• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

موبائل سے قرآن مجید کی تلاوت کرنے کیلیے وضو شرط ہے؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
موبائل سے قرآن مجید کی تلاوت کرنے کیلیے وضو شرط ہے؟

سوال: کچھ موبائلوں میں قرآن مجید کے ایسے سافٹ وئیر ہیں جن کے ذریعے آپ جب چاہیں موبائل کی اسکرین پر قرآن مجید پڑھ سکتے ہیں، تو کیا موبائل سے قرآن مجید پڑھنے کیلیے وضو شرط ہے؟

Published Date: 2016-07-21

الحمد للہ:

جن موبائلوں میں قرآن مجید کتابت یا آڈیو فائلوں کی صورت میں ہے ان کا حکم مصحف یعنی قرآن مجید والا نہیں ہے، اس لیے موبائل میں موجود قرآن مجید کو بغیر وضو کے چھوا جا سکتا ہے، اسی طرح انہیں لیکر بیت الخلاء میں بھی جا سکتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ موبائل میں قرآن مجید کی کتابت ایسے نہیں ہوتی جیسے کہ کتابی شکل میں ہوتی ہے، بلکہ یہ لہریں ہوتی ہیں جو زائل بھی ہو جاتی ہیں، چنانچہ موبائل قرآن مجید کی کتابت عارضی ہوتی ہے مستقل نہیں، ویسے بھی موبائل میں قرآن مجید کے ساتھ اور بہت سی چیزیں ہوتی ہیں۔

شیخ عبد الرحمن بن ناصر البراک سے استفسار کیا گیا کہ:

کہ بغیر وضو کے موبائل سے قرآن مجید دیکھ کر پڑھنے کا کیا حکم ہے؟

تو انہوں نے جواب دیا:

"تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں، درود و سلام ہوں سب سے آخری پیغمبر پر جن کے بعد کوئی نبی نہیں، اما بعد:

یہ بات واضح ہے کہ زبانی تلاوت کرنے کیلیے وضو کی شرط نہیں لگائی جاتی بلکہ جنابت کی حالت میں بھی زبانی تلاوت کی جا سکتی ہے، تاہم زبانی تلاوت کرتے ہوئے بھی با وضو ہونا افضل اور بہتر ہے؛ کیونکہ قرآن مجید اللہ تعالی کا کلام ہے اور باوضو ہو کر قرآن مجید کی تلاوت کرنا قرآن مجید کی کامل تعظیم میں شامل ہے۔

جبکہ قرآن مجید پکڑ کر تلاوت کرنے کیلیے مطلق طور پر با وضو ہونا شرط ہے؛ جیسے کہ مشہور حدیث میں ہے کہ: (قرآن مجید کو با وضو شخص ہی ہاتھ لگائے) اسی طرح صحابہ کرام اور تابعین عظام سے بھی اس بارے میں آثار منقول ہیں، اسی بات کے جمہور اہل علم قائل ہیں کہ بے وضگی کی حالت میں قرآن مجید کو ہاتھ نہیں لگانا چاہیے، چاہے تلاوت کیلیے ہاتھ لگانا مقصود ہو یا کسی اور مقصد سے۔

اس بنا پر موبائل یا دیگر جدید آلات جن میں قرآن مجید ریکارڈ ہوتا ہے ان کا حکم مصحف والا نہیں ہے؛ کیونکہ ان آلات میں قرآن مجید کے حروف کی ماہیت ایسے نہیں ہوتی جیسے کہ مصحف میں ہوتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ موبائل میں قرآن مجید لہروں اور شعاعوں کی شکل میں ہوتا ہے جن سے ضرورت کے وقت قرآن مجید کی شکل بن کر عیاں ہوتی ہے، لہذا اگر قرآن مجید کھول کر کوئی اور پروگرام کھول لیا جائے تو قرآن مجید اسکرین سے غائب ہو جاتا ہے، اس لیے موبائل کو یا کیسٹ جس میں قرآن مجید ریکارڈ ہے ہاتھ لگایا جا سکتا ہے، اسی طرح موبائل سے قرآن مجید کی تلاوت کرنا بھی جائز ہے، چاہے وضو نہ بھی ہو" انتہی

ماخوذ از ویب سائٹ: "نور الإسلام"

اسی طرح شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ سے استفسار کیا گیا:

"مجھے قرآن مجید پڑھنے کا بہت شوق ہے، عام طور پر میں مسجد میں جلدی پہنچ کر اپنے جدید ترین موبائل سے قرآن مجید نکال کر پڑھنا شروع کر دیتا ہے، میرے موبائل میں مکمل قرآن مجید ہے، بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ میرا وضو نہیں ہوتا تو پھر بھی میں اپنے موبائل سے قرآن مجید کی تلاوت کر لیتا ہوں ، تو کیا موبائل سے تلاوت کرتے ہوئے بھی با وضو ہونا ضروری ہے؟"

تو انہوں نے جواب دیا:

"یہ لوگوں میں موجود آرام پسندی رویہ کے سبب ہے؛ کیونکہ اللہ کا شکر ہے کہ بہترین پرنٹنگ والے قرآن مجید مساجد میں موجود ہیں ، اس لیے موبائل سے قرآن مجید کی تلاوت کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے، تاہم اگر ایسا ممکن ہو گیا ہے تو ہم یہ نہیں سمجھتے کہ اس کا حکم بھی مصحف والا ہوگا۔

مصحف کو صرف با وضو شخص ہی ہاتھ لگا سکتا ہے، جیسے کہ حدیث میں ہے کہ: (اسے صرف با وضو شخص ہی ہاتھ لگائے) جبکہ موبائل کو مصحف نہیں کہا جا سکتا۔" انتہی

موبائل سے قرآن مجید کی تلاوت میں حائضہ خواتین کیلیے بھی آسانی ہے اسی طرح ان کیلیے بھی آسانی ہے جن کیلیے قرآن مجید ہر وقت اپنے ساتھ رکھنا مشکل ہے، یا ایسی جگہ پر انسان موجود ہو جہاں پر وضو کرنا مشکل ہے؛ کیونکہ موبائل سے تلاوت کرتے ہوئے با وضو ہونا شرط نہیں ہے، جیسے کہ پہلے گزر چکا ہے۔

واللہ اعلم.

اسلام سوال و جواب

https://islamqa.info/ur/106961
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
مصحف کو صرف با وضو شخص ہی ہاتھ لگا سکتا ہے، جیسے کہ حدیث میں ہے کہ: (اسے صرف با وضو شخص ہی ہاتھ لگائے) جبکہ موبائل کو مصحف نہیں کہا جا سکتا۔" انتہی
براہَ کرم اس مذکورہ حدیث کا عربی متن بحوالہ لکھ دیں۔ مجھے اس مضمون کی حدیث کی کافی عرصہ سے تلاش ہے مگر ملی نہیں۔ شکریہ
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
براہَ کرم اس مذکورہ حدیث کا عربی متن بحوالہ لکھ دیں۔ مجھے اس مضمون کی حدیث کی کافی عرصہ سے تلاش ہے مگر ملی نہیں۔ شکریہ
لا يَمَسُّ القُرآنَ إلَّا طاهِرٌ
الراوي: عبدالله بن عمر المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الجامع - الصفحة أو الرقم: 7780
خلاصة حكم المحدث: صحيح
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
لسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !
مصحف کو صرف با وضو شخص ہی ہاتھ لگا سکتا ہے، جیسے کہ حدیث میں ہے کہ: (اسے صرف با وضو شخص ہی ہاتھ لگائے) جبکہ موبائل کو مصحف نہیں کہا جا سکتا۔" انتہی
براہَ کرم اس مذکورہ حدیث کا عربی متن بحوالہ لکھ دیں۔

شیخ محترم @اسحاق سلفی بھائی
اس حدیث کا عربی متن پیش ہے :
امام الدارقطنیؒ فرماتے ہیں :
حدثنا محمد بن مخلد , نا ابن زنجويه , حدثنا عبد الرزاق , نا معمر , عن عبد الله , ومحمد ابني أبي بكر بن حزم , عن أبيهما , أن النبي صلى الله عليه وسلم كتب كتابا فيه: «ولا تمس القرآن إلا طاهرا»
( سنن الدارقطنی حدیث رقم : 438 ) و سنن الکبری للبیہقی ، مستدرک حاکم ،شعب الایمان بیہقی ،
رواه عبد الرزاق في مصنفه (28) ، ومالك في الموطأ (29) ، وأبو داود في المصاحف(30) والدارمي في سننه (31) ، والحاكم في مستدركه (32)، والدارقطني في سننه(33) ، وقال: (مرسل ورواته ثقات)، والبيهقي في السنن الكبرى(34)، وفي معرفة السنن والآثار(35) .
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقال الامام الالبانی فی ارواء الغلیل :
(حديث أبى بكر بن محمد بن عمرو بن حزم عن أبيه عن جده: " أن النبى صلى الله عليه وسلم كتب إلى أهل اليمن كتابا , وفيه: لا يمس القرآن إلا طاهر ". رواه الأثرم والدارقطنى متصلا , واحتج به أحمد , وهو لمالك فى " الموطأ " مرسلا (ص 37) .
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر اس کی بڑی تفصیلی تخریج اور اس کی صحت و ضعف پر جامع کلام کے بعد فرماتے ہیں :

’’ وجملة القول: أن الحديث طرقه كلها لا تخلو من ضعف , ولكنه ضعف يسير إذ ليس فى شىء منها من اتهم بكذب , وإنما العلة الإرسال أو سوء الحفظ , ومن المقرر فى " علم المصطلح " أن الطرق يقوى بعضها بعضا إذا لم يكن فيها متهم كما قرره النووى فى تقريبه ثم السيوطى فى شرحه , وعليه فالنفس
تطمئن لصحة هذا الحديث لا سيما وقد احتج به إمام السنة أحمد بن حنبل كما سبق , وصححه أيضا صاحبه الإمام إسحاق بن راهويه , فقد قال إسحاق المروزى فى " مسائل الإمام أحمد " (ص 5) : " قلت - يعنى لأحمد -: هل يقرأ الرجل على غير وضوء؟ قال: نعم , ولكن لا يقرأ فى المصحف ما لم يتوضأ. ‘‘

( إرواء الغليل کتاب الطہارۃ )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
قرآن مجید بغیر وضو کے چھونا اور پڑھنا جائز


السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قرآن مجید بغیر وضو کے چھونا اور پڑھنا جائز ہے۔ کہ نہیں ذرا تفصیل سے بیان کریں۔؟ ازراہِ کرم کتاب وسنت کی روشنی میں جواب دیں جزاكم الله خيرا

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جہاں تک اس آیت کے معنی و مفہوم کا تعلق ہے تو اس بارے دو اقوال ہیں:
ایک قول تو یہ ہے کہ یہ آیت مبارکہ اس مصحف کے بارے میں ہے جو آسمانوں میں لوح محفوظ میں یا فرشتوں کے ہاتھوں میں ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم رحمہما اللہ نے اسی قول کو ترجیح دی ہے۔ قرآن کے سیاق و سباق سے یہی قول راجح معلوم ہوتا ہے۔

دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ مصحف ہے جو انسانوں کے پاس ہے اور خبر بمعنی امر ہے یعنی حکم دیا گیا ہے کہ اس مصحف کو پاک لوگ ہی مس کریں۔ اب پاک لوگوں سے مراد کیا ہے تو اس میں پھر دو قول ہیں:
ایک قول کے مطابق پاک لوگوں سے مراد جو حدث اکبر سے پاک ہیں یعنی جنابت وغیرہ سے۔ جبکہ دوسرے قول کے مطابق پاکی سے مراد حدث اکبر اور حدث اصغر دونوں سے پاکی ہے یعنی وہ بے وضو بھی نہ ہوں اور انہوں نے وضو بھی کیا ہوا ہو۔


تفسير قوله تعالى ( لا يَمَسُّهُ إِلا الْمُطَهَّرُونَ )


لقد اختلف اهل العلم في تفسير هذه الآية على قولين :
1 - أن المقصود الكتاب الذي في السماء لا يمسه إلا الملائكة .
2 - أن المقصود القرآن لا يمسه إلا الطاهر أما المحدث حدثا أكبر أو أصغر على خلاف بين أهل العلم فإنه لا يمسه .

وقد رجح شيخ الإسلام ابن تيمية في " شرح العمدة (1/384) القول الأول ، فقال :
والصحيح اللوح المحفوظ الذي في السماء مراد من هذه الآية وكذلك الملائكة مرادون من قوله المهطرون لوجوه :
أحدهما : إن هذا تفسير جماهير السلف من الصحابة ومن بعدهم حتى الفقهاء الذين قالوا : لا يمس القرآن إلا طاهر من أئمة المذاهب صرحوا بذلك وشبهوا هذه الآية بقوله : " ‏كَلَّا إِنَّهَا . تَذْكِرَةٌ . ‏فَمَنْ شَاءَ ذَكَرَهُ . ‏فِي صُحُفٍ مُكَرَّمَةٍ . ‏ ‏مَرْفُوعَةٍ مُطَهَّرَةٍ . ‏بِأَيْدِي سَفَرَةٍ . ‏كِرَامٍ بَرَرَةٍ " [ عبس : 11 - 16] .
وثانيها : أنه أخبر أن القرآن جميعه في كتاب ، وحين نزلت هذه الآية لم يكن نزل إلا بعض المكي منه ، ولم يجمع جميعه في المصحف إلا بعد وفاة النبي صلى الله عليه وسلم .
وثالثها : أنه قال : " ‏فِي كِتَابٍ مَكْنُونٍ " [ الواقعة : 78] ، والمكنون : المصون المحرر الذي لا تناله أيدي المضلين ؛ فهذه صفة اللوح المحفوظ .
ورابعها : أن قوله : " ‏لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ " [ الواقعة :79] ، صفة للكتاب ، ولو كان معناها الأمر ، لم يصح الوصف بها ، وإنما يوصف بالجملة الخبرية .
وخامسها : أنه لو كان معنى الكلام الأمر لقيل : فلا يمسه لتوسط الأمر بما قبله .
وسادسها : أنه لو قال : " الْمُطَهَّرُونَ " وهذا يقتضي أن يكون تطهيرهم من غيرهم ، ولو أريد طهارة بني آدم فقط لقيل : المتطهرون ، كما قال تعالى : " فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ " [التوبة :108] ، وقال تعالى : " ‏إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ " [ البقرة : 222] .
وسابعها : أن هذا مسوق لبيان شرف القرآن وعلوه وحفظه .

وقال الإمام ابن القيم في مدارج السالكين (2/417) :
قلت : مثاله قوله تعالى : " ‏لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ " [ الواقعة :79] قال - يقصد الإمام ابن القيم شيخَ الإسلام - : والصحيح في الآية أن المراد به الصحف التي بأيدي الملائكة لوجوه عديدة :
- منها : أنه وصفه بأنه مكنون والمكنون المستور عن العيون وهذا إنما هو في الصحف التي بأيدي الملائكة .
- ومنها : أنه قال : " ‏لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ " [ الواقعة :79] ، وهم الملائكة ، ولو أراد المتوضئين لقال : لا يمسه إلا المتطهرون ، كما قال تعالى : ‏إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ " [ البقرة : 222] . فالملائكة مطهرون ، والمؤمنون متطهرون .
- ومنها : أن هذا إخبار ، ولو كان نهيا لقال : لا يمسسه بالجزم ، والأصل في الخبر أن يكون خبرا صورة ومعنى .
- ومنها : أن هذا رد على من قال : إن الشيطان جاء بهذا القرآن ؛ فأخبر تعالى : أنه في كتاب مكنون لا تناله الشياطين ، ولا وصول لها إليه كما قال تعالى في آية الشعراء : " ‏وَمَا تَنَزَّلَتْ بِهِ الشَّيَاطِينُ ‏. ‏وَمَا يَنْبَغِي لَهُمْ وَمَا يَسْتَطِيعُونَ [ عراء : 210 - 211] وإنما تناله الأرواح المطهرة وهم الملائكة .
- ومنها : أن هذا نظير الآية التي في سورة عبس : " ‏فَمَنْ شَاءَ ذَكَرَهُ . ‏فِي صُحُفٍ مُكَرَّمَةٍ . ‏مَرْفُوعَةٍ مُطَهَّرَةٍ . ‏بِأَيْدِي سَفَرَةٍ . ‏كِرَامٍ بَرَرَةٍ " [ عبس : 12 - 16] ، قال مالك في موطئه : أحسن ما سمعت في تفسير : " ‏لَا يَمَسُّهُ إالْمُطَهَّرُونَ " أنها مثل هذه الآية التي في سورة عبس :
- ومنها : أن الآية مكية من سورة مكية تتضمن تقرير التوحيد والنبوة والمعاد ، وإثبات الصانع ، والرد على الكفار ، وهذا المعني أليق بالمقصود من فرع عملي وهو حكم مس المحدث المصحف .
- ومنها : أنه لو أريد به الكتاب الذي بأيدي الناس لم يكن في الإقسام على ذلك بهذا القسم العظيم كثير فائدة إذ من المعلوم أن كل كلام فهو قابل لأن يكون في كتاب حقا أو باطلا بخلاف ما إذا وقع القسم على أنه في كتاب مصون مستور عن العيون عند الله لا يصل إليه شيطان ، ولا ينال منه ، ولا يمسه إلا الأرواح الطاهرة الزكية ؛ فهذا المعنى أليق وأجل وأخلق بالآية وأولى بلا شك .ا.هـ.



وباللہ التوفیق
فتویٰ کمیٹی

محدث فتویٰ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
قرآن کو ناپاکی کی حالت میں چھونا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک مدرس جو شاگردوں کو قرآن کریم پڑھاتا ہے، اسے مدرسہ یا کسی قریبی جگہ سے پانی نہیں ملتا تو وہ کیا کرے، جب کہ قرآن مجید کو پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب مدرسہ میں یا اس کے قرب و جوار میں پانی نہ ہو تو مدرس طلبہ کو متنبہ کر دے کہ وہ وضو کر کے آیا کریں کیونکہ قرآن مجید کو پاک آدمی ہی چھو سکتا ہے۔ حدیث حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں لکھا تھا:
«اَنْ لاَّ يَمَسَّ الْقُرْآنَ اِلاَّ طَاهِرٌ»سنن الدارمی کتاب الطلاق، باب ۳ والنسائی(۵۷۱۸)

’’قرآن کو پاک آدمی ہی ہاتھ لگائے۔‘‘
طاہر سے یہاں مراد وہ آدمی ہے جس کی ناپاکی دور ہوگئی ہو۔ اس کی دلیل وضو، غسل اور تیمم والی آیت کے آخر میں حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿مَا يُرِيدُ ٱللَّهُ لِيَجۡعَلَ عَلَيۡكُم مِّنۡ حَرَجٖ وَلَٰكِن يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمۡ وَلِيُتِمَّ نِعۡمَتَهُۥ عَلَيۡكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُونَ﴾--المائدة:6

’’اللہ تم پر کسی طرح کی تنگی نہیں کرنا چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کرے اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کرے تاکہ تم شکر کرو۔‘‘
اس آیت کریمہ کے یہ الفاظ ’’کہ تمہیں پاک کرے‘‘ اس بات کی دلیل ہیں کہ طہارت حاصل کرنے سے پہلے انسان طاہر نہیں ہے، لہٰذا کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وضو کے ساتھ طہارت حاصل کیے بغیر وہ قرآن مجید کو ہاتھ لگائے البتہ بعض اہل علم نے چھوٹے بچوں کو رخصت دی ہے کہ وہ قرآن مجید کو ہاتھ لگا سکتے ہیں، اس لیے کہ انہیں اس کی بار بار ضرورت پیش آتی ہے اور انہیں وضو کا ادراک بھی نہیں ہوتا لیکن زیادہ بہتر یہ ہے کہ طلبہ کو بھی وضو کا حکم دیا جائے تاکہ وہ بھی طہارت کے ساتھ قرآن مجید کو ہاتھ لگائیں۔ سائل نے جو یہ کہا ہے کہ قرآن مجید کو پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اس بارے میں قرآن مجید کی اس آیت سے استدلال کیا ہے:﴿لا يمسه الا المطهرون﴾جواب سورۃ الواقعۃ:الآیۃ:۷۹سوال۔ مراد یہ ہے کہ(اس کو وہی لوگ ہاتھ لگاتے ہیں جو پاک ہوا کرتے ہیں)۔
حالانکہ یہ اس آیت اس کی دلیل نہیں ہے کیونکہ کتاب مکنون سے مراد لوح محفوظ ہے اور پاک سے
مراد فرشتے ہیں اور اگر اس سے مراد طہارت حاصل کرنے والے لوگ ہوتے تو ’’مُطَّهَّرُون‘‘ کی بجائے ’’مُطَّهِّرُون‘‘ یا’’مُتَطَهِّرُونَ‘‘ کے الفاظ ہوتے ہیں۔ بہرحال اس آیت میں یہ بیان نہیں کیا گیا کہ طہارت کے بغیر قرآن مجید کو ہاتھ لگانا جائز نہیں ہے، البتہ وہ حدیث جس کی طرف ابھی ہم نے اشارہ کیا ہے، وہ اس بات کی ضرور دلیل ہے کہ وضو کے بغیر قرآن مجید کو ہاتھ نہ لگایا جائے۔
وباللہ التوفیق
فتاویٰ ارکان اسلام

نماز کے مسائل

 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
اس حدیث کا عربی متن پیش ہے :
امام الدارقطنیؒ فرماتے ہیں :
حدثنا محمد بن مخلد , نا ابن زنجويه , حدثنا عبد الرزاق , نا معمر , عن عبد الله , ومحمد ابني أبي بكر بن حزم , عن أبيهما , أن النبي صلى الله عليه وسلم كتب كتابا فيه: «ولا تمس القرآن إلا طاهرا»
( سنن الدارقطنی حدیث رقم : 438 ) و سنن الکبری للبیہقی ، مستدرک حاکم ،شعب الایمان بیہقی ،
رواه عبد الرزاق في مصنفه (28) ، ومالك في الموطأ (29) ، وأبو داود في المصاحف(30) والدارمي في سننه (31) ، والحاكم في مستدركه (32)، والدارقطني في سننه(33) ، وقال: (مرسل ورواته ثقات)، والبيهقي في السنن الكبرى(34)، وفي معرفة السنن والآثار(35) .
محترم اس میں لفظ طاہر ہے اور معترض حضرات کا کہنا ہے کہ مؤمن ہر حال میں طاہر ہی ہوتا ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ مذکور ہے۔
قرآنِ پاک کو بغیر وضو چھونے کے قائلین کا کہنا ہے کہ کہیں بھی بغیر وضوء قرآن کو چھونے کی ممناعت نہیں آئی۔ اس سلسلہ میں میں نے کتب احادیث کھنگال ڈالیں۔ بالواسطہ تو یہ پتہ چلتا ہے کہ بغیر وضوء قرآن کو چھونا یا مصحف میں تلاوت کرنا جائز نہیں مگر لفظ وضوء کے ساتھ صاحت سے کوئی حدیث نہیں ملی۔ البتہ ایک حدیث ملی جس کی وضاحت میں وضوء کی تصریح ہے اور وہ یہ ہے؛
سنن الترمذی: بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ عَلَى كُلِّ حَالٍ مَا لَمْ يَكُنْ جُنُبًا
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنِ سَعِيدٍ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ وَعُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ قَالَا حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ وَابْنُ أَبِي لَيْلَى عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلِمَةَ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقْرِئُنَا الْقُرْآنَ عَلَى كُلِّ حَالٍ مَا لَمْ يَكُنْ جُنُبًا
قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ عَلِيٍّ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَبِهِ قَالَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ قَالُوا يَقْرَأُ الرَّجُلُ الْقُرْآنَ عَلَى غَيْرِ وُضُوءٍ وَلَا يَقْرَأُ فِي الْمُصْحَفِ إِلَّا وَهُوَ طَاهِرٌ وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ
واللہ اعلم
 
Top