• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد٤- حدیث نمبر٢٤٩١ تا ٣٤٦٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الشرکۃ
باب : بکریوں کا انصاف کے ساتھ تقسیم کرنا

حدیث نمبر: 2500;
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَعْطَاهُ غَنَمًا يَقْسِمُهَا عَلَى صَحَابَتِهِ ضَحَايَا ، فَبَقِيَ عَتُودٌ ، فَذَكَرَهُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : ضَحِّ بِهِ أَنْتَ " .
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ، ان سے یزید بن ابی حبیب نے ، ان سے ابوالخیر نے اور ان سے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بکریاں دی تھیں کہ قربانی کے لیے ان کو صحابہ میں تقسیم کر دیں ۔ پھر ایک سال کا بکری کا بچہ بچ گیا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقبہ سے فرمایا تو اس کی قربانی کر لے ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الشرکۃ
باب : اناج وغیرہ میں شرکت کا بیان

ويذكر أن رجلا ساوم شيئا فغمزه آخر فرأى عمر أن له شركة‏.‏
اور منقول ہے کہ ایک شخص نے کوئی چیز چکائی، دوسرے نے اس کو آنکھ سے اشارہ کیا، تب اس نے مول لے لیا، اس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سمجھ لیا کہ وہ شریک ہے۔

حدیث نمبر: 2501 - 2502;
حَدَّثَنَا أَصْبَغُ بْنُ الْفَرَجِ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي سَعِيدٌ ، عَنْ زُهْرَةَ بْنِ مَعْبَدٍ ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ هِشَامٍ ، وَكَانَ قَدْ أَدْرَكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَذَهَبَتْ بِهِ أُمُّهُ زَيْنَبُ بِنْتُ حُمَيْدٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَتْ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، بَايِعْهُ ، فَقَالَ : هُوَ صَغِيرٌ ، فَمَسَحَ رَأْسَهُ وَدَعَا لَهُ . وَعَنْ زُهْرَةَ بْنِ مَعْبَدٍ ، أَنَّهُ كَانَ يَخْرُجُ بِهِ جَدُّهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ هِشَامٍ إِلَى السُّوقِ فَيَشْتَرِي الطَّعَامَ ، فَيَلْقَاهُ ابْنُ عُمَرَ ، وَابْنُ الزُّبَيْرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، فَيَقُولَانِ لَهُ : أَشْرِكْنَا ، فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ دَعَا لَكَ بِالْبَرَكَةِ ، فَيَشْرَكُهُمْ ، فَرُبَّمَا أَصَابَ الرَّاحِلَةَ كَمَا هِيَ ، فَيَبْعَثُ بِهَا إِلَى الْمَنْزِلِ " .
ہم سے اصبغ بن فرج نے بیان کیا ، کہا کہ مجھے عبداللہ بن وہب نے خبر دی ، کہا مجھے سعید بن ابی ایوب نے خبر دی ، انہیں زہرہ بن معبد نے ، انہیں ان کے دادا عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ نے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پایا تھا ۔ ان کی والدہ زینب بنت حمید رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آپ کو لے کر حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اس سے بیعت لے لیجئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو ابھی بچہ ہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور ان کے لیے دعا کی اور زہرہ بن معبد سے روایت ہے کہ ان کے داد عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ انہیں اپنے ساتھ بازار لے جاتے ۔ وہاں وہ غلہ خریدتے ۔ پھر عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم ان سے ملتے تو وہ کہتے کہ ہمیں بھی اس اناج میں شریک کر لو ۔ کیونکہ آپ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے برکت کی دعا کی ہے ۔ چنانچہ عبداللہ بن ہشام انہیں بھی شریک کر لیتے اور کبھی پورا ایک اونٹ ( مع غلہ ) نفع میں پیدا کر لیتے اور اس کو گھر بھیج دیتے ۔

تشریح : بعضوں نے یوں ترجمہ کیا ہے کہ کبھی ایک اونٹ کے لادنے کے موافق اناج پیدا کرتے۔ ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ ہم کو بھی اس اناج میں شریک کرلو۔ طعام سے کھانے کے غلہ جات گندم، چاول وغیرہ مراد ہیں۔ شرکت میں ان کا کاروبار کرنا بھی جائز ہے۔ جیسا کہ حدیث ہٰذا میں عبداللہ بن ہشام ایک صحابی کا ذکر ہے جن کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بچپن میں دعا فرمائی تھی اور آپ کی دعاؤں کی برکت سے اللہ نے ان کو بہت کچھ نوازا تھا۔ ان کے دادا جب غلہ وغیرہ خریدنے بازار جاتے تو ان کو ساتھ لے لیتے تاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کی برکت شامل حال رہے۔ بعض دفعہ راستے میں حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت عبداللہ بن زبیر مل جاتے تو وہ بھی درخواست کرتے کہ ہم کو بھی اس تجارت میں شریک کرلیجئے تاکہ دعائے نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی برکتوں سے ہم بھی فائدہ حاصل کریں۔ چنانچہ اکثر ایسا ہوا کرتا تھا کہ یہ سب بہت کچھ نفع کما کر واپس لوٹتے۔
اس حدیث پر حافظ صاحب فرماتے ہیں: وفی الحدیث مسح راس الصغیر و ترک مبایعۃ من لم یبلغ والدخول فی السوق لطلب المعاش و طلب البرکۃ حیث کانت والرد علی من زعم ان السعۃ من الحلال مذمومۃ و توقر دواعی الصحابۃ علی احضار اولادھم عندالنبی صلی اللہ علیہ وسلم لالتماس برکتہ و علم من اعلام نبوتہ صلی اللہ علیہ وسلم لا جابۃ دعائہ فی عبداللہ بن ہشام یعنی اس حدیث سے ثابت ہوا کہ چھوٹے بچوں کے سرپر دست شفقت پھیرنا سنت نبوی ہے اور نابالغ بچے سے بیعت نہ لینا بھی ثابت ہوا اور طلب معاش کے لیے بازار جانے کی مشروعیت بھی ثابت ہوئی اور برکت طلب کرنا بھی ثابت ہوا وہ جہاں سے بھی حاصل ہو اور ان لوگوں کی تردید بھی ہوئی جو رزق حلال کی کوشش کو مذموم جانتے ہیں اور یہ بھی ثابت ہوا کہ بیشتر صحابہ کرام برکت حاصل کرنے کے لیے اپنی اولاد کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں لایا کرتے تھے تاکہ آپ کی دعائیں ان بچوں کے شامل حال ہوں اور حضرت عبداللہ بن ہشام کے حق میں دعائے نبوی کی جو برکات حاصل ہوئیں یہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی نشانیوں میں سے اہم نشانیاں ہیں۔

ایسا ہی واقعہ عروہ بارقی رضی اللہ عنہ کا ہے جو بازار میں جاتے اور کبھی تو چالیس چالیس ہزار کا نفع کما کر بازار سے واپس لوٹتے جو سب کچھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کی برکت تھی۔ آپ نے ایک دفعہ ان کو ایک دینار دے کر قربانی کا جانور خریدنے بھیجا تھا اور یہ اس ایک دینار کی دو قربانیاں خرید کر لائے اور راستے میں ہی ان میں سے ایک کو فروخت کرکے دینار واپس حاصل کرلیا۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں قربانی کا جانور پیش کیااور نفع میں حاصل ہونے والا دینار بھی اور ساتھ میں تفصیلی واقعہ سنایا جسے سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بے حد خوش ہوئے اور ان کے کاروبار میں برکت کی دعا فرمائی۔
علامہ قسطلانی فرماتے ہیں: ومطابقۃ الحدیث للترجمۃ فی قولہ اشرکنا لکونہماطلبا منہ الاشتراک فی الطعام الذی اشتراہ فاجابہما الی ذٰلک وہم من الصحابۃ و لم ینقل عن غیرہم مایخالف ذالک فیکون حجۃ والجمہور علی صحۃ الشرکۃ فی کل مایتملک ( قسطلانی ) ! یعنی حدیث کی باب میں مطابقت لفظ اشرکنا سے ہے۔ ان ہر دو بزرگ صحابیوں نے ان سے اس خرید کردہ غلہ میں شرکت کا سوال کیا اور انہوں نے ہردو کی اس درخواست کو قبول کیا۔ وہ سب اصحاب نبوی تھے اور کسی سے بھی اس کی مخالفت منقول نہیں ہوئی۔ پس یہ حجت ہے اور جمہور ہر اس چیز میں شرکت کے جواز کے قائل ہیں جو چیز ملکیت میں آسکتی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الشرکۃ
باب : غلام لونڈی میں شرکت کا بیان

حدیث نمبر: 2503;
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ بْنُ أَسْمَاءَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " مَنْ أَعْتَقَ شِرْكًا لَهُ فِي مَمْلُوكٍ وَجَبَ عَلَيْهِ أَنْ يُعْتِقَ كُلَّهُ ، إِنْ كَانَ لَهُ مَالٌ قَدْرَ ثَمَنِهِ يُقَامُ قِيمَةَ عَدْلٍ ، وَيُعْطَى شُرَكَاؤُهُ حِصَّتَهُمْ ، وَيُخَلَّى سَبِيلُ الْمُعْتَقِ " .
ہم سے مسدد نے بیان کیا ، کہا ہم سے جویریہ بن اسماء نے بیان کیا ، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی ساجھے کے غلام کا اپنا حصہ آزاد کر دیا تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اگر غلام کی انصاف کے موافق قیمت کے برابر اس کے پاس مال ہو تو وہ سارا غلام آزاد کرا دے ۔ اس طرح دوسرے ساجھیوں کو ان کے حصے کی قیمت ادا کر دی جائے اور اس آزاد کیے ہوئے غلام کا پیچھا چھوڑ دیا جائے ۔

حدیث نمبر: 2504;
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنِ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " مَنْ أَعْتَقَ شِقْصًا لَهُ فِي عَبْدٍ أُعْتِقَ كُلُّهُ إِنْ كَانَ لَهُ مَالٌ ، وَإِلَّا يُسْتَسْعَ غَيْرَ مَشْقُوقٍ عَلَيْهِ " .
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا ، کہا ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا ، ان سے قتادہ نے ، ان سے نضر بن انس نے ، ان سے بشیر بن نہیک نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی ( ساجھے کے ) غلام کا اپنا حصہ آزاد کر دیا تو اگر اس کے پاس مال ہے تو پورا غلام آزاد ہو جائے گا ۔ ورنہ باقی حصوں کو آزاد کرانے کے لیے اس سے محنت مزدوری کرائی جائے ۔ لیکن اس سلسلے میں اس پر کوئی دباو نہ ڈالا جائے ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الشرکۃ
باب : قربانی کے جانوروں اور اونٹوں میں شرکت اور اگر کوئی مکہ کو قربانی بھیج چکے پھر اس میں کسی کو شریک کرلے تو جائز ہے

حدیث نمبر: 2505 - 2506;
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ جُرَيْجٍ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ جَابِرٍ ، وَعَنْ طَاوُسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ ، قَالَ : قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ صُبْحَ رَابِعَةٍ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ مُهِلِّينَ بِالْحَجِّ لَا يَخْلِطُهُمْ شَيْءٌ ، فَلَمَّا قَدِمْنَا أَمَرَنَا فَجَعَلْنَاهَا عُمْرَةً ، وَأَنْ نَحِلَّ إِلَى نِسَائِنَا فَفَشَتْ فِي ذَلِكَ الْقَالَةُ ، قَالَ عَطَاءٌ : فَقَالَ جَابِرٌ : فَيَرُوحُ أَحَدُنَا إِلَى مِنًى ، وَذَكَرُهُ يَقْطُرُ مَنِيًّا ، فَقَالَ جَابِرٌ بِكَفِّهِ : فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَامَ خَطِيبًا ، فَقَالَ : بَلَغَنِي أَنَّ أَقْوَامًا يَقُولُونَ كَذَا وَكَذَا ، وَاللَّهِ لَأَنَا أَبَرُّ وَأَتْقَى لِلَّهِ مِنْهُمْ ، وَلَوْ أَنِّي اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ مَا أَهْدَيْتُ ، وَلَوْلَا أَنَّ مَعِي الْهَدْيَ لأَحْلَلْتُ ، فَقَامَ سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، هِيَ لَنَا أَوْ لِلْأَبَدِ ، فَقَالَ : لَا ، بَلْ لِلْأَبَدِ ، قَالَ : وَجَاءَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا : يَقُولُ لَبَّيْكَ بِمَا أَهَلَّ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَقَالَ : وَقَالَ الْآخَرُ : لَبَّيْكَ بِحَجَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُقِيمَ عَلَى إِحْرَامِهِ ، وَأَشْرَكَهُ فِي الْهَدْيِ .
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا ، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ، انہیں عبدالملک بن جریج نے خبر دی ، انہیں عطاء نے اور انہیں جابر رضی اللہ عنہ نے اور ( ابن جریج اسی حدیث کی دوسری روایت ) طاؤس سے کرتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چوتھی ذی الحجہ کی صبح کو حج کا تلبیہ کہتے ہوئے جس کے ساتھ کوئی اور چیز ( عمرہ ) نہ ملاتے ہوئے ( مکہ میں ) داخل ہوئے ۔ جب ہم مکہ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ہم نے اپنے حج کو عمرہ کر ڈالا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ ( عمرہ کے افعال ادا کرنے کے بعد حج کے احرام تک ) ہماری بیویاں ہمارے لیے حلال رہیں گی ۔ اس پر لوگوں میں چرچا ہونے لگا ۔ عطاء نے بیان کیا کہ جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کچھ لوگ کہنے لگے کیا ہم میں سے کوئی منیٰ اس طرح جائے کہ منی اس کے ذکر سے ٹپک رہی ہو ۔ جابر نے ہاتھ سے اشارہ بھی کیا ۔ یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کھڑے ہوئے اور فرمایا مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض لوگ اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں ۔ اللہ کی قسم میں ان لوگوں سے زیادہ نیک اور اللہ سے ڈرنے والا ہوں ۔ اگر مجھے وہ بات پہلے ہی معلوم ہوتی جو اب معلوم ہوئی ہے تو میں قربانی کے جانور اپنے ساتھ نہ لاتا اور اگر میرے ساتھ قربانی کے جانور نہ ہوتے تو میں بھی احرام کھول دیتا ۔ اس پر سراقہ بن مالک بن جعشم کھڑے ہوئے اور کہا یا رسول اللہ ! کیا یہ حکم ( حج کے ایام میں عمرہ ) خاص ہمارے ہی لیے ہے یا ہمیشہ کے لیے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں بلکہ ہمیشہ کے لیے ہے ۔ جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ( یمن سے ) آئے ۔ اب عطاء اور طاؤس میں سے ایک تو یوں کہتا ہے علی رضی اللہ عنہ نے احرام کے وقت یوں کہا تھا ۔ «لبيك بما أهل به رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏» اور دوسرا یوں کہتا ہے کہ انہوں نے «لبيك بحجة رسول الله صلى الله عليه وسلم» کہا تھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے احرام پر قائم رہیں ( جیسا بھی انہوں نے باندھا ہے ) اور انہیں اپنی قربانی میں شریک کر لیا ۔

اسی سے باب کا مضمون ثابت ہوا۔ سند میں ابن جریج کا اس حدیث کو عطاءاور طاؤس دونوں سے سننا مذکور ہے۔ حافظ نے کہا میرے نزدیک تو طاؤس سے روایت منقطع ہے کیوں کہ ابن جریج نے مجاہد اور عکرمہ سے نہیں سنا اور طاؤس ان ہی کے ہم عصر ہیں، البتہ عطا سے سنا ہے کیوں کہ عطاءان لوگوں کے دس برس بعد ہوئے تھے۔ ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ سے قربانی کے لیے63 اونٹ لیے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن سے 37 اونٹ لائے۔ جملہ سو اونٹ ہوئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ کو ان اونٹوں میں شریک کرلیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الشرکۃ
باب : تقسیم میں ایک اونٹ کو دس بکریوں کے برابرسمجھنا

حدیث نمبر: 2507;
حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ ، أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ ، عَنْ جَدِّهِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : " كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذِي الْحُلَيْفَةِ مِنْ تِهَامَةَ ، فَأَصَبْنَا غَنَمًا وَإِبِلًا ، فَعَجِلَ الْقَوْمُ ، فَأَغْلَوْا بِهَا الْقُدُورَ ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَ بِهَا فَأُكْفِئَتْ ، ثُمَّ عَدَلَ عَشْرًا مِنَ الْغَنَمِ بِجَزُورٍ ، ثُمَّ إِنَّ بَعِيرًا نَدَّ وَلَيْسَ فِي الْقَوْمِ إِلَّا خَيْلٌ يَسِيرَةٌ ، فَرَمَاهُ رَجُلٌ فَحَبَسَهُ بِسَهْمٍ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ لِهَذِهِ الْبَهَائِمِ أَوَابِدَ كَأَوَابِدِ الْوَحْشِ ، فَمَا غَلَبَكُمْ مِنْهَا فَاصْنَعُوا بِهِ هَكَذَا ، قَالَ : قَالَ جَدِّي : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنَّا نَرْجُو أَوْ نَخَافُ أَنْ نَلْقَى الْعَدُوَّ غَدًا وَلَيْسَ مَعَنَا مُدًى ، فَنَذْبَحُ بِالْقَصَبِ ؟ فَقَالَ : اعْجَلْ أَوْ أَرْنِي مَا أَنْهَرَ الدَّمَ ، وَذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ ، فَكُلُوا لَيْسَ السِّنَّ وَالظُّفُرَ ، وَسَأُحَدِّثُكُمْ عَنْ ذَلِكَ ، أَمَّا السِّنُّ فَعَظْمٌ ، وَأَمَّا الظُّفُرُ فَمُدَى الْحَبَشَةِ " .
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا ، کہا کہ ہم کو وکیع نے خبر دی ، انہیں سفیان ثوری نے ، انہیں ان کے والد سعید بن مسروق نے ، انہیں عبایہ بن رفاعہ نے اور ان سے ان کے دادا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تہامہ کے مقام ذوالحلیفہ میں تھے ( غنیمت میں ) ہمیں بکریاں اور اونٹ ملے تھے ۔ بعض لوگوں نے جلدی کی اور ( جانور ذبح کر کے ) گوشت کو ہانڈیوں میں چڑھا دیا ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے گوشت کی ہانڈیوں کو الٹ دیا گیا ۔ پھر ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقسیم میں ) دس بکریوں کا ایک اونٹ کے برابر حصہ رکھا ۔ ایک اونٹ بھاگ کھڑا ہوا ۔ قوم کے پاس گھوڑوں کی کمی تھی ۔ ایک شخص نے اونٹ کو تیر مار کر روک لیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان جانوروں میں بھی جنگی جانوروں کی طرح وحشت ہوتی ہے ۔ اس لیے جب تک ان کو نہ پکڑ سکو تو تم ان کے ساتھ ہی ایسا سلوک کیا کرو ۔ عبایہ نے بیان کیا کہ میرے دادا نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ! ہمیں امید ہے یا خطرہ ہے کہ کہیں کل دشمن سے مڈبھیڑ نہ ہو جائے اور چھری ہمارے ساتھ نہیں ہے ۔ کیا دھار دار لکڑی سے ہم ذبح کر سکتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، لیکن ذبح کرنے میں جلدی کرو ۔ جو چیز خون بہا دے ( اسی سے کاٹ ڈالو ) اگر اس پر اللہ کا نام لیا جائے تو اس کو کھاؤ اور ناخن اور دانت سے ذبح نہ کرو ۔ اس کی وجہ میں بتلاتا ہوں دانت تو ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھریاں ہیں ۔

راوی کو شبہ ہے کہ آپ نے لفظ اعجل فرمایا، یا لفظ ارن فرمایا۔ خطابی نے کہا کہ لفظ ارن اصل میں اءرن تھا جوارن یارنسے ہے اور جس کے معنی بھی اعجل یعنی جلدی کرنے کے ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب الرھن


صحیح بخاری -> کتاب الرھن
(کتاب رہن کے بیان میں)
بسم اللہ الرحمن الرحیم

تشریح : رہن کے معنی ثبوت یا رکنا اور اصطلاح شرع میں رہن کہتے ہیں قرض کے بدل کوئی چیز رکھوادینے کو مضبوطی کے لیے کہ اگر قرض ادا نہ ہو تو مرتہن اس چیز سے اپنا قرض وصول کرلے۔ جو شخص رہن کی چیز کا مالک ہو اس کو راہن اور جس کے پاس رکھا جائے اس کو مرتہن اور اس چیز کو مرہون کہتے ہیں۔

رہن کے لغوی معنی گروی رکھنا، روک رکھنا، اقامت کرنا، ہمیشہ رہنا۔ مصدر ارہان کے معنی گروی کرنا۔ قرآن مجید کی آیت کل نفس بما کسبت رھین ( المدثر: 38 ) میں گروی مراد ہے۔ یعنی ہر نفس اپنے اعمال کے بدلے میں اپنے آپ کو گروی کرچکا ہے۔ حدیث نبوی کل غلام رہینۃ بعقیقتہمیں بھی گروی مراد ہے۔ ہر بچہ اپنے عقیقہ کے ہاتھ میں گروی ہے۔ بعض نے کہا کہ مراد اس سے یہ ہے کہ جس بچے کا عقیقہ نہ ہوا اور وہ مرگیا تو وہ اپنے والدین کی سفارش نہیں کرے گا۔ بعض نے عقیقہ ہونے تک بچے کا بالوں کی گندگی وغیرہ میں مبتلا رہنا مراد لیا ہے۔

مجتہد مطلق حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے مطابق رہن کے جواز کے لیے آیت قرآنی سے استشہاد فرمایا۔ پھر سفر کی خصوصیت کا شبہ پیدا ہورہا تھا کہ رہن صرف سفر سے متعلق ہے، اس لیے لفظ ” حضر “ کا بھی اضافہ فرماکر اس شبہ کو رد کیا اور حضر میں رہن کا ثبوت حدیث نبوی سے پیش فرمایا جو کہ آگے مذکور ہے۔ جس میں یہودی کے ہاں آپ نے اپنی زرہ مبارک گروی رکھی۔ اس کا نام ابوشحم تھا اور یہ بنوظفر سے تعلق رکھتا تھا جو قبیلہ خزرج کی ایک شاخ کا نام ہے۔


باب : آدمی اپنی بستی میں ہو اور گروی رکھے

وقوله تعالى ‏{‏وإن كنتم على سفر ولم تجدوا كاتبا فرهان مقبوضة‏}‏‏.‏
اور اللہ پاک نے سورۃ بقرہ میں فرمایا اگر تم سفر میں ہو اور کوئی لکھنے والا نہ ملے تو رہن قبضہ میں رکھ لو

یہ باب لاکر حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ بتلایا کہ قرآن شریف میں جو یہ قید ہے و ان کنتم علي سفر ( البقرۃ: 283 ) یہ قید اتفاقی ہے اس لیے کہ اکثر سفر میں گروی کی ضرورت پڑتی ہے اور اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حضر میں گروی رکھنا درست نہیں۔

حدیث نمبر: 2508;
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : " وَلَقَدْ رَهَنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دِرْعَهُ بِشَعِيرٍ ، وَمَشَيْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخُبْزِ شَعِيرٍ وَإِهَالَةٍ سَنِخَةٍ ، وَلَقَدْ سَمِعْتُهُ ، يَقُولُ : مَا أَصْبَحَ لِآلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا صَاعٌ ، وَلَا أَمْسَى ، وَإِنَّهُمْ لَتِسْعَةُ أَبْيَاتٍ " .
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا ، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا ، اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زرہ جَو کے بدلے گروی رکھی تھی ۔ ایک دن میں خود آپ کے پاس جَو کی روٹی اور باسی چربی لے کر حاضر ہوا تھا ۔ میں نے خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ آل محمد پر کوئی صبح اور کوئی شام ایسی نہیں آئی کہ ایک صاع سے زیادہ کچھ اور موجود رہا ہو ، حالانکہ آپ کے نو گھر تھے ۔

تشریح : یہ آپ نے اپنا واقعہ بیان فرمایا، دوسرے مومنین کو تسلی دینے کے لیے نہ کہ بطور شکوہ اور شکایت کے۔ اہل اللہ تو فقر اور فاقہ پر ایسی خوشی کرتے ہیں جو غنا اور تونگری پر نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ فقر اور فاقہ اور دکھ اور بیماری خالص محبوب یعنی خداوند کریم کی مراد ہے اور غنا اور تونگری میں بندے کی مراد بھی شریک ہوتی ہے۔

حضرت سلطان المشائخ نظام الدین اولیاءقدس سرہ سے منقول ہے۔ جب وہ اپنے گھر میں جاتے اور والدہ سے پوچھتے کچھ کھانے کو ہے؟ وہ کہتی ” بابا نظام الدین ماامروز مہمان خدائیم “ تو بے حد خوشی کرتے اور جس دن وہ کہتی کہ ” ہاں! کھانا حاضر ہے “ تو کچھ خوشی نہ ہوتی۔ ( وحیدی )

حافظ صاحب فرماتے ہیں: وفی الحدیث جواز معاملۃ الکفار فیما لم یتحقق تحریم عین المتعامل فیہ و عدم الاعتبار بفساد معتقدہم و معاملاتہم فیما بینہم واستنبط منہ جواز معاملۃ من اکثر مالہ حرام و فیہ جواز بیع السلاح رہنہ واجارتہ و غیر ذلک من الکافر مالم یکن حربیا وفیہ ثبوت املاک اہل الذمۃ فی ایدیہم وجواز الشراءبالثمن الموجل و اتخاذ الدروع والعدد و غیرہا من آلات الحرب وانہ غیرقادر فی التوکل وان قینۃ آلۃ الحرب لاتدل علی تحبیسہا قالہ ابن المنیر و انا اکثر قوت ذلک العصر الشعیر قالہ الداودی وان القول قول المرتہن فی قیمۃ المرہون مع یمینہ حکاہ ابن التین و فیہ ماکان علیہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم من التواضع والزہد فی الدنیا والتقلل منہا مع قدرتہ علیہا والکرم الذی افضی بہ الی عدم الادخار حتی احتاج الی رہن درعہ والصبر علی ضیق العیش والقناعۃ بالیسیر و فضیلۃ لازواجۃ لصبرہن معہ علی ذٰلک و فیہ غیر ذٰلک مما مضی ویاتی۔

قال العلماءالحکمۃ فی عدولہ صلی اﷲ علیہ وسلم عن معاملۃ میاسیرا الصحابۃ الی معاملۃ الیہود اما لبیان الجواز اولانہم لم یکن عندہم اذ ذاک طعام فاضل عن حاجۃ غیرہم اوخشی انہم لا یاخذون منہ ثمنا او عوضا فلم یرد التضییق علیہم فانہ لا یبعد ان یکون فیہم اذ ذاک من یقدر علی ذٰلک و اکثر منہ فلعلہ لم یطلعہم علی ذٰلک و انما اطلع علیہ من لم یکن موسرابہ ممن نقل ذٰلک و اﷲ اعلم ( فتح الباری )

یعنی اس حدیث سے کفار کے ساتھ ایسی چیزوں میں جن کی حرمت متحقق نہ ہو، معاملہ کرنے کا جواز ثابت ہوا اس بارے میں ان کے معتقدات اور باہمی معاملات کے بگاڑ کا اعتبار نہیں کیا جائے گا اور اس سے ان کے ساتھ بھی معاملہ کا جواز ثابت ہوا جن کے مالک کا اکثر حصہ حرام سے تعلق رکھتا ہے اور اس سے کافر کے ہاتھ ہتھیاروں کا رہن رکھناو بیچنا ثابت ہوا جب تک وہ حربی نہ ہو اور اس سے ذمیوں کے املاک کا بھی ثبوت ہوا جو ان کے قابو میں ہوں اور اس سے ادھار قیمت پر خرید کرنا بھی ثابت ہوا اور زرہ وغیرہ آلات حرب کا تیار کرنا بھی ثابت ہوا، اور یہ کہ اس قسم کی تیاریاں تو کل کے منافی نہیں ہیں اور یہ کہ آلات حرب کا ذخیرہ جمع کرنا ان کے روکنے پر دلالت نہیں کرتا۔

اور یہ بھی ثابت ہوا کہ اس زمانہ میں زیادہ تر کھانے میں جو کا رواج تھا۔ اور یہ بھی ثابت ہوا کہ شئے مرہونہ کے بارے میں قسم کے ساتھ مرتہن کا قول ہی معتبر مانا جائے گا اور اس حدیث سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زہد و توکل بھی بدرجہ اتم ثابت ہوا۔ حالانکہ آپ کو ہر قسم کی آسانیاں بہم تھیں۔ ان کے باوجود آپ نے دنیا میں ہمیشہ کمی ہی کو محبوب رکھا اور آپ کا کرم و سخا اور عدم ذخیرہ اندوزی بھی ثابت ہوا۔ جس کے نتیجہ میں آپ کو مجبوراً اپنی زرہ کو رہن رکھنا ضروری ہوا اور آپ کا صبر بھی ثابت ہوا جو آپ تنگی معاش میں فرمایا کرتے تھے اورکم سے کم پر آپ کا قناعت کرنا بھی ثابت ہوا اور آپ کی بیویوں کی بھی فضیلت ثابت ہوئی جو وہ آپ کے ساتھ کرتی تھیں اور اس بارے میں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کے بجائے یہودیوں سے ادھار کا معاملہ کیوں فرمایا؟ علماءنے ایک حکمت بیان کی ہے کہ آپ نے یہ معاملہ جواز کے اظہار کے لیے فرمایا، یا اس لیے کہ ان دنوں صحابہ کرام کے پاس فاضل غلہ نہ تھا۔ لہٰذا مجبوراً یہود سے آپ کو معاملہ کرنا پڑا۔ یا اس لیے بھی کہ آپ جانتے تھے کہ صحابہ کرام بجائے ادھار معاملہ کرنے کے بلا قیمت ہی وہ غلہ آپ کے گھر بھیج دیں گے اور خواہ مخواہ ان کو تنگ ہونا پڑے گا، اس لیے خاموشی سے آپ نے یہود سے ہی کام چلالیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الرھن
باب : زرہ کو گروی رکھنا

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، قَالَ : تَذَاكَرْنَا عِنْدَ إِبْرَاهِيمَ الرَّهْنَ وَالْقَبِيلَ فِي السَّلَفِ ، فَقَالَ إِبْرَاهِيمُ : حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " اشْتَرَى مِنْ يَهُودِيٍّ طَعَامًا إِلَى أَجَلٍ ، وَرَهَنَهُ دِرْعَهُ " .
ہم سے مسدد نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا کہ ہم نے ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے یہاں قرض میں رہن اور ضامن کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ ہم سے اسود نے بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سے غلہ خریدا ایک مقررہ مدت کے قرض پر اور اپنی زرہ اس کے ہاں گروی رکھی تھی ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الرھن
باب : ہتھیار گروی رکھنا

حدیث نمبر: 2510;
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ عَمْرٌو : سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، يَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ لِكَعْبِ بْنِ الْأَشْرَفِ ، فَإِنَّهُ قَدْ آذَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ فَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ : أَنَا ، فَأَتَاهُ ، فَقَالَ : أَرَدْنَا أَنْ تُسْلِفَنَا وَسْقًا أَوْ وَسْقَيْنِ ، فَقَالَ : ارْهَنُونِي نِسَاءَكُمْ ، قَالُوا : كَيْفَ نَرْهَنُكَ نِسَاءَنَا وَأَنْتَ أَجْمَلُ الْعَرَبِ ؟ قَالَ : فَارْهَنُونِي أَبْنَاءَكُمْ ، قَالُوا : كَيْفَ نَرْهَنُ أَبْنَاءَنَا فَيُسَبُّ أَحَدُهُمْ ؟ فَيُقَالُ : رُهِنَ بِوَسْقٍ أَوْ وَسْقَيْنِ هَذَا عَارٌ عَلَيْنَا ، وَلَكِنَّا نَرْهَنُكَ الَّأْمَةَ " . قَالَ سُفْيَانُ : يَعْنِي السِّلَاحَ ، فَوَعَدَهُ أَنْ يَأْتِيَهُ فَقَتَلُوهُ ، ثُمَّ أَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرُوهُ .
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا کہ عمرو بن دینار نے بیان کیا کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا وہ کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کعب بن اشرف ( یہودی اسلام کا پکا دشمن ) کا کام کون تمام کرے گا کہ اس نے اللہ اور اس کے رسول کو بہت تکلیف دے رکھی ہے ۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں ( یہ خدمت انجام دوں گا ) چنانچہ وہ اس کے پاس گئے اور کہا کہ ایک یا دو وسق غلہ قرض لینے کے ارادے سے آیا ہوں ۔ کعب نے کہا لیکن تمہیں اپنی بیویوں کو میرے یہاں گروی رکھنا ہو گا ۔ محمد بن مسلمہ اور اس کے ساتھیوں نے کہا کہ ہم اپنی بیویوں کو تمہارے پاس کس طرح گروی رکھ سکتے ہیں جب کہ تم سارے عرب میں خوبصورت ہو ۔ اس نے کہا کہ پھر اپنی اولاد گروی رکھ دو ۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنی اولاد کس طرح رہن رکھ سکتے ہیں اسی پر انہیں گالی دی جایا کرے گی کہ ایک دو وسق غلے کے لیے رہن رکھ دیے گئے تھے تو ہمارے لیے بڑی شرم کی بات ہو گی ۔ البتہ ہم اپنے ہتھیار تمہارے یہاں رہن رکھ سکتے ہیں ۔ سفیان نے کہا کہ لفظ «لأمة» سے مراد ہتھیار ہیں ۔ پھر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اس سے دوبارہ ملنے کا وعدہ کر کے ( چلے آئے اور رات کو اس کے یہاں پہنچ کر ) اسے قتل کر دیا ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی ۔

تشریح : کعب بن اشرف مدینہ کا سرمایہ دار یہودی تھا۔ اسلام آنے سے اس کو اپنے سرمایہ دارانہ وقار کے لیے ایک بڑا دھچکا محسوس ہوا اور یہ شب و روز اسلام کی بیخ کنی کے لیے تدابیر سوچتا رہتا تھا۔ بدر میں جو کافر مارے گئے تھے ان کا نوحہ کرکے کفار مکہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑنے کے لیے ابھارتا رہتا اور آپ کی شان میں ہجو اور تنقیص کے اشعار گھڑتا۔ اس ناپاک مشن پر وہ ایک دفعہ جنگ بدر کے بعد مکہ بھی گیا تھا۔ آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ناشائستہ حرکات سے تنگ آکر اس کا مسئلہ مجمع صحابہ میں رکھا جس پر حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ کو پیش کیا۔ انہوں نے آپ سے اجازت لی کہ میں اس کے پاس جاکر آپ کے بارے میں جو کچھ مناسب ہوگا، اس کے سامنے کہوں گا۔ اس کی اجازت دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی تو حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کعب کے رضائی بھائی ابونائلہ کو ساتھ لے کر رات کو اس کے پاس گئے۔ اس نے قلعہ کے اندر بلالیا اور جب ان کے پاس جانے لگا تو اس کی عورت نے منع کیا، وہ بولا کوئی غیر نہیں ہے۔ محمد بن مسلمہ ہے اور میرابھائی ابونائلہ محمد بن مسلمہ کے ساتھ ہے اور بھی دو یا تین شخص تھے۔ ابوعبس بن جبر، حارث بن اوس، عباد بن بشر۔

محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں کعب کے بال سونگھنے کے بہانے اس کا سرتھاموں گا۔ تم اس وقت جب دیکھو کہ میں سر کو مضبوط تھامے ہوا ہوں، اس کا سر تلوار سے قلم کردینا۔ پھر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ جب کعب کے پاس آئے تو، یہی کہا کہ اے کعب! میں نے تمہارے سر جیسی خوشبو تمام عمر میں نہیں سونگھی۔ وہ کہنے لگا کہ میرے پاس ایک عورت ہے جو عرب کی ساری عورتوں سے زیادہ معطر ہے اور خوشبودار رہتی ہے۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اس کا سر سونگھنے کی اجازت مانگی اور کعب کے سر کو مضبوط تھام کر اپنے ساتھیوں کو اشارہ کردیا۔ انہوں نے تلوار سے سر اڑا دیا اور لوٹ کر دربار رسالت میں یہ بشارت پیش کی۔ آپ بہت خوش ہوئے اور ان مجاہدین اسلام کے حق میں دعائے خیر فرمائی۔
حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوعبداللہ انصاری ہے اور یہ بدر میں شریک ہونے والوں میں سے ہیں۔ کعب بن اشرف کے قتل کی ایک وجہ یہ بھی بتلائی گئی ہے کہ اس نے اپنا عہد توڑ دیا تھا۔ اس طور پر وہ ملک کا غدار بن گیا اور بار بار غداری کی حرکات کرتا رہا۔ لہٰذا اس کی آخری سزا یہی تھی جو اسے دی گئی۔
حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کعب کے ہاں ہتھیار رہن رکھنے کا ذکر فرمایا۔ اسی سے باب کا مطلب ثابت ہوا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الرھن
باب : گروی جانور پر سواری کرنا اس کا دودھ پینا درست ہے

وقال مغيرة عن إبراهيم تركب الضالة بقدر علفها، وتحلب بقدر علفها، والرهن مثله‏.
اور مغیرہ نے بیان کیا اور ان سے ابراہیم نخعی نے کہ گم ہونے والے جانور پر ( اگر وہ کسی کومل جائے تو ) اس پر چارہ دینے کے بدلے سواری کی جائے ( اگر وہ سواری کا جانور ہے ) اور ( چارے کے مطابق ) اس کا دودھ بھی دوہا جائے ( اگر وہ دودھ دینے کے قابل ہے ) ایسے ہی گروی جانور پر بھی۔

حدیث نمبر : 2511
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ : "الرَّهْنُ يُرْكَبُ بِنَفَقَتِهِ ، وَيُشْرَبُ لَبَنُ الدَّرِّ إِذَا كَانَ مَرْهُونًا " . ہم سے ابونعیم نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے زکریا بن ابی زائدہ نے بیان کیا ، ان سے عامر شعبی نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا گروی جانور پر اس کا خرچ نکالنے کے لیے سواری کی جائے ، دودھ والا جانور گروی ہو تو اس کا دودھ پیا جائے ۔

حدیث نمبر : 2512
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّاءُ ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الرَّهْنُ يُرْكَبُ بِنَفَقَتِهِ إِذَا كَانَ مَرْهُونًا ، وَلَبَنُ الدَّرِّ يُشْرَبُ بِنَفَقَتِهِ إِذَا كَانَ مَرْهُونًا ، وَعَلَى الَّذِي يَرْكَبُ وَيَشْرَبُ النَّفَقَةُ " .
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا ، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ، انہیں زکریا نے خبر دی ، انہیں شعبی نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، گروی جانور پر اس کے خرچ کے بدل سواری کی جائے ۔ اسی طرح دودھ والے جانور کا جب وہ گروی ہو تو خرچ کے بدل اس کا دودھ پیا جائے اور جو کوئی سواری کرے یا دودھ پئے وہی اس کا خرچ اٹھائے ۔

تشریح : شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ، امام ابن قیم رحمہ اللہ اور اصحاب حدیث کا مذہب یہی ہے کہ مرتہن شئی مرہونہ سے نفع اٹھاسکتا ہے۔ جب اس کی درستی اور اصلاح کی خبرگیری کرتا رہے۔ گو مالک نے اس کو اجازت نہ دی ہو اور جمہور فقہاءنے اس کے خلاف کہا ہے کہ مرتہن کو شی مرہونہ سے کوئی فائدہ اٹھانا درست نہیں۔ اہل حدیث کے مذہب پر مرتہن کو مکان مرہونہ بعوض اس کی حفاظت اور صفائی وغیرہ کے رہنا، اسی طرح غلام لونڈی سے بعوض ان کے نان اور پارچہ کے خدمت لینا درست ہوگا۔ جمہور فقہاءاس حدیث سے دلیل لیتے ہیں کہ جس میں قرض سے کچھ فائدہ حاصل کیا جائے وہ سود ہے۔ اہل حدیث کہتے ہیں کہ اول تو یہ حدیث ضعیف ہے، اس صحیح حدیث کے معارضہ کے لائق نہیں۔ دوسرے اس حدیث میں مراد وہ قرضہ ہے جو بلا گروی کے بطور قرض حسنہ ہو۔ طحاوی نے اپنے مذہب کی تائید کے لیے اس حدیث میں یہ تاویل کی ہے کہ مراد یہ ہے کہ راہن اس پر سواری کرے اور اس کا دودھ پیے اور وہی اس کا دانہ چارہ کرے۔

اور ہم کہتے ہیں کہ یہ تاویل ظاہر کے خلاف ہے کیوں کہ مرہونہ جانور مرتہن کے قبضہ میں اور حراست میں رہتا ہے نہ کہ راہن کے۔ اس کے علاوہ حماد بن سلمہ نے اپنی جامع میں حماد بن ابی سلیمان سے جو حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے استاد ہیں، روایت کی، انہوں نے ابراہیم نخعی سے، اسمیں صاف یوں ہے کہ جب کوئی بکری رہن کرے تو مرتہن بقدر اس کے دانے چارے کے اس کا دودھ پیے۔ اگر دودھ اس کے دانے چارے کے بعد بچ رہے تو اس کا لینا درست نہیں وہ ربوا ہے۔ ( از مولانا وحید الزما ںمرحوم
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الرھن
باب : یہود وغیرہ کے پاس کوئی چیز گروی رکھنا

حدیث نمبر : 2513
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، قَالَتْ : " اشْتَرَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ يَهُودِيٍّ طَعَامًا ، وَرَهَنَهُ دِرْعَهُ " .
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا ، ان سے اعمش نے ، ان سے ابراہیم نے ، ان سے اسود نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ مدت ٹھہرا کر ایک یہودی سے غلہ خریدا اور اپنی زرہ اس کے پاس گروی رکھی ۔

یہودی کا نام ابوالشحم تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس یہودی سے جو کے تیس صاع قرض لیے تھے اور جو زرہ گروی تھی اس کا نام ذات الفضول تھا۔ بعضوں نے کہا کہ آپ نے وفات سے پہلے یہ زرہ چھڑا لی تھی۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ کی وفات تک وہ گروی رہی۔ ( وحیدی
 
Top