• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

موبائل کمپنی کے لون (سود) کو حنفی بریلوی نے جائز قرار دے دیا !!!

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
خضر حیات بھائی اس مسلے پر دو پوسٹیں چل رہی ہے میری انتیظامہ سے گزارش ہے کہ اس کو ایک پوسٹ پر منتقل کر دیں - جزاک اللہ
http://forum.mohaddis.com/threads/مختلف-موبائل-کمپنیوں-نے-صارفین-کو-ایڈوانس-بیلنس-کی-سہولت-کیا-یہ-سود-ہیں-؟.20409/page-2#post-182431
اس طرح کی سہولت فی الوقت فورم پر میسر نہیں ۔ البتہ ایک کو مقفل کیا جا سکتا ہے ۔ تاکہ آئندہ تمام بحث ایک ہی جگہ ہو ۔ کیا خیال ہے ۔؟
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
تو بھائی اس کو چلنے دیں کیونکہ اس پوسٹ پر رفیق طاھر حفطہ اللہ کو ٹیگ کیا گیا ہے تا کہ اہل علم اس مسلے پر روشنی ڈال سکے -

کفایت اللہ بھائی آپ بھی اس مسلے پر روشنی ڈالے
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
نبی کریم ﷺ نے ہمیں شک والی چیز کو اختیار کرنے سے ممانعت فرمائی ہے۔



رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

وہ چیز چھوڑ دو جو تمہیں شک میں ڈال دے اور اسے اختیار کرو جو تمہیں شک میں نہ ڈالے ۔
ترمذی
كتاب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
باب : 60
حدیث : 2708

حضرت ابو محمد حسن بن علی بن ابی طالب بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ علیہ وسلم سے یہ الفاظ یاد کیے:

''وہ چیز چھوڑ دے جو تجھے شک میں ڈال دے اور اس چیز کو اختیار کر جو تجھے شک وشبہ میں نہ ڈالے کیونکہ سچ اطمینان ہے اور جھوٹ شک اور بے چینی ہے۔

(ترمذی۔ حدیث صحیح ہے)
توثیق الحدیث:اخرجہ الترمذی (2518)، والنسائی (3278۔328)، واحمد (2001)

شیطان ہمارے خون میں گردش کرتا ہے۔اس لیے ہمیں ہر طرح کے طریقے سے گناہ میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔اس لیے ہمیں ایسے امور سے اجتناب کرناچاہیئے جن کے متعلق ہم شکوک و شبہات کا شکار ہو سکتے ہوں۔
 

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
موبائل کمپنی سے ہم ”ٹاک ٹائم“ خریدتے ہیں۔ مثلاً ہم دس روپے دے کر دس منٹ بات کرنے کا ٹائم ”نقد“ خریدتے ہیں۔ اب اگر ہمارے پاس نقدی نہ ہو اور موبائل کمپنی ہمیں ” ٹاک ٹائم“ ادھار فروخت کرے تو وہ دس منٹ کی قیمت ساڑھے دس روپے یا اس سے زائد بھی لے سکتی ہے۔ (پیشگی طے کر کے)
لیکن جناب معاملہ آپ کی پیش کردہ مثال کے برعکس ہے کہ وہ ہم سے اضافی پیسے "ٹاک ٹائم" کے نہیں لے رہے ہوتے بلکہ اُدھار والی رقم سے کی گئی کال یا میسیج کے پیسے بھی "پیکج پلان" کے مطابق ہی کاٹتے ہیں۔
یعنی اُدھار میں بھی 10 روپے کا اُتنا ہی "ٹاک ٹائم" ملتا ہے جتنا 10 روپیہ "نقد" میں، اور اضافی پیسے "کسی اور مد" میں لیے جا رہے ہوتے ہیں۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

یعنی اُدھار میں بھی 10 روپے کا اُتنا ہی "ٹاک ٹائم" ملتا ہے جتنا 10 روپیہ "نقد" میں، اور اضافی پیسے "کسی اور مد" میں لیے جا رہے ہوتے ہیں۔

مثلاً! کونسی مد ھے یہ اگر کاروبار پر اگر کوئی تجربہ ھے تو اسے ساتھ لے کر کچھ معلومات فراہم کریں، شکریہ

والسلام
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
یہاں لفظ ”بیلنس“ غلط العوام ہے۔ موبائل کمپنیاں ”10 روپے کا بیلنس“ نہیں دیتیں ہیں۔ موبائل کمپنیاں اپنے صارفین کو پیسے نہیں دیتیں۔ ان کا کام صارفین سے پیسے لینا ہے، پیسے دینا نہیں۔ وہ اپنی ”سروسز“ یا ”ٹالک ٹائم“ فروخت کرتی ہیں، اور عوام سے پیسے لیتی ہیں۔ اکثر نقد اور کبھی کبھار ادھار۔

مفتیان کرام کو جب مسئلہ درست طریقے سے پیش ہی نہ کیا جائے تو درست جواب کیسے ملے گا؟

علمائے کرام سے گذارش ہے کہ وہ ذیل کے بیانات کی شریعت کی روشنی میں تصدیق یا تردید کریں:
  1. مصنوعات کی نقد قیمت کم اورقسطوں یا ادھار خریداری کی قیمت زیادہ لینا جائز ہے۔ (پیشگی بتلا کر) ۔۔ درست یا غلط
  2. مصنوعات کی طرح خدمات (سروسز) کی اجرت بھی، نقد میں کم اور ادھار میں زیادہ لی جاسکتی ہے۔ (پیشگی معاہدہ کرکے) ۔۔ درست یا غلط
  3. سود کا اطلاق "یکساں شئے" کے باہمی تبادلہ پر لاگو ہوتا ہے، مختلف اشیاء کے باہمی تبادلہ پر نہیں۔ ۔۔ درست یا غلط
  4. موبائل کمپنی سے ہم بالعموم نقد "ٹاک ٹائم" مقررہ قیمت پر خریدتے ہیں۔ یہی ٹاک ٹائم ہم جب کبھی ادھار خریدتے ہیں، تو زائد ریٹ پر خریدتے ہیں۔ (نقد اور ادھار، دونوں کا ریٹ طے شدہ اور دونوں فریقوں کو پہلے سے معلوم ہوتا ہے)۔ جائز یا ناجائز
انس

خضر حیات

سوال ایک تا تین علمی و شرعی جواب کے ہنوز منتظر ہیں۔
 

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
نقد، قسطوں اور ادھار پر خریدی جانے والی اشیاء کی قیمتوں میں فرق تو جائز ہے۔ جیسے اگر کوئی دکاندار ایک مشین نقد سو روپے کی فروخت کرے، قسطوں پر ایک سو دس روپے کی اور مطلقاً ادھار پر ایک سو بیس روپے کی تو یہ جائز ہے۔ (تصحیح کیجئے، اگر میں غلط ہوں)

خریداری صرف اشیاء کی نہیں بلکہ خدمات (سروسز) کی بھی ہوتی ہیں۔ جیسے ایک مزدور اپنی خدمات فروخت کرتا ہے۔ بیع کے مندرجہ بالا اصول پر وہ بھی اپنی سروسز کے مختلف ریٹ مقرر کرسکتا ہے۔ جیسے اگر روز کے روز مزدوری کی اجرت سو روپے مقررہو۔ لیکن اگر مزدوری کرانے والا یہ کہے کہ میں تمہاری اجرت ایک ہفتہ یا ایک مہینہ کے بعد دوں گا تو مزدور اپنی یومیہ مزدوری کی اجرت ایک سو دس روپے روزانہ طلب کرسکتا ہے (پیشگی معاہدہ کرکے) ۔

موبائل کمپنی سے ہم ”ٹاک ٹائم“ خریدتے ہیں۔ مثلاً ہم دس روپے دے کر دس منٹ بات کرنے کا ٹائم ”نقد“ خریدتے ہیں۔ اب اگر ہمارے پاس نقدی نہ ہو اور موبائل کمپنی ہمیں ” ٹاک ٹائم“ ادھار فروخت کرے تو وہ دس منٹ کی قیمت ساڑھے دس روپے یا اس سے زائد بھی لے سکتی ہے۔ (پیشگی طے کر کے)

واضح رہے کہ سود کا اطلاق ”یکساں شئے“ کے تبادلہ پر لاگو ہوتا ہے، مختلف اشیاء کے تبادلہ پر نہیں۔ جیسے ایک کلو کھجور کے بدلہ سوا کلو کھجور لینا۔ سو روپے کرنسی نوٹ کے بدلہ ایک سو دس روپے کرنسی نوٹ لینا یہ سب سود کے زمرے میں آتا ہے۔ لیکن ایک کلو گوشت کے بدلہ دو کلو گندم لینا، ایک گرام سونے کے بدلہ دس گرام چاندی لینا یا ایک ڈالر کے نوٹ کے بدلہ میں سو روپے کے نوٹ لینا سود نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
انس
خضر حیات
لیکن جناب معاملہ آپ کی پیش کردہ مثال کے برعکس ہے کہ وہ ہم سے اضافی پیسے "ٹاک ٹائم" کے نہیں لے رہے ہوتے بلکہ اُدھار والی رقم سے کی گئی کال یا میسیج کے پیسے بھی "پیکج پلان" کے مطابق ہی کاٹتے ہیں۔
یعنی اُدھار میں بھی 10 روپے کا اُتنا ہی "ٹاک ٹائم" ملتا ہے جتنا 10 روپیہ "نقد" میں، اور اضافی پیسے "کسی اور مد" میں لیے جا رہے ہوتے ہیں۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

ح
100 روپے کے کارڈ لوڈ پر تین قسم کے چارجز ، ود ہولڈنگ ٹیکس، ایڈمن فیس، مینٹیننس فیس لئے جاتے ہیں، یہ سود کی کوئی بھی قسم نہیں بنتی۔​
والسلام​
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
السلام علیکم

ح
100 روپے کے کارڈ لوڈ پر تین قسم کے چارجز ، ود ہولڈنگ ٹیکس، ایڈمن فیس، مینٹیننس فیس لئے جاتے ہیں، یہ سود کی کوئی بھی قسم نہیں بنتی۔​
والسلام​

میرے بھائی یہاں کارڈ لوڈ کرنے کی بات نہیں ھو رہی ہے یہاں ایڈوانس لون کی بات ہو رہی ہے جو بیلنس ختم ھونے کے بعد کمپنی آفر کرتی ہے کوئی کمپنی 10 روپے کو لون دیتی ہے اور کوئی 15،20،30 کا اس کے بعد جب آپ کارڈ لوڈ کرواتے ہیں وہ اس اماونٹ میں سے کاٹ لیتے ہیں -

جو کہ آپ کے لون اماونٹ سے زیادہ ہوتا ہے

اس امیج سے آپ سمجھ جائے گے

fntj6v.jpg
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

بھائی کوشش کیا کریں کہ رد کرنے کے لئے کسی ویلڈ سائٹ سے کاپی معہ لنک پیش کیا کریں۔ آپ کے اس رد پر بھی جواب حاضر ھے۔

آپکو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ جب آپ 100 روپے لوڈ پر ویلیو ایبل ٹیکس ادا کر رہے ہیں تو پھر ایڈوانس بیلنس حاصل کرتے وقت 10 روپے پر جو اضافی رقم دے رہے ہیں وہ بھی ٹیکس ھے، سود نہیں۔

ح
والسلام​
 
Top