• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مُلا منصور کی ہلاکت، ایران ۔ امریکا خفیہ ڈیل کا نتیجہ؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
مُلا منصور کی ہلاکت، ایران ۔ امریکا خفیہ ڈیل کا نتیجہ؟

طالبان اور ایران کے درمیان تعلقات کے اتارو چڑھاؤ کا جائزہ

افغان تحریک طالبان کے امیر ملا اختر منصور کے مبینہ طور پرایران سے پاکستان میں داخلے کے دوران امریکی ڈرون کے ذریعے نشانہ بنائے جانے اور ملا منصور کی ہلاکت کے بعد کئی سوالات ایک بار پھر اٹھنے لگے ہیں۔ سب سے اہم سوال یہ کہ کیا ایران نے امریکا کے ساتھ کسی خفیہ ڈیل کے تحت ملا منصور کے قتل میں امریکیوں کی مدد کی ہے؟

پاکستانی حکام نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ملا منصور کو ایران سے پاکستان میں داخل ہونے کے بعد نشانہ بنایا گیا مگر ایرانی وزارت خارجہ نے پاکستان کے اس دعوے کی سختی سے تردید کی ہے کہ ملا منصور کی ہلاکت میں اس کا کوئی ہاتھ ہے یا یہ کہ مقتول رہ نما امریکی حملے سے قبل ایران میں تھے۔ تاہم ایران نے افغانستان کی اس پر تشدد تحریک کے ساتھ اپنے روابط کی تردید نہیں کی ہے۔

اتوار کے روز پاکستانی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں بتایا گیا تھا کہ امریکی ڈرون حملے میں کوئٹہ کے قریب سرحدی علاقے میں ہلاک ہونے والے شخص کی شناخت ولی محمد کے نام سے کی گئی ہے اور اس کے قبضے سے ملنے والا پاسپورٹ ایران میں داخلے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

وزارت خارجہ کا مزید کہنا ہے کہ اکیس مئی کو ایران، پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر ہلاک ہونے والے ولی محمد نامی شخص دراصل طالبان کے سربراہ ملا منصور ہی ہیں مگر انہوں نے اپنی شناخت خفیہ رکھنے کے لیے مختلف نام کے ساتھ پاسپورٹ اور شناختی کارڈز بنوا رکھے تھے۔

دوسری جانب ایرانی وزارت خارجہ نے طالبان کے سربراہ کےدورہ ایران کی خبروں کی سختی سے تردید کی ہے تاہم تہران کی جانب سے پاکستان کی طرف سے مقتول کے پاسپورٹ اور اس پر ایک جعلی نام کی موجودگی کے بارے میں آنے والی اطلاعات کی تردید نہیں کی ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ کسی طالبان لیڈر کو افغانستان سے آتے دیکھا گیا ہے بلکہ نظریاتی اختلافات کےباوجود ایران اور طالبان کے درمیان کسی نہ کسی شکل میں تعلقات اور باہمی تعاون کا سلسلہ جاری رہا ہے۔

طالبان وفد کی ایران میں موجودگی :

ایران اور افغان تحریک طالبان کے درمیان باہمی تعاون اور رابطوں کا سلسلہ ماضی میں مختلف چیلنجز سے جاری رہا ہے۔ کہیں یہ تعلقات شکوک وشبہات میں الجھے اور کہیں واضح اور نمایاں دکھائی دیتے رہے ہیں۔ مئی 2015ء کو ایرانی خبر رساں ایجنسی ’تسنیم‘ نے ایک خبر میں دعویٰ کیا کہ طالبان کے سیاسی دفتر کے انچارج طیب آغا کی قیادت میں ایک وفد تہران کے دورے پر آیا ہے۔ اس وفد نے علاقائی مسائل بالخصوص افغان مہاجرین کے مسائل پر ایرانی حکومت سے تبادلہ خیال کیا۔

’بی بی سی‘ نیوز ویب سائیٹ کے مطابق ملا عمر کی وفات کے بعد ان کے جانشین بنائے جانے والے ملا اختر منصور تنظیم کے وہ واحد رہ نما ہیں جنہوں ںے تین روز ایران میں گذارے۔ انہوں نے ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف اور پاسداران انقلاب کی قیادت کے ساتھ بھی تفصیلی بات چیت کی ہے۔

طالبان کے اس وفد سے قبل سنہ 2014ء میں طالبان کے ایک دوسرے وفد کی خفیہ طور پر تہران آمد کی اطلاعات آئی تھیں۔ سنہ 2012ء کو طالبان کے ایک وفد نے ایران میں صحوۃ الاسلامیہ کانفرنس میں بھی شرکت کی۔

اسلحہ اور عسکری تربیت :

مئی سنہ 2010ء کو افغانستان میں تعینات امریکی فوج کے کمانڈر جنرل اسٹنلی مک کریسٹل نے نے الزام عاید کیا کہ ایران طالبان کو اسلحہ کی فراہمی کے ساتھ ساتھ جنگجوؤں کی عسکری تربیت بھی کررہا ہے۔

اسی سال مارچ میں امریکی جوائنٹ چیف آف اسٹاف ایڈمرل مائیک مولن نے کہا کہ جنوبی قندھار میں طالبان کو ایران کی جانب سے بے پناہ اسلحہ اور گولہ بارود پہنچ رہا ہے۔

رواں سال فروری میں افغان فورسز نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے صوبہ بامیان میں طالبان کے ایک کمپاؤنڈ سے ایرانی ساختہ بارودی سرنگیں اور دیگر اسلحہ کی بھاری مقدار قبضے میں لی ہے۔

بی بی سی نے بامیان کے گورنر محمد طاھر ظہیر کا ایک بیان نقل کیا جس میں انہوں ںے بتایا کہ اگرچہ قبضے میں لی گئی تمام بارودی سنگیں تلف کردی گئی ہیں مگر ماہرین کا خیال ہے کہ یہ اسلحہ ایران کی جانب سے طالبان کو فراہم کیا گیا تھا۔

طالبان جنگجوؤں کے بیانات :

ایران کے ساتھ خفیہ اور اعلانیہ تعاون کی خبروں کے جلو میں افغان طالبان کے سرکردہ کمانڈروں کی جانب سے بھی تہران کے ساتھ روابط کے دعوے کیے جاتے رہےہیں۔

برطانوی اخبار "سنڈے ٹائمز" کی ایک رپورٹ کے مطابق طالبان اور ایران کے درمیان عسکری تعاون کا سلسلہ کئی سال پرمحیط ہے۔ اس تعاون میں طالبان جنگجوؤں کو ایرانی فوجیوں کی نگرانی میں دی جانے والی عسکری تربیت بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ جنوبی افغانستان میں نیٹو فوجیوں پر حملوں کے طریقہ کار، بندوقوں اور کلاشنکوفوں کا استعمال، دیسی ساختہ بموں کے استعمال کے طریقہ کارے کے بارے میں ایران طالبان کی ٹریننگ کرتا رہا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایرانی عسکری حکام نے طالبان کو تربیت دی کہ وہ چیک پوسٹوں پر کیسے حملے کریں، پہاڑی علاقوں میں موجود نیٹو اور غیرملکی فوجیوں کو کیسے نشانہ بنائیں نیز صحرائی اور میدانی علاقوں میں کلاشنکوف اور دوسرے ہتھیاروں کا استعمال کیسے کریں۔ برطانوی اخبار کے مطابق طالبان کے ایک سینیر عہدیدار نے کہا کہ اگرچہ ہماری تاریخ اور مذہب ایک دوسرے سے مختلف ہیں مگر ہمارا ہدف ایک ہے۔ ہم دونوں [ایران، طالبان] امریکیوں کو قتل کرتے ہیں۔

سنڈے ٹائمز سے طالبان کے تین اہم جنگجوؤں نے تفصیلی بات چیت کی اور کہا کہ انہیں ایران میں ایک کیمپ میں عسکری تربیت دی گئی۔ طالبان کمانڈر نے بتایا کہ وہ 20 دوسرے جنگجوؤں کے ہمراہ جنوبی پاکستان اور وہاں سے ایران کی مغربی سرحد عبور کرکے ایران کے شہر زاھدان میں داخل ہوئے۔

دوسرے کمانڈر نے بتایا کہ وہ ایک گروپ کے ساتھ ایران کے شہر نمروز میں تین روز تک ٹھہرے۔ یہ شہر صوبہ سیستان[بلوچستان] کی سرحد کے قریب واقع ہے۔ اس کی وجہ شہرت قبائلی لڑائیاں اور منشیات کی اسمگلنگ بتائی جاتی ہے۔ افغان طالبان نے انسانی اسمگلروں کی مدد حاصل کی اور ایران پہنچنے میں مدد دینے کے لیے اسمگلروں کو 500 ڈالر ادا کیے تھے۔ انسانی اسمگلر تمام جنگجوؤں کو پک اپ گاڑیوں کی مدد سے زاہدان لے کرگئے اور وہاں سے انہیں ایک فوجی کیمپ میں لے جایا گیا۔

غزنی سے واپس آنے والے طالبان کمانڈر نے بتایا کہ آغاز سفر میں ہمیں سفری اخراجات خود برداشت کرنا پڑتے ہیں مگر ایران پہنچ جانے کے بعد ایرانی حکام ہمیں اس کی ادائیگی کردیتے ہیں۔

تعلقات میں سرد مہری :

افغانستان میں طالبان کی حکومت کے عرصے میں ایران اور طالبان کے درمیان تعلقات سرد مہری اور تناؤ کا شکار رہے۔ اس کی کئی ایک وجوہات بتائی جاتی ہیں۔ سب سے اہم وجہ ایران کا تحریک طالبان کے حوالے سے معاندانہ رویہ بتایا جاتا رہاہے۔ طالبان ایران پر اپنے مخالفین کی مدد کا الزام عاید کرتے رہے۔ اس کےعلاوہ دونوں کے درمیان مسلکی اور مذہبی اختلافات بھی تناؤ کا موجب رہے ہیں۔

سنہ 1997ء اور سنہ 1998ء میں طالبان اور ایران کے درمیان کشیدگی اپنے نطقہ عروج پر رہی۔ سنہ 1997ء کو طالبان میں کابل میں موجود ایرانی سفیر کو وہاں سے نکال باہر کیا اور ایران پر افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور طالبان مخالف شمالی اتحاد کی مدد جیسے الزامات عاید کئے گئے۔ دوطرفہ کشیدگی میں اس وقت اور بھی اضافہ ہوگیا جب مزار شریف میں ایرانی قونصل خانے پر طالبان کے حملے میں دو ایرانی سفارت کار ہلاک ہوگیے۔

کشیدگی اور آگے بڑھتی تو افغانستان اور ایران کی سرحد پر جنگ کا ماحول پیدا ہوگیا۔ ایران نے طالبان سے لڑنے کے لیے پاسداران انقلاب پر مشتمل 70 ہزار فوجیوں کا ایک لشکر جرار تیار کیا جب کہ طالبان نے اس کا مقابلہ 25ہزار جنگجوؤں اور اسکڈ میزائلوں سے کیا۔

بعد ازاں ایران نے یرغمال بنائے گئے دس ایرانی رہا کیے تو دو طرفہ کشیدگی میں کمی آنا شروع ہوگئی۔ اس دوران طالبان اور ہزارہ قبائل کے درمیان بھی مفاہمت ہوئی جس کے نتیجے میں تہران کے ساتھ کشیدگی میں نمایاں کمی آگئی تھی۔

دشمنی کے بعد دوستی :

تہران اور طالبان کے درمیان دشمنی اور مخالفت کا سلسلہ سنہ 2001ء میں اس وقت تک جاری رہا جب تک کابل پر طالبان کی حکومت قائم رہی۔ جب امریکا کی قیادت میں عالمی فوج نے افغانستان پر حملہ کیا تو ایران اور طالبان کے درمیان تعلقات اور تعاون کا ایک نیا دور شروع ہوگیا۔ ماضی کی دشمنی ختم اور دو طرفہ دوستی کے ایک نئے سفر کا آغاز ہوا جو اب بھی جاری ہے۔

طالبان رہ نماؤں اور وفود کی ایران آمد ورفت کا سلسلہ امریکی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا بھی مرکز بنا۔ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے امریکی، افغان اور یورپی حکام کے حوالے سے بتایا کہ گذشتہ کچھ عرصے کے دوران ایران طالبان تحریک کو مضبوط بنانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ حکام کا دعویٰ ہے کہ ایران نہ صرف طالبان جنگجوؤں کو عسکری تربیت اور اسلحہ مہیا کرتا ہے بلکہ جنگجوؤں کی مالی مدد بھی کررہا ہے۔

اخباری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایران طالبان کی مدد اس لیے نہیں کررہا ہے کہ وہ انہیں دوبارہ افغانستان میں اقتدار تک پہنچانے کا خواہاں ہے بلکہ ایران خطے میں امریکی اثرونفوذ کم کرنے کے لیے ایسا کررہا ہے۔ اس کے علاوہ طالبان کی مدد اس لیے بھی کی جا رہی ہے تاکہ خطے میں داعش کو اپنے پنجے پھیلانے سے روکا جاسکے۔


http://urdu.alarabiya.net/ur/intern...ہلاکت،-ایران-۔-امریکا-خفیہ-ڈیل-کا-نتیجہ؟.html
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ملا منصور کو ایران سے واپسی پرنشانہ بنایا گیا

طالبان سربراہ پاکستانی شہریت پر ٹیکسی ذریعے سفر کررہے تھے :ذرائع

پیر 16 شعبان 1437هـ - 23 مئی 2016م

کوئٹہ ۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ، ایجنسیاں :

پاکستانی حکام نے اطلاع دی ہے کہ ہفتے کے روز پاک ۔ افغان سرحد کے قریب امریکی ڈورن حملے میں ہلاک ہونے والے جس شخص کو طالبان کمانڈر ملا اختر منصور قرار دیا گیا، اسے ایران سے پاکستان میں داخل ہوتے وقت نشانہ بنایا گیا تھا۔

حکام کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور محمد ولی کے ایک فرضی نام کے ساتھ پاکستانی شہریت پر ایک ٹیکسی کے ذریعے ایران سے افغانستان میں داخل ہو رہے تھے۔

ادھر افغان انٹیلی جنس حکام نے ملا اختر منصور کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ ملا منصور کو پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں ہلاک کیا گیا۔ قبل ازین امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے ملا اختر منصور کو بغیر پائلٹ کے ڈرون طیارے کے ذریعے نشانہ بنائے جانے کا دعویٰ کیا تھا اور کہاتھا کہ یہ حملہ کامیاب رہا ہے جس میں ملا منصور کی ہلاکت کا غالب امکان ہے۔

پاکستان نے اپنی حدود میں امریکی ڈرون کارروائی کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے پاکستان کی سالمیت کے خلاف قرار دیا ہے۔

پاکستانی حکام کے ایک ذریعے نے خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ ہفتے کے روز جس شخص کو امریکی ڈرون طیاروں نے بلوچستان میں حملے کا نشانہ بنایا وہ محمد ولی کے فرضی نام اور پاکستانی شہریت پر سفر کررہے تھے کہ احمد وال شہر کے قریب انہیں ہلاک کیا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ انہیں ایران داخلے کا ویزہ 28 مارچ 2016ء کو جاری کیا گیا تھا۔

امریکی محکمہ دفاع کا کہنا ہے کہ ملا منصور کے ساتھ ہلاک ہونے والا کار ڈرائیور بھی ایک اہم جنگجو تھا۔ دونوں مقتولین کی میتیں کوئٹہ کے ایک اسپتال میں منتقل کی گئیں جہاں عجلت میں ان کا پوسٹ مارٹم کرنے کے بعد انہیں ورثا ء کے حوالے کردیا گیا ہے۔

طبی ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈرون حملے کے نتیجے میں دونوں مقتولین کی میتیں ناقابل شناخت ہوگئی تھیں۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
سارے سچ بولنے کے لیے نہیں ہوتے

جاوید چوہدری جمعـء 27 مئ 2016

وہ بھی ایک وقت تھا جب دنیا میں سب سے زیادہ جعلی پاسپورٹ برطانیہ کے نکلتے تھے، انسانی اسمگلر برطانیہ کا پاسپورٹ چھپواتے تھے، اس پر تصویر لگاتے تھے، آلو کاٹ کر سوئی سے برطانوی امیگریشن کی مہر بناتے تھے، پاسپورٹ پر ٹھپہ لگاتے تھے اور بندے کو روانہ کر دیتے تھے اور پاسپورٹ ہولڈر برطانیہ کے سوا دنیا کے کسی بھی ملک میں پناہ لے لیتا تھا، جعل ساز جعلی پاسپورٹ کے معاملے میں برطانیہ پر اتنے مہربان کیوں تھے؟

وجہ بہت دلچسپ تھی، برطانیہ نائین الیون سے پہلے دنیا کے ان چند ملکوں میں شمار ہوتا تھا جو اپنے جعلی پاسپورٹ کو بھی ’’اون‘‘ کر لیتے تھے، برطانیہ کا جعلی پاسپورٹ تصدیق کے لیے اس کے کسی سفارتخانے میں جاتا تھا تو عملہ اسے اصل قرار دے کر اپنے پاس رکھ لیتا تھا، کیوں؟ کیونکہ برطانیہ کا خیال تھا ہم نے جس دن اپنے کسی پاسپورٹ کو جعلی قرار دے دیا اس دن ہمارے کروڑوں پاسپورٹ مشکوک ہو جائیں گے اور یہ برطانیہ کی توہین ہو گی، دنیا بھر کے ’’ایجنٹوں،، نے برطانیہ کی اس کمزوری کا بھرپور فائدہ اٹھایا، یہ روایت آج بھی کم وبیش اسی طرح جاری ہے۔

برطانیہ، یورپی یونین کے ممالک، امریکا اور کینیڈا اپنے اپنے شناختی کاغذات کو جعلی تسلیم کرنے میں بہت وقت لگاتے ہیں، یہ جعلی کاغذات کو شبے میں ضبط کر لیتے ہیں مگر یہ جعلی ہونے کی تصدیق نہیں کرتے جب کہ اس کے مقابلے میں ہمارے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے 24 مئی کی شام بھری پریس کانفرنس میں تسلیم کرلیا پاکستان کے شناختی کاغذات کا نظام ٹھیک نہیں، نادرا کے ملازمین پیسے لے کر غیر ملکیوں کو شناختی کارڈز اور پاسپورٹ بنا کر دیتے ہیں، چوہدری نثار نے اعتراف کیا نادرا میں کرپٹ، بے ایمان اور نااہل لوگ موجود ہیں، ہم نے کرپشن کے الزام میں 614 ملازمین نوکری سے فارغ کیے اور 65 کو گرفتار کیا، چوہدری نثار نے انکشاف کیا2011ء میں صرف 26 شناختی کارڈاور 2012ء میں493شناختی کارڈ منسوخ کیے گئے ۔

جون 2013ء میں پہلے چھ ماہ کے دوران 6062 ،2014ء میں 22 ہزار، 2015ء میں 96689 اور 2016ء میں ایک لاکھ 11 ہزار 540شناختی کارڈمنسوخ کیے گئے جب کہ دو سالوں میں 29 ہزار مشکوک پاسپورٹ بھی کینسل ہوئے، چوہدری نثار کے یہ تمام حقائق سچائی پر مبنی ہیں لیکن ان حقائق کے پریس کانفرنس میں اعتراف نے تمام پاکستانی پاسپورٹ ہولڈرز کے کاغذات کو مشکوک بنا دیا، دنیا ہمارے پاسپورٹ کو پہلے بھی عزت نہیں دیتی لیکن وزیر داخلہ کے اعتراف کے بعد ہمارے گرین پاسپورٹ کا جنازہ نکل گیا، دنیا اب ہر پاکستانی کے اندر ہیبت اللہ اخونزادہ کو تلاش کرے گی، یہ ہمیں طالبان کا ساتھی سمجھ کر ڈیل کرے گی۔

دنیا میں سارے سچ بولنے کے لیے نہیں ہوتے، انسان کو بعض سچائیوں پر خاموشی بھی اختیار کرنی چاہیے لیکن ہم لوگ جب بولنے پر آتے ہیں تو ہم حضرت آدمؑ اور حضرت حواء ؑ کی اولین اولاد کو بھی ’’بے نکاحی‘‘ قرار دے دیتے ہیں، ہم ایک لمحے کے لیے بھی اپنے تیزابی فقروں کی تباہ کاری پر غور نہیں کرتے، ہم ان کے جوہری نتائج کو مکمل فراموش کربیٹھتے ہیں، میں چوہدری نثار کی حق گوئی اور بے باکی کی داد دیتا ہوں لیکن انھیں کروڑوں پاکستانیوں کی شناخت مشکوک بنانے سے پہلے اپنی حق گوئی اور بے باکی کا مظاہرہ ملا اختر منصور پر کرنا چاہیے، چوہدری نثار کو یہ تسلیم کرنا چاہیے تھا امریکی ڈرون افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوئے، ملا منصور کی گاڑی پر میزائل داغا، ان کی ہلاکت کی تصدیق کی اور واپس افغانستان چلے گئے۔

چوہدری نثار کو اس عمل کے تصویری ثبوت بھی میڈیا کے سامنے رکھنے چاہیے تھے اور اگر امریکی ڈرون واقعی پاکستان نہیں آئے تو پھر چوہدری نثار کو یہ ماننا چاہیے تھا امریکی فوجی افغان آرمی کی یونیفارم میں پاکستان میں داخل ہوئے، احمد وال میں ملا منصور کی گاڑی روکی، ملا منصور کا پاسپورٹ اور شناختی کارڈ لیا، تصدیق کی، گاڑی کو مسافروں سمیت بم سے اڑایا اور پاسپورٹ اور شناختی کارڈ جلتی ہوئی گاڑی سے چند گز کے فاصلے پر پھینک کر واپس چلے گئے، چوہدری صاحب کو ماننا چاہیے تھا، یہ آپریشن بھی ایبٹ آباد کی طرح ’’گراؤنڈ آپریشن‘‘ تھا، امریکی پاکستانی سرزمین پر 65 کلو میٹر اندر آئے اور اپنا کام مکمل کر کے اطمینان سے واپس چلے گئے، یہ آرگومنٹ ثابت کرنے کے لیے دو حقائق کافی تھے۔

دنیا میں جب بھی کوئی گاڑی میزائل کا نشانہ بنتی ہے تو یہ ٹکڑوں میں تقسیم ہو جاتی ہے اور یہ ٹکڑے دور دور جا گرتے ہیں جب کہ ملا منصور کی گاڑی تباہ ہونے کے باوجود ’’ون پارٹ‘‘ رہی، یہ ٹکڑے ٹکڑے نہیں ہوئی، کیوں؟ دوسری حقیقت گاڑی جل کر راکھ ہو گئی، آگ نے لاشوں کو ناقابل شناخت بنا دیا لیکن اس نے ملا منصور عرف ولی محمد کے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کو چھونے تک کی جسارت نہیں کی، ان پر دھوئیں کا نشان بھی نہیں، کیوں؟ کیا یہ کاغذات ڈاکٹر عبدالقدیر کی لیبارٹری میں تیار ہوئے تھے؟ اس کا سیدھا سادا مطلب ہے گاڑی کو میزائل کے بجائے بم سے اڑایا گیا تھا اور بم نصب کرنے سے پہلے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ گاڑی سے نکال لیے گئے تھے، یہ کاغذات ملا منصور کی ہلاکت کے بعد وہاں پھینکے گئے لیکن چوہدری نثار علی خان نے اس حقیقت کے اعتراف کے بجائے چار پانچ کروڑ پاکستانیوں کے پاسپورٹ مشکوک بنا دیے، کیا حکومت کے پاس اس حماقت کا کوئی جواب ہے؟

یہ درست ہے پاکستان میں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے، آپ خود فیصلہ کیجیے جس ملک میں فوج جیسے ادارے میں لیفٹیننٹ جنرل، میجر جنرل، بریگیڈیئر اور کرنل لیول کے افسر کرپٹ نکل آئیں اور آرمی چیف ان لوگوں کو نوکری سے برطرف کرنے پر مجبور ہوجائے، جس میں سیکریٹری خزانہ کے گھر سے 68 کروڑ روپے نکل آئیں اور مشیر خزانہ نیب کی حراست میں ہو، جس میں ڈاکٹر عاصم حسین جیسے اہم ترین وزیر کے خلاف 462 ارب روپے کی کرپشن کے مقدمات بن جائیں، جس میں ایک وزیراعظم کے خلاف حج سکینڈل، ایفی ڈرین سکینڈل اور ای اوبی آئی سکینڈل آ گیا ہو، لوگ دوسرے وزیراعظم کو راجہ رینٹل کہتے ہوں اور تیسرے وزیراعظم کے خلاف ’’ٹی او آرز‘‘ بن رہے ہوں۔

جس میں وزیر داخلہ (سابق) پر سرکاری پاسپورٹس اور سفارتی پاسپورٹس بیچنے کے الزامات لگ گئے ہوں، جس کے ایک صدر (سابق) کے دروازے پر عدالت نے طلبی کا اشتہار لگوا دیا ہو اور دوسرا صدر (سابق) لندن اور دوبئی سے واپس نہ آتا ہو اور جس میں درجنوں سیاستدانوں کے نام آف شور کمپنیاں نکل آئی ہوںکیا اس ملک کے کسی ادارے اور کسی شخصیت کی ایمانداری کی قسم کھائی جا سکتی ہے؟ ہمیں ماننا ہو گا ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جس میں ملک ریاض نے ہاتھ میں قرآن مجید اٹھا کر چیف جسٹس آف پاکستان اور ان کے صاحبزادے کے خلاف کرپشن کی گواہی دی تھی اور جس میں حارث اسٹیل مل کیس میں اٹارنی جنرل آف پاکستان کو رشوت لینے کے جرم میں فارغ کیاگیا تھا، اس ملک میں آوے کا آوا تو دور اس میں بگڑنے کے لیے آوا بچتا ہی نہیں چنانچہ ہم اگر اس صورتحال میں یہ توقع کریں۔

ہمارا نادرا صوفیاء کرام کا مسکن ہو گا تو یہ امید غلط ہو گی مگر اس کے باوجود ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا دنیا میں چند ادارے حساس ہوتے ہیں اور حکومتیں ہمیشہ ان کے بارے میں سچ بولتے وقت احتیاط کرتی ہیں مثلاً آپ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو لے لیجیے، ہم اگر تلاش کریں تو ہمیں وہاں بھی کوئی نہ کوئی گڑ بڑ مل جائے گی لیکن کیا ہم اس گڑ بڑ کے اعتراف کا رسک پریس کانفرنس میں لے سکیں گے؟ ہرگز نہیں، کیوں؟ کیونکہ ہم جانتے ہیں یہ اعتراف ہمارے پورے ملک کو تباہ کر دے گا، نادرا بھی ایک ایسا ہی محکمہ ہے، یہ 20 کروڑ لوگوں کو شناختی کاغذات دیتا ہے لیکن جب اس کے وفاقی وزیر نے پوری دنیا کے سامنے مان لیا ہمارے نادرا میں بے ایمان اور کرپٹ لوگ موجود ہیں اور ہمارے ملک میں جعلی کاغذات بنتے ہیں تو پھر پیچھے کیا رہ جاتا ہے؟ کیا ہم دنیا کو منہ دکھانے کے قابل رہ گئے ہیں۔

چوہدری صاحب کو چاہیے تھا یہ نادرا کے سسٹم پر توجہ دیتے، یہ اسے مزید فول پروف بناتے، یہ شناختی کارڈز کی تصدیق کا عمل بہتر سے بہتر کرتے جاتے، یہ بس کے ٹکٹ سے ہوائی سفر تک ملک میں تمام سرکاری انٹر ایکشن شناختی کارڈ کے ساتھ منسلک کر دیتے، ہمارا نظام اتنا مضبوط ہوتا کہ جوں ہی کسی شخص کا شناختی کارڈ سسٹم میں ڈالا جاتا وہ شخص چند لمحوں میں سامنے آ جاتا، وہ خود کو چھپا نہ پاتا، چوہدری صاحب شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے نظام کو اتنا شفاف بنا دیتے کہ کوئی شخص کاغذات مکمل کیے بغیر شناختی کارڈ حاصل کر پاتا اور نہ ہی پاسپورٹ اور جس شخص کے کاغذات پورے ہوتے ملک کی کوئی اتھارٹی اس کا پاسپورٹ اور شناختی کارڈ روک نہ سکتی، چوہدری صاحب اسی طرح نادرا کے اندر تطہیر کرتے، یہ کرپٹ لوگوں کو فارغ بھی کرتے اور انھیں سزا بھی دیتے لیکن یہ پریس کانفرنسوں میں اس کا اعتراف نہ کرتے، یہ اس عمل کو خفیہ رکھتے لیکن شاید چوہدری صاحب یہ بھول گئے، یہ فراموش کر بیٹھے نادرا جیسے ادارے ’’انڈر گارمنٹس‘‘ ہوتے ہیں، یہ انڈر وئیر کی طرح ہمیشہ خفیہ رکھے جاتے ہیں، انھیں پتلون کے اوپر پہن کر ان کی نمائش نہیں کی جاتی، ان پر داد وصول نہیں کی جاتی اور چوہدری صاحب یہ غلطی فرما چکے ہیں، یہ اپنا پاسپورٹ بھی مشکوک ثابت کر چکے ہیں۔

http://www.express.pk/story/520654/
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
پاکستان کی بقا کو خطرات لاحق ہیں، وزیر دفاع خواجہ آصف

ویب ڈیسک جمعرات 26 مئ 2016


امریکا کو واضح پیغام جانا چاہیے کہ اب ڈرون حملے برداشت نہیں کریں گے، خواجہ آصف، فوٹو؛ فائل

اسلام آباد: وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے پاکستان کی بقا کو خطرات لاحق ہیں لہٰذا ایسے وقت میں ہمیں اندرونی چپقلش ختم کرنا ہوگی۔

ایکسپریس نیوز کے پروگرام کل تک میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ امریکا ایف سولہ طیارے نہیں دے گا تو کسی اورسے لے لیں گے کیونکہ امریکہ اسلحہ نہ دے کر ہمیں بلیک میل کررہا ہے جب کہ پاکستان کی بقا کو خطرات بھی لاحق ہیں لہٰذا ایسے وقت میں ہمیں اندرونی چپقلش ختم کرنا ہوگی۔

خواجہ آصف نے کہا کہ افواج پاکستان نے بہادری اورجرأت سے دہشت گردی کا مقابلہ کیا، امریکا کو واضح پیغام جانا چاہیے کہ اب ڈرون حملے برداشت نہیں کریں گے اور حکومت بھی امریکا کو اس حوالے سے 100 فیصد پیغام دے گی۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کی واپسی پر سیکیورٹی کے معاملات پر اجلاس ہوگا جس میں بلوچستان میں ڈرون حملے پر بات کی جائے گی۔

http://www.express.pk/story/520657/
 
Top