• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

منہج موازنات کیا ہے ؟

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
بسم اللہ الرحمن الرحیم


فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان (حفظہ اللہ)
تعلیق
جمال بن فریحان الحارثی

ترجمہ
طارق علی بروہی


منہج ِموازنات

سوال: آجکل نوجوانوں کے درمیان یہ بات عام ہورہی ہے کہ: تنقید کرتے وقت لازم ہے کہ ہم موازنہ کریں، چناچہ وہ کہتے ہیں کہ اگر تم فلاں شخص پر اس کی بدعت کی وجہ سے رد کرو اور اس کی غلطیاں بیان کرو، تو لازم ہے کہ اس کی جو اچھائیاں اور خوبیاں ہیں وہ بھی بیان کرو، کیونکہ یہی انصاف کا تقاضہ اور موازنہ ہے، پس کیا تنقید کے بارے میں یہ منہج صحیح ہے؟ اورکیا مجھ پر واجب ہے کہ میں کسی کی تنقید کرتے ہوئے اس کے محاسن بھی بیان کروں؟

جواب: اس مسئلے کا جواب پہلے بھی دیا جاچکا ہے، لیکن اگر جس کی تنقید مقصود ہو وہ اہلسنت والجماعت میں سے ہے اور ایسی چیزوں میں غلطی کرجاتا ہے جو عقیدے میں خلل کا سبب نہیں، ایسی حالت میں ضرور اس کی خوبیاں اور اس کی اچھائیاں بیان کی جائیں گی، اور اس کی لغزشیں اس کی خدمت سنت کی خوبی میں ڈھانپ لی جائیں گی۔

اس کے برعکس جس کی تنقید مقصود ہو وہ گمراہوں، اہل انحراف اور ان لوگوں میں سے ہو جو تباہ کن یا مشکوک اصولوں پر کاربند ہیں؛ ایسے شخص میں اگر واقعی کچھ اچھائیاں ہیں بھی تو ہمارے لئے انہیں بیان کرناجائز نہیں؛ کیونکہ اگر ہم اس کی اچھائیاں بیان کریں گے تو یہ لوگوں کی دھوکہ دہی کا سبب بنے گا؛ اور وہ اس گمراہ یا بدعتی یا خرافت زدہ یا حزبی (فرقہ پرست) کے بارے میں حسن ظن رکھیں گے، اور اس گمراہ یا بدعتی یا حزبی کی باتوں کو قبول کرلیں گے۔

اللہ تعالی نے کافروں، مجرموں اور منافقین کا رد فرمایا اور ان کی اچھائیوں میں سے کچھ بھی ذکر نہیں فرمایا([1])، اسی طرح آئمہ سلف نے جہمیہ، معتزلہ اور دیگر گمراہوں پررد فرمایا ، مگر ان کی نیکیوں میں سے کچھ بھی بیان نہیں فرمایا؛ کیونکہ ان کی گمراہی، یا کفر، یا الحاد، یا نفاق ان کی اچھائیوں پر بھاری ہے؛ یہ بات قطعاًنامناسب ہے کہ آپ کسی گمراہ، بدعتی یا منحرف پر رد کریں اور ساتھ ہی اس کی خوبیاں بھی بیان کریں، اور ایسا کہيں کہ: وہ ایک اچھا ونیک انسان ہے، اور اس کی بہت سی نیکیاں بھی ہیں، اور یہ ہے اور وہ ہے، لیکن اس سے غلطی ہوگئی !!۔

ہم آپ سے یہ کہیں گے کہ آپ کی اس کی تعریف کرنا اس کی پھیلائی ہوئی گمراہی سے بھی زیادہ خطرناک ہے، کیونکہ لوگ آپ کی تعریف کی وجہ سے اس پر اعتماد کریں گے، اگر آپ نے اس گمراہ یا بدعتی کی باتوں کو رواج دیا اور اس کی تعریف کی تو یقیناً آپ نے لوگوں کو دھوکے میں رکھا، اور یہ تو گمراہ گر لوگوں کے افکار کو قبول کرنے کا دروازہ کھولنے کے مترادف ہے([2])۔

لیکن اگر جس کا رد مقصود ہو وہ اہلسنت والجماعت میں سے ہو تو اس کا رد ادب کے دائرہ میں ہوگا، اور فقہی مسائل یا استنباط واجتہاد کے مسائل میں اس کی غلطی پر تنبیہ کی جائے گی؛ پس ہم یہ کہیں گے: فلاں سے اس بارے میں غلطی ہوگئی (اللہ تعالی اس کی مغفرت فرمائے)جبکہ دلیل کے مطابق صحیح بات یہ ہے، یہ آپ کا اجتہاد تھا وغیرہ، جیسا کہ مذاہب اربعہ وغیرہ کے فقہاء وغیرہ میں آپس میں ایک دوسرے کا رد ہوا کرتاتھا۔

اور یہ بات اگر وہ اہلسنت والجماعت میں سے ہیں ان کے علمی مقام ومرتبے میں قدح کا باعث نہیں ہوگی ۔ اہلسنت والجماعت معصوم نہیں ہیں، ان کے یہاں بھی غلطیوں کا امکان ہے ۔کبھی کسی کو دلیل نہیں ملتی اور کبھی استنباط میں غلطی ہوجاتی ہے؛ ہم غلطی پر خاموش تو نہیں رہیں گے اسے بیان کریں گے مگر انہیں معذور سمجھیں گے؛ کیونکہ رسول اللہ (ﷺ) کا فرمان ہے: ‘‘إِذَا حَكَمَ الْحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ، ثُمَّ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ، ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ وَاحِدٌ’’([3]) (جب کوئی حاکم /مجتہد فیصلہ/اجتہاد کرتا ہےاور صحیح بات کو پالیتا ہے تو اس کے لئے دوہرا اجر ہے، اور اگر حاکم/مجتہد فیصلہ/اجتہاد کرتا ہے اور غلطی کرجاتا ہے تو اس کے لئے ایک اجر ہے)ایسا صرف مسائل فقہ میں ہوتا ہے۔

لیکن جہاں تک مسائل عقیدے کا تعلق ہے تو ہمارے لئے جائز نہیں کہ ہم گمراہوں اور اہلسنت والجماعت کے مخالفین کی تعریف بیان کریں جیسے معتزلہ، جہمیہ، زنادقہ اور ملاحدہ([4])، اور اس کے علاوہ موجودہ دور میں پائے جانے والے بہت سے مشکوک قسم کے افراد وغیرہ۔

اس قسم کے شبہے کی اصل وجہ بعض نوجوانوں کا یہ قول ہے کہ "تنقید کرتے وقت اچھائیوں اور برائیوں میں موازنہ کرنا چاہیے" اور اس بارے میں ایک رسالہ تک لکھ مارا ہے؛ جسے لے کر بعض نوجوان خوشی سے اڑے جارہے ہیں۔

میں نے وہ رسالہ پڑھا جس کے مصنف کا گمان ہے کہ موازنہ کرنا لازم ہے۔ اسی طرح سے میں نے وہ رسالہ بھی پڑھا جو شیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ ([5]) نے تصنیف فرمایا جس میں اس رسالے کے مصنف جو موازنے کے لازم ہونے کے گمان میں مبتلا ہے پرانتہائی وافی شافی رد فرمایا ہے، اور یہ واضح فرمایا ہے کہ اس بات میں کتنی غلطیاں ہیں اور کس طرح اس کے ذریعہ باطل کو رواج دیا جاسکتا ہے، اور رد کے سلسلے میں مذہب سلف بھی بیان فرمایا کہ انہوں نے گمراہ لوگوں پر رد فرمایا مگر ان میں سےکسی کی بھی تعریف نہیں فرمائی؛ کیونکہ اگر وہ ان کی تعریف بھی بیان کرتے تو یہ تضاد بیانی میں شمار ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حاشیہ:

[1] خوبیوں سے خالی تو کوئی بھی نہیں یہا ں تک یہودونصاری کے پاس بھی اچھائیاں موجود ہیں؛ اب ان اہل موازنہ کے قاعدے کے مطابق ہمیں کافروں کی اچھائیاں بھی بیان کرنی چاہیے جب کبھی بھی ہم ان کا ذکر کریں، حالانکہ ایسی بات توکوئی عام عاقل انسان تک نہیں کہتا چہ جائیکہ کوئی طالبعلم ایسی بات کرے؛ لہذا اس پر غور کریں اللہ تعالی ہم سب کو توفیق سے نوازے۔ پس تنقید کے بارے میں منہج سلف یہی ہے کہ ان کی اچھائیاں بیان نہ کی جائیں، اور اگر کبھی انہوں نے ان کی کچھ خوبیاں وغیرہ بیان کی بھی ہیں تو وہ بھی محض اس لئے کہ لوگ اس کی یہ نیکیاں دیکھ کر کہیں دھوکہ میں نہ آجائیں، نہ کہ اس لئے جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ ہمیں ان کی جدوجہد اور اعمال خیر کو نہیں بھولنا چاہیے وغیرہ۔ مندرجہ ذیل مثال اس بارے میں سب سے قوی دلیل ہے، اور اس شخص کے لئے اس میں ہدایت ونور ہے جو غوروفکر سےکام لے:
رسول اللہ (ﷺ) نے خوارج سے متعلق حدیث میں فرمایا: ‘‘ يَخْرُجُ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا قَوْمٌ ، يَقْرَؤُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِز حَنَاجِرَهُمْ ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ يَقْتُلُونَ أَهْلَ الْإِسْلَامِ وَيَدَعُونَ أَهْلَ الْأَوْثَانِ لَئِنْ أَنَا أَدْرَكْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ عَادٍ’’ (صحیح بخاری 3166) (اس کی پشت ونسل میں سے ایسی قوم پیدا ہوگی جو قرآن کریم کی تلاوت کرے گی لیکن وہ ان کی حلق سے نیچے نہیں اترے گا، دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے کہ تیر کمان سے نکلتا ہے، اہل اسلام کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے؛ اگر میں نے انہیں پالیا تو ضرور انہیں قوم عاد کی مانند قتل کردوں گا) اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ: ‘‘يَحْقِرُ أَحَدُكُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِمْ وَصِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِم’’ (صحیح بخاری 3414) (تم اپنی نمازوں کو ان کی نمازوں کے سامنے، اور اپنے روزوں کو ان کے روزوں کے سامنے حقیر تصور کرو گے) اور ایک اور روایت میں ہے: ‘‘فَأَيْنَمَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ’’ (صحیح بخاری 3415) (تم جہاں کہیں بھی انہیں پاؤ قتل کردو)

میں اللہ تعالی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جس کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں، کہ رسول اللہ (ﷺ) نے اس قوم کی یہ صفات اس لئے بیان نہیں کیں کہ ان کی تعریف کی جارہی ہے یا بھلے لوگ ان کے ذریعہ سے دھوکا کھائیں ۔ بلکہ آپ (ﷺ) تو لوگوں کو ان سے خبردار فرمارہے ہیں کہ کہیں وہ ان کے ظاہراً نیک اعمال سے دھوکہ نہ میں آئيں۔ چناچہ سلف نے اسی معنی کو سمجھا، اور اپنی پوری زندگی میں اسی کی تطبیق فرمائی یہاں تک کہ یہ ایک منہج بن گیا جس کا وہ اعتقاد رکھا کرتے تھے۔

لہذا دیکھیں یہ امام احمد ؒ ہیں انہوں نے کرابیسی کو "اللفظ" کہنے پر ساقط قرار دیا۔ امام عبداللہ بن احمد بن حنبل ؒ اپنی کتاب "السنۃ": (1/165) میں فرماتے ہیں: ‘‘سمعت أبي يقول: من قال لفظي بالقرآن مخلوق هذا كلام سوء رديء، وهو كلام الجهمية ، قلت له : إن حسينًا الكرابيسي يقول هذا؛ فقال: كذب، هتكه الله، الخبيث’’ (میں نے اپنے والد محترم کو فرماتے ہوئے سنا: جو یہ کہے کہ میرے قرآن کا تلفظ کرنا مخلوق ہے، تو یہ کلام برا اور ردی ہے، اور یہ جہمیہ کا کلام ہے۔ میں نے کہا حسین کرابیسی ایسا کہتا ہے؛ تو آپ نے فرمایا: جھوٹ بولتا ہے، اللہ تعالی اسے رسوا کرے، خبیث ہے)

ایک وضاحت: میں (طارق علی) کہتا ہوں کہ: انسان جب قرآن کی تلاوت کرتا ہے تو یہ تلاوت اس کا عمل ہے اور انسان کا عمل بھی اسی کی طرح مخلوق ہے(الصآفات: 96، الفلق: 2)، اس موضوع پر امام بخاریؒ نے ایک کتاب بھی تصنیف فرمائی ہے "خلق افعال العباد" جبکہ امام احمدؒ کے دور میں جب ایسا کہا جاتا تھا تو اس کلمے میں احتمال کی گنجائش تھی کہ آیا "لفظی" سے مراد قرآن ہے جس کی تلاوت کی جارہی ہے یعنی قرآن کو مخلوق کہا جارہا ہے یا پھر اپنے اس عمل کو، چناچہ اس کے ذریعہ سے اہل بدعت جہمیہ اور معتزلہ وغیرہ کو اپنی بدعت پھیلانے کی گنجائش مل سکتی تھی، چناچہ آپ نے اس کا بھی سختی سے رد فرمایا۔ (شرح اصول السنۃ امام احمد از شیخ ربیع بن ہادی)۔

(الحارثی مزید فرماتے ہیں) اور امام احمدؒ نے حارث المحاسبی کے بارے میں اس سے بھی شدید بات کہی، اس بارے میں ان سے علی بن ابی خالد نے بیان فرمایا کہ میں نے امام احمدؒ سے دریافت کیا کہ: یہ شیخ (جو میرے ساتھ حاضر ہوئےہیں) میرے پڑوسی ہیں۔ انہیں میں نے ایک شخص سے منع کیا، مگر یہ اس شخص کے بارے میں آپ کی رائے بھی جاننا چاہتا ہے، وہ شخص حارث القصیرہے (یعنی حارث المحاسبی)۔ آپ نے مجھے بھی کافی برسوں سے اس کے ساتھ دیکھا تھا تو مجھے ارشاد فرمایا تھا کہ: ‘‘لا تجالسه، ولا تكلمه ’’ (میں اس کے ساتھ نہ بیٹھوں اور نہ کلام کروں) تو میں نے اس کے بعد سے اس وقت تک بات نہیں کی، جبکہ یہ شیخ (میرے پڑوسی) اس کے ساتھ بیٹھتے ہیں، تو آپ کی اس کے بارے میں کیا رائے ہے؟۔ فرماتے ہیں: میں نے دیکھا کہ امام احمد ؒ کا رنگ سرخ پڑ گیا، رخسار پھول گئے اور آنکھیں باہر نکل آئیں، حالانکہ میں نے آج سے پہلے انہیں کبھی بھی اس حالت میں نہیں دیکھا تھا۔پھر آپ سر ہلاتے ہوئے فرمانے لگے: ‘‘ذاك ؟! فعل الله به وفعل، ليس يعرف ذاك إلا من خَبَرَه وعرفه، أُوّيه، أُوّيه، أُوّيه. ذاك لا يعرفه إلا من قد خبره وعرفه . ذاك جالسه المغازلي، ويعقوب، وفلان؛ فأخرجهم إلى رأي جَهْم، هلكوا بسببه’’ (یہی بات ہے؟! اللہ تعالی نے اس کے ساتھ کیا جو کیا، اس کے بارے میں نہیں جان سکتا مگر وہی کہ جسے اس کا تجربہ ہوا ہو جس سے وہ اس کی حقیقت جان گیا ہو، اف۔۔، یہ بات نہیں جان سکتا مگر وہی کہ جسے اس کا تجربہ ہوا ہو جس سے وہ اس کی حقیقت جان گیا ہو ، اس کے ساتھ تو مغازلی، یعقوب اور فلاں بھی بیٹھا تو انہیں اس نے جہم (بن صفوان) کی رائے کا قائل بنادیا، پس وہ اس کے سبب سے ہلاکت میں پڑ گئے)۔

اس پر اس شیخ نے عرض کی کہ اے ابو عبداللہ (امام احمد)، وہ حدیث روایت کرتے ہیں، بہت نرم مزاج اور خشوع رکھتے ہیں، ان کے متعلق یہ قصہ ہے اور یہ بھی قصہ ہے؟ اس پر ابو عبداللہ غصہ میں آگئے اور فرمایا: ‘‘لا يغرّك خشوعه ولينه’’ (اس کا خشوع اور نرمی تمہیں ہرگز بھی دھوکہ میں ڈالے) اور فرمایا: ‘‘لا تغترّ بتنكيس رأسه؛ فإنه رجل سوء، ذاك لا يعرفه إلا من قد خبره، لا تكلمه، ولا كرامة له، كل من حدّث بحديث رسول اللهﷺ وكان مبتدعاً تجلس إليه؟ لا، ولا كرامۃ، ولا نُعمی عين’’ (طبقات الحنابلة : 1/233) (اس کے بطور عاجزی سرجھکائے رکھنے سے ہرگز بھی دھوکہ نہیں کھانا چاہیے، کیونکہ وہ ایک برا آدمی ہے، جسے نہیں جانتا مگر وہی جسے اس کا تجربہ ہوا ہو، اس سے کلام نہ کرنا، وہ کسی تکریم کا مستحق نہیں، کیا ہر کوئی جو حدیث نبوی (ﷺ) بیان کرے گا اگرچہ وہ بدعتی ہو، آپ اس کی محفل میں بیٹھیں گے؟ بالکل نہیں، اس کی نہ کوئی عزت افزائی ہونی چاہیے اور نہ ہی قدرشناسی)

میں (الحارثی) یہ کہتا ہوں کہ: امام احمدؒ کی جانب سےکہاں ہے وہ نام نہاد انصاف(منہج موازنات)! کہ انہوں نے کرابیسی کی اور نہ ہی محاسبی کی کوئی ایک بھی نیکی ذکر نہیں فرمائی؟، حالانکہ کرابیسی جو علم کا ایک سمندر تھا جیسا کہ اس کے حالات زندگی میں لکھا ہوا ہے۔ جس کی طرف پہلے بھی اشارہ گزر چکا ہے دیکھیں سوال نمبر 9 اور 10، اسی طرح دیکھیں تاریخ بغداد (8/64)، السِّير (12/79)۔

اللہ تعالی امام احمد پر رحم فرمائے اگر وہ ہمارے اس زمانے میں موجود ہوتے تو وہ بھی ان طعنوں سے نہ بچ پاتےجیسے متشدد، ایجنٹ،بے دین اور اس جیسے دوسرے القاب جو حزبی لوگ واضح حجتوں کے آگے عاجز آجانے کے بعد (اہل حق پر) چسپاں کرتے ہیں؛ (حالانکہ ان کا قصورصرف یہ ہے) کیونکہ انہوں نے اہل بدعت و اہوا کے حق میں کوئی نرمی یا مداہنت نہیں برتی۔

رافع بن اشرس " فرماتےہیں: ‘‘من عقوبة الفاسق المبتدع أن لا تُذكر محاسنه’’ (شرح علل الترمذي : 1/353 ). (ایک فاسق وبدعتی کی یہ سزا ہے کہ اس کے محاسن ونیکیاں بھی بیان نہیں ہوتیں)۔

[2] محتر م قاری ایک واقعہ پیش خدمت ہےکہ اہل بدعت کی تعریف کس طرح لوگوں کے دھوکے کا سبب بنتی ہے۔ اس واقعے کو امام ذہبی " وغیرہ نے روایت فرمایا ہے: (ابو الولید الباجی اپنی تالیف کردہ کتاب "اختصار فرق الفقهاء" میں قاضی ابو بکر الباقلانی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مجھے ابوذر الہروی نے بتایا کہ وہ ان کے اشعری مذہب کی طرف مائل تھے، تو میں نے دریافت کیا: آپ ایسے کس طرح ہوگئے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ: میں ابو الحسن الدارقطنی کے ساتھ جارہا تھا تو ہماری ملاقات قاضی ابوبکرابن الطیب (اشعری) سے ہوئی، امام دارقطنی "نے انہیں گلے لگایا اور ان کے ماتھے اور آنکھوں پر بوسہ دیا؛ جب وہ ان سے جدا ہوئے تو میں نے امام دارقطنی سے دریافت فرمایا یہ شخص کون تھا جس کے ساتھ آپ اس تپاک سے ملے جس طرح میرے خیال میں آپ اور کسی سے نہیں ملتے، حالانکہ آپ تو خود اپنے وقت کے امام ہیں؟تو انہوں نے فرمایا: یہ تو امام المسلمین اور دین کا دفاع کرنے والے قاضی ابوبکر الطیب تھے تو اس وقت سے میں ان کے یہاں مسلسل حاضر رہتا اور آخرکار ان کے مذہب کی پیروی اختیار کرلی)۔ (تذكرة الحفاظ : 3/1104-1105)، اور (السير : 17/558-559).

میں (الحارثی) یہ کہتا ہوں کہ: اس قصے میں آپ نے دیکھا کہ جب امام دارقطنی " نے باقلانی جو کہ اشعری تھا کہ ساتھ ایسا سلوک کیا اور اس کی تعریف فرمائی کہ وہ "امام المسلمین" ہیں وغیرہ؛ تو اس سبب سے وہ شخص دھوکے میں آگیا جس نے انہیں یہ سب کرتے دیکھا اور آخرکار اشاعرہ کامذہب اپنا لیا۔ اسی طرح جو کوئی بھی کسی اہل بدعت واہوا کی تعریف کرتا ہے تو ایک خلق کثیر کا اس بدعتی کے مذہب اپنانے کا سبب بنتا ہے خصوصاً وہ بدعتی جو ظاہرا ًخیر وبھلائی پر ہوں۔ واللہ اعلم۔

[3] البخاري : (6919)، مسلم : (1716).

[4]کوئی کہنے والا یہ کہہ سکتا ہے کہ تم کیوں معتزلہ، جہمیہ، زنادقہ، اشاعرہ، خوارج ومرجئہ وغیرہ پر کلام کرتے ہو اور جب کبھی بھی مسائل عقیدہ بیان کرتے ہو ہمیشہ ساتھ ان کا ذکر بھی کرتے ہو۔حالانکہ یہ فرقے تو گزر چکے ہیں اور اس کے اہل تو منوں مٹی تلے دفن ہوچکے ہیں۔ یا جیسی کہاوت ہے کہ وہ مرکھپ گئے ہیں۔ لہذا کوئی ایسا داعیہ نہیں کہ جس کی وجہ سے ان کے ذکر کرنے کی ضرورت محسوس ہو؟

ہم اللہ تعالی کی توفیق سے یہ کہیں گے کہ: یہ بات بجا ہے کہ یہ فرقے ماضی میں ہوا کرتے تھے اور اس کے بانی واہل صدیاں ہوئیں اس دنیا سے کوچ کرچکے ہیں۔لیکن ان کے افکار، عقائد بلکہ ان کے متاثرین ،ان کے پیروکاراب تک ہمارے درمیان موجود ہیں۔ ان کے عقائد وافکار تو نسل در نسل منتقل ہوتے چلے آرہے ہیں اور اسے باقاعدہ رواج دینے والے افراد موجود ہیں۔

معتزلہ کا عقیدہ: (معتزلہ اللہ تعالی کی صفات کاانکارکرتےاوردین میں عقل پرستی کے قائل ہیں) آج بھی موجود ہے بلکہ اسلام کی جانب منسوب ہونے والے بہت سے لوگوں میں پھیلا ہوا ہے کیونکہ شیعہ اپنے تمام گروپوں کے ساتھ یہاں تک کہ زیدیہ بھی اعتزال کے عقیدے پر ہیں یعنی معتزلی بھی ہیں۔

اشاعرہ: (اشاعرہ یاماتریدہ اللہ تعالی کی صفات کی تاویل کرتے ہیں اور دیگر گمراہ عقائد رکھتے ہیں) آج مسلمانوں کی اکثریت میں اس کا تو باقاعدہ جماعتی وجود ہے۔

الارجاء: (الارجاء یعنی عمل ایمان سے خارج ہے اور ایمان میں کمی زیادتی نہیں ہوتی۔ اس عقیدے کے حاملین کو مرجئی کہا جاتا ہے) یہ بھی موجود ہے احناف کے یہاں کہ جو ایمان کو محض تصدیق اور قول تک محدود کرتے ہیں ان کے نزدیک اعمال ایمان کے اسم میں داخل نہیں، اگرچہ یہ ارجاء اہل الکلام کے معروف ارجاء سے کچھ کم تر ہے(لہذا انہیں مرجئۃ الفقہاء کہا جاتا ہے تفصیل کے لیے دیکھیں ہماری ویب سائٹ پر کتاب "ایمان وکفر سے متعلق سوال وجواب" از شیخ صالح الفوزان)۔

جہاں کوئی بھی زمانہ ان اہل سنت والجماعت مخالف عقائد ومذاہب سے خالی نہیں وہاں ہر زمانے میں ایسے رجال گزرے ہیں جو ان عقائد کا دفاع کرتے ہیں۔

چناچہ مستقل کمیٹی برائے علمی تحقیقات وافتاء، سعودی عرب نے ارجاء سے خبردار کرتے ہوئے اپنا فتوی رقم (21436) بتاریخ 8/4/1421ھ جاری کیا۔ جس میں کمیٹی نے کہا کہ: (مرجئہ کا قول کہ جو اعمال کو ایمان کے اسم سے خارج کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایمان محض دل سے تصدیق یا پھر دل سے تصدیق اور زبان سےاقرار کا نام ہے۔ اور اعمال ان کے یہاں ایمان کے کمال کی شرط ہے نہ کہ وہ ایمان میں سے ہے یا اس کا حصہ ہے۔جو کوئی بھی دل سے تصدیق کرتا ہے اور زبان سے اس کا اقرار کرتا ہے تو وہ ان کے نزدیک کامل ایمان والا مومن ہے۔ خواہ وہ جو کچھ بھی کرتا پھرے واجبات کو ترک کرے محرمات کا ارتکاب کرے پھر بھی وہ جنت میں جانے کا مستحق ہے اگر اس نے کبھی کوئی نیک کام کیا تک نہ ہو۔۔۔

بلاشک یہ قول باطل، کھلی گمراہی، کتاب وسنت اور جس چیز پر سلف وخلف اہلسنت والجماعت چلتے آئے ہیں اس کے مخالف ہے، اور یہ اہل شر وفساد کے لیے ایک چور دروازہ کھولنے کے مترادف ہے۔۔۔) (دیکھیں کتاب "التحذیر من الارجاء وبعض الکتب الداعیۃ لہ" (ارجاء سے خبردار کرنااور بعض کتب کا ذکر کے جو اس کی طرف دعوت دیتی ہیں) ص 8-9)

اور جہاں تک ملاحدہ کا تعلق ہے جو کہ وحدت الوجود وغیرہ کے قائلین ہیں: تو یہ لوگ بھی موجود ہیں، کیونکہ ابن عربی الطائی کے پیروکار موجود ہیں اور یہی غالی صوفی ہیں۔

لہذا ہم جب ان فرقوں کا ذکر کرتے ہیں تو ہم ان بوسیدہ شدہ ہڈیوں کا ذکر نہیں کرتے کہ جو گزر چکے ہیں بلکہ انہی مسلمانوں کے درمیان موجود فرقوں کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ بات تو ایسی ہے کہ کسی طالب علم پر مخفی نہیں۔ جو ان فرقوں کے ذکر کرنے کی وجہ سے ہم پر انکار وردکرتا ہے تو وہ ایسا شخص ہوگا جسے حقائق کا علم ہی نہیں یا پھر وہ لوگوں کو دھوکے میں رکھ کر باطل عقائد کی ترویج کرنا چاہتا ہے۔ اسے چاہیے کہ رد وانکار کرنے سے پہلے کسی سے پوچھ بھی لیا کرے۔ ہم نے یہ کچھ اختصار سے بیان کردیا ہے ورنہ تو موضوع بہت طویل ہے۔ واللہ اعلم۔

مندرجہ ذیل بعض مثالیں پیش خدمت ہیں کہ جو واضح کرتی ہیں کہ یہ ہلاکت خیز افکار وفرقے اب بھی موجود ہیں:

1- سید قطب اپنی تفسیر "ظلال القرآن" 4/2328 میں کہتا ہے: "القرآن ظاھرۃ کونیۃ کالارض والسموات" (قرآن بھی کائناتی مظہر ہے جیسے زمین وآسمان) اور یہ خلق قرآن کا (قرآن کا مخلوق ہونا) قول ہے جو کہ جہمیہ وغیرہ کا قول ہے۔ اسی طرح سے اپنی تفسیر "ظلال القرآن" میں قرآن کریم کو موسیقی اور میوزکل طرز پر قرار دیتا ہے مثلاً اس نے سورۃ الشمس، الفجر، الغاشیۃ، الطارق، القیامۃ کے تعلق سے ایسا کہا۔ اور سورۃ الاعلی ص 3883 میں اللہ تعالی کو "الصانع" (صنعت کار) سے موصوف کیا۔ تعالی اللہ عما یقولون علوا کبیرا۔
2- اپنی اسی تفسیر "الظلال" 6/4002 میں ﴿قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ﴾ کی تفسیر میں کہتا ہے: (اس میں وجود کی وحدت کا بیان ہے۔ اور اس کی حقیقت کے سوا اور کوئی حقیقت نہیں۔ اور اس کے وجود کے سوا کوئی وجود حقیقی نہیں۔ اس کے علاوہ جتنے وجود ہیں انہوں نے اسی وجود سے اپنا وجود حاصل کیا ہے)۔ اور یہ عقیدہ وحدت الوجود ہے۔

اس بارے میں علامہ شیخ محمد بن صالح العثیمین " فرماتےہیں: (میں نے سید قطب کی سورۂ اخلاص کی تفسیر پڑھی، اس نے اس میں بہت بڑی بات کہی ہے، جو اہل سنت والجماعت کے منہج کے مخالف ہے کیونکہ اس کی تفسیر یہ ثابت کرتی ہے کہ وہ وحدت الوجود کا قائل ہے)۔ (براۃ علماء الامۃ ص 42)

اور محدث الشیخ الالبانی " فرماتے ہیں: (سید قطب نے صوفیوں کا ایسا کلام نقل کیا ہے کہ جس کا مفہوم وحدت الوجود کے سوا اور کچھ بننا ممکن نہیں)۔ (ایضاً ص 37)

اور آپ " نے اپنی ہاتھ کی لکھائی سے کتاب "العواصم مما فی کتب سید قطب میں القواصم" از شیخ ربیع بن ہادی المدخلی ؒکے شروع (ص 3 طبع الثانیہ 1421ھ) میں یہ عبارت لکھی ہے: (آپ نے جو کچھ بھی سید قطب پر رد کیا وہ حق وصواب ہے۔ اور اس سے ہر مسلمان قاری جو تھوڑا بہت اسلامی ثقافت سے واقف ہو پر یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ سید قطب کو اسلام کی صحیح معرفت حاصل نہ تھی نہ اصول کی اور نہ ہی فروع کی۔ پس اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر سے نوازے ہمارے بھائی ربیع کہ آپ نے اس شخص کی اسلام سے جہالت وانحراف کا پردہ چاک کرنے کے واجب کو ادا فرمایا)۔ یہ "مجلۃ السلفیۃ" العدد السابع سن 1422ھ کے ص 46 میں شائع ہوا۔

3- اور محمد قطب کہتا ہے: (لوگوں کو نئےسرے سے اسلام کی دعوت دینے کی ضرورت ہے لیکن ایسا نہیں کہ اب کی بار انہوں نے اپنے منہ سے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہنے کا انکار کیا ہے جیسا کہ لوگوں نے اسلام کی ابتدائی اجنبیت میں کیا تھا۔ مگر اب کی بار انہوں نے اس کلمہ لا الہ الا اللہ کا جو اہم ترین تقاضہ ہے یعنی شریعت الہی کی تحکیم کا انکار کیا ہے)۔ (کتاب "واقعنا المعاصر" ص 29)

میں یہ کہتا ہوں کہ یہ تو جمہور مسلمانوں کی بالجلمہ تکفیر ہے ورنہ کس طرح اس نے سب پر حکم لگا دیا کہ انہوں نے اللہ تعالی کے حکم کا انکار کیا ہے؟ اور کیسے انہیں اسلام سے قبل کی جاہلیت سے تشبیہ دی ہے؟ بلاکسی تفصیل کے، اور استثناء بیان کیے ہوئے کہ جو اللہ تعالی کی شریعت کی تحکیم کرتے ہیں اور جن کا دستور ہی اللہ کی کتاب ہے انہیں بھی مستثنی قرار نہیں دیا۔ اور اس قسم کے اطلاقات ایسے قلمکار ومصنفین اکثر دہراتے رہتے ہیں جیسا کہ وہ جزیرۂ عرب میں موجود اسلامی سلفی مملکت کو وجود کے معترف ہی نہیں یا پھر دنیا کے طول وعرض میں پھیلے دوسرے سچے مسلمین جیسے اہل حدیث، انصار السنۃ اور مذہب سلف پر چلنے والوں کے معترف ہی نہیں۔

اور عجیب وغریب بات یہ بھی ہے کہ اس قسم کے بہت سے مصنفین اسی اسلامی مملکت سعودی عرب میں رہائش پذیر رہتے ہوئے اس قسم کی علی الاطلاق باتیں کرتے ہیں۔ جو قارئین کرام کے لیے کھلی دھوکہ دہی وتلبیس ہے کہ ایک عام قاری یہ سمجھے گویا کہ آج کی اس دنیا میں کو‏ئی اسلامی حکومت موجود نہیں جو کلمہ توحید لا الہ الا اللہ کااقرار کرتی ہو اور اس کے تقاضوں پر عمل پیرا ہو، اللہ تعالی کی شریعت کا نفاذ کرتی ہو، اور کرۂ ارض پر گویا کہ اہل توحید افراد یا جماعتیں موجود ہی نہیں ہیں۔ یہ ان کی جانب سے قارئین کو اس درجے دھوکہ دہی، گمراہی اور تلبیس میں مبتلا کرناہے یہاں تک کہ انہیں تکفیر میں مبتلا کردیں۔ اور بہت سے تو واقعی اس میں تکفیر میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ پس طالب علم کو چاہیے کے وہ اس قبیل کے مصنفین میں پائی جانے والی اس عام ومنتشر برائی سے منتبہ رہیں۔ اللہ تعالی انہیں صحیح راہ کی جانب ہدایت دے۔

4- دعوت سلفیہ کی جانب منسوب ہونے والا ایک داعی کہتا ہے کہ: (مجاہرہ (علی الاعلان گناہ ) میں سے یہ بھی ہے کہ انسان اپنے دوستوں کے سامنے اپنے کردہ گناہوں پر فخر کرے، فجر سے بتاتا پھرے کہ دیکھو میں نے یہ کیا اور یہ کیا اور اپنے گناہوں کی پوری لسٹ بتانا شروع کردے۔ ایسےکو ہرگز نہیں بخشا جائے گا!! الا یہ کہ وہ توبہ کرلے کیونکہ نبی کریم e نے فرمایا کہ اسے معاف نہیں کیا جائے گا ‘‘كُلُّ أُمَّتِي مُعَافًى إِلَّا الْمُجَاهِرِينَ’’ (صحیح بخاری 6069) (میری تمام امت کو معاف کردیا جائے گا سوائے مجاھرین کے) میں یہ کہتا ہوں کہ اس حدیث میں کہاں ہے کہ اللہ تعالی انہیں بالکل بھی معاف نہیں فرمائے گا؟! اسی طرح سے اہل سنت والجماعت میں سے کسی نے کبھی ایسا کہا بھی ہے کہ جو شخص گناہ خواہ کھلم کھلا ہو پر اگر فوت ہوجائے تو اللہ تعالی اسے ہرگز بھی نہیں معاف فرمائے گا الا یہ کہ وہ توبہ کرکے مرتا۔ کیا یہ اللہ تعالی کی مشیئت کے تحت نہیں کہ چاہے تو اسے بخش دے اور چاہے تو عذاب دے کر پھر جنت میں داخل فرمائے؟ ہاں یہ اور بات ہے کہ اس کا قائل اہل سنت کے بجائے خوارج ومعتزلہ سے تعلق رکھتا ہو!!۔

پھر یہ داعی آگے اور کہتا ہے کہ: (اس سے زیادہ خبیث تر وبد تر یہ بات ہے کہ ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ میرے فلاں سے حرام تعلقات ہیں، دوستیاں یاریاں ہیں اور یہاں وہاں کے پرتعیش ٹورز ہیں۔ پس یہ تو گناہ سے بہت خوش، شاداں وفرحاں ہے۔ اور بعض تو اسے کیسٹوں (کیمروں) میں ریکارڈ تک کرتے ہیں۔ ان کی کوئی عزت نہیں کیونکہ یہ اپنے اس فعل کی وجہ سے مرتد ہوچکے ہیں!!۔ باقاعدہ ریکارڈ کرتے ہیں ہم نے اس لڑکی سے کیسے دھوکہ دہی وفلرٹ کرکے بدکاری کی۔ یہ تو اسلام سے ارتداد ہے اور یہ تو ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم میں جائے گا الا یہ کہ وہ توبہ کرے!!)۔ (کیسٹ "جلسۃ علی الرصیف" (فٹ پات پر ایک جلسہ))
اور ایسے گلوکاروں کے بارے میں کہ جن کے ٹریکس وکیسٹوں کو نوجوانوں میں مقبول عام حاصل ہے، اور جو برے اخلاق، نوجوانوں اور لڑکیوں کو کس طرح دام فریب میں پھانسا جائے کی طرف دعوت دیتے ہیں۔۔۔کہا: (میں پورے اطمینان کے ساتھ یہ بات کہتا ہوں کہ اس قسم کے لوگوں کے متعلق کم سے کم جو بات کہی جاسکتی ہے وہ یہ کہ انہوں نے گناہ کو ہلکا جانا ہے۔ اور بلاشک گناہ کو معمولی جاننا خصوصاًاگر کبیرہ گناہ ہو اور جس کی تحریم پر سب کا اتفاق ہو اللہ تعالی کے ساتھ کفر کرنا ہے۔ ایسے لوگوں کا یہ عمل بلاشبہ اسلام سے ارتداد ہے۔ میں یہ کہہ رہا ہوں جب کہ میں اس (فتوی) کے تعلق سے دلی طور پر بالکل مطمئن ہوں۔ (کیسٹ "الشباب اسئلۃ ومشکلات" (نوجوانوں کے سوالات ومشکلات)) اس پر ان شاء اللہ مزید کلام آئندہ تعلیقات میں آئے گا۔

میں یہ کہتا ہوں کہ: تکفیر کرنا اور لوگوں کا آپس میں اپنے گناہوں کی تشہیر کرنے کی تفسیر گناہوں کو اس طور پر ہلکا جاننے سے کرنا کہ جو کفر پر منتج ہو اس شخص کی گناہ کبیرہ پر تکفیر سے بڑھ کر تکفیر کرنے کی جسارت ہے اور بداحتیاطی وعدم خوف الہی کی دلیل ہے۔ یہ تو خوارج کا منہج ہے کہ وہ کبیرہ گناہ کی وجہ سے تکفیر کرتے ہیں۔ اور جو کچھ انہوں نے بیان کیا ہے کہ گناہوں کی تشہیر اور بدکاروں سے تعلق وغیرہ تو اس کلام میں احتمال پایا جاتا ہے جواستحلال یعنی اس قسم کےلوگوں نے اس گناہ کو حلال سمجھ لیا پر صریح دلیل نہیں۔ ممکن ہے ایسا کرنے پر کسی کو جہالت نے ابھارا ہو۔ اسی لیے تذکیر (یاددہانی) کرنا ضروری ہے نہ کے تکفیر۔ اور یہی اہل سنت والجماعت کا طریقہ ہے۔ اور گناہ چاہے کبیرہ ہوں یا صغیرہ ان کا استخفاف (ہلکا تصور کرنا) استہزاء کے برابر نہیں۔ کیونکہ ظاہر بات ہے جو کوئی بھی گناہ کا مرتکب ہوتا ہے وہ اسے اس وقت چھوٹا یا ہلکا سمجھ رہا ہوتا ہے، لہذا ہلکا جاننے والا احکام الہی سے استہزاء (مذاق) کرنے والا (جو کہ کفر ہے) نہیں۔ اور ہم میں سے کون ہے جو گناہوں سے معصوم ہو؟! واللہ اعلم۔

5- ایک اور داعی بیک وقت خود سوال اور جواب کےانداز میں کہتا ہے: (کیا آپ یہ تصور کرتے ہیں کہ ہمارے اس معاشرے میں پائی جانے والی منکرات محض معاصی یاگناہ ہیں؟ بہت سے لوگ آج یہی تصور کرتے ہیں کہ ربا (سود) محض معصیت یا کبیرہ گناہ ہے، اسی طرح سے نشہ کرنا وشراب نوشی فقط معصیت ہے، اوررشوت بھی محض معصیت یا کبیرہ گناہ ہے۔۔۔نہیں میرے بھائیوں!! میں نے اس بات پر کافی غوروفکر کیا اور اب مجھ پر یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ ہمارےاس معاشرے میں بہت سے لوگوں نےسود کی تحلیل یعنی اسے حلال جان لیا ہے – العیاذ باللہ (اللہ کی پناہ)!!۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ہمارے ملک کے سودی بینکوں میں اب لوگ لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ خدارا! کیا آپ اب بھی یہی سمجھتے ہیں کہ یہ لاکھوں لوگ سود کے حرام ہونے کا اعتقاد رکھتے ہوں گے لیکن اسے محض گناہ سمجھ کر اس کےمرتکب ہوتے ہوں گے؟ نہیں، اللہ کی قسم، ہرگز نہیں!!۔ لہذاگناہوں کی پھیل جانےکےسبب موجودہ خطرات میں سے یہ بھی ہےکہ ان میں سے بہت سوں نے ان کبیرہ گناہوں کو حلال جان لیا ہے – العیاذ باللہ۔) (کیسٹ"التوحیداولاً!!" (توحید سب سے پہلے))

میں وہی کہوں گا جو میں نے اس سے پہلی مثال کے بارے میں کہا تھا۔ لیکن میرے فہم کے مطابق یہ مثال اس قائل کے لیے پچھلی مثال سے زیادہ خطرناک ہےکیونکہ اس نےاپنی اس خطرناک مبالغہ آرائی میں یہ کہہ دیا کہ اس معاشرے میں جو بھی سود، نشہ ورشوت ہوتی ہے یہ سب کی سب محض معصیت یا کبیرہ گناہ نہیں اوراس پر اللہ تعالی کی قسم بھی کھاتا ہے۔ اور میں نے اس سے پہلے والی مثال میں بھی اس طرف اشارہ کیا تھا۔ اس بات کو بالجزم ویقین کے ساتھ کہنا کہ جو بھی ان گناہوں کا مترکب ہوتا ہے وہ لازماً ان کو حلال سمجھتا ہوگا بنا کسی صریح الفاظ کےسنے ہوئے کہ کسی نے ایسا کہا ہو: سود حلال ہے، رشوت لینا دینا حلال ہے، نشہ وشراب حلال ہے۔ ان عبارات کے سنے بغیر کسی کی بالجزم ویقینی تکفیر کرنے کے لیے واضح وعدل وانصاف پر مبنی گواہی درکار ہے ناکہ محض احتمال ہو۔ یہ سب اس تکفیر کرنے والے کی خوف الہی میں کمی اور تکفیر کرنے میں لاپرواہانہ انداز اختیار کرنا ہے خوارج اور معتزلہ کی طرح۔

پس میری نصیحت اس کے اور اس کےجیسے دوسروں کے لیے یہی ہے کہ دوسروں سے پہلے خود انہیں اس قسم کی خطرناک تصریحات سے رجوع کرنا ضروری ہے، اور حق کی جانب رجوع کرنا باطل پر اڑے رہنے سے بہتر ہے۔

6- اور ایک تیسرے داعی جو کہ عقیدے میں دکتور (ڈاکٹریٹ) ہیں وہ اللہ کے گھروں میں سے ایک گھر یعنی مسجد میں اپنے ساتھ ایک میگزین لائے جس میں خلیجی ممالک میں سے کسی میں واقع ایک ہوٹل کی تصویر تھی اور انہوں نے مسجد کی حرمت کا کچھ پاس بھی نہیں کیا۔ چناچہ وہ تصویر دکھا کر کہتے ہیں: (اس ہوٹل میں واضح طورپر شراب کے جام پیش کیے جارہے ہیں اور اس سے آگے مزید جو ہوتا ہے۔ ۔ ۔یہ تو کھلے عام اور صریح شراب نوشی کی دعوت ہے، اور یہاں تو شراب نوشی کے ساتھ مردوزن کا مخلوط اور برہنہ رقص بھی ہے، ہم اس کفر سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرتے ہیں) (کیسٹ رقم 2/272 شرح العقیدۃ الواسطیۃ)

اور اپنی کتاب میں کہتے ہیں: (ہمارے اخبارات میں کفر ظاہر ہے، اور ہماری محفلوں میں منکر افشاں ہیں، اور ہمارے ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعے زناکی دعوت دی جارہی ہے، اور ہم نے سود کو جائزومباح بنالیا ہے)
یہ کتاب مختلف ناموں اور عناوین کےساتھ طبع ہوتی رہی ہے۔ پاکستان میں "کشف الغمۃ عن علماء الامۃ" امریکا میں "وعد کیسنجر" اورمصرمیں بعنوان "حقائق احداث الخلیج"۔

ان تمام باتوں سے متعلق میں یہ کہتا ہوں کہ آپ نے یہ کلام کرنے والے حضرت کو دیکھا کہ کس طرح ہم پر زبردستی تھوپ رہے ہیں کہ ہم نے سود کو حلال کردیا اور اس کے ساتھ ساتھ جو انہوں نےکہا۔ حالانکہ الحمدللہ نہ ہم نے اور نہ ہی ہمارے معاشرے نے سودکو حلال کیا ہے۔ اور نہ ہی ہم بعض پڑوسی ممالک میں شراب نوشی کے عام ہونے کو اسلام سے خارج کرنے والا کفر سمجھتے ہیں۔ بلکہ اللہ تعالی کے یہاں ہم جس دین کا اعتقاد رکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ: جن امور کا ان سلفی دعوت کی جانب منتسب داعی نے ذکر کیا ہے سب کے سب معاصی وگناہ ہیں جو کفر سے کم تر ہیں۔ بلکہ یہ سب کفردون کفر (اصل کفر جو دین سے خارج کردیتا ہے سے کم تر کفر) یعنی ان معاصی وکبیرہ گناہوں کے مرتکب سے کامل ایمان کی نفی کی جاتی ہے ناکہ اصل ایمان کی۔ جیسا کہ نبی کریم e کا فرمان ہے: ‘‘لَا يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ۔۔وَلَا يَسْرِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ۔۔’’ (ایک زانی زنا کرتے وقت مومن نہیں ہوتا، اور چور چوری کرتے ہوئے مومن نہیں ہوتا۔ ۔ ۔) (بخاری 2343، 5256، 6390، 6400، 6425) بلاشبہ یہاں جس ایمان کی نفی کی جارہی ہے وہ کامل ایمان ہے(ناکہ اصل ایمان، بلکہ دوسری حدیث کے مطابق اس بدکار کا ایمان اس پر سایہ فگن ہوجاتا ہے اور جب وہ اس گناہ سے فارغ ہوجاتا ہےتو پھر لوٹ آتا ہے) اور اس کی بہت سی مثالیں ہماری شریعت میں موجود ہیں۔ اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ ہمیں وہ اپنے دین کی صحیح سمجھ وفہم عطاء فرمادے اور انہیں اور ان جیسے دوسروں کو حق بات کی جانب رجوع کی توفیق عنایت فرمادے۔

اے پیارے قاری بھائی کہ جو سلفی منہج پر مطلع ہوئے ہوموجودہ افکار کی ان تمام مثالوں کو جو محض ان فریب خوردہ نوجوانوں سےجواس داعی یاکسی دوسرے کی مجلس میں بیٹھتے ہیں صادر نہیں ہوئیں بلکہ خود ان بعض داعیان سے صادرہوئی ہیں ، اور ان سے یہ نوجوان ایسے افکار واعتقادات حاصل کرتے ہیں جو عقیدۂ سلف کی تباہی وبربادی کا باعث ہے۔ کیا ان سب کے باوجود تم کہو گے کہ ہم کیوں ان فرقوں پر بات کرتے ہیں جو گزر چکے اوران کا قصہ تمام ہوچکاہے کہ جو اپنے عقائد اور سلوک میں منحرف تھے۔ حالانکہ ان کا عقیدہ تو باقی ہے اور انحراف تو موجود ہے؟ لہذا دعوت توحید کی اہمیت اور اس پر عمل کے بارے میں غوروفکر کرو (اللہ تعالی تمہیں توفیق سے نوازے)۔ اورہر زمان ومکان میں پائے جانے والے فرقوں سے تحذیر وخبردار کرکے کتاب وسنت کی روشنی میں منہج سلف کی جانب رجوع کرو۔ واللہ اعلم۔
[5] یہ کتاب "منھج اھل السنۃ والجماعۃ فی نقد الکتب والرجال والطوائف" (کتب، اشخاص وجماعتوں پر رد کرنے کے بارے میں اہل سنت والجماعت کا منہج)۔ اس کتاب کی نئے طرز پر طبع ثانیہ ہوچکی ہے جس میں بعض اہم اضافہ جات بھی کیے گئے ہيں۔ اسے پڑھنے کی ہم نصیحت کرتے ہیں۔
(کتاب الاجوبۃ المفیدۃ عن الاسئلۃ المناھج الجدیدۃ س 19)
 
Top