• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مولانا مفتی محمد تقی عثمانی﷾

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی﷾


گرامی قدر مکرم جناب مولانا عبدالرحمن مدنی صاحب زید مجدکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
امید ہے کہ مزاجِ گرامی بعافیت ہوں گے۔
بندہ کے علم میں آیا ہے کہ آنجناب قرآن کریم کے نسخے مختلف قراء توں میں شائع کرنے کا ارادہ فرما رہے ہیں۔ اگرچہ بلا شبہ تمام قراء تیں (جو شرائط پوری کرتی ہوں) منزل من اللہ ہیں ، اور اُن کی قرآنیت ثابت ہے، لیکن اس طرح الگ الگ قراء توں کے مصاحف کے شائع ہونے سے مجھے اپنے ملک او رماحول میں عوامی انتشار کا خطرہ معلوم ہو رہا ہے۔ دوسرے ملکوں میں ایسے مصاحف شائع ہوئے ہیں، مگر وہاں وہ قراء تیں متعارف ہیں، مثلاً مغرب کے ممالک۔ لیکن ہمارے ملک میں جہاں یہ یقین عام ہے کہ قرآن کریم میں کہیں زیر زبر کا فرق نہیں ہے اگر اس قسم کے مصاحف شائع ہوں گے تو عوام میں غلط فہمیوں اور شبہات کا سلسلہ شروع ہونے کا اندیشہ ہے۔ ظاہر ہے کہ رسم قرآنی جو حضرت عثمان﷜ نے اختیار فرمایا، اس میں تمام قراء توں کی گنجائش پہلے سے موجود ہے۔ اس لئے تحفظ قراء ات کیلئے بھی ایسا کرنے کی ضرورت معلوم نہیں ہوتی۔ فقہاء کرام نے جاہل عوام کے مجمع میں دوسری قراء ت میں قرآن کریم کی تلاوت سے بھی اس لئے روکا ہے کہ انتشار پیدا نہ ہو۔ امید ہے کہ آنجناب اس پہلو پر ضرور غور فرمائیں گے۔
والسلام
بندہ محمد تقی عثمانی​
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مکرم و محترم جناب مفتی محمد تقی عثمانی صاحب ﷾
اَلسّلام علیکم ورحمۃ اﷲ وَبرکاتہ!
آپ کا مکتوبِ گرامی نظر نواز ہوا جس میں آپ نے قرآن کریم کی متنوع قراء ا تِ متواترہ کے قرآن ہونے کی بھر پور اَنداز میں تائید فرمائی ہے اس پر میں آپ کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔
سب سے پہلے تو میں معذرت خواہ ہوں کہ ایکمزمن علالت میں کچھ اَفاقہ ہونے پرآپ کے مکتوب گرامی کاجواب لکھ رہا ہوں جوانہی دنوں میرے سامنے آیاہے۔
درج ذیل چند اُمور قابل تنقیح ہیں:
میں اپنے اِدارہ کی طرف سے آپ کو اطلاع دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان میں مختلف قرآء توں میں قرآن شائع کرنے کا ہمارا کوئی پروگرام نہیں ہے، اگرچہ یہاں کی یونیورسٹیز، دینی جامعات و مدارس اور ان کے اَکابرین عرصہ سے نہ صرف ان قرآء توں پر کام کر رہے ہیں بلکہ اپنی تلاوتوں سے انہیں متعارف بھی کروارہے ہیں۔ اس ضمن میں میری ناچیز رائے یہ ہے کہ مختلف قرآء توں میں قرآن مجید کی اِشاعت کے بارے میں بین الاقوامی اِدارے اور مذکورہ بالا یونیورسٹیاں اور علمی اِدارے جو کام کر رہے ہیں ان کا تعارف کروانا تقاضائے مصلحت ہے۔ان قرآء توں کے تعارف کا یہ فائدہ بھی ہو گاکہ علمی سطح پر جو کام موجود ہے اس سے عوام میں قرآء توں کا تعارف ہو کر یہ واضح ہو جائے گا کہ قرآن کریم میں حرکتوں یا حرفوں کی کمی تبدیلی کا مفہوم یہ ہے کہ اپنی طرف سے ذرا برابر تبدیلی نہیں ہو سکتی جبکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو اختیار موجود ہے اس کی نفی نہیں کی جا سکتی۔
آپ نے رسم عثمانی کی اَہمیت کا جو ذکر فرمایا ہے اس کے متعلق آپ کا یہ مؤقف درست ہے کہ اس میں تمام متواتر قراء توں کی گنجائش موجو د ہے۔مزید برآں آپ نے قرآن کریم میں زیر وزبر کافرق نہ ہونے کاجوذکر کیاہے وہ صرف اس حد تک درست ہے کہ قرآن کے بعض مقام ایسے ہیں (جس کاذکر تاج کمپنی سمیت مختلف اِشاعتی ادارے کرتے رہتے ہیں) کہ ان کی تبدیلی سے کفرلازم ہوتاہے۔٭ البتہ اپنی طرف سے تو لہجے کی تبدیلی بھی جائز نہیں ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
لیکن متنو ع قراء توں میں نہ صرف حر کات کا اختلاف، حرفوں کاتنوع اور انداز ِتلاوت کا فرق موجودہے بلکہ اس پر آج اُمت کے علماء کا اِجماع بھی ہے۔ میں اس طر ف بھی آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ مذکورہ بالا تنوع نہ صرف دیگر متواتر قراء توں میں موجود ہے بلکہ صرف روایت ِحفص (جو شرق اوسط سمیت برصغیر پاک وہندمیں مروّج ہے) اس میں بھی اِجماعی طور پر موجودہے مثلاً ’’ لَسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُصَیْطِرْ ‘‘ (الغاشیہ:۲۲)میں’ ص ‘کی جگہ ’س‘ پڑھنا بھی درست ہے اسی طرح سورالروم:۵۴ میں’’ ضَعْفٍ ‘‘ کو’ ض ‘کے ضمہ کے ساتھ’’ضُعْفٍ ‘‘ بھی پڑھا جاسکتا ہے اور’ض‘ کے فتحہ کے ساتھ بھی۔(یہ دونوں حرکتو ںکی تبدیلی روایت حفص میں ہی موجود ہے)
بلکہ امام حفص کی تو صرف روایت ہے جب کہ اصل قاری امام عاصم جن سے دو متواتر روایتیں ثابت ہیں۔ ان کے پہلے راوی امام شعبہ ’’بِسْمِ اللّٰہِ مُجْرٰٹہا‘‘ (میم کے ضمہ کے ساتھ اور امالہ کے بغیر)، جبکہ دوسرے راوی امام حفص، جن کی روایت ہمارے ہاں رائج ہے، ’’بِسْمِ اللّٰہِ مَجْرٹہا‘‘ (میم کے فتحہ اور امالہ کے ساتھ) پڑھتے ہیں۔
میرا دل چاہتا ہے کہ میں اپنی باتیں زیادہ تفصیل سے لکھوں لیکن ناسازی طبع حائل ہے۔ اُمید ہے کہ آپ اپنی نیک دعائوں میں یاد رکھیں گے۔
برادرِ اکبر جناب مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب اور دیگر سب عزۃ واحباب کے لئے سلام مسنون۔
آپ کا مخلص
حافظ عبد الرحمن مدنی​
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
( ۲ )


شیخ الحدیث مولانا حافظ عبد المنان نور پوری﷫


جناب محترم ڈاکٹر حافظ حسن مدنی صاحب و جناب محترم ڈاکٹر قاری حمزہ مدنی صاحب حفظہم اللہ سبحانہ وتعالیٰ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ، اما بعد!
خیریت موجود عافیت مطلوب۔ مکتوب گرامی موصول ہوا۔ اللہ تعالیٰ آپ کے علم، عمل، رزق، عمر اور اولاد میں برکت فرمائے نیز نیک مقاصد میں آپ کو فائز المرام او رکامیاب بنائے۔ آمین یارب العالمین!
مکتوب میں چند مفتیان کرام، حفظہم اﷲ العلام، کا ایک خاص فتویٰ بھی ہے اس سلسلہ میں میرا مشورہ ہے کہ آپ دونوں اور چاروں مفتیان کرام ایک دفعہ إرشاد الفحول سے المقصد الأول في الکتاب العزیز کی الفصل الثانی اور سیر أعلام النبلاء جلد ۱۰ صفحہ۱۷۱ سے حافظ ذہبی﷫ کا قول ونحن نقول: نتلو بھا وإن کانت لا تعرف إلا عن واحد لکونھا تلقیت بالقبول فأفادت العلم، وھذا واقع في حروف کثیرۃ، وقراء ات عدیدۃ، ومن ادّعیٰ تواترھا فقد کابر الحس …الخ‘‘ ضرور مطالعہ فرمائیں۔
یہ صرف اور صرف الدین النصیحۃ کے پیش نظر لکھ رہا ہوں، واللہ اس کے سوا اور کچھ مقصود نہیں۔ تمام احباب واخوان کی خدمت میں سلام پیش فرما دیں۔ نیک دعاؤں میں یاد رکھیں۔
والسلام
مولانا عبدالمنان نورپوری
سرفراز کالونی، گوجرانوالہ​
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
محترمی و مکرمی شیخ الحدیث حافظ عبدالمنان نور پوری ﷫
اَلسلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
مزاج گرامی قدر !
آپ کی خدمتِ عالیہ میں ماہنامہ ’رُشد‘ کی طرف سے حجیتِ قراء ات کے مسئلہ پر ایک سوال نامہ ارسال کیا گیا جس کے ساتھ چار مقتدر علماء کا فتویٰ بھی لف تھا جس سے مقصود یہ تھا کہ سوالات کا تفصیلی جواب بصورت فتویٰ اِرشاد فرمائیں۔ لیکن اگر مصروفیات اِجازت نہ دیں تو فتویٰ ملفوفہ پر تائیدی نوٹ رقم فرما کر دستخط فرما دیں، لیکن آپ کا عزت نامہ موصول ہوا جس میں آپ نے فتویٰ کے بجائے مزید ایک علمی مسئلہ کی نشاندہی فرما دی ہے لہٰذا ہم نے ضروری سمجھا ہے کہ اس کی وضاحت پیش کردیں۔
جامعہ لاہور الاسلامیہ کی طرف سے شائع شدہ فتویٰ میں موجود ہے کہ قراء اتِ عشرہ متواترہ ہیں جس پر آپ نے اِمام شوکانی﷫ کی کتاب إرشاد الفحول کے المقصد الأوّل في الکتاب العزیز کی فصل ثانی اور سیر أعلام النبلاء جلد نمبر۱۰ صفحہ ۴۱ پر موجود بحث کو دیکھنے کی تلقین فرمائی، ہم اس پر آپکے ممنون ہیں اور ذیل میں اِمام شوکانی﷫ کی مذکورہ عبارت کا ترجمہ اور مزید جن مقامات پر اُنہوں نے اس بحث کو ذکر کیا ہے، پیش کرتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام شوکانی ﷫ نے یہ مؤقف اختیار فرمایا ہے کہ قراء اتِ عشرہ میں سے ہر ہر قراء ت کے جمیع اَلفاظ متواتر نہیں ہیں بلکہ بعض اَلفاظ ایسے بھی ہیں جن کی سند تواتر اسنادی کے درجہ تک نہیں پہنچتی۔ آپ اِرشاد الفحول میں رقمطراز ہیں:
’’اختلف في المنقول آحادا، ھل ھو قرآن أم لا؟ فقیل: لیس بقرآن، لأن القرآن ما تتوفر الدواعي نقلہ لکونہ کلام الرب سبحانہ، وکونہ مشتملا علی الأحکام الشرعیۃ، وکونہ معجزا۔ وما کان کذلک فلا بد أن یتواتر، فما لم یتواتر فلیس بقرآن۔ ھکذا قرر أھل الأصول التواتر وقد ادّعی تواتر کل واحدۃ من القرائات السبع وھي قرائۃ أبي عمرو ونافع وعاصم وحمزۃ والکسائي وابن کثیر وابن عامر دون غیرھا۔ وادعی أیضا تواتر لقرائات العشر وھي ھذہ مع قرائۃ یعقوب وأبي جعفر وخلف، ولیس علی ذلک أثارۃ من علم فإن ھذہ القرائات کل واحدۃ منہا منقولۃ نقلا آحادیا، کما یعرف ذلک من یعرف أسانید ھؤلاء القراء لقرائاتہم، وقد نقل جماعۃ من القراء الإجماع علی أن في ھذہ القرائات ما ھو متواتر، وفیھا ما ھو آحاد ولم یقل أحد منھم بتواتر کل واحدۃ من السبع فضلًا عن العشر وإنما ھو قول قالہ بعض أھل الأصول وأھل الفن أخبر بفنہم۔
والحاصل أن ما اشتمل علیہ المصحف الشریف واتفق علیہ القراء المشہورون فہو قرآن، وما اختلفوا فیہ، فإن احتمل رسم المصحف قرائۃ کل واحد من المختلفین مع مطابقتہا للوجہ الإعرابي والمعنی العربي فہي قرآن کلُّہا، وإن احتمل بعضہا دون بعض، فإن صحّ إسنادا ما لم یحتملہ وکانت موافقۃ للوجہ الإعرابي فہي شاذۃ ولھا حکم أخبار الآحاد في الدلالۃ علی مدلولہا وسواء کانت من القرائات السبع أومن غیرھا۔ وأما ما لم یصحّ إسنادہ مما لم یحتمل الرسم فلیس بقرآن ولا منزل منزلۃ أخبار الآحاد أما انتفاء کونہ قرآنا فظاھر وأما انتفاء تنزیلہ منزلۃ أخبار الآحاد عدم صحۃ إسنادہ وإن وافق المعنی العربي والوجہ الأعرابی فلا اعتبار بمجرد الموافقۃ مع عدم صحّۃ الأسناد۔‘‘
(اِرشاد الفحول: ص ۸۷-۸۸، دارالکتب العربي ۱۹۹۹ء)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
’’اِس بارے میں اِختلاف ہے کہ قرآن کریم کے جو الفاظ خبر واحد سے نقل ہوئے ہیں کیا وہ قرآن ہیں یا نہیں؟ یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ قرآن نہیں ہے کیونکہ اس میں وہ شروط موجود نہیں ہیں جو قرآن کے لیے ضروری ہیں اس لیے کہ قرآن کلام ربانی، اَحکام شرعیہ پرمشتمل ایک معجزہ ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ وہ متواتر ہو اگر وہ متواتر نہیں تو وہ قرآن نہیں یہ اُصولین کا نقطۂ نگاہ ہے لہٰذا قراء اتِ سبعہ یعنی نافع ، ابن کثیر، ابن عمرو، ابن عامر، عاصم، حمزہ اور کسائی﷭ میں سے ہر ایک متواتر ہے اسی میں ان کا دعویٰ یہ بھی ہے کہ قراء اتِ عشرہ بھی متواتر ہیں جس میں مذکورہ سات کے علاوہ ابوجعفر، یعقوب اور خلف﷭ کی قراء ت شامل ہے جبکہ اس پر کوئی علمی دلیل موجود نہیں ہے بلکہ ان میں سے ہر ایک قراء ات خبر آحاد سے منقول ہے جس طرح قراء ات کی اَسناد کے عالم اس سے پوری طرح باخبر ہیں۔ قراء کی ایک جماعت نے اس پر اِجماع نقل کیا ہے کہ قراء اتِ عشرہ میں سے بعض قراء ات متواترہیں اور بعض خبر واحد کے ذریعہ سے منقول ہیں اور کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ قراء اتِ سبعہ میں سے ہرایک متواتر ہے چہ جائیکہ عشرہ کے بارے میں یہ بات کہی جائے اور ہر صاحبِ فن اپنے فن کے بارے میں زیادہ باخبر ہوتا ہے جیساکہ بعض اُصولیوں نے کہا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حاصل کلام یہ ہے کہ جو کچھ مصحف میں موجود ہے اور مشہور قراء جس پر متفق ہیں وہ قرآن ہے اور جس میں قراء کا اِختلاف ہو وہ اگر رسم اور لغت عرب کے موافق ہے تو وہ بھی سارا کا سارا قرآن ہے لیکن اگر سند صحیح ہو وجہ عربی کے موافق ہو لیکن رسم مصحف اس کو قبول نہ کرتا ہو تو وہ شاذ ہے تو اس کا حکم دلالت میں خبر آحاد کی مثل ہے برابر ہے کہ وہ قراء اتِ سبعہ میں سے ہو یا ان کے علاوہ لیکن جس کی سند بھی صحیح نہ اور رسم مصاحف سے بھی مخالف ہو اگرچہ نحوی وجہ کے موافق ہو تو نہ تو وہ قرآن ہے اور نہ ہی اس کا درجہ خبر آحاد کا ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِمام شوکانی ﷫ کی مذکورہ عبارت سے ماخوذ نکات
(١) اِمام شوکانی﷫ نے قراء ت کے بارے میں اَئمہ کے مذاہب کا تذکرہ کیا ہے کہ بعض علماء کے ہاں قرائاتِ عشرہ ساری کی ساری متواترہ ہیں، جبکہ ایک نظریہ یہ ہے کہ قراء ات کی اَسناد تواتر کے درجہ تک نہیں پہنچتی بلکہ خبر آحاد ہیں، ایک جماعت نے قراء کا اِجماع نقل کیا ہے کہ قراء اتِ متواترہ کے ساتھ ساتھ کچھ اَلفاظ خبر آحاد سے بھی مروی ہیں۔
(٢) اِمام شوکانی﷫ نے اس بحث کا نتیجہ یوں نکالا ہے کہ ہر وہ قراء ت جو رسم مصحف کے مطابق ہے اور جمیع قراء اسکے قرآن ہونے پر متفق ہیں تو وہ بالاتفاق قرآن ہے اور اگر قراء میں اختلاف موجود ہے لیکن اس کی سند صحیح ہے برابرہے کہ وہ متواتر ہو یا آحاد، رسم مصحف کے بھی موافق اور لغت عرب سے بھی موافق ہو تو وہ بھی بالاتفاق قرآن مجید ہے۔ البتہ کسی قراء ات کی سند صحیح ہے اور وجہ اعرابی کے بھی مطابق ہے لیکن رسم مصحف کے خلاف ہے تو وہ قراء تِ شاذہ ہے۔ بطور قرآن اس کو قبول نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کا درجہ خبر آحاد کی مثل ہوگا جس سے اِستنباط ہوسکتا ہے۔
دوسری جگہ اپنی کتاب السیل الجرار میں فرماتے ہیں:
’’والحق أن القرائات السبع فیھا ما ھو متواتر وفیھا ما ھو آحاد وکذلک القرائات الخارجۃ عنھا وقد جمعنا في ھذا رسالۃ حافلۃ ونقلنا فیھا مذاھب القرائ، وحکینا إجماعھم المروي من طریق أھل ھذا الفن: أن المعتبر في ثبوت کونہ قرآنا ھو صحۃ السند مع احتمال رسم المصحف لہ وموافقتہ للوجہ العربي۔ وأوضحنا أن ھذہ المقالۃ، أعني کون السبع متواترۃ وما عداھا شاذاً لیس بقرآن۔ لم یقل بہا إلا بعض المتأخرین من أھل الأصول، ولا تعرف عند السلف ولا عند أھل الفن علی اختلاف طبقاتہم و تباین أعصارھم۔‘‘(السیل الجرار: ۲۳۹)
’’حق بات یہ ہے کہ قراء اتِ سبعہ میں بعض متواتر ہے اور بعض آحاد ایسے ہی وہ قراء ات ہے جو سبعہ کے علاوہ (قراء اتِ ثلاثہ)ہیں۔ اس بارے میں ہم نے ایک باقاعدہ رسالہ بھی تحریر کیا ہے جس میں قراء کے مذاھب نقل کئے ہیں اور اَہل فن کا اِجماع بھی نقل کیا ہے کہ قرآن ہر وہ شے ہے جس کی سند صحیح ہو، رسم عثمانی کے موافق ہو اور وجہ عربی کے بھی موافق ہو۔ اس میں یہ بھی وضاحت کی ہے کہ یہ کہنا، کہ قراء اتِ سبعہ متواتر ہیں اور اس کے علاوہ باقی جمیع قراء اتِ شاذ ہیں، یہ بعض متاخرین اُصولیوں کے علاوہ کسی نے نہیں کہا، سلف نے اور اہل فن میں سے کسی نے بھی کسی بھی طبقہ اور عصر میں ایسی کوئی بات نہیں کہی۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اسی بحث کو اِمام شوکانی﷫ نے نیل الأوطار میں باب الحجۃ في الصلوٰۃ بقراء ۃ ابن مسعود وأبي میں تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
’’والمصنف -رحمہ اﷲ- عقد ھذا الباب للرد علی من یقول: إنھا لا تجزئ في الصلاۃ، إلا قراء ۃ السبعۃ القراء المشہورین۔ قالوا: لأن ما نقل أحادیا لیس بقرآن، ولم تتواتر إلا السبع دون غیرھا، فلا قرآن إلا ما اشتملت علیہ۔ وقد رد ھذا الاشتراط إمام القرائات الجزري، فقال في النشر: زعم بعض المتأخرین أن القرآن لا یثبت إلا بالتواتر ولا یخفی ما فیہ لأنا إذا اشترطنا التواتر في کل حرف من حروف الخلاف انتفی کثیر من أحرف الخلاف الثابتۃ عن ھؤلاء السبعۃ وغیرھم۔ وقال: ولقد کنت أجنح إلی ھذا القول ثم ظھر فسادہ۔ وموافقۃ أئمۃ السلف والخلف علی خلاف وقال: القرائۃ المنسوبۃ إلی کل قارئ من السبعۃ وغیرھم منقسمۃ إلی المجمع علیہ، والشاذ غیر أن ھؤلاء السبعۃ لشھرتھم وکثرۃ الصحیح المجمع علیہ في قرائتھم ترکن النفس إلی ما نقل عنھم فوق ما نقل عن غیرھم۔ فانظر کیف جعل اشتراط التواتر قولا لبعض المتأخرین وجعل قول أئمۃ السلف والخلف علی خلافہ۔
وقال أیضاً في النشر: کل قرائۃ وافقت العربیۃ ولو بوجہ ووافقت أحد المصاحف العثمانیۃ ولو احتمالا وصح إسنادھا فھي القرائۃ الصحیحۃ التي لا یجوز ردھا، ولا یحل إنکارھا، بل ھي من الأحرف السبعۃ التي نزل بھا القرآن ووجب علی الناس قبولھا سواء کانت عن الأئمۃ السبعۃ أم عن العشرۃ أم عن غیرھم من الأئمۃ المقبولین، ومتی اختل رکن من ھذہ الأرکان الثلاثۃ أطلق علیھا ضعیفۃ أو شاذۃ أو باطلۃ سواء کانت عن السبعۃ أو عمن ھو أکبر منھم، ھذا ھو الصحیح عند أئمۃ التحقیق من السلف والخلف، صرح بذلک المدني والمکي والمھدوي وأبوشامۃ، وھو مذھب السلف الذي لا یعرف من أحدھم خلافہ، قال أبوشامۃ في ’المرشد الوجیز‘ فلا ینبغي أن یغتر بکل قرائۃ تُعزَی إلی أحد ھؤلاء السبعۃ، ویطلق علیھا لفظ الصحۃ وأنھا أنزلت ھکذا، إلا إذا دخلت في تلک الضابط، وحینئذ لا ینفرد مصنف عن غیرہ، ولا یختص ذلک بنقلھا عنھم، بل إن نقلت عن غیرھم من القراء فذلک لا یخرجھا عن الصحۃ، فإن الاعتماد علی استجماع تلک الأوصاف لا علی من تنسب إلیہ، إلی آخر کلام ابن الجزري الذي حکاہ عنہ صاحب ’الإتقان‘۔ وقال أبو شامۃ: شاع علی السنۃ جماعۃ من المقرئین المتأخرین وغیرھم من المقلدین أن السبع کلھا متواترۃ أي کل حرف مما یروی عنھم۔ قالوا: والقطع بأنھا منزلۃ من عند اﷲ واجب ونحن نقول بھذا القول، ولکن فیما أجمعت علی نقلہ عنھم الطرق واتفقت علیہ الفرق من غیر نکیر فلا أقل من اشتراط ذلک إذ لم یتفق التواتر في بعضھا۔ إذا تقرر لک إجماع أئمۃ السلف والخلف علی عدم تواتر کل حرف من حروف القرائات السبع، وعلی أنہ لا فرق بینھا وبین غیرھا، إذا وافق وجھا عربیا وصح إسنادہ ووافق الرسم ولو احتمالا بما نقلناہ عن أئمۃ القرائتین لک صحۃ القرائۃ في الصلاۃ بکل قرائۃ متصفۃ بتلک الصفۃ سواء کانت من قرائۃ الصحابۃ المذکورین في الحدیث أو من قرائۃ غیرھم۔ وقد خالف ھؤلاء الأئمۃ النویري المالکي في ’ شرح الطیبۃ‘ فقال عند شرح قول ابن الجزري فیھا:

فکل ما وافق وجہ نحوي
وکان للرسم احتمالا یحوي

وصح إسنادا ھو القرآن
فھذہ الثلاثۃ الأرکان

وکل ما خالف وجھا أثبت
شذوذہ لو أنہ في السبعۃ​
 
Top