• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مچھلی، خنک موسم کی خاص غذا

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
مچھلی، خنک موسم کی خاص غذا


(کہکشاں صابر)

659348-mixdishes-1479672061-579-640x480.jpg

ہمارے ملک میں عموماً روہو، مہاشیر، پانول، کھگا، موری ملی اور جھینگا مچھلی شوق سے کھائی جاتی ہے۔ فوٹو: فائل

سرد ہواؤں، دھند اور بارش میں چٹ پٹی اور گرما گرم چیزیں کھانے کو بہت جی چاہتا ہے اور اگر اس غذا میں صحت کا خزانہ بھی پنہاں ہو تو کیا ہی کہنے۔ سرد موسم کی شدت کا مقابلہ کرنے کے لیے مچھلی سرفہرست ہے، چاہے وہ کسی بھی صورت میں پکی ہوئی کیوں نہ ہو۔ یہ آپ کے دسترخوان کی رونق بڑھانے کہ ساتھ ساتھ آپ کی صحت کی بھی ضامن ہے۔

ہمارے ملک میں عموماً روہو، مہاشیر، پانول، کھگا، موری ملی اور جھینگا مچھلی شوق سے کھائی جاتی ہے۔ دریائے سندھ میں اس کی ایک قسم ’پلا‘ ملتی ہے۔ اس میں کانٹے اگرچہ زیادہ ہوتے ہیں، لیکن لذت کے اعتبار سے یہ بے حد ذائقے دار اور افادیت کے لحاظ سے بے پناہ طاقت وَر ہوتی ہے۔

مچھلی کی افادیت اس اعتبار سے بھی مسلّمہ ہے کہ اس میں بعض ایسے اجزا شامل ہوتے ہیں، جو چھوٹے یا بڑے گوشت میں نہیں پائے جاتے۔ اکثر لوگ لا علمی میں باسی مچھلی خرید لیتے ہیں۔ انہیں معلوم ہی نہیں چلتا کہ خریدی جانے والی مچھلی تازی ہے یا نہیں۔ تازہ مچھلی کی پہچان یہ ہے کہ اس کے گلپھڑے سرخ گلابی ہوتے ہیں، جب کہ باسی مچھلی کے گلپھڑے مٹیالے گہرے سیاہی مائل ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ اوپر سے مچھلی کی جلد کو دبا کر دیکھا جائے، تو تازہ مچھلی اسی حالت میں واپس آجائے گی لیکن باسی مچھلی جہاں سے دبائی گئی ہو گی، وہاں سے اس کی جلد ویسے ہی دبی رہ جائے گی۔

مچھلی میں 78 فی صد پانی، لحمیات 22 فی صد اور تھوڑی مقدار میں نمک، چونا، فاسفورس اور فولادی اجزا کے ساتھ حیاتین الف بھی موجود ہوتے ہیں۔ اس میں نشاستہ نہیں ہوتا۔ ایک چھٹانک مچھلی میں 52 حرارے ہوتے ہیں اور اس کی خصوصیات ہے کہ یہ تین چار گھنٹے میں ہضم ہو جاتی ہے۔

انسانی صحت کے لیے آئیوڈین بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی کمی سے جسم کا غدودی نظام کا توازن بگڑ سکتا ہے۔ بہت سے ممالک جہاں سمندری غذا کا استعمال کم ہو تا ہے، وہاں کے لوگ اکثر اسی بیماری کا شکار رہتے ہیں۔

جو مچھلی پہاڑ کے پانی کے ساتھ نیچے آئے یا کسی چشمے سے نکلے وہ امراض شکم کے لیے نہایت فائدہ مند ہوتی ہے۔ دریا کی مچھلی شیریں اور گرم تاثیر کہلاتی ہے، رنگت نکھارتی ہے۔ نہایت چھوٹی مچھلی بھوک پیدا کرتی ہے اور کھانسی رفع کرتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہم مہنے میں کم از کم دو بار اپنی غذا میں مچھلی شامل کر لیں، تو یہ بہت مفید ثابت ہو گا، کیوں کہ اس عمل کے ذریعے کئی بیماریوں سے دور رہا جا سکتا ہے۔ مچھلی ہمارے دل کو قوی کرتی ہے، اس سے دل کے امراض کے امکانات 50 فی صد کم ہو جاتے ہیں۔ دل کے ایسے دو ہزار مریضوں پر اس حوالے سے ایک تجربہ کیا گیا۔ جن مریضوں کو پہلی بار دل کا دورہ پڑا تھا، انہیں مہینے میں دو بار مچھلی کھلائی گئی، انہیں اگلے دو برس تک دل کی کوئی تکلیف نہیں ہوئی، جب کہ مچھلی نہ لینے والے دیگر مریضوں میں یہ شکایات دیکھنے میں آئیں۔

مچھلی بدن میں خون پیدا کرتی ہے۔ بلغم بننے سے روکتی ہے، دل، جگر، دماغ، گردوں اور اعصاب کو طاقت دیتی ہے اور قوت مدافعت کو مضبوط کرتی ہے۔ یہ معدہ پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالتی اور گیس اور کم زور معدے والوں کے لیے بھی اچھی غذا ہے۔ بھُنی ہوئی مچھلی سب سے زیادہ غذائیت رکھتی ہے۔ اس کے بعد شوربے والی مچھلی بھی غذائی اعتبار سے اہم ہے۔ گلٹیوں کو زائل کرنے کے لیے مچھلی ایک بہت بڑی نعمت ہے، جو لوگ بدہضمی اور غذا نہ ہضم ہونے کی شکایت کرتے ہوں، انہیں صبح و شام چاول اور مچھلی کے کباب کھانے سے چند دنوں میں آرام آجاتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ مچھلی کا شوربہ پینے سے آنتوں کے زخم ٹھیک ہو سکتے ہیں، قدیم طبیبوں کے مطابق مچھلی تریاق ہے۔ مچھلی ہمیشہ تازہ کھانی چاہئے، کیوں کہ باسی مچھلی مضر اثرات رکھتی ہے۔

مچھلیوں کے برعکس جھینگوں میں کولیسٹرول کی مقداز زیادہ ہوتی ہے، اس لیے جھینگے استعمال کرتے ہوئے احتیاط کرنی چاہیے۔ سردی سے ہونے والی کھانسی کو دور کرنے کے لیے بھی مچھلی سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے۔

ہمارے ہاں یہ بات مشہور ہے کہ جس مہینے کے نام میں لفظ ’’ر‘‘ نہ ہو اس مہینے میں مچھلی نہ کھائی جائے۔ جیسے مئی، جون، جولائی اور اگست… جب کہ دیگر مہینوں میں میں مچھلی کھانا ٹھیک ہے۔ مچھلیوں کی افزائش نسل کے پیش نظر اپریل کو چھوڑ کر یہ کہاوت درست معلوم ہوتی ہے۔ باقی اس قول کے حوالے سے موسمی سختی کا پس منظر ہی درست معلوم ہوتا ہے۔

ماہرین کے مطابق مچھلی کھانا جس طرح سے مفید ہے اسی طرح سے مچھلی کا تیل بھی اگر طویل عرصے تک استعمال کیا جائے، تو اس سے دل کی شریانیں صاف ہو جاتی ہیں۔ دل کی ان شریانوں کی رکاوٹوں اور سختی کی وجہ سے ہی عارضۂ قلب لاحق ہوتا ہے، جو ایک جان لیوا مرض ہے۔

مچھلی کے تیل کو دماغی عارضوں کے علاج کے لیے بھی مفید قرار دیا جاتا ہے ۔ مچھلی کے تیل میں پایا جانے والا اومیگا 3 ایسڈ دماغ کے لیے بہت مفید ہے۔ اومیگا 3 دل کے افعال اور اس کی مضبوطی کے لیے بھی بہت فائدہ مند ہوتا ہے۔ مچھلی میں وٹامن اے اور ڈی بھی وافر مقدار میں موجود ہوتے ہیں، جو آنکھوں کے لیے بے حد مفید ہیں۔

مچھلی کو بہت زیادہ پکا کر یا تیز آنچ پر تل کر استعمال کرنے سے اس کی افادیت کم ہو جاتی ہے۔ بہتر طریقہ استعمال یہ ہے کہ ہلکے مسالے کی مچھلی بغیر تیل کے اوون میں پکالی جائے، یا ابلتے ہوئے پانی میں بھاپ کے ذریعے گلا لی جائے۔ مچھلی اگر تلنا ضروری ہو تو اس بات کا دھیان رکھیں کہ کڑھائی میں تازہ تیل ہو اور کولیسٹرول سے پاک ہو، تاکہ اس کی افادیت ختم نہ ہو۔


 
Top