• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مولانا عبد الحق رحمانی پاکوڑی رحمہ اللہ حیات و خدمات

شمولیت
جنوری 17، 2018
پیغامات
26
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
36
بسم الله الرحمن الرحيم

مولانا عبد الحق رحمانی : حیات و خدمات

جمع و ترتیب : محمود حمید پاکوڑی

نام ونسب : آپ کا نسب نامہ عبدالحق بن جاوید علی بن سلیمان شیخ بن عبدالرحمن بن عبد السبحان ہے ، مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی سے فارغ ہونے کی بنا پر آپ کو رحمانی کہا جاتا تھا جبکہ اپنے علاقے میں بڑے مولانا (ہیڈ مولانا) کے لقب سے مشہور تھے ۔

ولادت : آپ کی ولادت موجودہ جھارکھنڈ صوبے کے پاکوڑ ضلع کے تارانگر گاؤں میں 1916 میں ہوئی ۔ آپ اپنے سات بھائی بہنوں میں سب سے بڑے تھے ، باقی بھائی بہنوں کے اسمائے گرامی یہ ہیں : سرفۃ النساء (بنگلہ دیش ) مولانا جمال الدین قاسمی (جنہیں ڈوبا مولوی کے لقب سے جانا جاتا تھا) کمال الدین (جو بچپن میں وفات پاگئے تھے) حنیفہ خاتون ،حذیفہ خاتون اور عرفة النساء ۔

تعلیم وتعلم: آپ نے پہلی جماعت سے چوتھی جماعت کی تعلیم بزبان بنگلہ اسکول سے حاصل کی تھی اور اسی دوران مکتب سے اردو اور عربی کی تعلیم بھی حاصل کی ۔ پھر آپ نے مدرسہ حمایت الاسلام سیتا رام پور مرشد آباد میں داخلہ لیا اور وہاں مولانا نظام الدین مرشدآبادی رحمہ اللہ کے پاس زانوئے تلمذ تہ کیا ، پھر آپ نے علمی پیاس کی سیرابی کی خاطر مدرسہ شمس الہدیٰ دلالپور میں داخلہ لیا اور وہاں مولاناعبدالحنان رحمہ اللہ کے پاس تعلیم حاصل کی ۔ پھر مولاناعبدالحنان رحمہ اللہ ہی کے حکم اور مشورے سے آپ نے اپنے علاقے کو خیرباد کہتے ہوئے1937 میں دہلی کا طویل سفر کرکے مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ میں داخلہ لیا ۔ یہ جماعت اہل حدیث کا ایک مشہور ، معتبر اور مضبوط ادارہ تھا ۔ یہ ادارہ مشہور و معروف اساتذہ اور ہونہار طلبہ کا ایک ایسا مجمع تھا جس میں داخلہ صلاحیت و قابلیت کی بنیاد پر ہوتا تھا ۔ آپ نے مختلف علوم وفنون میں مہارت حاصل کرنے کے لیے آٹھ سال تک جی توڑ محنت کی اور سارے امتحانات میں امتیازی نمبرات سے کامیابی حاصل کی ۔ حصول علم کے شوق کا عالم یہ تھا کہ آپ اس آٹھ سالہ مدت کے دوران میں صرف ایک ہی مرتبہ تین سال بعد گھر واپس آئے اور پھر 1945 کو پانچ سال کے بعد پڑھائی کی تکمیل پر اپنے وطن واپس آئے ۔ گویا کہ آپ اس مصرعہ کے عملی نمونہ تھے
ہمیں دنیا سے کیا مطلب مدرسہ ہے وطن اپنا
مریں گے ہم کتابوں پر ورق ہوں گے کفن اپنا

دہلی کے اسی تعلیمی سفر کے دوران میں آپ کی والدہ ماجدہ کی وفات ہو گئی، کچھ ایام بعد آپ کو خط کے ذریعے انتقال کی اطلاع دی گئی تھی لیکن تعلیمی مصروفیات کی وجہ سے نہیں آ پائے تھے ۔ دہلی سے گھر واپس آنے کے ڈیڑھ سال بعد ہی تقسیم ہند کا سانحہ پیش آگیا اور اسی کے ساتھ ہی جماعت اہل حدیث کا یہ عظیم ادارہ 1947 میں بھیانک فسادات کی نذر ہوگیا ۔

درس و تدریس : دہلی سے فراغت حاصل کرنے کے بعد آپ نے سب سے پہلے مدرسہ دارالھدی بشریہ امام نگر مرشدآباد میں بطور صدر المدرسین مسند درس پر فائز ہوئے ، وہاں ایک سال درس دینے کے بعد جامعہ دارالھدی جوگور مرشد آباد میں صدر المدرسین متعین ہوئے اور وہاں تین سال تک درس و تدریس کا فریضہ انجام دیتے رہے ، پھر وہاں سے جامعہ ضیاءالعلوم بھاگل دیگھی بیربھوم میں شیخ الجامعہ متعین ہوئے اور وہاں دو سال تک طلبہ کو فیض پہنچانے کے بعد اپنے گاؤں تارانگر آگئے اور آپ نے مدرسہ دار الاسلام تارانگر کی چوبیس سال تک دل وجان سے خدمت کی اور اسے شہرت کی بلندی تک پہنچایا ،پھر آپ نے گاؤں سے تقریبا چھ کلومیٹر کی دوری پر واقع مدرسہ قمرالہدی سنگرام پور آگئے ۔ یہی وہ آخری مدرسہ ہے جہاں آپ نے اپنی زندگی کے بیش بہا پندرہ سال گزارا تھا۔ درمیان میں ایک سال کے لئے آپ جامعہ عربیہ حمایت الاسلام سیتارام پور مرشد آباد آ گئے تھے ۔
مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی سے فراغت کے وقت آپ کو جامعہ ریاض العلوم دہلی میں درس دینے کے لیے کہا گیا تھا لیکن آپ نے منع کر دیا تھا اور گھر واپس آ گئے تھے ، آپ کو آپ کے ہم سبق مولانا احمد اللہ رحمانی مرشد آبادی نے ڈھاکہ بلایا تھا اور اسی طرح آپ کو مدرسہ شمس الہدیٰ دلالپور میں بھی درس و تدریس کے لئے بلایا گیا تھا لیکن کسی وجہ سے وہاں نہیں جا سکے ۔ آپ جہاں بھی رہے اچھی تنخواہ پر بحال رہے ۔ درس و تدریس سے مشغولیت کی اس چھیالیس سالہ طویل مدت کے دوران میں آپ نے چالیس مرتبہ سے زیادہ صحیح بخاری کا درس دیا ۔ اللہ تعالی انہیں اس کا بہترین بدلہ عنایت فرمایے، آمین ۔

دینی اور ملی خدمات : آپ کی سب سے عظیم اور نمایاں خدمات مسلمانوں کو عیسائی مذہب اپنانے سے بچانا ہے ، دراصل تقسیم ہند کے ایک سال بعد 1948 کے آس پاس پاکوڑ ضلع کے سنگرام پور گاؤں میں عیسائیت تیزی کے ساتھ پھیل رہی تھی ،جس کی وجہ سے مسلمانوں کے باشعور طبقہ میں تشویش کا پایا جانا ایک فطری امر تھا ۔ اس لئے بعض مخلص مسلمانوں نے رحمانی صاحب کو عیسائی پادری کے ساتھ مناظرہ کرنے کا مشورہ دیا، پھر جم غفیر کے سامنے سنگرام پور گاوں ہی میں آرا بھوج پور بہار سے آئے ہوئے پادری کے ساتھ سخت مناظرہ ہوا ۔ اس مناظرہ میں پادری کو شکست فاش سے دوچار ہونا پڑا اور اس نے بھاگ کر اسٹیشن ماسٹر کے روم میں چھپ کر پناہ لی ۔ اس فتح سے مسلمان بہت خوش ہوئے اور لوگوں نے رحمانی صاحب کو ٹپر گاڑی میں بٹھا کر پورے علاقے کا نظارہ کرایا ۔ اس مناظرہ کا مرتدین پر گہرا اثر ہوا اور اکثریت توبہ کر کے پھر مسلمان ہو گئی ، اس طرح ایک خطرناک فتنہ کا سدباب ہو گیا ۔
آپ کی نمایاں خدمات میں سے مدرسہ دارالاسلام تارانگر کی تعمیر اور اس کی ازسرنو بحالی ہے، اس کے علاوہ آپ نے مدرسہ ایجوکیشن بورڈ پٹنہ بہار سے درجن بھر عالیہ مدرسوں کو منظوری دینے کی سعی پیہم کی ۔ اس بارے میں علاقے کے بعض لوگوں نے آپ کی مخالفت بھی کی لیکن چونکہ آپ ایک وسیع النظر عالم اور ملت کے خیر خواہ تھے اس لئے اس مخالفت کو نظرانداز کیا اور تاحیات ان مدرسوں کے لیے کوششیں کرتے رہے ۔ آپ کسی طرح کی کوئی تنظیم یا جماعت سے جڑے ہوئے نہیں رہتے ‌، باوجود اس کے آپ مرجع الخلائق تھے، علاقے کے لوگ دینی ،ملی اور خانگی معاملات کے حل کے لئے آپ ہی کی جانب رجوع کرتے تھے جس کی وجہ سے اکثر مہمانوں کا تانتا لگا ہوا رہتا تھا ۔

صلاحیت و قابلیت : کہتے ہیں کہ کسی بھی عالم کے نام کے ساتھ رحمانی کا لاحقہ جس طرح لفظی او صوتی اعتبار سے ذوق و سما کو بھاتا تھا ویسے ہی علم و فضل کے اعتبار سے ایک عبقری عالم کا پتا دیتا تھا ۔ یقیناً مولانا عبدالحق رحمانی رحمہ اللہ اپنے علاقے میں سب سے بڑے عالم و فاضل تھے ۔ آپ نے حدیث ، تفسیر ، فقہ اور منطق و فلسفہ وغیرہ علوم میں ایسا عبور حاصل کیا تھا کہ اس کی نظیر ملنا بہت مشکل ہے ۔ عوام الناس کی شہادت ہے کہ آپ کبھی بھی ایک ہی واقعہ یا مسئلہ یا بحث کو ہر جگہ تکرار کے ساتھ نہیں دہراتے تھے بلکہ ہر مجلس اور پروگرام میں کچھ نہ کچھ نئی چیزیں بیان کرتے تھے ۔ صلاحیت و قابلیت ہی کی وجہ سے آپ کو اپنے علاقے میں ایسی شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی کی ایسی شہرت کسی اور کے حق میں نہیں دیکھی گئی ۔ آپ خوش خط بھی تھے ،بنگلہ ، اردو اور عربی رائٹنگ قابل دید تھی ۔ آپ اکثر و بیشتر جلسوں میں صدارت کا فریضہ انجام دیتے اور قحط سالی کے ایام میں نماز استسقاء کی امامت کرتے ۔

اوصاف و عادات : اللہ تعالی نے آپ کی شخصیت میں حلم و بردباری ، متانت و سنجیدگی اور زہد و ورع کو کوٹ کوٹ کر بھر دیا تھا، آپ کی اپنی زمین و جائیداد تھی لیکن کسی بھی چیز کے بارے میں نہیں کہتے تھے کہ یہ میری اپنی ہے ۔ آپ بے حد ملنسار ، نرم مزاج ، سادگی پسند، خوش اخلاق اور کم گفتار انسان تھے ۔ اسی کے ساتھ آپ پروقار اور پرہیبت بھی تھے ، کوئی بھی فرد آپ کے سامنے بے ادبی ، بداخلاقی یا بد زبانی کی جسارت نہیں کر سکتا ۔ زیادہ بات چیت کرنے کو ناپسند فرماتے اور حتی الامکان اشارہ و کنایہ سے اپنی مراد سمجھانے کی کوشش کرتے ، آپ کی ایک نمایاں خوبی یہ تھی کہ اگر کوئی انسان کسی دینی مسئلہ لے کر آتا تو فوراً اس کا جواب نہیں دیتے ، بلکہ مسئلہ کے پس منظر و پیش منظر پر غور کرتے پھر جواب دیتے ، بسا اوقات سائل کو دوبارہ آنے کو کہتے ، پھر مسئلہ کا حل بیان کرتے ۔ آپ کا تکیہ کلام تھا " سمجھ میں تو نہیں آ رہا ہے " ۔

اساتذہ : آپ نے علوم اسلامیہ کی تعلیم ماہرین فن اور مشہور و معروف علماء کرام اور اساتذہ عظام سے حاصل کی تھی ۔ ان میں سے شیخ الحدیث نظام الدین مرشدآبادی ، مولاناعبدالحنان دلالپوری ، شیخ الحدیث مولانا عبیداللہ رحمانی مبارکپوری اور مولانا نذیر احمد املوی رحمہم اللہ وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ ان کے علاوہ مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی کے دیگر اساتذہ بھی شامل ہیں ۔

تلامذہ : آپ کے تلامذہ اور شاگردان کی تعداد کافی زیادہ ہے، ان میں سے بعض کا ذکر کیا جا رہا ہے : مولانا ابوالحسن قاسمی ، شرف الحق فیضی ، مولانا جمشید علی ، مولانا عبدالغفور ، مولانا سعید الرحمن ، مولانا عبدالشکور بردوانی ، مولانا نذیر حسین جوگوری ، مولانا حمید الحق حقانی ، مولانا زین العابدین ، مولانا مظفر حسین ، مولانا نیاز الدین سنگرام پوری ، مولانا علی حسین سنگرام پوری ، مولانا جمشید علی لکھی نارائن پوری ،مولانا مصطفی منیرام پوری ، مولانا عبدالرحمن اعلامی، مولانا انار الحق اعلامی، مولانا نذیر حسین ، مولانا اسیر الدین ، مولانا مصدق حسین ، مولانا مشرف حسین اور مولانا عبد المذل وغیرہ ۔ رحمہم اللہ / حفظہم اللہ

وفات : مدرسہ قمرالہدی سنگرام پور میں آپ دل کی بیماری میں مبتلا ہوگئے ۔ پاکوڑ ضلع کے نرسنگ ہوم میں آپ کو ایڈمٹ کیا گیا لیکن وہاں تسلی بخش شفا نہیں ملی جس کی وجہ سے آپ کو شہر بردوان مغربی بنگال منتقل کیا گیا ، لیکن یہ تمام کوششیں قضائے الہی کو ٹال نہ سکیں اور علم وعمل کا یہ سورج پچھتر سال کی عمر میں جمعہ کی رات ایک بجے 19 جولائی 1991 کو ہمیشہ کے لئے ڈوب گیا ہے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
محفل ہر ایک سونی بنا کر چلے گئے
ایسے گئے کہ سب کو رلا کر چلے گئے

آپ کی نعش کو جمعہ کے وقت آبائی وطن تارا نگر لایا گیا ، جنگل میں آگ کی طرح وفات کی خبر پورے علاقے میں پھیل گئی ، جس سے اہل علاقہ میں کہرام مچ گیا ۔ اس وقت برسات کا موسم تھا ، اگلے دن سنیچر کو مولانا ابوالحسن قاسمی رحمہ اللہ کی امامت میں جنازہ کی نماز ادا کی گئی اور زوال سے پہلے سات ہزار سوگواروں کے سامنے علم و ادب کے اس چراغ کو ہمیشہ کے لیے سپرد خاک کردیا گیا ۔

آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے

تالیفات: بعض گھریلو مسائل اور دیگر مصروفیات کی وجہ سے آپ نے تالیفات و تصنیفات کے میدان میں قدم نہیں رکھا تھا ، آپ لوگوں کو زبانی طور پر وعظ و نصیحت کرنے کو پسند فرماتے ۔ آپ نے صرف منطق و فلسفہ کی بعض چیزوں کو جمع کیا تھا اور بعض احادیث کی تبویب کے بعد شرح بھی لکھی تھی ، اس کے علاوہ کچھ فتاویٰ تھے جسے آپ نے سائلین کے جواب میں تحریر فرمایا تھا ، لیکن مستقل طور پر کوئی کتاب نہیں چھپ سکی ۔

نکاح اور اولاد : دہلی سے واپس آنے کے ایک ڈیڑھ سال بعد 1947 کو آپ نے ایک علمی اور باعزت گھرانے میں پاکوڑ ضلع کے چانچکی گاؤں میں فضیلة النساء بنت عبد الرحمن سے نکاح کیا، جو مولانا ابوالحسن قاسمی رحمہ اللہ کی ہمشیرہ تھیں ‌۔ اللہ تعالی نے آپ کو سات بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا ، لیکن دو لڑکے فضل الحق(عبد الواسع) اور حمید الحق اول اور دونوں لڑکی حسن آرا اور اخترہ خاتون بچپن ہی میں انتقال کر گئیں ۔ باقی بیٹوں کے اسمائے گرامی یہ ہیں : ماسٹر نظر الحق، مولانا بدر الحق ، مولانا حمید الحق حقانی ، کوثر الحق اور ماسٹر منصر الحق ۔

رب کریم سے دعا ہے کہ وہ دادا صاحب کے حسنات کو قبول فرمائیے، ان کے سیئات اور لغزشوں کو درگزر فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے ، آمین ۔
 
Top