• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مولاناحافظ عبدالرحمن مدنی﷾سے ملاقات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قرآن مجید کو کتابت یا الیکٹرانک ذریعے سے محفوظ کیا جائے یہ متبادل ذرائع ہیں۔ نبی اکرمﷺکے زمانے میں کتابت موجود تھی، لیکن کم تھی اس لیے نبی کریمﷺنے کتابت کا اہتمام تو کیا ہے، لیکن چونکہ قرآن مجید نبی کریمﷺکے زمانہ میں اتر رہا تھا، اس لیے تلاوت کی حد تک پورا قرآن مجید محفوظ تھا اور صحابہ کی بڑی تعداد جو اپنے آپ کو اہل قرآن بھی کہلاتے تھے اور انہیں قراء بھی کہا جاتا تھا، وہ نبی کریمﷺکے زمانہ میں موجود تھی۔ قرآن مجید کی کتابت کا اہتمام جنگ یمامہ میں قاریوں کی ایک بڑی جماعت کے شہید ہونے پر شروع ہواتھا۔ کتابت ایک متبادل ذریعہ ہے ورنہ قرآن مجید کی اصل حفاظت ’’بَلْ ہُوَ اٰیَاتٌ بَیِّنَاتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوْا الْعِلْمَ‘‘ سے ہوئی ہے،یعنی قرآن مجید کی اصل حفاظت صدری حفاظت ہے، پھر بعد میں قرآن مجید کی حفاظت صدری ذریعہ کی طرح کتابت سے بھی کی گئی۔ اسی طرح سنت کی حفاظت بھی صدری اور کتابی دونوں طرح سے ہوتی رہی ہے۔
قرآن مجید کی سب سے پہلی کتابی حفاظت حضرت ابوبکر﷜ کے زمانہ میں اس طرح ہوئی کہ مکمل قرآن مجید کو ایک جگہ محفوظ کیا گیا، جبکہ نبی کریمﷺکے زمانہ میں مکمل قرآن مجید کتابی صورت میں موجود نہیں تھا، بلکہ وہ ٹھیکریوں ، چھلکوں اور ہڈیوں پر لکھا جاتا تھا، ان سب کو ایک جگہ جمع کر کے محفوظ کرنے کا کام حضرت ابوبکر﷜نے سب سے پہلے کیا اور چونکہ یہ صفحات الگ الگ تھے اور حضرت عثمان﷜نے جب ان کو اکٹھا کیا تو انہوں نے اس کا ایک مصحف تیار کر لیا، چنانچہ حضرت ابو بکر﷜کے جمع کردہ کام کو’صحف ابی بکر‘ بولتے ہیں، جبکہ جمع عثمانی میں قرآن کریم چونکہ ایک جلد میں تھا، چنانچہ اسے ’مصحف‘ کا نام دیا گیا۔
اس لیے ترتیب قرآنی جس میں ’سورتوں‘ کی ترتیب بھی شامل ہے، حضرت عثمان﷜کے زمانہ میں ہوئی ، جبکہ سورتوں کی اندرونی ترتیب یعنی نظم آیات حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں مکمل ہوچکی تھی اور تلاوت کی صورت میں ’’بَلْ ہُوَ اٰیَاتٌ بَیِّنَاتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوْا الْعِلْمَ‘‘ میں موجود تھی۔ آج تک قرآن مجید کی اصل حفاظت صدری ہی ہورہی ہے اور تلفظ کی صورت میں قرآن مجید موجود ہے، جہاں تک اس کی کتابی حفاظت ہے وہ اضافی طور پر ساتھ چل رہی ہے اور یہ کام اسی طرح آگے بڑھتا رہے گا۔ ان شاء اللہ
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قرآن مجید کی چار روایتیں تو متداول صورت میں موجود ہیں اور وہ کتابت کی صورت میں طبع ہورہی ہیں۔ کتابی شکل میں قرآن مجید کی پہلی حفاظت تو حضرت ابوبکرصدیق﷜ اور حضرت عثمان ﷜ نے کی۔ چونکہ حضرت عثمان ﷜ کے زمانہ میں سبعۃ أحرف کو مکمل جمع کر لیاگیا تھا، اسی لیے انہیں جامع قرآن کہا جاتا ہے، تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ قرآن مجید کا نقش سب سے پہلے حضرت عثمان﷜ نے محفوظ کیا اور محفوظ کرنے کے بعد یہ اہتمام بھی شروع ہوا کہ اس کا رسم الخط کیا ہو؟ اس بارے میں آپ یاد رکھیں کہ یہ قریش کا رسم الخط تھا یہی وجہ ہے کہ حضرت عثمان ﷜ کے پاس یہی مسئلہ درپیش ہوا کہ اگر قرآن مجید کو لکھنے میں اختلاف ہوجائے تو پھر کس رسم الخط کو اصل بنایا جائے اور باقی رسم الخط تابع ہوجائیں، توحضرت عثمان﷜ نے کہا کہ اگر تمہارا آپس میں اختلاف ہوجائے تو’’فاکتبوہ بلغۃ قریش‘‘ ’’قریش کی لغت میں لکھو۔‘‘حضرت عثمان﷜ نے کہا تھا کہ قرآن مجید کا ابتدائی نزول چونکہ اصلا لغت قریش میں ہواتھا، چنانچہ کتابت میں بھی وہی لغت اصل ہونی چاہیے۔ تو حضرت عثمان ﷜نے اصل رسم الخط قریشی قرار دیا، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قریش کی لغت کے علاوہ باقی ساری لغتیں منسوخ ہوگئیں، جیسا کہ بعض لوگوں کو مغالطہ ہوا ہے۔ قرآن مجید کے اندر سبعۃ أحرف کی صورت میں باقی لغات بھی موجود ہیں، لیکن رسم الخط کے اندر اصل کتابت قریش کے رسم الخط کو دی کو دی گئی ہے اور صرف قریش کے رسم الخط کو ہی نہیں، بلکہ نبی اکرمﷺ کے زمانہ میں جو کتابت تھی اس کو سامنے رکھا گیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
نبی کریمﷺ کے زمانہ میں کتابت کرنے والے بہت سے لوگ تھے اور ان میں سے ایک جلیل القدر صحابی زید بن ثابت﷜ بھی تھے، وہ مسلسل نبی کریمﷺکے زمانے سے لے کر حضرت ابوبکر صدیق ﷜اور حضرت عثمان﷜کے زمانہ میں بھی کمیٹی کے اندر سرکردہ رکن کی حیثیت سے شامل رہے ہیں۔ ان کوانصاری ہونے کے باوجود خاص طور پر تلقین کی گئی کہ قریشی رسم الخط کا اہتمام کریں۔
میں یہاں ایک نقطہ واضح کیے دیتا ہوں، جس میں بعض لوگوں کااختلاف ہوتا ہے، تاکہ اس کی کوئی وجہ آپ کے سامنے آجائے۔ حضرت عثمان﷜نے جب قرآن مجید کے تمام متنوع احرف کو جمع کر دیا اور قریش کے رسم الخط کو بنیاد بنایا اور انہوں نے جو قرآن مجید لکھوائے اس کے بارے میں ابوعمرو دانی﷫ کہتے ہیں کہ یہ چار نسخے تھے، جبکہ ہمارے ہاں عام طور پر یہ مشہور ہے کہ وہ آٹھ نسخے تھے۔ میرے نزدیک اس کی صحیح توجیہ یہ ہے کہ قرآن مجید کے آٹھ نسخے جب حضرت عثمان﷜نے لکھوائے توان نسخوں میں سبعۃ أحرف کے اندر الفاظ کی بھی کچھ کمی بیشی کی تھی، مثلاً بعض نسخوں میں’واؤ‘ اور’ف‘ ہے، جبکہ بعض نسخوں میں نہیں یہ حروف نہیں ہیں۔یہ فرق اصل میں سبعۃ أحرف میں موجود ہے۔ حضرت عثمان﷜ نے جو چار نسخے لکھوائے تھے، ان میں تلاوت کا اختلاف تو موجو دتھا، لیکن دنیا میں جو نسخے بھیجے گئے وہ آٹھ تھے ۔ گویا ہم تنوع کو دیکھیں توچار نسخے بنتے ہیں اور ترسیل آٹھ نسخوں کی ہوئی ہے۔ یہ ایک توجیہ ہے جو ہم نے آپ کے سامنے رکھ دی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حضرت عثمان﷜نے بہر صورت اس کااہتمام کیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ اس وقت دنیا میں جو متنوع قراء تیں پائی جاتی ہیں ان کے اندر الفاظ کی کمی موجود ہے، اگرچہ وہ ’ف‘ اور ’واؤ‘ کی ہو یا جس طرح حروف کو لمبا یا چھوٹا کرنا جسے صلہ وعدم صلہ کہتے ہیں کی قسم کی کمی بیشی ہو۔ آپ اس طرح کے اختلاف سے متوحش نہ ہوں کیونکہ خود زبر، زیر اور پیش الف، یا اور واؤ کا نصف کہلاتے ہیں،یعنی پیش نصف واؤ، زبر نصف الف اور زیر نصف یا ہے۔ اس لیے اگر آپ زبر، زیر اور پیش کو مانتے ہیں تو کچھ لمبا کرنے سے اگر صلہ پیدا ہوجاتا ہے تو یہ لہجہ وطرز کا اختلاف ہے۔ پھریہ بھی نوٹ کریں کہ حرکات کے جس فرق سے قراء توں کے ضمن میں ہم پریشان ہوجاتے ہیں وہ ایک روایت حفص ہی کے اندر بھی موجود ہے: ’’اﷲُ الَّذِی خَلَقَکُمْ مِنْ ضُعْفٍ‘‘اور ’’اﷲ ُالَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِنْ ضَعْفٍ‘‘
اس کامطلب یہ ہے کہ زبر اور پیش کا فرق تو آپ کو ماننا پڑے گا، تو جب آپ نے یہ مان لیا تو پھر الف اور واؤ کا فرق بھی مان لیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ بالکل تنوع ہے ہی نہیں، غلط بات ہے۔ تنوع تو روایت حفص میں بھی موجود ہے۔ تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ تنوع ہے اور تنوع کے وہی فوائد ہیں جو اَئمہ کی علمی آراء کے فوائد ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ کسی مسئلے کے تمام پہلو ہمارے سامنے آجاتے ہیں۔ اسی طرح قرآن مجید کی تلاوت کی تمام شکلیں ہمارے سامنے آجانے سے اور بلاغت کے متعدد اسالیب میں آجانے سے مخاطبین قرآن کے لیے قرآن فہمی آسان ہوجاتی ہے۔ الغرض جس طرح فقہ کا تنوع مفید ہے، اسی طرح قراء توں کا تنوع بھی بڑی مفید چیز ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
آپ نے سوال کیا تھا کہ ’موسوعہ قراء ات‘ کیا چیز ہے؟ حضرت عثمان﷜ کا قرآن کو جمع کرنا تو سبعۃ أحرف کو جمع کرناتھا، لیکن سبعۃ أَحرف کتابی صورت میں تو عثمانی رسم الخط کے اندر محفوظ ہوگئے ہیں، جبکہ صدری صورت میں قاریوں کے ذریعہ سے منقول چلے آتے ہیں۔ جو روایت صدری صورت میں چلی آرہی ہے، اس میں ہمارے پاس دس قراء تیں ہیں، جن کی بیس(۲۰) روایتیں قراء ات عشرہ صغری میں ہیں اور اسی(۸۰) قراء ات عشرہ کبریٰ میں۔ اس کے علاوہ بھی قراء تیں موجود ہیں، لیکن جس طرح مشہور آئمہ کے اَقوال ہمارے ہاں پائے جاتے ہیں اور بہت سے اَقوال شاذ اور نادر کہلاتے ہیں، اسی طرح کئی قراء تیں بھی شاذ و نادر کہلاتی ہیں،ان قراء توں کے بارے میں اہل علم کا فتویٰ یہ ہے کہ کیونکہ یہ شاذ قراء تیں ہیں اور تواتر سے ثابت نہیں، اس لیے نماز میں ان کی تلاوت نہیں کی جائے گی، البتہ جو تواتر سے ثابت ہے ان کی نماز میں تلاوت کی جائے گی۔
ہمارا ’موسوعہ قرآنیہ‘ کا کام حضرت عثمان﷜ کے جمع ثالث کے بعد جمع رابع کی صورت میں کام کو آگے بڑھاناہے۔ اس سلسلے میں جمہوریہ مصر کے ممتاز محقق قراء ات ڈاکٹرلبیب السعید﷫نے کئی سال قبل توجہ دلائی تھی کہ قرآن مجید کی کتابت کی طرح اس کی صدری روایت کو بطور اداء کے ریکارڈنگ کی صورت میں محفوظ کرلینا چاہیے۔ ان کے اس فکر کو اہمیت دیتے ہوئے کئی اداروں نے کام کیا ۔ اگرچہ ابتداء ًشیخ الازہر نے تو اس کی مخالفت کی تھی، لیکن الحمدللہ علمی کام مخالفت کے باوجود آگے بڑھتا رہا۔ آج مصر کے اندر جامعہ ازہر ہی میں ایک لجنۃ مراجعۃ المصاحف بھی ہے، وہ برابر مطبوع اور مُسَجَّل مصاحف کی مراجعت کا کام بھی کرتی ہے اور قراء توں کی مراجعت کا کام بھی ۔ اس وقت تک قرآن مجید کے صوتی جمع کی صورت میں جو کام ہوچکا ہے، اس میں کچھ کام تو اذاعۃ القرآن، ریاض اور مدینہ منورہ کے کلِّیۃ القرآن مل کر کیا تھا۔ دوسرا کام مروّج ومتداول قراء ات کی ریکارڈنگ کے سلسلہ میں مجمّع ملک فھد نے کیا۔ مجمع نے قاری ابراہیم میرمحمدی﷾ کی آواز میں امام ورش﷫ کی روایت ریکارڈ کی، جو اگرچہ پوری نہ ہوسکی،
اسی طرح مسجد نبوی کے امام الشیخ علی عبدالرحمن حذیفی﷾کی آواز میں امام قالون﷫کی روایت کی ریکارڈنگ مکمل ہوچکی ہے۔ روایت حفص میں تین قاریوں کا مکمل قرآن ریکارڈ کیا گیا ہے، جس میں ڈاکٹر قاری ایوب برماوی﷾، الشیخ قاری ابراہیم اخضر﷾ اور قاری عبدالرحمن حذیفی﷾شامل ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مختلف روایتوں میں ریکارڈنگ کے علاوہ مجمّع ملک فہد ابھی تک چار متعدد روایات میں مصاحف کی اشاعت بھی کر چکا ہے۔ اگرچہ اس کام میں ہم بعد میں شامل ہونے والے ہیں، لیکن اسے مزید آگے بڑھا رہے ہیں۔ اس سے پہلے میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ سوڈان بھی دو روایتوں کی طباعت کے سلسلہ میں اپنا کام کرچکا ہے ۔ ہمارا کام جامعہ لاہور الاسلامیہ کے کلِّیۃ القرآن اور کویت کے عالمی ادارے ’حامل المسک‘ کا باہمی تعاون ہے، جسم میں اولا تو بیس روایات کی ریکارڈنگ کا پروجیکٹ زیر تکمیل ہے۔ ہم کوشش کرر ہے ہیں کہ وہ تمام علوم جو کلِّیۃ القرآن کے اندر اضافی طور پرپڑھائے جاتے ہیں، جس کے اندر علم ضبط، علم الفواصل،علم القرء ات، علم الرسم اور علم الوقف وغیرہ جیسے علوم شامل ہیں، ان تمام کو عملی شکل میں ریکارڈ کروائیں۔ ہماری اس وقت ترجیح یہ ہے کہ صوتی صورت میں قرآن مجید کی ریکارڈنگ مکمل ہوجائے۔ اس سلسلے میں ہمارا کلِّیۃ القرآن جو کام کررہا ہے، اس نے ایک کمیٹی بنائی ہے، جس کے تحت ڈاکٹر حمزہ مدنی اس وقت تک ابوالحارث عن الکسائی، دوری عن الکسائی ، ادریس عن خلف العاشر اور اسحاق عن خلف العاشر ان چار روایتوں میں مکمل قرآن مجید ریکارڈ کروا چکے ہیں، جبکہ باقی سولہ روایات میں ریکارڈنگ کا سلسلہ جاری ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مجلس التحقیق الاسلامی، لاہور نے کلِّیۃ القرآن میں ایک کمیٹی بنارکھی ہے، جو اس ریکارڈنگ کی مکمل مراجعت کرتی ہے اور اس کے بعد یہ کام نشر ہوتا ہے۔ اب تک جو کچھ نشر ہوا، اس میں بطور نمونہ مختلف قراء توں میں ریکارڈ شدہ تیسواں پارہ نشر ہوا۔ اس کے بعد پورا قرآن مجید بیس روایتوں میں ڈاکٹر حمزہ مدنی کی آواز میں نشر ہوا، جو کیسٹوں اور سی ڈیز کی شکل میں موجود ہے۔ مذکورہ چار روایتوں کی مراجعت کلِّیۃ القرآن تو کر ہی رہا ہے لیکن ہماری خواہش ہے کہ مصر کی ’لجنۃ مراجعۃ المصاحف‘ سے بھی ہم اس کی مراجعت کروائیں۔ اس سلسلے میں تسجیلات حامل المسک ان سے رابطہ کیے ہوئے ہے، اس طرح کام آگے بڑھے گا تو اس میں مزید علمی وتحقیقی معیار پیدا ہوجائے گا۔ اس طرح ہمارا ریکارڈنگ کا کام ڈاکٹر حمزہ مدنی کے ذریعہ سے آگے بڑھ رہا ہے اور ہماری کوشش یہ ہے کہ ان بیس روایتوں کی ریکارڈنگ میں حمزہ صاحب کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی شامل ہوجائیں، تاکہ یہ کام جلد پورا ہوسکے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
’موسوعہ قراء ات‘ کے ضمن میں جمع صوتی کاکام تو میں نے آپ کے سامنے ذکر کر دیا ہے ۔ اب کچھ بات جمع کتابی کے حوالے سے بھی کر لیتے ہیں۔جہاں ہم قرآن کریم کی صوتی جمع کی کوششوں میں شریک ہیں وہیں ہمارا ارادہ یہ ہے کہ اللہ توفیق دے اور ہم کتابی صورت میں بھی روایت حفص کی مثل دیگر بیس قراء ات میں قرآن کریم طبع کروا کر اہل علم کے سامنے لے آئیں۔ یہ کام بھی کلِّیۃ القرآن اور کویت کے ادارے لجنۃ الزکاۃ للشامیۃ والشویخ کے تعاون سے عرصہ تین سال سے جاری ہے۔ اس کا خیال ابتداء وہاں سے پیدا ہوا کہ جب قرآن مجید کی مختلف مصاحف کی بعض نمائشیں دیکھی گئیں تو اندازہ ہوا کہ لوگ تو قرآن مجید کی خطاطی کے مختلف اندازوں کے اظہار کے لیے متعدد قدیم وجدید نسخے نمائشوں میں پیش کرتے ہیں اور قرآن مجید کے نسخوں کے ضمن میں علمی سطح کی نمائشیں اس لیے منعقد نہیں ہوتیں کیونکہ علمی سطح پر قرآن مجید کی طباعت کا کام ہی بہت محدود سطح پر ہوا ہے۔ چنانچہ احساس پیدا ہوا کہ اللہ کی توفیق سے متعدد غیر متداول قراء ات میں قرآن مجید کی طباعت ہونی چاہیے اور قرآن کے سلسلہ میں علمی اشیاء منظر عام پر لانی چاہییں۔ اس ضمن میں جو پروگرام بنایا گیا اس کا رمزی نام ’جمع کتابی‘ تجویز کیا گیا۔ جمع کتابی کے سلسلے میں تاحال دنیا میں رائج چار متعدد روایات میں قرآن مطبوع ہیں، ہم نے ارادہ کیا ہے کہ جس طرح بیس روایتوں میں قرآن مبین ریکارڈ ہورہاہے، اسی طرح بیس روایتوں کے مصاحف چھپ کر نشر بھی ہوں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قرآن کریم کی جمع کتابی کے لیے ہم پچھلے دو تین سالوں میں کلِّیۃ القرآن کے فضلاء پر مشتمل دس بارہ افراد کی ایک کمیٹی تشکیل دی تھی، جس نے تقریباً ڈھائی، تین سال سے عملی طور اس کام کو کام کو شروع کررکھا تھا۔ الحمد للہ یہ کام ایک سال قبل پورا ہوچکا اور ہم نے جن مصاحف کو مکمل کیاہے ان میں سے ہر مصحف کی سات دفعہ مراجعت بھی اس ٹیم سے کروا چکے ہیں۔ آج کل یہ کام کمپوزنگ وغیرہ کے مرحلہ میں ہے اور جیسے جیسے یہ کام تکمیل کی طرف بڑھتا رہیگا ویسے ویسے اس کا تعارف بھی ہم کرواتے رہیں گے۔ اس سلسلے میں ہمارے کام کو فائنل کرنے میں ہمارا ازہر شریف کی ’لجنۃ مراجعۃ المصاحف‘ سے معاہدہ ہے، جس کی تقریبا تیرہ رکنی کمیٹی اس کام کی مراجعت ِنہائیہ کرے گی اور اس کے بعد یہ کام کویت کی طرف سے طبع ہوکر منظر عام پر آجائے گا۔ مزید برآں جس طرح بیس مصاحف کی علمی تیاری اور اس کی ابتدائی مراجعات کا کام دس بارہ افراد پر مشتمل ٹیم نے پاکستان میں مکمل کیا تھا، اسی طرح کمپیوٹر پر اس کام کے پورا ہونے پر اس کام کی پروف ریڈنگ کا کام بھی ہم ہی کریں گے۔
یہ تو ہے اداروں کی تفصیلی صورتحال، خلاصے کے طور پر میں ایک بار پھر ذکر کیے دیتاہوں کہ ایک کام تو ’کلِّیۃ القرآن‘ اور ’اذاعۃ القرآن‘کا ریکارڈنگ کے سلسلے میں ہے اور ایک کام ’مجمع ملک فہد‘کا ہے، جو انہوں نے متداول روایتوں کی ریکارڈنگ اورطباعت کے سلسلہ میں کیا ہے۔ ان روایات میں سے دو پر کام سوڈان کے ایک ادارہ نے بھی کیا ہے۔ اسی طرح ہمارا کلِّیۃ القرآن کا کام حامل المسک کے ساتھ مل کر انہی خطوط پر آگے بڑھ رہا ہے ، جس میں طباعت اور صوتی ریکارڈنگ کاکام شامل ہے۔یہ خلاصہ میں نے آپ کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ مزید تفصیل قاری فہداللہ کے لکھے گئے مضمون میں آپ ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رشد: ’رشد‘ نکالنے کا پس منظر کیا تھا اور ادارہ رشد کی قراء ات نمبر جیسی منفرد کاوش کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
مولانا: ہم نے جب جامعہ کا کام دعوتی انداز میں آگے بڑھانے کا سوچا، تو میں نے سوچا کہ ہم علمی کام تو مجلس التحقیق الاسلامی، لاہور کی طرف سے کررہے ہیں اور چونکہ جامعہ کا تعلق عوام سے ہوتاہے اس میں عوامی لوگ پڑھنے آتے ہیں، اس لیے عوام میں جامعہ کاتعارف ہونا چاہیے۔ ابتداء میں میں نے سوچا تھا کہ ایک ہفت روزہ رسالہ نکالا جائے، جو جامعہ کی سرگرمیوں سے متعلق ہو ۔ ’رشد‘ کا ڈیکلیئریشن اسی غرض سے لیا گیا تھاکہ جامعہ کی خبریں اس میں شائع ہوں۔یہ کام جامعہ کی خبروں کی صورت میں جامعہ کے اندر تو ہم کرتے رہے، لیکن اس کو باہر پھیلانے کے سلسلے میں ہماراکام زیادہ منظم نہ ہوسکا، موقع بموقع ایسے حالات پیدا ہوتے رہے کہ جامعہ کے طلباء واساتذہ کی توجہ سے’رشد‘ کی اشاعت ہوتی رہی اور یہ جامعہ سے باہر بھی بھیجا جانے لگا، لیکن اس کی باقاعدہ اور باضابطہ ترسیل کی کوئی شکل نہ تھی۔
پھرڈاکٹر حافظ حسن مدنی سے چھوٹے بیٹے حافظ انس مدنی نے کہاکہ میں ’رشد‘ کو جامعہ کے نمائندے کی حیثیت سے باقاعدہ نکالنا چاہتا ہوں ۔ انہوں نے اس کی رجسٹریشن ترسیل کے لیے بھی کروا لی تو پھر ہم نے اسے باضابطہ ماہوار کر لیا۔ اس سے پہلے اس کازیادہ تعلق جامعہ کی خبروں سے تھا، لہٰذا موقع بموقع ہم اس کوہفتہ وار، ماہوار اور سہ ماہی نکالتے رہے، لیکن اس کی باقاعدہ ترسیل چندسال پہلے شروع ہوئی اور جامعہ لاہور الاسلامیہ، لاہور کے آرگن کے طور پر یہ اس طرح شائع ہونا شروع ہوا کہ اس میں جامعہ کے زیر تعلیم طلباء بھی مضمون لکھتے ہیں اور فضلاء و اساتذہ بھی لکھتے ہیں، جبکہ بعض مضمون باہر والے لوگوں کی طرف سے بھی آجاتے ہیں۔جس طرح جامعہ کے تحقیقی ادارے مجلس التحقیق الاسلامی کی طرف’محدث‘ عرصہ درازسے نکل رہا ہے، اسی طرح ’رشد‘ نے بھی ’محدث‘ کی سابقہ پوزیشن کے انداز پر کام شروع کیا ہے۔ اس میں جامعہ کی سطح پر خبریں بھی شائع ہوتی ہیں، جبکہ محدث میں ہم نے یہ طریقہ کار اختیار نہیں کیا، سوائے اس کے کہ کوئی خاص موقع ہو تو جامعہ کی خبر’محدث‘ میں آجاتی ہے۔
 
Top