• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مومن کی فراست اور ایک مقلد مولوی کی کرامت

ابو حسن

رکن
شمولیت
اپریل 09، 2018
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
90
" اتقوا فراسة المؤمن"
شیخ البانی رحمہ اللہ تو اس روایت کو ضعیف کہہ رہے ہیں " عطیہ عوفی کی وجہ سے "

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي الطَّيِّبِ، حَدَّثَنَا مُصْعَبُ بْنُ سَلَّامٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ، عَنْعَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ اتَّقُوا فِرَاسَةَ الْمُؤْمِنِ فَإِنَّهُ يَنْظُرُ بِنُورِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَرَأَ إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَاتٍ لِلْمُتَوَسِّمِينَ سورة الحجر آية 75 ،

‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ عَنْ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي تَفْسِيرِ هَذِهِ الْآيَةِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَاتٍ لِلْمُتَوَسِّمِينَ سورة الحجر آية 75، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لِلْمُتَفَرِّسِينَ.


ترجمہ:
ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے ، پھر آپ نے آیت «إن في ذلک لآيات للمتوسمين» بیشک اس میں نشانیاں ہیں سمجھ داروں کے لیے ہے (الحجر : ٧٥) ، تلاوت فرمائی۔

امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث غریب ہے، ٢- ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، بعض اہل علم نے اس آیت «إن في ذلک لآيات للمتوسمين» کی تفسیر یہ کی ہے کہ اس میں نشانیاں ہیں اصحاب فراست کے لیے۔

تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ٤٢١٧) (ضعیف) (سند میں عطیہ عوفی ضعیف راوی ہیں، ملاحظہ ہو : الضعیفة رقم : ١٨٢١)
قال الشيخ الألباني : ضعيف، الضعيفة (1821) // ضعيف الجامع الصغير (127) //

صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني : حديث نمبر 3127
 

غرباء

رکن
شمولیت
جولائی 11، 2019
پیغامات
86
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
46
فرض یا نفل نماز کے آخری قعدہ میں تشہد اور درود پڑھنے کے بعدقرآن وحدیث میں موجود دعاؤں میں سے کوئی بھی دعاء پڑھ سکتا ہے ؛
رسول اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ؛

ثُمَّ يَتَخَيَّرُ مِنْ الدُّعَاءِ أَعْجَبَهُ إِلَيْهِ فَيَدْعُو
اس کے بعد دعا کا اختیار ہے جو اسے پسند ہو کرے۔(صحیح بخاری 835 )
تشریح: یہ لفظ عام ہے دین اور دنیا کے متعلق ہر ایک قسم کی دعا مانگ سکتا ہے ،

رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اللہم إنی ظلمت الخ کے الفاظ سے نماز میں دعا کرنے کی تعلیم دی ہے۔ عن أبي بکر الصدیق أنہ قال لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علمني دعاء أدعو بہ في صلاتي قال قل: اللہم أنی ظلمت نفسي ظلما کثیرا ولا یغفر الذنوب إلا أنت فاغفرلي مغفرة من عندک وارحمني إنک أنت الغفور الرحیم (بخاری شریف) اسی وجہ سے اس دعا کے پڑھنے کا معمول ہے۔
اس کے علاوہ قرآنی دعا جیسے "ربنا اتنا فی الدنیا"، "ربنا ظلمنا انفسنا"، "رب اغفر و الرحم" , "ربنا ھب لنا من ذریتنا" اور "رب الرحمہما کما " یا احادیث میں آنے والی استغفار، عافیت و رحمت والی دعائیں پڑھی جا سکتی ہیں ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جزاک اللہ خیراً۔۔۔
مگر اس میں جو بہت اہم بات ہے اسکی تصدیق چاہیے? کے اللہ بندے کو نماز ختم ہونے سے پہلے مزدوری دے دیتا ہے۔۔۔ یعنی یہ بات اللہ سبحان و تعالیٰ نے فرمائی۔۔۔۔کیا یہ درست ہے؟؟؟؟
 

غرباء

رکن
شمولیت
جولائی 11، 2019
پیغامات
86
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
46
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ بات بالکل غلط اور جھوٹ ہے ،
مولوی احمد علی لاہوری کے متعلق یہ جھوٹ تقلیدی پارٹی نے پھیلایا ہے ،
جس کا مقصد انہیں "غیب دان ولی اللہ " منوانا ہے ،
یہ افسانہ کچھ یوں ہے کہ مولوی احمد علی لاہوری کے ایک مرید ان کی خدمت میں کچھ سیب لے کر گئے ،جو آدھے حلال اور آدھے حرام کے پیسوں سے خریدے گئے تھے ،سیب لے جانے والے کو ان حلال و حرام کے سیبوں کی پہچان تھی ،
یہ حلال و حرام کے سیب جب مولوی صاحب کو پیش کئے گئے تو انہوں نے کمال غیب دانی سے ان مخلوط سیبوں میں سےحلال مال سے خریدے گئے سیبوں کو یہ کہہ کررکھ لیا کہ مجھے یہ کافی ہیں اور حرام کے مال سے خریدے گئے سیب یہ کہہ کر واپس لوٹا دیئے کہ تم اپنے لئے لے جاؤ ۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جبکہ اس امت کے سب سے بڑے ولی اور خلیفہ بلا فصل سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ کو ان کے غلام نے ایک دفعہ ایسا کھانا کھلادیا جو اس غلام نے کسی سے دھوکہ کرکے حاصل کیا تھا ،
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ جب یہ کھانا کھا چکے تو اس غلام نے انہیں بتایا کہ یہ کھانا کس ذریعہ سے حاصل کیا گیا تھا ،تو انہوں نے یہ کھایا ہواکھانا قے کرکے نکال دیا ۔
یہ واقعہ صحیح بخاری جیسی معتبر ترین کتاب میں مروی ہے :
عن القاسم بن محمد، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: " كان لأبي بكر غلام يخرج له الخراج، وكان أبو بكر يأكل من خراجه، فجاء يوما بشيء فأكل منه أبو بكر، فقال له الغلام: أتدري ما هذا؟ فقال أبو بكر: وما هو؟ قال: كنت تكهنت لإنسان في الجاهلية، وما أحسن الكهانة، إلا أني خدعته، فلقيني فأعطاني بذلك، فهذا الذي أكلت منه، فأدخل أبو بكر يده، فقاء كل شيء في بطنه "
ترجمہ :
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کا ایک غلام تھا جو روزانہ انہیں کچھ (خراج ) کمائی دیا کرتا تھا اور سیدناابو بکر رضی اللہ عنہ اسے اپنی ضرورت میں استعمال کیا کرتے تھے ۔ ایک دن وہ غلام کوئی کھانے کی چیز لایا اورسیدناابو بکر رضی اللہ عنہ نے بھی اس میں سے کھالیا ۔ پھر غلام نے کہا آپ کو معلوم ہے ؟ یہ کیسی کمائی سے ہے ؟ آپ نے دریافت فرمایا کیسی ہے ؟ اس نے کہا میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک شحص کے لیے کہا نت کی تھی حالانکہ مجھے کہانت نہیں آتی تھی ، میں نے اسے صرف دھوکہ دیا تھالیکن اتفاق سے وہ مجھے مل گیا اور اس نے اس کی اجرت میں مجھ کو یہ چیز دی تھی ، آپ کھا بھی چکے ہیں ۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے یہ سنتے ہی اپنا ہاتھ منہ میں ڈالا اور پیٹ کی تمام چیزیں قے کر کے نکال ڈالیں ۔
(صحیح بخاری ،کتاب مناقب الانصار ،باب ایام الجاہلیۃ ،حدیث 3842 )

یہی واقعہ مشہور محدث امام ابو نعیم اصفہانیؒ نے اپنی کتاب "معرفۃ الصحابہ" میں اس طرح بیان کیا ہے :
عن عبد الرحمن بن القاسم، عن عائشة، قالت: " كان لأبي بكر غلام يخرج له الخراج، فكان أبو بكر يأكل من خراجه، فجاء يوما بشيء فأكل منه فقال الغلام: تدرون ما هذا؟ فقال أبو بكر: لا وما هو؟ قال: كنت تكهنت لإنسان في الجاهلية وما أحسن الكهانة إلا أني خدعته فلقيني فأعطاني بذلك فهذا الذي أكلت منه، فأدخل يده فقاء كل شيء في بطنه "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ واقعہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اللہ کا ولی خواہ کتنا ہی کامل کیوں نہ ہو اسے اپنے کھانے کے غیبی ذرائع و وسائل کا علم نہیں ہوتا جب تک کوئی باخبر اسے نہ بتائے ۔
تو جب سیدنا ابوبکر جیسے عظیم صحابی کو اپنے غلام کے دیئے گئے کھانے کی حقیقت معلوم نہ ہوسکی تو چودہویں صدی کا ایک مولوی کیسے جان سکتا ہے ۔
جزاک اللہ خیراً
کچھ باتوں کی تصدیق فوراً چاہئے ہوتی ہے۔۔ اور یہاں جواب میں تھوڑی تاخیر ہو جاتی ہے۔ جلد جواب حاصل کرنے کے لیے آپ سے کیسے رابطہ ممکن ہے؟؟؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
مگر اس میں جو بہت اہم بات ہے اسکی تصدیق چاہیے? کے اللہ بندے کو نماز ختم ہونے سے پہلے مزدوری دے دیتا ہے۔۔۔ یعنی یہ بات اللہ سبحان و تعالیٰ نے فرمائی۔۔۔۔کیا یہ درست ہے؟؟؟؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم بھائی !
یہ بات ان الفاظ سے
اللہ بندے کو نماز ختم ہونے سے پہلے مزدوری دے دیتا ہے
نہ قرآن عزیز میں ہے ،اور نہ ہی کسی صحیح یا ضعیف حدیث میں ہے ،
ہاں چونکہ نماز میں سلام سے پہلے دعاء کرنا ثابت ہے جیسا کہ آپ اس تھریڈ میں دیکھ چکے ہیں ،مولوی صاحب نے اس بنیاد پر کہا ہوگا ،
اگر اس بنیاد پر کہا ہے تو نماز میں قبولیت دعاء کا سب سے بڑا مقام سجدہ ہے ،
نبی مکرم ﷺ نے اسکی ترغیب دلائی ہے ،
« عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَشَفَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السِّتَارَةَ وَالنَّاسُ صُفُوفٌ خَلْفَ أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَ: «أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّهُ لَمْ يَبْقَ مِنْ مُبَشِّرَاتِ النُّبُوَّةِ إِلَّا الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ، يَرَاهَا الْمُسْلِمُ، أَوْ تُرَى لَهُ، أَلَا وَإِنِّي نُهِيتُ أَنْ أَقْرَأَ الْقُرْآنَ رَاكِعًا أَوْ سَاجِدًا، فَأَمَّا الرُّكُوعُ فَعَظِّمُوا فِيهِ الرَّبَّ عَزَّ وَجَلَّ، وَأَمَّا السُّجُودُ فَاجْتَهِدُوا فِي الدُّعَاءِ، فَقَمِنٌ أَنْ يُسْتَجَابَ لَكُمْ»
ترجمہ :
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (مرض الموت میں اپنے کمرہ کا) پردہ اٹھایا، (دیکھا کہ) لوگ جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے صف باندھے نماز پڑھ رہے ہیں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”لوگو! نبوت کی بشارتوں (خوشخبری دینے والی چیزوں) میں سے اب کوئی چیز باقی نہیں رہی سوائے سچے خواب کے جسے مسلمان خود دیکھتا ہے یا اس کے سلسلہ میں کوئی دوسرا دیکھتا ہے، مجھے رکوع اور سجدہ کی حالت میں قرآن پڑھنے سے منع کر دیا گیا ہے، رہا رکوع تو اس میں تم اپنے رب کی بڑائی بیان کیا کرو، اور رہا سجدہ تو اس میں تم دعاء میں خوب کوشش کرو ، کیونکہ یہ تمہاری دعا کی مقبولیت کے لیے زیادہ موزوں ہے“۔
صحیح مسلم/الصلاة ۴۱ (۴۷۹)، سنن النسائی/التطبیق ۸ (۱۰۴۶)، ۶۲ (۱۱۲۱)، سنن ابن ماجہ/تعبیر الرؤیا ۱ (۳۸۹۹) وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۱۹)، (۱۹۰۰)، سنن الدارمی/الصلاة ۷۷ (۱۳۶۴)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر امید آپ جانتے ہونگے کہ صحیح احادیث میں نماز کے شروع میں دعاء کرنا ثابت ہے ،
صحیح بخاری اور دیگر کئی کتب احادیث میں مروی ہے کہ :
حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْكُتُ بَيْنَ التَّكْبِيرِ وَبَيْنَ القِرَاءَةِ إِسْكَاتَةً - قَالَ أَحْسِبُهُ قَالَ: هُنَيَّةً - فَقُلْتُ: بِأَبِي وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِسْكَاتُكَ بَيْنَ التَّكْبِيرِ وَالقِرَاءَةِ مَا تَقُولُ؟ قَالَ: أَقُولُ: اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ، كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ المَشْرِقِ وَالمَغْرِبِ، اللَّهُمَّ نَقِّنِي مِنَ الخَطَايَا كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ، اللَّهُمَّ اغْسِلْ خَطَايَايَ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالبَرَدِ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر تحریمہ اور قرات کے درمیان تھوڑی دیر چپ رہتے تھے۔ تو میں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں۔ آپ اس تکبیر اور قرات کے درمیان کی خاموشی کے بیچ میں کیا پڑھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ میں پڑھتا ہوں :اللہم باعد بینی وبین خطایای، کما باعدت بین المشرق والمغرب، اللہم نقنی من الخطایا کما ینقی الثوب الأبیض من الدنس، اللہم اغسل خطایای بالماء والثلج والبرد ( ترجمہ ) اے اللہ! میرے اور میرے گناہوں کے درمیان اتنی دوری کر جتنی مشرق اور مغرب میں ہے۔ اے اللہ! مجھے گناہوں سے اس طرح پاک کر جیسے سفید کپڑا میل سے پاک ہوتا ہے۔ اے اللہ! میرے گناہوں کو پانی، برف اور اولے سے دھو ڈال۔((صحیح بخاری 744 ))

تو اگر نماز میں دعاء کے مقام کو دیکھ نمازی کے اجر و مزدوری کا وقت متعین کرنا ہے تو یہاں تکبیر تحریمہ کے فوراً بھی ثابت ہے

اور نماز کے اختتام پر (یعنی سلام سے پہلے یا سلام کے بعد ) دعاءکی اہمیت حسن درجہ کی حدیث میں بیان ہوئی ہے ؛
اس سےنماز میں یا نماز کے فورا بعد کا وقت قبولیت دعا کا وقت ہوتا ہے۔
عن أبي أمامة " قيل يا رسول الله أي الدعاء أسمع؟ قال جوف الليل الآخر ، ودبر الصلوات المكتوبات" رواه الترمذي (3499) وحسنه الألباني في صحيح الترمذي .ترجمہ :سیدناابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول اللہﷺسے دریافت کیا گیا کہ دعاکس وقت زیادہ قبول ہوتی ہے۔ ارشاد فرمایا:رات کے آخری حصہ میں اور فرض نمازوں کے بعد۔(ترمذی:5-188/ عمل الیوم واللیلۃ للنسائی:ص186)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو واضح ہے کہ :
نماز میں دعاء کے کئی مقام احادیث سے ثابت ہیں ، ان سب جگہوں پر دعاء کرنا چاہیئے ، سب اجر و مزدوری ملنے کے مقام ہیں ؛
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
کچھ باتوں کی تصدیق فوراً چاہئے ہوتی ہے۔۔ اور یہاں جواب میں تھوڑی تاخیر ہو جاتی ہے۔ جلد جواب حاصل کرنے کے لیے آپ سے کیسے رابطہ ممکن ہے؟؟؟
جواب جلدی دینے کی کوشش تو ہوتی لیکن کبھی دوسرے دینی ،دنیوی امور آڑے آتے ہیں ،کبھی جواب کیلئے متعلقہ مصادر دیکھنے میں وقت صرف ہوتا ہے ،
رابطہ کیلئے یہ فورم سب سے آسان جگہ اور ذریعہ ہے ،اگر کوئی اہم بات اوپن فورم کی بجائے ذاتی سطح پر پوچھنا چاہیں تو "ان باکس " میں رابطہ کرلیا کریں۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مگر اس میں جو بہت اہم بات ہے اسکی تصدیق چاہیے? کے اللہ بندے کو نماز ختم ہونے سے پہلے مزدوری دے دیتا ہے۔۔۔ یعنی یہ بات اللہ سبحان و تعالیٰ نے فرمائی۔۔۔۔کیا یہ درست ہے؟؟؟؟
تفصیل تو الحمدللہ شیخ @اسحاق سلفی نے بیان کر دی ہے، ایک نکتہ اس ضمن میں ذہن میں آتا ہے، شاید مفید ہو، اور شیخ اسحاق سلفی سے ان شاء اللہ تصدیق بھی ہو جائے گی!
وہ یہ کہ اس طرح کی باتیں اکثر ترغیب و تحذیر کے لئے فلسفیانہ منطقی انداز میں کی جاتی ہیں، لیکن اس فرق کو سمجھنا ضروری ہے، کہ اسے قرآن و حدیث نہ سمجھا جائے، کہ کل کو کوئی بڑا فلسفی و منطقی آکر اس کے خلاف بیان کر دے، تو انسان کے دل میں قرآن و حدیث کے معاملہ میں شبہ و اشکال پیدا نہ ہو! کہ غلط تو اس کا سمجھا ہوا فلسفہ و منطق قرار پایا، نقص اس میں تھا!
یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگ سنی سنائی بہت سی باتوں سے دین میں شبہ و کا شکار ہو جاتے ہیں! جبکہ انہیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ سنی سنائی تو محض باتیں تھیں، دین نہیں!
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

تفصیل تو الحمدللہ شیخ @اسحاق سلفی نے بیان کر دی ہے، ایک نکتہ اس ضمن میں ذہن میں آتا ہے، شاید مفید ہو، اور شیخ اسحاق سلفی سے ان شاء اللہ تصدیق بھی ہو جائے گی!
وہ یہ کہ اس طرح کی باتیں اکثر ترغیب و تحذیر کے کے لئے کی فلسفیانہ منطقی انداز میں کی جاتی ہیں، لیکن اس فرق کو سمجھنا ضروری ہے، کہ اسے قرآن و حدیث نہ سمجھا جائے، کہ کل کو کوئی بڑا فلسفی و منطقی آکر اس کے خلاف بیان کر دے، تو انسان کے دل میں قرآن و حدیث کے معاملہ میں شبہ و اشکال پیدا نہ ہو! کہ غلط تو اس کا سمجھا ہوا فلسفہ و منطق قرار پایا، نقص اس میں تھا!
یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگ سنی سنائی بہت سی باتوں سے دین میں شبہ و کا شکار ہو جاتے ہیں! جبکہ انہیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ سنی سنائی تو محض باتیں تھیں، دین نہیں!
آپ نےبالکل صحیح کہا ،غیرمحتاط اور تصوف زدہ مصنفین ،خطیب اور واعظ حضرات اکثرترغیب و ترہیب کے پہلو سے تبلیغی مقصد کیلئے اپنے الفاظ و کلام کا ایسا پیرایہ بیان اپناتے ہیں جسےسامعین و قارئین عین وحی الہی سمجھ لیتے ہیں ،
جیسے یہاں اسی تھریڈ میں واضح ہے ،اس سے نفع کی بجائے نقصان زیادہ ہوتا ہے ،
اور دوسرے درجہ کے قصہ گو وعاظ اور ناخواندہ خطیب اسی پیرایہ اور اسلوب بیان کو شرعی نص سمجھ کر آگے نقل کرتے ہیں ،
شریعت کے بیان و تبیین میں محدثین کا طریقہ سب سے عمدہ اور کھرا ہے ، اور وہ یہ کہ شرعی نصوص کو بلاکم و کاست اصل الفاظ کے ساتھ بیان کرتے ہیں ،
اور حسب ضرورت ائمہ فن کے کلام سے شرح کا کام لیتے ہیں ،
 
Top