• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکالمہ ایک منکر حدیث سے قسط نمبر 2

شمولیت
اگست 23، 2012
پیغامات
188
ری ایکشن اسکور
143
پوائنٹ
70
منکر حدیث: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

عام آدمی: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ اھلا وسھلا کیسے ہیں محترم؟

منکر حدیث: جی اللہ کا شکر ہے آپ؟

عام آدمی: الحمدللہ علی کل حال سنیئے کیسے آنا ہوا؟

منکر حدیث: جی میں نے عرض کی تھی کہ تدوین حدیث پر مجھے کچھ اشکالات ہیں۔

عام آدمی: جی فرمایئے

منکر حدیث: دیکھں احادیث تو رسول اللہ ﷺ کے دور میں نہیں لکھیں گئیں پھر ہم اس کو حجت کیسے مان لیں ہوسکتا ہے اس میں تحریف ہوئی ہو۔

عام آدمی: جزاک اللہ خیرا، یہ بتائیں کہ یہ کونسا قاعدہ ہے کہ جو چیز لکھی ہو گی وہ ہی حجت ہوگی۔۔؟

منکر حدیث: جناب آپ میری بات سمجھیں ایک چیز کاایک دور میں وجود ہی نہیں ہے وہ بعد میں لکھی گئی تو وہ تحریف
سے کیسے محفوظ ہوسکتی ہے۔۔؟

عام آدمی: بھائی آپ میری بات کو سمجھیں کیا کسی چیز کا لکھا نہ جانا اس بات کی دلیل ہے کہ اس میں تحریف ہوئی ہے یا وہ تحریف سے خالی نہیں ہے۔۔۔؟؟

منکر حدیث: جی ہمارا کہنا یہ ہی ہے۔

عام آدمی: چلیے آپ کے کہنے سے ہی بات چلا لیتے ہیں۔ کیا قرآن کی کتابت رسول اللہ ﷺ کے دور میں ہوئی تھی؟

منکر حدیث: جی بالکل ہوئی تھی بلکہ چالیس سے زیادہ صحابہ کرام کتابین وحی تھے۔

عام آدمی: جزاکم اللہ خیرا، اگرآپ کے خیال سے کسی چیز کے محفوظ ہونے کا یہ ہی قاعدہ ہے تو پھر میں آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں ۵۵ کے قریب کاتبین حدیث تھے تو آپ کیا کہیں گے کہ اس صورت میں حدیث محفوظ ہے یا نہیں۔۔۔؟

منکر حدیث: نہیں، کیونکہ جب کتابت نہیں ہوئی تو تحریف کی گنجائش موجود ہے اگر ایسے نہیں ہےتو آپ ثابت کریں۔

عام آدمی: مسکراہٹ، ویسے تو میں آپ کے قاعدے سے یہ بات ثابت کر چکا ہوں کہ احادیث کا لکھنا رسول اللہ ﷺ کے دور میں موجود تھا اور آپ ہی کے قاعدے کے مطابق آپ کو مان لینا چاہئے تھا کہ احادیث بھی محفوظ ہیں۔
لیکن چلیئے میں آپ کو ایک اور طرح سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں تاکہ آپ کو واضح ہو جائے کہ کسی چیز کا لکھا جانا اس کی حفاظت پر دلالت نہیں کرتا یہ آپ احادیث سے فرار کا خود ساختہ قاعدہ ہے۔
عام آدمی کاپی منگواتے ہوئے اور اس پر لکھ رہا ہے، ’’کتابچہ‘‘ ایک آدمی کو آواز دی اور اسے کاپی کی طرف اشارہ کرکے سوال کیا ’’یہ کیا لکھا ہوا ہے‘‘ ؟؟
وہ ان پڑھ آدمی غور سے دیکھتا ہے اور کہتا ہے، ’’کتا ۔۔۔۔۔ بچہ‘‘

عام آدمی مسکراتے ہوئے:
محترم یہ کتابچہ ہمیشہ سے لکھا ہوا محفوظ ہے، لیکن یہ صاحب اس کو پھر بھی غلط پڑھ رہے ہیں اگر لکھا ہوا ہی محفوظ ہوتا تو یہ غلط نہ پڑھتے، اب بات کو سمجھنے کی کوشش کریں، بنیادی طور پر لکھا ہونے کا مطلب محفوظ ہونا نہیں ہوتا بلکہ کسی چیز کا ’’حفظ ہونا‘‘ محفوظ ہونا ہوتا ہے، اگر اس آدمی کی میموری میں یہ بات محفوظ ہوتی تو وہ کبھی بھی اس کو غلط نہ پڑھتا۔
اسی طرح احادیث صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو یاد تھیں کیوں یاد تھیں اس کے اسباب اگر اجازت دیں تو ذکر کردوں۔۔؟؟

منکر حدیث: کچھ حیرانگی سے جی فرمایئے:

عام آدمی:

پہلا سبب: خود رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس ہے جوچند نکات کی صورت میں عرض کر رہا ہوں:

v رسول اللہ ﷺ سب سے زیادہ فصیح زبان، واضح بیان رکھنے والے تھے اور اللہ نے آپ کو جوامع الکلم بنا کر بھیجا تھا، مختصر بات میں کئی پہلو چھپے ہوتے تھے،لہذا کم کلمات یاد کرنے سے کئی چیزیں محفوظ ہو جاتی تھیں۔
v آپ ﷺ جب بات کرتے تو کم از کم تین بار دہراتے، یقینا یاد کرنے کی غرض سے ہی یہ کام کیا جاتا تھا۔
v رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام میں ۲۳ سال کا عرصہ گزارا لوگوں کی اصلاح کی۔
v وحی کا رسول اللہ ﷺ پر۲۳ سال کی طویل مدت میں تدرج کے ساتھ نزول اس بات کی واضح دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے منہ سے نکلا ہو ا ’’مفھوم المعنی‘‘ یاد کرنا کس قدر آسان تھا۔
v رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام کو ریاستوں کا امیر و گورنر بنا کر بیھجنا اور وہ صحابہ کرام لوگوں کو صرف قرآن سکھانے نہیں گئے تھے بلکہ رسول اللہ ﷺ کے شب و روز اور اپنے معاملات اس طرز پر حل کرنے کے لیے بھیجے گئے تھے۔
v صحابہ کو تلقین کرتے کہ رسول اللہ ﷺ جو بیان کیا جا رہا ہے وہ لے لو اس پر بہت سی احادیث ملتی ہیں،اور قرآن کی آیت بھی اس بات پر دلیل ہے ، ’’وما آتکم الرسول فخذوہ ومانھکم عنہ فانتھوا‘‘

دوسرا سبب: صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین عادات ہیں جو چند نکات میں حسب ذیل ہیں:

v صحابہ کرام رسول اللہ ﷺ سے تعلیم حاصل کرتے اور پھر اس کو اپنے گھر والوں میں بیان کرتے تھے۔
v اگر ایک صحابی غائب ہوتا تو دوسرا اس کی جگہ مجلس میں شریک ہو کر احادیث سنتا اور دوسرے کو سناتا، وہ عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ اس حوالے سے کافی مشہور ہے۔
v جو چیز مشکل ہوتی اس کے بارے میں سوال کر لیا کرتے تھے۔
v صحابہ کی ایک کثیر تعدا د نے آپ سے علم حاصل کیا۔
v بعض صحابہ کرام آپ ﷺ کے ہر وقت پاس رہتے تھے،جیسے کہ ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ ۔
v صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کتابت حدیث بھی کرتے تھے۔

تیسرا سبب: عربوں کی اجتماعی کیفیت و ثقافت:

v عموما عرب اپنے حفظ پر اعتماد کرتے تھے ناکہ پڑھنے لکھنے پر یہ ہی وجہ ہے کہ ان کو اپنا طویل نسب نامہ یاد ہوتا تھا، ایک ہی مجلس میں بیٹھ کر کئی کئی اشعار و قصیدے پڑھ دیا کرتے تھے۔
v عرب ایک دوسرے تک بات پہنچانے کےلیے اپنی اپنی خاص روایات ذکر کیا کرتے تھے،جیسے بعض شعراءکی اپنی ذاتی روایت ہوتی تھی جس سے وہ لوگوں کو شعر سناتا تھا اور لوگ اس سے لیا گیا کلام اسی کی روایت سے نقل کرتے تھے۔
v دور جاھلیت کے باجود بھی عرب اخلاقی طو رپر جھوٹےاور بددیانت نہیں تھے، اس کی بڑی مثال ابو سفیان کا قیصرکےدربار میں رسول اللہ ﷺ سے دشمنی کے باوجود بھی سچ بولنا ہے۔

عام آدمی: تو محترم یہ وہ چند خصائص ہیں جن پر اگر نظر دوڑائی جائے تو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی کہ رسول اللہ ﷺ کے دور مبارک میں حدیث کس طرح سے محفوظ رہی ہو گی۔

منکر حدیث: جناب رسول اللہ ﷺ نے تو خود احادیث لکھنے سے منع فرمایا ہے اور اس پر میں بیشتر احادیث پیش کر سکتا ہوں، اور دوسری بات اللہ نے احادیث کی حفاظت کا ذمہ تو ہر گز نہیں لیا۔

عام آدمی: پیارے بھائی میں نے آپ کے سامنے وہ دلائل رکھے ہیں جن سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ اگر احادیث نہ بھی لکھی گئی ہوں تو بھی محفوظ ہی ہیں، لیکن اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ بات نہ کافی ہے تو آپ ’’کتابت حدیث ‘‘ سے ممانعت کی احادیث درج کردیں میں ان پر غور و فکر کر لیتا ہوں۔

منکر حدیث: جی اگلی ملاقات میں، میں وہ سب احادیث آپ کے سامنے رکھ دوں گا۔

عام آدمی: ویسے یہ احادیث کا اعجاز ہی کہہ لیں کہ حدیث کا انکار کرنے والے ’’حدیث کے عدم وجود پر‘‘ بھی احادیث سے ہی دلائل دینے کےمحتاج ہوچکےہیں۔ مسکراہٹ۔

منکر حدیث: اگلی ملاقات میں بات ہوتی ہے۔

عام آدمی: جی ان شاءاللہ۔

سبحانک اللھم وبحمدک اشھد ان لا الہ الا انت استغفرک واتوب الیک۔
 
Top