حکم ہے وہیں اس کے معانی کھول کھول کر بیان کرنے کا بھی حکم ہے۔
ابو عبدالرحمن السُّلَمی(جو معروف تابعی ہیں)کہتے ہیں:وہ لوگ جو ہمیں قرآن پڑھایا کرتے تھے،مثلاً عثمان بن عفان اور عبداللہ بن مسعود وغیرہ وہ ہمیں بتایا کرتے تھے کہ جب وہ نبیﷺسے دس آیات سبق میں لے لیتے تو اس وقت تک آگے سبق پر نہ جاتےجب تک وہ ان دس آیات میں علم وعمل کی ہر بات سیکھ نہ لیتے۔کہا کرتے تھے:سویوں ہم نے قرآن سیکھاتواس کا علم اور عمل ایک ساتھ سیکھا‘‘یہی وجہ ہےکہ وہ لوگ ایک سورت کے حفظ میں مدت گزار دیا کرتے تھے۔(مقدمہ فی اصول التفسیر:۳۵)
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
مدرسہ

بنیادی طور پر یہ ایک مدرسہ ہےجس میں صحابہ پڑھےاورآگےپڑھاتے رہےاورپھرصحابہ سے پڑھنے والےاپنےبعدوالوں کوپڑھاتے رہے۔دین کی حقیقت،دین کی فطرت،دین کا مزاج،دین کے اصول و فروع کی حدود،اتفاق اور اختلاف کے حدود و آداب،اتباع اور اجتہادکے میدانوں کا تعین،اتحاد واجتماع کا طریقہ،بدعات اور محدثات سے نمٹنے کاطریقہ۔۔۔غرض نصوص وحی کے ساتھ تعامل اختیار کرنے کی سب تفصیلات ہمیں اسی مدرسہ سے لینی ہیں جس میں صحابہ نے پڑھا اورپڑھایاپھر صحابہ سے پڑھے ہوئے پڑھاتے رہے۔
اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ایمان کو تمام مسلمانوں کے لیے نمونہ قرار دیتے ہوئے ان کی طرح ایمان لانے کا حکم دیا۔
فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَاۤ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اهْتَدَوْا وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا هُمْ فِيْ شِقَاقٍ فَسَيَكْفِيْكَهُمُ اللّٰهُوَ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُؕ(سورۃ البقرہ:۱۳۷)
’’پھر اگر وہ اُسی طرح ایمان لائیں ، جس طرح تم لائے ہو ، تو ہدایت پر ہیں اور اگر اس سے منہ پھیریں ،تو کھلی بات ہے کہ وہ ہٹ دھرمی میں پڑ گئے ہیں۔ لہٰذا اطمینان رکھو کہ ان کے مقابلے میں اللہ تمہاری حمایت کے لیے کافی ہے ۔وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے‘‘
پس جو کوئی ہدایت کا طلبگار ہےاورآخرت میں نجات چاہتا ہےتواس کےلیے ضروری ہےکہ وہ ایسا ایمان لائےجیسے صحابہ لائے تھے،کیونکہ حق وہی ہےجس پر وہ گامزن تھے۔
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی اتباع کا حکم دیا ہے۔
وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَاۤ اَبَدًاذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ(سورۃ التوبہ:۱۰۰)
’’ وہ مہاجر و انصار جنہوں نے سب سے پہلے دعوتِ ایمان پر لبیک کہنے میں سبقت کی، نیز وہ جو بعد میں راست بازی کے ساتھ اُن کے پیچھے آئے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ، اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے ، یہی عظیم الشان کامیابی ہے‘‘
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے پیچھے چلنے والوں کو بھی اپنی خوشنودی اور جنت کی نعمتوں میں شریک کردیا۔۔۔اس لیے جو لوگ سابقین اولین کی اتباع کریں گے وہ انہی میں شمار میں ہونگےجبکہ یہ لوگ انبیاءکے بعدافضل ترین ہیں،کیونکہ امت محمدﷺافضل ترین امت ہےجولوگوں کے لیے نکالی گئی ہے اوریہ لوگ امت محمدﷺمیں افضل ترین ہیں۔
اس لیے علم و دین میں ان کے اقوال اور اعمال کی معرفت رکھنا،دین کے جملہ علوم اور اعمال میں متاخرین کے اقوال و اعمال کی معرفت سے صد مرتبہ افضل اور مفید تر ہے۔کیونکہ یہ لوگ اپنے بعد والوں سےافضل ہیں جیسا کہ کتاب و سنت سے ثابت ہے،پھر جب ایسا ہےتوان لوگوں کی اقتداءبعدوالوں کی اقتداء سے بہتر ہے۔علم دین کے سلسلے میں دوسروں کے اجماع واختلاف کی نسبت صحابہ کے اجماع اور اتفاق اور انہی میں ہونے والے اختلاف کی معرفت ودریافت زیادہ بہتر ہے۔۔۔اس کی وجہ یہ ہےکہ ان کا اجماع بہر حال معصوم ہوتا ہے،صحابہ نے اگر اختلاف کیاتوبھی حق ان کے اقوال میں سے کسی ایک میں ہوتا ہے۔ان کے اقوال میں سے کسی قول کو اس وقت تک غلط نہیں کہا جا سکتا جب تک کتاب وسنت سے اس کاغلط ہوناثابت نہ ہوجائے۔۔۔۔۔اسی طرح دین میں کوئی بھی ایسا مسئلہ نہیں رہ جاتا جس کے بارے میں سلف نے کلام نہ کیا ہو اس لیے اس کی مخالفت یا موافقت میں سلف سے ضرور کوئی نہ کوئی قول مل جاتا ہے‘‘(مجموع الفتاویٰ ص۱۳۔۳۳۔۲۷)
رب تعالی ٰ نے ہمیں پہلوں کے رستے پر چلنے کی نصیحت فرمائی ہے۔
وَّ اتَّبِعْ سَبِيْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَيَّ(سورۃ لقمن:۱۵)
’’اور اس کی راہ چلنا جو میری طرف جھکا ہوا ہو‘‘
اور فرمایا:
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ(سورۃ التوبہ:۱۱۹)
’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کا ساتھ دو‘‘
ایک سے زائد سلف نے یہاں صادقین(سچوں)سے مراد اصحاب محمدﷺلیے ہیں۔
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’اللہ کی قسم میں نہیں جانتا کہ اللہ نے کسی کو سچ کہنے کی توفیق دے کراس پر اتنااحسان کیا ہوجیسا مجھ پر کیا ہے،میں نے اس وقت سے لے کرآج تک قصداًکبھی جھوٹ نہیں بولا۔اللہ تعالیٰ نے اسی بارے میں یہ آیت اتاری‘‘(بخاری:۴۹۷۸،تفسیر ابن کثیر:۲/۴۱۴)
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
سنت رسول کے ساتھ طریق صحابہ بھی قیامت تک محفوظ رہے گا

اللہ تعالیٰ اپنے رسول سے اعلان کرواتا ہےکہ وہ اور اس کے اصحاب بصیرت کے ساتھ حق پر گامزن ہیں:
قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِيْۤ اَدْعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ عَلٰى بَصِيْرَةٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِيْ(سورۃ یوسف:۱۰۸)
’’کہہ دیجیے میرا راستہ یہی ہےکہ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں اور میں خود بھی اس راہ کو پوری بصیرت کے ساتھ دیکھ رہا ہوں اور میرے پیروکار بھی‘‘
رسول اللہﷺنے ان کے منہج اور فہم کوجماعت حقہ کی پہچان قرار دیا ہے۔
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
’’کہ میری امت۷۳فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی سوائے ایک جماعت کے سب دوزخ میں جائیں گے۔عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول وہ کونسا گروہ ہوگا؟آپ نے فرمایا’’ما انا علیہ و اصحابی‘‘یہ وہ جماعت ہو گی جو اس راستے پر چلے گی جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں‘‘(ترمذی:۲۵۶۵)
اس حدیث میں یہ اشارہ بھی ہےکہ سنت رسول کے ساتھ طریق صحابہ بھی قیامت تک محفوظ رہے گاکیونکہ جو چیز محفوظ نہ ہووہ قیامت تک نجات پانے والےگروہ کی نشانی کیسے بن سکتی ہے؟اسی لیے آپﷺنے صحابہ کرام اور ان کے بعد آنے والے اسلاف کی پیروی کی تلقین فرمائی ہے۔
نبی کریمﷺنے فرمایا
’’تم میرے بعد شدید اختلاف دیکھو گےاس وقت تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا،اس پر مضبوطی سے جمے رہنا،دین میں نئے پیدا ہونے والے امور سےاپنے آپ کو بچاکر رکھنا کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے‘‘(ابن ماجہ:۴۷)
معلوم ہوا فتنوں کے ظہورکے وقت بچاؤصرف اور صرف نبی کریمﷺاورآپ کےخلفائے راشدین کی سنت اختیار کرنے میں ہے۔
آپﷺنے فرمایا:
’’میرے صحابہ کے طریقہ پر عمل کرکےمیری سنت کی حفاظت کروپھر تابعین اورتبع تابعین کے طریقہ پر چلوپھر اس کے بعد جھوٹ پھیل جائے گا‘‘(ابن ماجہ،کتاب الاحکام۲۳۶۳)
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺنے فرمایا:
’’میری امت میں بہترین زمانہ میرا ہے،پھر اس کے بعد والا(تابعین کا)زمانہ،پھر اس کے بعد والا(تبع تابعین کا)زمانہ پھر ایسی قومیں پیدا ہونگی جو بغیر مطالبے کے جھوٹی گواہیاں دیں گی اور خیانت کریں گی اس لیے انہیں امین نہیں بنایا جائے گا اور ان میں موٹاپا عام ہو جائے گا‘‘(مسلم:۲۵۳۵،ترمذی:۱۸۱۰)
ان آیات و احادیث سے یہ بات واضح ہےکہ فہم دین کے حوالے سےپہلے ابتدائی تین زمانوں میں جو کچھ سمجھا اورسمجھایا گیا وہ بالکل حق ہے۔بعد والوں کو اب انہیں کے پیچھے کھڑے ہونا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اِتَّبِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ لَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِيَآءَقَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ(سورۃ الاعراف:۳)
’’لوگو! جو کچھ تمہارے ربّ کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اُس کی پیروی کرو اور اپنے ربّ کو چھوڑ کر دوسرے سرپرستوں کی پیروی نہ کرو۔ مگر تم نصیحت کم ہی مانتے ہو‘‘
اس آیت کا یہ مفہوم نہیں کہ صحابہ کرام کا فہم حجت نہیں ہے۔
یاد رکھیے قرآن وسنت کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہﷺسے سیکھا اور تابعین نے صحابہ کرام سے سیکھا۔صحابہ اور تابعین سے زیادہ بہتر کیا کوئی اور قرآن و سنت کو سمجھ سکتا ہے؟یقیناً نہیں،لہذٰا قرآن و سنت کا وہی مفہوم معتبر ہو گا جو صحابہ و تابعین نے متعین کیا۔سلف کے مقابلے میں بعد والوں کے فہم کی کوئی حیثیت نہیں۔سلف کا فہم ہی وہ سبیل المومنین ہےجس پر چلنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
رسول اللہﷺکی نافرمانی کے ساتھ مومنوں کی راہ پر نہ چلنا بھی جہنم میں جانے کا سبب بتایا۔

وَ مَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَ يَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَ نُصْلِهٖ جَهَنَّمَ وَ سَآءَتْ مَصِيْرًاؒ(سورۃ النساء:۱۱۵)
’’مگر جو شخص رسول ﷺ کی مخالفت پر کمر بستہ ہو اور اہلِ ایمان کی روش کے سوا کسی اور روش پر چلے ، درآں حالیکہ اس پر راہِ راست واضح ہو چکی ہو ، تو اُس کو ہم اُسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اُسے جہنم میں جھونکیں گے جو بدترین جائے قرار ہے‘‘
اس آیت میں رسول اللہﷺکی نافرمانی کے ساتھ مومنوں کی راہ پر نہ چلنا بھی جہنم میں جانے کا سبب بتایا۔
محدث البویطی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:
’’میں نے امام شافعی رحمہ اللہ کو یہ فرماتے ہوا سنا کہ اصحاب الحدیث کا دامن مت چھوڑو اس لیے کہ وہ سب سے زیادہ درست بات کہنے والے ہیں‘‘(تاریخ حدیث و محدثین،ص۴۰۱)
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’سنت کے احوال ہمارے ہاں یہ ہیں کہ ہر وہ امر جس پر اصحاب رسولﷺتھے،اس سے چمٹ کر رہا جائے۔ان کی اقتداء کی جائے اور نئی ایجادات کو ترک کیا جائے،کیونکہ ہر نئی ایجاد بدعت و ضلالت ہے‘‘(شرح اصول السنۃ والجماعۃ للالکائی،۱/۱۵۶)
امام اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’سنت کی راہ پر جمے رہو۔ان پہلوں کے قدم یہاں رک گئے ہوں وہاں تم بھی ضرور رک جاؤ۔جس بات کے وہ قائل ہوئے ہیں تم بھی اسی بات کے قائل رہو۔جس بات سے وہ خاموش رہے ہوں تم بھی اس سے خاموش رہو۔چلو تو اپنے ان سلف صالحین کی راہ پر چلو‘‘(شرح اصول السنۃ و الجماعۃ للالکائی،۱/۱۵۴)
قوام السنہ،امام اسماعیل بن محمد الاصبہانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’علم کثرت روایت کا نام نہیں،بلکہ علم تو اقتداء اوراتباع کا نام ہے۔صحابہ کرام اور تابعین عظام کی پیروی کرو،اگرچہ علم تھوڑا ہی ہو اور جو شخص صحابہ اور تابعین کی مخالفت کرےوہ گمراہ ہےاگرچہ زیادہ علم والا ہی ہو‘‘(الحجہ فی بیان المحجہ لا ابی القاسم الاصبہانی،۲/۴۶۹)
ابو محمد عبداللہ بن زید قیروانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’سنتوں کو تسلیم کرنا عقل و قیاس کے خلاف نہیں۔سنن کی جو تفسیر سلف صالحین نے کی ہےہم وہی کریں گے اور جس پر انہوں نے عمل کیا،اسی پر عمل کریں گے اور جس کو انہوں نے چھوڑاہم بھی چھوڑ دیں گے۔ہمیں یہی کافی ہےکہ وہ جس چیز سے رک گئےاس سے ہم رک جائیں اور جس چیز کو انہوں نے بیان کیا،اس میں ہم ان کی پیروی کریں اور جو انہوں نے استنباط اور اجتہاد کیا اس میں ان کی اقتداء کریں،جس چیز میں ان کا اختلاف ہےاس میں ان کی جماعت سے نہ نکلیں(کوئی نیا مذہب نہ نکالیں،بلکہ اختلافی صورت میں ان میں سے ہی کسی ایک کا مذہب قبول کریں)تمام وہ چیزیں جو ہم نے ذکر کی ہیں وہ اہل سنت اورفقہ و حدیث کے ائمہ کا قول ہے‘‘(الجامع:۱۱۷)
حافظ ابو عبداللہ محمدبن عبداللہ(ابن ابی زمنین)رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جان لیں کہ سنت قرآن کریم کی دلیل ہے۔سنت کو قیاس اور عقل کے ذریعے سے حاصل نہیں کیا جا سکتا،بلکہ وہ تو ائمہ کرام اور جمہور امت کے طریقے کی اتباع کانام ہے‘‘(کتاب اصول السنۃ لابی ابن زمنین:1)
امام آجری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جن لوگوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بھلائی کا ارادہ کیا ہے۔ان کی علامت اللہ عزوجل کی کتاب،رسول اللہﷺکی سنتوں اورآپ کے صحابہ اور ان کے پیروکاروں کے آثار کی اتباع کرنا ہے،نیز وہ اس راستے پر چلتے ہیں جس پر ہر علاقے کے ائمہ مسلمین اور اب تک کے علمائے کرام مثلاً امام اوزاعی،امام سفیان ثوری،امام مالک بن انس،امام شافعی،امام احمد بن حنبل،امام قاسم بن سلام رحمہم اللہ اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے اہل علم چلے اوروہ ہر اس طریقے سے بچتے ہیں جسے ان علماءکرام نے اختیار نہیں کیا‘‘(الشریعۃ للآجری:۱۴)
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ہر وہ قول جس میں بعد والا متقدمین سے منفرد ہو،اس سے پہلے وہ قول کسی نے نہ کہا ہو وہ یقیناً غلط ہو گا‘‘(مجموع الفتاوی لابن تیمیہ،۲۱/۲۹۱)
حافظ عبد اللہ محدث رو پڑی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’خلاصہ یہ ہے کہ ہم تو ایک ہی بات جانتے ہیں وہ یہ کہ سلف کا خلاف جائز نہیں‘‘(فتاوی اہل حدیث،ج۱ص۱۱۱)
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
منہج سلف اسلامی اجتماعیت کی بقا کا ضامن

اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ یہ دین صرف افراداور جماعتوں کو چلانے کے لیے نازل نہیں ہوابلکہ یہ ایک امت بنانے اور ایک امت چلانے کے لیے اترا ہے۔اس کا یہی قد کاٹھ ذہنوں میں رہنا ضروری ہےاور اس کا یہی مرتبہ دلوں میں جانشین کروانا چاہیے۔
ضروری ہے کہ دین فہم کے بارے میں ایسے مستند مراجع اختیار کیے جائیں جو نہ صرف صحیح ہوں بلکہ وہ امت کی سطح کے ہوں۔ایک فرد یا جماعت اپنی بات چھوڑ کران پر آنے کی پابند ہو۔ان کو اپنا کر ایک جماعت امت کی سطح پر آئےنہ کہ امت کو جماعت کی سطح پر لانے کی کوشش کرے۔ایک بڑی چیز اپنےسے چھوٹی چیز میں فٹ نہیں ہو سکتی۔اس عمل کے جہاں اور بہت سے تقاضے ہیں وہاں فہم دین کے لیے کچھ ایسے مراجع کا اختیار کیا جانا از حد ضروری ہےجو بیک وقت مستند بھی ہوں اور مشترک بھی۔
وہ اصول وضوابط جو اہل سنت کے مختلف گروہوں مثلاً مذاہب اربعہ،اہل حدیث اور اہل ظاہر کو اپنا تنوع برقرار رکھتے ہوئے ایک ساتھ چلنے میں مدد دے سکیں۔ان کے لیے اجتماع کی ایک معقول بنیاد فراہم کر سکیں اور ان کے اختلاف واتفاق کی حدود وآداب متعین کرکےانہیں ایک مضبوط امت بنا سکیں اصول اہل سنت کہلاتے ہیں،جنہیں سلف صالحین نے امت کے لیے کھول کھول کر بیان فرمایا ہے۔
فہم سلف سے ہی ہم یہ سیکھتے ہیں کہ دین کے کچھ امور ایسے ہیں جن میں اختلاف کیا ہی نہیں جا سکتا ہے،انہیں ’’اساسیات دین‘‘یا’’مسلمات‘‘کہتے ہیں اور کچھ امور ایسے ہیں جن میں اختلاف برداشت کرنے کا حکم دیا گیا ہےانہیں فروع دین کہتے ہیں،
جو لوگ سلف کے منہج سے ناواقف ہیں وہ یا تو دین کے بنیادی امور تک میں اختلاف کی گنجائش دیتے ہوئے دین کی بنیادیں ڈھاتے ہوئے نظر آتے ہیں یا پھر اس قدر شدت اختیار کرتے ہیں کہ دین کے ہر مسئلے کو کفر واسلام کو مسئلہ بنا کر فقہی بنیادوں میں اختلاف تک پر کفر کے فتوے لگا دیتے ہیں۔یہ طرز عمل اسلام کی اجتماعیت کو توڑنے والااور تفرقہ کو ہوا دینے کا سبب ہےبلکہ یہی تفرقہ ہےاس لیے اسلامی اجتماعیت کے لیے منہج سلف کا اپنانا بے حد ضروری ہے۔ذیل میں ائمہ کے اقوال اسلام کی اسی سچی تعبیر کو بیان کرتے ہیں۔
امام حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ کی مشہور تصنیف’’جامع العلم و فضلہ‘‘سے چند اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
سلف نے اس بات سے ممانعت فرمائی ہےکہ اللہ تعالیٰ یا اس کے اسماء وصفات کے بارے میں بحث اور اختلاف ہو۔البتہ یہاں تک فقہی مسائل کی بات ہے توسلف کا اتفاق ہے کہ ان امور میں بحث و اخذ ورد ہو سکتا ہےکیونکہ یہ(فقہ)ایسا علم ہےجس میں قیاس کرنے کی حاجت ہوتی ہےجبکہ اعتقادات کا معاملہ ایسا نہیں ہےکیونکہ اہلسنت والجماعت کے نزدیک اللہ عزوجل کی بابت کوئی بات کی ہی نہیں جاسکتی سوائے اس بات کے جو وہ خود ہی اپنی ذات کے بارے میں بیان کر دے یا رسول اللہﷺاس کی بابت بیان کر دےیا جس پر امت نے اجماع کر لیا ہو۔اللہ کی مثل کوئی چیز ہے ہی نہیں جس کا قیاس یا گہرے غوروخوض کے نتیجے میں،ادراک ہونا ممکن ہو۔۔۔۔۔
’’دین اس معنی میں کہ وہ اللہ،اس کے فرشتوں،اس کی کتابوں ،اس کے رسولوں اور بعث بعد الموت اور یوم آخرت پر ایمان ہے تواس تک رسائی اللہ کے فضل سے اس کنواری دوشیزہ کو بھی حاصل ہےجس کو کبھی باہر کی ہوا تک نہ لگی ہو(دین کے اسی پہلویعنی’’اصول دین ‘‘کے بارے میں)،عمر بن عبدالعزیز کا قول ہے:’’جو شخص اپنے دین کو بحثوں کا موضوع بناتا ہےپھر وہ اکثر نقل مکانی کرتا ہے‘‘(صحیح جامع بیان العلم و فضلہ:۳۸۳)
دین کے’’اصول و مسلمات‘‘دین کا وہ حصہ ہیں جس پر سمجھنا سمجھانے کے لیے گفتگو تو ہوسکتی ہےمگر کسی کی ہارجیت سے بدلے نہیں جایا کرتے۔
امام مالک رحمہ اللہ کے پاس ایک شخص آیااور دین کے کچھ بنیادی امور میں آپ کو بحث و گفتگو کی دعوت دی،اس نے امام مالک کو کہا:
’’آؤ بات کر کے دیکھتے ہیں،اس شرط پر کہ میں جیتوں تو تم میرے ہم خیال ہو جاؤ گے اور تم جیتو تو میں تمہارا ہم خیال ہو جاؤں‘‘امام مالک رحمہ اللہ نے اس تجویز پرناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا:’’اوراگر کوئی تیسرا شخص ہم دونوں کو خاموش کرا دے؟‘‘تو اس شخص نے جواب دیا:’’تو ہم اس کی بات تسلیم کر لیں گے‘‘
بظاہر دیکھیے تو اس شخص کی بات سے بڑی ہی انصاف پسندی اورحق پر ستی جھلکتی ہے،بظاہر بہت اصولی پیش کش ہےمگر امام مالک رحمہ اللہ اس کا جوجواب دیتے ہیں حقیقت یہ ہےکہ وہ آپ جیسے آئمہ سلف کی ہی شان ہے،فرمایا:
’’تو کیا جب کوئی نیا شخص میدان میں آئے اور پہلے والے سے بڑھ کر دلیل دے لینے کی مہارت دکھائےتو ہم اپنا دین اور راستہ تبدیل کر لیا کر یں؟سنو،میں اپنا دین یقینی طور پر معلوم کر چکا ہوں کہ وہ کیا ہے۔تمہیں اپنا دین تا حال معلوم نہیں تو جہاں چاہو تلاش کرتے پھرو‘‘
یہ ہیں ہمارے ائمہ جو ایسا راستہ بتلا گئے کہ جس پر چلنے والا ایک روشن اورمضبوط راہ پر ہے،وہ اس راہ کا ہر پہلو امت کے سامنے رکھ گئے۔اللہ ان پر رحمت فرمائے
رہے’’دین کے فروع‘‘تو اس میں یہ شدت اور سختی نہیں ہےمگر وہاں بھی ہر ایرےغیرے جو اجتہاد کرنے اور فتوی دینے کی اجازت نہیں ہے۔اس میں بھی استدلال اورمسائل اخذ کرنے کے باقاعدہ اصول اور قواعد ہیں۔دین کے اس حصے میں بات کرنے اور رائے دینے کے لیے بھی ضروری ہےکہ آدمی نہ صرف استدلال کے ان فقہی اصولوں سے واقف ہو بلکہ نصوص شریعت کا علم بھی رکھتا ہو۔
امام محمد بن حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جو شخص کتاب و سنت کا علم رکھتا ہے،اصحاب رسول ﷺ کے اقوال سے واقف ہو اور فقہائے مسلمین کے اقوال سے آگاہ ہووہی اس بات کا مجاز ہےکہ کوئی مسئلہ اس کے سامنے پیش آئے تو وہ اجتہاد کرکے کوئی رائےاختیار کرے اور اپنی اس رائے کو نمازیا اپنے روزے یااپنے حج یا شرعی اومر ونہی کے کسی معاملے میں قابل عمل جانے‘‘(جامع بیان العلم و فضلہ)رہا عام آدمی تو اوہ اہم علم سے کسی مسئلہ کو سن کر یا ان کے فتاوی کر آگے بیان کر سکتا ہےاس سے بڑھ کر اسے کسی اور چیز کا حق نہیں ہے۔
سلف کے ان اصول و ضوابط سے یہ بات بخوبی جانی جا سکتی ہےکہ وہ کس طرح اسلام کی حفاظت کرتے رہےاور یہ کہ مسلم معاشرے کی علمی پاسداری کا حق صرف انہی کو ہے۔منہج سلف سے جس گروہ نے بھی انحراف کیا اس نے مسلم اجتماعیت کو پارہ پارہ کیا اور اسلام کے صاف ستھرے عقیدے کو خراب کیا۔
امام مالک رحمہ اللہ کے کیا خوب فرمایا ہے:
لن یصلح آخر ھذہ الامۃ الا بما صلح بہ اولھا(الشفا للقاضی عیاض:ج:۲،ص:۸۸)
’’اس امت کے آخری دور کی اصلاح بھی اسی طرح سے ممکن ہےجس طرح سے اس امت کے اوّل حصے(صحابہ) کی ہوئی تھی‘‘
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
منہج سلف کا انکار گمراہی کی بنیادی وجہ:

گمراہی کی ایک بنیادی وجہ فہم سلف کو اختیار نہ کرنا اور قرآن وسنت کی من مانی تفسیر کرنا ہے۔فہم سلف کے انکار ہی سےمسلمانوں میں گمراہی کی ابتداء ہوئی اور پہلا بدعتی فرقہ جسے خوارج کہا جاتا ہےوجود میں آیا۔
اس گمراہی کا کچھ لوگوں نے مقابلہ کیا مگر انہوں نے بھی فہم سلف کو اختیار نہ کیا جس کے نتیجے میں وہ بھی گمراہ ہوئے انہیں مرجئہ کہا گیا ہے،البتہ وہ لوگ جو سلف کے طریق پر گامزن رہےاورانہی کے فہم سے چمٹے رہے،وہ ہدایت و رشد کے وارث بنےجنہیں اہل سنت والجماعت کہا جاتا ہے۔
صحابہ و تابعین کے فہم کا نکار کس طرح گمراہی میں دھکیل دیتا ہےاس لیے کے ہم مسئلہ ایمان پر اہل ایمان اور اہل بدعت کےاختلاف کو بطور مثال پیش کرتے ہیں۔
خوارج:

سب سے پہلے خوارج صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فہم کو چھوڑ کر قرآن وسنت کی اتباع کرنے پر گمراہ ہوئے:
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ان کی بدعت زندقہ اور الحاد کی وجہ سے نہ تھی بلکہ کتاب اللہ کے معنی کے فہم میں جہالت اورضلالت کی وجہ سے تھی‘‘(منھاج السنہ فی کلام الشیعۃ و القدریۃ۱/۱۵)
ان کی گمراہیوں میں بنیادی گمراہی یہ تھی کہ وہ ہر گناہگار کو کافر سمجھتے تھےخواہ گناہ ارادۃ ہو،غلط فہمی سے ہو یا اجتہادی خطا سے ہو۔
علامہ شھرستانی رحمہ اللہ ان کے ایک فرقے ازارقہ کے متعلق فرماتے ہیں:
’’ازارقہ اس بات پر اتفاق ہےکہ جس نے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا وہ ایسے کفر کا مرتکب ہواجس سے آدمی مکمل طور پر اسلام سے خارج ہو جاتا ہےاوروہ تمام کفار کے ساتھ ہمیشہ جہنم میں رہے گا‘‘(الملل و النحل از عبدالکریم شھرستانی۔۱/۱۱۵)
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
کبیرہ گناہ کے مرتکبین کو وعید

چند ایسی روایات ملاحظہ فرمائیں جن میں کبیرہ گناہ کے مرتکبین کو یہ وعید سنائی گئی ہے کہ وہ جنت میں داخل نہیں ہونگے یا انہیں جہنمی قرار دیا گیا ہے۔
تکبر کرنا:
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺنے فرمایا:’’جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا‘‘(صحیح مسلم:91)
اللہ اور اس کے رسول پر جھوٹ بولنا:
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بے شک نبی کریمﷺنے فرمایا:’’جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولا اسے چاہیے کہ وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے‘‘(صحیح بخاری:108،صحیح مسلم:2)
کسی مومن کو ناحق قتل کرنا:
اللہ تعالی فرماتا ہے:
وَ مَنْ يَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِيْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِيْمًا(النساء:۹۳)
’’رہا وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اُس کی جزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ۔ اس پر اللہ کا غضب اور اُس کی لعنت ہے اور اللہ نے اُس کے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے‘‘
غیر مسلم معاہد کا قتل:
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ اللہ عنہ سے روایت ہےبے شک رسول اللہﷺنےفرمایا:’’جس نے کسی غیر مسلم کوجو سلطنت اسلامیہ میں عہد و پیمان کے ساتھ رہ رہا ہو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پا سکتا جب کے جنت کی خوشبو چالیس سال کی مسافت کی دوری سے سونگھی جا سکتی ہے‘‘(صحیح بخاری:6914)
خود کشی:
جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:’’تم سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں میں زخم خوردہ آدمی تھا جس نے تکلیف سے گھبرا کر چھری سے اپنا ہاتھ کاٹ دیا جس سے اس قدر خون نکلا کہ وہ مر گیا،اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ اس بندے نے میرے حکم(موت)سے پہلےاپنے بارے میں جلدی کی میں نے اس پر جنت حرام کر دی‘‘(بخاری:3463)
والدین کی نافرمانی کرنا:
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’والدین کا نافرمان،احسان جتلانے والا اور شراب پینے کا عادی جنت میں داخل نہیں ہوگا‘‘(سنن نسائی:5675)
باپ کی بجائے دوسرے کی طرف نسبت کرنا:
رسول اللہﷺنے فرمایا:’’جو شخص جان بوجھ کر(اپنے باپ کر چھوڑ کر)غیر کی طرف نسبت کرے اس پر جنت حرام ہے‘‘(بخاری:4326)
قریبی رشتہ داروں سے قطع تعلقی کر لینا اور صلہ رحمی نہ کرنا:
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:’’رشتہ داروں کے ساتھ بدسلوکی(قطع رحمی)کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا‘‘(صحیح بخاری:5384)
پڑوسی کو تکلیف دینا:
ابو شریح رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’اللہ کی قسم وہ شخص مومن نہیں،اللہ کی قسم وہ مومن نہیں،اللہ کی قسم وہ مومن نہیں،عرض کیا گیا کون یارسول اللہﷺ؟آپﷺنے فرمایا:جس کا ہمسایہ اس کی شرارتوں سے محفوظ نہیں‘‘(صحیح بخاری:6016)
مسلمان سے قطع تعلق کرنا:
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبی رحمتﷺنے فرمایا:’’کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ اپنے مسلمان بھائی سے تعلق منقطع رکھے۔پس جو شخص تین دن سے زائد تعلق منقطع رکھے گا اور اگر اسی حالت میں موت آگئی تو وہ جہنم جائے گا‘‘(سنن ابی داؤد:4914)
یتیم کا مال کھانا:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اِنَّ الَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْيَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا يَاْكُلُوْنَ فِيْ بُطُوْنِهِمْ نَارًا وَ سَيَصْلَوْنَ سَعِيْرًاؒ(النساء:۱۰)
’’جو لوگ ظلم کے ساتھ یتیموں کے مال کھاتے ہیں درحقیقت وہ اپنے پیٹ آگ سے بھرتے ہیں اور وہ ضرور جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکے جائیں گے‘‘
واپس نہ کرنے کی نیت سے قرض لینا:
رسول اللہﷺنے فرمایا:’’سبحان اللہ قرض کے معاملے میں اللہ تعالیٰ نے کس قدر زیادہ سختی فرمائی ہے۔مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہےاگر کوئی آدمی اللہ کے راستے میں شہید کر دیا جائےپھر دوبارہ زندہ ہوپھر شہید ہوپھر زندہ ہو پھر شہید ہواگر وہ مقروض ہےتو جب تک اس کا قرض ادا نہ کیا جائےوہ جنت میں داخل نہ ہوگا‘‘(سنن نسائی:4688)
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
مال فروخت کرنے کے لیے جھوٹی قسم کھانا:
رسول اللہﷺنے اس شخص کے بارے میں فرمایا:’’جس نے عصر کے بعد سودا بیچا اور اللہ کی قسم اٹھا کر گاہک سے کہا کہ میں نے تو خود اتنے کا خریدا ہےحالانکہ وہ جھوٹ بول رہاتھالیکن گاہک نے اس کی قسم کا اعتبار کیا اور اس کو سچا جان کر وہ چیز اس سے خرید لی،تو ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہیں دیکھے گانہ اس سے کلام کرے گا اور نہ اس کو گناہوں سے پاک کرے گابلکہ اس کے لیے دردناک عذاب ہوگا‘‘(بخاری:2369،مسلم:108)
چوری کرنا:
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےرسول اللہﷺنے فرمایا:’’زانی جس وقت زنا کرتا ہے اس وقت مومن نہیں ہوتا اور شراب پینے والا جس وقت شراب پیتا ہےمومن نہیں ہوتا اور چوری کرنے والا جس وقت چوری کرتا ہو مومن نہیں ہوتا،لوگوں کی نگاہ کے سامنے ڈاکہ ڈالنے والامومن نہیں رہتا‘‘(صحیح بخاری،2475،صحیح مسلم:57)
سودی لین دین کرنا:
سود خور کا برا انجام اللہ یوں فرماتا ہے:
فَمَنْ جَآءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَ وَ اَمْرُهٗۤ اِلَى اللّٰهِوَ مَنْ عَادَ فَاُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ(سورۃ البقرہ:۲۷۵)
’’لہٰذا جس شخص کو اس کے رب کی طرف سے یہ نصیحت پہنچے اور آئندہ کے لیے وہ سود خواری سے باز آ جائے ، تو جو کچھ وہ پہلے کھا چکا ، سو کھا چکا ، اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ اور جو اس حکم کے بعد پھر اسی حرکت کا اعادہ کرے ، وہ جہنمی ہے ، جہاں وہ ہمیشہ رہے گا‘‘
دنیا کے لیے دین کا علم حاصل کرنا:
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےرسول اللہﷺنے فرمایا:’’جو شخص ایسا علم حاصل کرتا ہےجس سے اللہ کی رضا مقصود ہونی چاہیے تھی لیکن وہ اسے اس لیے حاصل کرتا ہےتاکہ اس کے ذریعے اسے دنیا کا سامان مل جائے۔ایسا شخص قیامت کے دن جنت کی خوشبو تک نہ پا سکے گا‘‘(ابن ماجہ:252)
خوارج نے کبیرہ گناہ کے مرتکب کو کافر کہتے ہوئےاس بات کی بالکل پرواہ نہ کی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان احادیث کے بارے میں کیا کہتے ہیں اس طرح وہ گمراہ ہوئے۔
 
Top