عکرمہ
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 27، 2012
- پیغامات
- 658
- ری ایکشن اسکور
- 1,869
- پوائنٹ
- 157
منہج سلف کا مفہوم اوراہمیت
ڈاکڑ سید شفیق الرحمن حفظہ اللہ
اہل سنت کا منہج تعامل
سلف اور منہج سلف کا مفہوم و معنی:اہل سنت کا منہج تعامل
علامہ خلیل ھراس رحمہ اللہ لکھتے ہیں:منہج سلف سے مراد دین کو سمجھنے کا وہ منہج ہے جو صحابہ کرام،تابعین عظام اورتبع تابعین رحمہم اللہ کے ہاں پایا گیا۔جسے ائمہ اہل سنت نے اپنی کتب میں محفوظ کرتے ہوئے ہم تک منتقل کیا۔اس منہج پر چلنے والے گروہ کو اہل سنت والجماعت کہتے ہیں اور اس کوترک کرنے والا گروہ اہل بدعت کہلاتا ہے۔
’’جماعت کا مطلب ہے اجتماع،اس کی ضد فرقہ ہے۔جب’’جماعت‘‘کا لفظ’’سنت‘‘کے ساتھ بولا جائے مثلاً اہل السنۃ والجماعۃ تو وہاں اس امت کے سلف مراد ہوتے ہیں یعنی صحابہ اور تابعین جو اللہ کی کتاب اور رسول اکرمﷺکی سنت مطہرہ سے ثابت شدہ حق صریح پر رہے ہوں‘‘(شرح الواسطیۃ ازھراس،ص:۱۶)
منہج سلف کی دو اساسی بنیادیں مصدر تلقی اور منہج تلقی ہیں۔
مصدر تلقی:
آپﷺنے فرمایا:دین کہاں سے لینا ہے اسے مصدر تلقی کہتے ہیں۔دین کے مصدر صرف اورصرف کتاب و سنت ہیں،اس کے علاوہ کوئی چیز دین کا مصدر نہیں ہے۔
’’میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے چلا جا رہا ہوں جب تک تم انہیں مضبوطی سے پکڑے رکھو گے ہر گز گمراہ نہ ہوگےایک اللہ کی کتاب اوردوسری اسکے رسول کی سنت‘‘(المستدرک علی الصحیحین کتاب العلم۱/۹۳)
کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺہی وہ ذریعہ ہےجس سے ہمارے ایمان اور عمل کی اصلاح ہوتی ہے۔کتاب و سنت وہ ذخیرہ ہے جس کی تازگی کا کوئی بدل نہیں،کوئی چیز ان کا متبادل نہیں۔ہر دور میں ایمان کی پیاس صرف اورصرف کتاب و سنت سے ہی بجھ سکتی ہے کیونکہ یہ ایک مومن کا اصل نصاب ہے۔ایک طالب علم قرآن و سنت سے فائدہ اٹھانے کے لیےمنطق اور فلسفہ کا محتاج نہیں۔
اس لیے ہر وہ شخص اور گروہ جو دین لینے کے لیےکتاب و سنت کے علاوہ کسی اور چیز کو مصدر تسلیم کرتا ہےگمراہ اور بدعتی ہے،جیسے رافضہ اپنے ائمہ کے اقوال کو،معتزلہ’عقل‘کو،صوفیہ کشف و الہام کوسیکولر’خواہش نفس‘کودین کے مصدر کی حیثیت دیتے ہیں،یہ تمام گروہ ہلاکت کی طرف بلانے والے ہیں،عقیدہ کی اصطلاح میں انہیں اہل بدعت کہا جاتا ہے۔
اہل سنت کے ہاں دین کے مصادر کے حوالے سے اتفاق پایا جاتا ہے کہ یہ کتاب و سنت کے علاوہ اور کوئی نہیں۔جس طرح کتاب اللہ قرآن مجید اللہ کی وحی ہے اسی طرح حدیثﷺبھی اللہ کی وحی ہے۔ان میں سے کسی ایک کا انکار بھی کفر ہے۔
منہج تلقی:
دین کیسے لینا ہے؟اسے منہج تلقی کہتے ہیں۔
منہج کے حوالے سے اہل سنت کی طرف منسوب گروہوں اور افراد میں کئی ایک خامیاں پائی جاتی ہیں۔
مصدر تلقی اور منہج تلقی میں فرق نہ کرنا
بہت سارے لوگ منہج تلقی اور مصدر تلقی میں فرق نہیں کرتے۔چنانچہ اگر ان سے کہا جائے تم نے دین کا فہم کہاں سے حاصل کیا ہے؟وہ جواباً کہتے ہیں’’قرآن و حدیث‘‘سے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ رہتی دنیا تک حق کا پیمانہ قرآن و حدیث کے سوا اور کوئی نہیں ہےمگر یہاں سوال کی نوعیت مختلف ہے۔زیادہ واضح کرنے کے لیے ہم سوال یوں رکھ دیتے ہیں کہ’’آن نے قرآن و حدیث کو کہاں سے سمجھا ہے؟‘‘
جو صرف علمائے اہل سنت کے ہاں سےہی ملتا ہے۔یاد رہے ہمارا مقصد کسی لڑیچریا تقریر و تحریر کی افادیت کم کرانا نہیں۔اصل بات یہ ہے کہ یہ لڑیچر،نصاب،پروگرامز جن سے ہم جڑے ہیں اُن کے بارے میں یہ دیکھنا ہے کہ وہ’’سلف‘‘سے کس قدر جوڑتے ہیں اور اپنے آپ سے کس قدر؟آخر قرآن و حدیث کو بھی سمجھنے کا بھی تو کوئی ذریعہ ہوگا؟یہ ذریعہ یہاں کے درسی نصاب ہیں؟تنظیمی لڑیچر ہے؟اسٹال پر فروخت ہونے والی کتب اور رسائل ہیں؟جلسے اور پروگرام ہیں؟تقریری اور تحریری مناظرے ہیں؟ادیبوں اور شاعروں کا کلام ہے؟’ذاتی مطالعہ‘ہے؟ریڈیو اور ٹی وی کی دینی نشریات ہیں؟اخبارات کے روحانی ایڈیشن ہیں؟۔۔۔یا پھر منہج سلف؟
قرآن و حدیث دین کا اصل مصدر ہیں۔بلکہ دین ہیں۔یہ بات ہر بحث اور شبہ سے بالاتر ہے۔اس کے سوا رب تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے اپنے رسول ﷺپر کچھ نہیں اتارا۔دین کا یہ منبع محکم ہے اور اپنے آپ میں انتہائی واضح۔مگر پھر بھی اس کی’’ تفسیر‘‘ اور’’بیان‘‘ایک باقاعدہ علم ہے اور اس علم کو درست طور پر جاننے اور سمجھنے والے تاریخی طور پر کچھ متعین لوگ ہیں۔کیا سب لوگ قرآن و حدیث کو ایک ہی طرح سمجھ سکتے ہیں؟
سچ تو یہ ہے کہ درست مراجع اورصحیح ضوابط نہ ہوں توقرآن و حدیث کو صحیح معنوں میں سمجھا بھی نہیں جا سکتا۔
یہ درست مرجع اور علم فہم سلف کا نام ہے۔جس کے بغیر اس دین کو سمجھنا گمراہی کے دروازے کھولنا ہے۔
نماز کی ہر رکعت میں یہ دعا اس حقیقت کو بیان کرتی ہے۔آیات اور احادیث کے فہم اور تطبیق کے بارے میں جب بعض لوگوں کو صحابہ اورسلف کے راستے کی پابندی کرنے کو کہا جاتا ہے تو وہ جواب دیتے ہیں:’’ہم ان کی بات کیوں مانیں،وہ کوئی نبی تو نہیں ہیں؟حقیقت تو یہ ہے کہ سلف اور ائمہ کے اقوال کا اللہ اور اس کے رسول کے قول سے مقابلہ نہیں بلکہ وہ اللہ اور اس کے رسولﷺکے فرامین کا’’فہم‘‘حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں۔اس بات کو خود اللہ اوراس کے رسول نے بیان فرمایا ہے۔
صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْۦغَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَؒ(سورۃ الفاتحہ:۷)
’’ہمیں ان کی راہ چلا جن پر تو نے انعام کیا نہ کہ ان کی جن پرتیرا غضب ہوا اور نہ گمراہوں کی‘‘
جاری ہے۔۔۔۔۔۔