• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مولانا مفتی محمد تقی عثمانی﷾

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ما لفظ ظاھرہ أن القرآن یکتفي في ثبوتہ مع الشرطین المتقدمین بصحۃ السند فقط ولا یحتاج إلی التواتر وھذا قول حادث مخالف لا جماع الفقہاء والمحدثین وغیرھم من الأصولیین والمفسرین۔ وأنت تعلم أن نقل مثل الإمام الجزري وغیرہ من أئمۃ القراء لا یعارضہ نقل النویري لما یخالفہ، لأنا إن رجعنا إلی الترجیح بالکثرۃ أو الخبرۃ بالفن أو غیرھما من المرجحات قطعنا بأن نقل أولئک الأئمۃ أرجح۔‘‘ (نیل الأوطار: ۲۳۸-۲۳۹)
’’فرماتے ہیں کہ مصنف﷫ کا اس باب کو قائم کرنے کا مقصد ان لوگوں کا رد کرنا ہے جو یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ قراء سبعہ کی قراء ت کے علاوہ کسی کی قراء ات نما زمیں جائز نہیں ہے اور جو قراء ات خبر آحاد سے منقول ہیں وہ قرآن نہیں ہیں۔متواتر قراء ات صرف سبعہ ہیں اور صرف یہی قرآن ہیں حالانکہ اس شرط کا اِمام القراء ات ابن الجزری﷫ نے النشر میں ردّ کیا ہے اور کہا ہے:
’’بعض متاخرین کا زعم ہے کہ قرآن صرف تواتر سے ثابت ہوتا ہے جبکہ یہ بات مخفی نہیں کہ اگر ہم نے یہ شرط لگا دی تو بہت سے اَحرف اورکلمات ثابتہ (جو ان قراء سبعہ یا ان کے علاوہ سے منقول ہیں) کی نفی ہوجائے گی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پھر فرماتے ہیں: میں نے بھی اسی قول کو اختیار کیا تھا پھر جب اس کے فساد اور سلف و خلف کے بارے میں علم ہوا کہ وہ اس کے خلاف ہیں تو میں نے ترک کردیا۔
نیز فرماتے ہیں: وہ قراء ات جو قراء سبعہ اور دیگر کی طرف منسوب ہیں دو طرح سے ہیں۔ بعض ایسی ہیں جو مجمع علیہ اور بعض شاذ ہیں، باقی جو قراء اتِ سبعہ ہیں ان کی شہرت کی وجہ سے اور اس لیے بھی کہ ان میں صحیح اور مجمع علیہ قراء ات ہیں اس لیے طبیعت ان کی طرف زیادہ مائل ہے۔
اس کے بعد امام شوکانی ﷫ فرماتے ہیں:
کہ یہاں غور کرنا چاہئے کہ کس طرح اِمام ابن جزری ﷫ نے تواتر کی شرط کو بعض متاخرین کا قول قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ سلف و خلف اس کے مخالف ہیں۔
اپنے اس تبصرے کے بعد دوبارہ پھر امام جزری﷫ کا قول نقل کیا ہے کہ آپ نشر میں فرماتے ہیں:
’’ہر وہ قراء ت جو صحیحہ ہے اس کا ردّ کرنا جائز نہیں، اس کا اِنکار کرنا حرام ہے اور وہ اُن اَحرف سبعہ میں سے ہے جن پر قرآن نازل ہوا ہے جن کا قبول کرنا واجب ہے ، برابر ہے کہ وہ اَئمہ سبعہ یا اَئمہ عشرہ کی قراء ت ہو یا ان کے علاوہ کسی بھی قابل اِعتماد امام سے منقول ہو۔ جب بھی ان اَرکان ثلاثہ میں سے کوئی رُکن فوت ہوجائے تو وہ قراء ت ضعیفہ، شاذہ یا باطلہ ہوگی اگرچہ وہ اَئمہ سبعہ کی قراء ت ہو یا ان سے بھی کسی بڑے امام کی ہو۔ سلف و خلف میں سے محققین کا یہی مذہب ہے جس کی مکی بن ابی طالب﷫، امام دانی﷫، ابوالعباس مہدوی﷫ اور اِمام شامہ﷫ نے صراحت کی ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس بارے میں اِمام ابو شامہ﷫’ المُرشد الوَجیز‘ میں فرماتے ہیں:
’’کسی کے یہ لائق نہیں کہ اس بات سے دھوکہ کھائے کہ قرائِ سبعہ کی طرف منسوب ہر روایت مطلق طور پر صحیح ہے اگرچہ اسی طرح ہی نازل ہوئی ہو، ہاں اگر اسے اس ضابطہ میں داخل کردیا جائے اور وہ اس پر پوری اُترے تو اُسے درست قرار دیا جاسکتا ہے۔اس وقت اس میں کوئی بھی ناقل کسی دوسرے سے منفرد نہیں ہے اور نہ اس کو خاص کیا جائے گا کہ وہ انہی قرائِ سبعہ سے نقل کرے بلکہ وہ اس کے علاوہ بھی کسی سے نقل کرے تو درجہ صحت سے وہ کسی طرح بھی نہیں گرتی کیونکہ اعتماد فقط اس پر ہوگا کہ آیا اس میں اَوصاف ثلاثہ جمع ہیں؟ نہ کہ اس پر کہ وہ منسوب کس سے ہے۔‘‘
اسی طرح ابوشامہ﷫ فرماتے ہیں کہ متاخر قراء اور مقلدین میں یہ بات عام طور پر معروف ہے کہ قراء اتِ سبعہ ساری کی ساری متواتر ہیں یعنی ہرایک حرف جوبھی قرائِ سبعہ سے مروی ہے وہ درجۂ تواتر کو پہنچا ہوا ہے۔
اور ہم کہتے ہیں قطعی بات یہ ہے کہ اس پر اِیمان لانا واجب ہے کہ وہ منزلۃ، من عنداللہ ہے۔ لیکن اس میں کم اَز کم یہ شرط ضرور پائی جائے کہ اس کے طرق متفق ہوں اور جمیع علماء کا اس پر اِتفاق ہو اور کسی نے اس کے قران ہونے کا اِنکار نہ کیاہو اگرچہ وہ تواتر کے درجہ تک نہ بھی پہنچتی ہوں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِمام ابوشامہ﷫ کے اس قول کے بعد امام شوکانی﷫ فرماتے ہیں:
جب سلف و خلف کے اجماع سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ قراء اتِ سبعہ کا ہر ہر حرف متواتر نہیں ہے ، ان میں اور دیگر قراء ات (یعنی عشرہ) میں کوئی فرق نہیں ہے جب وہ وجہ نحوی کے موافق ہو سند صحیح ہو اور رسم مصاحف کے حقیقی یا احتمالی طور پر موافق ہو تو یہ بات واضح ہوگئی کہ ہر ایسی قراء ت کے ساتھ نماز درست ہے برابر کہ وہ مذکورہ صحابہ﷢ کی قراء ت ہو یا ان کے علاوہ کسی اور کی ہو۔ اس مسئلہ میں جمہور اَئمہ کی امام النویری المالکی aنے شرح الطیبہ میں مخالفت کی ہے اور ان اَشعار:
فکل ما وافق وجہ نحوي
وکان للرسم احتمالا یحوي

وصح إسنادا ھو القرآن
فھذہ الثلاثۃ الأرکان

وکل ما خالف وجھا أثبت
شذوذہ لو أنہ في السبعۃ​
کی شرح میں لکھتے ہیں: اِمام جزری﷫ کے الفاظ جو ظاہر کررہے ہیں کہ قران کے ثبوت کے لیے مذکورہ دو شروط (یعنی وجہ نحوی اور موافقت رسم) کے ساتھ صرف صحت سند کافی ہے تواتر کی ضرورت نہیں ہے یہ ایک نیا قول ہے جوفقہاء ، محدثین ،اصولیین اور مفسرین کے اِجماع کے خلاف ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس پر امام شوکانی﷫ تبصرہ فرماتے ہوئے کہتے ہیں:
’’کہ اس بات کا آپ کو بخوبی علم ہے کہ نویری کی بات علامہ جزریa کے مقابلہ میں کیا حیثیت رکھتی ہے کیونکہ اگر ترجیح کے اسباب کی طرف بھی رجوع کریں تو اِمام جزری﷫ کے ہم نوا زیادہ لوگ ہیں اور پھر فن قراء ات پرگہری نظر رکھنے والے ائمہ ہیں جو کہ اس کے راجح ہونے کے لیے کافی ہے۔‘‘
امام شوکانی﷫ کی مذکورہ تینوں اَبحاث سے درج نکات سامنے آتے ہیں:
(١) صرف یہ کہنا کہ قراء اتِ سبعہ ہی قران ہیں اس کے علاوہ کوئی چیز بطور قران قبول نہیں کی جائے گی یہ بات سراسر غلط ہے بلکہ اس کے علاوہ بھی قرآن مجید موجود ہے۔
(٢) یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ قراء اتِ سبعہ میں ہر ہر حرف تواتر الاسناد کے درجہ کو پہنچا ہوا ہے بلکہ بعض اَحرف (کلمات) سند کے اِعتبار سے آحاد بھی ہیں۔
(٣) ثبوتِ قراء ات کے سلسلہ میں امام شوکانی﷫ سو فیصد امام ابن الجزری﷫ کے نظریہ پر اعتماد کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ ہر وہ قراء ات جو رسم عثمانی کے حقیقی یا احتمالی طور پر موافق ہو لغت عرب کے مطابق ہو اور اس کی سند صحیح ہو برابر ہے کہ اُسے سندی تواتر حاصل ہو یا نہ ہو وہ قرآن ہے اور اس کا اِنکار قران کا اِنکار ہے جو شرعاً ناجائز اور حرام ہے اور یہ نظریہ امام ابن الجزری﷫ کا نہیں ہے بلکہ جمیع محقق اَئمہ مثلاً امام دانی﷫، مکی بن ابی طالب القیسی﷫، ابوالعباس المھدوی﷫ اور ابوشامہ﷫ وغیرہم کا بھی یہی مسلک ہے ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس بارے میں ہماری پہلی گذارش یہ ہے کہ امام شوکانی﷫ حجیت قراء ات کے اُسی قدر قائل ہیں جس قدر امام ابن الجزری﷫ ہیں اور امام ابن الجزری﷫ بالاتفاق قراء ت کے امام اور محقق اعظم ہیں اور قراء اتِ عشرہ میں سے ہر ایک قراء ت کو حجت اور قرآن تسلیم کرتے ہیں لہٰذا امام شوکانی﷫ کے صرف اس ایک مسئلہ سے کہ وہ کہتے ہیں کہ قراء تِ سبعہ یا عشرہ کا ہر ہر حرف متواتر نہیں ہے بلکہ بعض آحاد بھی ہیں، کوئی آدمی یہ دلیل لے کہ وہ علم تجویدو قراء ات میں آئمہ اسلاف سے علیحدہ کوئی رکھتے تھے، تو یہ ان پر بہتان ہے۔ حالانکہ وہ اس مسئلہ میں جمہور علماء اور محقق قراء کے ہی پیرو ہیں اور ان سے ایک قدم بھی آگے بڑھے ہوئے نہیں ہیں۔ لہٰذ ان حضرات کو،جو امام شوکانی﷫کو بنیاد بنا کر متنوع قراء ات کے مسئلہ میں جمہور سلف سے علیحدہ رائے رکھتے ہیں، انہیں اپنے مؤقف پر نظرثانی فرمانے کی ضرورت ہے، کیونکہ اہل السنۃ والجماعۃ کے نمائندہ علماء میں کوئی ایسا فرد نہیںجو تنوع قراء ات کے سلسلے میں اس قسم کی’ منفرد‘ رائے رکھتا ہو، حتی کہ اَہل تشیع بھی تعبیرات کے اختلاف سے قطع نظر مجموعی طور پر اس مسئلہ میں اہل سنت کے ساتھ ہیں۔ امام شوکانی ﷫ کے حوالے سے یہ رائے کہ وہ صحیح بخاری وغیرہ میں منقول قراء اتِ شاذہ کے بھی قرآن ہونے کے قائل تھے، یہ ایک ایسا دعویٰ ہے کہ جس کی امام شوکانی﷫ تو کیا اَہل السنۃ والجماعۃ کے مقتدر پیشواؤں سے بھی کوئی دلیل نہیں پیش کی جاسکتی، بلکہ امام شوکانی﷫نے اس نظریہ کا بذات خود پُرزور ردّ کیا ہے۔ وہ السیل الجرار میں فرمایا ہے : ’’أن المعتبر فی ثبوت کونہ قرانا ھو صحۃ السند مع احتمال رسم المصحف لہ و موافقتہ للوجہ العربی: ثبوت قرآن میں اگر کوئی چیز معتبر ہے وہ یہ ہے کہ اس کی سند صحیح ہو، رسم مصحف میں اس کا اِحتمال موجود ہو اور وجہ عربی (نحوی) کے موافق ہو۔ لہٰذا جب تک کسی بھی روایت کے صحیح ہونے کے ساتھ ساتھ رسم کی موافقت موجود نہیں ہے تو امام شوکانی﷫کے ہاں بھی قران نہیں ہے اوربخاری وغیرہ کی جمیع روایات رسم مصحف کے مخالف ہونے کی وجہ سے بطور قران قبول نہیں کی جاسکتیں۔ جیسا کہ اِرشاد الفحول میں خود امام شوکانی﷫ نے بھی اس کی بالکل واضح کھلے اور صریح اَلفاظ میں صراحت کی ہے اور اُسے غیر قران یعنی قراء تِ شاذہ قرار دیا ہے۔ فرماتے ہیں:
’’فإن صح إسناد ما لم یحتملہ وکانت موافقۃ للوجہ الإعرابي والمعنی العربي فہي شاذۃ۔‘‘
’’اگر سند صحیح بھی ہو اور وجہ اعرابی معنی عربی کے موافق ہو لیکن رسم مصحف کا احتمال موجود نہیں ہے تو وہ قراء تِ شاذہ ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
لہٰذا امام شوکانی﷫کو بنیاد بنا کر غیر قران کا قران قرار دینا خود امام شوکانی﷫ پر بہت بڑا ظلم ہے۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ آپ کو ارسال کئے گئے فتویٰ میں جو آپ کے نزدیک بنیادی نقطہ اعتراض ہے وہ یہ ہے کہ شیوخ نے قراء اتِ عشرہ کو متواترہ کیوں لکھا ہے۔ اس بارے میں عرض یہ ہے کہ علماء کے ہاں تواتر کی تعریف میں فرق ہے ۔ خطیب بغدادی ﷫ نے تواتر کی تعریف کی ہے اور وہی عام طور پر معروف ہے، فرماتے ہیں :
’’فأما خبر المتواتر فھو ما أخبر بہ القوم الذین یبلغ عددھم حداً یعلم عند شاھدتہم بمستقر العادّۃ أن اتفاق الکذب منھم محال۔‘‘
’’خبر متواتر وہ خبر ہے جس کو روایت کرنے والے اتنے زیادہ لوگ ہوں کہ ان کے مشاہدہ سے معلوم ہو کہ ان کا جھوٹ پر جمع ہونا عادۃً محال ہے پھر اسی تعریف کو دیگر مصنفین مزید تہذیب اور تنقیح سے بیان کیا ہے جیسا کہ تیسر مصطلح الحدیث میں ہے: ’’مارواہ عدد کثیر تحیل العادۃ تواطؤھم علی الکذب۔‘‘
’’متواتر وہ روایت ہے کہ جسے روایت کرنے والے اس قدر زیادہ ہوں کہ ان کاجھوٹ پر جمع ہونا عادۃً محال ہو۔‘‘(تیسیر مصطلح الحدیث: ۱۹)
خطیب بغدادی﷫ کی اس تعریف کے بارے میں حافظ ابن صلاح﷫ فرماتے ہیں:
’’ومن المشہور المتواتر الذي یذکرہ أھل الفقہ وأصولہ، وأھل الحدیث لا یذکرونہ باسمہ الخاص المشعر بمعناہ الخاص وإن کان الحافظ قد ذکرہ، ففي کلامہ ما یشعر بأنہ اتبع فیہ غیر أھل الحدیث۔‘‘
’’اور مشہور روایت میں سے متواتر روایت کی تعریف بھی ہے جو فقہاء اور اصولیوں نے ذکر کی ہے، جبکہ محدثین اس خاص نام اور مخصوص معنی کے ساتھ اس کو ذکر نہیں کرتے۔اگرچہ خطیب بغدادی﷫ نے اس تعریف کو ذکر کیا ہے لیکن ان کے کلام سے یہی مترشح ہے کہ وہ اس مسئلہ میں محدثین کے متبع نہیں ہیں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حافظ ابن صلاح﷫ نے خطیب بغدادی﷫ کے جس نظریہ پرنقد کیا ہے وہ یہ ہے کہ خطیب بغدادی﷫ نے تواتر کو جو عدد رواۃ کے ساتھ مقید کردیا ہے یہ محدثین کے نقطۂ نظر کے خلاف ہے۔
اِس کے بارے میں حافظ ابن حجر﷫ فرماتے ہیں:
’’فلامعنی لتعیین العدد علی الصحیح۔‘‘ (نزھۃ النظر : ۱۰)
’’صحیح بات یہ ہے کہ تعین عدد کوئی چیز نہیں ہے۔‘‘
شیخ الاسلام ابن تیمیہ﷫ اس کے نظریہ کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’وأما المتواتر فالصواب الذي علیہ الجمہور: أن المتواتر لیس لہ عدد محصور، بل إذا حصل العلم عن أخبار المخبرین کان الخبر متواتراً۔‘‘
’’متواتر کے سلسلہ میں درست رائے وہی ہے جس پر جمہور ہیں کہ متواتر کیلئے کسی تعین عدد کی ضرورت نہیں ہے بلکہ جب کسی خبر سے علم یقینی حاصل ہوجائے وہ متواتر ہے۔‘‘ (مجموع فتاویٰ: ۱۸؍۴۰)
شیخ الاسلام متواتر رِوایت کے بارے میں دوسری جگہ رقمطراز ہیں:
’’فلفظ المتواتر یراد بہ معان، إذ المقصود من المتواتر ما یفید العلم، لکن من الناس من لا یسمیٰ متواتراً إلا ما رواہ عدد کثیر یکون العلم حاصلًا بکثرۃ عددھم فقط۔ و یقولون: إن کل عدد أفاد العلم في قضیۃ أفاد مثل ذلک العدد العلم في کل قضیۃ وھذا قول ضعیف۔
والصحیح ما علیہ الأکثرون أن العلم یحصل بکثرۃ المخبرین تارۃً ویحصل بصفاتہم لدینہم وضبطہم وقد یحصل بقرائن تحتف بالخبر یحصل العلم لمجموع ذلک وقد یحصل العلم بطائفۃ دون طائفۃ وأیضاً فالخبر الذي تلقاہ الأئمۃ بالقبول تصدیقاً أو عملا بموجبہ یفید العلم عند جماھیرالسلف والخلف۔‘‘
(مجموع فتاویٰ: ۱۸؍۴۸)
’’لفظ متواتر سے کئی معانی مراد ہیں جبکہ اس سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ متواتر علم یقینی کا فائدہ دیتی ہے ، لیکن بعض لوگ ایسے بھی موجود ہیں جو کہتے ہیں کہ متواتر فقط وہی ہے جس کو عدد کثیرنے روایت کیا ہے اور علم یقینی کا فائدہ صرف اُسی خبر سے حاصل ہوگا جس میں رُواۃ کی کثرت ہو۔ نیزیہ بھی کہتے ہیں کہ ہر وہ عددجو کسی خاص معاملہ میں علم یقینی کا فائدہ دے ضروری ہے کہ یہی عدد ہرایک قضیہ میں علم یقینی کا فائدہ دے جبکہ یہ اِنتہائی ضعیف قول ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
صحیح بات وہی ہے جس پر اکثر اَہل علم ہیں کہ کبھی علم یقینی رواۃ کی کثرت سے حاصل ہوتا ہے، کبھی رواۃ کی اعلیٰ صفات یعنی ان کے ضبط اور دینداری کی بنیاد پر ملتا ،کبھی ایسے قرائن ساتھ مل جاتے ہیں جو اُسے علم قطعی کے درجہ تک پہنچا دیتے ہیں ،بعض دفعہ ایک جماعت تو علم کا فائدہ دے رہی ہوتی ہے لیکن دوسری نہیں۔ اسی طرح ہر وہ خبر بھی علم یقینی کا فائدہ دیتی ہے جیسے تلقی بالقبول حاصل ہوجائے اُسے اَئمہ قبولیت صرف تصدیق کرکے عطا کریں یا اس پر عمل کرکے جیسا کہ جمہور سلف خلف کا نقطۂ نظر ہے ،آخر میں فرماتے ہیں وھذا معنی المتواتر، یہ ہے متواتر کا مفہوم۔‘‘
شیخ الاسلام ابن تیمیہ﷫ کی اس واضح اور دو ٹوک تصریح کے بعد مزید کسی بات کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔ تواتر صرف یہ نہیں ہے جو کثرتِ رواۃ کی بنیاد پر ہوتا ہے بلکہ ہر وہ شے جو قطعیت کا فائدہ دے وہ متواتر ہے اور کثرتِ رواۃ سے بھی قطعیت کا حصول ہوجاتا ہے اور اس کے علاوہ دیگر ذرائع بھی ایسے ہیں جن سے علم قطعی اور یقینی کا فائدہ حاصل ہوگا ،خبر کا ہر وہ ذریعہ جس سے علم یقینی اور قطعی حاصل ہو وہ متواتر ہے۔ لہٰذا جامعہ لاہور الاسلامیہ کے شیوخ نے اپنے فتویٰ میں قراء اتِ عشرہ کے متواتر ہونے کا جو دعویٰ کیا ہے وہ اس بنیاد پر ہے کہ ’ما أفاد القطع فھو متواتر‘ کہ جو بھی چیز قطعیت کا فائدہ دے وہ متواتر ہے اور قرآن کریم کے بارے میں اُمت مسلمہ کا ہر ہر دور میں یہ اِجماع رہا ہے اور آج بھی ہے کہ قرآن قطعی الثبو ت ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
یہ صرف ہمارا موقف نہیں بلکہ بقول حافظ ابن الصلاح﷫ محدثین کا بھی یہی نظریہ ہے اور بقول شیخ الاسلام ابن تیمیہ﷫، جمہور سلف و خلف اسی نظریہ کے قائل ہیں اور جو لوگ صرف اس بات کے قائل ہیں کہ تواتر صرف کثرت رواۃ کی بنیاد پر حاصل ہوتا ہے ان کا قول ضعیف ہے۔
باقی رہا یہ مسئلہ کہ ِامام شوکانی﷫ اور امام ابن الجزری﷫ نے اس کی نفی کیوں کی ہے کہ قراء تِ عشرہ میں سے ہر ہر حرف متواتر نہیں ہے اس سے ان کامقصود فقط یہ کہ قراء ات کا ہر ہر حرف تواتر الاسناد کے درجہ تک نہیں پہنچتا بلکہ بعض اَحرف سند کے اعتبار سے آحاد ہیں اور ان کے سند کے آحاد ہونے سے یہ قطعاً لازم نہیں آتا کہ وہ قطعی الثبوت نہیں ہیں اگر کوئی ایسا کہتا ہے تو اُسے اپنے مؤقف پرنظرثانی کرنی چاہئے۔ ہمارے نزدیک قرآن کریم کی جمیع قراء ات قطعي الثبوت ہیں اور قطعی الثبوت کے بارے میں جمہور أَہل الحدیث من السلف والخلف کا نظریہ یہ ہے کہ وہ متواتر ہے۔ واﷲ أعلم بالصواب۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
قاری فہد اللہ مراد
رُکن مجلس التحقیق الاسلامی​

٭_____٭_____٭
 
Top