• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مولاناحافظ عبدالرحمن مدنی﷾سے ملاقات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
باقی رہا کہ رشد کا قراء ات نمبر تو اس ضمن میں کچھ باتوں کی وضاحت ہوجانی چاہیے۔ رشد میں جامعہ کی خبریں دینے کا ایک معنی تو یہ ہے کہ اس میں جامعہ کی معمولات کے اُمور پیش کردیے جائیں اور ایک انداز یہ بھی ہے کہ جامعہ کا جو علمی کام ہے یا جو کچھ جامعہ تیارکررہا ہے، وہ تیارشدہ کام سامنے آئے۔ تو جب جامعہ کے فارغ التحصیل یا جامعہ کے اساتذہ کے مضامین سامنے آئیں گے تو اس کا مطلب ہے کہ جامعہ میں جو کھیپ کام کررہی ہے، یہ ان کے افکار کا ایک تعارف ہے۔ جامعہ میں کلِّیۃ القرآن کی کاوش ابتداء پاکستان بھر میں اپنی نوعیت کی ایک یکتا کوشش تھی کہ اس انداز کا کام پورے پاکستان میں موجود نہیں تھا۔ اگرچہ کلِّیۃ القرآن اب کئی اور جگہوں پر بھی کھل گئے ہیں، جو اچھا کام کررہے ہیں اور ان میں مسابقت کی فضاء پائی جاتی ہے، لیکن جب یہ کلِّیۃ القرآن کھلا تھا تو اپنے طور پر یہ ایک یکتا کام تھا۔ قرآنی علوم، جن میں علم القراء ات، علم الضبط، علم الفواصل، علم الوقف اور علم الرسم وغیرہ شامل ہیں،ان سے ابھی تک عوام متعارف نہیں ہیں، یہاں تک کہ علمی حلقے بھی اس سے پوری طرح متعارف نہیں ہیں، توہم نے سوچا کہ ان علوم کو اور ان سے متعلقہ کلیہ کوعلمی حلقوں میں متعارف کروایا جائے۔ نیز عوام کے اندر تنوع قراء ات کے بارے میں جو شبہات پائے جاتے ہیں، ان کا ازالہ بھی ہونا چاہیے اور دنیا میں قرآن کریم پر جو کام ہورہے ہیں ان کا تعارف بھی کروایا جائے، اس قسم کے اغراض ومقاصد کے پیش نظر ہم نے ارادہ کیا کہ جامعہ کے کلیہ القرآن کی طرف سے’رشد‘ کا ایک قراء ات نمبر نکالا جائے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
یہ قراء ات نمبر کلِّیۃ القرآن اور مجلس التحقیق الاسلامی، لاہور کے تعاون سے سامنے آرہا ہے ۔ اتفاق ایسا ہے کہ عرصہ دو تین سال سے ڈاکٹر حمزہ مدنی سلمہ مجلس التحقیق الاسلامی کے ناظم اور کلِّیۃ القرآن کے مدیر کے طور پر کام کررہے ہیں۔ انہوں نے بھرپور محنتوں اور کوششوں سے یہ پروگرام بنا یا ہے۔ ابتداء میں یہ ایک محدود پروگرام تھا جو بعد ازاں پھیل گیا۔ اب یہ نمبر تین ضخیم جلدوں میں منظر عام پر آرہا ہے۔ اس قراء ات نمبر میں جو چیزیں اوپر میں نے ذکر کی ہیں تمام کی تمام موجود ہیں۔ جب علماء کرام ان علوم سے متعارف ہوں گے تو عوام کو بھی متعارف کرانا آسان ہوجائے گا، لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ پہلی کوشش ہے جو علماء کی حد تک کامیاب رہے گی اور عوام کی حد تک جو کوششیں زیادہ کامیاب ہوسکتی ہیں وہ محافل قراء ات ہیں۔ اصل میں کوئی بھی چیز اس وقت ہی عوامی بنتی ہے، جب اس کی اشاعت کا سلسلہ بہت زیادہ ہوجائے۔ ابھی جو ’رشد‘کی اشاعت خاص ہے، علماء کی حد تک اُمید ہے کہ کامیاب ہوجائے گی۔ علماء میں بھی مختلف میدانوں میں کام کرنے والے لوگ ہیں اور وہ اپنے اپنے میدان سے تو واقف ہوتے ہیں، لیکن قرآن مجید سے متعلقہ علوم سے واقف نہیں ہوتے تو ہم یہ چاہتے ہیں کہ قرآن مجید سے متعلقہ علوم سے بھی ان کو متعارف کرایا جائے۔ میرے لیے انتہائی خوشی کی بات یہ ہے کہ اس خاص نمبر میں لکھنے والے تقریباً اسی فیصد مضمون نگار جامعہ کے فضلاء ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جامعہ کی ایک بہت بڑی کاوش لوگوں کے سامنے آئے گی کہ ہمارے جامعہ نے کیسے لوگ تیار کر رکھے ہیں اور وہ اپنے مقاصد سے کس حد تک واقف ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رشد: اس سلسلے میں طلباء کی تیاری کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
مولانا:جہاں تک طلباء کی تیاری کا تعلق ہے، تو یہ کسی رسالے کے ساتھ اس طرح نہیں ہوتی۔ ایک تو ہوتا ہے کہ طلباء کو مضامین کی تیاری کی مشق کروائی جائے ۔ یہ مقصود تو کسی رسالے سے پورا ہو ہی نہیں سکتا، کیونکہ طباعت صرف ان چیزوں کی ہوتی ہے جو ایک معیار پرہوں، لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ جولوگ اس میدان میں اہل قلم بن کر آگئے ہیں، ان کی مزید بہتری اور ترقی کے لیے ’رشد‘ ممدومعاون ہے۔ ویسے کوئی مجلہ اس غرض سے شائع کرنا کہ اس سے طلباء کی تیاری ہوجائے گی ایسا تو ممکن ہی نہیں ہے۔ طباعت کے اخراجات ہی اس قدر زیادہ ہوتے ہیں کہ ان کو اس غرض سے برداشت ہی نہیں کیا جا سکتا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رشد: ’رشد‘پہلے تو ’جامعہ لاہور الاسلامیہ‘ کا ترجمان تھا، لیکن اب ہمارا احساس ہے کہ اسے تمام مدارس اور ہر مسلک کا ترجمان بنایا جانا چاہیے۔ آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے۔
مولانا:میری رائے یہ ہے کہ ہمیں اسلام کا نمائندہ بننا چاہیے، اس وقت اصل ضرورت اسلام کی نمائندگی کی ہے ۔ اپنے مسلک کی نمائندگی یا اپنے مسلک کی ترویج واشاعت کے لیے لوگ کام کررہے ہیں۔ کوئی شخص آئمہ اربعہ کاتعارف کرواتا ہے یا ایک فقہ کا پابند ہوجاتا ہے تو ہم اس کی حوصلہ شکنی نہیں کرتے، اسی طرح ہم کسی مسلک کی حوصلہ شکنی نہیں کرنا چاہتے، اس لیے میری سوچ یہ ہے کہ ہمیں اسلام کا نمائندہ بن کر کام کرنا چاہیے۔ اگر یہ دینی مدارس کا ترجمان بنے گا تو میری خواہش ہوگی کہ تمام دینی مدارس کاترجمان بنے، بلکہ صحیح الفاظ میں میں یہ کہوں گا کہ اس کا مقصد دین اسلام کی ترجمانی ہونا چاہیے اور اسی نقطہ نظر سے ہم اسے آگے بڑھائیں۔ باقی جہاں تک اس کی اشاعت کا تعلق ہے تو اشاعت تو حالات کے مطابق ہوتی ہے۔ ہمیں سب سے پہلے جامعہ کا تعارف کرانے کے لیے خود اپنے جامعہ کے متعلقین کے اندر ضررورت تھی، ہم وہاں تک بھی کام کرتے رہے، حتی کہ ایسا بھی ہوتا رہا کہ’محدث‘ جامعہ کے مختلف اداروں کی رپورٹوں کے لیے کام کرتا رہا، پھر ایک وقت آیا کہ ہم نے اسے عوام میں متعارف کرانا شروع کر دیا۔ اب اگر اس کی ترسیل عوامی ہورہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ عوامی ترجمان بن رہا ہے اور عوام کو منظم کررہا ہے۔ بہرحال رشد کی قراء ات نمبر کے سلسلے میں کاوش ایک اچھوتی کوشش ہے۔ اگرچہ ’قرآن نمبر‘ تو متعدد رسالوں نے ایک سو کے قریب نکالے ہیں، لیکن قراء ات کے تعارف میں کتابیں تو موجود ہیں، لیکن اس موضوع پر مجلہ یا جریدہ شائد پہلی دفعہ منظر عام پر آرہاہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رشد: رشد کی بہتری کے لیے آپ کیا تجاویز دینا چاہیں گے؟
مولانا: دنیا میں ہر چیز کی انتہاء ہے، لیکن کمال کی انتہاء نہیںہوتی۔ اس لیے کسی کام کے لیے میں یہی خوبی سمجھتا ہوں کہ اس کا ہر قدم آگے بڑھ رہا ہو۔ اس لیے میرے نزدیک ’ رشد‘ کے لیے یہی بات کافی ہے کہ اس کا ہرقدم آگے بڑھ رہا ہے اور یہ برابر ترقی کرتا جا رہا ہے اور اس کا ہر شمارہ پہلے شمارے سے بہتر ہوتا ہے۔ نقش ثانی نقش اول سے بہتر ہوتا ہے، اس لیے یہ وقت کانٹ چھانٹ کا نہیں ہے، اس لیے کہ پودے جب بڑھ جاتے ہیں تو ان کی کانٹ چھانٹ کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ابھی تو اس کے پھیلنے کا وقت ہے، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ جو کام بھی ہورہا ہے وہ بڑا قابل قدر ہے اور میں اپنے ساتھیوںاور عزیزوں کو اس سلسلے میں مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ ان کی کوششیں بڑی کامیاب ہیں اور دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں کو بارآور کرے۔ آمین
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رشد: قراء ات کے طلباء کے نام اگر آپ کوئی پیغام دینا چاہیں تو!
مولانا: ہمیشہ قوت اپنے اصل کے ساتھ ہوتی ہے ۔ عام طور پر سائنسی ایجادات میں بعد میں آنے والی چیز پہلے سے بہتر ہوتی ہے لیکن ہمارا دین محمد رسول اللہﷺ کی ذات ہے اور نبی کریم ہی اسوہ کامل اور نمونہ ہیں۔ اس لیے قرآن مجید کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس کو اس طرف لے جائیں جس طرح نبی کریمﷺکے زمانہ میں قرآن مجید پڑھا جاتا تھا ۔ آپﷺنے بھی حکم یہی دیا ہے کہ ان عربی لہجوں میں پڑھو جو رسول اللہﷺکے زمانے کے عربی لہجے تھے۔ مجھے افراط اور تفریط کی دونوں راہیں ذکر کر کے آپ کو بتاناہے کہ صحیح راہ کیا ہے۔ ایک تو اس میں تفریط کی راہ یہ ہے کہ اتنی زیادہ بے احتیاطی سے کام لیا جائے کہ قرآن مجید مخارج اوراس کی صفات کا لحاظ ہی نہ رکھا جائے۔ قرآن مجید میں لحن کی ایسی غلطی اہل علم کے لیے تو گوارہ نہیں ہونی چاہیے۔ نبی کریمﷺنے عوام کے اعتبار سے تو اس میں کسی حد تک چھوٹ دی ہے۔میں یہ نہیں کہتا کہ جو شخص تجوید کے ساتھ قرآن نہیں پڑھتا اس کا قرآن قرآن نہیں ہے۔حضور نبی کریمﷺنے قرآن مجید کے اندر یہ رعایت رکھی ہے کہ جو قرآن مجید کو مشکل سے پڑھتاہے، اس کا پڑھنا اس کے لیے کافی ہے، لیکن اہل علم میں اتنی کمزوری نہیں ہونی چاہیے کہ وہ تجوید کا اہتمام نہ کریں۔ یہ تو ایک پہلو ہے، اب دوسرا پہلو قراء سے متعلقہ ہے کہ تجوید کے اہتمام کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کی اصل عنایت خشوع اور خضوع ہے۔ قرآن مجید کے خشوع اور خضوع کو جتنا بڑھایا جا سکتا ہے بڑھایا جائے، لیکن خشوع اور خضوع کے ساتھ اگرچہ نبی کریمﷺنے حسن صوت کے ساتھ پڑھنے کو ترجیح دی ہے لیکن آواز کے اندر ایک ہوتا ہے تصنع اور ایک ہوتا ہے آواز کے اندر بے تکلفانہ حسن، چونکہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
’’وَمَا أنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِیْنَ‘‘
’’میں تکلف کرنے والوں سے نہیں ہوں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
توآپﷺنے تکلف کو پسند نہیں کیا۔ قرآن مجید میں تجوید وقراء ات کے اہتمام کے ساتھ ساتھ خشوع وخضوع کو ملحوظ رکھنا ازحد ضروری ہے، لیکن اس میں افراط وتفریط اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ قرآن مجید کی موسیقی کے قواعد کے مطابق ترتیل کی جانے لگی ہے اور تلاوت میں بھی موسیقی کا سا اُتار چڑھاؤ، جس میں ایکوسسٹم اور لاؤڈ سپیکر کا استعمال کیا جاتا ہے، اسی طرح آوازوں میں اتار چڑھاؤ پیدا کرنے کے لیے ہاتھوں کا بھی استعمال کیا جاتاہے۔ یہ چیز اگر تکلف کی حد تک بڑھ جائے تو مجھے خدشہ ہے کہ نبی کریمﷺکا یہ ارشاد ایسے لوگوں پر صادق آجائے، جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ ’’ایسے لوگ آئیں گے جو قرآن مجید کو تیروں کی طرح تیکھا کر کے پڑھیں گے۔‘‘اس میں غالباً آپ کی مراد یہی ہے کہ قرآن مجید میں تصنع بڑھ جائے گا اور اس کا قدرتی خشوع وخضوع متاثر ہوگا، تو جس میں تصنع بڑھ جائے ایسی صورت سے بچنا چاہیے۔ قراء ات کے طلباء کو میں خصوصاً یہ تلقین کرنا چاہوں گا کہ ان کے اندر تصنع کے بجائے خشوع وخضوع زیادہ ہونا چاہیے اور یہی قرآن مجید کی فطری صورت ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ چونکہ نبی کریمﷺنے اجازت دی اور عام طور پر قراء ت کے طلباء جماعت بھی کرواتے ہیں تو ان کے ہاں صورتحال یہ بن گئی ہے کہ اچھی آواز والا شخص اپنے آپ کو کچھ سمجھنے لگتا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ قاریوں کے اندر نخوت سب سے پہلے پیدا ہوجاتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کے اندر آواز ہی سب کچھ ہے، اس کے علاوہ کسی چیز کی اہمیت نہیں ہے۔ یہ نخوت قرآن مجید کے ساتھ لگا نہیں کھاتی اس لیے کہ نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے:
’’إن اﷲ یرفع بہذا الکتاب ویضع بہ ٰاخرین‘‘
’’ اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ساتھ کچھ قوموں کو بلندی عطا کرتا ہے اور کچھ کو گراتا ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ایسا نہ ہو کہ قرآن مجید کا مقصد نظر انداز کر کے ہم گر جائیں۔ اسی طرح نبی کریمﷺنے فرمایا کہ انسان تواضع اختیار کرے اور ساتھ آپﷺنے فرمایا کوئی آدمی دوسرے پر سرکشی نہ کرے، تو قاری حضرات کو ان چیزوں کو خصوصی طور پر ملحوظ رکھنا چاہیے۔ اس کے علاوہ قاری حضرات کا یہ جو جذبہ ہوتا ہے کہ ہماری زیادہ خدمت کی جائے، یہ بہر صورت کوئی اچھا جذبہ نہیں ہے۔ آپ قرآن مجید کو اس کی خدمت کے جذبہ سے پڑھیں اور اس کے لیے پیسوں کا لالچ نہ کریں۔ نبی کریمﷺنے اپنے ارشاد میں جہاں فرمایا ہے کہ ’’ایسے لوگ آئیں گے جو قرآن مجید کو تیکھا کر کے پڑھیں گے‘‘، وہاں آپﷺنے یہ بھی فرمایا کہ ’’وہ دنیا کے طالب ہوں گے۔‘‘ اس لیے قرآن مجید کے طالب میں دنیا کی طلب نہیں ہونی چاہیے۔ نبی کریمﷺنے فرمایا:
’’جہنم کی آگ جن لوگوں سے بھڑکائی جائے گی، ان میں سے ایک وہ قاری ہوگا جس نے قرآن ریا کے لیے پڑھا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس لیے میں اس معاملے میں نہ افراط پسند کرتاہوں اور نہ تفریط۔ اس معاملے میں ریاسے بچنے کی جو شکل ہے وہ ایسی نہیں ہونی چاہیے کہ اچھی آواز والا نماز ہی نہ کرائے یا اچھا قرآن مجید ہی نہ پڑھے، یہ بات تو نبی کریمﷺنے قبول نہیں کی۔ اس لیے اعتدال کی راہ یہ ہے کہ انسان جتنی بھی اچھی آواز سے پڑھ سکتا ہے پڑھے اور خصوصاً جب لوگ سنتے ہوں تو مزید اچھی آواز میں قرآن کریم پڑھنے کی تاکید موجود ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری﷜کی رسول اللہﷺنے تلاوت سنی تو آپ نے فرمایا کہ میں تمہاری تلاوت سن رہا تھا، تم نے بہت اچھی تلاوت کی۔ تو حضرت ابو موسیٰ اشعری﷜کہنے لگے کہ اللہ کے رسولﷺ! اگر مجھے علم ہوتا کہ آپ میری تلاوت سن رہے ہیں تو میں اور زیادہ خوش الحانی سے پڑھتا۔ اس کا معنی یہ ہے کہ کسی کے سامنے خوش الحانی سے قرآن مجید پڑھنا منع نہیں ہے، لیکن یہ اس صورت میں ہے کہ جب قاری کے اندر نہ تو نخوت پیدا ہو اور نہ ریا۔
میں یہاں ایک اور بات ذکر کرنا چاہوں گا کہ جتنا کام فقہ پر ہوا ہے اتنا تحقیقی کام قرآن مجید کے علوم پر نہیں ہوا، حالانکہ قرآن مجید ہماری شریعت کی پہلی چیز ہے۔نبی کریمﷺ قرآن مجید لے کر آئے اور قرآن مجید کا پہلا حق یہی ہے کہ اس کی تلاوت کی جائے۔ قرآن مجید کے خلاف غیروں نے اتنا کچھ بھر دیا ہے اور ہم نے اس سلسلے میں ابھی بہت تھوڑا کام کیا ہے۔ ابھی بھی ہمارے قاری حضرات کا زور اس کے حسن ِ تلاوت پر زیادہ ہے۔ قرآن مجید کے علوم کے بارے میں جو سوالات اٹھتے ہیں ہمارے قاری حضرات ان پر کام کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس لیے میں ان کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ قرآن مجید کے ان علوم پر جو خاص طور پر مستشرقین اور متجدِّدین نے لوگو ں کے اندر جو تشکیک پیدا کی ہے، سب سے پہلے اس کا ازالہ کریں۔ اس کے بعد قرآن مجید کے علوم کا تعارف کرائیں۔ اس کے تعارف کے اندر ایک بڑی چیز جو قراء توں کا تنوع ہے اس کے ساتھ قرآن مجید کے اندر کیا معنوی حسن پیدا ہوتا ہے اور قرآن مجید کے مفاہیم کے اندر کیا توسع اور عا لمیت پیدا ہوتی ہے، اس کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے کام کرنے کے لیے ابھی بہت بڑا میدان پڑا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اس سلسلے میں کوئی کام نہیں ہورہا۔ سعودی عرب وغیرہ میں تو یہ کام ہورہا ہے، لیکن عالمی سطح پر یہ کام ہونا چاہیے ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
میں جب قراء ات کے بارے میں اہل علم قراء کی کتابیں دیکھتا ہوں تو مجھے بہت خوشی ہوتی ہے کہ برصغیر کے علماء قراء نے بڑا کام کیا ہے،لیکن جب میں عام قاریوں کو دیکھتا ہوں تو میری بڑی حوصلہ شکنی ہوتی ہے کہ وہ نہ توقراء توں کے علوم سے اس طرح واقف ہیں اور نہ صحیح طرح قرآن مجید کے علوم ہی سے واقف ہیں۔ میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ قرآن مجید کوہمارا متعارف رواج بن جا نا چاہیے اور اس کے لیے بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ اس لیے قراء ات کے طلباء کو میں خصوصاً یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ قرآن مجید کو پڑھنے میں خشوع اور خضوع کا دھیان رکھیں اور قرآن مجید کی علمی خدمات کی طرف آگے بڑھیں اور اس وقت جوبھی علمی سوالات موجود ہیں، ان کا باقاعدہ جواب دیں۔ اس سلسلے میں ہماراکام اتنا کم ہے کہ ابھی تک سبعۃ أحرف کی تشریح عوامی نہیں بن سکی، یعنی لوگ ابھی تک اس میں الجھے ہوئے ہیں، لہٰذا اس کو اتنا متعارف کرانا چاہیے کہ یہ چیز عوامی بن جائے۔ جب تک کوئی چیز عوامی نہ بنے اس وقت آپ سمجھیں کہ وہ ’عرف‘ نہیں بنا۔ اس لیے اسے ’عرف خاص‘ سے ’عرف عام‘ بنانے کیے لیے بھرپور جدوجہد کرنی چاہیے۔
انٹرویو پینل:حضرت حافظ صاحب! ہم آپ کے شکر گزار ہیں کہ طبیعت کی ناسازی اور دیگر جملہ مصروفیات کے باوجود آپ نے ہمیں موقع فراہم کیا۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت کاملہ عطا فرمائے اور آپ جیسے علماء اور بڑوں کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے اور ہم اللہ تعالیٰ سے یہ بھی دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو دینی خدمات، محنتوں اور کاوشوں کا اجر دنیاوی آسانیوں اور اخروی فلاح وفوز کی صورت میں عطا فرمائے۔ آمین
٭۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔٭
 
Top