• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مومن کی گمشدہ میراث

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم شیخ @اسحاق سلفی صاحب
ایک جملہ عموما حدیث رسول کہہ کر لکھا جاتا ہے کہ:

حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے جہاں سے ملے لے لینا چاہیئے...

اس کی اصل کیا ہے؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایک جملہ عموما حدیث رسول کہہ کر لکھا جاتا ہے کہ:
حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے جہاں سے ملے لے لینا چاہیئے...
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
دراصل یہ بات ایک مرفوع روایت میں منقول ہے ؛ جسے امام ترمذی اور امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے
حدثنا محمد بن عمر بن الوليد الكندي حدثنا عبد الله بن نمير عن إبراهيم بن الفضل عن سعيد المقبري عن أبي هريرة قال:‏‏‏‏
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ " الكلمة الحكمة ضالة المؤمن فحيث وجدها فهو أحق بها "،‏‏‏‏
قال أبو عيسى:‏‏‏‏ هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من هذا الوجه وإبراهيم بن الفضل المدني المخزومي يضعف في الحديث من قبل حفظه.

سیدنا ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حکمت کی بات مومن کی گمشدہ چیز ہے جہاں کہیں بھی اسے پائے وہ اسے حاصل کر لینے کا زیادہ حق رکھتا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۳- ابراہیم بن فضل مدنی مخزومی حدیث بیان کرنے میں حفظ کے تعلق سے کمزور مانے جاتے ہیں۔
سنن الترمذی ،ابواب العلم ،( حدیث نمبر 2687 ) علامہ ناصر الدین البانی ضعیف سنن الترمذی میں اس حدیث کو ضعیف جداً ( یعنی بہت ضعیف ) کہتے ہیں ؛
سنن ابن ماجہ/الزہد ۱۵ (۴۱۶۹) (سند میں ابراہیم بن الفضل المخزومی متروک راوی ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور فتاوی اللجنۃ الدائمۃ (جلد 26 ) میں اس روایت کی تحقیق میں فرماتے ہیں :

السؤال الثالث من الفتوى رقم (21010)
س3: ما مقتضى قول الرسول - صلى الله عليه وسلم - في الحديث: «الحكمة ضالة المؤمن أنى وجدها يأخذها» وفي رواية: أنى وجدها أخذ بها، وأوجه العمل بها واستخداماتها؟
پیغمبر اکرم ﷺ کے اس ارشاد کا کیا مطلب و مقصد ہے جس میں فرمایا کہ : حکمت و دانش مومن کی گم شدہ چیز ہے ، وہ اسے جہاں پائے لے لے ،
جواب :
ج3: أولا: هذا الحديث روي بألفاظ متقاربة؛ منها: ما خرجه الترمذي في (جامعه) من طريق إبراهيم بن الفضل المدني عن المقبري عن أبي هريرة عن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: «الحكمة ضالة المؤمن، فحيث وجدها فهو أحق بها (1) » ، ورواه أيضا ابن ماجه في (سننه) ، والعقيلي في (الضعفاء) ، وابن عدي في (الكامل) ، وابن حبان في (المجروحين) .
والحديث ضعيف جدا، لا تصح نسبته للرسول - صلى الله عليه وسلم؛ لأن في إسناده إبراهيم بن الفضل المدني، وقد أجمع علماء الحديث على تضعيفه، قال الإمام أحمد فيه: ليس بقوي في الحديث، ضعيف الحديث. وقال يحيى بن معين: ليس بشيء. وقال مرة: ضعيف الحديث لا يكتب حديثه. وقال أبو حاتم الرازي والبخاري والنسائي: منكر الحديث.
ثانيا: وأما معنى الحديث فتشهد له عمومات النصوص، وهو أن الكلمة المفيدة التي لا تنافي نصوص الشريعة ربما تفوه بها من ليس لها بأهل، ثم وقعت إلى أهلها، فلا ينبغي للمؤمن أن ينصرف عنها، بل الأولى الاستفادة منها والعمل بها من غير التفات إلى قائلها.
وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
بكر أبو زيد ... صالح الفوزان ... عبد الله بن غديان ... (الرئيس )عبد العزيز بن عبد الله آل الشيخ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خلاصہ جواب :
یہ حدیث کئی محدثین نے متقارب الفاظ سے نقل فرمائی ہے جیسے ترمذی ،ابن ماجہ ، عقیلی ، ابن عدی وغیرہم
لیکن یہ حدیث انتہائی ضعیف ہے ، اس کی نبی کریم ﷺ کی طرف نسبت کرنا ہی جائز نہیں ،
اس میں راوی ابراہیم بن فضل مدنی ہے جس کے ضعیف ہونے پر اہل علم کا اتفاق ہے ،
امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں ، یہ ابراہیم حدیث میں قوی نہیں بلکہ ضعیف ہے ، امام یحی بن معین فرماتے ہیں : یہ کوئی شئے نہیں ، (اس کی روایت سے استدلال تو دور کی بات )اس کی حدیث لکھی بھی نہ جائے،
اور امام رازی ؒ ،امام بخاریؒ اور نسائی فرماتے ہیں : یہ منکرالحدیث راوی ہے ،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فتوی میں مزید فرماتے ہیں : جہاں تک اس حدیث کے معنی و مفہوم کی بات ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ :
شریعت کے عام نصوص اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ : کوئی مفید جملہ ، یا کام کی بات جو اسلام کے خلاف نہ ہو ، وہ کبھی کبھی نا اہل کے منہ سے بھی نکل جاتی ہے ،
اور یوں اس کے منہ سے ایک اہل تک پہنچتی ہے ، تو مومن کیلئے مناسب نہیں کہ اس کام کی بات کو محض اس لئے رد کردے کہ یہ ایک ناکارہ کی زبان سے نکلی ہے ،
بلکہ ہونا یہ چاہیئے کہ قیمتی اور مفید بات کو قبول کیا جائے ، یہ دیکھے بغیر کہ اس کا قائل کون ہے ؛؛
 
Top