• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مولانا عبد الحق سلفی قاسمی رحمہ اللہ

شمولیت
دسمبر 10، 2011
پیغامات
12
ری ایکشن اسکور
52
پوائنٹ
23
مولانا عبد الحق سلفی قاسمی مرحوم یوپی کے ضلع سدھارتھ نگر تحصیل بانسی کے منکورہ تیواری نامی گاوٴں غالباً 1937ء میں پیدا ہوئے ۔آپ کے والد کا نام منصب دار عبد الرزاق چودھری تھا۔
آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم گاوٴں کے مدرسہ میں حاصل کی اور پھر پرائمری کی تعلیم گاوٴں سے دو کلو میٹر دور پتھرا بازار کے ایک اسکول میں حاصل کی۔ اور مڈل کلاس کی تعلیم تحصیل بانسی کے قریب گوری مقام کے ایک اسکول میں حاصل کی۔ اسی دہائی آپ کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہوگیا۔
فارسی وعربی کی ابتدائی تعلیم آپ نے مدرسہ قاسم العلوم (ریّواں ) میں حاصل کی۔ جب علمی تشنگی میں اضافہ ہوا تو آپ نے مئو ناتھ بھنجن کا سفر طے کیا اور وہاں کے ایک معروف مدرسہ فیض عام میں جید اور قابل اساتذہ مولانا محمد احمد صاحب ومولانا عبد الرحمن صاحب اور مولانا حبیب الرحمن وغیر ھم سے شرف تلمذ ہوئے ۔
مزید اعلیٰ تعلیم کی خواہش نے آپ کو دار العلوم دیوبند تک پہنچایا۔ یہاں آپ کا تعلیمی سفرفراغت تک رہا، یہاں آپ اپنی قابلیت واہلیت کی وجہ سے ہر جماعت میں ممتاز اور طلبہ واساتذہ میں بے حد مقبول رہے۔ یہاں پانچ سال تک آپ ضلعی انجمن کے صدر رہے اور فراغت تعلیم کے بعد مدرسہ نے آپ کو توصیفی سند سے نوازا ، اور آپ کو درس وتدریس کے لیے راجستھان کے شہر کوٹہ روانہ کیا ، جہاں آپ تین سال تک درس وتدریس سے منسلک رہے اور یہیں آپ کے دو فرزند عبد اللہ ، عبد العلی کی ولادت ہوئی ۔
طلب معاش کے لیے رخت سفر:
تجارت کے شوق نے مولانا موصوف کو 1965ء میں ممبئی شہر پہنچا دیا ، ابتدا میں آپ اپنے محسن احمد بھائی کے ہمراہ کپڑے کا کاروبار کرتے رہے، مگر جلد ہی لوہے کے کاروبار نے آپ کی توجہ کھینچ لی اور اسی کاروبار میں لگ گئے۔ جب تک مولانا موصوف ممبئی کے بھارت بازار سوناپور میں رہے، نماز کے لیے مسجد اہل حدیث موٴمن پورہ میں جایا کرتے تھے، اس وقت ممبئی میں صرف تین چار مسجدیں تھیں۔ موٴمن پورہ اہل حدیث مسجد، بنگالی مسجد، فیت والی مسجداور مسجداہل حدیث مرول ناکہ جس میں موٴمن پورہ کی مسجد کو مرکزیت حاصل تھی۔ پوری ممبئی کے اہل حدیث افراد وہیں جمع ہوتے تھے۔جمعہ کی نماز کے لیے بھانڈوپ ، ملنڈ، تھانہ ، دہیسرجیسے دور دراز علاقوں سے لوگ یہاں آتے تھے ، اس وقت موٴمن پورہ مسجد کے امام وخطیب مولانا مختار احمد ندوی تھے۔ جب تک مولانا موصوف چھوٹا سونا پور رہے ، اس وقت تک مسجد اہل حدیث موٴمن پورہ سے منسلک رہے، مگر جب آپ کرلا آگئے اور کٹیرمنڈل میں دکان خرید کر کاروبار کرنے لگے، تو قریب میں نماز کے لیے کوئی نظم نہ ہونے کی وجہ سے آپ مسجد اہل حدیث فیت والا کمپاوٴنڈجا یا کرتے تھے۔ پھر جلد ہی آپ نے چند مخلص احباب خصوصاً سیٹھ ابراہیم ، جناب محمد حیات ، یونس بھائی (وکیل) عبد الحمید مقادم ، مولانا عبد الخالق وغیرھم کو لے کر آپ نے ”جمعیت اہل حدیث کرلا“ کی بنا ڈالی اور دعوت وتبلیغ کا کام شروع کردیا ۔ گر چہ یہ باقاعدہ تنظیم نہیں تھی ، مگر پھر بھی کسی حدتک جماعت کا کام جاری رہا، اور یہ غالباً 1972ء کا زمانہ تھا اور اس وقت جماعت کے لیے ماحول ساز گار نہیں تھا۔ توحید کی دعوت دشوار گذار تھی،کیونکہ بدعات وخرافات کا چلن تھااور جماعتی افراد کی تعداد بھی قلیل تھی۔ ایسے دشوار گذار ماحول میں بھی مولانا موصوف ہمت وحکمت سے کام لیتے رہے۔پہلے پہل آپ غفور خان اسٹیٹ میں ایک دیوبند ی حافظ سے ان کی دوکان خریدی اور اس پر مولانا اینڈ بردرس کا بورڈ لگوادیا، پھر کچھ مختصر عرصہ میں مزید دو دوکان خرید کر اندر ہی اندر کام مکمل کرکے صبح مدرسہ جامعة الرّشاد کا بورڈ آویزاں کردیا، گویا موجودہ جامعة الرشاد مولانا موصوف کی حکمت ودانائی اور جرأت وہمت سے عمل میں آیا، اس وقت مولانا کے مخلص ساتھیوں میں چند اشخاص کا نام قابل ذکر ہے، جنھوں نے مولانا کے ہمراہ کاندھے سے کاندھا ملاکر جماعتی کاز کو آگے بڑھانے میں مدد کی۔ جیسے حاجی خان محمد مٹی والے، عبد القدوس مٹی والے، برکت سیٹھ مٹی والے، حاجی نذیر احمد ، دوست محمد، محمد عباس وغیرھم ۔
موصوف پیکر علم وفضل ہونے کے ساتھ ساتھ بے حد خوش طبع، انتہائی ملنسار اور مخلص انسان تھے۔ جذبہ خدمت خلق موصوف کی ذات کے نمایاں اوصاف تھے۔ یہی وجہ رہی کہ عبد اللہ اسٹیل والے ، جناب محمد شکیل سلیا والے ، جناب محمد یونس وغیرہم نے آپ کو سر آنکھوں پر بٹھایا اور نہایت ہی قدر واحترام سے دیکھا اور آپ کو اپنا قائد منتخب کیا۔
کرلا واطراف میں دعوتی سرگرمیاں شروع ہوگئیں۔ اسی اثنا میں مرول گاوٴں کی مسجد میں ممبئی کی جماعت اہل حدیث کی میٹنگ مولانا مختار احمد ندوی رحمہ اللہ کی صدارت میں منعقد کی گئی ، جس میں مولانا مختار احمد ندوی رحمہ اللہ نے مولانا کا نام امیر کے لیے منتخب فرمایا، بقیہ حاضرین نے تائید کردی ۔ اس طرح مولانا صوبائی جمعیت اہل حدیث کے امیر منتخب ہوئے ۔ امیر ہونے کے بعد مولانا کی دعوتی سرگرمیوں میں مزید تیزی آگئی۔ اس وقت اہل حدیث علماء میں مولانا عبدالخالق (مہسلہ ) مولانا محمد امین ریاضی ، مولانا علیم الدین نے آپ کا ساتھ دیا اور اس توحید کے مشن کو آگے بڑھا یا ، رفتہ رفتہ ان بزرگوں کی انتہائی کوششوں سے ، مسجدوں اور مدرسوں میں اضافہ ہوا،خصوصی طور پر چند مساجد ومدارس کا ذکر کرنا ضروری ہے۔کرلا کٹیر منڈل اہل حدیث مسجد، کرلا ہال روڈمسجد، کپاڈیہ نگر اہل حدیث مسجد ، ساکی ناکہ اہل حدیث مسجد، وائر والی گلی اہلِ حدیث مسجد، کالینہ مسجد العمر، دہیسر وکاشی میرا کی مساجد ، مسجد اہل حدیث بھارتیہ کملانگر، مسجد اہل حدیث اسلفا، مسجد ومدرسہ اہل حدیث اشوک نگر، ان جیسے بیشتر مساجد ومدارس کی تعمیرکا بنیادی عمل مرحوم مولانا عبد الحق قاسمی کے بدست ہوا، الحمد للہ آج ممبئی ومضافات میں تقریباً سو سے زائد مساجد ومدارس کا قیام عمل میں آچکا ہے۔یہ سب انھیں بزرگوں کی جدوجہد اور کاوشوں کا نتیجہ ہے۔
پھر طبیعت نے اور جلا بخشی تو دعوت وتبلیغ کو خوب تر وسیع کرنے کے لیے مولانا موصوف نے خطہ کوکن کا دورہ کیا ، یہاں پر خرافات اور جاہلانہ رسومات عام تھیں۔ وہاں پر آپ نے کافی محنت اور کدوکاوش کی جس کے نتیجے میں الحمد للہ روہا،خیرا خورد، چورڈا، مہسلہ، شڈکولی، پابرا، وغیرہ میں قرآن وحدیث کی روشنی عام ہوئی، اور آج جمعیت اہل حدیث کے بینر تلے مختلف گاوٴں میں دینی اجتماعات ہورہے ہیں ۔
گذ شتہ سال 18/ جنوری 2011ء کو آپ کی شریک حیات انتقال فرما گئیں ، مولانا موصوف کو کافی رنج وغم ہوا، لیکن آپ مسلسل اپنے مشن میں لگے رہے۔ اور زندگی کے آخری لمحات تک دعوت وتبلیغ کے لیے کوشاں رہے اور آخر کا ر ہنستے ہنستے اور چلتے چلتے ہم سب کو داغ مفارقت دے گئے:انا للہ وانا الیہ راجعون
بروز جمعرات ، رات ۲/ بجے ،۵/جولائی 2012 کو اللہ رب العزت نے اپنے پاس بلالیااوربعد نمازظہر جری مری قبرستان میں ہزاروں کی تعداد میں عوا م الناس وخصوصاً علما ء کی ایک جم غفیر کی موجودگی میں نماز ہ جنازہ امیر جماعت مولانا عبدالسلام سلفی نے پڑھائی۔ ان کے پسماندگان میں پانچ بیٹے اور ایک بیٹی ہیں۔ اللہ رب العزت ان تمام کوصبر جمیل عطا فرمائے ۔ (آمین )

’’ماہنامہ دی فری لانسر‘‘ ممبئی
 
Top