• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ١ - (حدیث نمبر ١ تا ٨١٣)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان
باب : امام اس لیے مقرر کیا جاتا ہے کہ لوگ اس کی پیروی کریں

وصلى النبي صلى الله عليه وسلم في مرضه الذي توفي فيه بالناس وهو جالس‏.‏ وقال ابن مسعود إذا رفع قبل الإمام يعود فيمكث بقدر ما رفع ثم يتبع الإمام‏.‏ وقال الحسن فيمن يركع مع الإمام ركعتين ولا يقدر على السجود يسجد للركعة الآخرة سجدتين، ثم يقضي الركعة الأولى بسجودها‏.‏ وفيمن نسي سجدة حتى قام يسجد‏.‏
اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض وفات میں لوگوں کو بیٹھ کر نماز پڑھائی ( لوگ کھڑے ہوئے تھے ) اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ جب کوئی امام سے پہلے سر اٹھا لے ( رکوع میں سجدے میں ) تو پھر وہ رکوع یا سجدے میں چلا جائے اور اتنی دیر ٹھہرے جتنی دیر سر اٹھائے رہا تھا پھر امام کی پیروی کرے۔ اور امام حسن بصری رحمہ اللہ علیہ نے کہا کہ اگر کوئی شخص امام کے ساتھ دو رکعات پڑھے لیکن سجدہ نہ کر سکے، تو وہ آخری رکعت کے لیے دو سجدے کرے۔ پھر پہلی رکعت سجدہ سمیت دہرائے اور جو شخص سجدہ کئے بغیر بھول کر کھڑا ہو گیا تو وہ سجدے میں چلا جائے۔

حدیث نمبر : 687
حدثنا أحمد بن يونس، قال حدثنا زائدة، عن موسى بن أبي عائشة، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، قال دخلت على عائشة فقلت ألا تحدثيني عن مرض رسول الله صلى الله عليه وسلم قالت بلى، ثقل النبي صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ أصلى الناس‏"‏‏. ‏ قلنا لا، هم ينتظرونك‏.‏ قال ‏"‏ ضعوا لي ماء في المخضب‏"‏‏. ‏ قالت ففعلنا فاغتسل فذهب لينوء فأغمي عليه، ثم أفاق فقال صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أصلى الناس‏"‏‏. ‏ قلنا لا، هم ينتظرونك يا رسول الله‏.‏ قال ‏"‏ ضعوا لي ماء في المخضب‏"‏‏. ‏ قالت فقعد فاغتسل، ثم ذهب لينوء فأغمي عليه، ثم أفاق فقال ‏"‏ أصلى الناس‏"‏‏. ‏ قلنا لا، هم ينتظرونك يا رسول الله‏.‏ فقال ‏"‏ ضعوا لي ماء في المخضب ‏"‏، فقعد فاغتسل، ثم ذهب لينوء فأغمي عليه، ثم أفاق فقال ‏"‏ أصلى الناس‏"‏‏. ‏ فقلنا لا، هم ينتظرونك يا رسول الله ـ والناس عكوف في المسجد ينتظرون النبي عليه السلام لصلاة العشاء الآخرة ـ فأرسل النبي صلى الله عليه وسلم إلى أبي بكر بأن يصلي بالناس، فأتاه الرسول فقال إن رسول الله صلى الله عليه وسلم يأمرك أن تصلي بالناس‏.‏ فقال أبو بكر ـ وكان رجلا رقيقا ـ يا عمر صل بالناس‏.‏ فقال له عمر أنت أحق بذلك‏.‏ فصلى أبو بكر تلك الأيام، ثم إن النبي صلى الله عليه وسلم وجد من نفسه خفة فخرج بين رجلين أحدهما العباس لصلاة الظهر، وأبو بكر يصلي بالناس، فلما رآه أبو بكر ذهب ليتأخر فأومأ إليه النبي صلى الله عليه وسلم بأن لا يتأخر‏.‏ قال ‏"‏ أجلساني إلى جنبه‏"‏‏. ‏ فأجلساه إلى جنب أبي بكر‏.‏ قال فجعل أبو بكر يصلي وهو يأتم بصلاة النبي صلى الله عليه وسلم والناس بصلاة أبي بكر، والنبي صلى الله عليه وسلم قاعد‏.‏ قال عبيد الله فدخلت على عبد الله بن عباس فقلت له ألا أعرض عليك ما حدثتني عائشة عن مرض النبي صلى الله عليه وسلم قال هات‏.‏ فعرضت عليه حديثها، فما أنكر منه شيئا، غير أنه قال أسمت لك الرجل الذي كان مع العباس قلت لا‏.‏ قال هو علي‏.‏
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں زائدہ بن قدامہ نے موسیٰ بن ابی عائشہ سے خبر دی، انہوں نے عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے، انہوں نے کہا کہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا، کاش! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کی حالت آپ ہم سے بیان کرتیں، ( تو اچھا ہوتا ) انھوں نے فرمایا کہ ہاں ضرور سن لو۔ آپ کا مرض بڑھ گیا۔ تو آپ نے دریافت فرمایا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟ ہم نے عرض کی جی نہیں یا رسول اللہ! لوگ آپ کا انتظام کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ میرے لیے ایک لگن میں پانی رکھ دو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ہم نے پانی رکھ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر غسل کیا۔ پھر آپ اٹھنے لگے، لیکن آپ بے ہوش ہو گئے۔ جب ہوش ہوا تو پھر آپ نے پوچھا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے۔ ہم نے عرض کی نہیں حضور! لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ آپ نے ( پھر ) فرمایا کہ لگن میں میرے لیے پانی رکھ دو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم نے پھر پانی رکھ دیا اور آپ نے غسل فرمایا۔ پھر اٹھنے کی کوشش کی لیکن ( دوبارہ ) پھر آپ بے ہوش ہو گئے۔ جب ہوش ہوا تو آپ نے پھر یہی فرمایا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے۔ ہم نے عرض کی کہ نہیں یا رسول اللہ! لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ آپ نے پھر فرمایا کہ لگن میں پانی لاؤ اور آپ نے بیٹھ کر غسل کیا۔ پھر اٹھنے کی کوشش کی، لیکن پھر آپ بے ہوش ہو گئے۔ پھر جب ہوش ہوا تو آپ نے پوچھا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہم نے عرض کی کہ نہیں یا رسول اللہ! وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ لوگ مسجد میں عشاء کی نماز کے لیے بیٹھے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آدمی بھیجا اور حکم فرمایا کہ وہ نماز پڑھا دیں۔ بھیجے ہوئے شخص نے آ کر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو نماز پڑھانے کے لیے حکم فرمایا ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ بڑے نرم دل انسان تھے۔ انھوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم نماز پڑھاؤ، لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ آپ اس کے زیادہ حق دار ہیں۔ آخر ( بیماری ) کے دنوں میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھاتے رہے۔ پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مزاج کچھ ہلکا معلوم ہوا تو دو مردوں کا سہارا لے کر جن میں ایک حضرت عباس رضی اللہ عنہ تھے ظہر کی نماز کے لیے گھر سے باہر تشریف لائے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھا رہے تھے، جب انھوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو پیچھے ہٹنا چاہا، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارے سے انھیں روکا کہ پیچھے نہ ہٹو! پھر آپ نے ان دونوں مردوں سے فرمایا کہ مجھے ابوبکر کے بازو میں بٹھا دو۔ چنانچہ دونوں نے آپ کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بازو میں بٹھا دیا۔ راوی نے کہا کہ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کر رہے تھے اور لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی نماز کی پیروی کر رہے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے بیٹھے نماز پڑھ رہے تھے۔ عبید اللہ نے کہا کہ پھر میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں گیا اور ان سے عرض کی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے بارے میں جو حدیث بیان کی ہے کیا میں آپ کو سناؤں؟ انھوں نے فرمایا کہ ضرور سناؤ۔ میں نے یہ حدیث سنا دی۔ انھوں نے کسی بات کا انکار نہیں کیا۔ صرف اتنا کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان صاحب کا نام بھی تم کو بتا دیا جو حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ میں نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے۔

تشریح : امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا کہ مرض موت میں آپ نے لوگوں کو یہی نماز پڑھائی وہ بھی بیٹھ کر بعض نے گمان کیا کہ یہ فجر کی نماز تھی، کیوں کہ دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے وہیں سے قرات شرو ع کی جہاں تک ابوبکر پہنچے تھے مگر یہ صحیح نہیں ہے کیوں کہ ظہر میں بھی آیت کا سننا ممکن ہے۔ جیسے ایک حدیث میں ہے کہ آپ سری نماز میں بھی اس طرح سے قرات کرتے تھے کہ ایک آدھ آیت ہم کو سنا دیتے یعنی پڑھتے پڑھتے ایک آدھ آیت ذرا ہلکی آواز سے پڑھ دیتے کہ مقتدی اس کو سن لیتے۔ ( مولانا وحید الزماں مرحوم )

ترجمۃ الباب کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ہذہ الترجمۃ قطعۃ من الحدیث الآتی فی الباب و المراد بہا ان الائتمام یقتضی متابعۃ الماموم لامامہ الخ ( فتح ) یعنی یہ باب حدیث ہی کا ایک ٹکڑا ہے جو آگے مذکور ہے۔ مرا دیہ ہے کہ اقتدا کرنے کا اقتضاءہی یہ ہے کہ مقتدی اپنے امام کی نماز میں پیروی کرے اس پر سبقت نہ کرے۔ مگر دلیل شرعی سے کچھ ثابت ہو تو وہ امر دیگر ہے۔ جیسا کہ یہاں مذکور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر نماز پڑھائی اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔

حدیث نمبر : 688
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة أم المؤمنين، أنها قالت صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم في بيته وهو شاك، فصلى جالسا وصلى وراءه قوم قياما، فأشار إليهم أن اجلسوا، فلما انصرف قال ‏"‏ إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا ركع فاركعوا، وإذا رفع فارفعوا، وإذا صلى جالسا فصلوا جلوسا‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا کہا کہ ہم سے امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے ہشام بن عروہ سے بیان کیا۔ انہوں نے اپنے باپ عروہ سے انہوں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ آپ نے بتلایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ بیماری کی حالت میں میرے ہی گھر میں نماز پڑھی۔ آپ بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر پڑھ رہے تھے۔ آپ نے ان کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد فرمایا کہ امام اس لیے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ اس لیے جب وہ رکوع میں جائے تو تم بھی رکوع میں جاؤ اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا ولک الحمد کہو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔

تشریح : قسطلانی نے کہا کہ اس حدیث سے حضرت امام ابوحنفیہ رحمۃ اللہ علیہ نے دلیل لی کہ امام فقط سمع اللہ لمن حمدہ کہے اور مقتدی ربنا لک الحمد یا ربنا و لک الحمد یا اللہم ربنا لک الحمد کہے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور ہمارے امام احمد بن حنبل کا یہ قول ہے کہ امام دونوں لفظ کہے اور اسی طرح مقتدی بھی دونوں لفظ کہے۔ ( مولانا وحید الزماں )

حدیث نمبر : 689
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن أنس بن مالك، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ركب فرسا فصرع عنه، فجحش شقه الأيمن، فصلى صلاة من الصلوات وهو قاعد، فصلينا وراءه قعودا، فلما انصرف قال ‏"‏ إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا صلى قائما فصلوا قياما، فإذا ركع فاركعوا، وإذا رفع فارفعوا، وإذا قال سمع الله لمن حمده‏.‏ فقولوا ربنا ولك الحمد‏.‏ وإذا صلى قائما فصلوا قياما، وإذا صلى جالسا فصلوا جلوسا أجمعون‏"‏‏. ‏ قال أبو عبد الله قال الحميدي قوله ‏"‏ إذا صلى جالسا فصلوا جلوسا‏"‏‏. ‏ هو في مرضه القديم، ثم صلى بعد ذلك النبي صلى الله عليه وسلم جالسا والناس خلفه قياما، لم يأمرهم بالقعود، وإنما يؤخذ بالآخر فالآخر من فعل النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے ابن شہاب سے خبر دی، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھوڑے پر سوار ہوئے تو آپ اس پر سے گر پڑے۔ اس سے آپ کے دائیں پہلو پر زخم آئے۔ تو آپ نے کوئی نماز پڑھی۔ جسے آپ بیٹھ کر پڑھ رہے تھے۔ اس لیے ہم نے بھی آپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ جب آپ فارغ ہوئے تو فرمایا کہ امام اس لیے مقرر کیا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے۔ اس لیے جب وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر پڑھو اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو۔ جب وہ رکوع سے سر اٹھائے تو تم بھی اٹھاؤ اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا لک الحمد کہو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو۔ ابوعبداللہ ( امام بخاری رحمہ اللہ علیہ ) نے کہا کہ حمیدی نے آپ کے اس قول “ جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو۔ ” کے متعلق کہا ہے کہ یہ ابتداء میں آپ کی پرانی بیماری کا واقعہ ہے۔ اس کے بعد آخری بیماری میں آپ نے خود بیٹھ کر نماز پڑھی تھی اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر اقتدا کر رہے تھے۔ آپ نے اس وقت لوگوں کو بیٹھنے کی ہدایت نہیں فرمائی اور اصل یہ ہے کہ جو فعل آپ کا آخری ہو اس کو لینا چاہئے اور پھر جو اس سے آخری ہو۔

تشریح : صاحب عون المعبود رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: قال الخطابی قلت و فی اقامۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابابکر عن یمینہ و ہو مقام الماموم و فی تکبیرہ بالناس و تکبیر ابی بکر بتکبیرہ بیان واضح ان الامام فی ہذہ الصلوٰۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وقد صلی قاعداً و الناس من خلفہ قیام و ہی اخر صلوٰۃ صلاہا بالناس فدل علی ان حدیث انس و جابر منسوخ و یزید ما قلناہ وضوحا ما رواہ ابو معاویۃ عن الاعمش عن ابراہیم عن الاسود عن عائشۃ قالت لما ثقل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و ذکر الحدیث قالت فجاءرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصلی بالناس جالسا و ابوبکر قائما یقتدی بہ و الناس یقتدون بابی بکر حدثونا بہ عن یحیی بن محمد بن یحیٰی قال نا مسدد قال نا ابومعاویۃ و القیاس یشہد لہذا القول لان الامام لا یسقط عن القوم شیئا من ارکان الصلٰوۃ مع القدرۃ علیہ الا تری انہ لا یحیل الرکوع و السجود الی الایماءو کذلک لایحیل القیام الی القعود و الی ہذا ذہب سفیان الثوری و صاحب الرای و الشافعی و ابوثور و قال مالک بن انس لا ینبغی لاحد ان یوم الناس قاعداً و ذہب احمد بن حنبل و اسحق بن راہویہ و نفر من اہل الحدیث الی خبر انس فان الامام اذا صلی قاعداً صلوٰا من خلفہ قعوداً و زرعم بعض اہل الحدیث ان الروایات اختلف فی ہذا فروی الاسود عن عائشۃ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان اماما و روی شقیق عنہا ان الامام کان ابوبکر فلم یجز ان یترک بہ حدیث انس و جابر ( عون المعبود، ج:1ص:234 )
یعنی امام خطابی نے کہا کہ حدیث مذکورہ میں جہاں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں جانب کھڑا ہونا ذکر ہے جو مقتدی کی جگہ ہے اور ان لوگوں کا تکبیر کہنا اور ابوبکر کی تکبیروں کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تکبیر کے پیچھے ہونا اس میں واضح بیان موجود ہے کہ اس نماز میں امام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے اور آپ بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے اور سارے صحابہ آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر پڑھ رہے تھے اور یہ آخری نماز ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھائی۔ جو اس بات پر دلیل ہے کہ حضرت انس اور جابر کی احادیث جن میں امام بیٹھا ہو تو مقتدیوں کو بھی بیٹھنا لازم مذکور ہے۔ وہ منسوخ ہے اور ہم نے جو کہا ہے اس کی مزید وضاحت اس روایت سے ہوگئی ہے جسے ابومعاویہ نے اعمش سے، انھوں نے ابراہیم سے، انھوں نے اسود سے انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ بیمار ہو گئے تو آپ تشریف لائے اور ابوبکر کی بائیں جانب بیٹھ گئے اور آپ بیٹھ کر ہی لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے اور ابوبکر کھڑے ہو کر آپ کی اقتدا کر رہے تھے اور دیگر جملہ نمازی کھڑے ہو کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اقتدا کر رہے تھے۔ اور قیاس بھی یہی چاہتا ہے کہ امام ارکان صلوۃمیں سے مقتدیوں سے جب وہ ان پر قادر ہوں کسی رکن کو ساقط نہیں کرسکتا۔ نہ وہ رکوع سجود ہی کو محض اشاروں سے ادا کرسکتا ہے تو پھر قیام جو ایک رکن نماز ہے اسے قعود سے کیسے بدل سکتا ہے۔ امام سفیان ثوری اور اصحاب رائے اور امام شافعی اور ابوثور وغیرہ کا یہی مسلک ہے اور حضرت امام مالک بن انس کہتے ہیں کہ مناسب نہیں کہ کوئی بیٹھ کر لوگوں کی امامت کرائے اور امام احمد بن حنبل اور اسحق بن راہویہ اور ایک گروہ اہل حدیث کا یہی مسلک ہے جو حدیث انس میں مذکور ہے کہ جب امام بیٹھ کر نماز پڑھائے تو مقتدی بھی بیٹھ کر ہی پڑھیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔

راقم کہتا ہے کہ میں اس تفصیل کے لیے سخت حیران تھا۔ “ تحفۃ الاحوذی، نیل الاوطار، فتح الباری ” وغیرہ جملہ کتب سامنے تھیں مگر کسی سے تشفی نہ ہو رہی تھی کہ اچانک اللہ سے امر حق کے لیے دعا کرکے عون المعبود کو ہاتھ میں لیا اور کھولنے کے لیے ہاتھ بڑھایا کہ پہلی ہی دفعہ فی الفور تفصیل بالا سامنے آگئی جسے یقیناً تائید غیبی کہنا ہی مناسب ہے۔ والحمد للہ علی ذلک۔ ( راز
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان
باب : امام کے پیچھے مقتدی کب سجدہ کریں؟

قال أنس: عن النبي صلى الله عليه وسلم وإذا سجد فاسجدوا.
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ جب امام سجدہ کرے تو تم لوگ بھی سجدہ کرو ( یہ حدیث پیچھے گزر چکی ہے )

حدیث نمبر : 690
حدثنا مسدد، قال حدثنا يحيى بن سعيد، عن سفيان، قال حدثني أبو إسحاق، قال حدثني عبد الله بن يزيد، قال حدثني البراء ـ وهو غير كذوب ـ قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قال سمع الله لمن حمده‏.‏ لم يحن أحد منا ظهره حتى يقع النبي صلى الله عليه وسلم ساجدا، ثم نقع سجودا بعده‏. حدثنا أبو نعيم، عن سفيان، عن أبي إسحق: نحوه بهذا.‏
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید نے سفیان سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابواسحاق نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن یزید نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، وہ جھوٹے نہیں تھے۔ ( بلکہ نہایت ہی سچے تھے ) انہوں نے بتلایا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو ہم میں سے کوئی بھی اس وقت تک نہ جھکتا جب تک آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں نہ چلے جاتے پھر ہم لوگ سجدہ میں جاتے۔ ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے، انھوں نے ابواسحق سے جیسے اوپر گزرا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان
باب : ( رکوع یا سجدہ میں ) امام سے پہلے سر اٹھانے والے کا گناہ کتنا ہے؟

حدیث نمبر : 691
حدثنا حجاج بن منهال، قال حدثنا شعبة، عن محمد بن زياد، سمعت أبا هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ أما يخشى أحدكم ـ أو لا يخشى أحدكم ـ إذا رفع رأسه قبل الإمام أن يجعل الله رأسه رأس حمار أو يجعل الله صورته صورة حمار‏"‏‏. ‏
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے محمد بن زیاد سے بیان کیا، کہا کہ میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم میں وہ شخص جو ( رکوع یا سجدہ میں ) امام سے پہلے اپنا سر اٹھا لیتا ہے اس بات سے نہیں ڈرتا کہ کہیں اللہ پاک اس کا سر گدھے کے سر کی طرح بنا دے یا اس کی صورت کو گدھے کی سی صورت بنا دے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان
باب : غلام کی اور آزاد کئے ہوئے غلام کی امامت کا بیان

وكانت عائشة يؤمها عبدها ذكوان من المصحف‏.‏ وولد البغي والأعرابي والغلام الذي لم يحتلم، لقول النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ يؤمهم أقرؤهم لكتاب الله‏"‏‏. ‏ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی امامت ان کا غلام ذکوان قرآن دیکھ کر کیا کرتا تھا اور ولد الزنا اور گنوار اور نابالغ لڑکے کی امامت کا بیان کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ کتاب اللہ کا سب سے بہتر پڑھنے والا امامت کرائے اور غلام کو بغیر کسی خاص عذر کے جماعت میں شرکت سے نہ روکا جائے گا۔

تشریح : مقصد باب یہ ہے کہ غلام اگر قرآن شریف کا زیادہ عالم ہو تو وہ امامت کراسکتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے غلام ذکوان ان کو نماز پڑھایا کرتے تھے اور جہری نمازوں میں وہ مصحف دیکھ کر قرات کیا کرتے تھے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وصلہ ابوداود فی کتاب المصاحف من طریق ایوب عن ابن ابی ملیکۃ ان عائشۃ کان یومہا غلامہا ذکوان فی المصحف و وصلہ ابن ابی شیبۃ قال حدثنا وکیع عن ہشام بن عروۃ عن ابن ابی ملیکۃ عن عائشۃ انہا اعتقت غلاما لہا عن دبر فکان یومہا فی رمضان فی المصحف ووصلہ الشافعی و عبدالرزاق من طریق اخریٰ عن ابن ابی ملیکۃ انہ کان یاتی عائشۃ باعلی الوادی ہو و ابوہ و عبید بن عمیر و المسور بن مخرمۃ و ناس کثیر فیومہم ابوعمرو و مولیٰ عائشۃ و ہو یومئذ غلام لم یعتق و ابو عمر و المذکور ہو ذکوان ( فتح الباری ) خلاصہ اس عبا رت کا یہی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے غلام ابوعمرو ذکوان نامی رمضان شریف میں شہرسے دور وادی سے آتے، ان کے ساتھ ان کا باپ ہوتا اور عبید بن عمیر اور مسور بن مخرمہ اور بھی بہت سے لوگ جمع ہوجاتے۔ اور وہ ذکوان غلام قرآن شریف دیکھ کر قرات کرتے ہوئے نماز پڑھایا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بعد میں ان کو آزاد بھی کر دیا تھا۔ چونکہ روایت میں رمضان کا ذکر ہے لہٰذا احتمال ہے کہ وہ تراویح کی نماز پڑھایا کرتے ہوں اور اس میں قرآن شریف دیکھ کر قرات کیا کرتے ہوں۔ اس روایت کو ابوداود نے کتاب المصحف میں اور ابن ابی شیبہ اور امام شافعی اور عبدالرزاق وغیرہ نے موصولاً روایت کیا ہے۔

حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: استدل بہ علی جواز القراۃ للمصلی من المصحف و منع عنہ اخرون لکونہ عملاً کثیرا فی الصلوٰۃ ( فتح الباری ) یعنی اس سے دلیل لی گئی ہے کہ مصلی قرآن شریف دیکھ کر قرات جوازاً کر سکتا ہے اور دوسرے لوگوں نے اسے جائز نہیں سمجھا کیوں کہ ان کے خیال کے مطابق یہ نماز میں عمل کثیر ہے جو منع ہے۔

تحریف کا ایک نمونہ: ہمارے محترم علمائے دیوبند رحمہم اللہ اجمعین جو بخاری شریف کا ترجمہ اور شرح شائع فرما رہے ہیں۔ ان کی جرات کہئے یا حمایت مسلک کہ بعض بعض جگہ ایسی تشریح کر ڈالتے ہیں جو صراحتاً تحریف ہی کہنا چاہئے۔ جس کا ایک نمونہ یہاں بھی موجود ہے، چنانچہ صاحب تفہیم البخاری دیوبندی اس کی تشریح یوں فرماتے ہیں کہ “ حضرت ذکوان کی نماز میں قرآن مجید سے قرات کا مطلب یہ ہے کہ دن میں آیتیں یاد کر لیتے تھے اور رات کے وقت انہیں نمازمیں پڑھتے تھے۔ ( تفہیم البخاری، پ:3 ص:92 )
ایسا تو سارے ہی حفاظ کرتے ہیں کہ دن بھر دور فرماتے اور رات کو سنایا کرتے ہیں۔ اگر حضرت ذکوان بھی ایسا ہی کرتے تھے تو خصوصیت کے ساتھ ان کا ذکر کرنے کی راویوں کو کیا ضرورت تھی، پھر روایت میں صاف فی المصحف کا لفظ موجود ہے۔ جس کا مطلب ظاہر ہے کہ قرآن شریف دیکھ کر قرات کیا کرتے تھے چونکہ مسلک حنفیہ میں ایسا کرنے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے ا س لیے تفہیم البخاری کو اس روایت کی تاویل کرنے کے لیے ا س غلط تشریح کاسہارا لینا پڑا۔ اللہ پاک علماءدین کو توفیق دے کہ وہ اپنی علمی ذمہ داریوں کو محسوس فرمائیں۔ آمین
اگر مقتدیوں میں صرف کوئی نابالغ لڑکا ہی زیادہ قرآن شریف جاننے والا ہو تو وہ امامت کراسکتا ہے مگر فقہائے حنفیہ اس کے خلاف ہیں۔ وہ مطلقاً منع کا فتوی دیتے ہیں جو غلط ہے۔

حدیث نمبر : 692
حدثنا إبراهيم بن المنذر، قال حدثنا أنس بن عياض، عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر، قال لما قدم المهاجرون الأولون العصبة ـ موضع بقباء ـ قبل مقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يؤمهم سالم مولى أبي حذيفة، وكان أكثرهم قرآنا‏.‏
ہم سے ابراہیم بن منذر حزامی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے انس بن عیاض نے بیان کیا انہوں نے عبید اللہ عمری سے، انہوں نے حضرت نافع سے انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ جب پہلے مہاجرین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے بھی پہلے قبا کے مقام عصبہ میں پہنچے تو ان کی امامت ابوحذیفہ کے غلام سالم رضی اللہ عنہ کیا کرتے تھے۔ آپ کو قرآن مجید سب سے زیادہ یاد تھا۔

حدیث نمبر : 693
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا يحيى، حدثنا شعبة، قال حدثني أبو التياح، عن أنس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ اسمعوا وأطيعوا، وإن استعمل حبشي كأن رأسه زبيبة‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوالتیاح یزید بن حمید ضبعی نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بیان کیا، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ نے فرمایا ( اپنے حاکم کی ) سنو اور اطاعت کرو، خواہ ایک ایسا حبشی ( غلام تم پر ) کیوں نہ حاکم بنا دیا جائے جس کا سر سوکھے ہوئے انگور کے برابر ہو۔

تشریح : اس سے باب کا مطلب یوں نکلتا ہے کہ جب حبشی غلام کی جو حاکم ہو اطاعت کا حکم ہوا تو اس کی امامت بطریق اولیٰ صحیح ہو گی کیوں کہ اس زمانہ میں جو حاکم ہوتا وہی امامت بھی نماز میں کیا کرتا تھا۔ اس حدیث سے یہ دلیل بھی لی ہے کہ بادشاہ وقت سے گو وہ کیسا ہی ظالم بے وقوف ہو لڑنا اور فساد کرنا نادرست ہے بشرطیکہ وہ جائز خلیفہ یعنی قریش کی طرف سے بادشاہ بنایا گیا ہو۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ حبشی غلام کی خلافت درست ہے کیوں کہ خلافت سوائے قریشی کے اور کسی قوم کی درست نہیں ہے جیسے دوسری حدیث سے ثابت ہے ( مولانا وحید الزماں مرحوم )
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان
باب : اگر امام اپنی نماز کو پورا نہ کرے اور مقتدی پورا کریں

حدیث نمبر : 694
حدثنا الفضل بن سهل، قال حدثنا الحسن بن موسى الأشيب، قال حدثنا عبد الرحمن بن عبد الله بن دينار، عن زيد بن أسلم، عن عطاء بن يسار، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ يصلون لكم، فإن أصابوا فلكم، وإن أخطئوا فلكم وعليهم‏"‏‏. ‏
ہم سے فضل بن سہل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حسن بن موسیٰ اشیب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعبدالرحمن بن عبداللہ بن دینار نے بیان کیا زید بن اسلم سے، انہوں نے عطاء بن یسار سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امام لوگوں کو نماز پڑھاتے ہیں۔ پس اگر امام نے ٹھیک نماز پڑھائی تو اس کا ثواب تمہیں ملے گا اور اگر غلطی کی تو بھی ( تمہاری نماز کا ) ثواب تم کو ملے گا اور غلطی کا وبال ان پر رہے گا۔

یعنی امام کی نمازمیں نقص رہ جانے سے مقتدیوں کی نماز میں کوئی خلل نہ ہوگا۔ جب انہوں نے تمام شرائط اور ارکان کو پورا کیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان

باب : باغی اور بدعتی کی امامت کا بیان

وقال الحسن صل وعليه بدعته‏.‏
اور بدعتی کے متعلق امام حسن بصری رحمہ اللہ علیہ نے کہا کہ تو اس کے پیچھے نماز پڑھ لے اس کی بدعت اس کے سر رہے گی۔
حدیث نمبر : 695
قال أبو عبد الله وقال لنا محمد بن يوسف حدثنا الأوزاعي، حدثنا الزهري، عن حميد بن عبد الرحمن، عن عبيد الله بن عدي بن خيار، أنه دخل على عثمان بن عفان ـ رضى الله عنه ـ وهو محصور فقال إنك إمام عامة، ونزل بك ما ترى ويصلي لنا إمام فتنة ونتحرج‏.‏ فقال الصلاة أحسن ما يعمل الناس، فإذا أحسن الناس فأحسن معهم، وإذا أساءوا فاجتنب إساءتهم‏.‏ وقال الزبيدي قال الزهري لا نرى أن يصلى خلف المخنث إلا من ضرورة لا بد منها‏.‏
امام بخاری رحمہ اللہ علیہ نے کہا کہ ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے کہا کہ ہم سے امام اوزاعی نے بیان کیا، کہا ہم سے امام زہری نے حمید بن عبدالرحمن سے نقل کیا۔ انہوں نے عبید اللہ بن عدی بن خیار سے کہ وہ خود حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پاس گئے۔ جب کہ باغیوں نے ان کو گھیر رکھا تھا۔ انھوں نے کہا کہ آپ ہی عام مسلمانوں کے امام ہیں مگر آپ پر جو مصیبت ہے وہ آپ کو معلوم ہے۔ ان حالات میں باغیوں کا مقررہ امام نماز پڑھا رہا ہے۔ ہم ڈرتے ہیں کہ اس کے پیچھے نماز پڑھ کر گنہگار ہو جائیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا نماز تو جو لوگ کام کرتے ہیں ان کاموں میں سب سے بہترین کام ہے۔ تو وہ جب اچھا کام کریں تم بھی اس کے ساتھ مل کر اچھا کام کرو اور جب وہ برا کام کریں تو تم ان کی برائی سے الگ رہو اور محمد بن یزید زبیدی نے کہا کہ امام زہری نے فرمایا کہ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہیجڑے کے پیچھے نماز نہ پڑھیں۔ مگر ایسی ہی لاچاری ہو تو اور بات ہے جس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو۔

تشریح : مفتون کا ترجمہ باغی کیا ہے جو سچے برحق امام کے حکم سے پھر جائے۔ اور بدعتی سے عام بدعتی مراد ہے۔ خواہ اس کی بدعت اعتقادی ہو جیسے شیعہ، خوارج، مرجیہ، معتزلہ وغیرہ کی، خواہ عملی ہو جیسے سہرا باندھنے والا، تیجا، دسواں کرنے والا، تعزیہ یا علم اٹھانے والے، قبروں پر چراغاں کرنے والے، میلاد یا غنا یا مرثیہ کی مجلس کرنے والے کی، بشرطیکہ ان کی بدعت کفر اور شرک کی حد تک نہ پہنچے۔ اگر کفر یا شرک کے درجے پر پہنچ جائے تو ان کے پیچھے نماز درست نہیں۔ تسہیل میں ہے کہ سنت کہتے ہیں حدیث کو اور جماعت سے مراد صحابہ اور تابعین ہیں جو لوگ حدیث شریف پر چلتے ہیں اور اعتقاد اور عمل میں صحابہ اور تابعین کے طریق پر ہیں وہی اہل سنت والجماعت ہیں باقی سب بدعتی ہیں۔ ( مولانا وحید الزماں )

حدیث نمبر : 696
حدثنا محمد بن أبان، حدثنا غندر، عن شعبة، عن أبي التياح، أنه سمع أنس بن مالك، قال النبي صلى الله عليه وسلم لأبي ذر ‏"‏ اسمع وأطع، ولو لحبشي كأن رأسه زبيبة‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن ابان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر محمد بن جعفر نے بیان کیا شعبہ سے، انہوں نے ابوالتیاح سے، انہوں نے انس بن مالک سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوذر سے فرمایا ( حاکم کی ) سن اور اطاعت کر۔ خواہ وہ ایک ایسا حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو جس کا سر منقے کے برابر ہو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان
باب : جب صرف دو ہی نمازی ہوں تو مقتدی امام کے دائیں جانب اس کے برابر کھڑا ہو

حدیث نمبر : 697
حدثنا سليمان بن حرب، قال حدثنا شعبة، عن الحكم، قال سمعت سعيد بن جبير، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال بت في بيت خالتي ميمونة فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم العشاء، ثم جاء فصلى أربع ركعات ثم نام، ثم قام فجئت فقمت عن يساره، فجعلني عن يمينه، فصلى خمس ركعات، ثم صلى ركعتين، ثم نام حتى سمعت غطيطه ـ أو قال خطيطه ـ ثم خرج إلى الصلاة‏.‏
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے حکم سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے سعید بن جبیر سے سنا، وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے تھے کہ انہوں نے بتلایا کہ ایک رات میں اپنی خالہ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر پر رہ گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز کے بعد جب ان کے گھر تشریف لائے تو یہاں چار رکعت نماز پڑھی۔ پھر آپ سو گئے پھر نماز ( تہجد کے لیے ) آپ اٹھے ( اور نماز پڑھنے لگے ) تو میں بھی اٹھ کر آپ کی بائیں طرف کھڑا ہو گیا، لیکن آپ نے مجھے اپنی داہنی طرف کر لیا۔ آپ نے پانچ رکعت نماز پڑھی۔ پھر دو رکعت ( سنت فجر ) پڑھ کر سو گئے اور میں نے آپ کے خراٹے کی آواز بھی سنی۔ پھر آپ فجر کی نماز کے لیے برآمد ہوئے۔

تشریح : حدیث ہذا سے ثابت ہوا کہ جب امام کے ساتھ ایک ہی آدمی ہو تو وہ امام کے داہنی طرف کھڑا ہو جوان ہو یا نابالغ۔ پھر کوئی دوسرا آجائے تو وہ امام کے بائیں طرف نیت باندھ لے، پھر امام آگے بڑھ جائے یا مقتدی پیچھے ہٹ جائیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان
باب : اگر کوئی شخص امام کے بائیں طرف کھڑا ہو اور امام اسے پھر دائیں طرف کر لے تو دونوں میں سے کسی کی بھی نماز فاسد نہیں ہوگی

حدیث نمبر : 698
حدثنا أحمد، قال حدثنا ابن وهب، قال حدثنا عمرو، عن عبد ربه بن سعيد، عن مخرمة بن سليمان، عن كريب، مولى ابن عباس عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال نمت عند ميمونة والنبي صلى الله عليه وسلم عندها تلك الليلة، فتوضأ ثم قام يصلي، فقمت على يساره، فأخذني فجعلني عن يمينه، فصلى ثلاث عشرة ركعة، ثم نام حتى نفخ ـ وكان إذا نام نفخ ـ ثم أتاه المؤذن، فخرج فصلى ولم يتوضأ‏.‏ قال عمرو فحدثت به بكيرا فقال حدثني كريب بذلك‏.‏
ہم سے حماد بن صالح نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عمرو بن حارث مصری نے عبد ربہ بن سعید سے بیان کیا، انہوں نے مخرمہ بن سلیمان سے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام کریب سے انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے۔ آپ نے بتلایا کہ میں ایک رات ام المؤمنین میمونہ کے یہاں سو گیا۔ اس رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی وہیں سونے کی باری تھی۔ آپ نے وضو کیا اور نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہو گئے۔ میں آپ کے بائیں طرف کھڑا ہو گیا۔ اس لیے آپ نے مجھے پکڑ کر دائیں طرف کر دیا۔ پھر تیرہ رکعت ( وتر سمیت ) نماز پڑھی اور سو گئے۔ یہاں تک کہ خراٹے لینے لگے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سوتے تو خراٹے لیتے تھے۔ پھر مؤذن آیا تو آپ باہر تشریف لے گئے۔ آپ نے اس کے بعد ( فجر کی ) نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا۔ عمرو نے بیان کیا میں نے یہ حدیث بکیر بن عبداللہ کے سامنے بیان کی تو انھوں نے فرمایا کہ یہ حدیث مجھ سے کریب نے بھی بیان کی تھی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان
باب : نماز شروع کرتے وقت امامت کی نیت نہ ہو، پھر کچھ لوگ آجائیں اور وہ ان کی امامت کرنے لگے ( تو کیا حکم ہے )

حدیث نمبر : 699
حدثنا مسدد، قال حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، عن أيوب، عن عبد الله بن سعيد بن جبير، عن أبيه، عن ابن عباس، قال بت عند خالتي فقام النبي صلى الله عليه وسلم يصلي من الليل، فقمت أصلي معه فقمت عن يساره، فأخذ برأسي فأقامني عن يمينه‏.‏/ARB]
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نے ایوب سختیانی سے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن سعید بن جبیر سے، انہوں نے اپنے باپ سے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ آپ نے بتلایا کہ میں نے ایک دفعہ اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر رات گذاری۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات میں نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے تو میں بھی آپ کے ساتھ نماز میں شریک ہو گیا۔ میں ( غلطی سے ) آپ کے بائیں طرف کھڑا ہو گیا تھا۔ پھر آپ نے میرا سر پکڑ کے دائیں طرف کر دیا۔ ( تاکہ صحیح طور پر کھڑا ہو جاؤں
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان
باب : اگر امام سورہ شروع کر دے اور کسی کو کام ہو وہ اکیلے نماز پڑھ کر چل دے تو یہ کیسا ہے؟

حدیث نمبر : 700
حدثنا مسلم، قال حدثنا شعبة، عن عمرو، عن جابر بن عبد الله، أن معاذ بن جبل، كان يصلي مع النبي صلى الله عليه وسلم ثم يرجع فيؤم قومه‏.‏
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے عمرو بن دینار سے بیان کیا، انہوں نے جابر بن عبداللہ سے کہ معاذ بن جبل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے پھر واپس آ کر اپنی قوم کی امامت کیا کرتے تھے۔

حدیث نمبر : 701
وحدثني محمد بن بشار، قال حدثنا غندر، قال حدثنا شعبة، عن عمرو، قال سمعت جابر بن عبد الله، قال كان معاذ بن جبل يصلي مع النبي صلى الله عليه وسلم ثم يرجع فيؤم قومه، فصلى العشاء فقرأ بالبقرة، فانصرف الرجل، فكأن معاذا تناول منه، فبلغ النبي صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ فتان فتان فتان ‏"‏ ثلاث مرار أو قال ‏"‏ فاتنا فاتنا فاتن ‏"‏ وأمره بسورتين من أوسط المفصل‏.‏ قال عمرو لا أحفظهما‏.‏
( دوسری سند ) اور مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر محمد بن جعفر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے عمرو سے بیان کیا، کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ انصاری سے سنا، آپ نے فرمایا کہ معاذ بن جبل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ( فرض ) نماز پڑھتے پھر واپس جا کر اپنی قوم کے لوگوں کو ( وہی ) نماز پڑھایا کرتے تھے۔ ایک بار عشاء میں انھوں نے سورہ بقرہ شروع کی۔ ( مقتدیوں میں سے ) ایک شخص نماز توڑ کر چل دیا۔ معاذ اس کو برا کہنے لگے۔ یہ خبر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی ( اس شخص نے جا کر معاذ کی شکایت کی ) آپ نے معاذ کو فرمایا تو بلا میں ڈالنے والا ہے، بلا میں ڈالنے والا، بلا میں ڈالنے والا تین بار فرمایا۔ یا یوں فرمایا کہ تو فسادی ہے، فسادی، فسادی۔ پھر آپ نے معاذ کو حکم فرمایا کہ مفصل کے بیچ کی دو سورتیں پڑھا کرے۔ عمرو بن دینار نے کہا کہ مجھے یاد نہیں رہیں ( کہ کونسی سورتوں کا آپ نے نام لیا۔ )

تشریح : اس سے امام شافعی اور امام احمد اور اہل حدیث کا مذہب ثابت ہوا کہ فرض پڑھنے والے کی اقتداءنفل پڑھنے والے کے پیچھے درست ہے۔ حنفیہ نے یہاں بھی دور از کار تاویلات کی ہیں۔ جو سب محض تعصب مسلک کا نتیجہ ہے، مثلاً حضرت معاذ کے اوپر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خفگی کے بارے میں لکھا ہے کہ ممکن ہے اس وجہ سے آپ خفا ہو ئے ہوں کہ دوبارہ کیوں جاکر پڑھائی ( دیکھو تفہیم البخاری پ:3 ص:97 ) یہ ایسی تاویل ہے جس کا اس واقعہ سے دور تک بھی تعلق نہیں۔

قیاس کن زگلستان من بہار مرا
 
Top