• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مُبَیِّن کا مبَیَّن کے مقابلے میں درجہ: ( اصول الفقہ)

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
مُبَیِّن کا مبَیَّن کے مقابلے میں درجہ:

مبَیِّن (اسم فاعل کا صیغہ) ہونے کےلیے یہ شرط نہیں ہے کہ وہ مبَیَّن (اسم مفعول کا صیغہ)سے سند میں یا دلالت میں زیادہ قوی ہو۔ بلکہ اخبار متواتر کا اخبار آحاد کے ذریعے اور منطوق کا مفہوم کے ذریعے بیان کرنا بالکل جائز ہے۔

مثالیں:

سنت کےذریعےکتاب کا بیان: جیسا کہ اللہ رب العزت کافرمان گرامی ہے: ﴿ فَإن طَلَّقَهَا فَلا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنكِحَ زَوْجًا غَيرَهُ ﴾ [البقرة:230] تو اگر خاوند اپنی بیوی کو(تیسری) طلاق(بھی) دے دے تو جب تک وہ کسی اور سےشادی نہ کرلے (اور اس سے طلاق یا بیوگی کی صورت اختیار نہ کرے)پہلے خاوند کےلیے حلال نہیں ہوگی۔

تو نبی کریمﷺ نے اس بات کو واضح فرمادیا کہ نکاح ثانی سے مراد جماع بعد از نکاح ہے۔ جیسا کہ آپ نےرفاعہ قرظی کی سابقہ بیوی سے کہا تھا: «حتى تذوقي عسيلته ويذوق عسيلتك»یہاں تک کہ تو اس (نئے خاوند)کی مٹھاس چکھ لے اور وہ تیری مٹھاس چکھ لے۔

اسی طرح اللہ رب العالمین کا فرمان ہے: ﴿ وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ ﴾ [الأنفال: 60] اور کافروں کےلیے حسب ِ استطاعت تیاری کرکے رکھو۔

تو آپﷺ نے اس کی وضاحت ان الفاظ سے فرمائی: «ألا إن القوة الرمي» یقیناً قوت تیر اندازی ہے۔

سنت کے ذریعے کتاب کا بیان صحیح ہونے پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا یہ فرمان دلالت کرتا ہے:
﴿ وَأََنزَلْنَا إلَيكَ الذِّكْرَ لِتُبَينَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إلَيهِمْ ﴾ [النحل:44] اور ہم نےآپﷺ کی طرف ذکر کو اس لیے نازل کیا ہے تاکہ آپﷺ لوگوں کےلیے اس چیز کی وضاحت کردیں جو ان کی طرف نازل کی گئی ہے۔

مفہوم کے ذریعےمنطوق کا بیان: جیسا کہ سورہ نور میں اللہ رب العزت کےمنطوق فرمان ﴿ وَالزَّانِي ﴾ [النور:2] کا بیان موافقت کرنے والے مفہوم کے ذریعے اللہ تبارک وتعالیٰ کے درج ذیل فرمان میں ہے: ﴿ فَعَلَيهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ ﴾ [النساء:25] تو ان لونڈیوں پر آدھی سزا ہے ، اس سزا کی نسبت جو آزاد عورتوں پر ہے۔

تو یہاں پر موافقت کرنے والا مفہوم یہ ہے کہ غلام اس معاملے میں لونڈی کی طرح ہی ہے ، اگر وہ زنا کا ارتکاب کرے تواسے بھی پچاس کوڑے لگائے جائیں گے ۔ تو اس مفہوم نے یہ بات واضح کردی کہ سورہ نور میں زانی سے مراد آزاد مردہے۔

بیان کے لیے یہ ضروری نہیں کہ اسے ہر انسان جان لے:

بیان کےلیے یہ شرط نہیں لگائی گئی ہے کہ اس بیان کے وقت ہی اسے تمام موجود مکلف بندے جان لیں بلکہ یہ بات جائز ہے کہ چند افراد اس سے لاعلم رہیں، جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ اس فلاں کے لیے یہ بات بیان کردو کیونکہ اس کےلیے ابھی تک یہ بات ظاہر اور واضح نہیں ہوئی۔اس کی مثال یہ ہے کہ نبی کریمﷺ نےیہ بات واضح کی کہ اللہ رب العالمین کے اس فرمان کا عموم انبیاء کرام کو شامل نہیں ہے: ﴿ يوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ ﴾ [النساء:11] اللہ رب العزت تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم دیتے ہیں۔

آپﷺ نے یہ وضاحت اپنے اس فرمان کے ذریعے کی :«إنا معاشر الأنبياء لا نورث»ہم انبیاء کی جماعت وارث نہیں بناتی ۔

تو فاطمہ رضی اللہ عنہا کااس بیان سے عدم علم کی وجہ سے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس جاکر نبی کریمﷺ کی وراثت طلب کرنا اس بیان کےلیے قادح (زخم لگانے والا مراد ختم کرنے والا)نہیں ہے۔


ترجمہ کتاب تسہیل الوصول از محمد رفیق طاہر
 
Top