• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ١ - (حدیث نمبر ١ تا ٨١٣)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : کون سا اسلام افضل ہے؟

حدیث نمبر : 11
حدثنا سعيد بن يحيى بن سعيد القرشي، قال حدثنا أبي قال، حدثنا أبو بردة بن عبد الله بن أبي بردة، عن أبي بردة، عن أبي موسى ـ رضى الله عنه ـ قال قالوا يا رسول الله أى الإسلام أفضل قال ‏"‏ من سلم المسلمون من لسانه ويده‏"‏‏. ‏
ہم کو سعید بن یحییٰ بن سعید اموی قریشی نے یہ حدیث سنائی، انھوں نے اس حدیث کو اپنے والد سے نقل کیا، انھوں نے ابوبردہ بن عبداللہ بن ابی بردہ سے، انھوں نے ابی بردہ سے، انھوں نے ابوموسی رضی اللہ عنہ سے، وہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ! کون سا اسلام افضل ہے؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ جس کے ماننے والے مسلمانوں کی زبان اور ہاتھ سے سارے مسلمان سلامتی میں رہیں۔

چونکہ حقیقت کے لحاظ سے ایمان اور اسلام ایک ہی ہیں، اس لیے ای الاسلام افضل کے سوال سے معلوم ہوا کہ ایمان کم وبیش ہوتا ہے۔ افضل کے مقابلہ پر ادنیٰ ہے۔ پس اسلام ایمان، اعمال صالحہ واخلاق پاکیزہ کے لحاظ سے کم وزیادہ ہوتا رہتا ہے۔ یہی حضرت امام کا یہاں مقصد ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : کھانا کھلانا ( بھوکے ناداروں کو ) بھی اسلام میں داخل ہے

حدیث نمبر : 12

حدثنا عمرو بن خالد، قال حدثنا الليث، عن يزيد، عن أبي الخير، عن عبد الله بن عمرو ـ رضى الله عنهما ـ أن رجلا، سأل النبي صلى الله عليه وسلم أى الإسلام خير قال ‏"‏ تطعم الطعام، وتقرأ السلام على من عرفت ومن لم تعرف‏"‏‏.
ہم سے حدیث بیان کی عمرو بن خالد نے، ان کو لیث نے، وہ روایت کرتے ہیں یزید سے، وہ ابوالخیر سے، وہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے کہ ایک دن ایک آدمی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا اسلام بہتر ہے؟ فرمایا کہ تم کھانا کھلاؤ، اور جس کو پہچانو اس کو بھی اور جس کو نہ پہچانو اس کو بھی، الغرض سب کو سلام کرو۔

تشریح : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے توکل الطعام کی بجائے تطعم الطعام فرمایا۔اس لیے کہ اطعام میں کھانا کھلانا، پانی پلانا، کسی چیز کا چکھانا اور کسی کی ضیافت کرنا اور علاوہ ازیں کچھ بطور عطا بخشش کرنا وغیرہ یہ سب داخل ہیں۔ ہرمسلمان کو سلام کرنا خواہ وہ آشنا ہو یا بیگانہ، یہ اس لیے کہ جملہ مومنین باہمی طور پر بھائی بھائی ہیں، وہ کہیں کے بھی باشندے ہوں، کسی قوم سے ان کا تعلق ہو مگر اسلامی رشتہ اور کلمہ توحیدکے تعلق سے سب بھائی بھائی ہیں۔ اطعام طعام مکارم مالیہ سے اور اسلام مکارم بدنیہ سے متعلق ہیں۔ گویا مالی وبدنی طور پر جس قدر بھی مکارم اخلاق ہیں ان سب کے مجموعہ کا نام اسلام ہے۔ اس لیے یہ بھی ثابت ہوا کہ جملہ عبادات داخل اسلام ہیں اور اسلام وایمان نتائج کے اعتبارسے ایک ہی چیز ہے اور یہ کہ جس میں جس قدربھی مکارم اخلاق بدنی ومالی ہوں گے، اس کا ایمان و اسلام اتنا ہی ترقی یافتہ ہوگا۔ پس جو لوگ کہتے ہیں کہ ایمان گھٹتا بڑھتا نہیں ان کا یہ قول سراسر ناقابل التفات ہے۔

اس روایت کی سند میں جس قدر راوی واقع ہوئے ہیں وہ سب مصری ہیں اور سب جلیل القدر ائمہ اسلام ہیں۔ اس حدیث کو حضرت امام بخاری رحمہ اللہ اسی کتاب الایمان میں آگے چل کر ایک اور جگہ لائے ہیں۔ اور باب الاستیذان میں بھی اس کو نقل کیا ہے اور امام مسلم رحمہ اللہ نے اور امام نسائی رحمہ اللہ نے اس کو کتاب الایمان میں نقل کیا ہے اور امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے باب الادب میں اور امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے باب الاطعمہ میں۔
غرباءومساکین کو کھانا کھلانا اسلام میں ایک مہتم بالشان نیکی قرار دیا گیا ہے۔ قرآن پاک میں جنتی لوگوں کے ذکرمیں ہے ویطعمون الطعام علی حبہ مسکینا و یتیما و اسیرا ( الدھر: 8 ) نیک بندے وہ ہیں جو اللہ کی محبت کے لیے مسکینوں،یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔ اس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہے کہ اسلام کا منشا یہ ہے کہ بنی نوع انسان میں بھوک وتنگ دستی کا اتنا مقابلہ کیاجائے کہ کوئی بھی انسان بھوک کا شکار نہ ہوسکے اور سلامتی وامن کو اتنا وسیع کیا جائے کہ بدامنی کا ایک معمولی سا خدشہ بھی باقی نہ رہ جائے۔ اسلام کا یہ مشن خلفائے راشدین کے زمانہ خیرمیں پورا ہوا اور اب بھی جب اللہ کو منظور ہوگا یہ مشن پورا ہوگا۔ تاہم جزوی طور پر ہرمسلمان کے مذہبی فرائض میں سے ہے کہ بھوکوں کی خبرلے اور بدامنی کے خلاف ہر وقت جہاد کرتا رہے۔ یہی اسلام کی حقیقی غرض وغایت ہے۔
اخوت کی جہانگیری محبت کی فراوانی
یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : ایمان میں داخل ہے کہ مسلمان جو اپنے لیے پسند کرتا وہی چیز اپنے بھائی کے لیے پسند کرئے

حدیث نمبر : 13
حدثنا مسدد، قال حدثنا يحيى، عن شعبة، عن قتادة، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ وعن حسين المعلم، قال حدثنا قتادة، عن أنس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ لا يؤمن أحدكم حتى يحب لأخيه ما يحب لنفسه‏"‏‏.
ہم سے حدیث بیان کی مسدد نے، ان کو یحییٰ نے، انھوں نے شعبہ سے نقل کیا، انھوں نے قتادہ سے، انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ خادم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا۔ اور شعبہ نے حسین معلم سے بھی روایت کیا، انھوں نے قتادہ سے، انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص ایماندار نہ ہو گا جب تک اپنے بھائی کے لیے وہ نہ چاہے جو اپنے نفس کے لیے چاہتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھنا بھی ایمان میں داخل ہے

حدیث نمبر : 14
حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، قال حدثنا أبو الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ فوالذي نفسي بيده لا يؤمن أحدكم حتى أكون أحب إليه من والده وولده‏"‏‏.
ہم سے ابوالیمان نے حدیث بیان کی، ان کو شعیب نے، ان کو ابولزناد نے اعرج سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کی کہ بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ تم میں سے کوئی بھی ایماندار نہ ہو گا جب تک میں اس کے والد اور اولاد سے بھی زیادہ اس کا محبوب نہ بن جاؤں۔

تشریح : پچھلے ابواب میں من الایمان کا جملہ مقدم تھا اور یہاں ایمان پر حب الرسول کو مقدم کیا گیا ہے۔ جس میں ادب مقصود ہے اور یہ بتلانا کہ محبت رسول ہی سے ایمان کی اول وآخر تکمیل ہوتی ہے۔ یہ ہے توایمان ہے۔ یہ نہیں توکچھ نہیں۔ اس سے بھی ایمان کی کمی وبیشی پر روشنی پڑتی ہے اور یہ کہ اعمال صالحہ واخلاق فاضلہ وخصائل حمیدہ سب ایمان میں داخل ہیں۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے ایمان کی حلفیہ نفی فرمائی ہے جس کے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر اس کے والد یا اولاد کی محبت غالب ہو۔روایت میں لفظ والد کو اس لیے مقدم کیا گیا کہ اولاد سے زیادہ والدین کا حق ہے اور لفظ والد میں ماں بھی داخل ہے۔


حدیث نمبر : 15
حدثنا يعقوب بن إبراهيم، قال حدثنا ابن علية، عن عبد العزيز بن صهيب، عن أنس، عن النبي صلى الله عليه وسلم ح وحدثنا آدم، قال حدثنا شعبة، عن قتادة، عن أنس، قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لا يؤمن أحدكم حتى أكون أحب إليه من والده وولده والناس أجمعين‏"‏‏. ‏
ہمیں حدیث بیان کی یعقوب بن ابراہیم نے، ان کو ابن علیہ نے، وہ عبدالعزیز بن صہیب سے روایت کرتے ہیں، وہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں اور ہم کو آدم بن ابی ایاس نے حدیث بیان کی، ان کو شعبہ نے، وہ قتادہ سے نقل کرتے ہیں، وہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص ایماندار نہ ہو گا جب تک اس کے والد اور اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ اس کے دل میں میری محبت نہ ہو جائے۔

تشریح : اس روایت میں دوسندیں ہیں۔ پہلی سند میں حضرت امام کے استاد یعقوب بن ابراہیم ہیں اور دوسری سند میں آدم بن ابی ایاس ہیں۔ تحویل کی صورت اس لیے اختیار نہیں کی کہ ہردو سندیں حضرت انس ص پر جاکر مل جاتی ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ان روایات میں جس محبت کا مطالبہ ہے وہ محبت طبعی مراد ہے کیونکہ حدیث میں والد اور ولد سے مقابلہ ہے اور ان سے انسان کو محبت طبعی ہی ہوتی ہے پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت طبعی اس درجہ میں مطلوب ہے کہ وہاں تک کسی کی بھی محبت کی رسائی نہ ہو۔ حتیٰ کہ اپنے نفس تک کی بھی محبت نہ ہو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : ایمان کی مٹھاس کے بیان میں

حدیث نمبر : 16
حدثنا محمد بن المثنى، قال حدثنا عبد الوهاب الثقفي، قال حدثنا أيوب، عن أبي قلابة، عن أنس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ ثلاث من كن فيه وجد حلاوة الإيمان أن يكون الله ورسوله أحب إليه مما سواهما، وأن يحب المرء لا يحبه إلا لله، وأن يكره أن يعود في الكفر كما يكره أن يقذف في النار‏"‏‏. ‏
ہمیں محمد بن مثنیٰ نے یہ حدیث بیان کی، ان کو عبدالوہاب ثقفی نے، ان کو ایوب نے، وہ ابوقلابہ سے روایت کرتے ہیں، وہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ناقل ہیں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے فرمایا تین خصلتیں ایسی ہیں کہ جس میں یہ پیدا ہو جائیں اس نے ایمان کی مٹھاس کو پا لیا۔ اول یہ کہ اللہ اور اس کا رسول اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب بن جائیں، دوسرے یہ کہ وہ کسی انسان سے محض اللہ کی رضا کے لیے محبت رکھے۔ تیسرے یہ کہ وہ کفر میں واپس لوٹنے کو ایسا برا جانے جیسا کہ آگ میں ڈالے جانے کو برا جانتا ہے۔

تشریح : یہاں بھی حضرت امام المحدثین رحمہ اللہ نے مرجیہ اور ان کے کلی وجزوی ہم نواؤں کے عقائد فاسدہ پر ایک کاری ضرب لگائی ہے اور ایمان کی کمی وزیادتی اور ایمان پر اعمال کے اثرانداز ہونے کے سلسلے میں استدلال کیا ہے اور بتلایا ہے کہ ایمان کی حلاوت کے لیے اللہ ورسول کی حقیقی محبت، اللہ والوں کی محبت اور ایمان میں استقامت لازم ہے۔

علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وفی قولہ حلاوۃ الایمان استعارۃ تخییلیۃ شبہ رغبۃ المومن فی الایمان بشئی حلو واثبت لہ لازم ذلک الشی واضافہ الیہ وفیہ تلمیح الی قصۃ المریض والصحیح لان المریض الصفراوی یجد طعم العسل مرا والصحیح یذوق حلاوتہ علی ماہی علیہ و کلما نقصت الصحۃ شیئا مانقص ذوقہ بقدر ذلک ہذہ الاستعارۃ من اوضح مایقوی استدلال المصنف علی الزیادۃ والنقص۔
یعنی ایمان کے لیے لفظ حلاوت بطوراستعارہ استعمال فرماکر مومن کی ایمانی رغبت کو میٹھی چیز کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اور اس کے لازمہ کو ثابت کیا گیا ہے اور اسے اس کی طرف منسوب کیا اس میں مریض اور تندرست کی تشبیہ پر بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ صفراوی مریض شہد کو بھی چکھے گا تواسے کڑوا بتلائے گا اور تندرست اس کی مٹھاس کی لذت حاصل کرے گا۔ گویا جس طرح صحت خراب ہونے سے شہد کامزہ خراب معلوم ہونے لگتا ہے۔ اسی طرح معاصی کا صفرا جس کے مزاج پر غالب ہے، اسے ایمان کی حلاوت نصیب نہ ہوگی۔ ایمان کی کمی وزیادتی کو ثابت کرنے کے لیے مصنف کا یہ نہایت واضح اور قوی تراستدلال ہے۔
حدیث مذکورمیں حلاوت ایمان کے لیے تین خصلتیں پیش کی گئی ہیں۔ شیخ محی الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث دین کی ایک اصل عظیم ہے۔ اس میں پہلی چیز اللہ اور اس کے رسول کی محبت کو قرار دیا گیا ہے جس سے ایمانی محبت مراد ہے۔ اللہ کی محبت کا مطلب یہ کہ توحید الوہیت میں اسے وحدہ لاشریک لہ یقین کرکے عبادت کی جملہ اقسام صرف اس اکیلے کے لیے عمل میں لائی جائیں اور کسی بھی نبی، ولی، فرشتے، جن، بھوت، دیوی، دیوتا، انسان وغیرہ وغیرہ کو اس کی عبادت کے کاموں میں شریک نہ کیاجائے۔ کیونکہ کلمہ لاالہ الااللہ کا یہی تقاضا ہے۔ جس کے متعلق حضرت علامہ نواب صدیق حسن خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب “ الدین الخالص ” میں فرماتے ہیں: وفی ہذہ الکلمۃ نفی واثبات، نفی الالوہیۃ عما سوی اللہ تعالیٰ من المرسلین حتیٰ محمدصلی اللہ علیہ وسلم والملئکۃ حتی جبرئیل علیہ السلام فضلا عن غیرہم من الاولیاءوالصالحین واثباتہا لہ وحدہ لاحق فی ذالک لاحد من المقریبن اذا فہمت ذلک فتامل ہذہ الالوہیۃ التی اثبتہا کلہا لنفسہ المقدسۃ ونفی عن محمدوجبرئیل وغیرہما علیہم السلام ان یکون لہم مثقال حبۃ خردل منہا ( الدین الخاص،ج1ص: 182 )
یعنی اس کلمہ طیبہ میں نفی اور اثبات ہے۔ اللہ پاک کی ذات مقدس کے سوا ہرچیز کے لیے الوہیت کی نفی ہے۔ حتیٰ کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم وحضرت جبرئیل علیہ السلام ک کے لیے بھی نفی ہے۔ پھردیگر اولیاءوصلحاءکا توذکر ہی کیا ہے۔ الوہیت خالص اللہ پاک کے لیے ثابت ہے اور مقربین میں سے کسی کے لیے اس کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ جب تم نے یہ سمجھ لیا تو غور کرو کہ یہ الوہیت وہ ہے جس کو اللہ پاک نے خاص اپنی ہی ذات مقدسہ کے لیے ثابت کیا ہے اور اپنے ہرغیر حتیٰ کہ محمدوجبرئیل علیہما السلام تک سے اس کی نفی کی ہے، ان کے لیے ایک رائی کے دانہ برابر بھی الوہیت کا کوئی حصہ حاصل نہیں۔ پس حقیقی محبت الٰہی کا یہی مقام ہے جو لوگ اللہ کی الوہیت میں اس کی عبادت کے کاموں میں اولیاءصلحاءیاابنیاءوملائکہ کوشریک کرتے ہیں۔
ویظنون اللہ جعل نحوا من الخلق منزلۃ یرضی ان العامی یلتجئی الیہم ویرجوہم ویخالفہم ویستغیث بہم ویستعین منہم بقضاءحوائجہ واسعاف مرامہ وانجاح مقامہ ویجعلہم وسائط بینہ وبین اللہ تعالیٰ ہی الشرک الجلی الذی لایغفراللہ تعالیٰ ابدا ( حوالہ مذکور )
اور گمان کرتے ہیں کہ اللہ نے اپنے خاص بندوں کو ایسا مقام دے رکھا ہے کہ عوام ان کی طرف پناہ ڈھونڈیں، ان سے اپنی مرادیں مانگیں، ان سے استعانت کریں اور قضائے حاجات کے لیے ان کو اللہ کے درمیان وسیلہ ٹھہرادیں۔ یہ وہ شرک جلی ہے جس کو اللہ پاک ہرگز ہرگز نہیں بخشے گا۔ ان اللہ لایغفران یشرک بہ ویغفرمادون ذلک لمن یشاء ( النساء: 48 ) یعنی بے شک اللہ شرک کو نہیں بخشے گا اس کے علاوہ جس گناہ کو چاہے بخش دے گا۔
“ رسول ” کی محبت سے ان کی اطاعت وفرمانبرداری مراد ہے اس کے بغیرمحبت رسول کا دعویٰ غلط ہے۔ نیز محبت رسول کا تقاضا ہے کہ آپ کا ہرفرمان بلندوبالا تسلیم کیاجائے۔ اور ا س کے مقابلہ پر کسی کا کوئی حکم نہ مانا جائے۔ پس جو لوگ صحیح احادیث مرفوعہ کی موجودگی میں اپنے مزعومہ اماموں کے اقوال کو مقدم رکھتے ہیں اور اللہ کے رسول کے فرمان کوٹھکرادیتے ہیں ان کے متعلق سیدالعلامہ حضرت نواب صدیق حسن خاں صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
تامل فی مقلدۃ المذاہب کیف اقروا علی انفسہم بتقلیدالاموات من العلماءوالاولیاءواعترفوا بان فہم الکتاب والسنۃ کان خاصا لہم واستدلوا لاشراکہم فی الصلحاءبعبارات القوم ومکاشفات الشیوخ فی النوم ورجحوا کلام الامۃ والائمۃ علی کلام اللہ تعالیٰ و رسولہ علی بصیرۃ منہم وعلی علم فماندری ماعذرہم عن ذلک غدا یوم الحساب والکتاب ومایحمیہم من ذلک العذاب والعقاب۔ ( الدین الخاص،ج: 1ص: 196 ) یعنی مذاہب معلومہ کے مقلدین میں غور کرو کہ علماءواولیاءجو دنیا سے رخصت ہوچکے، ان کی تقلید میں کس طور پر گرفتار ہیں اور کہتے ہیں کہ قرآن وحدیث کا سمجھنا ان ہی اماموں پر ختم ہوچکا، یہ خاص ان ہی کاکام تھا۔ صلحاءکو عبادت الٰہی میں شریک کرنے کے لیے عبارات قوم سے کتربیونت کرکے دلیل پکڑتے ہیں اور شیوخ کے مکاشفات سے جو ان کے خوابوں سے متعلق ہوتے ہیں اور امت اور ائمہ کے کلام کو اللہ و رسول کے کلام پر ترجیح دیتے ہیں۔ حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ روش صحیح نہیں ہے۔ ہم نہیں جان سکتے کہ قیامت کے دن اللہ کے سامنے یہ لوگ کیاعذر بیان کریں گے اور اس دن کے عذاب سے ان کو کون چیز نجات دلاسکے گی۔
الغرض اللہ ورسول کی محبت کا تقاضا یہی ہے جو اوپر بیان ہوا ورنہ صادق آئے گا۔
تعصی الرسول و انت تظہر حبہ
ہذا لعمری فی القیاس بدیع
لو کان حبک صادقا لاطعتہ
ان المحب لمن یحب مطیع

اس حدیث نبوی میں دوسری خصلت بھی بہت ہی اہم بیان کی گئی ہے کہ مومن کامل وہ ہے جس کی لوگوں سے محبت خاص اللہ کے لیے ہو اور دشمنی بھی خالص اللہ کے لیے ہو۔ نفسانی اغراض کا شائبہ بھی نہ ہو۔ جیسا کہ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی بابت مروی ہے کہ ایک کافر نے جس کی چھاتی پر آپ چڑھے ہوئے تھے آپ کے منہ پر تھوک دیا۔ تو آپ فوراً ہٹ کر اس کے قتل سے رک گئے اور یہ فرمایا کہ اب میرا یہ قتل کرنا اللہ کے لیے نہ ہوتا۔ بلکہ اس کے تھوکنے کی وجہ سے یہ اپنے نفس کے لیے ہوتا اور مؤمن صادق کا یہ شیوہ نہیں کہ اپنے نفس کے لیے کسی سے عداوت یامحبت رکھے۔
تیسری خصلت میں اسلام وایمان پر استقامت مراد ہے۔ حالات کتنے ہی ناسازگار ہوں ایک سچا مومن دولت ایمان کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ بلاشک جس میں یہ تینوں خصلتیں جمع ہوں گی اس نے درحقیقت ایمان کی لذت حاصل کی پھر وہ کسی حال میں بھی ایمان سے محرومی پسند نہ کرے گا اور مرتدہونے کے لیے کبھی بھی تیار نہ ہوسکے گا۔ خواہ وہ شہید کردیا جائے، اسلامی تاریخ کی ماضی وحال میں ایسی بہت ہی مثالیں موجود ہیں کہ بہت سے مخلص بندگان مسلمین نے جام شہادت پی لیا مگرارتداد کے لیے تیار نہ ہوئے۔ اللہ پاک ہر مسلمان مرد وعورت کے اندرایسی ہی استقامت پیدا فرمائے۔آمین

ابونعیم نے مستخرج میں حسن بن سفیان عن محمد بن المثنیٰ کی روایت سے ویکرہ ان یعود فی الکفر کے آگے بعداذانقذہ اللہ کے الفاظ زیادہ کئے ہیں۔خودامام بخاری قدس سرہ نے بھی دوسری سند سے ان لفظوں کا اضافہ نقل فرمایا ہے۔ جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ ان لفظوں کا ترجمہ یہ کہ وہ کفرمیں واپس جانا مکروہ سمجھے اس کے بعد کہ اللہ پاک نے اسے اس سے نکالا۔ مراد وہ لوگ ہیں جو پہلے کافرتھے بعد میں اللہ نے اس کو ایمان واسلام نصیب فرمایا۔

علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہذا الاسناد کلہ بصریون یعنی اس سند میں سب کے سب بصری راوی واقع ہوئے ہیں۔

ایک اشکال اور ا س کا جواب: حدیث مذکورمیں ان یکون اللہ ورسولہ احب الیہ مماسواہما فرمایا گیا ہے۔ جس میں ضمیر تثنیہ “ ھما ” میں اللہ اور رسول ہر دو کو جمع کردیا گیا ہے۔ یہ جمع کرنا اس حدیث سے ٹکراتا ہے جس میں ذکر ہے کہ کسی خطیب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ایک خطبہ بایں الفاظ دیا تھا من یطع اللہ ورسولہ فقد رشد ومن یعصہما آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر اظہارخفگی کے لیے فرمایا: بئس الخطیب انت یعنی تم اچھے خطیب نہیں ہو۔ آپ کی یہ خفگی یہاں ضمیر ( ھما ) پر تھی جب کہ خطیب نے “ یعصہما ” کہہ دیا تھا۔اہل علم نے اس اشکال کے کئی جواب دئیے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ تعلیم اور خطبہ کے مواقع الگ الگ ہیں۔ حدیث ہذا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور معلم اختصار وجامعیت کے پیش نظر یہاں “ ہما ” ضمیراستعمال فرمائی اور خطیب نے خطبہ کے موقع پر جب کہ تفصیل و تطویل کا موقع تھا۔ اختصار کے لیے “ ہما ” ضمیر استعمال کی جو بہتر نہ تھی۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر خفگی فرمائی۔ کچھ اہل علم کہتے ہیں کہ حدیث مذکور میں مقام محبت میں ہردو کو جمع کیا گیا ہے جو بالکل درست ہے کیونکہ اللہ ورسول کی محبت لازم وملزوم، ہردو کی محبت جمع ہوگئی تونجات ہوگئی اور ایمان کا مدار ہردو کی محبت پر ہے اور خطیب مذکور نے معصیت کے معاملہ میں دونوں کوجمع کر دیا تھا جس سے وہم پیدا ہوسکتا تھا کہ ہردو کی معصیت نقصان کا باعث ہے اور اگرکسی نے ایک کی اطاعت کی اور ایک کی نافرمانی تو یہ موجب نقصان نہیں حالانکہ ایسا خیال بالکل غلط ہے۔ اس لیے کہ اللہ کی اطاعت نہ کرنا بھی گمراہی اور رسول کی نافرمانی بھی گمراہی، اس لیے وہاں الگ الگ بیان ضروری تھا، اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہ فرمائی کہ تم کو خطبہ دینا نہیں آتا۔
امام طحاوی رحمہ اللہ نے مشکل الآثار میں یوں لکھا ہے کہ خطیب مذکور نے لفظ “ ومن یعصہما ” پر سکتہ کر دیا تھا اور ٹھہر کربعد میں کہا “ فقدغوی ” اس سے ترجمہ یہ ہوگیا تھا کہ جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے تونیک ہے اور جونافرمانی کرے وہ بھی، اس طرزادا سے بڑی بھاری غلطی کاامکان تھا۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خطیب کو تنبیہ فرمائی۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں فرماتے ہیں کہ حدیث مذکورہ میں “ مماسواہما ” کے الفاظ استعمال کئے گئے۔ “ ممن سواہما ” نہیں فرمایاگیا، اس لیے کہ الفاظ سابقہ میں بطورعموم اہل عقل اور غیراہل عقل یعنی انسان حیوان، جانور، نباتات، جمادات سب داخل ہیں۔ “ ممن سواہما ” کہنے میں خاص اہل عقل مراد ہوتے، اس لیے “ سواہما ” کے الفاظ استعمال کئے گئے اور اس میں اس پر بھی دلیل ہے کہ اس تنبیہ کے استعمال میں کوئی برائی نہیں۔
حدیث مذکورہ میں اس امر پر بھی اشارہ ہے کہ نیکیوں سے آراستہ ہونا اور برائیوں سے دور رہنا تکمیل ایمان کے لیے ضروری ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : انصار کی محبت ایمان کی نشانی ہے

حدیث نمبر : 17
حدثنا أبو الوليد، قال حدثنا شعبة، قال أخبرني عبد الله بن عبد الله بن جبر، قال سمعت أنسا، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ آية الإيمان حب الأنصار، وآية النفاق بغض الأنصار‏"‏‏. ‏
ہم سے اس حدیث کو ابوالولید نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، انھیں عبداللہ بن جبیر نے خبر دی، وہ کہتے ہیں کہ ہم نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے اس کو سنا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انصار سے محبت رکھنا ایمان کی نشانی ہے اور انصار سے کینہ رکھنا نفاق کی نشانی ہے۔

تشریح : امام عالی مقام نے یہاں بھی مرجیہ کی تردید کے لیے اس روایت کونقل فرمایا ہے۔ انصار اہل مدینہ کا لقب ہے جو انھیں مکہ سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں کی امداد واعانت کے صلہ میں دیاگیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی اور آپ کے ساتھ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مدینہ آگئی تو اس وقت مدینہ کے مسلمانوں نے آپ کی اور دیگر مسلمانوں کی جس طرح امداد فرمائی۔ تاریخ اس کی نظیرپیش کرنے سے عاجز ہے۔ ان کا بہت بڑا کارنامہ تھا جس کو اللہ کی طرف سے اس طرح قبول کیا گیا کہ قیامت تک مسلمان ان کا ذکر انصار کے معزز نام سے کرتے رہیں گے۔ اس نازک وقت میں اگراہل مدینہ اسلام کی مدد کے لیے نہ کھڑے ہوتے تو عرب میں اسلام کے ابھرنے کا کوئی موقع نہ تھا۔ اسی لیے انصار کی محبت ایمان کا جزو قرار پائی۔ قرآن پاک میں بھی جابجاانصار ومہاجرین کا ذکر خیرہوا ہے اور رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ سے ان کو یاد کیا گیا ہے۔

انصار کے مناقب وفضائل میں اور بھی بہت سی احادیث مروی ہیں۔ جن کا ذکر موجب طوالت ہوگا۔ ان کے باہمی جنگ وجدال کے متعلق علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وانماکان حالہم فی ذلک حال المجتہدین فی الاحکام للمصیب اجران وللمخطی اجرواحد واللہ اعلم یعنی اس بارے میں ان کو ان مجتہدین کے حال پر قیاس کیاجائے گا جن کا اجتہاد درست ہو توان کو دوگناثواب ملتا ہے اور اگران سے خطا ہوجائے تو بھی وہ ایک ثواب سے محروم نہیں رہتے۔ المجتہد قدیخطی ویصیب ہمارے لیے یہی بہتر ہوگا کہ اس بارے میں زبان بند رکھتے ہوئے ان سب کو عزت سے یاد کریں۔
انصار کے فضائل کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے بارے میں فرمایا لولاالہجرۃ لکنت امرا من الانصار ( بخاری شریف ) اگر ہجرت کی فضیلت نہ ہوتی تومیں بھی اپنا شمار انصار ہی میں کراتا۔ اللہ پاک نے انصار کو یہ عزت عطا فرمائی کہ قیامت تک کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے شہرمدینہ میں ان کے ساتھ آرام فرما رہے ہیں۔ ( ا )
ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر سب لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار دوسری وادی میں تو میں انصارہی کی وادی کو اختیار کروں گا۔ اس سے بھی انصار کی شان ومرتبت کا اظہار مقصود ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب :۔۔۔

حدیث نمبر : 18
حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرني أبو إدريس، عائذ الله بن عبد الله أن عبادة بن الصامت ـ رضى الله عنه ـ وكان شهد بدرا، وهو أحد النقباء ليلة العقبة ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال وحوله عصابة من أصحابه ‏"‏ بايعوني على أن لا تشركوا بالله شيئا، ولا تسرقوا، ولا تزنوا، ولا تقتلوا أولادكم، ولا تأتوا ببهتان تفترونه بين أيديكم وأرجلكم، ولا تعصوا في معروف، فمن وفى منكم فأجره على الله، ومن أصاب من ذلك شيئا فعوقب في الدنيا فهو كفارة له، ومن أصاب من ذلك شيئا ثم ستره الله، فهو إلى الله إن شاء عفا عنه، وإن شاء عاقبه‏"‏‏. ‏ فبايعناه على ذلك‏.‏
ہم سے اس حدیث کو ابوالیمان نے بیان کیا، ان کو شعیب نے خبر دی، وہ زہری سے نقل کرتے ہیں، انھیں ابوادریس عائذ اللہ بن عبداللہ نے خبر دی کہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ جو بدر کی لڑائی میں شریک تھے اور لیلۃ العقبہ کے ( بارہ ) نقیبوں میں سے تھے۔ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت جب آپ کے گرد صحابہ کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی فرمایا کہ مجھ سے بیعت کرو اس بات پر کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گے، چوری نہ کرو گے، زنا نہ کرو گے، اپنی اولاد کو قتل نہ کرو گے اور نہ عمداً کسی پر کوئی ناحق بہتان باندھو گے اور کسی بھی اچھی بات میں ( خدا کی ) نافرمانی نہ کرو گے۔ جو کوئی تم میں ( اس عہد کو ) پورا کرے گا تو اس کا ثواب اللہ کے ذمے ہے اور جو کوئی ان ( بری باتوں ) میں سے کسی کا ارتکاب کرے اور اسے دنیا میں ( اسلامی قانون کے تحت ) سزا دے دی گئی تو یہ سزا اس کے ( گناہوں کے ) لیے بدلا ہو جائے گی اور جو کوئی ان میں سے کسی بات میں مبتلا ہو گیا اور اللہ نے اس کے ( گناہ ) کو چھپا لیا تو پھر اس کا ( معاملہ ) اللہ کے حوالہ ہے، اگر چاہے معاف کرے اور اگر چاہے سزا دے دے۔ ( عبادہ کہتے ہیں کہ ) پھر ہم سب نے ان ( سب باتوں ) پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کر لی۔

تشریح : اس حدیث کے راوی عبادہ رضی اللہ عنہ بن صامت خزرجی ان لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے مکہ آکر مقام عقبہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی اور اہل مدینہ کی تعلیم وتربیت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن بارہ آدمیوں کو اپنا نائب مقرر کیاتھا، یہ ان میں سے ایک ہیں جنگ بدر کے مجاہدین میں سے ہیں۔34ہجری میں 72سال کی عمرپاکر انتقال کیا اور رملہ میں دفن ہوئے۔ صحیح بخاری میں ان سے نواحادیث مروی ہیں۔
انصار کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ مدینہ کے لوگوں نے جب اسلام کی اعانت کے لیے مکہ آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تواسی بنا پر ان کا نام انصار ہوا۔ انصار ناصر کی جمع ہے اور ناصر مددگار کوکہتے ہیں۔ انصار عہدجاہلیت میں بنوقیلہ کے نام سے موسوم تھے۔ قیلہ اس ماں کو کہتے ہیں جو دوقبائل کی جامعہ ہو۔ جن سے اوس اور خزرج ہردوقبائل مراد ہیں۔ ان ہی کے مجموعہ کو انصار کہاگیا۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلامی قانون کے تحت جب ایک مجرم کو اس کے جرم کی سزا مل جائے تو آخرت میں اس کے لیے یہ سزا کفارہ بن جاتی ہے۔
دوسرا مسئلہ یہ بھی معلوم ہوا کہ جس طرح یہ ضروری نہیں کہ اللہ ہرگناہ کی سزادے۔ اسی طرح اللہ پر کسی نیکی کا ثواب دینا بھی ضروری نہیں۔ اگروہ گنہ گار کو سزا دے تو یہ اس کا عین انصاف ہے اور گناہ معاف کردے تو یہ اس کی عین رحمت ہے۔ نیکی پر اگر ثواب نہ دے تو یہ اس کی شان بے نیازی ہے اور ثواب عطا فرمادے تو یہ اس کا عین کرم ہے۔
تیسرا مسئلہ یہ ثابت ہوا کہ گناہ کبیرہ کامرتکب بغیرتوبہ کئے مرجائے تو اللہ کی مرضی پر موقوف ہے، چاہے تواس کے ایمان کی برکت سے بغیر سزادئیے جنت میں داخل کرے اور چاہے سزا دے کر پھر جنت میں داخل کرے۔ مگر شرک اس سے مستثنیٰ ہے کیوں کہ اس کے بارے میں قانون الٰہی یہ ہے ان اللہ لایغفران یشرک بہ الایۃ جو شخص شرک پر انتقال کرجائے تو اللہ پاک اسے ہرگز ہرگز نہیں بخشے گا اور وہ ہمیشہ دوزخ میں رہے گا۔ کسی مومن کا خون ناحق بھی نص قرآن سے یہی حکم رکھتا ہے۔ اور حقوق العباد کا معاملہ بھی ایسا ہے کہ جب تک وہ بندے ہی نہ معاف کردیں، معافی نہیں ملے گی۔
چوتھی بات یہ معلوم ہوئی کہ کسی عام آدمی کے بارے میں قطعی جنتی یاقطعی دوزخی کہنا جائز نہیں۔
پانچویں بات معلوم ہوئی کہ اگرایمان دل میں ہے تومحض گناہوں کے ارتکاب سے انسان کافر نہیں ہوتا۔ مگرایمان قلبی کے لیے زبان سے اقرار کرنا اور عمل سے ثبوت ایمان دینا بھی ضروری ہے۔ اس حدیث میں ایمان، اخلاق، حقوق العباد کے وہ بیشتر مسائل آگئے ہیں۔ جن کو دین وایمان کی بنیاد کہاجا سکتا ہے۔ اس سے صاف واضح ہوگیا کہ نیکی وبدی یقینا ایمان کی کمی وبیشی پر اثر انداز ہوتی ہیں اور جملہ اعمال صالحہ ایمان میں داخل ہیں۔ ان احادیث کی روایت سے حضرت امیرالمحدثین کا یہی مقصد ہے۔ پس جو لوگ ایمان میں کمی وبیشی کے قائل نہیں وہ یقینا خطا پر ہیں۔ اس حدیث میں ان لوگوں کی بھی تردید ہے جو گناہ کبیرہ کے مرتکب کو کافر یاہمیشہ کے لیے دوزخی بتلاتے ہیں۔
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہماری روایت کے مطابق یہاں لفظ باب بغیرترجمہ کے ہے اور یہ ترجمہ سابق ہی سے متعلق ہے۔ ووجہ التعلق انہ لما ذکرالانصار فی الحدیث الاول اشارفی ہذا الی ابتداءالسبب فی تلقیہم بالانصار لان اول ذلک کان لیلۃ العقبۃ لما توافقوا مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم عندعقبۃ منی فی الموسم کماسیاتی شرح ذلک ان شاءاللہ تعالیٰ فی السیرۃ النبویۃ من ہذا الکتاب یعنی اس تعلق کی وجہ یہ ہے کہ حدیث اول میں انصار کا ذکر کیاگیا تھا یہاں یہ بتلایاگیا کہ یہ لقب ان کو کیونکر ملا۔ اس کی ابتداءاس وقت سے ہوئی جب کہ ان لوگوں نے عقبہ میں منیٰ کے قریب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موافقت وامداد کے لیے پورے طور پر وعدہ کیا۔
لفظ “ عصابہ ” کا اطلاق زیادہ سے زیادہ چالیس پر ہو سکتا ہے۔ یہ بیعت اسلام تھی جس میں آپ نے شرک باللہ سے توبہ کرنے کا عہدلیا۔ پھر دیگر اخلاقی برائیوں سے بچنے کا اور اولاد کوقتل نہ کرنے کا وعدہ کیا۔ جب کہ عرب میں یہ برائیاں عام تھیں۔ بہتان سے بچنے کا بھی وعدہ لیا۔ یہ وہ جھوٹ ہے جس کی کوئی اصلیت نہ ہو۔ الفاظ بین ایدیکم وارجلکم میں دل سے کنایہ ہے۔ یعنی دل نے ایک بے حقیقت بات گھڑلی۔ آگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصولی بات پر عہد لیاکہ ہرنیک کام میں ہمیشہ اطاعت کرنی ہوگی۔ معروف ہروہ چیز ہے جو شریعت کی نگاہ میں جانی ہوئی ہو۔ اس کی ضد منکرہے۔ جوشریعت میں نگاہ نفرت سے دیکھی جائے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : فتنوں سے دوربھاگنا ( بھی ) دین ( ہی ) میں شامل ہے

حدیث نمبر : 19
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن عبد الرحمن بن عبد الله بن عبد الرحمن بن أبي صعصعة، عن أبيه، عن أبي سعيد الخدري، أنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ يوشك أن يكون خير مال المسلم غنم يتبع بها شعف الجبال ومواقع القطر، يفر بدينه من الفتن‏"‏‏. ‏
ہم سے ( اس حدیث کو ) عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، انھوں نے اسے مالک رحمہ اللہ سے نقل کیا، انھوں نے عبدالرحمن بن عبداللہ بن ابی صعصعہ سے، انھوں نے اپنے باپ ( عبداللہ رحمہ اللہ ) سے، وہ ابوسعید خدری سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ وقت قریب ہے جب مسلمان کا ( سب سے ) عمدہ مال ( اس کی بکریاں ہوں گی )۔ جن کے پیچھے وہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور برساتی وادیوں میں اپنے دین کو بچانے کے لیے بھاگ جائے گا۔

تشریح : مقصد حدیث یہ ہے کہ جب فتنہ وفساد اتنا بڑھ جائے کہ اس کی اصلاح بظاہر ناممکن نظر آنے لگے توایسے وقت میں سب سے یکسوئی بہترہے۔ فتنہ میں فسق وفجور کی زیادتی، سیاسی حالات اور ملکی انتظامات کی بدعنوانی، یہ سب چیزیں داخل ہیں۔ جن کی وجہ سے مرد مومن کے لیے اپنے دین اور ایمان کی حفاظت دشوار ہوجاتی ہے۔ ان حالات میں اگر محض دین کی حفاظت کے جذبے سے آدمی کسی تنہائی کی جگہ چلاجائے۔ جہاں فتنہ وفساد سے بچ سکے تو یہ بھی دین ہی کی بات ہے اور اس پر بھی آدمی کو ثواب ملے گا۔

حضرت امام کا مقصدیہی ہے کہ اپنے دین کوبچانے کے لیے سب سے یکسوئی اختیار کرنے کا عمل بھی ایمان میں داخل ہے۔ جو لوگ اعمال صالحہ کوایمان سے جداقرار دیتے ہیںان کا قول صحیح نہیں ہے۔
بکری کا ذکر اس لیے کیاگیا کہ اس پر انسان آسانی سے قابو پالیتا ہے اور یہ انسان کے لیے مزاحمت بھی نہیں کرتی۔ یہ بہت ہی غریب اور مسکین جانورہے۔ اس کو جنت کے چوپایوں میں سے کہا گیا ہے۔ اس سے انسان کونفع بھی بہت ہے۔ اس کا دودھ بہت مفید ہے۔ جس کے استعمال سے طبیعت ہلکی رہتی ہے۔ نیز اس کی نسل بھی بہت بڑھتی ہے۔ اس کی خوراک کے لیے بھی زیادہ اہتمام کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جنگلوں میں اپنا پیٹ خود بھر لیتی ہے۔ بہ آسانی پہاڑوں پر بھی چڑھ جاتی ہے۔ اس لیے فتنے فساد کے وقت پہاڑوں جنگلوں میں تنہائی اختیار کرکے اس مفید ترین جانور کی پر ورش سے گذران معیشت کرنا مناسب ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بطور پیشین گوئی فرمایا تھا۔ چنانچہ تاریخ میں بہت پر فتن زمانے آئے اور کتنے ہی بندگان الٰہی نے اپنے دین وایمان کی حفاظت کے لیے آبادی سے ویرانوں کواختیارکیا۔ اس لیے یہ عمل بھی ایمان میں داخل ہے کیونکہ اس سے ایمان واسلام کی حفاظت مقصود ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی تفصیل کہ میں تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو جانتا ہوں

وأن المعرفة فعل القلب لقول الله تعالى ‏{‏ولكن يؤاخذكم بما كسبت قلوبكم‏}‏‏.‏
اور اس بات کا ثبوت کہ معرفت دل کا فعل ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے “ لیکن ( اللہ ) گرفت کرے گا اس پر جو تمہارے دلوں نے کیا ہو گا۔ ”

حدیث نمبر : 20
حدثنا محمد بن سلام، قال أخبرنا عبدة، عن هشام، عن أبيه، عن عائشة، قالت كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أمرهم أمرهم من الأعمال بما يطيقون قالوا إنا لسنا كهيئتك يا رسول الله، إن الله قد غفر لك ما تقدم من ذنبك وما تأخر‏.‏ فيغضب حتى يعرف الغضب في وجهه ثم يقول ‏"‏ إن أتقاكم وأعلمكم بالله أنا‏"‏‏.
یہ حدیث ہم سے محمد بن سلام نے بیان کی، وہ کہتے ہیں کہ انھیں اس کی عبدہ نے خبر دی، وہ ہشام سے نقل کرتے ہیں، ہشام حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو کسی کام کا حکم دیتے تو وہ ایسا ہی کام ہوتا جس کے کرنے کی لوگوں میں طاقت ہوتی ( اس پر ) صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم لوگ تو آپ جیسے نہیں ہیں ( آپ تو معصوم ہیں ) اور آپ کی اللہ پاک نے اگلی پچھلی سب لغزشیں معاف فرما دی ہیں۔ ( اس لیے ہمیں اپنے سے کچھ زیادہ عبادت کرنے کا حکم فرمائیں ) ( یہ سن کر ) آپ ناراض ہوئے حتیٰ کہ خفگی آپ کے چہرہ مبارک سے ظاہر ہونے لگی۔ پھر فرمایا کہ بے شک میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں اور تم سب سے زیادہ اسے جانتا ہوں۔ ( پس تم مجھ سے بڑھ کر عبادت نہیں کر سکتے )

تشریح : اس باب کے تحت بھی امام بخاری رحمہ اللہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ایمان کا تعلق دل سے ہے اور دل کا یہ فعل ہرجگہ یکساں نہیں ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب کی ایمانی کیفیت تمام صحابہ رضی اللہ عنہ اور ساری مخلوقات سے بڑھ کر تھی۔ یہاں حضرت امام بخاری مرجیہ کے ساتھ کرامیہ کے قول کا بطلان بھی ثابت کرنا چاہتے ہیں جوکہتے ہیں کہ ایمان صرف قول کا نام ہے اور یہ حدیث ایمان کی کمی وزیادتی کے لیے بھی دلیل ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان انااعلمکم باللہ سے ظاہر ہے کہ علم باللہ کے درجات ہیں اور اس بارے میں لوگ ایک دوسرے سے کم زیادہ ہوسکتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس معاملہ میں جمیع صحابہ رضی اللہ عنہ بلکہ تمام انسانوں سے بڑھ چڑھ کر حیثیت رکھتے ہیں۔ بعض صحابی آپ سے بڑھ کر عبادت کرنا چاہتے تھے۔ آپ نے اس خیال کی تغلیط میں فرمایا کہ تمہارا یہ خیال صحیح نہیں۔ تم کتنی ہی عبادت کرومگرمجھ سے نہیں بڑھ سکتے ہو اس لیے کہ معرفت خداوندی تم سب سے زیادہ مجھ ہی کو حاصل ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عبادت میں میانہ روی ہی خدا کو پسند ہے۔ ایسی عبادت جو طاقت سے زیادہ ہو، اسلام میں پسندیدہ نہیں ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمان معرفت رب کا نام ہے اور معرفت کا تعلق دل سے ہے۔ اس لیے ایمان محض زبانی اقرار کو نہیں کہا جاسکتا۔ اس کے لیے معرفت قلب بھی ضروری ہے اور ایمان کی کمی وبیشی بھی ثابت ہوئی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : جو آدمی کفر کی طرف واپسی کو آگ میں گرنے کے برابر سمجھے، تو اس کی یہ روش بھی ایمان میں داخل ہے

حدیث نمبر : 21
حدثنا سليمان بن حرب، قال حدثنا شعبة، عن قتادة، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ ثلاث من كن فيه وجد حلاوة الإيمان من كان الله ورسوله أحب إليه مما سواهما، ومن أحب عبدا لا يحبه إلا لله، ومن يكره أن يعود في الكفر بعد إذ أنقذه الله، كما يكره أن يلقى في النار‏"‏‏. ‏
اس حدیث کو ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، وہ قتادہ سے روایت کرتے ہیں، وہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے، اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس شخص میں یہ تین باتیں ہوں گی وہ ایمان کا مزہ پالے گا، ایک یہ کہ وہ شخص جسے اللہ اور اس کا رسول ان کے ماسوا سے زیادہ عزیز ہوں اور دوسرے یہ کہ جو کسی بندے سے محض اللہ ہی کے لیے محبت کرے اور تیسری بات یہ کہ جسے اللہ نے کفر سے نجات دی ہو، پھر دوبارہ کفر اختیار کرنے کو وہ ایسا برا سمجھے جیسا آگ میں گر جانے کو برا جانتا ہے۔

تشریح : ظاہر ہے کہ جس شخص کے دل میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت فی الحقیقت بیٹھ جائے وہ کفر کوکسی حالت میں برداشت نہیں کرے گا۔ لیکن اس محبت کا اظہار محض اقرار سے نہیں بلکہ اطاعت احکام اور مجاہدئہ نفس سے ہوتا ہے اور ایسا ہی آدمی درحقیقت اسلام کی راہ میں مصیبتیں جھیل کربھی خوش رہ سکتا ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جملہ عادات پاکیزہ اور استقامت یہ سب ایمان میں داخل ہیں۔ ابھی پیچھے یہی حدیث ذکر ہوچکی ہے۔ جس میں بعداذانقذہ اللہ کے لفظ نہیں تھے۔ مزید تفصیل کے لیے پچھلے صفحات کا مطالعہ کیاجائے۔

حضرات نواب صدیق حسن خاں رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں وہذا الحدیث بمعنی حدیث ذاق طعم الایمان من رضی باللہ ربا وبالاسلام دینا وبمحمدصلی اللہ علیہ وسلم رسولاوذلک انہ لایصح المحبۃ للہ ورسولہ حقیقۃ وحب الادمی فی اللہ ورسولہ وکراہۃ الرجوع الی الکفر لایکون الالمن قوی الایمان یقینہ واطمانت بہ نفسہ وانشرح لہ صدرہ وخالط لحمہ ودمہ وہذا ہوالذی وجد حلاوتہ والحب فی اللہ من ثمرات حب اللہ ( سراج الوھاج، ص: 36 ) یعنی یہ حدیث دوسری حدیث ذاق طعم الایمان الخ ہی کے معنی میں ہے جس میں وارد ہے کہ ایمان کا مزہ اس نے چکھ لیا جو اللہ سے ازروئے رب ہونے کے راضی ہوگیا اور یہ نعمت اسی خوش نصیب انسان کو حاصل ہوتی ہے۔ جس کے ایمان نے اس کے یقین کو طاقت ور کردیا ہو اور اس سے اس کا نفس مطمئن ہوگیا اور اس کا سینہ کھل گیا اور ایمان ویقین اس کے گوشت پوست اور خون میں داخل ہوگیا۔ یہی وہ خوش نصیب ہے جس نے ایمان کی حلاوت پائی اور اللہ کے لیے اس کے نیک بندوں کی محبت اللہ ہی کی محبت کا پھل ہے۔ پھر آگے حضرت نواب صاحب مرحوم فرماتے ہیں کہ محبت دلی میلان کا نام ہے۔ کبھی یہ حسین وجمیل صورتوں کی طرف ہوتا ہے، کبھی اچھی آواز یا اچھے کھانے کی طرف، کبھی یہ لذت میلان باطنی معانی سے متعلق ہوتی ہے۔ جیسے صالحین وعلماءواہل فضل سے ان کے مراتب کمال کی بنا پر محبت رکھنا۔ کبھی محبت ایسے لوگوں سے پیدا ہوجاتی ہے جو صاحب احسان ہیں۔ جنھوں نے تکالیف اور مصائب کے وقت مدد کی ہے۔ ایسے لوگوں کی محبت بھی مستحسن ہے اور اس قسم کی جملہ خوبیاں اللہ کے نبی حضرت محمد مصطفی اکی ذات گرامی میں جمع ہیں۔ آپ کا جمال ظاہر وباطن اور آپ کے خصال حمیدہ اور فضائل اور جمیع المسلمین پر آپ کے احسانات ظاہر ہیں۔ اس لیے آپ کی محبت عین تقاضائے ایمان ہے۔
آگے حضرت نواب مرحوم نے عشق مجازی پر ایک طویل تبصرہ فرماتے ہوئے بتلایا ہے کہ ومن اعظم مکائد الشیطان مافتن بہ عشاق صور المرد والنسوان وتلک لعمراللہ فتنۃ کبریٰ وبلیۃ عظمیٰ الخ۔ یعنی شیطان کے عظیم ترجالوں میں سے ایک یہ جال ہے جس میں بہت سے عشاق مبتلا رہتے چلے آئے ہیں اور اس وقت بھی موجودہیں جولڑکوں اور عورتوں کی صورتوں پر عاشق ہوکر اپنی دنیاو آخرت تباہ کرلیتے ہیں اور قسم اللہ کی یہ بہت ہی بڑا فتنہ اور بہت ہی بڑی مصیبت ہے۔ اللہ ہر مردمسلمان کواس سے محفوظ رکھے۔ آمین
حضرت امام المفسرین ناصرالمحدثین نواب صاحب مرحوم دوسری جگہ اپنے مشہور مقالہ تحریم الخمر میں فرماتے ہیں:
“ مرض عشق کو شراب وزنا کے ساتھ مثل غنا کے ایک مناسبت خاص ہے۔ یہ مرض شہوت فرج سے پیدا ہوتا ہے۔ جس کسی مزاج پر شہوت غالب آجاتی ہے تو یہ بیماری اس شہوت پرست کو پکڑلیتی ہے جب وصال معشوق محال ہوتا ہے یامیسر نہیں آتا تو عشق سے حرکات بے عقلی ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ لہٰذا کتب دین میں عشق کی مذمت آئی ہے اور اس کا انجام شرک ٹھہرایا ہے۔ قرآن و حدیث میں کسی جگہ اس منحوس لفظ کا استعمال نہیں ہوا۔ قصہ زلیخا میں افراط محبت کو بلفظ “ شغف حب ”تعبیر کیا ہے۔ یہ حرکت زلیخا سے حالت کفر میں صادر ہوئی تھی۔ ہنود میں بھی ظہورعشق عورتوں کی طرف سے ہوتا ہے۔ بخلاف عرب کے کہ وہاں مرد عشاق زن ہوتے ہیں۔ جس طرح کہ قیس لیلیٰ پر فریفتہ تھا۔ اس سے بدتر عشق اہل فرس کا ہے کہ وہ امرد پر شیفتہ ہوتے ہیں۔ یہ ایک قسم لواط اور اغلام کی ہے۔ جس طرح کہ عورت کی طرف سے عشق کا ظہور ایک مقدمہ زنا ہے۔ جو کوئی اس مرض کا مریض ہوتا ہے وہ شرابی زانی ہو جاتا ہے۔ اہل علم نے لکھا ہے کہ عشق بندے کو توحید سے روک کرگرفتار شرک و بت پر ستی کردیتا ہے۔ اس لیے کہ عاشق معشوق کا بندہ ہو جاتا ہے اس کی رضامندی کو خالق کی رضامندی پر مقدم رکھتا ہے۔ یہی اس کی صنم پر ستی ہے۔ کتاب اغاثۃ اللھفان وکتاب الدواءالکافی اور دیگر رسائل میں آفات ومصائب کو تفصیل وار لکھا ہے اللہ تعالیٰ ہرمسلمان کو اس شرک شیرین وکفر نمکین سے بچاکر اپنی محبت بخشے اور مجاز سے حقیقت کی طرف لائے۔ حدیث میں آیا ہے حبک الشی یعمی ویصم یعنی کسی چیز کی محبت تجھ کو اندھا بہرا بنادیتی ہے۔
راقم الحروف کہتا ہے کہ یہی حال مقلدین جامدین کا ہے جن کا طور طریقہ بالکل ان لوگوں کے مطابق ہے۔ جن کا حال اللہ پاک نے یوں بیان فرمایا ہے : اتخذوا احبارہم و رہبانہم اربابا من دون اللہ ( التوبہ: 31 ) انھوں نے اپنے علماءومشائخ کو اللہ کے سوا اپنا رب بنالیا ہے۔ ائمہ مجتہدین کا احترام اپنی جگہ پر ہے مگر ان کے ہرفتویٰ ہرارشاد کو وحی آسمانی کا درجہ دینا کسی طرح بھی مناسب نہیں کہا جاسکتا۔ اللہ پاک ہر مسلمان کو افراط وتفریط سے بچائے۔ آمین
 
Top