• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٢ - حدیث نمبر٨١٤ تا ١٦٥٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : صدقہ دینے والے کی اور بخیل کی مثال کا بیان

حدیث نمبر : 1443
حدثنا موسى، حدثنا وهيب، حدثنا ابن طاوس، عن أبيه، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ مثل البخيل والمتصدق كمثل رجلين، عليهما جبتان من حديد‏"‏‏. ‏ وحدثنا أبو اليمان أخبرنا شعيب حدثنا أبو الزناد أن عبد الرحمن حدثه أنه سمع أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ مثل البخيل والمنفق كمثل رجلين، عليهما جبتان من حديد، من ثديهما إلى تراقيهما، فأما المنفق فلا ينفق إلا سبغت ـ أو وفرت ـ على جلده حتى تخفي بنانه وتعفو أثره، وأما البخيل فلا يريد أن ينفق شيئا إلا لزقت كل حلقة مكانها، فهو يوسعها ولا تتسع‏"‏‏. ‏ تابعه الحسن بن مسلم عن طاوس في الجبتين‏.‏
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے عبداللہ بن طاؤس نے بیان کیا ‘ ان سے ان کے باپ طاؤس نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بخیل اور صدقہ دینے والے کی مثال ایسے دو شخصوں کی طرح ہے جن کے بدن پر لو ہے کے دو کرتے ہیں۔ ( دوسری سند ) امام بخاری نے کہا اور ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی ‘ کہا کہ ہمیں ابوالزناد نے خبر دی کہ عبداللہ بن ہر مزاعرج نے ان سے بیان کیا اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا کہ بخیل اور خرچ کرنے والے کی مثال ایسے دو شخصوں کی سی ہے جن کے بدن پر لوہے کے دو کرتے ہوں چھاتیوں سے ہنسلی تک۔ خرچ کرنے کا عادی ( سخی ) خرچ کرتا ہے تو اس کے تمام جسم کو ( وہ کرتہ ) چھپا لیتا ہے یا ( راوی نے یہ کہا کہ ) تمام جسم پر وہ پھیل جاتا ہے اور اس کی انگلیاں اس میں چھپ جاتی ہے اور چلنے میں اس کے پاؤں کا نشان مٹتا جاتا ہے۔ لیکن بخیل جب بھی خرچ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کرتے کا ہر حلقہ اپنی جگہ سے چمٹ جاتا ہے۔ بخیل اسے کشادہ کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ کشادہ نہیں ہوپاتا۔ عبداللہ بن طاؤس کے ساتھ اس حدیث کو حسن بن مسلم نے بھی طاؤس سے روایت کیا ‘ اس میں دو کرتے ہیں۔

حدیث نمبر : 1444
وقال حنظلة عن طاوس، ‏"‏ جنتان‏"‏‏. ‏ وقال الليث حدثني جعفر، عن ابن هرمز، سمعت أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ جنتان‏"‏‏. ‏
اور حنظلہ نے طاؤس سے دوز رہیں نقل کیا ہے اور لیث بن سعد نے کہا مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے عبدالرحمن بن ہر مز سے سنا کہا کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پھر یہی حدیث بیان کی اس میں دو زر ہیں ہیں۔

تشریح : اس حدیث میں بخیل اور متصدق کی مثالیں بیان کی گئی ہیں۔ سخی کی زرہ اتنی نیچی ہوجاتی ہے جیسے بہت نیچا کپڑا آدمی جب چلے تو وہ زمین پر گھسٹتا رہتا ہے اور پاؤں کا نشان مٹا دیتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ سخی آدمی کا دل روپیہ خرچ کرنے سے خوش ہوتا ہے اور کشادہ ہوجاتا ہے۔ بخیل کی زرہ پہلے ہی مرحلہ پر اس کے سینہ سے چمٹ کررہ جاتی ہے اور اس کو سخاوت کی توفیق ہی نہیں ہوتی۔ اس کے ہاتھ زرہ کے اندر مقید ہوکر رہ جاتے ہیں۔

حسن بن مسلم کی روایت کو امام بخاری نے کتاب اللباس میں اور حنظلہ کی روایت کو اسماعیل نے وصل کیا اور لیث بن سعد کی روایت اس سند سے نہیں ملی۔ لیکن ابن حبان نے اس کو دوسری سند سے لیث سے نکالا۔ جس طرح کہ حافظ ابن حجر نے بیان کیا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : محنت اور سوداگری کے مال میں سے خیرات کرنا ثواب ہے

لقوله تعالى ‏{‏يا أيها الذين آمنوا أنفقوا من طيبات ما كسبتم‏}‏ إلى قوله ‏{‏أن الله غني حميد‏}‏
کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ( سورہ بقرہ میں ) فرمایا کہ اے ایمان والو! اپنی کمائی کی عمدہ پاک چیزوں میں سے ( اللہ کی راہ میں ) خرچ کرو اور ان میں سے بھی جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے پیدا کی ہیں۔ آخر آیت غنی حمید تک

تشریح : حضرت امام بخاری نے اشارہ کیا اس روایت کی طرف جو مجاہد سے منقول ہے کہ کسب اور کمائی سے اس آیت میں تجارت اور سودا گری مراد ہے اور زمین سے جو چیز اگائیں ان سے غلہ اور کھجور وغیرہ مرا دہے۔

علامہ ابن حجر فرماتے ہیں۔ ہکذا اوردہ ہذاالترجمۃ مقتصرا علی الایۃ بغیر حدیث وکانہ اشار الی مارواہ شعبۃ عن الحکم عن مجاہد فی ہذا الایۃ یا ایہالذین آمنوا انفقوا من طیبت ماکسبتم الایۃ قال من التجارۃ الحلال اخرجہ الطبری وابن ابی حاتم من طریق آدم عنہ واخرجہ الطبری من طریق ہشیم عن شعبۃ ولفظہ من الطیبات ماکسبتم قال من التجارۃ ومما اخرجنا لکم من الارض قال من الثمار ومن طریق ابی بکرا الہذلی عن محمد بن سیرین عن عبیدۃ بن عمرو عن علی قال فی قولہ ومما اخرجنا لکم من الارض قال یعنی من الحب والتمر وکل شئی علیہ زکوٰۃ وقال الزین ابن المنیر لم یقیدالکسب فی الترجمۃ بالطیب کما فی الایۃ استغناءعن ذلک بما تقدم فی ترجمۃ باب الصدقۃ من کسب طیب ( فتح الباری )
یعنی یہاں اس باب میں حضرت امام بخاری نے صرف اس آیت کے نقل کردینے کو کافی سمجھا اور کوئی حدیث یہاں نہیں لائے۔ گویا آپ نے اس روایت کی طرف اشارہ کردیا جسے شعبہ نے حکم سے اور حکم نے مجاہد سے آیت کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ من طیبٰت ماکسبتم سے مراد حلال تجارت ہے۔ اسے طبری نے روایت کیا ہے اور ابن ابی حاتم نے طریق آدم سے اور طبری نے طریق ہشیم سے بھی شعبہ سے اسے روایت کیا ہے۔ اور ان کے لفظ یہ کہ طیبات ماکسبتم سے مراد تجارت ہے اور مما اخرجنالکم سے مراد پھل وغیرہ ہیں جو زمین سے پیدا ہوتے ہیں۔ اور طریق ابوبکر ہذلی میں محمد بن سیرین سے‘ انہوں نے عبیدہ بن عمرو سے‘ انہوں نے حضرت علی سے کہ ممااخرجنا لکم من الارض سے مراد دانے اور کھجور ہیں اور ہر وہ چیز جس پر زکوٰۃ واجب ہے‘ مراد ہے۔ زین ابن منیر نے کہا کہ یہاں باب میں امام بخاری نے کسب کو طیب کے ساتھ مقید نہیں کیا۔ جیسا کہ آیت مذکور میں ہے‘ یہ اس لیے کہ حضرت امام پہلے ایک باب میں کسب کے ساتھ طیب کی قید لگاچکے ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : ہر مسلمان پر صدقہ کرنا ضروری ہے اگر ( کوئی چیز دینے کے لیے ) نہ ہوتو اس کے لیے اچھی بات پر عمل کرنا یا اچھی بات دوسرے کو بتلا دینا بھی خیرات ہے

حدیث نمبر : 1445
حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا شعبة، حدثنا سعيد بن أبي بردة، عن أبيه، عن جده، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ على كل مسلم صدقة‏"‏‏. ‏ فقالوا يا نبي الله فمن لم يجد قال ‏"‏ يعمل بيده فينفع نفسه ويتصدق‏"‏‏. ‏ قالوا فإن لم يجد قال ‏"‏ يعين ذا الحاجة الملهوف‏"‏‏. ‏ قالوا فإن لم يجد‏.‏ قال ‏"‏ فليعمل بالمعروف، وليمسك عن الشر فإنها له صدقة‏"‏‏. ‏
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے سعید بن ابی بردہ نے بیان کیا ‘ ان سے ان کے باپ ابوبردہ نے ان کے دادا ابوموسیٰ اشعری سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر مسلمان پر صدقہ کرنا ضروری ہے۔ لوگوں نے پوچھا اے اللہ کے نبی! اگر کسی کے پاس کچھ نہ ہو؟ آپ نے فرمایا کہ پھر اپنے ہاتھ سے کچھ کماکر خود کو بھی نفع پہنچائے اور صدقہ بھی کرے۔ لوگوں نے کہا اگر اس کی طاقت نہ ہو؟ فرمایا کہ پھر کسی حاجت مند فریادی کی مدد کرے۔ لوگوں نے کہا اگر اس کی بھی سکت نہ ہو۔ فرمایا پھر اچھی بات پر عمل کرے اور بری باتوں سے بام رہے۔ اس کا یہی صدقہ ہے۔

تشریح : امام بخاری نے ادب میں جو روایت نکالی ہے اس میں یوں ہے کہ اچھی یا نیک بات کا حکم کرے۔ ابوداؤد طیالسی نے اتنا اور زیادہ کیا اور بری بات سے منع کرے۔ معلوم ہوا جو شخص نادار ہو اس کے لیے وعظ ونصیحت میں صدقہ کا ثواب ملتا ہے۔ ( وحیدی )

حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: قال الشیخ ابو محمد بن ابی جمرۃ نفع اللہ بہ ترتیب ہذا الحدیث انہ ندب الی الصدقۃ وعند العجز عنہا ندب الی مایقرب منہا او یقوم مقامہا وہو العمل والانتفاع وعند العجز عن ذلک ندب الی مایقوم مقامہ وہو الا غاثۃ وعند عدم ذلک ندب الی فعل المعروف ای من سوی ماتقدم کاماطۃ الاذی وعند عدم ذلک ندب الی الصلوٰۃ فان لم یطق فترک الشر وذلک آخر المراتب قال ومعنی الشرہہنا مامنع الشرع ففیہ تسلیۃ للعاجز عن فعل المندوبات اذا کان عجزہ عن ذالک عن غیر اختیار ( فتح الباری )
مختصر یہ کہ امام بخاری نے اس حدیث کو لاکر یہاں درجہ بدرجہ صدقہ کرنے کی ترغیب دلائی ہے۔ جب مالی صدقہ کی توفیق نہ ہوتو جو بھی کام اس کے قائم مقام ہوسکے وہی صدقہ ہے۔ مثلاً اچھے کام کرنا اور دوسروں کو اپنی ذات سے نفع پہنچانا‘ جب اس کی بھی توفیق نہ ہوتو کسی مصیبت زدہ کی فریاد رسی کردینا اور یہ بھی نہ ہوسکے تو کوئی اور نیک کام کردینا مثلاً یہ کہ راستہ میں سے تکلیف دینے والی چیزوں کو دور کردیا جائے۔ پھر نماز کی طرف رغبت دلائی کہ یہ بھی بہترین کام ہے۔ آخری مرتبہ یہ کہ برائی کو ترک کردینا جسے شریعت نے منع کیا ہے۔ یہ بھی ثواب کے کام ہیں اور اس میں اس شخص کے لیے تسلی دلانا ہے جو افعال خیر سے بالکل عاجز ہو۔ ارشاد باری ہے وَمَا یَفعَلُوا مِن خَیرٍ فَلَن یُّکفُرُوہُ ( آل عمران: 115 ) لوگ جو کچھ بھی نیک کام کرتے ہیں وہ ضائع نہیں جاتا۔ بلکہ اس کا بدلہ کسی نہ کسی شکل میں ضرور ضرور ملتا ہے۔ قدرت کا یہی قانون ہے۔ فَمَن یَّعمَل مِثقَالَ ذَرَّۃٍ خَیرًا یَّرَہ¾ وَمَن یَّعمَل مِثقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّایَّرَہ¾ ( الزلزال: 8,7 ) جو ایک ذرہ برابر خیر کرے گا وہ اسے بھی دیکھ لے گا اور جو ذرہ برابر شرکرے گا وہ اسے بھی دیکھ لے گا۔

از مکافات غافل مشو
گندم از گندم بروید جو زجو
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : زکوٰۃ یا صدقہ میں کتنا مال دینا درست ہے اور اگر کسی نے ایک پوری بکری دے دی؟

حدیث نمبر : 1446
حدثنا أحمد بن يونس، حدثنا أبو شهاب، عن خالد الحذاء، عن حفصة بنت سيرين، عن أم عطية ـ رضى الله عنها ـ قالت بعث إلى نسيبة الأنصارية بشاة فأرسلت إلى عائشة ـ رضى الله عنها ـ منها فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ عندكم شىء‏"‏‏. ‏ فقلت لا إلا ما أرسلت به نسيبة من تلك الشاة فقال ‏"‏ هات فقد بلغت محلها‏"‏‏. ‏
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ابوشہاب نے بیان کیا ‘ ان سے خالد حذاءنے ‘ ان سے حفصہ بنت سیرین نے اور ان سے ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے کہ نسیبہ نامی ایک انصاری عورت کے ہاں کسی نے ایک بکری بھیجی ( یہ نسیبہ نامی انصاری عورت خود ام عطیہ ہی کا نام ہے )۔ اس بکری کا گوشت انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں بھی بھیج دیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ تمہارے پاس کھانے کو کوئی چیز ہے؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اور تو کوئی چیز نہیں البتہ اس بکری کا گوشت جو نسیبہ نے بھیجا تھا ‘ وہ موجود ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہی لاؤ اب اس کا کھانا درست ہوگیا۔

تشریح : باب کا مطلب یوں ثابت ہوا کہ پوری بکری بطور صدقہ نسیبہ کو بھیجی گئی۔ اب ام عطیہ نے جو تھوڑا گوشت اس بکری میں سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو تحفہ کے طورپر بھیجا۔ اس سے یہ نکلا کہ تھوڑا گوشت بھی صدقہ دے سکتے ہیں کیونکہ ام عطیہ کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھیجنا گو صدقہ نہ تھا مگر ہدیہ تھا۔ پس صدقہ کو اس پر قیاس کیا۔ ابن منیر نے کہا کہ امام بخاری نے یہ باب لاکر ان لوگوں کا ردک کیا جو زکوٰۃ میں ایک فقیر کو اتنادے دینا مکروہ سمجھتے ہیں کہ وہ صاحب نصاب ہوجائے۔ امام ابو حنیفہ سے ایسا ہی منقول ہے لیکن امام محمد نے کہا اس میں کوئی قباحت نہیں۔ ( وحیدی )

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بکری کے گوشت کو اس لیے کھانا حلال قرار دیا کہ جب فقیر ایسے مال سے تحفہ کے طورپر کچھ بھیج دے تو وہ درست ہے۔ کیونکہ ملک کے بدل جانے سے حکم بھی بدل جاتا ہے۔ یہی مضمون بریرہ کی حدیث میں بھی وارد ہے۔ جب بریرہ نے صدقہ کا گوشت عائشہ رضی اللہ عنہا کو تحفہ بھیجا تھا تو آپ نے فرمایا تھا۔ ہولہا صدقۃ ولنا ہدیۃ ( وحیدی ) وہ اس کے لیے صدقہ ہے اور ہمارے لیے اس کی طرف سے تحفہ ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : چاندی کی زکوٰۃ کا بیان

حدیث نمبر : 1447
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن عمرو بن يحيى المازني، عن أبيه، قال سمعت أبا سعيد الخدري، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ليس فيما دون خمس ذود صدقة من الإبل، وليس فيما دون خمس أواق صدقة، وليس فيما دون خمسة أوسق صدقة‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی ‘ انہیں عمرو بن یحیٰی مازنی نے ‘ انہیں ان کے باپ یحیٰی نے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانچ اونٹ سے کم میں زکوٰۃ نہیں اور پانچ اوقیہ سے کم ( چاندی ) میں زکوٰۃ نہیں۔ اسی طرح پانچ وسق سے کم ( غلہ ) میں زکوٰۃ نہیں۔

حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا عبد الوهاب، قال حدثني يحيى بن سعيد، قال أخبرني عمرو، سمع أباه، عن أبي سعيد ـ رضى الله عنه ـ سمعت النبي صلى الله عليه وسلم بهذا‏.‏ ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے یحیٰی بن سعید نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھے عمرو بن یحیٰی نے خبر دی ‘ انہوں نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی حدیث کوسنا۔

تشریح : یہ حدیث ابھی اوپر باب ماادی زکوتہ فلیس بکنز میں گزرچکی ہے اور وسق اور اوقیہ کی مقدار بھی وہیں مذکور ہوچکی ہے۔ پانچ اوقیہ دو سودرم کے ہوتے ہیں۔ ہر درم چھ دانق کا۔ ہر دانق 8 جو اور2/5 جو کا۔ تودرم 50 جو اور 2/5 جو کا ہوا۔ بعضوں نے کہا کہ درم چار ہزار اور دو سو رائی کے دانوں کا ہوتا ہے۔ اور دینار ایک درم اور 3/7 درم کا یا چھ ہزار رائی کے دانوں کا۔ ایک قیراط 3/8 دانق کا ہوتا ہے۔

مولانا قاضی ثناءاللہ پانی پتی مرحوم فرماتے ہیں کہ سونے کا نصاب بیس مثقال ہے جس کا وزن ساڑھے سات تولہ ہوتا ہے اور چاندی کا نصاب دو سودرہم ہے جن کے سکہ رائج الوقت دہلی سے 56 روپے کا بنتے ہیں۔

وقال شیخ مشائخنا العلامۃ الشیخ عبداللہ الغازیفوری فی رسالتہ ما معربہ نصاب الفضۃ مائتا درہم ای خسمون واثنتان تولجۃ ونصف تولجۃ وہی تساوی ستین من الروبیۃ الانکلیزیہ المنافضۃ فی الہند فی زمن الانکلیز التی تکون بقدر عشر ماہجۃ ونصف ماہجۃ وقال الشیخ بحرالعلوم اللکنوی الحنفی فی رسائل الارکان الاربعہ ص 178 وزن مائتی درہم وزن خمس وخمسین روبیۃ وکل روبیۃ احد عشر ماشج ( مرعاۃ جلد 3ص 41 )
ہمارے شیخ المشائخ علامہ حافظ عبداللہ غازی پوری فرماتے ہیں کہ چاندی کا نصاب دو سودرہم ہیں یعنی ساڑھے باون تولہ اور یہ انگریزی دور کے مروجہ چاندی کے روپے سے ساٹھ روپوں کے برابر ہوتی ہے۔ جوروپیہ تقریباً ساڑھے گیارہ ماشہ کا مروج تھا۔ مولانا بحر العلوم لکھنؤی فرماتے ہیں کہ دو سودرہم وزن چاندی 55 روپے کے برابر ہے اور ہر روپیہ گیارہ ماشہ کا ہوتا ہے۔ ہمارے زمانہ میں چاندی کا نصاب اوزان ہندیہ کی مناسبت سے ساڑھے باون تولہ چاندی ہے۔

خلاصہ یہ کہ غلہ میں پانچ وسق سے کم پر عشر نہیں ہے اور پانچ وسق اکیس من ساڑھے سینتیس سیروزن 80 تولہ کے سیر کے حساب سے ہوتا ہے۔ کیونکہ ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے اور صاع 234 تولے ( 6 تولہ کم 3 سیر ) کا ہوتا ہے۔ پس ایک وسق چار من ساڑھے پندرہ سیر کا ہوا۔
اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے اس حساب سے ساڑھے سات تولہ سونا پر چالیسواں حصہ زکوٰۃ فرض ہے اور چاندی کا نصاب ساڑھے باون تولہ ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : زکوٰۃ میں ( چاندی سونے کے سوا اور ) اسباب کا لینا

جمہور علماءکے نزدیک زکوٰۃ میں چاندی سونے کے سوا دو سرے اسباب کالینا درست نہیں۔ لیکن حنفیہ نے اس کو جائز کہاہے اور امام بخاری نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔

وقال طاوس قال معاذ ـ رضى الله عنه ـ لأهل اليمن ائتوني بعرض ثياب خميص أو لبيس في الصدقة، مكان الشعير والذرة أهون عليكم، وخير لأصحاب النبي صلى الله عليه وسلم بالمدينة‏.‏ وقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ وأما خالد احتبس أدراعه وأعتده في سبيل الله‏"‏‏. ‏ وقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ تصدقن ولو من حليكن‏"‏‏. ‏ فلم يستثن صدقة الفرض من غيرها، فجعلت المرأة تلقي خرصها وسخابها، ولم يخص الذهب والفضة من العروض‏.‏

اور طاؤس نے بیان کیاکہ معاذ رضی اللہ عنہ نے یمن والوں سے کہا تھا کہ مجھے تم صدقہ میں جو اور جوار کی جگہ سامان واسباب یعنی خمیصہ ( دھاری دار چادریں ) یا دوسرے لباس دے سکتے ہو جس میں تمہارے لیے بھی آسانی ہوگی اور مدینہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے لیے بھی بہتری ہوگی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ خالد نے تو اپنی زرہیں اور ہتھیار اور گھوڑے سب اللہ کے راستے میں وقف کردئیے ہیں۔ ( اس لیے ان کے پاس کوئی ایسی چیزہی نہیں جس پر زکوٰۃ واجب ہوتی۔ یہ حدیث کا ٹکڑا ہے وہ آئندہ تفصیل سے آئے گی ) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( عید کے دن عورتوں سے ) فرمایا کہ صدقہ کرو خواہ تمہیں اپنے زیور ہی کیوں نہ دینے پڑجائیں تو آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ اسباب کا صدقہ درست نہیں۔ چنانچہ ( آپ کے اس فرمان پر ) عورتیں اپنی بالیاں اور ہار ڈالنے لگیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ( زکوٰۃ کے لیے ) سونے چاندی کی بھی کوئی تخصیص نہیں فرمائی۔

تشریح : حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے یمن والوں کو اس لیے یہ فرمایا کہ اول تو جو اور جوار کا یمن سے مدینہ تک لانے میں خرچ بہت پڑتا۔ پھر اس وقت مدینہ میں صحابہ کو غلہ سے بھی زیادہ کپڑوں کی حاجت تھی تو معاذ نے زکوٰۃ میں کپڑوں وغیرہ اسباب ہی کا لینا مناسب جانا۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے اسباب کو وقف کرنے سے حضرت امام بخاری نے یہ نکالا کہ زکوٰۃ میں اسباب دینا درست ہے۔ اگر خالد رضی اللہ عنہ نے ان چیزوں کو وقف نہ کیاہوتا تو ضرور ان میں سے کچھ زکوٰۃ میں دیتے۔ بعضوں نے تویوں توجیہ کی ہے کہ جب خالد نے مجاہدین کی سربراہی ہی سامان سے کی اور یہ بھی زکوٰۃ کا ایک مصرف ہے تو گویا زکوٰۃ میں سامان دیا وہو المطلوب۔ عید میں عورتوں کے زیور صدقہ میں دینے سے امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے یہ نکالا کہ زکوٰۃ میں اسباب کا دینا درست ہے کیونکہ ان عورتوں کے سب زیور چاندی سونے کے نہ تھے جیسے کہ ہار وہ مشک اور لونگ سے بناکر گلوں میں ڈالتیں۔

مخالفین یہ جواب دیتے ہیں کہ یہ نفل صدقہ تھا نہ فرض زکوٰۃ کیونکہ زیور میں اکثر علماءکے نزدیک زکوٰۃ فرض نہیں ہے۔ ( وحیدی )
زیور کی زکوٰۃ کے متعلق حضرت مولانا عبداللہ شیخ الحدیث صاحب نے صاحب نے حضرت شیخ الحدیث الکبیر مولانا عبدالرحمن صاحب مبارکپوری رحمتہ اللہ علیہ کے قول پر فتویٰ دیا ہے کہ زیور میں زکوٰۃ واجب ہے۔ مولانا فرماتے ہیں وہوالحق ( مرعاۃ )

واقعہ حضرت خالد کے متعلق حضرت مولانا شیخ الحدیث عبیداللہ صاحب فرماتے ہیں۔ قصۃخالد توول علی وجوہ احدہا انہم طالبوا خالدا بالزکوٰۃ عن اثمان الاعتاد و والادرع بظن انہا للتجارۃ وان الزکوٰۃ فیہا واجبۃ فقال لہم لازکوٰۃ فیہا علی فقالوا اللنبی صلی اللہ علیہ وسلم ان خالداً منع الزکوٰۃ فقال انکم تظلمونہ لانہ حسبہا ووقفہا فی سبیل اللہ قبل الحول فلا زکوٰۃ فیہا
الخ ( مرعاۃ ) یعنی واقعہ خالد کی کئی طرح تاویل کی جاسکتی ہے ایک تویہ کہ محصلین زکوٰۃ نے خالد سے ان کے ہتھیاروں اور زرع وغیرہ کی اس گمان سے زکوٰۃ طلب کی کہ یہ سب اموال تجارت ہیں اور ان میں زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ مجھ پر زکوٰۃ واجب نہیں۔ یہ مقدمہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا تو آپ نے فرمایا کہ تم لوگ خالد پر ظلم کررہے ہو۔ اس نے تو سال کے پورا ہونے سے پہلے ہی اپنے تمام سامان کو فی سبیل اللہ وقف کردیا ہے۔ پس اس پر اس مال میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔
لفظ اعتدہ کے متعلق مولانا فرماتے ہیں۔ بضم المثناۃ جمع عتد بفتحتین وفی مسلم اعتادہ بزیادۃ الالف بعد التاءوہو ایضا جمعہ وقال النووی واحدہ عتاد بفتح العین وقال الجزری الاعتد الاعتاد جمع عتاد وہو ما اعدہ من السلاح والدواب والالات الحرب ویجمع علی اعتدہ بکسر التاءایضا وقیل ہوالخیل خاصۃ یقال فرس عتید ای صلب او معد اللرکوب وسریع الوثوب۔
خلاصہ یہ کہ لفظ اعتد عتد کی جمع ہے اور مسلم میں اس کی جمع الف کے ساتھ اعتاد بھی آئی ہے۔ نووی نے کہا کہ اس کا واحد عتاد ہے۔ جزری نے کہا کہ اعتد اور اعتاد عتاد کی جمع ہیں ہروہ چیز ہتھیار سے اور جانوروں سے ان آلات جنگ سے جو کوئی جنگ کے لیے ان کو تیار کرے اور اس کی جمع اعتدہ بھی ہے اور کہا گیا ہے کہ اس سے خاص گھوڑا ہی مراد ہے فرس عتید اس گھوڑے پر بولا جاتا ہے جو بہت ہی تیز مضبوط سواری کے قابل ہو تیز قدم جلد کودنے اور دوڑنے والا۔

حدیث نمبر : 1448
حدثنا محمد بن عبد الله، قال حدثني أبي قال، حدثني ثمامة، أن أنسا ـ رضى الله عنه ـ حدثه أن أبا بكر ـ رضى الله عنه ـ كتب له التي أمر الله رسوله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ومن بلغت صدقته بنت مخاض وليست عنده وعنده بنت لبون فإنها تقبل منه، ويعطيه المصدق عشرين درهما أو شاتين، فإن لم يكن عنده بنت مخاض على وجهها، وعنده ابن لبون فإنه يقبل منه وليس معه شىء‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن عبداللہ نے بیان کیا۔ کہا کہ مجھ سے میرے والد عبداللہ بن مثنی نے بیان کیا۔ کہا کہ مجھ سے ثمامہ بن عبداللہ نے بیان کیا۔ ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں ( اپنے دور خلافت میں فرض زکوٰۃ سے متعلق ہدایت دیتے ہوئے ) اللہ اور رسول کے حکم کے مطابق یہ فرمان لکھا کہ جس کا صدقہ بنت مخاض تک پہنچ گیا ہو اور اس کے پاس بنت مخاض نہیں بلکہ بنت لبون ہے۔ تو اس سے وہی لے لیا جائے گا اور اس کے بدلہ میں صدقہ وصول کرنے والا بیس درہم یا دوبکریاں زائد دیدے گا اور اگر اس کے پاس بنت مخاض نہیں ہے بلکہ ابن لبون ہے تو یہ ابن لبون ہی لے لیا جائے گا اور اس صورت میں کچھ نہیں دیا جائے گا ‘ وہ مادہ یا نراونٹ جو تیسرے سال میں لگا ہو۔

حدیث نمبر : 1449
حدثنا مؤمل، حدثنا إسماعيل، عن أيوب، عن عطاء بن أبي رباح، قال قال ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ أشهد على رسول الله صلى الله عليه وسلم لصلى قبل الخطبة، فرأى أنه لم يسمع النساء، فأتاهن ومعه بلال ناشر ثوبه فوعظهن، وأمرهن أن يتصدقن، فجعلت المرأة تلقي، وأشار أيوب إلى أذنه وإلى حلقه‏.‏
ہم سے مؤمل بن ہشام نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے اسماعیل نے ایوب سے بیان کیا اور ان سے عطاءبن ابی رباح نے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بتلایا۔ اس وقت میں موجود تھاجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ سے پہلے نماز ( عید ) پڑھی۔ پھر آپ نے دیکھا کہ عورتوں تک آپ کی آواز نہیں پہنچی ‘ اس لیے آپ ان کے پاس بھی آئے۔ آپ کے ساتھ بلال رضی اللہ عنہ تھے جو اپنا کپڑا پھیلائے ہوئے تھے۔ آپ نے عورتوں کو وعظ سنایا اور ان سے صدقہ کرنے کے لیے فرمایا اور عورتیں ( اپنا صدقہ بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑے میں ) ڈالنے لگیں۔ یہ کہتے وقت ایوب نے اپنے کان اور گلے کی طرف اشارہ کیا۔

حضرت امام بخاری نے مقصد باب کے لیے اس سے بھی استدلال کیا کہ عورتوں نے صدقہ میں اپنے زیورات پیش کئے جن میں بعض زیور چاندی سونے کے نہ تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : زکوٰۃ لیتے وقت جو مال جدا جدا ہوں وہ اکٹھے نہ کئے جائیں اور جو اکٹھے ہوں وہ جدا جدا نہ کےے جائیں اور سالم نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہی روایت کیا ہے

حدیث نمبر : 1450
حدثنا محمد بن عبد الله الأنصاري، قال حدثني أبي قال، حدثني ثمامة، أن أنسا ـ رضى الله عنه ـ حدثه أن أبا بكر ـ رضى الله عنه ـ كتب له التي فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ولا يجمع بين متفرق، ولا يفرق بين مجتمع، خشية الصدقة‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن عبداللہ انصاری نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے ثمامہ نے بیان کیا ‘ اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں وہی چیز لکھی تھی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ضروری قرار دیا تھا۔ یہ کہ زکوٰۃ ( کی زیادتی ) کے خوف سے جدا جدا مال کو یک جا اور یک جا مال کو جدا جدا نہ کیا جائے۔

تشریح : سالم کی روایت کو امام احمد اور ابویعلیٰ اور ترمذی وغیرہ نے وصل کیا ہے۔ امام مالک نے مؤطا میں اس کی تفسیر یوں بیان کی ہے۔ مثلاً تین آدمیوں کی الگ الگ چالیس چالیس بکریاں ہوں تو ہر ایک پر ایک بکری زکوٰۃ کی واجب ہے۔ زکوٰۃ لینے والا جب آیا تو تو یہ تینوں اپنی بکریاں ایک جگہ کردیں۔ اس صورت میں ایک ہی بکری دینی پڑے گی۔ اسی طرح دوآدمیوں کی شرکت کے مال میں مثلاً دو سوبکریاں ہوں تو تین بکریاں زکوٰۃ کی لازم ہوں گی اگر وہ زکوٰۃ لینے والا جب آئے اس کو جدا جدا کردیں تو دو ہی بکریاں دینی ہوں گی۔ اس سے منع فرمایا۔ کیونکہ یہ حق تعالیٰ کے ساتھ فریب کرنا ہے‘ معاذ اللہ۔ وہ تو سب جانتا ہے۔ ( وحیدی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : اگر دو آدمی ساجھی ہوں تو زکوٰۃ کا خرچہ حساب سے برابر برابر ایک دوسرے سے مجرا کرلیں

وقال طاوس وعطاء إذا علم الخليطان أموالهما فلا يجمع مالهما‏.‏ وقال سفيان لا يجب حتى يتم لهذا أربعون شاة، ولهذا أربعون شاة‏.‏
اور طاؤس اور عطاءرحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ جب دو شریکوں کے جانور الگ الگ ہوں ‘ اپنے اپنے جانوروں کو پہچانتے ہوں تو ان کو اکٹھا نہ کریں اور سفیان ثوری رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ زکوٰۃ اس وقت تک واجب نہیں ہوسکتی کہ دونوں شریکوں کے پاس چالیس چالیس بکریاں نہ ہوجائیں۔

حدیث نمبر : 1451
حدثنا محمد بن عبد الله، قال حدثني أبي قال، حدثني ثمامة، أن أنسا، حدثه أن أبا بكر ـ رضى الله عنه ـ كتب له التي فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ وما كان من خليطين فإنهما يتراجعان بينهما بالسوية‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے ثمامہ نے بیان کیا اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں فرض زکوٰۃ میں وہی بات لکھی تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمائی تھی اس میں یہ بھی لکھوایا تھا کہ جب دوشریک ہوں تو وہ اپنا حساب برابر کرلیں۔

تشریح : عطا کے قول کو ابوعبید نے کتاب الاموال میں وصل کیا ان کے قول کا مطلب یہ ہے کہ جدا جدا رہنے دیں گے اور اگر ہر ایک کا مال بقدر نصاب ہوگا تو اس میں سے زکوٰۃ لیں گے ورنہ نہ لیں گے۔ مثلاً دو شریکوں کی چالیس بکریاں ہیں مگر ہر شریک کو اپنی اپنی بیس بکریاں علیحدہ اور معین طور سے معلوم ہیں تو کسی پر زکوٰۃ نہ ہوگی اور زکوٰۃ لینے والے کو یہ نہیں پہنچتا کہ دونوں کے جانور ایک جگہ کرکے ان کو چالیس بکریاں سمجھ کر ایک بکری زکوٰۃ کی لے۔ اور سفیان نے جو کہا امام ابوحنیفہ کا بھی یہی قول ہے۔ لیکن امام احمد اور شافعی اور اہلحدیث کا یہ قول ہے کہ جب دونوں شریکوں کے جانور مل کر حد نصاب کو پہنچ جائیں تو زکوٰۃ لی جائے گی۔ ( وحیدی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : اونٹوں کی زکوٰۃ کا بیان

ذكره أبو بكر وأبو ذر وأبو هريرة ـ رضى الله عنهم ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
اس باب میں حضرت ابوبکر ‘ ابوذر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایتیں کی ہیں۔

حدیث نمبر : 1452
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا الوليد بن مسلم، حدثنا الأوزاعي، قال حدثني ابن شهاب، عن عطاء بن يزيد، عن أبي سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ أن أعرابيا سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الهجرة فقال ‏"‏ ويحك، إن شأنها شديد، فهل لك من إبل تؤدي صدقتها‏"‏‏. ‏ قال نعم‏.‏ قال ‏"‏ فاعمل من وراء البحار فإن الله لن يترك من عملك شيئا‏"‏‏. ‏
ہم سے علی بن عبداللہ بن مدینی نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے ولید بن مسلم نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے امام اوزاعی نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے ابن شہاب نے بیان کیا ‘ ان سے عطاءبن یزید نے اور ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ ایک دیہاتی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت کے متعلق پوچھا ( یعنی یہ کہ آپ اجازت دیں تو میں مدینہ میں ہجرت کرآؤں ) آپ نے فرمایا۔ افسوس! اس کی توشان بڑی ہے۔ کیا تیرے پاس زکوٰۃ دینے کے لیے کچھ اونٹ ہیں جن کی تو زکوٰۃ دیا کرتا ہے؟ اس نے کہا کہ ہاں! اس پر آپ نے فرمایا کہ پھر کیا ہے سمندروں کے اس پار ( جس ملک میں تو رہے وہاں ) عمل کرتا رہ اللہ تیرے کسی عمل کا ثواب کم نہیں کرے گا۔

تشریح : مطلب آپ کا یہ تھا کہ جب تم اپنے ملک میں ارکان اسلام آزادی کے ساتھ ادا کررہے ہو۔ یہاں تک کہ اونٹوں کی زکوٰۃ بھی باقاعدہ نکالتے رہتے ہو تو خواہ مخواہ ہجرت کا خیال کرنا ٹھیک نہیں۔ ہجرت کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ گھر در وطن چھوڑنے کے بعد جو تکالیف برداشت کرنی پڑتی ہیں ان کو ہجرت کرنے والے ہی جانتے ہیں۔ مسلمانان ہند کو اس حدیث سے سبق حاصل کرنا چاہیے اللہ نیک سمجھ عطا کرے۔ آمین
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ

باب : جس کے پاس اتنے اونٹ ہوں کہ زکوٰۃ میں ایک برس کی اونٹنی دینا ہو اور وہ اس کے پاس نہ ہو

حدیث نمبر : 1453
حدثنا محمد بن عبد الله، قال حدثني أبي قال، حدثني ثمامة، أن أنسا ـ رضى الله عنه ـ حدثه أن أبا بكر ـ رضى الله عنه ـ كتب له فريضة الصدقة التي أمر الله رسوله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ من بلغت عنده من الإبل صدقة الجذعة، وليست عنده جذعة وعنده حقة، فإنها تقبل منه الحقة ويجعل معها شاتين إن استيسرتا له أو عشرين درهما، ومن بلغت عنده صدقة الحقة وليست عنده الحقة وعنده الجذعة، فإنها تقبل منه الجذعة، ويعطيه المصدق عشرين درهما أو شاتين، ومن بلغت عنده صدقة الحقة وليست عنده إلا بنت لبون فإنها تقبل منه بنت لبون، ويعطي شاتين أو عشرين درهما، ومن بلغت صدقته بنت لبون وعنده حقة فإنها تقبل منه الحقة ويعطيه المصدق عشرين درهما أو شاتين، ومن بلغت صدقته بنت لبون وليست عنده وعنده بنت مخاض، فإنها تقبل منه بنت مخاض ويعطي معها عشرين درهما أو شاتين‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن عبداللہ انصاری نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے ثمامہ نے بیان کیا اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کے پاس فرض زکوٰۃ کے ان فریضوں کے متعلق لکھا تھا جن کا اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے۔ یہ کہ جس کے اونٹوں کی زکوٰۃ جذعہ تک پہنچ جائے اور وہ جذعہ اس کے پاس نہ ہو بلکہ حقہ ہوتو اس سے زکوٰۃ میں حقہ ہی لے لیا جائے گا لیکن اس کے ساتھ دوبکریاں بھی لی جائیں گی ‘ اگر ان کے دینے میں اسے آسانی ہو ورنہ بیس درہم لیے جائیں گے۔ ( تاکہ حقہ کی کمی پوری ہوجائے ) اور اگر کسی پر زکوٰۃ میں حقہ واجب ہو اور حقہ اس کے پاس نہ ہو بلکہ جذعہ ہو تو اس سے جذعہ ہی لے لیا جائے گا اور زکوٰۃ وصول کرنے والا زکوٰۃ دینے والے کو بیس درہم یا دوبکریاں دے گا اور اگر کسی پرزکوٰۃ حقہ کے برابر واجب ہوگئی اور اس کے پاس صرف بنت لبون ہے تو اس سے بنت لبون لے لی جائے گی اور زکوٰۃ دینے والے کو دوبکریاں یا بیس درہم ساتھ میں اور دینے پڑیں گے اور اگر کسی پر زکوٰۃ بنت لبون واجب ہو اور اس کے پاس حقہ ہو تو حقہ ہی اس سے لے لیا جائے گا اور اس صورت میں زکوٰۃ وصول کرنے والا بیس درہم یا دو بکریاں زکوٰۃ دینے والے کو دے گا اور کسی کے پاس زکوٰۃ میں بنت لبون واجب ہو ا اور بنت لبون اس کے پاس نہیں بلکہ بنت مخاض ہے تو اس سے بنت مخاض ہی لے لیا جائے گا۔ لیکن زکوٰۃ دینے والا اس کے ساتھ بیس درہم یا دوبکریاں دے گا۔

تشریح : اونٹ کی زکوٰۃ پانچ راس سے شروع ہوتی ہے‘ اس سے کم پر زکوٰۃ نہیں پس اس صورت میں چوبیس اونٹوں تک ایک بنت مخاض واجب ہوگی یعنی وہ اونٹنی جو ایک سال پورا کرکے دوسرے میں لگ رہی ہو۔ اونٹنی ہو یا اونٹ۔ پھر چھتیس پر بنت لبون یعنی وہ اونٹ جو دوسال کا ہو تیسرے میں چل رہا ہو۔ پھرچھیالیس پر ایک حقہ یعنی وہ اونٹ جو تین سال کا ہوکر چوتھے میں چل رہا ہو۔ پھر اکسٹھ پر جذعہ یعنی وہ اونٹ جو چار سال کا ہوکر پانچویں میں چل رہا ہو۔ حضرت امام بخاری یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ اونٹ کی زکوٰۃ مختلف عمر کے اونٹ جو واجب ہوئے ہیں اگر کسی کے پاس اس عمر کا اونٹ نہ ہو جس کا دینا صدقہ کے طورپر واجب ہوا تھا تو اس سے کم یا زیادہ عمر والا اونٹ بھی لیا جاسکے گا؟ مگر کم دینے کی صورت میں خود اپنی طرف سے اور زیادہ دینے کی صورت میں صدقہ وصول کرنے والے کی طرف سے روپیہ یا کوئی اور چیز اتنی مالیت کی دی جائے گی جس سے اس کمی یا زیادتی کا حق ادا ہوجائے۔ جیسا کہ تفصیلات حدیث مذکورہ میں دی گئی ہیں اور مزید تفصیلات حدیث ذیل میں آرہی ہیں۔
 
Top