• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

موت سے پہلے موت

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
موت سے پہلے موت

کہتے ہیں بغداد میں ایک نیک دل تاجر رہتا تھا۔ اس تاجر نے ایک طوطا پالا ہوا تھا جس سے وہ بہت محبت کرتا تھا۔ طوطے کو بھی اپنے مالک سے بہت محبت تھی، لیکن غم صرف ایک تھا اور وہ غم تھا پنجرے کی قید ۔۔۔

ایک دن تاجر کہیں جا رہا تھا اور راستے میں طوطے کا آبائی علاقہ بھی آتا تھا۔ وہی علاقہ جہاں سے اس طوطے کو پکڑا گیا تھا۔ سوداگر نے طوطے سے پوچھا کہ وہ اس کے علاقے سے گزرے گا۔ اگر طوطا چاہے تو وہ کوئی پیغام اپنے عزیز رشتہ داروں تک اس کے ہاتھ بھیج سکتا ہے۔ طوطے نے سوداگر کی اس پیشکش کو قبول کرتے ہوئے سوداگر سے کہا۔ مالک میرے علاقے میں جا کر میرا نام لے کر میرے عزیزوں کو آواز دینا۔ جب وہ آ جائیں تو انہیں بتانا کہ مَیں آپ کے پاس بہت خوش ہوں، لیکن صرف ایک تکلیف ہے اور وہ تکلیف ہے پنجرے کی قید ۔۔۔ پھر میرے عزیزوں کو میرے لئے دعا کا کہنا اور جو پیغام وہ میرے لئے دیں وہ مجھے آ کر بتا دینا۔

سوداگر نے طوطے سے پیغام پہنچانے کا وعدہ کیا اور رخت سفر باندھا، جس روز وہ اپنے پیارے طوطے کے علاقے میں پہنچا اس دن طوطے کے بتائے طریقے کے مطابق طوطے کا نام لے کر اس کے عزیزوں کو آواز دی۔ کچھ ہی دیر میں درجنوں طوطے قریب کے درختوں پر آ کر بیٹھ گئے۔ سوداگر نے طوطے کا پورا پیغام سنایا۔ طوطے کے لئے دُعا کی درخواست کی۔ ابھی وہ بات پوری کر ہی رہا تھا کہ یکایک تمام طوطے اپنی ڈالیوں سے گرنا شروع ہو گئے اور کچھ ہی دیر میں تمام طوطے گر کے مر گئے۔ سوداگر کو بہت افسوس ہوا خیر کام ختم کیا اور واپس بغداد پہنچا۔ طوطے نے جب پوچھا کہ میرے رشتہ داروں نے کیا نصیحت کی، تو سوداگر نے پورا واقعہ بیان کر دیا۔ طوطے نے واقعہ سنا اور غش کھا کر گرا اور وہ بھی جیسے مر گیا۔ تاجر کو بہت افسوس ہوا، مگر کیا کر سکتا تھا۔ مردہ طوطے کو اٹھایا اور باہر پھینک دیا۔

پھینکنے کی دیر تھی، طوطا اڑا اور اُڑ کر سامنے کی دیوار پر بیٹھ گیا۔ تاجر نے حیرت سے پوچھا کہ یہ سب کیا ہے۔ طوطا بولا ۔۔۔ گو کہ آپ نے ہمیشہ میرا خیال رکھا اور مجھے خوش رکھنے کی کوشش کی، لیکن میں قید تھا اور اس قید نے مجھے اندر سے ختم کر دیا تھا۔ مَیں اپنی نہیں، بلکہ آپ کی مرضی کی زندگی جی رہا تھا۔ میرے عزیزوں نے آپ کے ذریعے مجھے یہ ہی پیغام بھیجا کہ اگر مَیں مر جاؤں تو آپ کی قید سے آزاد ہو جائوں گا، کیونکہ جب تک زندہ رہوں گا آپ مجھے کبھی آزاد نہیں کریں گے۔ مَیں نے اپنے عزیزوں کے عمل کے مطابق عمل کیا اور اب دیکھیں میں آ زاد ہوں۔ اب جتنی باقی زندگی رہ گئی ہے وہ آزادی سے گزرے گی۔ انسان زمان و مکان کی قید میں زندگی گزارتا ہے۔ یہ قید اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ زندگی کے ڈرامے کو سمجھنے کی بجائے وہ اس میں اس قدر کھو جائے کہ اسے یہ ادراک ہی نا رہے کہ اسے ایک دن ختم ہونا ہے، لیکن ایسا ہر ایک کے ساتھ نہیں ہوتا۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ایک مقام پر پہنچ کر انہیں سمجھ آ جاتی ہے کہ اس کا رول بھی ایک دن ختم ہو جائے گا، لیکن زمان و مکان کی یہ قید اتنی سہانی لگتی ہے۔ کہ جانتے ہوئے بھی۔ وہ اس قید کی، اپنے لئے بقا مانگتے ہیں۔

دنیا کیا ہے؟ ۔۔۔ دنیا ایک امتحان گاہ ہے۔ جہاں لوگ زندگی کا امتحان دے رہے ہیں۔ یہ امتحان انسان قید میں رہ کر پاس تب ہی کر سکتے ہیں جب نتیجے سے متعلق انسان کو پورا یقین ہو۔ لوگ زندگی کی طوالت مانگتے ہیں اور موت سے نفرت کرتے ہیں۔ امتحان میں رہنا محبوب رکھتے ہیں، جبکہ نتیجے اور نتیجے کے بعد کی ابدی حیات کو صرف ایک خیال تصور کرتے ہیں، چونکہ لوگ اس سٹیج کو حقیقت اور خاتمے کو خیال جانتے ہیں، اس لئے لوگوں کی زندگیاں کمیوں سے بھری رہتی ہیں۔ ان کی عبادات رسموں کی تکمیل سے زیادہ نہیں ہوتی، کیونکہ ان عبادات کا مقاصد جانتے ہوئے بھی لوگ جاننا نہیں چاہتے، کیونکہ مقاصد کی تکمیل میں نفس کی آرزوں کی تکمیل آڑے آتی ہے۔

کہتے ہیں کتا ہڈی کھاتا نہیں۔ وہ ہڈی کو دانتوں میں دباتا ہے، تو اس کے مسوڑھے پھول جاتے ہیں۔ وہ جب بار بار ہڈی کو دباتا ہے تو اسے ایک سیڈسٹک سی درد ہوتی ہے اور وہ اِسی درد کے نشے میں ہڈی دباتا رہتا ہے۔ انسان کو دنیا میں، اس زندگی میں ہر موڑ پر نئے امتحان کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن انسان اکثر باطل کی ہڈی صرف اس لئے چباتے ہیں کہ اسے سیڈسٹک درد کا نشہ لگ چکا ہوتا ہے۔ دنیا نے انسانوں کو اس قدر مصروف کر دیا ہوتا ہے کہ آخرت خواب لگتی ہے۔ انسان کو اس دنیا کی رنگینیاں اتنی بھاتی ہیں کہ اعمال کی لگن ختم ہو جاتی ہے۔ لوگ لمحے میں جینا پسند کرتے ہیں جیسے اس کے بعد کوئی لمحہ نہیں آنا۔ دنیا کو ایک ٹرانزٹ یا گزر گاہ کہا گیا ہے۔ جو منزل کی سمت ایک مقام ہے۔ مقام منزل نہیں ہوتا، جو مقام کو منزل سمجھ بیٹھتے ہیں وہ کبھی منزل تک نہیں پہنچ پاتے۔ اِسی لئے تو صوفیا کہتے ہیں۔ مرنے سے پہلے مر جاؤ۔ تاکہ ظاہری موت تکلیف نہیں، بلکہ کا میابی کا پیغام بن کر آئے۔ مرنے سے پہلے مرنے کا مطلب ہے کہ اپنے نفس کو نفسانی خواہشات سے پاک کر لینا اور اسے اللہ کی پسندیدہ راہ پر لے آنا تاکہ عبادات کے مقاصد پورے ہوں۔ عبادت کا حق ادا ہو اور زندگی کی رونقیں کسی صورت میں منزل، یعنی بندگی سے غافل نا کر سکیں۔

ح

کالم: ملک محمد جمشید اعظم
2 دسمبر 2014
 
Top