• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مولاناحافظ عبدالرحمن مدنی﷾سے ملاقات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رشد : کلِّیۃ القرآن الکریم کے ابتدائی دور کی مشکلات اور ارتقاء کے بارے میں کچھ بتائیے؟
مولانا: قرآن مجید کی متنوع قراء تیں قرآن مجید کا توسع ہیں اور توسع ہی کا ذکر ہم کررہے تھے کہ کلِّیۃ القرآن کی مشکلات پر قابو پانے کے لیے ہمارا توسع سعودی عرب سے رابطہ کی صورت میں ہوا، چونکہ کلِّیۃ القرآن کے ذمہ داروں میں قاری محمد ابراہیم میر محمدی﷾ کا ذکر ہوا ہے، قاری صاحب اس سے پہلے مدینہ منورہ میں کلِّیۃ القرآن، مدینہ یونیورسٹی اور سعودی عرب کے إذاعۃ القرآن الکریم کے باہمی تعاون کی صورت میں متنوع قراء ات پر کام کررہے تھے۔ اس طرح سے کلِّیۃ القرآن کے سلسلے میں ہمارا پہلا رابطہ انہی سے ہوا۔ جبکہ ہمارا دوسرا رابطہ کویت سے ہوا، جس کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ میرے بیٹے ڈاکٹر حافظ حمزہ مدنی سلمہ کو کویت میں قیام اللیل میں قرآن مجید سنانے کی دعوت ملی ۔ ۲۰۰۰ء میں حمزہ صاحب قرآن مجید سنانے کے لیے کویت میں گئے۔ قرآن مجید میں آواز کا حسن اللہ تعالیٰ کی دین ہے اور نبی کریمﷺ کا حکم بھی ہے کہ
’’حسّنوا القرآن بأصواتکم‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اللہ تعالیٰ نے کلِّیۃ القرآن، جامعہ لاہور الاسلامیہ سے جن نوجوانوں کو آواز کا حسن دیا تھا، ان میں قاری صہیب اَحمد میر محمدی اور ڈاکٹرقاری حمزہ مدنی نمایاں تھے۔ قاری صہیب احمد، چونکہ قاری ابراہیم میر محمدی﷫کے بھائی تھے ، چنانچہ قاری صاحب کی وجہ سے سعودی عرب میں جو متنوع قراء ات کا پروگرام تھا، بعدازاں وہ اس کام کو آگے بڑھاتے رہے، جبکہ کویت میں ڈاکٹر قاری حمزہ مدنی نے اس کی ابتدا یوں کی کہ جب وہاں قرآن سنانے گئے تو قرآن مجید کی سورتوں کو متنوع قراء توں میں سنانا شروع کیا۔ چونکہ یہ عربی ملک ہیں اور عربی ملکوں کے اندر قرآن کریم کی مختلف قراء توں کا تعارف پہلے سے موجود ہے۔اسی بناء پر اس طرح سے نمازوں میں قراء توں کی تلاوت سے زیادہ مشکلات سامنے نہ آئیں اور اچھی آواز میں متنوع قراء توں کی تلاوت کافی پسند کی گئی اور قیام اللیل میں تراویح پڑھنے والوں کی حاضری کافی بڑھ گئی۔ اس سے کویت کے اندر کافی حوصلہ افزائی ہوئی کہ قرآن مجید کو متنوع قراء توں میں پڑھا جائے۔اس سلسلہ میں جو اہل علم کویت میں موجود تھے، ان میں فضیلۃ الشیخ عبدالرازق علی ابراہیم موسی ﷫ اور ڈاکٹر محمد ابراہیم﷾ وغیرہ شامل ہیں،جن کی تائید سے لوگوں میں یہ معمول مقبول ہوگیا۔ اب پچھلے دس سالوں میں کویت کی صورتحال یہ ہے کہ وہاں ڈاکٹر قاری حمزہ مدنی کی مثل دس کے قریب بڑی مساجد میں قیام اللیل مختلف قراء ات میں ہورہا ہے۔ الشیخ عبدالرازق﷫، جن کا ابھی ذکر ہوا ہے، پاکستان کے بڑے بڑے قراء حضرات کے استاد ہیں، جیساکہ قاری محمد ادریس العاصم﷾ ، قاری محمد ابراہیم میرمحمدی﷾ اور قاری احمد میاں تھانوی ﷾ وغیرہ ان سے مدینہ یونیورسٹی میں قراء ات سیکھتے رہے۔ آپ مدینہ یونیورسٹی کے بہت دیر استاد بھی رہے ہیں اور مجمّع ملک فہد سے بھی ان کا تعلق رہا ہے۔ ابھی چند ماہ قبل کویت میں ان کا انتقال ہوگیا۔بہرحال ان لوگوں کی تائید بڑی حوصلہ افزا ہوئی اور یہ نوجوان ان شیوخ کی حوصلہ افزائی کے ساتھ کویت میں اپنے مقاصد میں کامیاب رہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
کویت میں قرآن مجید کی اچھی تلاوت کرنے والے اور لوگ بھی موجود ہیں، لیکن وہاں امتیازی کام یہ ہوا کہ متنوع قراء توں میں قرآن مجید کی تلاوت کی گئی۔ اس سلسلے میں تلاوت کا کام جو ڈاکٹر حمزہ مدنی نے شروع کیا، وہ بعد ازاں ریکارڈ ہونے لگا۔ مختلف اداروں نے اس سلسلہ میں مسابقت کی،جن میں ’تسجیلات حاملُ المسک الإسلامیۃ‘ اور’تسجیلات کیفان الإسلامیۃ‘ کا تعاون بہت خوش آئند رہا۔
ابھی تک مجمّع ملک فہد کے اندر جو قرآن مجید کی متنوع قراء توں کی ریکارڈنگ کا اہتمام تھا، ان میں زیادہ تر وہ قراء تیں ریکارڈ کی گئی تھیں، جو مشہور ملکوں میں پڑھی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر اسلامی ممالک کے مشرق میں امام عاصم﷫ کی قراء ۃ امام حفص﷫ کی روایت سے معروف ہوئی۔ اسی طرح اسلامی ملکوں کے مغرب میں امام نافع﷫ کی قراء ۃ نے شہرت پائی۔ اگرچہ شمالی افریقہ کے جو ممالک ’مغاربہ‘ کہلاتے ہیں، وہاں امام نافع ﷫ کی قراء ات ان کے دو شاگردوں کی روایت سے معروف ہوئی: ایک روایت ورش عن نافع ہے اور دوسری روایت قالون عن نافع ہے۔ مغربی اسلامی ممالک، جن میں مراکش، الجزائر، لیبیا،تیونس اور موریطانیہ وغیرہ آتے ہیں، ان میں عام طور پر امام ورش ﷫ اور امام قالون ﷫ دونوں کی روایت اسی طرح رائج ہے، جس طرح مشرق کے اندر روایت حفص عن الامام عاصم متداول ہے ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سعودی عرب حرمین کی وجہ سے بہت محترم ملک سمجھا جاتا ہے، اس نے عالم اسلام کی نمائندگی کرتے ہوئے متداول قراء توں کی ریکارڈنگ کا اہتمام کیا اور مجمّع ملک فہد نے وہ قرآن مجید بھی شائع کر دئیے، جو ان ملکوں میں پڑھی جانے والی قراء توں اور روایتوں کے مطابق ہیں۔ امام قالون﷫ کی روایت کا زیادہ اہتمام لیبیا نے کیا اور لیبیا کے اسلامی ادارے اسی کے مطابق قرآن مجید شائع کرتے ہیں اور اسی طرح مجمّع ملک فہد نے بھی امام قالون﷫کی روایت میں مصحف شائع کیا ہوا ہے۔ اسی طرح امام ورش﷫ کی روایت میں مصحف جہاں مراکش وغیرہ شائع کرتے ہیں، وہیں مجمّع ملک فہد نے بھی روایت ورش میں مصحف کو شائع کیا ہے۔ اس کے علاوہ روایت ورش میں مصحف قطر سے بھی شائع ہوا۔ میں اپنے دورہ ’قطر‘ سے واپسی پر وہ مصحف لے کر بھی آیا تھا، جو روایت ورش عن نافع میں قطر نے شائع کیا تھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
یہ تمام متداول روایتیں مجمّع ملک فہد نے شائع کیں۔ بات کویت کے حوالے سے ہورہی تھی، تو اسی کو آگے بڑھاتے ہیں۔ کویت میں جو کام آگے بڑھا وہ یہ تھا کہ چار متداول روایتیں جو کہ میں نے ذکر کر دی ہیں یعنی روایت حفص عن عاصم، روایت قالون عن نافع، روایت ورش عن نافع اور چوتھی قراء ۃ، جو سوڈان کے اندر پڑھی جاتی ہے یعنی روایت دوری عن ابی عمرو بصری تو ان چار قراء توں کا اہتمام تودنیا کے مشہور ممالک پہلے سے کر رہے ہیں، جو باقی سولہ روایتیں ہیں (اس لیے کہ اس وقت دس قراء تیں متواتر ہیں اور ہر مشہور قاری سے آگے دو دو راوی ہیں، اس طرح روایتیں بیس بنتی ہیں)ان بیس میں سے چار کا اہتمام تو مجمّع ملک فہدنے کیا، جبکہ بقیہ قراء توں کی ریکارڈنگ اور طباعت پر کام کویت میں شروع ہوا۔ ریگارڈنگ کی حد تک اس کام کی نوعیت یہ تھی کہ یہ کام پہلے قیام اللیل میں ہوا اور پھر بعد میں حامل المسک جیسے اداروں نے اپنے اسٹوڈیوز میں اس کی ریکارڈنگ کی۔ اس طرح ڈاکٹر حمزہ مدنی کا کام کویت میں آگے بڑھا اور پھر انہی کے واسطہ سے ہمارا کام عالمی سطح پر اجاگر ہوا۔ چونکہ انسان کے عزائم بہت بلند ہوتے ہیں، لیکن عملاً انسان جو کام کرسکتا ہے وہ اپنے وسائل کے مطابق ہی کر سکتا ہے، میں یہ سمجھتاہوں کہ کویت کے اداروں اور وہاں کی مشہورشخصیات نے، جن میں مشعل سلیمان السعید﷾، الشیخ عبد اللہ عساکر﷾ اور الشیخ عبد اللہ الکندری﷾ وغیرہ کا نام کافی نمایاں ہے، ان لوگوں کے تعاون سے کویت میں بھرپور کام ہوا اور ہمارے ہونہار شاگرد ڈاکٹر حافظ محمد اسحاق زاہد﷾کا بھی اس میں بہت نمایاں کردار ہے۔ انہوں نے ڈاکٹر حمزہ مدنی کی بھرپور مدد کی اور جامعہ کے ایک فرزند ہونے کے ناطے سے ہمارے کام میں بہت زیادہ تعاون کیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس طرح کویت میں ہمارا کام آگے بڑھتا رہا۔ اس وقت کویت میں ہمارے کام کی صورتحال یہ ہے کہ ایک تو بیس روایتوں میں قرآن مجید کی تلاوت اور ریکارڈنگ ہو رہی ہے اور اس کام کو ریکارڈ کرنے کا کام حامل المسک وغیرہ ادارے کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارا کام اور جہتوں میں بھی آگے بڑھ رہا ہے۔ اس سلسلے میں کچھ تفصیل بعد میں ذکر ہوگی۔ قرآن مجید کی متنوع قراء ات کے سلسلے میں سعودی عرب اور کویت نے ہمیں کافی سہارا دیا اور ہم اس کام کو آگے بڑھا کر ان ممالک کے تعاون سے اپنی مشکلات پر قابو پانے میں کافی حد تک کامیاب رہے۔
یہاں یہ ذکر کرنا بھی مناسب ہوگا کہ ہمارے ساتھ جہاں سعودی عرب اور کویت کا تعاون شامل ہے، وہاں اب گذشتہ چند سالوں سے متحدہ عرب امارات کے عربی احباب کا تعاون بھی شامل ہوچکا ہے۔ اس سلسلے میں شیخ یوسف نجیبی﷾ اور شیخ حسن خان صاب﷾ ہمارے ساتھ بھرپور تعاون کررہے ہیں اور ڈاکٹر حمزہ مدنی گزشتہ سال سے وہاں بھی دوبئی کی مشہور مسجد’ صفا‘ میں متنوع قراء توں میں نماز تراویح شروع کر چکے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے مشائخ نے ہم سے وعدہ لیا ہے کہ ہم وہاں ہر سال متنوع قراء توں میں قرآن سنانے کا اہتمام کریں گے ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
میں نے کلِّیۃ القرآن کی مشکلات کا ذکر کیاہے کہ یہ توسع اصل میں مشکلات کا ایک حل تھا اور میں یہ بات آپ کے سامنے واضح کرنا چاہتا ہوں کہ خود نبی کریم ﷺکے دور میں جب قرآن مجید کو سات حرفوں کے اندرپڑھنے کی وسعت دی گئی تو وہ بھی اصل میں عربوں کی تلاوت میں مشکلات کا ایک حل تھا۔ جس طرح دنیا میں مختلف زبانیں ہیں اسی طرح دنیا میں ہر زبان میں کچھ لفظ بھی مختلف ہوتے ہیں اور خصوصاً لہجہ اور طرز بھی مختلف ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح عربی زبان میں لہجوں اور طرزوں کا فرق موجود ہے۔ نبی کریمﷺپر جب قرآن نازل ہوا تو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو کئی لہجوں اور مختلف طرزوں کا لحاظ رکھتے ہوئے اتارا۔ اس طرح نبی کریمﷺکے دور میں قرآن مجید سات حروف میں مکمل ہوگیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رشد: سبعۃ أحرف کا مفہوم کیا ہے؟ نیز قاری صاحب کے جانے کے بعد کلیہ قرآن کی حالیہ صورتحال کیا ہے؟
مولانا: قرآن کریم کا متعدد قراء توں میں نزول اور پھر اس کا ثبوت تو تو اتر کے ساتھ ثابت ہے، لیکن حدیث سبعۃ أحرف کی تشریح کے اندر اہل علم کا اختلاف پایا جاتا ہے۔ میں اپنے انٹرویو میں یہ اختلاف زیادہ پھیلانا نہیں چاہتا۔ اس سلسلے میں صرف راجح بات ذکر کر دیتا ہوں کہ سات اَحرف سے مراد عربی زبان کی لغات کا اختلاف ہے اور اس میں عربی زبان کے طرزوں اور لہجوں کا خصوصاً احاطہ کیا گیا ہے۔ حتی کہ قراء توں میں لغوی اختلاف بھی زیادہ سنگین نہیں ہے۔ یہ نہیں ہے کہ ایک لفظ کی جگہ پر ایک دوسرا متضاد لفظ رکھ دیا جائے، بلکہ وہ اختلاف بھی یہاں تک ہے کہ بعض قریبی الفاظ یاتو مخرج کے اعتبار سے قریبی ہیں یا صفت کے اعتبار سے، مثلاًسورۃ فاتحہ میں ’صراط الذین أنعمت علیہم‘ میں صراط کو ’زا‘ کے اشمام کے ساتھ بھی پڑھا جا سکتاہے اور خالص ’صاد‘ کیساتھ بھی۔ اس کے علاوہ بھی قرآن مجید میں بہت سی جگہوں پر صاد کی جگہ پر سین پڑھا جاتاہے ۔ کہنے کامقصدیہ ہے کہ یہ اختلاف لغت کا بڑا اختلاف نہیں ہے، لیکن چونکہ مختلف قبائل جب ان الفاظ کو بولتے تھے تو وہ سین کے ساتھ، صاد کے ساتھ اور صاد میں زاء کے اشمام کے ساتھ بولتے تھے، چنانچہ اہل عرب کی ان مشکلات کا لحاظ کرتے ہوئے قرآن کریم کو مختلف اندازوں میں نازل کردیا گیا، جنہوں قراء کی اصطلاحات میں قراء ات کہا جاتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس اختلاف کو ہم قرآن مجید کی لغت کااختلا ف کہہ سکتے ہیں اور یہ اختلاف صرف ظاہر کے اعتبار سے ہے، آپ اس کو تنوع ہی سمجھئے۔ یہ قرآن مجید کی وسعت ہے کہ نبی کریم ﷺنے قبائل کے لئے اپنی اپنی زبان، اپنی اپنی طرزوں اور لہجوں کے اندر پڑھنے کی اجازت طلب کی۔ اس طرح یہ سات احرف نبی اکرمﷺکے زمانہ میں ہی تلاوت میں موجودتھے۔ بعد میں انہی سات حرفوں نے قراء توں اور روایتوں کی شکل اختیار کی۔ ہمارے ہاں پائی جانے والی قراء تیں انہی سات حروف سے اخذ ہوئی ہیں، جس طرح فقہاء میں سے بعض کی فقہ مرتب ہوئی ہے۔ ہمارے ہاں اہل سنت کے اندر چار امام اور شیعہ کے ہاں تین مکتبہ فکر پائے جاتے ہیں۔ اہل سنت میں سے چار اماموں نے بڑی شہرت پائی، جن میں امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل﷭ شامل ہیں اور شیعہ کے اندر جو تین مکتبہ فکر پائے جاتے ہیں، ان میں سے ایک امام جعفر صادق﷫ کی طرف نسبت کرتے ہیں اور اپنے آپ کو ’اثنا عشری‘ کہلاتے ہیں، دوسرے زین العابدین﷫ کی طرف نسبت کرتے ہیں اور اپنے آپ کو ’زیدی‘ کہلاتے ہیں اور تیسرے اسماعیل بن محمد باقر کی طرف اپنی نسبت کرتے ہوئے ’اسماعیلی‘ کہلاتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جس طرح پچھلے زمانوں میں مختلف اہل علم اور فقہاء زیادہ مشہور ہوگئے کہ لوگ ان کے پیچھے چلنے لگے، اسی طرح اہل علم میں سے کچھ لوگ قاری تھے، انہوں نے قرآن کو خاص انداز میں پڑھنے کا اہتمام کیا اور اس کے اندر یہی تنوع ملحوظ رکھا۔ ایک تو لغوی اختلاف کا میں ذکر کر چکا ہوں، دوسرا یہ ہے کہ اس کے اندر لہجوں کا اختلاف ہے، یہ اختلافات ملحوظ رکھ کے انہوں نے جب اپنی قراء ت وتلاوت کو منظم کیا تو یہ قراء تیں ان اماموں کی طرف منسوب ہوگئیں۔ اب چونکہ امام بہت ہیں، اس اعتبار سے جو ’سات اَحرف‘ تھے وہ اب ’سات‘ نہیں ر ہے،بلکہ قراء توں کی صورت میں ان کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ اب وہ قراء تیں جو تواتر سے ثابت ہیں دس ہیں اور پھر اس کے بعد ہر قاری کی آگے دودو روایتیں ہونے کی بناء پر بیس روایتیں متواتر سمجھی جاتی ہیں اور یہ شکل عشریٰ صغری کہلاتی ہے اور اگر ان بیس روایتوں کے ذیلی اختلافات کو بھی ملحوظ رکھیں تو یہ اسی (۸۰) طرق بن جاتے ہیں۔ اس لیے کہ ہر روایت کے ذیلی چار چار طرق ہیں، ان کو ’قراء ات عشرہ کبریٰ‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ دنیا میں اس وقت جو روایتیں متداول ہیں، وہ عشرہ صغریٰ بھی ہیں اور عشرہ کبریٰ بھی اور اہل علم ان کی لوگوں کو سندیں جاری کرتے ہیں۔ اس ضمن میں ہمارے ادارے نے بھی کوشش کی ہے کہ عشرہ کبریٰ کا اہتمام کیا جائے، اگرچہ ہم قبل ازیں عشرہ صغری کے فروغ کی کوششوں میں زیادہ جدوجہد کی وجہ سے زیادہ بھرپور انداز میں اس پر کام نہیں کر سکے، لیکن ہمارے کلِّیۃ القرآن میں اس کا اہتمام پایا جاتا رہا ہے اور مزید کام آگے بڑھ رہا ہے۔ اس سلسلہ میں جس طرح عشرہ صغری کے فروغ میں پہلے قاری محمد ابراہیم میرمحمدی﷾ نے ہمارے ساتھ تعاون کیا تھا، اب قراء ات عشرہ کبری کی تدریس اور فروغ کے سلسلہ میں قاری محمد ادریس العاصم﷾ ہمارے ساتھ تعاون بڑھا رہے ہیں اور ان کی زیر نگرانی اس سال کلیہ القرآن میں ہم قراء ات عشرہ صغری کے بعد آخری دوکلاسوں میں ’ قراء ات عشرہ کبری‘ کی تدریس مستقلاً شروع کر رہے ہیں۔
 
Top