• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکالمہ،مفہوم اورپس منظر ، ڈاکٹر عبدالحیی المدنی پروفیسر این ای ڈی یونیورسٹی کراچی

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
مکالمہ کی ضرورت اور اہمیت
اگر ہم تاریخ کامطالعہ کریں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ دین اور مذاہب میں اختلاف کے باعث انسانی معاشرہ کبھی بھی امن وامان کو برقرار نہیں رکھ سکا کیونکہ ہر گروہ نے اپنے زعم کے مطابق اپنی سچائی اور حق کو اپنے ساتھ خاص کر لینے کی وجہ سے جارحیت پر مبنی رویہ اختیار کیاجس کا منطقی نتیجہ مخالف فریق کوغلط ثابت کرنے کی صورت میں ظاہر ہوا جس سے تاریخ کا چہرہ سیاہ ہوگیا اور اس کا سبب وہ انتہاپسندی پر مبنی تعلیمات اور بغض و عناد تھا جن کو ہر مذہب کے رہنماؤں نے عام رعب و دبدبہ پھیلانے کے لیے دوسرے مذاہب کے خلاف اختیار کیا ۔ اس کے برعکس اسلام اپنے ماننے والوں کے لیے تو امن و سلامتی کا ضامن ہے ہی غیر مسلم اس کی حدود میںمقیم ہوکر اسی امن وسلامتی کے حقدار ہیں اوراگلے مرحلے میں پوری کائنات اس امن و سلامتی کی مستحق ہے ۔
یہ امر عین فطرت ہے کہ اعتقادات کے سلسلے میں لوگوں کے مابین اختلافات فطری امرہے ارشاد باری تعالی ہے :
وَلَوْ شَاء رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّۃً وَاحِدَۃً وَلاَ یَزَالُونَ مُخْتَلِفِیْنَ إِلاَّ مَن رَّحِمَ رَبُّکَ وَلِذَلِکَ خَلَقَہُمْ وَتَمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ لأَمْلأنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ (۲۱)
بے شک تیرارب اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک گروہ بنا سکتاتھا،مگر اب تووہ مختلف طریقوںپر ہی چلتے رہیں گے اوربے راہ رویوں سے صرف وہ لوگ بچیں گے جن پر تیرے رب کی رحمت ہے ۔ اسی آزادی انتخاب و اختیار کے لئے ہی تو اس نے انہیں پیدا کیاتھااور تیرے رب کی وہ بات پوری ہوگئی جو اس نے کہی تھی کہ میں جہنم کو جن اور انسان سب سے بھر دوںگا۔
اوراللہ تعالی نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :
وَمَا أَکْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِیْنَ (۲۲)
گو آپ لاکھ چاہیں لیکن اکثر لوگ ایمان والے نہ ہوں گے
اور اسی بناء پر مسلمانوں نے یہ سمجھ لیا کہ فرد مخالف سے بھی بغض وعناد رکھناجرم ہے اور انہیں ایذاء پہنچانا منع ہے اور سب سے اہم اور روشن پہلویہ ہے کہ اسلام نے کبھی اپنے متبعین سے یہ نہیں کہا کہ کسی بھی فرد کو اپنا مذہب چھوڑکر اسلام قبول کرنے پر مجبور نہ کریں اور اس حوالے سے اللہ تعالی نے صراحتا فرمایا:
لاَ إِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ قَد تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ(۲۳)
دین کے بارے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہدایت ضلالت سے روشن ہو چکی ہے
بلکہ ایک مقام پر فرمایا کہ :
وَلَوْ شَاء رَبُّکَ لآمَنَ مَن فِیْ الأَرْضِ کُلُّہُمْ جَمِیْعاً أَفَأَنتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتَّی یَکُونُواْ مُؤْمِنِیْن(۲۴)
اگر تیرے رب کی مشیت یہ ہوتی (کہ زمین میں سب مومن وفرمانبردارہی ہوں) توسارے اہل زمین ایمان لے آئے ہوتے۔پھر کیا تولوگوں کو مجبورکرے گا کہ وہ مومن ہوجائیں؟
یعنی اے محمد ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) نہ تو آپ کی استطاعت میں ہے اور نہ ہی اس رسالت کے فرائض میں سے ہے کہ تم لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کرو۔
اور اسی امر کی بناء پر مسلمانوں نے دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ تعلقات قائم کیے چنانچہ جس ملک کو فتح کرتے وہاں کے باشندوں کو جزیہ کی ادائیگی کی شرط کے ساتھ ان کو اپنے مذہب پر رہنے کی اجازت دے دیتے تھے بلکہ اس جزیہ کے بدلے میں ان کی حفاظت بھی کیا کرتے تھے ان کے عقائد ان کی مذہبی رسومات اور عبادت گاہوں میں کوئی تعرض نہیں کیا کرتے تھے ۔اورایک حیران کن امریہ بھی ہے کہ اسلام نے غیر مسلموں کو وہ آزادی دی جو خود اس نے مسلمانوں کو نہیں دی چنانچہ مسلمانوںکیلئے شراب کو حرام قرار دیا مگر غیر مسلموں کواجازت دی ۔
یعنی دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ تعلقات کا قیام مکالمہ جات کی اصل بنیاد ہے کیونکہ تعلقات کے قائم رہنے کی صورت میں ہی دعوت اسلام کا ابلاغ ممکن ہے اور اسی وجہ سے اسلام نے اہل کتاب کے ساتھ ایسے مذہبی مباحثہ اور مجادلہ کو جائز قرار دیا ہے جس کی بنیاد عقل اور منطق پر ہو اور اس کا انحصار مخاطبین کو بہترین طریقہ کے ذریعے مطمئن کرنا ہو جیسا کہ قرآن مجید میں ہے :
وَلَا تُجَادِلُوا أَہْلَ الْکِتَابِ إِلَّا بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوا مِنْہُمْ وَقُولُوا آمَنَّا بِالَّذِیْ أُنزِلَ إِلَیْْنَا وَأُنزِلَ إِلَیْْکُمْ وَإِلَہُنَا وَإِلَہُکُمْ وَاحِدٌ وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُون(۲۵)
اوراہل کتاب کے ساتھ بحث و مباحثہ نہ کرو مگر اس طریقہ پر جو عمدہ ہو مگر ان کے ساتھ جو ان میں ظالم ہیں اور صاف اعلان کر دو کہ ہمارا تو اس کتاب پر ایمان ہے جو ہم پر اتاری گئی اور اس پر بھی جو تم اتاری گئی ہمارا تمہارا معبود ایک ہی ہے ہم سب اسی کے حکم بردار ہیںبلکہ حسن مجادلہ کو اس طرح بیان کیا کہ :
ادْعُ إِلِی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُم بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ (۲۶)
اپنے رب کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلائیں اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کریں یقینا آپ کا رب اپنی راہ سے بہکنے والوں کو بھی بخوبی جانتا ہے اور راہ یافتہ لوگوں سے بھی واقف ہے ۔
حکمت سے مراد وہ طریقہ گفتگو ہے جس میں مخاطب کے احوال کی مناسبت کے اعتبار سے تدابیر اختیارکی جائیں جو اس کے دل پر اثرانداز ہو سکیں اور نصیحت سے مراد یہ ہے کہ خیر خواہی و ہمدردی کے جذبہ کے ساتھ بات کہی جائے اور اس کا عنوان بھی نرم ہو دل خراش اور توہین آمیز نہ ہو ۔اور اگر اس دوران بحث مباحثہ کی نوبت آبھی جائے تو وہ شدت اور خشونت سے اور مخاطب پر الزام تراشی اور بے انصافی سے خالی ہونا چاہیے پھر اس تحقیق میں نہیں پڑنا چاہیے کہ کس نے مانی اور کس نے نہیں مانی یہ کام اللہ تعالی کا ہے ۔
درج ذیل آیات میں اللہ تعالی مسلمانوں کے معاملات کی نوعیت کو غیر مسلموں کے ساتھ ان الفاظ میں بیان کرتا ہے :
َلا یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ أَن تَبَرُّوہُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَیْْہِمْ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ إِنَّمَا یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِیْنَ قَاتَلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَأَخْرَجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ وَظَاہَرُوا عَلَی إِخْرَاجِکُمْ أَن تَوَلَّوْہُمْ وَمَن یَتَوَلَّہُمْ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الظَّالِمُونَ(۲۷)
جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں کوئی لڑائی نہیں کی اور تمہیں جلاوطن بھی نہیں کیا ان کے ساتھ سلوک واحسان کرنے اور منصفانہ بھلے برتاؤ کرنے سے اللہ تعالی تمہیں نہیں روکتا بلکہ اللہ تعالی تو انصاف کرنے والوںسے محبت رکھتا ہے۔اللہ تعالی تو تمہیں صرف ان لوگوں کی محبت سے روکتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائیاں کی اور تمہیں دیس نکالے دیے اور دیس نکالا دینے والوں کی مدد کی جو لوگ ایسے کفار سے محبت کریں وہ یقینا ظالم ہیں ۔
پس ان دونوں آیات میں اللہ تعالی نے اہل اسلام کو مخالف مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ عدل کے ساتھ معاملہ کرنے کا حکم دیا ہے اورصرف اسی پر اکتفانہیں کیا بلکہ ان کے ساتھ بر و احسان کا حکم بھی دیا ۔ مکالمہ جات میں اللہ تعالی نے اہل اسلام کو عداوت اور بغض کے مقابلے میں صلح جوئی اور محبت کی تلقین کی جیسا کہ قرآن مجید میں ہے :
عَسَی اللَّہُ أَن یَجْعَلَ بَیْْنَکُمْ وَبَیْْنَ الَّذِیْنَ عَادَیْْتُم مِّنْہُم مَّوَدَّۃً وَاللَّہُ قَدِیْرٌ وَاللَّہُ غَفُورٌ رَّحِیْم(۲۸)
کیا عجب کہ عنقریب ہی اللہ تعالی تم میں اور تمہارے دشمنوں میں محبت پیدا کر دے اللہ تعالی کو سب قدرتیں ہیں اور اللہ تعالی بہت غفور رحیم ہیں۔
یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ اسلام نے بات چیت کے ابتدائی مرحلہ میں ہی ایسے تمام خیالات اور اوہام کی شدت کے ساتھ نفی کی ہے جن کی بنیاد کسی بھی قسم کے تعصب یا حق کی مخالفت پرہو۔
کلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رو سے دیکھا جائے تو قرآن مجید کے حقائق کی تائید بلکہ ااس کی انتہائی خوبصورت توضیح ملتی ہے جیسا کہ ارشاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
لاتحد ث الباطل فیمقتوک ولاتحدث الحکمۃ للسفہاء فیکذبوک ولاتمنع العلم اھلہ فتأثم ولاتضعہ فی غیر اھلہ فتجھل ان علیک فی علمک حقا کما ان علیک فی مالک حقا(۲۹)۔
داناؤں کے سامنے بے سروپا بات نہ کیا کرو ورنہ وہ خفا ہو جائیں گے کم عقل سے اونچی بات نہ کرو ورنہ وہ تمہاری تکذیب کرے گا علم کے اہل کو علم سے محروم نہ رکھو یہ معصیت ہے ناہل سے علمی گفتگو نہ کرو ورنہ وہ تمہی کو جاہل کہے گا علم ہو یا دولت تم پر دونوں کے کچھ حقوق ہیں
اور ایک مقام پر ارشاد فرمایا : جب تم لوگوں کے سامنے ایسی گفتگو کرو گے جو ان کی رسائی سے باہر ہو تو وہ کچھ لوگوں کے لیے فتنہ بن جائے گی(۳۰)۔
اس جیسی بے شمار عمومی احادیث اس امر کو ظاہر کرتی ہیں کہ بات چیت خواہ کسی بھی مقصد کے لیے ہو ان میں کچھ آداب و قواعد کا مدنظر رکھنا ازحد ضروری ہے ۔
المختصر دو افراد یا دو اقوام یا دو مذاہب کے ماننے والوں کے مابین جب بھی مکالمہ جات کی نوبت آئے توان امور ملحوظ خاطر رکھنا بہت ضروری ہے اور ان قواعد و آداب کا تعلق صرف مکالمہ جات کے اخلاقی پہلو سے بلکہ اس کی ضرورت و اہمیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے ۔کہ ایسا ہونا ناممکن ہے کہ کوئی قوم یا اہل مذہب باقی دنیا سے کٹ کر الگ تھلگ ہو کر زندگی گزار سکیں ۔یہ تعلقات عین فطری ہیں اور مسلمان توبین الاقوامی سچائیوں کا حامل ہے جس کے پاس علوم نبوت کے انوار موجود ہیں جسے ہر صورت میں دنیا تک پہنچانا ہے کہ وہ خیر کو اپنی ذات تک محدود نہیں رکھتا بلکہ وہ تو اپنی ذات سے بڑھ کر دوسرے مذاہب کے لیے اس خیر کا حریص ہوتا ہے ۔اور یہ عالمی و سماوی ھدف اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب مکالمہ جات ممکن ہوں ۔
مکالمہ جات کی اہمیت اس سے بھی واضح ہوتی ہے کہ یہ واحد امر ہے جو ممکنہ جنگ وجدل کی راہ میں حائل ہو سکتا ہے ۔کیونکہ اختلافات کو گفتگو سے بھی زائل کیا جا سکتا ہے اور جنگ وجدل اختلافات کے ابتدائی مراحل میں کسی بھی صورت میں مستحسن نہیں سمجھا گیا کہ وہ انتہا ئی آخری حل ہے۔
یہاں ایک بات بہت اہم ہے کہ اختلافات میں مکالمہ جات کے ذریعے صرف وقت کا ضیاع ہو رہا ہو یعنی اگر ایک فریق کی بدنیتی ظاہر ہو جائے کہ وہ صرف وقت ضائع کر رہا ہے تاکہ اپنی دوسری تیاریاں مکمل کر سکے تو ایسے مکالمہ جات سے اجتناب بہتر ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
مکالمہ کی مشہور صورو اشکال
(اشارہ، گفتگو، مذاکرات ، معاہدات، رسائل و وثائق )
مکالمہ کے مکمل تعارف فوائد اور تاریخی پس منظر کے بیان سے بعد اس غلط فہمی کا ازالہ کرنا انسب معلوم ہوتا ہے کہ مکالمہ جات کا حصول صرف آمنے سامنے بیٹھ کر بات چیت کو کہتے ہیں حقیقت تو یہ ہے تبادلہ افکار کا حصول ایک سے زائد ذرائع سے ممکن ہے جیسا کہ آئندہ سطور میں بیان کیا جائے گا ۔ مکالمہ جات کے ممکنہ ذرائع درج ذیل ہیں ان ذرائع کی ترتیب اس اعتبار سے ہے سب سے کم اہمیت کا حامل سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اہم اور معروف آخر میںبیان کیا جائے گا ۔
۱۔ اشارہ
۲۔ رسائل و وثائق
۳۔ معاہدات
۴۔ مذاکرات
۵۔ گفتگو
یہ بات واضح رہے کہ مکالمہ جات کی پانچ اشکال سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ سب الگ الگ استعمال ہوتی ہیں بلکہ حسب ضرورت ان سب کا آپس میں ربط موجود رہتا ہے یعنی گفتگو کے دوران اشارہ کا استعمال یا رسائل و وثائق کے وسیلہ یا نتیجہ میں گفتگو کا حصول وغیرہ وغیرہ
۱۔ اشارہ
مکالمہ جات میں اولین صورت اشارہ ہے جسے عربی زبان میں کلام کا حصہ شمار کیا جاتا ہے(۳۱) (شرح ابن عقیل) اور اسے کلام کی جگہ بھی استعمال کیا جا تا ہے بلکہ بسا اوقات یہ کلام سے زیادہ مؤثر ہوتا ہے اور اشارہ صرف ہاتھ سے نہیں بلکہ اس میں مکمل جسم کی حرکات شامل ہیں جسے ہم جدید علوم میں٭باڈی لینگویج یا نن وربل سٹڈیز کے نام سے جانتے ہیں اور اس کا اولین مظہر ہاتھ ہوتا ہے اس کے علاوہ آنکھیں ، چہرہ اور پھر باقی جسم ۔ اس بات کی تائید تو قرآن مجید اور احادیث سے بھی ملتی ہے کہ روزقیامت ہمارے جسم کے اعضاء بات کریں گے اور گواہی دیں گے لیکن ہمارا موجودہ موضوع مکالمہ جات بذریعہ اشارہ ہے اور جدید سائنس اس بات کو مکمل طور پر ثابت کرتی ہے ۔جیسا کہ مشہور انگریز گیسٹرس سائن نے ایک لغت مرتب کی جس کا نام ہی بادی لنگویج رکھا اس لغت میں انہوں نے جسم کے مختلف اعضاء کی حرکات اور ان کے معانی بیان کیے ۔ اس کے علاوہ اشاروں کی زبان باقاعدہ ایک بین الاقوامی حیثیت رکھتی ہے جو گونگے افراد کے لیے تبادلہ افکار کے لیے اہم ذریعہ ہے۔
اشارہ کے ممکنہ مظاہر جو مکالمہ جات میں استعمال ہو سکتے ہیں ان کے نام درج ذیل ہیں :
۱۔ ہاتھ ۲۔ چہرہ ۳۔ آنکھیں
۴۔ زبان ۵۔ کاندھے ۶۔ بازو
۷۔ ٹانگیں اور پاؤں
اب ان میں سے ہر ایک کی ایک سے زائد حرکات ہیں جن کے الگ الگ مفاہیم ہوتے ہیں ۔اشاروں کی مذکورہ بالا کیفیات سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں باقاعدہ موجود ہیں مثلا کسی فعل پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ناراض ہونا اور اس کا اظہار آپ کے چہرے کی رنگت سے ہونا یا اشارہ سے کسی کام سے روکنا اوراجازت دینا ۔جیسا کہ قرآن مجید میں بھی ہے جب سیدہ مریم علیہا السلام عیسی علیہ السلام کی پیدائش کے بعد آپ کو قوم کے سامنے لے کر آئیں تو انہوں نے کہا :
یَا أُخْتَ ہَارُونَ مَا کَانَ أَبُوکِ امْرَأَ سَوْء ٍ وَمَا کَانَتْ أُمُّکِ بَغِیّا فَأَشَارَتْ إِلَیْْہِ قَالُوا کَیْْفَ نُکَلِّمُ مَن کَانَ فِیْ الْمَہْدِ صَبِیّاً (۳۲)
اے ہارون کی بہن نہ تو تیرا باپ برا آدمی تھا اور نہ تیری ماں بدکار تھی۔مریم نے اپنے بچے کی طرف اشارہ کیا سب کہنے لگے کہ لوبھلا ہم گودکے بچے سے باتیں کیسے کریں۔
یہ کہنا بھی اشارے سے تھا زبان سے نہیں علاوہ ازیں ان کے ہاں روزے کا مطلب ہی کھانے اور بولنے سے پرہیزتھا(۳۳)
۲۔ رسائل و وثائق
مکالمہ جات میں اشارہ کے بعد اہم مرحلہ رسائل و وثائق کا ہے یہ مرحلہ مکالمہ جات کے حوالے سے دو اشکال پر محیط ہے
اول : مکالمہ جات سے قبل فریقین کے مابین گفت وشنید کے اصول و ضوابط طے کیے جاتے ہیں جن میں مکالمہ جات کے موضوعات پراختلافی مسائل اور نقاط کا تعین کیا جاتا ہے
دوم : مکالمہ جات کے مکمل ہونے کے بعد جن امور پر اتفاق ہوتا ہے ان کو تحریر میں لایا جاتا ہے اور اس پر باقاعدہ گواہوں کا تقرر کیا جاتا ہے تاکہ کوئی بھی فریق اس سے منحرف نہ ہو سکے اور مکالمہ جات کے اھداف کا حصول ممکن ہو سکے۔
یہ دونوں کیفیات کبھی تو مکالمہ جات کے مقدمہ کی حیثیت سے سامنے آتی ہیں اور کبھی مکالمہ جات کے نتائج کی قطعیت کو بیان کرنے کے حوالے سے سامنے آتی ہیں اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مکالمہ جات کے دوران بھی ان کا استعمال ہوتا ہے کہیں جزوی طور پر اور کہیں مکمل طور پر جیسے مکالمہ جات میں اشاروں کا عمل دخل ہوتا ہے ۔
قرآن مجید میں مکالمہ جات کے حوالے سے مکاتیب و رسائل کا باقاعدہ ذکر تو نہیں ملتا لیکن کچھ واقعات ایسے ہیں جن سے استدلال کیا جا سکتا ہے اور احادیث مبارکہ میں تو اس کا کثرت کے ساتھ ذکر ہے چنانچہ مکاتیب نبوی سیرت طیبہ کا ایک بہت بڑا باب بن گیا ہے جس سے صرف مکاتیب نبوی اور رسائل ووثائق کے ذریعے عہد رسالت میں امور خارجہ اور بین الاقوامی تعلقات کا علم ہوتا ہے کہ کس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مذاہب اور افکار کے حاملین لوگوں کے ساتھ کن اصولوں کی بنیاد پر گفت وشنید کی اور ان میں مکاتیب ورسائل و وثائق کا کیا کردار رہا(۳۴)۔

۳۔ معاہدات
مکالمہ جات کے اہم ذرائع میں سے معاہدات بھی ہیں یعنی بعض اوقات آمنے سامنے بیٹھ کر بات کیے بغیر ہی اختلافی مسائل کو حل کرنا اور متنازعہ مسائل پر تحریر اور سفراء کے ذریعے موجودہ اختلافات کو زائل کرنے کی کوشش کی کوشش کی جاتی ہے ۔
اس امر کی جتنی اہمیت زمانہ قدیم میں تھی اس سے کہیں زیادہ عصر حاضر میں ہے کیونکہ ان کے ذریعے فریقین کے مابین تنازعات کو حل کیا جاتا ہے اور جو اہمیت مکاتیب و رسائل کی ہے معاملات کے تعین میں اتنی ہی اہمیت معاہدات کی ہے کیونکہ ان کا تعلق عہد نامہ اور میثاق سے ہے اور ان کی حیثیت اسلام میں اس طرح ہے کہ جو عہد کی پاسداری نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں (آپ کا فرمان ہے :ولادین لمن لاعھد لہ ،(۳۵)
کیونکہ معاہدات ہی واحد وسیلہ ہیں جو پر امن طریقوں پر باہمی تعلقات کو استوار کرنے کے لیے اور آپس کے جھگڑے اور پیچیدہ مسائل طے کرنے کے لیے اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔
۴۔ مذاکرات
مکالمہ جات میں چوتھی اہم صورت مذاکرات کی ہے جس میں فریقین براہ راست آمنے سامنے گفت وشنید کرتے ہیں اور اس میں سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس میں فریقین کے درمیان سفیر یا خط وکتابت کی صورت میں کوئی واسطہ نہیں ہوتالیکن یہ ضرور ہوتا ہے کہ ان مکالمہ جات میں اصل فریقین کے ساتھ ان کے وزراء اور مشیر ضرور ہوتے ہیں جو ان کی معاونت کا کام کرتے ہیں۔لہذا یہ سب سے اہم صورت ہے جس میں مکالمہ جات کی سب سے معروف صورت وجود میں آتی ہے ۔
اور ان مذاکرات میں جن موضوعات پر بات کی جاتی ہے وہ پہلے ہی سے ایجنڈے میں شامل کر لیے جاتے ہیں اور پھر فریقین معاملہ کے حل کے لیے اس پر بحث و مباحثہ کرتے ہیں اور اپنے اپنے حق میں دلائل کا استعمال کرتے ہیں ۔
مذاکرات کا وجود بہت قدیم ہے بلکہ اگر کہا جائے کہ دو افراد یا دو اقوام کے مابین مختلف فیہ مسئلہ کے حل کے لیے سب سے زیادہ آسان طریقہ مذاکرات کا ہے جسے پاکستان میں پنچائیت کے نام سے جانا جاتا ہے اور بسا اوقات ان مذاکرات میں کسی کو ثالث بھی مقرر کیا جاتا ہے تاکہ اس متنازعہ معاملات کا حل بھی تلاش کیا جائے صرف بحث مباحثہ میں وقت نہ ضائع کیا جائے۔ حیات طیبہ سے بھی ہمیں مذاکرات کا تصور ملتا ہے جیسے صلح حدیبیہ وغیرہ جس کی تفصیل آئندہ موضوع میں بیان کی جائے گی۔
۵۔ گفتگو
ابتدائی اشکال کے بعد آخری شکل گفتگو کی ہے جو مکالمہ جات کی عملی صورت کی حیثیت رکھتی ہے یعنی اگر کوئی لفظ مکالمہ استعمال کرے تو فورا گفتگو کاتصور ذہن میں آتا ہے ۔گفتگو کے حوالے سے یہ واضح رہے کہ یہ لفظ مکالمہ کا مترادف نہیں ہے ۔کیوں کہ مکالمہ دو افراد کے مابین بات چیت کا نتیجہ ہے جس میں کہنے اور سننے کی کیفیات پائی جاتی ہیں جبکہ گفتگو میں جزوی طور پر یہ کیفیات پائی جاتی ہیں کہ کبھی کبھار اس میں صرف کہنے کی کیفیت پائی جاتی ہے یعنی غالب فریق صرف کہتا ہے اور سننے کی کیفیت نہیں ہوتی ۔لیکن زبان حال سے ابتداء ہونے کے بعد عملا زبان مقال کا مرحلہ کم اہمیت کا حامل نہیں کہ کلام پر دسترس رکھنے والے افراد اپنی گفتگو کی بنیاد پر ہی غلبہ حاصل کرتے ہیں بلکہ بعض افراد کی گفتگو میں جادو جیسااثر ہوتا ہے ۔اس اعتبار سے آداب اور شروط کے باب میں بیان کیا جائے گا کہ گفتگو کا محور کیا ہونا چاہیے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
مکالمہ کا بنیادی فلسفہ اسوہ حسنہ کی روشنی میں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات میں کائنات کے لیے باعث رحمت ہیںاورآپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مربی ،معلم ،قائد اورعادل حکمران تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام مساعی دنیا میں امن و امان کے قیام سے تعلق رکھتی ہیں اس میں عمومی طور پر فاتحین میں پائے جانے والے منفی تصورات کا کوئی عمل دخل نہیں ۔کائنات میں امن و امان کے قیام کے لیے آپ نے مخالفین کے تمام تر مصائب وشدائداپنی ذات پر برداشت کیے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی مخالف سے انتقامی رویہ اختیار نہیں کیا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امن عالم کے لیے پرامن مساعی کی راہ اختیار کی یعنی جنگ یا قتال کا مرحلہ کہیں بھی اختیاری نہ تھا بلکہ اجباری کیفیات کے ساتھ آپ کے سامنے آیا اور یہی سب سے بڑی دلیل ہے کہ آپ نے دیگر تمام مذاہب والوں کو مکالمہ جات یعنی بات چیت کے ذریعے ہی اسلام کا پیغام امن پہنچایا۔خواہ وہ نصاری ہوں یا یہود یا مشرکین مکہ وغیرہ سیرت طیبہ کے بے شمار مواقف اس امر پر شاہد ہیں(۳۶)
لیکن اگر کسی فریق نے جارحیت مسلط کی تو اپنے دفاع میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ۔جیسا کہ مختلف غزوات میں کفار مکہ نے مسلمانوں کے ساتھ کیا(۳۷)
اسوہ حسنہ کی رو سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک ملک کے تعلقات دوسرے ملک کے ساتھ امن کی بنیاد پر ہونے چاہییں تاکہ ان کے درمیان منافع اور تعاون کا تبادلہ بآسانی ہو سکے اور نوع انسانی اپنے کمال تک پہنچ سکے۔اور یہ بھی کہ رشتہ امن سوائے اس کے کہ ناگزیر ہو جائے یا اختلافات ختم کرنے کے حوالے سے تمام ذرائع ناکام ہوں جائیں تواسے کاٹنے کی اجازت نہیں دی جائے۔ عملی محاربت سے قبل کے ذرائع یعنی مکالمہ جات کو مستحسن سمجھا گیا ہے اور تاکید کی گئی کہ معاملات ان کے ذریعے ہی حل کیے جائیں۔
اسی وجہ سے مسلمانوں کے تعلقات غیر مسلموں کے ساتھ باہم امن اور سلامتی پر استوار کرنے کو ترجیح دی گئی لیکن اس میں اہل اسلام کا مقام مغلوبیت کا نہیں بلکہ الاسلام یعلو ولا یعلی علیہ(۳۸) کی کیفیت میں ہو۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی کے ساتھ اس امر کی ممانعت کی کہ کسی بھی فرد کو صرف اختلاف عقیدہ کی بنیاد پر قتل کیا جائے بلکہ یہ حکم دیا کہ اپنے مخالفین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں اور ان کے ساتھ منافع بخش امور میں تبادلہ کریں او یہ حکم اللہ تعالی کے اس قول سے واضح ہے:
لا یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ أَن تَبَرُّوہُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَیْْہِمْ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ (۳۹)
جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں کوئی لڑائی نہیں کی اور تمہیں جلاوطن بھی نہیں کیا ان کے ساتھ سلوک واحسان کرنے اور منصفانہ بھلے برتاؤ کرنے سے اللہ تعالی تمہیں نہیں روکتا بلکہ اللہ تعالی تو انصاف کرنے والوںسے محبت رکھتا ہے۔
فَإِنِ اعْتَزَلُوکُمْ فَلَمْ یُقَاتِلُوکُمْ وَأَلْقَوْاْ إِلَیْْکُمُ السَّلَمَ فَمَا جَعَلَ اللّہُ لَکُمْ عَلَیْْہِمْ سَبِیْلا (۴۰)
پھر اگر وہ تم سے کنارہ کش رہیں یعنی تم سے نہ لڑیں اور تم سے معاملہ سلامت روی کا رکھیں تو اللہ تعالی نے تم کو ان پر قتل کی کوئی راہ نہیں دی ۔
اسلام امن وامان کا ازحد خواہاں ہے اور یہ امر اس آیت سے ظاہرہوتا ہے :
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ ادْخُلُواْ فِیْ السِّلْمِ کَآفَّۃً وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّیْْطَانِ إِنَّہُ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْن(۴۱)
اے ایمان والو تم پورے کے پورے اسلام میںآجائو اور شیطان کی پیروی نہ کر وکہ وہ تمہاراکھلادشمن ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منہج مساعی برائے امن عام اس آیت پر مبنی تھا :
وَإِن جَنَحُواْ لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَہَا وَتَوَکَّلْ عَلَی اللّہِ إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْم(۴۲)
اور اگر وہ صلح کی طرف جھکیں تو آپ کو اجازت ہے کہ اگر اسی میں مصلحت دیکھیں تو اس طرف جھک جائیں
یہ آیت امن وسلامتی کے لیے مکالمہ جات کا دروازہ کھول دیتی ہے اور زمانہ کے مروجہ اصولوں کے مطابق اسلام کی نشر واشاعت کے لیے ممکنہ ذرائع استعمال کیے جائیں۔مکالمہ جات کے حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا بنیادی فلسفہ اسلام کی دعوت کو پر امن ذرائع سے پھیلانا اور غالب کرنا ہے
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
مکالمہ کے آداب
انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں مکالمہ جات کی بہت زیادہ اہمیت ہے کیونکہ مسائل اور اختلافات کے حل کے لیے یہ واحد طریقہ ہے اس کی بنیاد قرآن مجید کی تین آیات اور کچھ احادیث ہیں جو کہ درج ذیل ہیں ۔
فریقین کے مابین مکالمہ جات کی تحدید کچھ قواعد اور آداب سے کی جاتی ہے جو کتاب و سنت سے اخذکیے گئے ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
۱۔ ادب و احترام کی فضاکو قائم رکھنا
۲۔ اظہار حق کواصل ھدف بنانا
۳۔ تناقضات سے اجتناب لاز م رکھنا
۴۔ غرور وتکبر پر مبنی رویے اختیار نہ کرنا
۵۔ گفتگو سچائی و صداقت پرمبنی رکھنا
۶۔ دعوی پر دلیل کا طلب کیا جانا
۷۔ مکالمہ جات کی بنیاد علم پر ہونا
۱۔ ادب و احترام کی فضا قائم رکھنا
اسلام وہ واحد دین ہے جس کے تمام احکامات کے پس منظر میں قوت نافذہ کے طور پر اخلاقی تعلیمات کارفرما ہوتی ہیں ۔اور اخلاقی تعلیمات کا خلاصہ احترام انسانیت ہے جس کا ایک معروف مظہر بنیادی انسانی حقوق ہیں جن کا اعلان قرآن مجید اور کلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جا بجا نظر آتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کائناتی سچائی کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا :
؁انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق(۴۳)
بے شک مجھے مکارم اخلاق مکمل کرنے کے لیے مبعوث کیا گیا
اور انہی اخلاقی تعلیمات میں سے اہم ضابطہ جو مکالمہ جات میں اساسی حیثیت کا حامل ہے کہ کسی بھی موضوع پر کبھی فریقین کے مابین اتفاق نہیں قائم ہو سکتا جب تک ان کے درمیان ادب واحترام کی فضا قائم نہ ہواور اسوہ حسنہ سے ہمیں بے شمار واقعات ملتے ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے ادب و احترام کی یہ کیفیت کائنات میں ہر مخلوق کے لیے تھی خواہ وہ جانور ہی کیوں نہ ہوں۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو معاشرے میں باہمی احترام کی فضا کو قائم کرنے کی بہت زیادہ تاکید فرمائی چنانچہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
لیس منا من لم یرحم صغیرنا ولم یوقر کبیرنا(۴۴)
وہ ہم میں سے نہیں جو چھوٹوں کے ساتھ شفقت کا رویہ نہیں اختیار کرتااور بڑوں کا حترام نہیں کرتا۔
اس اعتبار سے مکالمہ جات سے قبل اور بعد بھی ایک دوسرے کے ساتھ معاملات میں ادب و احترام کی فضا مکالمہ جات کے مقاصد کے حصول کے لیے لازمی ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو صرف وقت کا ضیاع اور مکالمہ جات کے نتیجے میں طے پانے والے معاہدات کی عدم پابندی کے امکانات موجود رہتے ہیں جیسا کہ مسلمانوںاور کفارمکہ کے درمیان صلح حدیبیہ کا معاہدہ ہواتھا جو مکالمہ جات کے نتیجے میں طے پایا تھا اس کی مخالفت کچھ ہی عرصہ بعد کفار کی جانب سے ہو گئی تھی (۴۵)
جس کی سب سے بڑی وجہ ان کی جانب سے احترام کا نہ دیا جانا تھا اوریہ واضح رہے کہ ادب و احترام صرف اسی لیے ضروری نہیں بلکہ اس کے پس منظر میں یہ حقیقت پائی جاتی ہے کہ ایک فریق دوسرے فریق کے وجود کو تسلیم کرتا ہے وگرنہ جہاں اختلافات ہوں بسا اوقات کسی ایک فریق کی جانب سے دوسرے فریق کے وجود کو ہی تسلیم نہیں کیا جاتا ۔
یہی کیفیت ہندوستان میں برطانوی استعمار کے دوران مسلمانوں کے ساتھ پیش آئی تھی کہ وہ مسلمانوں کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے تھے کیوںکہ انہوں نے حکومت مسلمانوں سے ہی چھینی تھی ۔ مکالمہ جات میں ادب و احترام کے حوالے سے اسلام نے جو تعلیمات عطا کی ہیں وہ تین آیات کے گرد گھومتی ہیں جو درج ذیل ہیں :
وَلاَ تَسُبُّواْ الَّذِیْنَ یَدْعُونَ مِن دُونِ اللّہِ فَیَسُبُّواْ اللّہَ عَدْواً بِغَیْْرِ عِلْمٍ (۴۶)
اور گالی مت دو ان کو جن کی یہ لوگ اللہ تعالی کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں کیونکہ پھر وہ براہ جہل حد سے گزر کر اللہ تعالی کی شان میں گستاخی کریں گے۔
یہ آیت سد ذریعہ کے اس اصول پر مبنی ہے کہ اگر ایک مباح کام اس سے زیادہ بڑی خرابی کا سبب بنے تو وہاں اس مباح کام کا ترک کرنا ہی راجح اور احسن ہے(۴۷)
اور حقیقی بات تو یہ ہے کہ اسلام نے جو اصول اور ضابطہ اس آیت میںعطا کیا وہ ادب و احترام کی راہ میں اصل اصیل کی حیثیت رکھتا ہے کہ دنیا کے کسی مذہب نے مخالف مذاہب کے عقائد کا اس انداز میں احترام نہیں کیا اور نہ ہی کروایا جس طرح اسلام نے حکم دیا ۔باوجود اس کے کہ اسی آیت سے یہ بھی واضح ہو رہا ہے کہ وہ جھوٹے ہیں اور ان کا سچ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔تاہم برائی کے سدباب کے لیے حکمت پر مبنی رویہ اختیار کرنے کا حکم دیا (۴۸)
ادْعُ إِلِی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُم بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَن (۴۹)
اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوںکو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلائیں اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کریں
یعنی جدال بالاحسن درشتی اور تلخی سے بچتے ہوئے نرم و مشفقانہ لب و لہجہ سے کیاجائے جو کہ ادب واحترام کی اساس متصور کیا جاتا ہے۔
وَلَا تُجَادِلُوا أَہْلَ الْکِتَابِ إِلَّا بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ (۵۰)
اور اہل کتاب سے جدال نہ کرو سوائے جو بہترین اور اچھا ہو۔
سب سے واضح مثال اللہ تعالی نے سید نا موسی اور ھارون علہیما السلام کو حکم دیا تھا کہ تم دونوں فرعون کے ساتھ مکالمہ کے دوران اپنا رویہ نرم رکھنا ہو سکتا ہے کہ وہ تمہاری بات سن کر ہدایت کی راہ قبول کر لے حالانکہ قرائن اور شواہد اس امر کے خلاف ہی دلالت کر رہے تھے : فَقُولَا لَہُ قَوْلاً لَّیِّناً لَّعَلَّہُ یَتَذَکَّرُ أَوْ یَخْشَی (۵۱)
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
۲۔ اظہار حق اصل ھدف ہونا چاہیے
سیرت طیبہ کا ماحصل اظہار حق اور اس کا غلبہ ہے ۔اور مکالمہ جات کے پس منظر میں ہم اظہار حق کو ھدف اساسی کے طور پر بیان کر سکتے ہیں اور قرآن مجید نے اس حوالے سے جو ہدایات عطا کیں وہ درج ذیل ہیں :
وَإِذَا قِیْلَ لَہُمْ آمِنُواْ بِمَا أَنزَلَ اللّہُ قَالُواْ نُؤْمِنُ بِمَا أُنزِلَ عَلَیْْنَا وَیَکْفُرونَ بِمَا وَرَاء ہُ وَہُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقاً لِّمَا مَعَہُمْ قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُونَ أَنبِیَاء َ اللّہِ مِن قَبْلُ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِیْنَ (۵۲)
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالی کی اتاری ہوئی کتاب پر ایمان لاؤ تو کہہ دیتے ہیں کہ جو ہم پر اتاری گئی اس پر ہمارا ایمان ہے ۔حالانکہ اس کے بعد والی کے ساتھ جو ان کی کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے کفر کرتے ہیں ۔اچھا ان سے یہ تو دریافت کریں کہ اگر تمہارا ایمان پہلی کتابوں پر ہے تو پھر تم نے اگلے انبیاء کو کیوں قتل کیا ؟
چونکہ ان کا دعوی ایمان محض حسد اور عناد پر ہے جو کہ اظہار حق کے مخالف امور ہیں
یَا أَہْلَ الْکِتَابِ لِمَ تَلْبِسُونَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَکْتُمُونَ الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُون (۵۳)
اے اہل کتاب باوجود جاننے کے حق و باطل کو کیوں خلط ملط کر رہے ہو اور کیوں حق کو چھپا رہے ہو
یہ آیت مدینہ میں اہل کتاب اور دیگر قبائل یہود کے ساتھ معاملات کے موقع پر نازل ہوئی جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کردہ اوصاف اور خصائص کو چھپاتے تھے اور حق کو چھپانا اس کے اظہار کا مخالف امر ہے جو کسی بھی صورت مستحسن نہیں ہے ۔
أَمِ اتَّخَذُوا مِن دُونِہِ آلِہَۃً قُلْ ہَاتُوا بُرْہَانَکُمْ ہَذَا ذِکْرُ مَن مَّعِیَ وَذِکْرُ مَن قَبْلِیْ بَلْ أَکْثَرُہُمْ لَا یَعْلَمُونَ الْحَقَّ فَہُم مُّعْرِضُون (۵۴)
کیا ان لوگوں نے اللہ تعالی کے سوا کوئی اور معبود بنا رکھے ہیں ان سے کہہ دو لاؤ اپنی دلیل پیش کرو یہ ہے میرے ساتھ والوں کی کتاب اور مجھ سے اگلوں کی دلیل بات یہ ہے کہ ان میں کے اکثر لوگ حق کو نہیں جانتے اسی وجہ سے منہ موڑے ہوئے ہیں ۔
یعنی حق سے منہ موڑنا بھی معیوب رویہ ہے جو حق کی مخالفت کے زمرے میں آتا ہے اوراس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ جہالت اور علم کی عدم موجودگی ہی زمین میں شر و فساد کا سبب بنتی ہے (۵۵) جو کہ مکالمہ جات کے مقاصد کے حصول میں حائل ہوسکتے ہیں ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
۳۔ تناقضات سے اجتناب لازم ہے
ایسی گفتگو جس میں تضاد داخلی یا خارجی موجود ہو وہ بات اپنا اثر کھو دیتی ہے اور شرعی ،اخلاقی بنیادوں پر بھی تضاد بیانی سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے ۔ قرآن مجید نے اہل کتاب کی تضاد بیانیوں کو بیان کرتے ہوئے مسلمانوں کو اس سے سختی سے روکا جیسا کہ سورۃ البقرۃ میں ہے :
أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْکِتَابِ وَتَکْفُرُونَ بِبَعْض (۵۶)
اور کیا تم کتاب کے بعض حصے پر ایمان لاتے ہو اور بعض کا انکار کرتے ہو
یعنی اہل کتاب جو بات ان کی مرضی کے مطابق ہوتی اسے تسلیم کر لیتے اور جو حکم ان کی خواہش کے خلاف ہوتا اسے رد کر دیتے اور ایسے متضاد رویے اختیار کرنے کی سزا اللہ تعالی نے انہیں سخت اخروی عذاب کی صورت میں سنائی اور بالخصوص ایسی گفتگو کا تعلق فریقین کے مابین مکالمہ جات کی صورت میں ہو جس پر امن و امان کا انحصار ہو۔
وَمَا قَدَرُواْ اللّہَ حَقَّ قَدْرِہِ إِذْ قَالُواْ مَا أَنزَلَ اللّہُ عَلَی بَشَرٍ مِّن شَیْْء ٍ قُلْ مَنْ أَنزَلَ الْکِتَابَ الَّذِیْ جَاء بِہِ مُوسَی نُوراً وَہُدًی لِّلنَّاسِ تَجْعَلُونَہُ قَرَاطِیْسَ تُبْدُونَہَا وَتُخْفُونَ کَثِیْراً (۵۷)
اور ان لوگوں نے اللہ کی جیسی قدر کرنا واجب تھی ویسی قدر نہ کی جب کہ یوں کہہ دیا کہ اللہ نے کسی بشر پر کوئی چیز نازل نہیں کیآپ یہ کہہ دیں کہ وہ کتاب کس نے نازل کی جس کو موسی لے کر آئے تھے جس کی کیفیت یہ تھی کہ وہ نور ہے اور لوگوں کے لیے ہدایت ہے جس کو تم نے ان متفرق اوراق میں رکھ چھوڑا ہے جن کو تم ظاہر کرتے ہو اور بہت سی باتوں کو چھپاتے ہو۔
اس آیت میں اللہ تعالی نے یہود کی تضاد بیانیوں کو مروء ات اخلاق میں شمار کیا اور اس کے علاوہ یہود کا توریت پر عمل نہ کرنے کی کفیت کو اللہ تعالی کی بے قدری اور توہین قرار دیااور اس کا ایک مظہر یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی کے احکام میں سے کچھ احکام کا تذکرہ نہیں کرتے بلکہ صرف چند کا ذکر کرتے ہیں اور یہ لوگ زیادہ تر اسی رویے کے حامل و عامل ہیں ۔
اگر عمومی گفتگو میں تضاد بیانی کو عیب گردانا گیا ہے تو ایسی گفت وشنید جس پر بنی نوع انسان کے لیے امن و امان اور سلامتی کا انحصارہو اس میں تضاد بیان کا جواز کس طرح ہو سکتا ہے وہاں تو اس امر کا کہیں زیادہ خیال رکھنا چاہیے کہ کسی فریق کی طرف سے کوئی ایسا قرینہ یا رویہ ظاہر نہ ہو جس سے مکالمہ جات کا عمل سبوتاژ ہواس میں سرفہرست کسی بھی فریق کی تضاد بیانی ہے اور اس کا ایک مظہر قول و فعل کا تضاد بھی ہے ۔
کَبُرَ مَقْتاً عِندَ اللَّہِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ (۵۸)
تم جو کرتے نہیں اس کا کہنا اللہ تعالی کو سخت نا پسند ہے ۔
یعنی فعل قول کے مطابق ہونا چاہیے وگرنہ یہ تضاد میں شمار کیا جائے گا بلکہ احادیث میں تو اس کی سخت تھدید موجود ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام میں اس کو کتنا ناپسند کیا گیا ہے ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
۴۔ غرور وتکبر پر مبنی رویے اختیار نہ کرنا
چونکہ مکالمہ جات بنی نوع انسان کے مسائل کے حل کے لیے وضع کیے گئے ہیں اور اس میں جہاں فریقین کے مابین احترام کی فضا کا ہونا لازم ہے وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ کوئی بھی فریق جارحیت پر مبنی رویہ اختیار نہ کرے کیوں کہ جارحانہ رویہ انسان کو غرورو تکبر کی طرف لے جاتا ہے اور غرور وتکبر انسان میں مخالف فریق کی سننے والی صلاحیت کوغصب کر لیتا ہے وہ صرف کہنے کا عادی ہو جاتا ہے ۔
اور حق تو یہ ہے کہ بڑائی صرف خالق اکبر کو زیب دیتی ہے مخلوق کے حق میں بڑائی کا رویہ عیب ہے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث قدسی میںارشاد فرمایا:
الکبر ردائی والعظمۃ ازاری فمن نازعنی واحدا منھماقذفتہ فی النار(۵۹)
اور قرآن مجید نے یہود کی تاریخ بیان کرتے ہوئے کہا :
أَفَکُلَّمَا جَاء کُمْ رَسُولٌ بِمَا لاَ تَہْوَی أَنفُسُکُمُ اسْتَکْبَرْتُمْ فَفَرِیْقاً کَذَّبْتُمْ وَفَرِیْقاً تَقْتُلُون(۶۰)
لیکن جب کبھی تمہارے پاس رسول وہ چیز لے کر آیا جو تمہاری طبیعتوں کے خلاف تھی تم نے جھٹ سے تکبر کیا پس بعض کو تو جھٹلا دیا اور بعض کو قتل کر ڈالا ۔
مکالمہ جات میں کوئی بھی فریق تکبر پر مبنی رویے کا مظاہرہ کرتا ہے تو اس کی وجہ سے برابری کا تصور ختم ہوجاتا ہے جس کے بعد مکالمہ جات کا اصل ھدف یعنی مسائل کا حل ناممکن ہو جاتا ہے کہ پھر جابر اور متکبر فریق ہی اپنی بات منوانے کی کوشش کرتا ہے جس سے مذکرات کا عمل بھی تعطل کا شکار ہوجاتاہے
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
۵۔ سچائی و صداقت پر مبنی گفتگو ہو
صداقت اور سچائی کو اسلام نے مسلمان کی پہچان بتایا ہے کہ مسلمان وہ ہے جو سچ بات کرتا ہے اور جھوٹ نہیں بولتااس کی بنیاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
کبرت خیانۃ ان تحدث اخاک حدیثا ھو لک بہ مصدق و انت لہ بہ کاذب (۶۱)
تم اپنے بھائی سے کوئی ایسی بات بیان کرو جس میں وہ تمہیں سچا سمجھ رہا ہو اور تم دراصل جھوٹ کہہ رہے ہو تو یہ شدید گناہ ہے ۔
یعنی جھوٹ بولنا عمومی طور پر بھی بہت بڑا گناہ ہے جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ
ان الصدق یھدی البر وان البر یھدی الی الجنۃوان الکذب یھدی الی الفجور والفجور یہدی الی النار(۶۲)
جھوٹ اپنے بولنے والے کو جھنم کی طرف لے جائے گا جبکہ سچائی اپنے بولنے والے کو جنت تک لے جائے گی لہذا باہمی بات چیت میں فریقین کو سچائی پر مبنی گفتگو کرنی چاہیے جس میں جھوٹ کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔
قرآن مجید نے صراحتا اس کی مذمت بیان کی ہے :
فَمَنْ حَآجَّکَ فِیْہِ مِن بَعْدِ مَا جَاء کَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاء نَا وَأَبْنَاء کُمْ وَنِسَاء نَا وَنِسَاء کُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَۃَ اللّہِ عَلَی الْکَاذِبِیْن(۶۳)
یہ علم آجانے کے بعد اب جوکوئی اس معاملہ میںتم سے جھگڑاکرے تواے محمد ﷺ !اس سے کہو کہ : آئو ہم اورتم خود بھی آجائیں اور اپنے بال بچوں کو بھی لے آئیں اورخداسے دعاکریں کہ جوجھوٹاہواس پر خداکی لعنت ہو۔
اسے آیت مباہلہ کہتے ہیں اس آیت میں نجران سے عیسائیوں کا ایک وفد صلح حدیبیہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عیسی علیہ السلام کے بارے میں آپ ﷺ سے مناظرہ کیا وہ عیسی علیہ السلام کو اللہ تعالی کا بیٹا قرار دیتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دلائل کے ذریعے ثابت کیا کہ عیسی علیہ السلام اللہ کے بندے اور اس کے رسول تھے۔جب ان کا باطل نظریہ پر اصرار حد سے بڑھنے لگا تو اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے ساتھ مباہلہ کا حکم دیا (۶۴) الخ
اس واقعہ کی تفاصیل کتب احادیث اور تفاسیر میں بیان کی گئی ہیں جن سے مکالمہ جات کے فوائد اخذ کیے جاتے ہیںان فوائدمیں اہم ترین فائدہ اظہار حق ہے جس کاتذکرہ سطور سابقہ میں کیا گیا ہے ۔حقائق کے مطابق گفتگو کا ہونا یہ عدل وانصاف کے عین تقاضوں کے مطابق ہے ۔اور اسلام نے حق بات کہنے کا حکم دیا خواہ اس کی زد میں قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ آئے۔اور سچ کہنے کا حکم دیا خواہ وہ کتنا ہی تلخ یا کڑوا کیوں نہ ہو۔
اور مکالمہ جات کے دوران جھوٹ بولنے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ جب وہ جھوٹ سامنے آتا ہے تو پھر اسے چھپانے کے لیے مزید جھوٹ بولنا پڑتا ہے جس سے گفت و شنید کی تاثیر و نتائج ختم ہو جاتے ہیں اوراس شخص پر اعتماد ختم ہو جاتا ہے ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
۶۔ دعوی پر دلیل کا طلب کیا جانا چاہیے
مکالمہ جات کے دوران کوئی بھی فریق کسی مقام پرجودعوی پیش کرتا ہے اس پر لازم ہے کہ اس کی دلیل بیان کرے ۔اسلام نے ایسی ہر بات کی مذمت کی ہے جو بغیر دلیل کے پیش کی گئی ہو۔قرآن مجید نے مختلف مقامات پر اس کی نفی کی ہے جیسا کہ درج ذیل آیات میں بیان کیا گیاہے:
وَقَالُواْ لَن یَدْخُلَ الْجَنَّۃَ إِلاَّ مَن کَانَ ہُوداً أَوْ نَصَارَی تِلْکَ أَمَانِیُّہُمْ قُلْ ہَاتُواْ بُرْہَانَکُمْ إِن کُنتُمْ صَادِقِیْن(۶۵)
یہ کہتے ہیں کہ جنت میں یہود و نصاری کے سوا کوئی نہیں جائے گا یہ صرف ان کی آرزوئیں ہیں ان سے کہو کہ اگر تم سچے ہو تو کوئی دلیل تو پیش کروَ
اہل کتاب کے سے دلیل طلب کی گئی ہے اگر تم اپنے دعوی میں سچے ہو تو دلیل پیش کرو(۶۶) ۔
دنیا کے تمام مذاہب کی قانونی دفعات میں صراحتا یہ بات درج ہے کہ دعوی بغیر دلیل کے ناقابل اعتبار ہے اور شریعت اسلامیہ نے نہ صرف قانونی اعتبار سے بلکہ مجموئی طور پر اس کو لازم کر دیا ہے ۔طلب دلیل اس فساد کی راہ روکنے کے لیے ہے جس میں ہر فریق اپنی من پسندتشریحات پیش کرتا ہے مکالمہ جات میں دلیل کی قید کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ گفتگو مزید کسی مسئلہ کو جنم نہیں دیتی(۶۷)
یَا أَہْلَ الْکِتَابِ لِمَ تُحَآجُّونَ فِیْ إِبْرَاہِیْمَ وَمَا أُنزِلَتِ التَّورَاۃُ وَالإنجِیْلُ إِلاَّ مِن بَعْدِہِ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ ہَاأَنتُمْ ہَؤُلاء حَاجَجْتُمْ فِیْمَا لَکُم بِہِ عِلمٌ فَلِمَ تُحَآجُّونَ فِیْمَا لَیْْسَ لَکُم بِہِ عِلْمٌ وَاللّہُ یَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ مَا کَانَ إِبْرَاہِیْمُ یَہُودِیّاً وَلاَ نَصْرَانِیّاً وَلَکِن کَانَ حَنِیْفاً مُّسْلِماً وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْن(۶۸)
اے اہل کتاب !تم ابراہیم کے بارے میںہم سے کیوں جھگڑاکرتے ہو؟ تورات اورانجیل توابراہیم کے بعد ہی نازل ہوئی ہیں ۔پھر کیاتم اتنی بات بھی نہیں سمجھتے۔ تم لوگ جن چیزوں کاعلم رکھتے ہو ان میں توخوب بحثیں کرچکے ،اب ان معاملات میں کیوں بحث کرنے چلے ہو جن کا تمہارے پاس کچھ بھی علم نہیں ۔اللہ جانتاہے اور تم نہیں جانتے ۔ابراہیم نہ یہودی تھانہ عیسائی ،بلکہ وہ توایک مسلم یکسو تھا اور وہ ہر گز مشرکوں میں سے نہ تھا۔
اس آیت میںاہل کتاب کے اس دعوی بغیر دلیل کی نفی کی جا رہی ہے کہ ابو الانبیاء سید نا ابراہیم علیہ السلام یہودی تھے یا نصرانی تھے قرآن مجید نے ان سے مکالمہ کرتے ہوئے ان کا رد کیا اور کہا کہ جس بات کا تمہیں علم نہیں اس پر جھگڑا کیوں کرتے ہو۔یعنی گفتگو علم کی بنیاد پر ہوگی جیسا کہ اگلے موضوع میں بیان کیا جائے گااوریہ کہ ابراہیم علیہ السلام کا تعلق ان نسبتوں سے کیسے ہو سکتا ہے جو ان کے بعد وجود میں آئی اور یہ کہ یہودیت یا نصرانیت کی نسبتوں کے علاوہ وہ مشرک نہ تھے بلکہ وہ امام الموحدین تھے(۶۹)
إِنَّ الَّذِیْنَ یُجَادِلُونَ فِیْ آیَاتِ اللَّہِ بِغَیْْرِ سُلْطَانٍ أَتَاہُمْ إِن فِیْ صُدُورِہِمْ إِلَّا کِبْرٌ مَّا ہُم بِبَالِغِیْہِ(۷۰)
جو لوگ باوجود اپنے پاس کسی سند کے نہ ہونے کے آیات الہی میں جھگڑ اکرتے ہیں ان کے دلوں میں بجز نری بڑائی کے اور کچھ نہیں وہ اس تک پہنچنے والے ہی نہیں ۔
اس آیت میں وضاحت کی گئی ہے کہ بغیر سند اور دلیل کے بات کرنے میں انہیں ان کے دلوں میں خود ساختہ بڑائی اور تکبر سبب بنتا ہے جس کی قباحت بیان کی جا چکی ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
۷۔ مکالمہ جات کی بنیاد علم پر ہو
مکالمہ جات میں سب سے اہم قاعدہ اور ضابطہ یہ ہے کہ اس کی اساس جہالت پر نہ ہو گی یعنی نہ تو کسی ایسے موضوع پر گفت و شنید ہو گی جس کے بارے میں مکمل علم نہ ہو اور نہ ہی مکالمہ جات کے دوران کوئی ایسی بات کی جائے گی جس کے بارے میں علم نہ ہو۔اسلام نے بغیر علم کے بات کرنے سے سختی سے منع کیا ہے ۔
وَمِنَ النَّاسِ مَن یُجَادِلُ فِیْ اللَّہِ بِغَیْْرِ عِلْمٍ وَیَتَّبِعُ کُلَّ شَیْْطَانٍ مَّرِیْد(۷۱)
بعض لوگ اللہ تعالی کے بارے میںباتیں بناتے ہیں اور وہ بھی بے علمی کے ساتھ اور ہر سرکش شیطان کی پیروی کرتے ہیں
قرآن مجید نے ایسے لوگوں کو شیطان کا پیروکار کہا ہے جو بغیر علم کے بات کرتے ہیں بلکہ انہیں کذاب کے نام سے یاد کیا گیا ہے ۔دو گناہ ایسے ہیں جو انسان کو تباہی کے گھاٹ اتارتے ہیں ایک جھوٹ اور دوسرا جہالت۔جہالت کا خمیازہ انسان کو اس زندگی میں اور اس کے بعد کی زندگی میں بھی بھگتنا پڑے گاکیونکہ یہ جہالت ہی ہے جو اسے ہر خیر سے محروم رکھتی ہے۔ جہالت کی وجہ سے انسان کے اندر حسد و عناد اور تکبر جیسے منفی اور مہلک جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔اس حوالے سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جہالت کا وجود عام زندگی میں اگر ضرر رساں ہے تو ایسے مقام پر تو اس کا ضرر دو چند ہو جاتا ہے جہاں معاشرے میں امن و امان اور سلامتی کے بارے میں ایک سے زائد فریق مکالمہ جات میں مشغول ہوں(۷۲)
اور ایک مقام پر ایسے رویہ کے بارے میں بیان کیا گیا کہ اللہ تعالی اور مؤمنین اسے سخت ناپسند کرتے ہیںجو علم پر مبنی نہ ہو یا جس کا مظہر جہالت اور اس کے متعلقات ہوں
الَّذِیْنَ یُجَادِلُونَ فِیْ آیَاتِ اللَّہِ بِغَیْْرِ سُلْطَانٍ أَتَاہُمْ کَبُرَ مَقْتاً عِندَ اللَّہِ وَعِندَ الَّذِیْنَ آمَنُوا(۷۳)
حقیقت یہ ہے کہ جولوگ کسی سند وحجت کے بغیر جوان کے پاس آئی ہو ،اللہ کی آیات میں جھگڑے کررہے ہیں ان کے دلوں میں کبربھراہواہے،مگر وہ اس بڑائی کو پہنچنے والے نہیں ہیں جس کاوہ گھمنڈرکھتے ہیں ۔بس اللہ کی پناہ مانگ لو،وہ سب کچھ دیکھتااورسنتاہے
 
Top