• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

موضوع: ’’الصحيفة من كلام ائمة الجرح والتعدیل علي ابي حنيفة‘‘

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

رانا اویس سلفی

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
387
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
109
الصحيفة من كلام ائمة الجرح والتعدیل علي ابي حنيفة



اسلام وعلیکم

موضوع: ’’الصحيفة من كلام ائمة الجرح والتعدیل علي ابي حنيفة‘‘
ف

پڈف (pdf)اورجنل کتاب
Ahlulhadeeth - Downloads
 

رانا اویس سلفی

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
387
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
109
محدثین کی ابو حنیفہ پر جرح
ایک منفرد اور علمی کتاب

الصحیفۃ من کلام ائمۃ
الجرح و التعدیل علی ابی حنیفۃ


پیش لفظ
ان الحمد للہ نحمدہ و نستعینہ من یھداللہ فلا مضل لہ ومن یضلل فلا ھادی لہ واشھد ان لا الہ الااللہ وحدہ لاشریک لہ واشھد ان محمد ا عبدہ ورسولہ فان خیر الحدیث کتاب اللہ وخیر الھدی ھد محمد رسول اللہﷺ وشر الامور محدثاتھا وکل بدعۃ ضلالۃ

اما بعد:

دین السلام کی بنیادی چیزوں پر ہے، ایک اللہ تعالی کی کتاب قرآن مجید اور دوسری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و حدیث۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید مین متعدد مقامات پر ان دونوں کی اطاعت و تابعداری کا حکم فرمایا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے آخری ایام میں ان ہی کے بارے میں فرمایا۔
تَرَکْتُ فِیْکُمْ اَمَرَیْنِ لَنْ تَضِلُّوْا مَا تَمَسَّکْتُمْ بِھِمَا: کِتَابُ اﷲِ وَسُنَّۃُ رَسُوْلِہٖ

(مشکوۃ شریف:جلد اول:حدیث نمبر 181)
ترجمہ: "میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر چلا ہوں تم گمراہ نہیں ہوگے جب تک مضبوطی سے ان کو پکڑے رکھو گے کتاب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت"
اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا جو بھی قرآٰن و حدیث کو چھوڑ دے گا وہ گمراہ ہوجائےگا۔ ابو حنیفہ کا شمار بھی ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے قرآن و حدیث کو چھوڑ دیا۔
اور ابو حنیفہ نے قرآن و حدیث چھوڑ کر قیاس میں خوب مہارت حاصل کی۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قیاس کرنے کی ممانت ہے ۔ امام المحدیثین امام بخاری نے حدیث بیان دین کے مسائل میں رائے پر عمل کرنے کی مذمت، اسی طرح بے ضرورت قیاس کرنے کی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بیان کیا ہے۔
ان اللہ لا ینزع العلم بعد ان اعطاکموہ انتزاعا ولکن ینتزعہ منھم مع قبض العلماء بعلمھم فیبقی ناس جھال یستفون فیفتون برایھم فیضلون ویصلون (صحیح بخاری جلد 3 کتاب الاعتصام باب 1214 حدیث 2150 ص 932)
بے شک اللہ تعالی یہ نہیں کرنے کا کہ علم تم کو دے کر پھر تم سے چھین لے بلکہ علم اس طرح اٹھائےگا کہ عالم لوگ مرجائیں گے۔ ان کے ساتھ علم بھی چلا جائے گا۔ اور چند جاہل لوگ رہ جائیں گے۔ ان سے کوئی مسئلا پوچھے گا تو اپنی رائے سے بات کرین گے۔ آپ بھی گمراہوں گے دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔

حضرت علی رضہ اللہ عنہ نے قیاس کا رد ان الفاظ میں کیا ہے۔
لوکان الدین بالرای لکان اسفل الخف اولی بالمسح من اعلاوقد رایت رسول اللہﷺ یمسح علی ظاھر خفیہ (سنن ابوداؤد ج اول کتاب الطھارۃ باب کیف المسح حدیث 162 ص 100)

اگر دین قیاس پر ہوتا تو موزے کے نیچے کی طرف مسح کرنا بہتر ہوتا۔ اوپر کی طرف سے حالانکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا مسح کرتے تھے موزوں کے اوپر۔
 

رانا اویس سلفی

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
387
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
109
حضرت عبداللہ بن عمر رضہ اللہ عنہ حضرت جابر بن زید رضی اللہ عنہ سے کہتے تھے۔
انک من فقھاء البصرۃ فلا تفت الا بقران ناطق اوسنۃ ماضیۃ فان فعلت غیر ذلک ھلک واھلک (سنن دارمی جلد اول ص 54)
تم بصرہ کے فقہاء میں سے ایک ہو تم صرف قرآن کے حکم کے ذریعے فتوی دیا کرو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے ذریعے فتوی دیا کرو اگر تم اس کے علاوہ کسی دوسرے طریقے سے فتوی دو گے تو تم بھی ہلاک ہوجاؤ گے اور دوسروں کو بھی ہلاک کرو گے۔

ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تم نے دین میں قیاس سے علم حاصل کرنا شروع کردیا تو تم بہت سے حرام کو حلال کرلو گے اور بہت سے حلال کو حرام کرلو گے۔

قاضی شریح رحم اللہ: نے کہا کہ سنت تلوار ہے جو قیاس کی گردن اڑانے کے لئے ہے۔ (اعلام الموقعین جلد اول ص228)

امام حماد بن زید رحم اللہ نے کہا کسی نے امام ایوب سختیانی رحم اللہ سے کہا آپ رائے اور قیاس سے کام کیوں نہیں لیتے ۔ آ پ نے کہا یہ تو ایسا ہی سوال ہے جیسا کسی نے گدھے سے پوچھا تم جگالی کیوں نہیں کرتے ؟ بولا میں باطل اور بے کار چیز کو چبانا پسند نہیں کرتا۔ (تذکرۃ الحفاظ جلد اول ص 120،121)

امام ابن خلدون رحم اللہ کہتے ہیں فقہ کی تقسیم دو طریقہ پر ہوگئی اہل عراق رائے اور قیاس والے تھے اور اہل حجاز اصحاب حدیث تھے ۔ عراقیوں (اہل الرای ) میں حدیث کم تھی تو انہوں نے کثرت سے قیاس کا استعمال کیا اور اس کے استعمال میں مہارت حاصل کی۔ جسکی وجہ سے ان کا نام ہی رائے والے پڑگیا اس گروہ کے سردار ابو حنیفہ اور ان کے شاگرد تھے اور اہل حجاز (اصحاب حدیث) کے امام مالک رحمہ اللہ ، امام شافعی رحمہ اللہ اور ان کے بعد کے (محدثین تھے) (داستان حنیفہ ص 22)۔

علامہ شرستانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
اصحاب الرای ھم اھل العراق وھم اصحاب ابی حنیفۃ وانما سمو ا اصحاب الرای لان اکثر عنایتھم بتحصیل وجہ القیاس (الملل و النحل ص 188)

عراق اصحاب الرائے تھے اور یہ ابو حنیفہ کے شاگرد اور اصحاب ہیں ان کا نام اصحاب الرائے اس وجہ سے ہے کہ ان کی زیادہ تر کوشش قیاس کے ذریعہ ہوتی تھی۔

علامہ ابن حزم رحم اللہ نے کہا کسی دینی مسئلا کے بارے میں قیاس و رائے سے فیصلا کرنا حرام ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالی نے نزاع کے صورت میں کتاب و سنت کی جانب رجوع کرنے کا حکم دیا ہے۔ بخلاف ازیں جو شخص قیاس و رائے یا کسی خود ساختہ علت کی طرف رجوع کرتا ہے وہ حکم الہی کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ ( المحلی ابن حزم جلد اول ص105)

امام جعفر بن محمد بن علی بن حسین رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ ابو حنیفہ سے کہا اللہ سے ڈرو اور قیاس نہ کیا کر ہم کل اللہ کے سامنے کھڑے ہوں گے ہم بھی اور ہمارے مخالف بھی ۔ ہم تو کہیں گے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور تم اور تمہارے ساتھی کہیں گے ہماری رائے یہ تھی اور ہمارا قیاس یہ تھا۔ پس اللہ تعالی ہمارے اور تمہارے ساتھ وہ کرے گا جو چاہے۔ (اعلام الموقعین جلد اول ص 229)

الغرض دین اسلام میں قرآن و حدیث چھوڑ کر قیاس کرنے کی قطعا اجازت نہیں اور ابو حنیفہ کا قیاس ہمارے لئے حجت نہیں ۔ ہمارے لئے حجت اللہ کا قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
 

رانا اویس سلفی

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
387
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
109
جہان تک محدثین کی ابو حنیفہ پر جرح ہے تو راقم نے انشأاللہ پوری کوشش کی ہے کہ ابو حنیفہ کی طرف کوئی ایسی بات منسوب نا ہوجائے جو اس نے نہ کہی ہو۔ اور محدثین نے ابو حنیفہ پر جو جرح کی ہے اسے جوں کا توں نقل کیا ہے۔ نیز اردو ترجمہ کے ساتھ عربی متن اور سند، سند کی تحقیق اور سند صحیح ہے یا حسن ، اس کی وضاحت بھی کردی ہے تا کہ عوام الناس کے دل میں یہ شبہ نہ رہے کہ محدثین کی ابو حنیفہ پر جرح کی راویات پایہ ثبوت کو پہنچتی بھی ہیں یا کہ نہین اور روایات کے حوالہ جات محدثین کی اصل کتابوں سے ہی نقل کئے گئے ہیں۔

مزید براں اگر تمام محدثین نے ابو حنیفہ پر جو جرح کی ہے بیان کی جاتی ، تو یہ کتاب 400 صفحات پر مشتمل ہوتی ۔ اس لئے کتاب کے طوالت کے خوف کی وجہ سے صرف 59 محدثین کی جرح بیان کی ہے اور انشأاللہ اہل علم اور متلاشی حق کے لئے یہ بھی کافی ہے۔

بعض کتب میں ابو حنیفہ کی جو تعدیل ملتی ہے وہ نہ ہونے کے برابر ہے اور اکثر روایات سخت ضعیف و من گھڑت ہیں۔ ویسے بھی اصول حدیث کا یہ مسلمہ قاعدہ ہے کہ جب جرح مفسر ہو تو تعدیل قابل قبول نہیں ہوتی اور محدثین کی ابو حنیفہ پر جرح مفسر ہے۔ نیز محدثین نے ابو حنیفہ کی وفات پر جو کلمات کہے اور ابو حنیفہ کا جو عقیدہ بیان کیا ہے اس کے سامنے تعدیل (جو نہ ہونے کے برابر ہے) کی کیا وقعت ہے۔ (جب کہ جرح بھی مفسر ہو)

علاوہ ازیں امام ابن الصلاح رحم اللہ نے کہا مگر جرح کے متعلق اصول و قاعدہ یہی ہے کہ وہ مفسرہی قابل قبول ہوتی ہے جس میں اس جرح کا سبب بھی بیان کیا جا سکے ۔۔۔۔۔

بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی راوی کے متعلق جرح اور تعدیل کے دونوں اقوال وارد ہوتے ہیں ایسے حالات میں معتمد قول یہ ہے کہ جرح اگر مفسر اور واضح ہو تو اسے ترجیح حاصل ہوگی۔ (مقدمہ ابن الصلاح ص 49،50 وتیسیر مسطلح الحدیث ص 138،139)

لہذا محدثین نے ابو حنیفہ پر بہت سخت جرح کی ہے اور جرح کا سبب بھی بیان کیا ہے۔ اس لئے تعدیل (آٹے میں نمک کے برابر) کے مقابلے میں ترجیح جرح کو حاصل ہوگی۔ اور عوام الناس سے التماس ہے کہ حق بات ظاھر ہوجانے کے بعد غلطی پر ڈٹے رہنے کی بجائے بغیر کسی تردد کے حق کو قبول کرنے کا جذبہ پیدا کریں اور یہی سبق ہمیں دین اسلام دیتا ہے۔ آخر میں اہل علم ، محقق حضرات سے گذارش ہے کہ اس کتاب میں کوئی بھی غلطی دیکھین تو ضرور مطلع فرمائیں تاکہ آئندہ ایڈیشن میں اس کی تصیح ہوسکے۔ انشأ اللہ ۔


مرجئہ کی تعریف

مرجیہ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس فرقہ کے خیال میں لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم کا قائل خواہ کتنے ہی گناہ کرے مگر وہ دوزخ میں نہیں جائےگا۔ ایمان قول کا نام ہے۔ عمل کا نہیں۔ اعمال احکام ہیں۔ ایمان صرف قول ہے۔ لوگوں کے ایمانوں میں باہمی کمی بیشی نہیں ہوتی ۔ پس عام آدمیوں کا ایمان انبیاؑ کا ایمان اور ملائکہ کا ایمان ایک برابر ہے اس میں نہ کوئی زیادہ ہے نہ کوئی کم۔ اظہار ایمان کے ساتھ انشأاللہ نہیں کہنا چاہئے جو شخص زبان سے ضروریات دین کا اقرار کرے اور عمل نا کرے تب بھی وہ مومن ہے۔ (غنیۃ الطالبین ص173)


جھمیۃ کی تعریف

جھمیہ فرقہ کا عقیدہ ہے کہ اللہ کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان چیزوں کو جو بھی اللہ کی طرف سے آئی ہیں صرف جاننے اور ماننے کا نام ایمان ہے۔ اس فرقہ کا دعویٰ ہے کہ قرآن مخلوق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ اسلام سے کلام نہیں فرمایا۔ اللہ تو کلام فرماتا نہیں نہ اسے دیکھا جاسکتا ہے۔ اور نہ اس کی جگہ جانی جا سکتی ہے۔ اس کے ئے نا عرش ہے اور نہ کرسی ۔ اور نہ وہ عرش پر ہے۔ انہوں نے اعمال کے تولے جانے اور عذاب قبر اور جنت و دوزخ کے پیدا ہونے کا انکار کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ جب وہ دونوں پیدا ہوں گے تو فنا ہو جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے کلام نہیں فرمائے گا اور نہ روز قیامت ان کی طرف نطر کرے گا۔ اور نہ اہل جنت اللہ تعالیٰ کی طرف دیکھیں گے اور نہ اس کا دیدار جنت میں ہوگا۔ ایمان صرف اعتراف قلب کا نام ہے نہ کہ زبان سے اقرار کرنے کا۔ ان گروہ نے اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کا انکار کیا ہے۔( غنیۃ الطالبین ص 173)
 

رانا اویس سلفی

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
387
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
109
ایمان کے تعریف اور
مرجئۃ و جھمیۃ کا رد

عمر فاروق رضی اللہ عنہ :
حدثنا هاون بن معروف غير مرة حدثنا ضمرة عن ابن شوذب عن محمد بن جحادة عن سلمة بن كهيل عن الهزيل بن شرحيبل قال قال عمر بن الخطاب رضي الله عنه لو وزن إيمان أبي بكر بإيمان أهل الأرض لرجح به (اسنادہ حسن ) (کتاب السنۃ جلد اول ص 378 واخرجہ البیھقی فی اشعب من طریق اسحاق بن راھویہ بسند صحیح

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا اگر اہل زمین کے ایمان کو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ایمان کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ایمان وزن میں زیادہ ہوگا۔

سند کی تحقیق
1۔ ھارون بن معروف المروزی ابو علی الخزاز الضریر نزیل بغداد ثقہ (تقریب التھذیب ص 362)
2) ضمرۃ : ھو ابن ربیعہ الفلسطینی ابو عبداللہ: امام ذھبی نے کہا ضمرۃ بن ربیعہ نامور حافظ حدیث صالح اور مامون تھے۔ امام یحیٰ بن معین اور دوسرےمحدثین نے ان کی توثیق کی ہے۔ امام احمد بن حنبل ؒ نے کہا ضمرۃ مجھے بقیہ سے زیادہ محبوب ہیں ۔ امام آدم ؒ نے کہا میں نے ایسا کوئی آدمی نہیں دیکھا جواپنی زبان سے نکلنے والی بات کو ان سے زیادہ سمجنے والا ہو ۔ امام ابن سعد ؒ نے کہا ثقہ اور مامون تھے۔ ایسے صالح اور نیک کہ یہاں ان سے افضل کوئی نہیں ہے۔ امام یونس ؒ نے کہا اپنے زمانہ میں محدثین کے فقیہ تھے (تذکرۃ الحفاظ ج اول ص 271)
3) ابن شوذب : ھو عبداللہ البلخی ، ثقہ (تاریخ الثقات ص 261)
4) محمد بن جحادۃ : ثقہ (تقریب التھذیب ص 292)
5) سلمۃ بن کھیل الحضرمی ابو یحیٰ الکوفی: ثقہ (تقریب التھذیب ص 131)
6) الھذیل بن شرجیل الاودی الکوفی : ثقہ (تقریب التھذیب ص363)

امام احمد بن حنبل ؒ

1۔ امام احمد بن حنبل یقول: ھم الذین یزعمون ان الایمان قول بلاعمل فیکفی مجرد النطق با للسان والناس لا یتفاضلون فی ایمانھم ، فلا یمانھم و ایمان الملائکۃ والانبیاء واحد و الایمان لایزیدو لا ینقص ولیس فیہ استثناء ، ومن آمن بلسانہ ولم یعمل فھو مومن حقا

امام احمد بن حنبل ؒ کہتے ہیں مرجیہ کا خیال ہے کہ ایمان صرف قول ہے۔ بغیر عمل کے ایمان کی شہادت صرف زبان سے کافی ہے۔ تمام لوگ اپنے ایمان میں برابر ہیں۔ لوگوں کا ایمان فرشتوں اور نبیوں کے ایمان کے برابر ہے۔ اور نہ ہی ایمان میں کمی و بیشی ہے۔ وہ ایمان میں انشاءاللہ کہنا درست نہیں سمجھتے جس نے صرف زبان سے ایمان کا اقرار کرلیا اور عمل کے قریب تک نہ گیا وہ بھی پکا ایماندار ہے۔

(تعلیق علی کتاب السنۃ جلد اول ص 307)

2۔ سمعتُ أبي رحمه الله وسئل عن الارجاء فقال نحن نقول الايمان قول وعمل يزيد وينقص إذا زنى وشرب الخمر نقص إيمانه (کتاب السنۃ جلد اول ص 307)
امام احمد بن حنبل ؒ نے کہا ایمان قول اور عمل کا نام ہے جو بٖڑھتا رہتا ہے مگر زنا، شراب خوری سے اس میں کمی آجاتی ہے۔
 

رانا اویس سلفی

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
387
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
109
شیخ الاسلام امام الحفاظ ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل البخاریؒ
امام المحدثین امام بخاری ؒ نے ایمان کے بڑھنے اور گھٹنے کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے:
وقول اللہ تعالیٰ وزدناھم ھدی ویز دادالذین امنو ا ایمانا وقال الیوم اکملت لکم دینکم فا ذا ترک شیا من الکمال فھو ناقص
اور اللہ نے (سورہ کہف میں) فرمایا ہم نے ان کو اور زیادہ ہدایت دی اور (سورۃ مدثر ) ایمانداروں کا ایمان اور بڑھے (اور سورۃ مائدہ میں) آج میں نے تمہارے لئے تمھارا دین پورا کیا اور (قاعدہ ہے) پورے میں سے کوئی کچھ چھوڑدے تو وہ ادھورارہ جاتا ہے۔

(صحیح البخاری جلد اول کتاب الایمان باب زیادۃ الایمان ونقصانہ ص124)

امام سفیان ثوریؒ
1۔ امام سفیان ثوریؒ نے کہا ہمارے اور مرجیہ کے درمیان تین باتوں میں اختلاف ہے۔ مرجیہ کہتے ہیں ایمان صرف قول ہے عمل اس میں داخل نہیں ہم کہتے ہیں ایمان قول اور عمل دونوں کے مجموعے کا نام ہے۔ ہم ایمان میں کمی بیشی کے قائل ہیں اور مرجیہ اس کے قائل نہیں۔ ہم کہتے ہیں نفاق اب بھی ہوسکتا ہے لیکن مرجیہ اس کے منکر ہیں۔

(تذکرۃ الحفاظ جلد اول، ص 349،350)

2۔ حدثنی ابی (احمد بن حنبل) نا ابو نعیم سمعت سفیان یعنی الثوری یقول الایمان یزید ونقص (اسناد صحیح ) کتاب السنۃ جلد اول ص 310)
امام سفیان ثوری نے کہا ایمان قول اور عمل کا نام ہے جو بڑھتا اور کم ہوتا ہے۔

سند کی تحقیق:
1) احمد بن محمد بن حنبل بن ھلال بن اسد الشیبانی المروزی نزیل بغداد ابو عبداللہ احد لائمۃ ثقۃ حافظ فقیہ حجٖۃ (تقریب التھذیب ص 16)
2) ابو نعیم : ھو ٖفضل بن دکین الکوفی دکین عمرو بن حماد بن زھیر التیمی ابو نعیم ثقۃ ثبت (تقریب التھذیب ص 275)


امام سفیان بن عیینہؒ

1۔ حدثنا سويد بن سعيد الهروي قال سألنا سفيان بن عيينة عن الارجاء فقال يقولون الايمان قول ونحن نقول الايمان قول وعمل والمرجئة أوجبوا الجنة لمن شهد أن لا إله إلا الله مصرا بقلبه على ترك الفرائض وسموا ترك الفرائض ذنبا بمنزلة ركوب المحارم وليس بسواء لأن ركون المحارم من غير استحلال معصية وترك الفرائض متعمدا من غير جهل ولا عذر هو كفر وبيان ذلك في أمر آدم صلوات الله عليه وأبليس وعلماء اليهود أما آدم فنهاه الله عز وجل عن أكل الشجرة وحرمها عليه فأكل منها متعمدا ليكون ملكا أو يكون من الخالدين فسمي عاصيا من غير كفر وأما إبليس لعنه الله فإنه فرض عليه سجدة واحدة فجحدها متعمدا فسمي كافرا وأما علماء اليهود فعرفوا نعت النبي  وأنه نبي رسول كما يعرفون ابناءهم وأقروا به باللسان ولم يتبعوا شريعته فسماهم الله عزوجل كفارا فركوب المحارم مثل ذنب آدم عليه السلام وغيره من الانبياء وأما ترك الفرائض جحودا فهو كفر مثل كفر إبليس لعنه الله وتركهم على معرفة من غير جحود فهو كفر مثل كفر علماء اليهود والله أعلم (اسنادہ حسن) (کتاب السنۃ جلد اول ص 347،348)

امام سوید بن سعید ؒ نے کہا ہم نے امام سفیان بن عیینہ ؒ سے ارجاء (مرجیہ) کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا مرجیہ کہتے ہیں۔ ایمان قول ہے۔ اور ہم کہتے ہیں ایمان قول اور عمل ہے اور مرجیہ جنت اس شخض کیلئے واجب قرار دیتے ہیں جو صرف یہ گواہی دے اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں اور اس کی یہ حالت ہو کہ مسلسل دل سے فرائض کو ترک کرتا رہے اور انہوں نے فرائض کے ترک کرنے کو گناہ قرار دیا ہے۔ حرام کام کرنے کی طرح حالانکہ وہ (دونوں یعنی مسلسل فرائض ترک کرنے والا اور محارم کا ارتکاب کرنے والا) برابر نہیں ہیں اس لئے محارم کا ارتکاب کرنا ان کو حلال جانے بغیر وہ نافرمانی ہے۔ اور فرائض کو بغیر جہالت کے اور بغیر کسی عذر کے جان بوجھ کر چھوڑنا کفر ہے اور اس کی وضاحت آدم علیہ اسلام اور ابلیس اور علماء یہود کے مقابلے میں ہے۔ رہے آدم علیہ اسلام تو اللہ تعالیٰ نے ان کو درخت مخصوص کا (پھل)کھانے سے منع کیا تھا اور اسکو ان پر حرام کیا تھا۔ پس انہوں نے جان بوجھ کر کھالیا تاکہ وہ فرشتہ بن جائیں یا ہمیشہ رہنے والوں میں سے ہوجائیں۔ پس انہیں کافر نہیں عاصی کہا گیا۔ اور رہا ابلیس اللہ تعالیٰ نے اس پر لعنت کی۔ اللہ نے اس پر ایک سجدہ فرض کیا تھا تو اس نے جان بوجھ کر اس کو کرنے سے انکار کردیا تو اس کو کافر کہا گیا اور رہا علماء یہود انہوں نے نبی ﷺ کی نشانی کو پہچان لیا اور یہ کہ وہ نبی رسول ﷺ ہیں ایسے پہچان لیا جیسے وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں اور انہوں نے زبان سے اس کا اقرار بھی کیا مگر آپ کی شریعت کی پیروی نہیں کی ۔ پس اللہ نے ان کو کافر کہا تو حرام کام کرنا آدم علیہ اسلام کے گناہ کی طرح ہے۔ اور ان کے علاوہ دوسروں کے گناہ کی طرح ہے ۔ انبیاء کے فرائض کو چھوڑنا ان کا انکار کرتے ہوئے تو کفر ہے۔ ابلیس کے کفر کی طرح۔ اللہ اس پر لعنت کرے۔ اور چھوڑنا ان کا (یہود کا) فرائض کو باوجود پہچان لینے کے بغیر انکار کرنے کے پس وہ کفر ہے۔ علماء یہود کے کفر کے اور اللہ خوب جاننے والا ہے۔

سند کی تحقیق:
1) سوید بن سعید بن سھل الھروی ابو محمد: ثقۃ (تاریخ الثقات ص 211) صدوق فی نفسہ الا انہ عمی ٖٖفصار یتلقن ما لیس من حدیثہ وافحش فیہ ابن معین القول من قدماء (تقریب التھذیب ص 140)
 

رانا اویس سلفی

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
387
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
109
امام سلیمان التیمیؒ

1۔ حدثني محمد بن صالح البصري مولى بني هاشم حدثنا عبد الملك بن قريب الأصمعي حدثنا المعتمر بن سليمان التيمي عن أبيه قال ليس قوم أشد نقضا للاسلام من الجهمية والقدرية فأما الجهمية فقد بارزوا الله تعالى وأما القدرية فإنهم قالوا في الله عز وجل (اسناد حسن ) (کتاب السنۃ جلد اول ص 104،105)

امام معتمر بن سلیمانؒ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں انہوں نے کہا کوئی قوم اسلام کے لئے جھمیہ اور قدریہ سے زیاد نقصان دہ نہیں ہے۔ رہے جھمیہ تو وہ اللہ سے مقابلے کے لئے نکل کھڑے ہوئے (نعوذ باللہ)۔ اور قدریہ تو انہون نے اللہ پر بہتان و الزام تراشی کی۔

سند کی تحقیق:
1) محمد بن صالح البصری مولی بن ھاشم بن مھران البصری ھاشمی ابو التیاج صدوق (تقریب التھذیب ص 302) قال ابن حبان محمد بن صالح ثقۃ (خلاصہ تذھیب تھذیب الکمال جلد 2 ص 415)
2) معتمر بن سلیمان التیمی ابو محمد البصری یلقب باطفیل ثقۃ (تقریب التھذیب ص 342) امام ذھبیؒ نے کہا معتمر بن سلیمان ؒ قابل اعتماد اور بلند پایہ حافظ حدیث تھے ۔ ثقاہت ،ضبط حدیث، عبادت اور پرہیزگاری کے ساتھ موصوف تھے ۔ حتیٰ کی امام قرہ بن خالدؒ کہتے تھے ہمارے نزدیک متعمر اپنے والد امام سلیمان التیمیؒ سے کسی طرح کم نہیں ہیں (تذکرۃ الحفاظ جلد اول ص 213)

امام عبداللہ بن مبارکؒ

حدثني أحمد بن إبراهيم الدورقي ثنا علي بن الحسن بن شقيق قال سألت عبدالله بن المبارك كيف ينبغي لنا أن نعرف ربنا عز وجل قال على السماء السابعة على عرشه ولا نقول كما تقول الجهمية أنه ها هنا في الأرض (اسنادہ صحیح) ( کتاب السنۃ جلد اول ص 307)

امام علی بن حسن ؒ نے کہا میں نے امام عبداللہ بن مبارکؒ سے پوچھا ہم رب کو کیسے پہچانیں ؟ تو انہوں نے کہا (یہ عقیدہ رکھو) وہ ساتویں آسمان پر اپنے عرش پر اور ہم اس طرح نہیں کہتے جیسے جھمیہ کہتے ہیں کہ وہ یہاں زمین پر ہے۔

سند کی تحقیق:

1) احمد بن ابراھیم الدورقی بن کثیر بن زید الدورقی البغداری ثقۃ حافظ (تقریب التھذیب ص 11)
2) علی بن حسن بن شفیق ابو عبدالرحمن المروزی ثقۃ حافظ (تقریب التھذیب ص 244)


امام عبدالرزاق بن ہمامؒ

حدثني أبو عبد الرحمن سلمة بن شبيب قبل سنة ثلاثين ومائتين حدثنا عبد الرزاق قال كان معمر وابن جريج والثوري ومالك وابن عيينة يقولون الايمان قول وعمل يزيد وينقص قال عبدالرزاق وأنا أقول ذلك الايمان قول وعمل والايمان يزيد وينقص فان خالفتهم فقد ضللت إذا وما أنا من المهتدين (اسنادہ صحیح) (کتاب السنۃ جلد اول 342،343)

امام عبد الرزاق نے کہا امام معمر اور امام ابن جریج اور امام الثوری اور امام مالک اور امام سفیان بن عیینہ کہا کرتے تھے ایمان قول اور عمل کا نام ہے۔ ایمان بڑھتا اور کم ہوتا ہے۔ امام عبدالرزاق نے کہا میں بھی یہ کہتا ہوں۔ ایمان قول اور عمل کا نام ہے۔ او ر ایمان بڑھتا اور کم ہوتا ہے پس اگر تونے ان کی مخالفت کی تو پھر تو گمراہ ہوگیا اور تو پھر ہدایت یافتہ لوگوں میں نہ رہے گا۔

سند کی تحقیق:
1) ابو عبدالرحمن سلمۃ بن شبیب : المسمعی النیسابوری نزیل مکۃ ثقۃ (تقریب التھذیب ص 130)

امام علی بن حسن بن شفیقؒ

حدثني محمد بن علي بن الحسن بن شقيق قال سمعتُ أبي يقول الايمان قول (اسنادہ صحیح) (کتاب السنۃ جلد اول ص 347)

امام محمد بن علی بن حسن بن شفیقؒ نے کہا میں نے اپنے باپ سے سنا، انہوں نے کہا ایمان قول اور عمل کا نام ہے۔

سند کی تحقیق:
1) محمد بن علی بن حسن بن شفیق بن دینار المروزی ثقۃ صاحب حدیث (تقریب التھذیب ص 311)
 

رانا اویس سلفی

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
387
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
109
امام فضیل بن عیاضؒ

قال وجدت في كتاب ابي رحمه الله قال أخبرت أن فضيل بن عياض یقول: وقال أصحاب الرأي ليس الصلاة ولا الزكاة ولا شيء من الفرائض من الايمان أفتراء على الله عز وجل وخلافا لكتابه وسنة نبيه  ولو كان القول كما يقولون لم يقاتل أبو بكر رضي الله عنه أهل الردة وقال الفضيل رحمه الله يقول أهل البدع الايمان الاقرار بلا عمل والايمان واحد وإنما يتفاضل الناس بالاعمال ولا يتفاضلون بالايمان ومن قال ذلك فقد خالف الأثر ورد على رسول الله  قوله لأن رسول الله  قال الايمان بضع وسبعون شعبة أفضلها لا إله إلا الله وأدناها إماطة الأذى عن الطريق والحياء شعبة من الايمان وتفسير من يقول الايمان لا يتفاضل يقول إن الفرائض ليست من الايمان فميز أهل البدع العمل من الايمان وقالوا إن فرائض الله ليس من الايمان ومن قال ذلك فقد أعظم الفرية أخاف أن يكون جاحدا للفرائض رادا على الله عز وجل امره ويقول أهل السنة إن الله عزوجل قرن العمل بالايمان وأن فرائض الله عز وجل من الايمان قالوا والذين آمنوا وعملوا الصالحات فهذا موصول العمل بالايمان ويقو ل أهل الأرجاء إنه مقطوع غير موصول (کتاب السنۃ جلداول ص 374، 375،376)

امام فضیل بن عیاض کہتے تھے اور اصحاب الرائے (ابو حنیفہ) نے کہا نماز اور زکواۃ اور کوئی بھی فرض کام ایمان سے نہیں ہے۔ اللہ عزوجل پر افتراء بہتان باندھتے ہوئے اور اس کی کتاب (قرآن) اور اس کے نبی ﷺ کی سنت کا خلاف کرتے ہوئے اور اگر بات اسی طرح ہوتی (یعنی ایمان صرف قول کا نام ہے) جیسے یہ کہتے ہیں تو ابو بکر صدیق ؓ مرتد ہوجانے والوں سے نہ لڑتے اور اما م فضیل بن عیاض نے کہا اہل بدعت (مرجیہ)کہتے ہیں کہ ایمان صرف اقرار بلاعمل ہے اور ایمان ایک ہی ہے لوگوں میں تفاضل ایمان کی وجہ سے نہیں اعمال کی وجہ سے ہے۔ جو شخص بھی مرجیہ کا عقیدہ رکھتا ہے تو تحقیق اس نے مخالفت کی قرآن و حدیث کی اور رسولﷺ کی بات کا انکار کردیا ۔ اس لئے کہ رسولﷺ نے فرمایا ایمان کی 70 شاخیں ہیں ان میں سب سے افضل لا الہ الااللہ ہے۔ اور سب سے کم درجہ تکلیف دہ چیز کا راستہ سے دور کرنا ہے۔ اور حیاء بھی ایمان کی ایک شاخ ہے جو کہتا ہے کہ ایمان میں تفاضل نہیں اس کی مراد یہ ہے کہ فرائض (نماز زکوۃ، روزہ، حج) ایمان میں شامل نہیں ہیں تو ان بدعتیوں (مرجیوں) نے عمل کو ایمان سے جدا کردیا ہے اور برملا کہا کہ فرائض ایمان میں داخل نہیں ہیں جیس کا بھی یہ نظریہ ہے اس نے بہت بڑا جھوٹ بولا۔ مجھے ڈر ہے کہ وہ فرائض کے انکار کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے حکم کا رد کرنے والا نہ ہوجائے۔ اہل السنت کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عمل ایمان سے جوڑا ہے۔ اور فرائض بھی بلا شبہ ایمان سے ہیں تو اہل السنت کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے "والذین آمنو و عملو الصالحات" (العنکبوت آیت 7) آیت میں عمل کو ایمان کے ساتھ ملانا ہے مگر مرجیہ کہتے ہیں کہ عمل ایمان سے علیحدہ چیز ہے۔
 

رانا اویس سلفی

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
387
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
109
امام مالک بن انسؒ

حدثني أبي حدثنا سريج بن النعمان حدثنا عبدالله بن نافع قال كان مالك يقول الايمان قول وعمل يزيد وينقص (اسنادہ صحیح) (کتاب السنۃ جلد اول ص 317)

امام مالک ؒ نے کہا ایمان قول اور عمل کا نام ہے۔ ایمان زیادہ اور کم ہوتا ہے۔

سند کی تحقیق:
1) احمد بن محمد بن حنبل بن ھلال بن اسد الشیبانی المروزی نزیل بغداد ابو عبداللہ احد لائمۃ ثقۃ حافظ فقیہ حجٖۃ (تقریب التھذیب ص 16)
2) سریج بن النعمان بن مروان الجوھری ابوالحسن البغدادی اصلہ من خراسان ثقۃ بھم قلیلا (تقریب التھذیب ص 117) قال العجلی سریج بن نعمان ثقۃ (تاریخ الثقات ص 177)
3) عبداللہ بن نافع : ثقۃ(تاریخ الثقات ص 281) امام ابو داؤد نے کہا عبداللہ بن نافع امام مالک ؒ کے مسلک کے سب سے زیادہ عالم اور فقیہ تھے (تھذیب التھذیب جلد 6 ص 52)


امام وکیع بن جراحؒ
حدثنی ابی (احمدبن حنبل) قال سمت وکیعا یقول الایمان یزید و ینقص (اسنادہ صحیح) (کتاب السنۃ جلد اول ص 210)

امام وکیع ؒ نے کہا ایمان قول اور عمل ہے جو بڑھتا اور کم ہوتا ہے۔

سند کی تحقیق:

1) احمد بن محمد بن حنبل بن ھلال بن اسد الشیبانی المروزی نزیل بغداد ابو عبداللہ احد لائمۃ ثقۃ حافظ فقیہ حجٖۃ (تقریب التھذیب ص 16)

امام یحیی بن سعید القطانؒ

امام یحیی بن سعید القطان ؒ نے کہا میں نے جتنے علما کو پایا ہے سب کا یہی عقیدہ تھا کہ ایمان قول اور عمل ہے۔ سب جھمیہ کو کافر کہتے تھے۔ (تذکرۃ الحفاظ جلد اول ، ص 234)
 

رانا اویس سلفی

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
387
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
109
مرجئۃ اور جھمیۃ کافر ہیں

امام احمد بن حنبل ؒ
1۔سمعت ابی یقول لایصلی خلف القدریۃ والمعتزلۃ والجھمیۃ (کتاب السنۃ جلد اول 384)

امام احمد بن حنبل ؒ نے کہا القدریہ اور المعتزلہ اور جھمیہ کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے۔

2۔ سمعتُ أبي رحمه الله يقول من قال القرآن مخلوق فهو عندنا كافر لأن القرآن من علم الله عز وجل قال الله عز وجل : ﴿فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ ...﴾.
وقال عز وجل : ﴿وَلَن تَرْضَى عَنكَ الْيَهُودُ وَلاَ النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ قُلْ إِنَّ هُدَى اللهِ هُوَ الْهُدَى وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءهُم بَعْدَ الَّذِي جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللهِ مِن وَلِيٍّ وَلاَ نَصِيرٍ﴾.(کتاب السنۃ جلد اول ص 103)

میں نے اپنے باپ امام احمد بن حنبل ؒ سے سنا انھوں نے کہا جو کہے قرآن مخلوق ہے وہ ہمارے نزدیک کافر ہے اس لیے کہ قرآن اللہ تعالیٰ عزوجل کا علم ہے (اور بطور دلیل کے قرآن اللہ کا علم ہے یہ آیات پڑھیں) جو آپ سے جگھڑا کرے آپ کے پاس علم آجانے کے بعد (سورۃ العمران آیت 61) اور کہا اللہ عزوجل نے : آپ سے یہود و نصاریٰ ہر گز راضی نہ ہوں گے جب تک آپ ان کے دین کی پیروی نہ کریں آپ کہہ دیں بے شک اللہ کی ہدایت ہی ہدایت ہے اور اگر آپ نے ان کی خواہشات کی پیروی کی آپ کے پاس علم آجانے کے بعد تو آپ کے لیے اللہ کے ہاں کوئی دوست اور مددگار نہ ہوگا۔ (سورۃ البقرہ ، آیت 120)

شیخ الاسلام امام الحافظ ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل البخاریؒ

امام المحدثین امام بخاریؒ نے کہا : با ابالی صلیت خلف الجھمی والر افضی ام صلیت خلف الیھود و انصاری (خلق افعال العباد 22 فقرہ 53)

مجھے پرواہ نہیں کہ جھمیہ و روافضی کے پیچھے نماز پڑھوں یا یہود و نصاریٰ کے پیچھے نماز پڑھوں؟

یعنی جس طرح یہود و نصاریٰ کے پیچھے نماز پڑھنے کا کوئی مسلم (مسلمان) قائل نہیں۔ اسی طرح جھمی اور روافضی کے پیچھے بھی نماز نہیں ہوگی۔

امام سعید بن جبیرؒ

حدثني أبي حدثنا عبد الرحمن بن مهدي حدثنا حماد بن سلمة عن عطاء بن السائب عن سعيد بن جبير قال مثل المرجئة مثل الصابئين (اسنادہ حسن ) (کتاب السنۃ جلد اول ص 338)

امام سعید بن جبیرؒ نے کہا مرجیہ صائبین کی طرح ہیں (یعنی ان کی طرح کافر ہیں)

سند کی تحقیق:
1) احمد بن محمد بن حنبل بن ھلال بن اسد الشیبانی المروزی نزیل بغداد ابو عبداللہ احد لائمۃ ثقۃ حافظ فقیہ حجٖۃ (تقریب التھذیب ص 16)
2) عبدالرحمن بن مھدی بن حسان العنبری مولاھم ابو سعید البصری ثقۃ ثبت حافظ عارف بالرجال والحدیث قال ابن المدینی ما ر ایت اعلم منہ ( تقریب التھذیب ص 210)
3) حماد بن سلمۃ بن دنیار البصری ابو سلمۃ ثقۃ عابد اثبت الناس فی ثابت وتغیر حفظہ باخرہ (تقریب التھذیب ص 82)
4) عطابن سائب الثقفی الکوفی احد الا علام لی لین فیہ ثقۃ ساء حفظہ باخرۃ، وقال احمد بن حنبل ثقۃ ثقۃ (الکاشف جلد 2 ص 232)


امام سلام بن ابی مطیع ؒ

حدثنی احمدبن ابراھیم الدورقی حدثنی زھیر بن نعیم السجستانی البابی ثقۃ ، قال سمت سلام بن ابی مطیع یقول الجھمیۃ کفار لایصلی خلفھم (اسنادہ صحیح ) (کتاب السنۃ جلد اول ص 105)

امام زہیر بن نعیم ؒ نے کہا میں نے امام اسلام بن ابی مطیعؒ کو یہ کہتے ہوئے سنا انھوں نے کہا جھمیہ کافر ہیں ان کے پیچھے نماز ادا نہ کی جائے۔

سند کی تحقیق:
1) احمد بن ابراھیم الدورقی بن کثیر بن زید الدورقی البغداری ثقۃ حافظ (تقریب التھذیب ص 11)
2) زھیر بن نعیم : البابی السلولی ابو عبدالرحمن السجستانی ثقۃ (تھذیب التھذیب جلد 3 ص 353)
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top