• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ميت كے ليے فاتحہ پڑھنا !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ایصالِ ثواب کا نعم البدل

اَلَّذِيْنَ يَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهٗ يُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُوْنَ بِهٖ وَيَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۚ رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّحْمَةً وَّعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِيْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِيْلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَــحِيْمِ Ċ۝ رَبَّنَا وَاَدْخِلْهُمْ جَنّٰتِ عَدْنِۨ الَّتِيْ وَعَدْتَّهُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَاۗىِٕـهِمْ وَاَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيّٰــتِهِمْ ۭ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ Ď۝ۙ
جو لوگ عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو اسکے گردا گرد (حلقہ باندھے ہوئے) ہیں (یعنی فرشتے) وہ اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتے رہتے ہیں اور اس پر ایمان لاتے ہیں اور مومنوں کیلئے بخشش مانگتے رہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار تیری رحمت اور تیرا علم ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے تو جن لوگوں نے توبہ کی اور تیرے راستے پر چلے ان کو بخش دے اور دوزخ سے بچا لے۔ اے ہمارے پروردگار ان کو ہمیشہ رہنے کی بہشتوں میں داخل کر جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے اور جو انکے باپ دادا اور ان کی بیویوں اور انکی اولاد میں سے نیک ہوں ان کو بھی بیشک تو غالب حکمت والا ہے۔
قرآن ، سورت غافر ، آیت نمبر 8-7
ان آیات سے بخونی واضح ہوتا ہے کہ اللہ کے فرشتے نیک اور ایمان والے لوگوں کے لیے مغفرت، جہنم سے نجات اور جنت میں داخلہ کے لیے دعا کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کے لیے بھی دعا کرتے ہیں جو اللہ کے حضور سچی توبہ کرتے اور اس کی راہ پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اپنی دعا میں اہلِ ایمان کے ان والدین، شریکِ حیات اور اولاد بھی شامل کر لیتے ہیں جنہوں نے نیکی کی راہ کو اپنایا ہو گا۔
اب غور کرنے کی بات ہےکہ اللہ کے وہ فرشتے جو معصوم ہیں اللہ کے عرش کو تھامے ہوئے ہیں اور ہر وقت اللہ رب العالمین کی حمد و ثناء میں لگے رہتے ہیں اگر وہ اہلِ ایمان کے لیے دعا کریں تو کیا اللہ ان کی دعاؤں کو رد کر دے گا ؟ کیا ان فرشتوں کی دعاؤں کے بعد بھی ان اہلِ ایمان کے لیے جو نیک عمل بھی کرتے ہوں ہم جیسے گنہگاروں کے من گھڑت ” ایصالِ ثواب “ کی بھی گنجائش باقی ہے ؟
اور اگر ہم بدکاریوں اور گناہوں میں ڈوبے رہیں اور اللہ کے احکامات کی مطلق پرواہ نہ کریں تو کیا ہمارا یہ من گھڑت ” ایصالِ ثواب “ ہم کو نجات دلا سکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔
فرمایا:-
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّــتُهُمْ بِاِيْمَانٍ اَلْحَـقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَآ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَيْءٍ ۭ كُلُّ امْرِی بِمَا كَسَبَ رَهِيْنٌ 21؀
اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد بھی (راہِ) ایمان میں ان کے پیچھے چلی ہم ان کی اولاد کو بھی ان (کے درجے) تک پہنچا دیں گے اور ان کے اعمال میں سے کچھ کم نہ کریں گے ہر شخص اپنے اعمال میں پھنسا ہوا ہے۔
قرآن ، سورت طور ، آیت نمبر 21
اس آیت میں اللہ نے فرمایا کہ آخرت میں ہم ایمان والوں اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے والی نیک اولاد کو جنت میں ملا دیں گے یعنی اگر اولاد نیکی اور درجے میں کم ہے تو ان کے درجات بڑھا کے ان کے نیک والدین کے ساتھ اپنے فضل اور رحمت سے ملا دیں گے۔ اسی طرح یہی معاملہ والدین پر بھی قیاس کر لیں اور ان دونوں کے اعمال میں کوئی کمی نہیں ہو گی کیوں کہ اولاد اپنے والدین کی کمائی ہوتی ہے۔ لیکن والدین اور اولاد دونوں کا نیک ہونا شرط ہے۔
اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ہمیں اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو نیکی کی راہ پر چلانا ہو گا اور وہ” ایصالِ ثواب “ جو ہمارے معاشرے میں رائج ہے وہ سرا سر قرآن و سنت کے خلاف تو ہےہی عقل کے بھی خلاف ہے۔
میرے بھائی آپ اس حدیث کا کیا جواب دے گے

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرى والدہ فوت ہو گئى اور اس نے كچھ وصيت نہيں كى، ميرا خيال ہے كہ اگر وہ كلام كرتى تو صدقہ ضرور كرتى، اگر ميں اس كى جانب سے صدقہ كروں تو كيا اسے اجر ملےگا؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: جى ہاں"

صحيح بخارى و صحيح مسلم.
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
میرے بھائی آپ اس حدیث کا کیا جواب دے گے

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرى والدہ فوت ہو گئى اور اس نے كچھ وصيت نہيں كى، ميرا خيال ہے كہ اگر وہ كلام كرتى تو صدقہ ضرور كرتى، اگر ميں اس كى جانب سے صدقہ كروں تو كيا اسے اجر ملےگا؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: جى ہاں"

صحيح بخارى و صحيح مسلم.
ایصالِ ثواب قرآن کی نظر میں !
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
صحيح سنت نبويہ اللہ كى جانب سے وحى ہے

پہلے تو ميں اس طرح كا سوال كرنے ميں معذرت چاہتا ہوں، ليكن اپنى نيت ميں شك كى مجال نہ چھوڑنے كے ليے ميں يہ كہتا ہوں: ميں گواہى ديتا ہوں كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اور محمد صلى اللہ عليہ وسلم اللہ كے رسول ہيں، اور ميں مكمل طور پر راضى ہوں كہ اللہ تعالى ميرا رب ہے اور اسلام دين ہے، اور محمد صلى اللہ عليہ وسلم رسول ہيں.
ميں سنت يعنى حديث كے متعلق دريافت كرنا چاہتا ہوں كيونكہ ايك ہى حديث كى كئى ايك روايات پائى جاتى ہيں مثلا صحيح بخارى ميں ہم ايك حديث پاتے ہيں جو اسلوب ميں مسلم كى روايت مختلف ہے، لہذا سنت نبويہ قرآن عظيم كى طرح كيوں نہيں ؟
اور سنت مطہرہ اور قرآن عظيم ميں كيا فرق ہے، آيا سنت نبويہ شريف وحى ميں شامل ہوتى ہے جو رسول صلى اللہ عليہ وسلم پر نازل ہوتى تھى، يا كہ يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اقوال اور افعال ميں سے ؟ اور كيا يہ خصائص نبوت ميں سے ہے يا كيا ؟



الحمد للہ:

اول:

ہر مسلمان كے دل اور عقل ميں يہ بات بيٹھ جانى چاہيے كہ سنت ـ وہ جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے افعال يا اقوال يا تقرير كى طرف منسوب كى جائے ـ وحى الہى كى دو قسموں ميں سے ايك قسم ہے جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر نازل كى گئى، اور وحى كى دوسرى قسم قرآن كريم ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

{ اور وہ ( نبى ) اپنى خواہش سے كوئى بات نہيں كہتے وہ تو صرف وحى ہے جو اتارى جاتى ہے }النجم ( 3 - 4 ).

مقدام بن معديكرب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" خبردار مجھے كتاب اور اس كے ساتھ اس كى مثل دى گئى ہے، خبردار قريب ہے كہ ايك پيٹ بھر كر كھانا كھايا ہوا شخص اپنے پلنگ پر بيٹھ كر يہ كہنے لگے: تم اس قرآن مجيد كو لازم پكڑو، اس ميں تم جو حلال پاؤ اسے حلال جانو، اور اس ميں جو تمہيں حرام ملے اسے حرام جانو.

خبردار جو رسول اللہ نے حرام كيا ہے وہ اسى طرح ہے جس طرح اللہ نے حرام كيا ہے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 2664 ) ترمذى نے اسے غريب من ھذا الوجہ كہا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے " السلسۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 2870 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

ہمارے دين حنيف سے سلف صالحين رحمہ اللہ تو يہى سمجھے تھے.

حسان بن عطيہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جبريل عليہ السلام رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر سنت لے كر نازل ہوا كرتے تھے جس طرح ان پر قرآن لے كر نازل ہوتے "

ديكھيں: الكفايۃ للخطيب ( 12 ) اسے دارمى نے سنن دارمى ( 588 ) اور خطيب نے الكفايۃ ( 12 ) اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح البارى ( 13 / 291 ) ميں بيہقى كى طرف منسوب كيا ہے كہ انہوں نے صحيح سند كے ساتھ روايت كيا ہے.

سنت كى اہميت اس سے بھى واضح ہوتى ہے كہ سنت نبويہ كتاب اللہ كا بيان اور اس كى شرح كرنے والى ہے، اور پھر جو احكام كتاب اللہ ميں ہيں ان سے كچھ احكام زيادہ بھى كرتى ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

{ اور ہم نے آپ كى طرف يہ ذكر ( كتاب ) نازل كيا ہے تا كہ لوگوں كى جانب جو نازل كيا گيا ہے آپ اسے كھول كھول كر بيان كر ديں }النحل ( 44 ).

ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اس كا بيان رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى جانب سے دو قسموں ميں ہے:

پہلى قسم:

كتاب اللہ ميں جو مجمل ہے اس كا بيان مثلا نماز پنجگانہ اور اس كے اوقات، اور نماز كے سجود و ركوع اور باقى سارے احكام.

دوسرى قسم:

كتاب اللہ ميں موجود حكم سے زيادہ حكم، مثلا پھوپھى كى اور خالہ كى موجودگى ميں اس كى بھتيجى اور بھانجى سے نكاح كرنا يعنى دونوں كو ايك ہى نكاح ميں جمع كرنا حرام ہے " انتہى

ديكھيں: جامع بيان العلم و فضلہ ( 2 / 190 ).

دوم:

جب سنت نبويہ وحى كى اقسام ميں دوسرى قسم ہے تو پھر اللہ كى جانب سے اس كى حفاظت بھى ضرورى اور لازم ہو گى تا كہ وہ اس سے دين ميں تحريف يا نقص يا ضائع ہونے سے محفوظ ركھے.

ابن حزم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

{ہم نے ذكر نازل كيا ہے اور ہم ہى اس كى حفاظت كرنے والے ہيں }الحجر ( 9 ).

اور ارشاد ربانى ہے:

{ كہہ ديجئے ميں تو تمہيں اللہ كى وحى كے ذريعہ آگاہ كر رہا ہوں مگر بہرے لوگ بات نہيں سنتے جبكہ انہيں آگاہ كيا جائے }الانبياء ( 45 ).

اللہ سبحانہ و تعالى نے خبر دى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سارى كلام وحى ہے، اور بغير كسى اختلاف كے وحى ذكر ہے، اور ذكر نص قرآنى كے ساتھ محفوظ ہے، تو اس سے يہ معلوم ہوا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سارى كلام اللہ كى حفاظت كے ساتھ محفوظ ہے، ہمارے ليے مضمون ہے كہ اس ميں سے كچھ ضائع نہيں ہوا، جب اللہ تعالى كى جانب سے يہ محفوظ ہے تو يقينا اس ميں سے كچھ بھى ضائع نہيں ہو سكتا، اور يہ سارى كى سارى ہمارى جانب منقول ہے، اس طرح ہم پر ہميشہ كے ليے حجت قائم ہو چكى ہے " انتہى

ديكھيں: الاحكام ( 1 / 95 ).

سوم:

جب يہ ثابت ہو گيا كہ سنت نبويہ وحى الہى ہے تو يہاں ايك چيز پر متنبہ رہنا چاہيے كہ اس سنت اور حديث ميں ايك فرق ہے، اور وہ فرق يہ ہے كہ قرآن مجيد تو اللہ كى كلام يعنى كلام اللہ ہے، اسے اپنے لفظوں ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف نازل فرمايا، ليكن سنت بعض اوقات كلام اللہ نہيں ہو سكتى، بلكہ وہ صرف وحى ميں شامل ہو گى، پھر يہ لازم نہيں كہ آپ اس كے الفاظ كى ادائيگى كريں، بلكہ معنى اور مضمون كے اعتبار سے ادا ہو سكتى ہے.

اس فرق كو سمجھ جانے سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ سنت نبويہ كے نقل ميں معتبر معنى اور مضمون ہے، نہ كہ بذاتہ وہ الفاظ جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بولے، شريعت اسلاميہ تو اللہ كى حفاظت سے محفوظ ہے، اللہ تعالى نے قرآن مجيد كى مكمل حفاظت فرمائى، اور سنت نبويہ صلى اللہ عليہ وسلم كى اجمالى طور پر اور اس كے معانى كى حفاظت كى، اور سنت نبويہ نے جو كتاب اللہ كى وضاحت و تبيين كى اسے محفوظ ركھا، نا كہ اس كے الفاظ و حروف كى.

اس كے ساتھ ساتھ امت كے علماء نے كئى صدياں گزرنے كے باوجود شريعت اور سنت نبويہ كى حفاظت كا ذمہ اٹھائے ركھا، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے الفاظ اسى طرح ہم تك نقل كيے جو آپ نے فرمائے تھے، اور اس ميں سے غلط اور صحيح اور حق و باطل ميں امتياز كيا.

اور عزيز سائل جو ايك ہى حديث كى كئى روايات ديكھتا ہے ا سكا معنى يہ نہيں كہ سنت نبويہ كے نقل كرنے اور اس كى حفاظت ميں كوئى كوتاہى ہے، بلكہ كئى ايك اسباب كى بنا پر روايات مختلف ہيں جب يہ ظاہر ہو جائيں تو جواب واضح ہو جائيگا.

تو يہ كہا جاتا ہے:

چہارم:

روايات كئى ايك ہونے كے كئى اسباب ہيں:

1 - حادثہ اور واقعہ كئى بار ہوا ہو:

ابن حزم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جب معنى ايك ہى ہو تو روايات كا مختلف ہونا حديث ميں عيب نہيں، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح ثابت ہے كہ جب آپ كوئى حديث بيان كرتے ت واسے تين بار دھراتے، اس طرح ہر انسان اپنى سماعت كے مطابق نقل كرتا، جب معنى ايك ہو تو روايات ميں يہ اختلاف اس مين شامل نہيں ہوتا جو حديث كو كمزور كر دے " انتہى

ديكھيں: الاحكام ( 1 / 134 ).

2 – روايت بالمعنى:

كسى ايك حديث كى كئى روايات ہونے كا سبب روايت بالمعنى ہے، كيونكہ مہم تو حديث نقل كرنا اور اس كے مضون اور اس حديث ميں جو كچھ بيان ہوا ہے اس كى ادائيگى ہے، رہے حديث كے الفاظ تو يہ قرآن مجيد كى طرح تعبدى نہيں.

اس كى مثال درج ذيل حديث ہے:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" انما الاعمال بالنيات " اعمال كا دارومدار نيتوں پر ہے.

يہ حديث " العمل بالنيۃ " كے الفاظ سے بھى مروى ہے، اور " انما الاعمال بالنيات " كے الفاظ سے بھى، اور " الاعمال بالنيۃ " كے الفاظ سے بھى، اس تعدد روايت كا سبب روايت بالمعنى ہے، كيونكہ حديث كا مخرج ايك ہى ہے اور وہ يحي بن سعيد عن محمد بن ابراہيم التيمى عن علقمۃ عن عمر رضى اللہ تعالى عنہ ہے، ديكھيں كہ ان سب جملوں سے جو معنى سمجھ ميں آتا ہے وہ ايك ہى ہے، تو پھر تعدد روايات يعنى حديث كا كئى ايك روايات سے مروى ہونے ميں كيا ضرر ہے ؟!

اور علماء كرام اپنا زيادہ كرنے كے ليے كہ راوى نے حديث كا معنى صحيح نقل ہے روايت بالمعنى صرف اس راوى كى قبول كرتے تھے جو عربى زبان كا ماہر اور علم ركھتا ہو، پھر علماء كرام اس راوى كى روايت كا دوسرے ثقات راويوں كى روايت سے مقارنہ اور موازنہ كرتے اس طرح ان كے ليے نقل ميں جو غلطى ہوتى وہ واضح ہو جاتى، اس كى مثاليں بہت ہيں ليكن يہ اس كے بيان كرنے كا مقام نہيں.

3 - راوى كا حديث كو مختصر كر كے روايت كرنا:

يعنى راوى كو پورى اور مكمل حديث حفظ ہے ليكن وہ فى الحال وہ اس كا جزء اور حصہ ہى نقل كرنے پر اكتفا كرتا ہے، اور كسى دوسرى حالت ميں مكمل حديث بيان كر ديتا ہے، اس كى مثال درج ذيل حديث ہے:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ ظہر كى نماز ميں نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے بھولنے كے قصہ كے متعلق ذكر كردہ روايات ميں سارى روايات ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ ہى سے مروى ہيں اور قصہ بھى ايك ہے، اور يہ اس بات كى دليل ہے كہ روايات كا اختلاف راوى كا روايت اختصار كے ساتھ بيان كرنا ہے.

ديكھيں: صحيح بخارى حديث نمبر ( 714 ) اور ( 715 ) اور ( 1229 ).

4 - غلطى و خطا:

كسى راوى سے غلطى اور خطا واقع ہو جاتى ہے تو وہ حديث كو اس كے علاوہ روايت كر ديتا جس طرح دوسرے راوى روايت كرتے ہيں، اس غلطى و خطا كى پہچان دوسرى روايات كے ساتھ مقارنہ و موازنہ كرنے سے ہو جاتى ہے، اور كتب سنہ اور كتب تخريج ميں اہل علم نے يہى كام كيا ہے.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ليكن اللہ تعالى نے اس امت كے ليے جو نازل كيا ہے اس كى حفاظت فرمائى ہے، اللہ تعالى كا فرمان ہے:

{ہم نے ذكر نازل كيا ہے اور ہم ہى اس كى حفاظت كرنے والے ہيں }الحجر ( 9 ).

چنانچہ قرآن كى تفسير يا نقل حديث يا اس كى شرح ميں جو غلط ہے اللہ تعالى امت ميں ايسے شخص پيدا فرمائيگا جو اس غلطى كو صحيح كرينگے، اور غلطى كرنے والے كى غلطى اور جھوٹ بھولنے والے كے كذب كى دليل بيان كرينگے، كيونكہ يہ امت كسى گمراہى و ضلالت پر جمع نہيں ہو سكتى، اور ہر وقت اس ميں حق پر ايك گروہ موجود رہيگا حتى كہ قيامت قائم ہو جائے، كيونكہ امتوں ميں سے يہ سب سے آخرى امت ہے ان كے نبى كے بعد كوئى اور نبى نہيں، اور ان كى كتاب كے بعد كوئى اور كتاب نہيں.

پہلى امتوں نے جب اپنے دين ميں تبديلى و تغير كر ليا تو اللہ تعالى ان ميں نبى مبعوث فرما ديا كرتا تھا جو انہيں حكم ديتا اور برائى سے منع كرتا، ليكن محمد صلى اللہ عليہ وسلم كے بعد كوئى نبى نہيں، اور پھر اللہ تعالى نے جو ذكر نازل كيا ہے اسے محفوظ ركھنے كى ضمانت لے ركھى ہے " انتہى

ديكھيں: الجواب الصحيح ( 3 / 39 ).

سنت نبويہ اس وجہ پر جو ہم پہلے بيان كر چكے ہيں كہ يہ اللہ سبحانہ و تعالى كى جانب سے وحى ہے: يہ لوگوں كے ليے نازل كردہ كتاب كى وضاحت و تبيين كرتى ہے، اور انہيں ان كے دين كے ضرورى احكام سكھاتى ہے، اگرچہ اس كى تفصيل يا اس كى اصل كتاب اللہ ميں آئى ہے، ہم يہ كہينگے:

اس طريق اور وجہ سے سنت نبويہ نبوت كے خصائص ميں شامل ہوتى ہے؛ اور يہ كام اور وظيفہ نبوت كے وضائف ميں سے ہے، اور اب تك لوگ سنت كو اس وجہ اور طريق سے ہى ديكھتے ہيں، جو كتب ميں موجود ہے، يا بعض الفاظ كے اختلاف كے ساتھ زبانى روايات ميں پائى جاتى ہے، يا حديث كے كئى ايك سياقات ميں، اور اس ميں ايسى كوئى چيز نہيں جو اس كے مقام و مرتبہ ميں شك پيدا كرتى ہو، يا اس كى حفاظت ميں كوئى قلق و پريشانى كا باعث ہو، يا اس كى حجيت ميں تردد و اختلاف پيدا كرے، اور لوگوں كو اس كى ضرورت بھى ہے كيونكہ لوگ كثرت سے علمى و عملى مسائل ميں اختلاف و تردد كا شكار ہو چكے ہيں.

علامہ شيخ عبد الغنى عبد الخالق رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ہم غزالى اور آمدى اور بزدوى اور ان كے طريقوں كے سب متبعين جو اصولى مؤلف ہيں ان كى كتب اس كى تصريح نہيں پاتے اور نہ ہى كوئى اس مسئلہ ميں اختلاف كا اشارہ ہى پاتے ہيں، اور يہ وہ لوگ ہيں جنہوں نے اپنے سے قبل سابقہ لوگوں كى كتابيں اور مذہب كا پيچھا كيا، اور ان كے اختلافات كو كا تتبع كيا حتى كہ شاذ قسم كے اختلافات كا بھى، اور اس كے رد كا بہت زيادہ خيال كيا "

پھر انہوں نے " مسلّم " كے مؤلف سے كتاب و سنت اور اجماع و قياس كى حجيت سے نقل كرتے ہوئے كہا ہے كہ: يہ علم كلام ميں سے ہے، ليكن دو اصولوں اجماع اور قياس كى حجيت پر كلام كى ہے، كيونكہ بےوقوف قسم كے خوارج اور رافضيوں ( اللہ انہيں ذليل كرے ) نے ان دونوں سے ہى اكثر دليل لى ہے اور وہ ان ميں مشغول ہوئے ہيں.

رہى كتاب و سنت كى حجيت تو دين كے سب آئمہ اس كى حجيت پر متفق ہيں اس كے ذكر كرنے كى كوئى ضرورت نہيں " انتہى

ديكھيں: حجيت السنۃ ( 248 - 249 ).

اور مزيد آپ سوال نمبر ( 93111 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

الاسلام سوال و جواب

http://islamqa.info/ur/77243
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069

صحيح حديث كو رد كرنے والے كا حكم

كيا صحيح حديث رد كرنے والے كو كافر قرار ديا جائيگا ؟
ايك بھائى صحيح بخارى اور مسلم ميں وارد شدہ بعض احاديث كو اس حجت سے رد كرتے ہيں كہ يہ احاديث قرآن كے ساتھ متصادم اور معارض ہيں، صحيح حديث كو رد كرنے والے كا حكم كيا ہو گا، آيا اسے كافر كہا جائے ؟



الحمد للہ:

اول:

سنت نبويہ تشريع ميں دوسرا مصدر ہے، جس طرح قرآن مجيد جبريل امين نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر لاتے تھے اسى طرح سنت بھى لاتے تھے، اس كا مصداق اللہ سبحانہ و تعالى كا يہ فرمان ہے:

{ اور وہ ( نبى ) اپنى خواہش سے كوئى بات نہيں كہتے وہ تو صرف وحى ہے جو اتارى جاتى ہے }النجم ( 3 - 4 ).

اللہ سبحانہ و تعالى نے مومنوں پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام اور ان كى حديث اور حكم كو مكمل تسليم كرنے كا حكم ديا ہے، حتى كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنى قسم اٹھا كر كہا ہے كہ جس نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام سنى اور پھر اسے قبول نہ كيا بلكہ رد كر ديا تو اس ميں ايمان كى رتى بھى نہيں ہے.

اللہ تعالى كا ارشاد ہے:

{ تيرے رب كى قسم يہ اس وقت تك مومن ہى نہيں ہو سكتے جب تك كہ وہ آپس كے تمام اختلافات ميں آپ كو حاكم تسليم نہ كر ليں، پھر آپ جو ان ميں فيصلہ كر ديں اس كے متعلق اپنے دل ميں كسى طرح كى تنگى اور ناخوشى نہ پائيں اور فرمانبردارى كے ساتھ قبول كر ليں }النساء ( 65 ).

اسى ليے اہل علم كے مابين اس پر اتفاق ہے كہ جس نے بھى عمومى شكل ميں حجيت حديث كا انكار كيا، يا پھر اسے علم ہو كہ يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام ہے اسے جھٹلا ديا تو وہ شخص كافر ہے، اس ميں ادنى سے درجہ كا اسلام اور اللہ اور اس كے رسول كے اطاعت نہيں.

امام اسحاق بن راھويہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جس شخص كے پاس بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث پہنچے جو صحيح ہو اور پھر وہ اسے بغير تقيہ كے رد كر دے تو وہ كافر ہے " انتہى

اور سيوطى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اللہ آپ پر رحم كرے آپ كو يہ علم ميں ركھيں كہ جس نے بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى قولى يا فعلى حديث كا انكار كيا بشرطيكہ وہ اصول ميں معروف ہيں وہ كافر ہے، اور دائرہ اسلام سے خارج ہے، اور وہ يہود و نصارى كے ساتھ يا كافروں كے دوسرے فرقوں ميں جس كے ساتھ چاہے اٹھايا جائيگا " انتہى

ديكھيں: مفتاح الجنۃ فى الاحتجاج بالسنۃ ( 14 ).

اور علامہ ابن وزير رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث كا علم ہوتے ہوئے حديث كا انكار كرنا صريحا كفر ہے " انتہى

ديكھيں: العواصم والقواصم ( 2 / 274 ).

مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:

" جو شخص سنت پر عمل سے انكار كرتا ہے وہ كافر ہے؛ كيونكہ وہ اللہ اور اس كے رسول اور مسلمانوں كے اجماع كو جھٹلانے والا ہے " انتہى

ديكھيں: المجموعۃ الثانيۃ ( 3 / 194 ).

مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:

" جو شخص سنت پر عمل سے انكار كرتا ہے وہ كافر ہے؛ كيونكہ وہ اللہ اور اس كے رسول اور مسلمانوں كے اجماع كو جھٹلانے والا ہے " انتہى

ديكھيں: المجموعۃ الثانيۃ ( 3 / 194 ).

مزيد آپ سوال نمبر ( 604 ) اور ( 13206 ) اور ( 77243 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

دوم:

ليكن جو شخص حديث نبوى كو اس اعتبار سے نہيں مانتا اور رد كرتا ہے كہ يہ نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث نہيں ہو سكتى تو يہ پہلى قسم كى طرح نہيں، ہم ديكھتے ہيں كہ " تنويرى " قسم كے نئے لوگ وہ ہيں جنہوں نے اپنى آراء اور توجھات كے ساتھ حديث پر حكم لگايا ہے، اور يہ بات كوئى نئى نہيں، بلكہ اپنے سے قبل بدعتيوں كا ہى ٹولہ ہے، جن كے متعلق اہل علم نے ان كے شبہات بيان كيے ہيں.

ان اور اس طرح كے لوگوں كو ہم كہينگے:

حديث رد كرنے اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث ہونے سے انكار كرنے سے قبل علمى منہج تقاضا كرتا ہے كہ اس پر غور كيا جائے ذيل ميں ہم اس كى شروط پيش كرتے ہيں:

پہلى شرط:

حديث ميں جو بيان ہوا ہے اور جو قرآن ميں وارد ہے اس ميں مكمل تناقض ہو اور يہ تناقض كسى واضح دلالت سے ثابت ہو جو منسوخ نہ ہو، يہاں ہم پھر " مكمل تناقض " كى قيد كى تاكيد كرتے ہيں، يہ تناقض صرف ظاہرى نہيں ہونا چاہے جو بادى النظر ميں جلدى سے ذہن ميں آئے.

اميد ہے جو لوگ انكار حديث كا سوچتے ہيں وہ بھى ہمارے ساتھ اس قيد ميں متفق ہونگے؛ كيونكہ اكثر لوگوں كے ذہن ميں آنے والے ظاہرى تعارض كى كوئى حقيقت نہيں، بلكہ يہ تو اعتراض كرنے والے كے ذہن ميں قائم ہوا ہے، اس كا جواب تامل اور غور كرنے اور لغت كى وجوہات تلاش كرنے اور اس كا اصول شريعت اور اس كے مقاصد كى موافقت كے ساتھ جواب ديا جا سكتا ہے.

جو كوئى بھى علامہ ابن قتيبہ الدينورى كى كتاب " مختلف الحديث " پر غور اور تامل كرے وہ اس بے تكى كى قدر معلوم كر سكتا ہے جو ان منكرين حديث نے بےتكى مارى ہيں كہ يہ قرآن كے موافق نہيں، يا پھر عقل اس كى تصديق نہيں كرتى.

پھر جب ابن قتبيہ اس كتاب ميں ان احاديث كى علماء كرام سے صحيح شرح بيان كرتے ہيں تو واضح ہوتا ہے كہ اس كى صحيح وجہ بھى ہے جو شريعت كے موافق ہے، اور قرآن كے تعارض والا تو صرف ايك فاسد قسم كا وہم ہى ہے.

ہم ان اور ان جيسے سنت كو رد كرنے كى جرات كرنے اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث پر طعن كرنے والوں سے بغير كسى علمى منہج، يا مقبول تنقيدى اصول، اور بغير كسى علمى اصول كے فيصلے جس كى يہ بات اور بحث كرتے ہيں سے سوال كرتے ہيں:

كيا آپ يہ خيال كر سكتے ہيں كہ ناقد كو يقين ہو كہ يہ حديث نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام ميں سے نہيں اور يہ ممكن ہو كہ وہ مكمل طور پر قرآن كے ساتھ تعارض و تناقض ركھے، اس كے باوجود ہم ديكھيں كہ صحابہ كرام كے دور سے ليكر آج تك علماء اسلام اس حديث كو قبول اور اس كى شرح اور تفسير اور اس سے استدلال اور اس پر عمل كرنے پر متفق ہوں ؟!

كيا عقل سليم ـ جس كو يہ حاكم تسليم كرتے ہيں ـ يہى فيصلہ نہيں كرتى كہ اہل تخصص كے كسى امر پر فيصلے كا احترام كيا جائے جو اپنے فن اور تخصص ميں ماہر ہوں ؟!

كيا كوئى شخص مثلا كے طور فيزيا يا كيماء يا رياضى يا علوم تربيہ يا اقتصادى علوم كے ماہرين كو غلط كہنے كى جرات كرتا ہے جب وہ كسى ايك معاملہ پر سب متفق ہوں، خاص كر جب اس علم كے متخصصين ميں سے كوئى شخص بھى ان پر اعتراض كرنے والا نہ پايا جائے، بلكہ انتہائى طور پر يہى ہو گا كہ بعض نے اس كے متعلق كچھ كالم يا كوئى كتاب پڑھ لى جو علم كو بيان كرتى ہو يا پھر سب لوگوں كے علم كے ليے، كيا كوئى ايسى جرات كر سكتا ہے ؟!

دوسرى شرط:

اسناد ميں ضعف كا پايا جانا جو متن ميں وارد خطا كى متحمل ہو:

اور ہمارا خيال بھى ـ يہى ـ ہے كہ يہ شرط منہجى اور صحيح ہے، علمى نقد كے اصول كو تھوڑا سا بھى سمجھنے والے شخص كو اس كى مخالفت نہيں كرنى چاہيے، اور وہ يہ كہ متن كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام ہونے سے انكار كرنا يہ معنى ركھتا ہے كہ سند ميں ضعف كا پايا جانا ہى ہميں يہ وہم دلاتا ہے كہ يہ حديث نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام ميں سے ہے، حالانكہ يہ ـ بالفعل ـ ايسا نہيں.

امام شافعى رحمہ اللہ كون امام شافعى جو كہ علم و ايمان ميں ايك اونچا مرتبہ ركھتے ہيں، جنہوں نے علم اصول فقہ ميں پہلى كتاب تصنيف كى ان كا كہنا ہے:

" جب حديث كو ثقات راوى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے روايت كريں تو يہ اس كا ثبوت ہے "

ديكھيں: كتاب الام كے ضمن ميں اختلاف الحديث ( 10 / 107 ).

اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:

" صدق اور كذب حديث كا استدلال مخبر يعنى خبر دينے والے كے صدق پر ہوتا ہے، مگر قليل سى خاص حديث ميں "

ديكھيں: الرسالۃ فقرۃ ( 1099 ).

اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:

" مسلمان عدول ہيں: وہ اپنے آپ ميں عدول اور صحيح الامر ہيں.... اور ان كا اپنے متعلق خبر دينے اور ان كا نام صحيح سلامتى پر ہے، حتى كہ ہم ان كے فعل اس كا استدلال كريں جو اس كى مخالفت كرتا ہو، تو ہم اس خاص خيال كريں جس ميں ان كے فعل نے اس كى مخالفت كى ہے جو ان پر واجب ہوتا تھا "

ديكھيں: الرسالۃ فقرۃ ( 1029 - 1030 ) اور كتاب الام ( 8 / 518 - 519 ).

امام شافعى رحمہ اللہ اس موضوع كے متعلق كچھ علمى اصول بيان جو كہ ان كي مختلف كتب ميں بہت زيادہ بيان ہے كے بعد ہمارے ليے اپنا فيصلہ ذكر كرتے ہيں جس ميں كچھ ہم نے يہاں نقل كيا وہ فردى اجتھاد يا ان كا شخصى مذہب نہيں، بلكہ وہ ايسا اصول ہے جس پر اس سے قبل اہل علم بھى متفق اور جمع ہيں امام شافعى كہتے ہيں:

" ميں نے اپنى اس كتاب كے شروع ميں جو لكھا ہے اس كا عام معنى كتاب و سنت كا علم ركھنے والے، اور مختلف لوگوں اور قياس اور معقول كا علم ركھنے والے متقدم علماء ميں سے كئى ايك كے سامنے بيان كيا تو ان ميں سے كسى ايك نے بھى كسى ايك كى مخالفت نہ كى، اور ان كا كہنا تھا:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام، اور تابعين عظام اور تبع تابعين كا مذہب يہى ہے، اور ہمارا مذہب بھى يہى ہے؛ اس ليے جو بھى اس مذہب كو چھوڑے گا ہمارے نزديك وہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام اور ان كے بعد آج تك كے اہل علم كى راہ چھوڑ رہا ہے، اور وہ جاہل لوگوں ميں شامل ہوتا ہے.

ان سب كا كہنا تھا: اس راہ كى مخالفت كرنے والے كو ہمارى رائے ميں سب اہل علم كے اجماع ميں جاہل قرار ديا گيا ہے الخ... "!!

ديكھيں: اختلاف الحديث ـ كتاب الام ـ ( 10 / 21 ) اور اسى طرح كى كلام آپ الرسالۃ فقرۃ ( 1236- 1239 ) ميں ديكھ سكتے ہيں.

اس ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف منسوب حديث كو رد كرنے والے شخص پر سب سے پہلے يہ واجب اور ضرورى ہے كہ وہ يہ تلاش كرے اور بيان كرے كہ اس كو بيان كرنے والے راويوں ميں سے كون ہے جس نے نقل كرنے ميں غلطى كى ہے، اور اگر رد كرنے والے كو سند ميں كوئى ايسا سبب نہ ملے جو اس حديث كے انكار ميں مقبول سبب بن سكتا ہو تو يہ اس كے منہج كى غلطى كى علامت ہے، اور پھر يہ اس كى بھى علامت ہے كہ اسے حديث اور قرآن كى فہم اور مقاصد شرعيۃ كى فہم كا مراجعہ كرنے كى ضرورت ہے.

اور پھر جب كوئى حديث زمين پر موجود سب سے صحيح ترين سند كے ساتھ موجود ہو، بلكہ وہ حديث بہت سارے طرق سے مروى ہوں ـ جيسا كہ اكثر وہ احاديث جنہيں تنويرى رد كرتے ہيں ـ اور صحابہ كرام كى ايك جماعت سے مروى ہوں انہيں رد كرنا كيسا ہو گا؟!

تيسرى شرط:

سارے معاملہ كو احتمال اجتھاد كى طرف منسوب كرنا، اور يقين و حسم اور مخالف پر مسلمانوں كى عقلوں ميں طعن و تہمت زنى ترك كرنا، يہ اس وقت ہے جب اس ميں كوئى ايسى وجہ ہو جو اس احتمال كو ركھتى ہو، اور اس سلسلہ ميں كلام كرنے والا اہليت بھى ركھتا ہو ـ ضرورى بحث كے لوازمات ـ تا كہ وہ اس كا ادراك كر سكے اور اس ميں بحث كرے، كسى معين علت كى بنا پر كسى ايك عالم كو حديث ضعيف لگتى ہے، ليكن جس نے حديث قبول كى وہ اس پر تہمت كى زبان استعمال نہ كرے.

لہذا جو شخص ان تين شروط كى مخالفت كرتا اور حديث كا انكار اور اس كى تكذيب كرنے پر اصرار كرتا ہے تو وہ خطرناك راہ پر ہے، كيونكہ كسى بھى مسلمان كے ليے بغير كسى شروط و ضوابط كے منہج ميں تاويل كرنا جائز نہيں، وگرنہ وہ گناہ اور حرج ميں پڑيگا.

امام احمد رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جس نے بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث كو رد كيا تو وہ ہلاكت كے كنارے پر ہے " انتہى

اور حسن بن على بربھارى كہتے ہيں:

" جب تم كسى شخص كو حديث و اثار ميں طعن كرتے سنو، يا پھر وہ آثار كو رد كرتا يا آثار يعنى احاديث كے علاوہ كچھ اور چاہتا ہو تو آپ اس كے اسلام ميں تہمت لگا سكتے ہيں، اور آپ اسے بلاشك و شبہ بدعتى اور صاحب ہوى و خواہشات سمجھ سكتے ہيں.

اور جب آپ سنيں كہ كسى شخص كے پاس حديث آتى ہے تو وہ حديث نہيں چاہتا بلكہ قرآن چاہتا ہے، تو آپ اس ميں شك نہ كريں كہ وہ زنديق ہے، آپ اس كے پاس سے اٹھ جائيں اور اسے چھوڑ ديں " انتہى

ديكھيں: شرح السنۃ ( 113 - 119 ) اختصار كے ساتھ.

اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے رب سے جو بيان كيا ہے اس پر ايمان ركھنا واجب ہے، چاہے ہم اس كا معنى جانتے ہوں يا نہ جانيں؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم صادق المصدوق ہيں، اس ليے جو بھى كتاب و سنت ميں آيا ہے ہر مومن شخص كے ليے اس پر ايمان ركھنا واجب ہے، چاہے وہ اس كا معنى نہ بھى سمجھتا ہو " انتہى

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 3 / 41 ).

مزيد آپ سوال نمبر (245 ) اور ( 9067 ) اور ( 20153 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

الاسلام سوال و جواب
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
صحيح حديث كو رد كرنے والے كا حكم

كيا صحيح حديث رد كرنے والے كو كافر قرار ديا جائيگا ؟
ايك بھائى صحيح بخارى اور مسلم ميں وارد شدہ بعض احاديث كو اس حجت سے رد كرتے ہيں كہ يہ احاديث قرآن كے ساتھ متصادم اور معارض ہيں، صحيح حديث كو رد كرنے والے كا حكم كيا ہو گا، آيا اسے كافر كہا جائے ؟



الحمد للہ:

اول:

سنت نبويہ تشريع ميں دوسرا مصدر ہے، جس طرح قرآن مجيد جبريل امين نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر لاتے تھے اسى طرح سنت بھى لاتے تھے، اس كا مصداق اللہ سبحانہ و تعالى كا يہ فرمان ہے:

{ اور وہ ( نبى ) اپنى خواہش سے كوئى بات نہيں كہتے وہ تو صرف وحى ہے جو اتارى جاتى ہے }النجم ( 3 - 4 ).

اللہ سبحانہ و تعالى نے مومنوں پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام اور ان كى حديث اور حكم كو مكمل تسليم كرنے كا حكم ديا ہے، حتى كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنى قسم اٹھا كر كہا ہے كہ جس نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام سنى اور پھر اسے قبول نہ كيا بلكہ رد كر ديا تو اس ميں ايمان كى رتى بھى نہيں ہے.

اللہ تعالى كا ارشاد ہے:

{ تيرے رب كى قسم يہ اس وقت تك مومن ہى نہيں ہو سكتے جب تك كہ وہ آپس كے تمام اختلافات ميں آپ كو حاكم تسليم نہ كر ليں، پھر آپ جو ان ميں فيصلہ كر ديں اس كے متعلق اپنے دل ميں كسى طرح كى تنگى اور ناخوشى نہ پائيں اور فرمانبردارى كے ساتھ قبول كر ليں }النساء ( 65 ).

اسى ليے اہل علم كے مابين اس پر اتفاق ہے كہ جس نے بھى عمومى شكل ميں حجيت حديث كا انكار كيا، يا پھر اسے علم ہو كہ يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام ہے اسے جھٹلا ديا تو وہ شخص كافر ہے، اس ميں ادنى سے درجہ كا اسلام اور اللہ اور اس كے رسول كے اطاعت نہيں.

امام اسحاق بن راھويہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جس شخص كے پاس بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث پہنچے جو صحيح ہو اور پھر وہ اسے بغير تقيہ كے رد كر دے تو وہ كافر ہے " انتہى

اور سيوطى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اللہ آپ پر رحم كرے آپ كو يہ علم ميں ركھيں كہ جس نے بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى قولى يا فعلى حديث كا انكار كيا بشرطيكہ وہ اصول ميں معروف ہيں وہ كافر ہے، اور دائرہ اسلام سے خارج ہے، اور وہ يہود و نصارى كے ساتھ يا كافروں كے دوسرے فرقوں ميں جس كے ساتھ چاہے اٹھايا جائيگا " انتہى

ديكھيں: مفتاح الجنۃ فى الاحتجاج بالسنۃ ( 14 ).

اور علامہ ابن وزير رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث كا علم ہوتے ہوئے حديث كا انكار كرنا صريحا كفر ہے " انتہى

ديكھيں: العواصم والقواصم ( 2 / 274 ).

مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:

" جو شخص سنت پر عمل سے انكار كرتا ہے وہ كافر ہے؛ كيونكہ وہ اللہ اور اس كے رسول اور مسلمانوں كے اجماع كو جھٹلانے والا ہے " انتہى

ديكھيں: المجموعۃ الثانيۃ ( 3 / 194 ).

مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:

" جو شخص سنت پر عمل سے انكار كرتا ہے وہ كافر ہے؛ كيونكہ وہ اللہ اور اس كے رسول اور مسلمانوں كے اجماع كو جھٹلانے والا ہے " انتہى

ديكھيں: المجموعۃ الثانيۃ ( 3 / 194 ).

مزيد آپ سوال نمبر ( 604 ) اور ( 13206 ) اور ( 77243 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

دوم:

ليكن جو شخص حديث نبوى كو اس اعتبار سے نہيں مانتا اور رد كرتا ہے كہ يہ نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث نہيں ہو سكتى تو يہ پہلى قسم كى طرح نہيں، ہم ديكھتے ہيں كہ " تنويرى " قسم كے نئے لوگ وہ ہيں جنہوں نے اپنى آراء اور توجھات كے ساتھ حديث پر حكم لگايا ہے، اور يہ بات كوئى نئى نہيں، بلكہ اپنے سے قبل بدعتيوں كا ہى ٹولہ ہے، جن كے متعلق اہل علم نے ان كے شبہات بيان كيے ہيں.

ان اور اس طرح كے لوگوں كو ہم كہينگے:

حديث رد كرنے اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث ہونے سے انكار كرنے سے قبل علمى منہج تقاضا كرتا ہے كہ اس پر غور كيا جائے ذيل ميں ہم اس كى شروط پيش كرتے ہيں:

پہلى شرط:

حديث ميں جو بيان ہوا ہے اور جو قرآن ميں وارد ہے اس ميں مكمل تناقض ہو اور يہ تناقض كسى واضح دلالت سے ثابت ہو جو منسوخ نہ ہو، يہاں ہم پھر " مكمل تناقض " كى قيد كى تاكيد كرتے ہيں، يہ تناقض صرف ظاہرى نہيں ہونا چاہے جو بادى النظر ميں جلدى سے ذہن ميں آئے.

اميد ہے جو لوگ انكار حديث كا سوچتے ہيں وہ بھى ہمارے ساتھ اس قيد ميں متفق ہونگے؛ كيونكہ اكثر لوگوں كے ذہن ميں آنے والے ظاہرى تعارض كى كوئى حقيقت نہيں، بلكہ يہ تو اعتراض كرنے والے كے ذہن ميں قائم ہوا ہے، اس كا جواب تامل اور غور كرنے اور لغت كى وجوہات تلاش كرنے اور اس كا اصول شريعت اور اس كے مقاصد كى موافقت كے ساتھ جواب ديا جا سكتا ہے.

جو كوئى بھى علامہ ابن قتيبہ الدينورى كى كتاب " مختلف الحديث " پر غور اور تامل كرے وہ اس بے تكى كى قدر معلوم كر سكتا ہے جو ان منكرين حديث نے بےتكى مارى ہيں كہ يہ قرآن كے موافق نہيں، يا پھر عقل اس كى تصديق نہيں كرتى.

پھر جب ابن قتبيہ اس كتاب ميں ان احاديث كى علماء كرام سے صحيح شرح بيان كرتے ہيں تو واضح ہوتا ہے كہ اس كى صحيح وجہ بھى ہے جو شريعت كے موافق ہے، اور قرآن كے تعارض والا تو صرف ايك فاسد قسم كا وہم ہى ہے.

ہم ان اور ان جيسے سنت كو رد كرنے كى جرات كرنے اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث پر طعن كرنے والوں سے بغير كسى علمى منہج، يا مقبول تنقيدى اصول، اور بغير كسى علمى اصول كے فيصلے جس كى يہ بات اور بحث كرتے ہيں سے سوال كرتے ہيں:

كيا آپ يہ خيال كر سكتے ہيں كہ ناقد كو يقين ہو كہ يہ حديث نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام ميں سے نہيں اور يہ ممكن ہو كہ وہ مكمل طور پر قرآن كے ساتھ تعارض و تناقض ركھے، اس كے باوجود ہم ديكھيں كہ صحابہ كرام كے دور سے ليكر آج تك علماء اسلام اس حديث كو قبول اور اس كى شرح اور تفسير اور اس سے استدلال اور اس پر عمل كرنے پر متفق ہوں ؟!

كيا عقل سليم ـ جس كو يہ حاكم تسليم كرتے ہيں ـ يہى فيصلہ نہيں كرتى كہ اہل تخصص كے كسى امر پر فيصلے كا احترام كيا جائے جو اپنے فن اور تخصص ميں ماہر ہوں ؟!

كيا كوئى شخص مثلا كے طور فيزيا يا كيماء يا رياضى يا علوم تربيہ يا اقتصادى علوم كے ماہرين كو غلط كہنے كى جرات كرتا ہے جب وہ كسى ايك معاملہ پر سب متفق ہوں، خاص كر جب اس علم كے متخصصين ميں سے كوئى شخص بھى ان پر اعتراض كرنے والا نہ پايا جائے، بلكہ انتہائى طور پر يہى ہو گا كہ بعض نے اس كے متعلق كچھ كالم يا كوئى كتاب پڑھ لى جو علم كو بيان كرتى ہو يا پھر سب لوگوں كے علم كے ليے، كيا كوئى ايسى جرات كر سكتا ہے ؟!

دوسرى شرط:

اسناد ميں ضعف كا پايا جانا جو متن ميں وارد خطا كى متحمل ہو:

اور ہمارا خيال بھى ـ يہى ـ ہے كہ يہ شرط منہجى اور صحيح ہے، علمى نقد كے اصول كو تھوڑا سا بھى سمجھنے والے شخص كو اس كى مخالفت نہيں كرنى چاہيے، اور وہ يہ كہ متن كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام ہونے سے انكار كرنا يہ معنى ركھتا ہے كہ سند ميں ضعف كا پايا جانا ہى ہميں يہ وہم دلاتا ہے كہ يہ حديث نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام ميں سے ہے، حالانكہ يہ ـ بالفعل ـ ايسا نہيں.

امام شافعى رحمہ اللہ كون امام شافعى جو كہ علم و ايمان ميں ايك اونچا مرتبہ ركھتے ہيں، جنہوں نے علم اصول فقہ ميں پہلى كتاب تصنيف كى ان كا كہنا ہے:

" جب حديث كو ثقات راوى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے روايت كريں تو يہ اس كا ثبوت ہے "

ديكھيں: كتاب الام كے ضمن ميں اختلاف الحديث ( 10 / 107 ).

اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:

" صدق اور كذب حديث كا استدلال مخبر يعنى خبر دينے والے كے صدق پر ہوتا ہے، مگر قليل سى خاص حديث ميں "

ديكھيں: الرسالۃ فقرۃ ( 1099 ).

اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:

" مسلمان عدول ہيں: وہ اپنے آپ ميں عدول اور صحيح الامر ہيں.... اور ان كا اپنے متعلق خبر دينے اور ان كا نام صحيح سلامتى پر ہے، حتى كہ ہم ان كے فعل اس كا استدلال كريں جو اس كى مخالفت كرتا ہو، تو ہم اس خاص خيال كريں جس ميں ان كے فعل نے اس كى مخالفت كى ہے جو ان پر واجب ہوتا تھا "

ديكھيں: الرسالۃ فقرۃ ( 1029 - 1030 ) اور كتاب الام ( 8 / 518 - 519 ).

امام شافعى رحمہ اللہ اس موضوع كے متعلق كچھ علمى اصول بيان جو كہ ان كي مختلف كتب ميں بہت زيادہ بيان ہے كے بعد ہمارے ليے اپنا فيصلہ ذكر كرتے ہيں جس ميں كچھ ہم نے يہاں نقل كيا وہ فردى اجتھاد يا ان كا شخصى مذہب نہيں، بلكہ وہ ايسا اصول ہے جس پر اس سے قبل اہل علم بھى متفق اور جمع ہيں امام شافعى كہتے ہيں:

" ميں نے اپنى اس كتاب كے شروع ميں جو لكھا ہے اس كا عام معنى كتاب و سنت كا علم ركھنے والے، اور مختلف لوگوں اور قياس اور معقول كا علم ركھنے والے متقدم علماء ميں سے كئى ايك كے سامنے بيان كيا تو ان ميں سے كسى ايك نے بھى كسى ايك كى مخالفت نہ كى، اور ان كا كہنا تھا:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام، اور تابعين عظام اور تبع تابعين كا مذہب يہى ہے، اور ہمارا مذہب بھى يہى ہے؛ اس ليے جو بھى اس مذہب كو چھوڑے گا ہمارے نزديك وہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام اور ان كے بعد آج تك كے اہل علم كى راہ چھوڑ رہا ہے، اور وہ جاہل لوگوں ميں شامل ہوتا ہے.

ان سب كا كہنا تھا: اس راہ كى مخالفت كرنے والے كو ہمارى رائے ميں سب اہل علم كے اجماع ميں جاہل قرار ديا گيا ہے الخ... "!!

ديكھيں: اختلاف الحديث ـ كتاب الام ـ ( 10 / 21 ) اور اسى طرح كى كلام آپ الرسالۃ فقرۃ ( 1236- 1239 ) ميں ديكھ سكتے ہيں.

اس ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف منسوب حديث كو رد كرنے والے شخص پر سب سے پہلے يہ واجب اور ضرورى ہے كہ وہ يہ تلاش كرے اور بيان كرے كہ اس كو بيان كرنے والے راويوں ميں سے كون ہے جس نے نقل كرنے ميں غلطى كى ہے، اور اگر رد كرنے والے كو سند ميں كوئى ايسا سبب نہ ملے جو اس حديث كے انكار ميں مقبول سبب بن سكتا ہو تو يہ اس كے منہج كى غلطى كى علامت ہے، اور پھر يہ اس كى بھى علامت ہے كہ اسے حديث اور قرآن كى فہم اور مقاصد شرعيۃ كى فہم كا مراجعہ كرنے كى ضرورت ہے.

اور پھر جب كوئى حديث زمين پر موجود سب سے صحيح ترين سند كے ساتھ موجود ہو، بلكہ وہ حديث بہت سارے طرق سے مروى ہوں ـ جيسا كہ اكثر وہ احاديث جنہيں تنويرى رد كرتے ہيں ـ اور صحابہ كرام كى ايك جماعت سے مروى ہوں انہيں رد كرنا كيسا ہو گا؟!

تيسرى شرط:

سارے معاملہ كو احتمال اجتھاد كى طرف منسوب كرنا، اور يقين و حسم اور مخالف پر مسلمانوں كى عقلوں ميں طعن و تہمت زنى ترك كرنا، يہ اس وقت ہے جب اس ميں كوئى ايسى وجہ ہو جو اس احتمال كو ركھتى ہو، اور اس سلسلہ ميں كلام كرنے والا اہليت بھى ركھتا ہو ـ ضرورى بحث كے لوازمات ـ تا كہ وہ اس كا ادراك كر سكے اور اس ميں بحث كرے، كسى معين علت كى بنا پر كسى ايك عالم كو حديث ضعيف لگتى ہے، ليكن جس نے حديث قبول كى وہ اس پر تہمت كى زبان استعمال نہ كرے.

لہذا جو شخص ان تين شروط كى مخالفت كرتا اور حديث كا انكار اور اس كى تكذيب كرنے پر اصرار كرتا ہے تو وہ خطرناك راہ پر ہے، كيونكہ كسى بھى مسلمان كے ليے بغير كسى شروط و ضوابط كے منہج ميں تاويل كرنا جائز نہيں، وگرنہ وہ گناہ اور حرج ميں پڑيگا.

امام احمد رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جس نے بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث كو رد كيا تو وہ ہلاكت كے كنارے پر ہے " انتہى

اور حسن بن على بربھارى كہتے ہيں:

" جب تم كسى شخص كو حديث و اثار ميں طعن كرتے سنو، يا پھر وہ آثار كو رد كرتا يا آثار يعنى احاديث كے علاوہ كچھ اور چاہتا ہو تو آپ اس كے اسلام ميں تہمت لگا سكتے ہيں، اور آپ اسے بلاشك و شبہ بدعتى اور صاحب ہوى و خواہشات سمجھ سكتے ہيں.

اور جب آپ سنيں كہ كسى شخص كے پاس حديث آتى ہے تو وہ حديث نہيں چاہتا بلكہ قرآن چاہتا ہے، تو آپ اس ميں شك نہ كريں كہ وہ زنديق ہے، آپ اس كے پاس سے اٹھ جائيں اور اسے چھوڑ ديں " انتہى

ديكھيں: شرح السنۃ ( 113 - 119 ) اختصار كے ساتھ.

اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے رب سے جو بيان كيا ہے اس پر ايمان ركھنا واجب ہے، چاہے ہم اس كا معنى جانتے ہوں يا نہ جانيں؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم صادق المصدوق ہيں، اس ليے جو بھى كتاب و سنت ميں آيا ہے ہر مومن شخص كے ليے اس پر ايمان ركھنا واجب ہے، چاہے وہ اس كا معنى نہ بھى سمجھتا ہو " انتہى

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 3 / 41 ).

مزيد آپ سوال نمبر (245 ) اور ( 9067 ) اور ( 20153 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

الاسلام سوال و جواب
بھائی آپ ایک نیا موضوع لے کے بیٹھ گئے۔ آپ نے وہ کتاب جو میں نے اپلوڈ کی ہے غور سے پڑھا بھی ہے کہ اس میں کیا ہے ؟ جہاں تک بات ہے قرآن و سنت کو
” حجت “ ماننے کی میں اسکا قائل ہوں۔ آپ لوگوں کا یہ شک کہ میں ” منکر ِ حدیث “ ہوں، صحیح نہیں۔ لہذا یہ ” باتیں “ آپ ان کو بتائیں، مجھے نہیں۔ آپ لوگوں کی یہ
” جلد بازی “ کوئی اچھی علامت نہیں۔ آپ اس کتاب کو پڑھیں پھر کوئی ” رائے “ قائم کریں۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
بھائی آپ ایک نیا موضوع لے کے بیٹھ گئے۔ آپ نے وہ کتاب جو میں نے اپلوڈ کی ہے غور سے پڑھا بھی ہے کہ اس میں کیا ہے ؟ جہاں تک بات ہے قرآن و سنت کو
” حجت “ ماننے کی میں اسکا قائل ہوں۔ آپ لوگوں کا یہ شک کہ میں ” منکر ِ حدیث “ ہوں، صحیح نہیں۔ لہذا یہ ” باتیں “ آپ ان کو بتائیں، مجھے نہیں۔ آپ لوگوں کی یہ
” جلد بازی “ کوئی اچھی علامت نہیں۔ آپ اس کتاب کو پڑھیں پھر کوئی ” رائے “ قائم کریں۔
میرے بھائی میں نے آپکو صحیح بخاری کی حدیث پیش کی اس کو آپ نے غیر متفق کیا تو اس کا مطلب کیا ہے کیا آپ نے صحیح حدیث کا انکار نہیں کیا اس سے تو یہی لگتا ہے کہ آپ منکر حدیث ہے

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرى والدہ فوت ہو گئى اور اس نے كچھ وصيت نہيں كى، ميرا خيال ہے كہ اگر وہ كلام كرتى تو صدقہ ضرور كرتى، اگر ميں اس كى جانب سے صدقہ كروں تو كيا اسے اجر ملےگا؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: جى ہاں"

صحيح بخارى و صحيح مسلم.
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
میرے بھائی میں نے آپکو صحیح بخاری کی حدیث پیش کی اس کو آپ نے غیر متفق کیا تو اس کا مطلب کیا ہے کیا آپ نے صحیح حدیث کا انکار نہیں کیا اس سے تو یہی لگتا ہے کہ آپ منکر حدیث ہے

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرى والدہ فوت ہو گئى اور اس نے كچھ وصيت نہيں كى، ميرا خيال ہے كہ اگر وہ كلام كرتى تو صدقہ ضرور كرتى، اگر ميں اس كى جانب سے صدقہ كروں تو كيا اسے اجر ملےگا؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: جى ہاں"

صحيح بخارى و صحيح مسلم.
آپ کے لیے بہتر یہی ہے کہ آپ پہلے کتاب کو پڑھیں۔ باقی مجھ پر ” منکرِ حدیث “ کا الزام لگانے پر اگر آپ نے ” کمر کس “ ہی لی ہے تو قیامت والے دن آپ اللہ تعالٰی کے سامنے جوابدہ ہیں۔ اگر کتاب نہیں پڑھنی تو بحث مت کریں۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
آپ کے لیے بہتر یہی ہے کہ آپ پہلے کتاب کو پڑھیں۔ باقی مجھ پر ” منکرِ حدیث “ کا الزام لگانے پر اگر آپ نے ” کمر کس “ ہی لی ہے تو قیامت والے دن آپ اللہ تعالٰی کے سامنے جوابدہ ہیں۔ اگر کتاب نہیں پڑھنی تو بحث مت کریں۔
میں نے بھائی آپ کو صحیح حدیث پیش کی ہے کیا آپ اس حدیث سے متفق ہے

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرى والدہ فوت ہو گئى اور اس نے كچھ وصيت نہيں كى، ميرا خيال ہے كہ اگر وہ كلام كرتى تو صدقہ ضرور كرتى، اگر ميں اس كى جانب سے صدقہ كروں تو كيا اسے اجر ملےگا؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: جى ہاں"

صحيح بخارى و صحيح مسلم.

اور اگر متفق نہیں تو آپ خود فیصلہ کر لے


 
Top