• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مولانا عبدالسلام رحمانی : خانہ دل میں ثبت یادوں کے تابندہ نقوش

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
طالب علمی کے زمانہ میں بہت تھوڑے اساتذہ ایسے ملے جن پر بڑے علماء کا اطلاق کیا جاسکتا ہے ۔ ان '' بہت تھوڑے'' میں سے ایک مولانا عبدالسلام رحمانی تھے۔ مولانا سے میرے تعلقات کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ میرے خاندان کی تین نسلوں کو مولانا سے تلمذ کاشرف حاصل ہے ۔ ہمارے والد جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر میں مولانا سے پڑھ چکے ہیں ۔ میں نے سن 2004 میں جامعہ سراج العلوم بونڈھیار میں مولانا سے تفسیر قرآن پڑھی۔ اور میرے بھتیجہ نے بھی بونڈھیار میں مولانا سے کچھ اسباق پڑھے ہیں ۔
جامعہ سراج العلوم بونڈھیار میں میں نے الگ الگ وقفوں میں تیسری اور چوتھی جماعت میں تعلیم حاصل کی۔ 2004 میں چوتھی جماعت میں مولانا عبدالسلام رحمانی سے تفسیر قرآن پڑھی۔ اس وقت میری عمر تقریبا 17/ 18 سال کی تھی۔ اس عمر میں ظاہر سی بات ہے شعور ایسا پختہ نہیں ہوتا ہے کہ کسی بڑی شخصیت کا احاطہ کرسکے ۔ پھر بھی مولانا عبدالسلام کی شخصیت اتنی بڑی تھی کہ اس کی پرچھائیاں اب تک ذہن کے مختلف گوشوں میں محفوظ ہے ۔ کوشش کرتا ہوں کی ان پرچھائیوں کو ان صفحات پر اتار سکوں ۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
وقار کسی شخصیت کا سب سے قیمتی گوہر ہوتا ہے ۔وقار کبھی تو انسان ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے اور کبھی کچھ اسباب انسان کی شخصیت کو باوقار بنادیتے ہی۔ وقار مولانا عبدالسلام رحمانی کی شخصیت کا حصہ بھی تھا اور ان کے ساتھ ایسے بہت سارے اسباب جمع بھی ہوگئے تھے جو کسی شخصیت کو باوقار بناتے ہیں۔آپ کا تعلق کنڈؤ وبؤنڈھیار جیسی سرزمین علم وفن سے تھا۔ آپ مدرسہ رحمانیہ دہلی کے مستفیدین اور مدرسہ رحمانیہ بنارس کے فارغین اور اساتذہ میں سے تھے ۔ اپنے زمانہ کے بہترین علماء سے آپ نے استفادہ کیا تھا۔سیاح تھے، دنیا کے ایک بڑا حصہ دیکھا تھا۔ صاحب تصانیف تھے اور تصانیف بھی وہ جو مقبول خاص وعام تھیں۔ کئی ایک ملی اور قومی تنظیموں کے ممبر تھے ۔مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے آپ ناظم اعلیٰ رہ چکے تھے ۔بہت ساری بین الاقوامی تنظیموں سے ان کے خصوصی روابط تھے۔علم، تجربہ اور دعوت میں آپ اپنے زمانہ کی ممتاز ترین شخصیت تھے ۔
وقار مولانا کی شخصیت میں ڈیفلٹ تھا۔ یہ ان کی شخصیت کا حصہ تھا۔ اس لیے ان کی شخصیت سے کے ہر پہلو چھلکتا تھا۔ ان کی بولنے کا انداز ، ان کی تدریس ، تقریر ، تحریر ،ان کے کمرے کا رکھ رکھاؤ، ان کے چلنے کا انداز ، ان کی پوشاکیں ، چشمہ ، ٹوپی ،وہ اوور کوٹ(overcoa) جو وہ ٹھنڈیوں میں پہنا کرتے تھے، ان کی اولڈ ایج اسٹک ۔ ان سے جڑی ہوئی ہر ہر چیز ان باوقار شخصیت کی ترجمان تھی۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
ظرافت شخصیت کی ایک خوشنما قدر ہوتی ہے ۔ وقار اگرشخصیت کو وزن دار بناتا ہے تو ظرافت اس کو خوشگوار بناتی ہیں ۔ وقار اگر انسان کے کردار کو بلند کرتا ہے تو ظرافت اس کے کردار میں رنگ بھرتی ہے ۔ اس کو خوشنما ، دلکش اور دل چسپ بناتی ہے ۔ لیکن کسی پر وقار انسان کےلیے ظرافت کے تقاضوں کو نبھانا بڑا مشکل کام ہوتا ہے ۔ کیونکہ ظرافت عام طور سنجیدگی ختم کردیتی ہے ۔ مولانا کی شخصیت کی یہ خاصیت تھی کہ آپ کی شخصیت ظرافت اور وقار کا بڑا خوبصورتcombination (امتزاج )تھی۔ اسی لیے وہ خشک آدمی نہیں تھے ۔ مجلس پسند تھے ۔ جس مجلس میں بھی ہوتے سب سے نمایاں ہوتے تھے ۔
جامعہ سراج العلوم میں ہمارا قیام ہمارے بڑے ابا جناب مولانا عبدالعلیم ماہر کے کمرے میں ہوا کرتا تھا۔ اس سے پہلے اس کمرے میں مولانا خلیل ایمن رحمانی قیام پذیر تھے ۔ بڑے ابا کی تقرری ان کے جانے کے بعد ہوئی تھی۔ کمرے کے مشرق میں بڑی بڑی منقش کھڑکیا ں تھیں ۔ کھڑکی کی دسری طرف جامعہ کا صحن تھا جس میں عصر کی نمازکے بعد اساتذہ کی چائے نوشی کی مجلسیں ہوا کرتی تھیں ۔ میں کھڑکیوں کی دوسری طرف سے اکثر ان مجلسوں میں شریک رہتا تھا۔ اس وقت ان مجلسوں میں شرکت کا ایک مقصد یہ بھی ہوا کرتا تھا کہ کبھی کبھی بارہویں کھلاڑی کی طرح بچی ہوئی چائے سے فیضیاب ہونے کا موقع مل جایا کرتا تھا۔
مولانا کی شخصیت ان مجلسوں میں سب سے ممتاز ہوتے ۔ بلکہ زیادہ صحیح تعبیر یہ ہوگی کہ مولانا ان مجلسوں کی جان ہوا کرتے تھے ۔یا پھر ستاروں کے بیچ میں چاند ہوا کرتے تھے۔ دین دنیا کے جس مسئلہ میں بھی مولانا بولتے ان کی باتیں ان کی شخصیت کی طرح سب کی باتوں میں ممتاز ہوتیں۔علمی فوائد اور لطائف کا بہت بڑا خزانہ ان کے پاس تھا۔ جس مجلس میں آپ ہوتے وقفہ وقفہ سے ان کی خوشبؤں سے مجلسوں کو مہکاتے رہتے ۔ہمارےیہاں ملفوظات لکھنے کا رواج نہیں ورنہ مولانا کی ملفوظات کی اچھی خاصی جلد تیار ہوجاتی ۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
میں نے مولانا سے چوتھی جماعت تفسیر پڑھی ۔ سورۃ الفرقان سے سورۃ الصافات تک۔ مولانا کی تفسیر کا انداز بالکل نرالا تھا۔ اتنا دلچسپ کی پوری گھنٹی دل بندھا رہتا۔ جامعہ میں مشہور تھا کہ دو لوگ اگر حاضری نہ بھی لیں تو بچے ان کی گھنٹی مس نہیں کریں گے ۔ ایک مولانا عبدالسلام رحمانی اور دوسرے مولانا تبارک حسین قاسمی ۔ مولانا تبارک صاحب اس لیے کیونکہ وہ بلاغہ پڑھاتے تھے اور شعر بہت سناتے تھے ۔
مولانا کی تفسیر کا انداز دوسرے تفسیر پڑھانے والوں سے بالکل الگ تھا۔ میں نے مولانا عبدالسلام رحمانی اور اپنے بڑے ابا جناب مولانا عبدالعلیم ماہر کے علاوہ جتنے لوگوں سے بھی تفسیر پڑھی ہے، مجھے کسی کا انداز پسند نہیں آیا۔ اساتذہ کا تفسیر پڑھانے کا انداز اتنا خشک ہوتا ہے کہ قرآن سے جو جذباتی لگاؤ طالب علم کا قائم ہونا چاہیے وہ قائم ہی نہیں وہ پاتا تفسیر صرف ایک فن بن رہ جاتا ہے ۔ اور سیرت پڑھانے والے اساتذہ کا رویہ بھی بالکل ایسا ہی ہے ۔
یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ مولانا کی تفسیر ریکارڈ نہیں ہوسکی ۔ ریکارڈ ہوجاتی تو ایک قیمتی ذخیرہ ہوجاتا۔ یہی ٹریجڈی مفسر قرآن مولانا عبدالقیوم رحمانی کے ساتھ بھی ہوئی ۔ہماری جماعت کے کسی ایک عالم کی تفسیر ریکارڈ میں نہیں ۔ جتنی تفسیریں تقریریں عوام میں گردش کررہی ہیں وہ سب غیر منہجی علماء کی ہیں ۔ اپنی جماعت میں ایک سے ایک قرآن کے مفسر ہیں لیکن ان کی ساری علمی کاوشیں ان کے طلبہ اور مستفدین کے ایک چھوٹے سے حلقہ تک ہی محدود ہوکر رہ جاتی ہیں۔جتنا ہماری جماعت اہل علم کی وفات کے بعد ان کی شخصیتوں پر ہونے والے سیمناروں پر خرچ کردیتی ہے اگر اس کا کچھ حصہ زندہ لوگوں کے علم محفوظ کرنے پر خرچ کرے تو مستقبل کے لیے بڑا قیمتی علمی سرمایہ محفوظ ہوجائے ۔
مولانا عبدالسلام رحمانی صاحب ساؤتھ کے کسی علاقہ میں رمضان میں تفسیر قرآن کےلیے جایا کرتے تھے۔ شاید وہاں سے ان کی ریکارڈ شدہ کچھ تفسیری مواد مل جائے۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
مولانا کی شخصیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ شاعر تھے ۔ تخلص اسلم تھا۔یہ بات شاید مولانا کے بہت سے قریبی لوگوں کو بھی نہیں معلوم ہوگی ۔ (مجھے اس لیے معلوم ہے کہ میں نے جامعہ کی سالانہ میگزین کےلیے مولانا سے انٹرویو لیا تھا۔ جس میں مولانا نے یہ انکشاف کیا تھا۔ ) حالانکہ مولانا کا مزاج ٹیپکل شاعروں والا بالکل نہیں تھا۔
انٹرویومیں مولانا کے کچھ اشعار بھی شامل ہیں۔ جب میں نے یہ انٹرویو لیا تھا اس وقت میری عمر سترہ اٹھارہ سال کی تھی ۔ شعور اور ادبی ذوق بھی اتنا پختہ نہیں تھا۔ ورنہ یہ سوال میں میں مولانا سے ضرور کرتا کہ آپ اتنی اچھی شاعری کرلیتے تھے تو آپ نے اس راستہ میں آگے قدم کیوں نہیں بڑھائے ۔
مولانا کی یہ مناجات ملاحظہ فرمائیں:
الہٰی مجھ کو گویائی عطا کر
زباں کو ناشکیبائی عطاکر
لب گفتار کو گفتار دے دے
قلم کو خامہ فرسائی عطا کر
تیرے دربار میں حاضر ہوا ہوں
میں تیرا شکر کرنا چاہتا ہوں
خدا یا جس کا میں طالب ہوا تھا
طلب سے کچھ سوا ہی پا گیا ہوں
میرے مالک مجھے الفاظ دے دے
ادائے شکر کا انداز دے دے
مجھے انداز گویائی عطا کر
تو میرے ساز میں آواز دے دے
خدا یا میں تیری رحمت پہ قرباں
تری بخشش فراواں در فراواں
محض بوئے چمن مانگا تھا میں نے
دیا تو نے گلستاں در گلستاں
میں طول و عرض اپنا جانتا ہوں
گنہ آلود دامن پا رہا ہوں
مگر اس پر بھی یہ ذرہ نوازی
پشیمانی میں ڈوبا جا رہا ہوں
جبیں خم ہے عطائے بیکراں پر
ابل آیا ہے دل نوک زباں پر
لب گویا ہے مصروف تشکر
جھکا جاتا ہوں سنگ آستاں پر
تری بخشش مکاں سے لا مکاں تک
کرم تیرا زمیں سے آسماں تک
مرے مولا تری بخشش پہ قرباں
ادائے شکر مجھ سے ہو کہاں تک
میں تیری دستگیری چاہتا ہوں
یہاں میں ہر طرح کھویا گیا ہوں
مجھے منزل کو پانے کی طلب ہے
رہِ منزل سے میں بہکا ہوا ہوں
مرا دل ہے ابھی محروم عرفاں
میرے ہوش و خرد ظلمت بداماں
سکون دل سے نا محرم ہوں اب تک
مسلط ہیں خیالات پریشاں
شب تاریک مجھ سے دور کردے
میری ظلمات کو کافور کردے
میں جلوہ آشنا دل چاہتا ہوں
میرا دل نور سے معمور کردے
دل سے نکلے ان کلمات کو ایک درد مند دل ہی سمجھ سکتا ہے ۔ بندگی کے جذبات سے لبریز الفاظ دل سے نکل کر دل کی گہرائیوں تک اترجانے والے ہیں ۔زبان و بیان کی شگفتگی اور سلاست ایسی ہے کہ ابتدائی شعر پڑھنے والے کو اپنی سحر انگیزی کی ایسی گرفت میں لے لیتا ہے کہ وہ مقطع پر آکر ہی ایک خوبصورت تاثر کے ساتھ چھوڑتا ہے ۔ پوری نظم میں ادبی ذوق کو کوئی ہلکا سا بھی دھچکا نہیں لگتا۔ ٹھیس نہیں پہنچتی ۔ رکاوٹ محسوس نہیں ہوتی ۔ بندگی کی لذت ، عبادت کا سرور ایمان کی حلاوت ایک ایک لفظ ایک شعر میں محسوس کی جاسکتی ہے ۔ مومن بندے کا ایمان جب اس کے رب کی کبریائی اور بزرگی کا بیان کیا جائے تو بلندیوں تک پہنچ جاتا ہے۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
سفر انسان کی شخصیت پر بہت گہرا اثر ڈالتے ہیں ۔ سفر کا تجربہ انسان کو جو اور جیسا سکھاتا ہے وہ اور ویسا انسان کتاب کے مطالعہ سے نہیں سیکھ سکتا۔ نئے نئے قسم کے لوگوں سے ملنا ، نئی زبانوں اور نئی تہذیبوں کا مطالعہ ، نئے نئےمسائل سے جونجھنا سفر کے ان تجربات سے جو علم بندے کو حاصل ہوتا ہے وہ کسی لائبریری میں بیٹھ کر حاصل نہیں کیا جاسکتا ۔ بلکہ علم اور تجربہ کا فرق تو ایک دیہات کے پڑھے لکھے اور شہر کے پڑھے لکھے آدمی میں بھی محسوس کیا جاسکتا ہے ۔ میرا ماننا ہے کہ دس دن کا سفر انسان کو جتنا کچھ اور جیسا کچھ سکھاتا ہےاتنا اور ویسا علم پچاس متوسط قسم کی کتابوں سے بھی حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ البتہ سیکھنے کےلیے شرط ہے کہ انسان کے اندر potentially سیکھنے کی صلاحیت ہو جو ہمارے استاذ مولانا عبدالسلام رحمانی کے اندر اپنے اتم درجہ میں موجود تھی ۔
مولانا نے اپنی زندگی میں دو درجن سے زائد ممالک کا سفر کیا تھا۔ جن میں ملیشیا ، انڈونیشیا، سنگاپور، آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ ،جزائرفیجی، کناڈا، امریکہ ، برطانیہ ، جاپان، مصر ،سعودی عربیہ، کویت، دبئی، ابو ظہبی، شارجہ، ام القیوین ، فجرہ، رأس الخیمہ ، بحرین ، پاکستان، نیپال ،تھائی لینڈ ، ہانگ کانگ، اردن شامل ہیں ۔ ہندستان میں کشمیر سے کیرالا اور آسام سے گجرات آپ کی دعوتی تگ تاز کا میدان رہے ہیں ۔ اتنے سارے اسفار اور تجربات نے مولانا کی شخصیت میں جو internationality پیدا کی تھی وہ آپ کا امتیاز تھی جو آپ کی شخصیت سے بہت صاف صاف جھلکتی تھی اور آپ کو اپنے سرکل میں سب سے ممتاز بناتی تھی ۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
مولانا زمین سے جڑے ہوئے داعی تھے ۔ عوام کے مسائل اور ضرورتوں سے واقف تھے ۔ ان کی اکثر کتابیں عوام کی ضرورتوں کو مدنظر رکھ کر ہی لکھی گئی ہیں ۔ اس لیےان کتابوں میں جو عوام کےلیے لکھی گئی ہیں ممکن ہے بہت زیادہ علمی اور تحقیقی گہرائی نہ ملے کیونکہ ان کتابوں سے علمیت کا اظہار سرے سے مقصود ہی نہیں ہے۔ البتہ دلوں میں اتر جانے والی زبان کی شگفتگی اور چاشنی ان کتابوں ضرور ملے گی ۔ یہ کتابیں عوام کی اصلاح اور تربیت کےلیے لکھی گئی ہیں لہذا انہیں کے معیار کو پیش نظر رکھا گیا ہے ۔
مولانا کو اپنی کتابوں میں ''بڑے بڑے گناہ'' اور ''محرم الحرام اور حضرت حسین ویزید'' سب سے زیادہ پسند تھیں ۔ مولانا کی کتابوں میں میری سب سے پسندیدہ کتاب '' اتباع سنت کا مفہوم '' ہے ۔ کتاب گرچہ مختصر ہے لیکن اس کا اختصار ہی اس کی سب سے بڑی خوبی ہے۔یہ کتاب بدعت کے فروعات پر لکھی جانے والی کئی ضخیم کتابوں سے زیادہ اہم ہے ۔میری نظر گذری کتابوں میں اردو میں علم اصول البدع کے موضوع پر لکھی گئی واحد کتاب ہے ۔ یہ کتاب بدعت پر نہیں بلکہ اس مزاج پر ضرب لگاتی ہے جو بندے کی نظر میں بدعت کو محبوب بناتی ہے ۔ کتاب اس لائق ہے کہ بڑی تعداد میں شائع کرکے تقسیم کی جائے ۔ میں نے کئی خاص وعام لوگوں سے اس کی تعریف سنی ہے ۔میری دوسری پسندیدہ کتاب مولانا کا سفر نامہ ہے " دیار غیر میں" ۔سفرنامہ مسافر کی شخصیت کا عکس ہوتا ہے۔ مولانا کی میٹھی سی شخصیت کا مٹھاس اور سرور ان کے سفر نامے میں محسوس کیا جاسکتا ہے ۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
مولانا کے بارے میں میں نے جو کچھ بھی لکھا ہے وہ میرے ایک سالہ مشاہدہ کا حاصل ہے ۔وہ بھی جب میری عمر سترہ اٹھارہ سال کی تھی ۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ مدت کسی شخصیت کے مطالعہ کے لیے ناکافی ہے اور پھر یہ بھی کہ میں نے مولانا کی زندگی کا صرف ایک ہی پہلو دیکھا ۔ ایک طالب علم کی نظر سے ایک استاذ کی حیثیت سے ۔ البتہ مولانا سے میری قربت کلاس کے دوسرے طلبہ سے کچھ زیادہ تھی۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ میں جامعہ رحمانیہ کاندیولی اور جامعہ اسلامیہ ممبرا سے پڑھ کر بونڈھیار پہنچا تھا۔ کسی بڑے عالم سے تلمذ کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ اس لیے میں کچھ زیادہ excited تھا۔ پھر یہ قربت اس لیے بھی بڑھ گئی کہ میں نے جامعہ کی میگزین کےلیے مولانا کا انٹرویو لینے کا پلان بنایا اور مولانا اس کےلیے راضی بھی ہوگئے ۔ اس زمانہ میں انٹرویو لینا ایک طرح سے میری hobbyتھی ۔ اس زمانہ میں میں نے انٹرویو کےلیے کئی علماء سے رابطہ کیا تھا۔ سوالات دیے تھے ۔ لیکن صرف دو علماء کی طرف سے جوابات موصول ہوئے تھے ۔ایک شیخ اسعد اعظمی اور دوسرے شیخ نیاز طیب پوری ۔ شیخ نیاز طیب پوری کا انٹرویو بڑا دلچسپ تھا۔ افسوس کی ضائع ہوگیا۔ بعد میں میں جامعہ رحمانیہ میں عالمیت کی سند حاصل کرنے کےلیے '' علماء ممبئی سے ملاقات '' کے عنوان سے ممبئی کے علماء کے انٹرویوز جمع کیے ۔ مقالہ کے ممتحنین نے مناقشہ میں حوصلہ افزائی کے بجائے میرا ایسا مذاق اڑایا کہ سارا شوق ماند پڑ گیا۔
انٹرویو کے سلسلہ میں مولانا سے قربت کا کافی موقع ملا۔ مولانا نے انٹرویو میں میرا کافی تعاون کیا۔ مولانا جب ''بیٹا'' کہہ کر پکارتے تو بہت اچھا لگتا۔ پڑھائی کے زمانہ میں مولانا عدیل سلفی کے علاوہ صرف مولانا عبدالسلام ہی تھے جنہوں نے مجھے '' بیٹا '' کہہ کر پکارا ہو۔ اساتذہ کو شاید اندازہ نہیں ہوتا کہ ان کے حسن اخلاق کا طلبہ پر کتنا گہرا اثر طلبہ پر ہوتا ہے ۔ یاطلبہ پر اثر ڈالنے کا شوق ہی نہیں ہوتا ہوگا سرے سے۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
گذرا ہوا سال ہندوپاک کے اہل حدیثوں کے لیے عام الحزن ہے بلکہ اب ہر گذرنے والا سال عام الحزن ہوتا ہے ۔ پچھلے چند سالوں میں ہم نے مولانا رئیس الاحرار ندوی ، مولانا مقتدیٰ حسن ازہری ، مولانا عبدالحمید رحمانی اور مولانا عبدالسلام رحمانی پاکستان سے مولانا معین الدین لکھوی،مولانا محمد سلیمان کھتری،حافظ عبدالمنان نورپوری ، ڈاکٹر عبدالرشید اظہر اور حافظ زبیر علی زئی جیسے علماء کو کھویا ہے ۔ ہرجانے والا اپنی جگہ خالی کرکے جارہا ہےجس کا کوئی replacement ہمارے پاس موجود نہیں ۔ جب امت میں علماء نہیں ہوں گی تو ہماری اگلی نسلوں کا کیا ہوگایہ فکرمندی کی بات ہے ۔جماعت کے ذمہ داران کو سوچنا چاہیے کہ مدارس جو افراد سازی کے ادارے ہیں جو اس امت کو رہنما فراہم کرتے ہیں ان کی حالت ، ان کا تعلیمی اور تربیتی نظام کیا واقعی میں ایسا ہے کہ یہاں سے نکلنے والے افراد ان علماء کی جگہ لے سکیں گے جو ہر گذرتے وقت کے ساتھ ہمارا ساتھ چھوڑتے جارہے ہیں ۔
افسوس کی بات یہ کہ ان علماء کے چلے جانے کا ہمیں افسوس نہیں ۔اگر افسوس ہوتا اور واقعی افسوس ہوتا تو ان لوگوں کی قدر کرتے جو اب بھی ہمارے درمیان موجود ہے ۔ اس وقت گذر جانے والوں کی تعزیت سے زیادہ موجود لوگوں کی قدر کرنا ضروری ہے ۔ واقعی متاع کارواں کا لٹ جانا اتنا افسوسناک نہیں ہوتا جنتا احساس زیاں کا مٹ جانا ہوا کرتا ہے ۔ اللہ ہمیں اپنے دین کے لیے فکر مندی کی توفیق نصیب فرمائے۔
ختم شد
 
Top