• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٢ - حدیث نمبر٨١٤ تا ١٦٥٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : نالے میں اترتے وقت لبیک کہے

حدیث نمبر : 1555
حدثنا محمد بن المثنى، قال حدثني ابن أبي عدي، عن ابن عون، عن مجاهد، قال كنا عند ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ فذكروا الدجال أنه قال ‏"‏ مكتوب بين عينيه كافر ‏"‏‏.‏ فقال ابن عباس لم أسمعه ولكنه قال ‏"‏ أما موسى كأني أنظر إليه إذ انحدر في الوادي يلبي ‏"‏‏.
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے ابن عدی نے بیان کیا ، ان سے عبداللہ بن عون نے ان سے مجاہد نے بیان کیا ، کہا کہ ہم عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر تھے ۔ لوگوں نے دجال کا ذکر کیا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافرلکھا ہوا ہوگا ۔ تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میں نے تو یہ نہیں سنا ۔ ہاں آپ نے یہ فرمایا تھا کہ گویا میں موسیٰ علیہ السلام کو دیکھ رہا ہوں کہ جب آپ نالے میں اترے تو لبیک کہہ رہے ہیں ۔

تشریح : معلوم ہوا کہ عالم مثال میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حج کے لئے لبیک پکارتے ہوئے دیکھا۔ ایک روایت میں ایسے ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بھی دکر ہے۔ ایک حدیث میں حضرت عیسیٰ بن مریم کا فج الروحاءسے احرام باندھنے کا ذکر ہے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو آپ نے اس حالت میں خواب میں دیکھا ہو۔ حافظ نے اسی پر اعتماد کیاہے۔

مسلم شریف میں یہ واقعہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماسے یو ں مروی ہے۔کانی انظر الی موسیٰ ہابطامن الثنیۃ واضعا اصبعیۃ فی اذنیہ مارابہذا الوادی ولہ جوار الی اللہ بالتلبیۃ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا گویا میں موسیٰ علیہ السلام کو دیکھ رہاہوں آپ گھاٹی سے اترے ہوئے کانوں میں انگلیاں ڈالے ہوئے لبیک بلند آواز سے پکارتے ہوئے اس وادی سے گزررہے ہیں۔

اس کے ذیل میں حافظ صاحب کی پوری تقریر یہ ہے۔ واختلف اہل التحقیق فی معنی قولہ کانی انظر علی اوجہ الاول ہو علی الحقیقۃ والا نبیاءاحیاءعند ربھم یرزقون فلامانع ان یحجوافی ہذا الحال کما ثبت فی صحیح مسلم من حدیث انس انہ صلی اللہ علیہ وسلم رای موسیٰ قائما فی قبرہ یصلی قال القرطبی حببت الیہم العبادۃ فہم یتعبدون بما یجدونہ من دواعی انفسہم بمالا یلزمون بہ کما یلہم اہل الجنۃ الذکر ویویدہ ان عمل الاخرۃ ذکر ودعاءقولہ تعالیٰ دعواہم فیہا سبحنک اللہم الایۃ لیکن تمام ہذا لتوجیہ ان یقال ان المنظور الیہ ہی ارواحہم فلعہا مثلث لہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الدنیا کما مثلت لہ لیلۃ الااسریٰ واما اجسادہم فہی فی القبور قال ابن المنیر وغیرہ یجعل اللہ لروحہ مثالافیری فی الیقظۃ کما یری فی النوم ثانیہاکانہ مثلت لہ احوالہم التی کان فی الحیاۃ الدنیاکیف تعبدو کیف حجوا وکیف لبواو لہذا قال کانی انظر ثالثہا کانہ اخبر بالوحی عن ذالک فلشدۃ قطعہ بہ قال کانی انظر الیہ رابعہا کانا رویۃ منام تقدمت لہ فاخبر عنہا لما حج عندما تذکر ذالک ورؤیا الانبیاءوحی وہذا ہوا المعتمد عندی کما سیاتی فی احادیث الانبیاءمن التصریح بنحو ذالک فی احادیث آخرو کون ذلک کان فی المنام والذی قبلہ لیس ببعید واللہ اعلم۔ ( فتح الباری )
یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کانی انظر الیہ ( گویا میں ان کو دیکھ رہا ہوں ) کی اہل تحقیق نے مختلف توجیہات کی ہیں۔ اول تو یہ کہ یہ حقیقت پر مبنی ہے کہ کیونکہ انبیاءکرام اپنے رب کے ہاں سے رزق دیئے جاتے ہیں اور وہ اپنی قبور میں ز ندہ ہیں۔ پس کچھ مشکل نہیں کہ وہ ا س حالت میں حج بھی کرتے ہوں جیسا کہ صحیح مسلم میںحدیث انس سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ اپنی قبر میں نمازپڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے تھے قرطبی نے کہا کہ عبادت ان کے لئے محبوب ترین چیز رہی۔ پس وہ عالم آخرت میں بھی اسی حالت میں بطیب خاطر مشغول ہیں حالانکہ یہ ان کے لئے وہاں لازم نہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ اہل جنت کو ذکر الہٰی کا الہام ہوتا رہے گا اور اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ عمل آخرت ذکر اور دعا ہے جیسا کہ آیت شریفہ دَعواہُم فِیہَا سُبحٰنَکَ اللّٰہُمَّ ( یونس:10 ) میں مذکورہے۔لیکن اس توجیہ کی تکمیل اس پر ہے کہ آپ کو ان کی ارواح نظر آئیں اور عالم مثال میں ان کو دنیا میں آپ کو دکھلایا گیا۔ جیسا کہ معراج میں آپ کو تمثیلی اشکال میں ان کو دکھلایا گیا تھا۔ حالانکہ ان کے اجسادان کی قبروں میں تھے۔ ابن منیر نے کہا کہ اللہ پاک ان کی ارواح طیبہ کو عالم مثال میں دکھلادیتا ہے۔ یہ عالم بیداری میں بھی ایسے ہی دکھائی دیئے جاتے ہیں جیسے عالم خواب میں ۔ دوسری توجیہ یہ کہ ان کے تمثیلی حالات دکھلائے گئے۔ جیسے کہ وہ دنیا میں عبادت اور حج اور لبیک وغیرہ کیا کرتے تھے۔ تیسری یہ کہ وحی سے یہ حال معلوم کرایا گیا جو اتنا قطعی تھا کہ آپ نے کانی انظر الیہ سے اسے تعبیر فرمایا۔ چوتھی توجیہ یہ کہ یہ عالم خواب کا معاملہ ہے جو آپ کو دکھلایا گیا اور انبیاءکے خواب بھی وحی کے درجہ میں ہوتے ہیں اور میرے نزدیک اسی توجیہ کو ترجیح ہے جیسا کہ احادیث الانبیاءمیں صراحت آئے گی اور اس کا حالت خواب میں نظر آنا کوئی بعید چیز نہیں ہے۔

خلاصۃ المرام یہ ہے کہ عالم خواب میں یاعالم مثال میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو سفر حج میں لبیک پکارتے ہوئے اور مذکورہ وادی میں سے گزرتے ہوئے دیکھا۔ صلی اللہ علیہ وسلم وعلی نبینا علیہ الصلٰوۃ والسلام۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : حیض والی اور نفاس والی عورتیں کس طرح احرام باندھیں

أهل تكلم به، واستهللنا وأهللنا الهلال كله من الظهور، واستهل المطر خرج من السحاب‏.‏ ‏{‏وما أهل لغير الله به‏}‏ وهو من استهلال الصبي‏.‏
عرب لوگ کہتے ہیں اہل یعنی با ت منہ سے نکال دی واستہللنا واہللنا الہلال ان سب سے لفظوں کا معنی ظاہر ہوناہے اوراستہل المطرمعنی پانی ابر میں سے نکلا۔ او رقرآن شریف ( سورہ مائدہ ) میں جو وما اہل لغیر اللہ بہ ہے اس کے معنی جس جانور پر اللہ کے سوا دوسرے کا نام پکاراجائے او ربچہ کے استھلال سے نکلا ہے۔ یعنی پیدا ہوتے وقت اس کا آواز کرنا۔

حدیث نمبر : 1556
حدثنا عبد الله بن مسلمة، حدثنا مالك، عن ابن شهاب، عن عروة بن الزبير، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت خرجنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع، فأهللنا بعمرة ثم قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏من كان معه هدى فليهل بالحج مع العمرة، ثم لا يحل حتى يحل منهما جميعا ‏"‏فقدمت مكة وأنا حائض، ولم أطف بالبيت ولا بين الصفا والمروة، فشكوت ذلك إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏انقضي رأسك وامتشطي، وأهلي بالحج، ودعي العمرة‏"‏‏. ‏ ففعلت فلما قضينا الحج أرسلني النبي صلى الله عليه وسلم مع عبد الرحمن بن أبي بكر إلى التنعيم فاعتمرت فقال ‏"‏هذه مكان عمرتك‏"‏‏. ‏ قالت فطاف الذين كانوا أهلوا بالعمرة بالبيت وبين الصفا والمروة، ثم حلوا، ثم طافوا طوافا واحدا بعد أن رجعوا من منى، وأما الذين جمعوا الحج والعمرة فإنما طافوا طوافا واحدا‏.‏
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالک نے ابن شہاب سے خبردی، انہیں عروہ بن زبیر نے، ان سے نبی کریم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ ہم حجتہ الوداع میںنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے۔ پہلے ہم نے عمرہ کا احرام باندھا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے ساتھ قربانی ہوتو اسے عمرہ کے ساتھ حج کا بھی احرام باندھ لیناچاہئے۔ ایسا شخص درمیان میں حلال نہیں ہوسکتا بلکہ حج اور عمرہ دونوں سے ایک ساتھ حلال ہوگا۔ میں بھی مکہ آئی تھی اس وقت میں حائضہ ہوگئی، اس لئے نہ بیت اللہ کا طواف کرسکی اور نہ صفا اور مروہ کی سعی۔ میں نے اس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکوہ کیا تو آپ نے فرمایا کہ اپنا سرکھول ڈال، کنگھا کر اور عمرہ چھوڑ کر حج کا احرام باندھ لے۔ چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا پھر جب ہم حج سے فارغ ہوگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے میرے بھائی عبدالرحمن بن ابی بکر کے ساتھ تنعیم بھیجا۔ میں نے وہاں سے عمرہ کا احرام باندھا ( اور عمرہ ادا کیا ) آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تمہارے اس عمرہ کے بدلے میں ہے۔ ( جسے تم نے چھوڑ دیا تھا ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیاکہ جن لوگوں نے ( حجۃ الوداع میں ) صرف عمرہ کا احرام باندھا تھا، و ہ بیت اللہ کا طواف صفا اور مروہ کی سعی کر کے حلال ہوگئے۔ پھر منیٰ سے واپس ہونے پر دوسرا طواف ( یعنی طواف الزیارۃ ) کیا لیکن جن لوگوں نے حج اور عمرہ کا ایک ساتھ احرام باندھا تھا، انہوںنے صرف ایک ہی طواف کیا یعنی طواف الزیارۃ کیا۔

تشریح : حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر حضرت عائشہ کو عمرہ چھوڑنے کے لئے فرمایا۔ یہیں سے ترجمہ باب نکلاکے حیض والی عورت کو صرف حج کا احرام باندھنا درست ہے، وہ احرام کا دوگانہ نہ پڑھے۔ صرف لبیک پکارکر حج کی نیت کرلے۔ اس روایت سے صاف یہ نکلا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے عمرہ چھوڑدیا اور حج مفرد کا احرام باندھا۔ حنفیہ کا یہی قول ہے اور شافعی کہتے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ عمرہ کو بالفعل رہنے دے۔حج کے ارکان ادا کرنا شروع کردے، تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے قران کیا، اور سرکھولنے اور کنگھی کرنے میں احرام کی حالت میں قباحت نہیں۔ اگر بال نہ گریں مگر یہ تاویل ظاہر کے خلاف ہے۔ ( وحیدی )

واما الذین جمعوا الحج والعمرۃ سے معلوم ہوا کہ قارن کو ایک ہی طواف اور ایک ہی سعی کافی ہے اور عمرے کے افعال حج میں شریک ہوجاتے ہیں۔ امام شافعی اور امام مالک اور امام احمد اور جمہور علماءکایہی قول ہے۔ اس کے خلاف کوئی پختہ دلیل نہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے احرام میں یہ نیت کی جو نیت آنحضرت کی ہے

قاله ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
یہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے۔

حدیث نمبر : 1557
حدثنا المكي بن إبراهيم، عن ابن جريج، قال عطاء قال جابر ـ رضى الله عنه ـ أمر النبي صلى الله عليه وسلم عليا ـ رضى الله عنه ـ أن يقيم على إحرامه، وذكر قول سراقة‏. وزاد محمد بن بكر، عن ابن جريج: قال له النبي صلى الله عليه وسلم: (بما أهللت يا علي). قال: بما أهل به النبي صلى الله عليه وسلم، قال: (فأهد، وامكث حراما كما أنت).‏
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے، ان سے عطاءبن ابی رباح نے بیان کیا کہ کہ جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھاکہ وہ اپنے احرام پر قائم رہیں۔ انہوں نے سراقہ کا قول بھی ذکر کیاتھا۔ اور مخدوم بن ابی بکر نے ابن جریج سے یو ں روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایاعلی ! تم نے کس چیز کا احرام باندھا ہے؟ انہو ں نے عرض کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کا احرام باندھا ہو ( اسی کا میں نے بھی باندھا ہے ) آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر قربانی کر اور اپنی اسی حالت پر احرام جاری رکھ۔

حدیث نمبر : 1558
حدثنا الحسن بن علي الخلال الهذلي، حدثنا عبد الصمد، حدثنا سليم بن حيان، قال سمعت مروان الأصفر، عن أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ قال قدم علي ـ رضى الله عنه ـ على النبي صلى الله عليه وسلم من اليمن فقال ‏"‏بما أهللت‏"‏‏. ‏ قال بما أهل به النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ فقال ‏"‏لولا أن معي الهدى لأحللت‏"‏‏.‏
ہم سے حسن بن علی خلال ہذلی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالصمد بن عبدالوارث نے بیان کیا، انہو ں نے کہا کہ ہم سے سلیم بن حیان نے بیان کیا، انہو ں نے کہا کہ میں نے مروان اصفر سے سنااور ان سے انس بن مالک نے بیان کیا تھا کہ حضرت علیرضی اللہ عنہ یمن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے پوچھا کہ کس طرح کا احرام باندھا ہے؟ انہو ں نے کہا کہ جس طرح کا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے باندھاہو۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میرے ساتھ قربانی نہ ہوتی تو میں حلال ہوجاتا۔

حدیث نمبر : 1559
حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن قيس بن مسلم، عن طارق بن شهاب، عن أبي موسى ـ رضى الله عنه ـ قال بعثني النبي صلى الله عليه وسلم إلى قوم باليمن فجئت وهو بالبطحاء فقال ‏"‏بما أهللت‏"‏‏. ‏ قلت أهللت كإهلال النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏هل معك من هدى‏"‏‏. ‏ قلت لا‏.‏ فأمرني فطفت بالبيت وبالصفا والمروة ثم أمرني فأحللت فأتيت امرأة من قومي فمشطتني، أو غسلت رأسي، فقدم عمر ـ رضى الله عنه ـ فقال إن نأخذ بكتاب الله فإنه يأمرنا بالتمام قال الله ‏{‏وأتموا الحج والعمرة‏}‏ وإن نأخذ بسنة النبي صلى الله عليه وسلم فإنه لم يحل حتى نحر الهدى‏.‏
ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے قیس بن مسلم نے، ان سے طارق بن شہاب نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری نے کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میری قوم کے پاس یمن بھیجاتھا۔ جب ( حجۃ الوداع کے موقع پر ) میں آیا تو آپ سے بطحاءمیں ملاقات ہوئی۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ کس کا احرام باندھا ہے؟ میں نے عرض کی کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کا باندھا ہو آپ نے پوچھا کیا تمہارے ساتھ قربانی ہے؟ میں نے عرض کی کہ نہیں، اس لئے آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں بیت اللہ کا طواف او رصفا اور مر وہ کی سعی کروں۔ اس کے بعد آپ نے احرام کھول دینے کے لئے فرمایا۔ چنانچہ میںاپنی قوم کی ایک خاتون کے پاس آیا۔ انہوں نے میرے سرکا کنگھا کیا یا میراسرد ھویا۔ پھر حضرت عمررضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا تو آپ نے فرمایا کہ اگر ہم اللہ کی کتاب پر عمل کریں تو وہ یہ حکم دیتی ہے کہ حج اور عمرہ پورا کرو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے’ ’اور حج اور عمرہ پورا کرو اللہ کی رضا کے لئے۔ “ اور اگر ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو لیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت تک احرام نہیں کھولا جب تک آپ نے قربانی سے فراغت نہیں حاصل فرمائی۔

تشریح : حضرت عمررضی اللہ عنہ کی رائے اس باب میں درست نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام نہیں کھولا اس کی وجہ بھی آپ نے خود بیان فرمائی تھی کہ آپ کے ساتھ ہدیٰ تھی۔جن کے ساتھ ہدیٰ نہ تھی ان کا احرام خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کھلوادیا۔ پس جہاں صاف صریح حدیث نبوی موجود ہو وہاں کسی کی بھی رائے قبول نہیں کی جاسکتی خواہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی کیوں نہ ہوں۔ حضرات مقلدین کو یہاں غور کرنا چاہئے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے خلیفہ راشدجن کی پیروی کرنے کا خاص حکم نبوی ہے اقتدو بالذین من بعدی ابی بکر وعمر حدیث کے خلاف قابل اقتداءنہ ٹھہرے تو اور کسی امام یا مجتہد کی کیا بساط ہے۔ ( وحیدی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : اللہ پاک کا سورہ بقرہ میں یہ فرمانا کہ

{الحج أشهر معلومات فمن فرض فيهن الحج فلا رفث ولا فسوق ولا جدال في الحج} /البقرة: 197/. {يسألونك عن الأهلة قل هي مواقيت للناس والحج}. /البقرة: 189/. حج کے مہینے مقرر ہیں جو کوئی ان میں حج کی ٹھان لے تو شہوت کی باتیں نہ کرے نہ گناہ اور جھگڑے کے قریب جائے کیونکہ حج میں خاص طور پر یہ گناہ اور جھگڑے بہت ہی برے ہیں۔ اے رسول ! تجھ سے لوگ چاند کے متعلق پوچھتے ہیں۔ کہہ دیجئے کہ چاند سے لوگوں کے کاموں کے اور حج کے اوقات معلوم ہوتے ہیں۔ او رحضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ حج کے مہینے شوال، ذیقعدہ اور ذی الحجہ کے دس دن ہیں۔

وقال ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أشهر الحج شوال وذو القعدة وعشر من ذي الحجة‏.‏ وقال ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ من السنة أن لا يحرم بالحج إلا في أشهر الحج‏.‏ وكره عثمان ـ رضى الله عنه ـ أن يحرم من خراسان أو كرمان‏.‏
اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا سنت یہ ہے کہ حج کا احرام صرف حج کے مہینوں ہی میں باندھیں اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کوئی خراسان یا کرمان سے احرام باندھ کر چلے تو یہ مکروہ ہے۔

تشریح : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے اثر کو ابن جریر اور طبری نے وصل کیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ حج کا احرام پہلے سے پہلے غرہ شوال سے باندھ سکتے ہیں۔ لیکن اس سے پہلے درست نہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عباس کے اثر کو ابن خزیمہ اور دارقطنی نے وصل کیا ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قول کامطلب یہ ہے کہ میقات کے قریب سے احرام باندھنا سنت اور بہتر ہے گو میقات سے پہلے بھی باندھ لینا درست ہے۔ اس کو سعید بن منصور نے وصل کیا اور ابواحمد بن سیار نے تاریخ مرو میں نکالا کہ جب عبداللہ بن عامر نے خراسان فتح کیا تو اس کے شکریہ میں انہوں نے منت مانی کہ میں یہیں سے احرام باندھ کر نکلوں گا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو انہوں نے ان کو ملامت کی۔ کہتے ہیں اسی سال حضرت عثمان شہید ہوئے۔ حدیث میں آمدہ مقام سرف مکہ سے دس میل کے فاصلہ پر ہے۔ اسے آج کل وادی فاطمہ کہتے ہیں۔

احرام میں کیا حکمت ہے:
شاہی درباروں کے آداب میں سے ایک خاص لباس بھی ہے جس کو زیب تن کئے بغیر جانا سوءادبی سمجھا جاتاہے۔ آج اس روشن تہذیب کے زمانے میں بھی ہر حکومت اپنے نشانات مقررہ کئے ہوئے ہے اور درباروں ایونوں کے لئے خاص خاص لباس مقرر کئے ہوئے ہے۔ چنانچہ ان ایوانوں میں شریک ہونے والے ممبروں کو ایک خاص ڈریس تیار کرانا پڑتاہے۔ جس کو زیب تن کر کے وہ شریک اجلاس ہوتے ہیں۔ حج احکم الحاکمین رب العالمین کا سالانہ جشن ہے۔ اسکے دربار کی حاضری ہے پس اس کے لئے تیاری نہ کرنا اور ایسے ہی گشاخانہ چلے آنا کیونکر مناسب ہوسکتاہے۔ اس لئے حکم ہے کہ میقات سے اس دربارکی حضوری کی تیاری شروع کردو اور اپنی وہ حالت بنالو جو پسندیدہ بارگاہ عالی، یعنی عاجزی، مسکینی، ترک زینت، تبتل الی للہ اس لئے احرام کا لباس بھی ایسا ہی سادہ رکھا جو سب سے آسان اور سہل الحصول ہے اور جس میں مساوات اسلام کا بخوبی ظہور ہوتاہے۔ اس میں کفن کی بھی مشابہت ہے جس سے انسان کو یہ بھی یاد آجاتا ہے کہ دنیاسے رخصت ہوتے وقت اس کو اتنا ہی کپڑا نصیب ہوگا۔ نیز اس سے انسان کو اپنی ابتدائی حالت بھی یا دآتی ہے جب کہ وہ ابتدائی دور میں تھا اورحجر و شجر کے لباس سے نکل کر اس نے اپنے لئے کپڑے کا لباس ایجاد کیا تھا۔ احرام کے اس سادہ لباس میں ایک طرف فقیری کی تلقین ہے تو دوسری طرف ایک فقیری فوج میں ڈسپلن بھی قائم کرنا مقصود ہے۔
لبیک پکارنے میں کیاحکمت ہے :
لبیک کا نعرہ اللہ کی فوج کا قومی نعرہ ہے جو جشن خداوندی کی شرکت کے لیے اقصائے عالم سے کھنچی چلی آرہی ہے۔ احرام باندھنے سے کھولنے تک ہرحاجی کو نہایت خشوع وخضوع کے ساتھ بار بار لبیک کا نعرہ پکارنا ضروری ہے۔ جس کے مقدس الفاظ یہ ہوتے ہیں لبیک اللہم لبیک لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک حاضر ہوں۔ الٰہی!فقیرانہ و غلامانہ جذبات میں تیرے جشن کی شرکت کے لئے حاضر ہوں۔ حاضرہوں۔ حاضر ہوں تجھے واحد بے مثال سمجھ کر حاضر ہوں۔ تیرا کوئی شریک نہیں ہے۔ میں حاضر ہوں۔ تمام تعریفیں تیرے ہی لئے زیبا ہیں اور سب نعمتیں تیری ہی عطا کی ہوئی ہیں۔ راج پاٹ سب کا مالک حقیقی صرف تو ہی ہے۔ اس میں کوئی تیرا شریک نہیں۔ الفاظ کی گہرائی پر اگر غور کیا جائے تو بے شمار حکمتیں ان میں نظر آئیں گی۔ ان الفاظ میں ایک طرف سچے بادشاہ کی خدائی کا اعتراف ہے تو دوسری طرف اپنی خودی کو بھی ایک درجہ خاص میں رکھ کر اس کے سامنے پیش کیا گیا ہے

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے



( 1 ) بار بار لبیک کہنا یہ اقرار کرناہے کہ اے خدا! میں پورے طور پر تسلیم ورضا کا بندہ بن کر تیرے سارے احکام کو ماننے کے لئے تیار ہوکر تیرے دربار میں حاضر ہوتاہوں۔
( 2 ) لاشریک لک میں اللہ کی توحید کا اقرار ہے جو اصل اصول ایمان واسلام ہے اور جو دنیا میں قیام امن کا صرف ایک ہی راستہ ہے۔دنیا میں جس قدر تباہی وبربادی، فساد، بدامنی پھیلی ہوئی ہے ہے وہ سب ترک توحید کی وجہ سے ہے۔
( 3 ) پھر یہ اعتراف ہے کہ سب نعمتیں تیری ہی دی ہوئی ہیں۔ لینا دینا صرف تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ لہٰذا ہم تیری ہی حمد وثنا کرتے ہیں اور تیری ہی تعریفوں کے گیت گاتے ہیں۔
( 4 ) پھر اس بات کا اقرار ہے کہ ملک وحکومت صرف خدا کی ہے۔ حقیقی بادشاہ سچا حاکم اصل مالک وہی ہے۔ ہم سب اس کے عاجز بندے ہیں۔ لہٰذا دنیا میں اسی کا قانون نافذ ہونا چاہئے اور کسی کو اپنی طرف سے نیا قانون بنانے کا اختیار نہیں ہے۔ جو کوئی قانون الٰہی سے ہٹ کر قانون سازی کرے گا وہ اللہ کا حریف ٹھہرے گا۔ دنیاوی حکام صرف اللہ تعالیٰ کے خلیفہ ہیں۔
اس لئے ان کی اطاعت بندوں پراسی وقت تک فرض ہے جب تک وہ حدود الٰہی قوانین فطرت سے آگے نہ بڑھیں اور خود خدا نہ بن بیٹھیں ا س کے برعکس ان کی اطاعت حرام ہوجاتی ہے۔غور کرو جو شخص بار بار ان سب باتوں کا اقرار کرے گاتو وہ حج کے بعد کس قسم کا انسان بن جائے گا۔ بشرطیکہ اس نے یہ تمام اقرار سچے دل سے کئے ہوں اور سمجھ بوجھ کر یہ الفاظ منہ سے نکالے ہوں۔

حدیث نمبر : 1560
حدثنا محمد بن بشار، قال حدثني أبو بكر الحنفي، حدثنا أفلح بن حميد، سمعت القاسم بن محمد، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في أشهر الحج، وليالي الحج وحرم الحج، فنزلنا بسرف قالت فخرج إلى أصحابه فقال ‏"‏من لم يكن منكم معه هدى فأحب أن يجعلها عمرة فليفعل، ومن كان معه الهدى فلا‏"‏‏. ‏ قالت فالآخذ بها والتارك لها من أصحابه قالت فأما رسول الله صلى الله عليه وسلم ورجال من أصحابه فكانوا أهل قوة، وكان معهم الهدى، فلم يقدروا على العمرة قالت فدخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم وأنا أبكي فقال ‏"‏ما يبكيك يا هنتاه‏"‏‏. ‏ قلت سمعت قولك لأصحابك فمنعت العمرة‏.‏ قال ‏"‏وما شأنك‏"‏‏. ‏ قلت لا أصلي‏.‏ قال ‏"‏فلا يضيرك، إنما أنت امرأة من بنات آدم كتب الله عليك ما كتب عليهن، فكوني في حجتك، فعسى الله أن يرزقكيها‏"‏‏. ‏ قالت فخرجنا في حجته حتى قدمنا منى فطهرت، ثم خرجت من منى فأفضت بالبيت قالت ثم خرجت معه في النفر الآخر حتى نزل المحصب، ونزلنا معه فدعا عبد الرحمن بن أبي بكر فقال ‏"‏اخرج بأختك من الحرم، فلتهل بعمرة ثم افرغا، ثم ائتيا ها هنا، فإني أنظركما حتى تأتياني‏"‏‏. ‏ ـ قالت ـ فخرجنا حتى إذا فرغت، وفرغت من الطواف ثم جئته بسحر فقال ‏"‏هل فرغتم‏"‏‏. ‏ فقلت نعم‏.‏ فآذن بالرحيل في أصحابه، فارتحل الناس فمر متوجها إلى المدينة‏.‏ ضير من ضار يضير ضيرا، ويقال ضار يضور ضورا وضر يضر ضرا‏.‏
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابو بکر حنفی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے افلح بن حمید نے بیان کیا، کہا کہ میں نے قاسم بن محمد سے سنا، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کے مہینوں میں حج کی راتوں میں اور حج کے دنوں میں نکلے۔ پھر سرف میں جاکر اترے۔ آپ نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو خطاب فرمایا جس کے ساتھ ہدی نہ ہو اور وہ چاہتا ہوکہ اپنے احرام کو صرف عمرہ کا بنالے تو اسے ایسا کرلینا چاہئے لیکن جس کے ساتھ قربانی ہے وہ ایسا نہ کرے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اصحاب نے اس فرمان پر عمل کیا اور بعض نے نہیں کیا۔ انہو ںنے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رآ پ کے بعض اصحاب جو استطاعت وحوصلہ والے تھے ( کہ وہ احرام کے ممنوعات سے بچ سکتے تھے۔ ) ان کے ساتھ ہدی بھی تھی، اس لئے وہ تنہا عمرہ نہیں کرسکتے تھے ( پس انہوں نے احرام نہیں کھولا ) عائشہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاش تشریف لائے تو میں رو رہی تھی۔ آپ نے پوچھا کہ ( اے بھولی بھالی عورت ! تو ) رو کیوں رہی ہے؟ میں نے عرض کی کہ میں نے آپ کے اپنے صحابہ سے ارشاد کو سن لیا، اب تو میں عمرہ نہ کرسکوں گی۔ آپ نے پوچھا کیا بات ہے؟ میں نے کہا میں نماز پڑھنے کے قابل نہ رہی ( یعنی حائضہ ہوگئی ) آپ نے فرمایا کوئی حرج نہیں۔ آخر تم بھی آدم کی بیٹیوں کی طرح ایک عورت ہو اور اللہ نے تمہارے لئے بھی وہ مقدر کیا ہے جو تمام عورتوں کے لئے کیا ہے۔ اس لئے ( عمرہ چھوڑ کر ) حج کرتی رہ اللہ تعالیٰ تمہیں جلد ہی عمرہ کی توفیق دے دے گا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ بیان کیا کہ ہم حج کے لیے نکلے۔ جب ہم ( عرفات سے ) منیٰ پہنچے تومیں پاک ہوگئی۔ پھر منٰی سے جب میں نکلی تو بیت اللہ کا طواف الزیارۃ کیا۔ آپ نے بیان کیا کہ آخر میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جب واپس ہونے لگی تو آپ وادی محصب میں آن کر اترے۔ ہم بھی آپ کے ساتھ ٹھہرے۔ آپ نے عبدالرحمن بن ابی بکر کو بلاکر کہا کہ اپنی بہن کو لے کرحرم سے باہر جا اور وہاں سے عمرہ کا احرام باندھ پھر عمرہ سے فارغ ہوکر تم لوگ یہیں واپس آجاؤ، میں تمہارا انتظار کرتا رہوں گا۔ عائشہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم ( آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق ) چلے اور جب میں اورمیرے بھائی طواف سے فارغ ہو لیے تو میں سحری کے وقت آپ کی خدمت میں پہنچی۔ آپ نے پوچھا کہ فارغ ہولیں؟ میں نے کہا ہاں۔ تب آپ نے اپنے ساتھیوں سے سفر شروع کردینے کے لیے کہا۔ سفر شروع ہوگیا اور آپ مدینہ منورہ واپس ہورہے تھے۔ ابوعبداللہ ( امام بخاری ) نے کہا کہ جو لایضیرک ہے وہ ضاریضیرضیرا سے مشتق ہے ضار یضور ضورا بھی استعمال ہوتاہے۔ اورجس روایت میں لایضرک ہے وہ ضریضرضرا سے نکلا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : حج میں تمتع، قران اور افراد کا بیان اورجس کے ساتھ ہدی نہ ہو، اسے حج فسخ کرکے عمرہ بنادینے کی اجازت ہے

حدیث نمبر : 1561
حدثنا عثمان، حدثنا جرير، عن منصور، عن إبراهيم، عن الأسود، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ خرجنا مع النبي صلى الله عليه وسلم ولا نرى إلا أنه الحج، فلما قدمنا تطوفنا بالبيت، فأمر النبي صلى الله عليه وسلم من لم يكن ساق الهدى أن يحل، فحل من لم يكن ساق الهدى، ونساؤه لم يسقن فأحللن، قالت عائشة ـ رضى الله عنها ـ فحضت فلم أطف بالبيت، فلما كانت ليلة الحصبة قالت يا رسول الله، يرجع الناس بعمرة وحجة وأرجع أنا بحجة قال ‏"‏وما طفت ليالي قدمنا مكة‏"‏‏. ‏ قلت لا‏.‏ قال ‏"‏فاذهبي مع أخيك إلى التنعيم، فأهلي بعمرة ثم موعدك كذا وكذا‏"‏‏. ‏ قالت صفية ما أراني إلا حابستهم‏.‏ قال ‏"‏عقرى حلقى، أوما طفت يوم النحر‏"‏‏. ‏ قالت قلت بلى‏.‏ قال ‏"‏لا بأس، انفري‏"‏‏. ‏ قالت عائشة ـ رضى الله عنها ـ فلقيني النبي صلى الله عليه وسلم وهو مصعد من مكة، وأنا منهبطة عليها، أو أنا مصعدة وهو منهبط منها‏.‏
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے اسود نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ ہم حج کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے۔ ہماری نیت حج کے سوااور کچھ نہ تھی۔ جب ہم مکہ پہنچے تو ( اور لوگوں نے ) بیت اللہ کا طواف کیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تھا کہ جو قربانی اپنے ساتھ نہ لایا ہو وہ حلال ہوجائے۔ چنانچہ جن کے پاس ہدی نہ تھی وہ حلال ہوگئے۔ ( افعال عمرہ کے بعد ) آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات ہدی نہیں لے گئی تھیں، اس لئے انہوں نے بھی احرام کھول ڈالے۔ عائشہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں حائضہ ہوگئی تھیں س لیے بیت اللہ کا طواف نہ کرسکی ( یعنی عمرہ چھوٹ گیا اورحج کرتی چلی گئی ) جب محصب کی رات آئی، میں نے کہا یا رسول اللہ ! اور لوگ تو حج اور عمرہ دونوں کر کے واپس ہورہے ہیں لیکن میں صرف حج کر سکی ہوں۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ جب ہم مکہ آئے تھے تو تم طواف نہ کرسکی تھی؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اپنے بھائی کے ساتھ تنعیم تک چلی جااور وہاں سے عمرہ کا احرام باندھ ( پھر عمرہ ادا کر ) ہم لوگ تمہارافلاں جگہ انتظارکریں گے اور صفیہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ معلوم ہوتاہے میں بھی آپ ( لوگوں ) کو روکنے کاسبب بن جاوں گی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مردار سرمنڈای کیا تو نے یوم نحرکا طواف نہیں کیاتھا؟ انہوںنے کہا کیوں نہیں میں تو طواف کرچکی ہوں۔ آپ نے فرمایا پھر کوئی حرج نہیں چل کوچ کر۔ عائشہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میری ملاقات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی تو آپ مکہ سے جاتے ہوئے اورپر کے حصہ پرچڑھ ررہے تھے اور میں نشیب میں اتررہی تھی یا یہ کہا کہ میں اوپر چڑھ رہی تھی او رآنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اس چڑھاو کے بعد اتررہے تھے۔

تشریح : حج کی تین قسمیں ہیں۔ ایک تمتع وہ یہ ہے کہ میقات سے عمرہ کا احرام باندھے اور مکہ میں جاکر طواف اور سعی کر کے احرام کھول ڈالے۔ پر آٹھویں تاریخ کو حرم ہی سے حج کا احرام باندھے۔ دوسرے قران وہ یہ ہے کہ میقات سے حج اور عمرہ دونوں کا احرام ایک ساتھ باندھے یا پہلے صرف عمرے کا احرام باندھے پھر حج کو بھی اس میں شریک کر لے۔ اس صورت میں عمرے کے افعال حج میں شریک ہوجاتے ہیں اور عمرے کے افعال علیحدہ نہیں کرنا پڑتے۔ تیسرے حج مفرد یعنی میقات سے صرف حج ہی کا احرام باندھے اور جس کے ساتھ ہدی نہ ہو اس کا حج فسخ کر کے عمرہ بنا دینا۔ یہ ہمارے امام احمد بن حنبل اور جملہ اہلحدیث کے نزدیک جائز ہے۔ اور امام مالک اور شافعی اور ابو حنیفہ اور جمہور علماءنے کہا کہ یہ امر خاص تھا ان صحابہ سے جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دی تھی اور دلیل لیتے ہیں ہلال بن حارث کی حدیث سے جس میں یہ ہے کہ تمہارے لئے خاص ہے اور یہ روایت ضعیف ہے اعتماد کے لائق نہیں۔ امام ابن قیم اور شوکانی اور محققین اہلحدیث نے کہا کہ فسخ حج کو چوبیس صحابہ نے روایت کیاہے۔ ہلال بن حارث کی ایک ضعیف روایت ان کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ آپ نے ان صحابہ کو جو قربانی نہیں لائے تھے، عمرہ کر کے احرام کھول ڈالنے کا حکم دیا۔ اس سے تمتع اور حج کو فسخ کر کے عمرہ کر ڈالنے کا جواز ثابت ہوا اورحضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کو جو حج کی نیت کر لینے کا حکم دیا اس سے قران کا جواز نکلا۔ گو اس روایت میں اس کی صراحت نہیں ہے مگر جب انہوں نے حیض کی وجہ سے عمرہ ادا نہیں کیا تھا اور حج کرنے لگیں تو یہ مطلب نکل آیا۔ اوپر کی روایتوں میں اس کی صراحت ہوچکی ہے۔ ( وحےدالزمان مرحوم )

حدیث نمبر : 1562
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن أبي الأسود، محمد بن عبد الرحمن بن نوفل عن عروة بن الزبير، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أنها قالت خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام حجة الوداع، فمنا من أهل بعمرة، ومنا من أهل بحجة وعمرة، ومنا من أهل بالحج وأهل رسول الله صلى الله عليه وسلم بالحج، فأما من أهل بالحج أو جمع الحج والعمرة لم يحلوا حتى كان يوم النحر‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبردی، انہیں ابوالاسود محمد بن عبدالرحمن بن نوفل نے، انہیں عروہ بن زبیر نے اور ان سے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ہم حجتہ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے۔ کچھ لوگوں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا، کچھ نے حج اور عمرہ دونوں کا اور کچھ نے صرف حج کا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( پہلے ) صرف حج کا احرام باندھا تھا، پھر آپ نے عمرہ بھی شریک کرلیا، پھر جن لوگوں نے حج کا احرام باندھا تھا یا حج اور عمرہ دونوں کا، ان کا احرام دسویں تاریخ تک نہ کھل سکا۔

حدیث نمبر : 1563
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا غندر، حدثنا شعبة، عن الحكم، عن علي بن حسين، عن مروان بن الحكم، قال شهدت عثمان وعليا ـ رضى الله عنهما ـ وعثمان ينهى عن المتعة وأن يجمع بينهما‏.‏ فلما رأى علي، أهل بهما لبيك بعمرة وحجة قال ما كنت لأدع سنة النبي صلى الله عليه وسلم لقول أحد‏.‏
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حکم نے، ان سے علی بن حسین ( حضرت زین العابدین ) نے اور ان سے مروان بن حکم نے بیان کیا کہ حضرت عثمان اور علی رضی اللہ عنہما کو میں نے دیکھا ہے۔ عثمان رضی اللہ عنہ حج اور عمرہ کو ایک ساتھ ادا کرنے سے روکتے تھے لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کے باوجود دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھا اور کہا ” لبیک بعمرۃ وحجۃ “ آپ نے فرمایا تھا کہ میں کسی ایک شخص کی بات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو نہیں چھوڑ سکتا۔

تشریح : حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شاید حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تقلید سے تمتع کو برا سمجھتے تھے ان کو بھی یہی خیال ہوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کو فسخ کرا کر جو حکم عمرہ کا دیا تھا وہ خاص تھا صحابہ رضی اللہ عنہ سے۔ بعضوں نے کہا مکروہ تنزیہی سمجھا اور چونکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا یہ خیال حدیث کے خلاف تھا۔ اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس پر عمل نہیں کیا اور یہ فرمایا کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو کسی کے قول سے نہیں چھوڑسکتا۔

مسلمان بھائیو! ذرا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس قول کو غور سے دیکھو، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ وقت اور خلیفہ بھی کیسے؟ خلیفہ راشد اور امیرالمؤمنین۔ لیکن حدیث کے خلاف ان کا قول پھینک دیا گیا اور خود ان کے سامنے ان کا خلاف کیا گیا۔ پھر تم کو کیا ہوگیا ہے جو تم ابو حنیفہ یا شافعی کے قول کو لیے رہتے ہو اور صحیح حدیث کے خلاف ان کے قول پر عمل کرتے ہو، یہ صریح گمراہی ہے۔ خدا کے لیے اس سے باز آؤ اور ہمارا کہنا مانو ہم نے جو حق بات تھی وہ تم کو بتادی آئندہ تم کو اختیار ہے۔ تم قیامت کے دن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑے ہوگے اپنا عذر بیان کرلینا والسلام ( مولانا وحیدالزمان مرحوم )

حدیث نمبر : 1564
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا وهيب، حدثنا ابن طاوس، عن أبيه، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال كانوا يرون أن العمرة في أشهر الحج من أفجر الفجور في الأرض، ويجعلون المحرم صفرا ويقولون إذا برأ الدبر، وعفا الأثر، وانسلخ صفر، حلت العمرة لمن اعتمر‏.‏ قدم النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه صبيحة رابعة مهلين بالحج، فأمرهم أن يجعلوها عمرة فتعاظم ذلك عندهم فقالوا يا رسول الله أى الحل قال ‏"‏حل كله‏"‏‏. ‏
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن طاوس نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ عرب سمجھتے تھے کہ حج کے دنوں میں عمرہ کرنار وئے زمین پر سب سے بڑا گناہ ہے۔ یہ لوگ محرم کو صفر بنالیتے اور کہتے کہ جب اونٹ کی پیٹھ سستالے اور اس پر خوب بال اگ جائیں اور صفر کا مہینہ ختم ہوجائے ( یعنی حج کے ایام گزرجائیں ) تو عمرہ حلال ہوتا ہے۔ پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ چوتھی کی صبح کو حج کا احرام باندھے ہوئے آئے تو آپ نے انہیں حکم دیا کہ اپنے حج کو عمرہ بنالیں، یہ حکم ( عرب کے پرانے رواج کی بناپر ) عام صحابہ پر بڑا بھاری گزرا۔ انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ ! عمرہ کرکے ہمارے لیے کیا چیز حلال ہوگئی؟ آپ نے فرمایا کہ تمام چیزیں حلال ہوجائیں گی۔

ہر آدمی کے دل میں قدیمی رسم ورواج کا بڑا اثر رہتا ہے۔ جاہلیت کے زمانہ سے ان کا یہ اعتقاد چلا آتا تھا کہ حج کے دنوں میں عمرہ کرنا بڑا گناہ ہے، اسی وجہ سے آپ کا یہ حکم ان پر گراں گزرا۔
ایمان افروز تقریر!

حدیث ہذا کے ذیل حضرت مولانا وحید الزمان صاحب مرحوم نے ایک ایمان افروز تقریر حوالہ قرطاس فرمائی ہے جو اہل بصیرت کے مطالعہ کے قابل ہے۔
صحابہ کرام نے کہا یا رسول اللہ ای الحل قال حل کلہ یعنی یا رسول اللہ! عمرہ کرکے ہم کو کیا چیز حلال ہوگی۔ آپ نے فرمایا سب چیزیں یعنی جتنی چیزیں احرام میں منع تھیں وہ سب درست ہوجائیں گی۔ انہوں نے یہ خیال کیا کہ شاید عورتوں سے جماع درست نہ ہو۔ جیسے رمی اور حلق اور قربانی کے بعد سب چیزیں درست ہوجاتی ہیں لیکن جماع درست نہیں ہوتا جب تک طواف الزیارۃ نہ کرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ نہیں عورتیں بھی درست ہوجائیں گی۔
دوسری روایت میں ہے کہ بعضے صحابہ کو اس میں تامل ہوا اور ان میں سے بعضوں نے یہ بھی کہا کہ کیا ہم حج کو اس حال میں جائیں کہ ہمارے ذکر سے منی ٹپک رہی ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا یہ حال دیکھ کر سخت ملال ہوا کہ میں حکم دیتا ہوں اور یہ اس کی تعمیل میں تامل کرتے ہیں اور چہ میگوئیاں نکالتے ہیں۔ لیکن جو صحابہ قوی الایمان تھے انہوں نے فوراً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر عمل کیا اور عمرہ کرکے احرام کھول ڈالا۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ حکم دیں وہیں اللہ کا حکم ہے اور یہ ساری محنت اور مشقت اٹھانے سے غرض کیا ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی۔ عمرہ کرکے احرام کھول ڈالنا تو کیا چیز ہے۔ آپ جو بھی حکم فرمائیں اس کی تعمیل ہمارے لیے عین سعادت ہے۔ جو حکم آپ دیں اسی میں اللہ کی مرضی ہے گو سارا زمانہ اس کے خلاف بکتا رہے۔ ان کا قول اور خیال ان کو مبارک رہے۔ ہم کو مرتے ہی اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنا ہے۔ اگر بالفرض دوسرے مجتہد یا امام یا پیرومرشد درویش قطب پیغمبر علیہ السلام کی پیروی کرنے میں ہم سے خفا ہوجائیں تو ہم کو ان کی خفگی کی ذرا بھی پرواہ نہیں ہے۔ ہم کو قیامت میں ہمارے پیغمبر کا سایہ عاطفت بس کرتا ہے۔ سارے ولی اور درویش اور غوث اور قطب اور مجتہد اور امام اس بارگاہ کے ایک ادنیٰ کفش بردار ہیں۔ کفش برداروں کو راضی رکھیں یا اپنے سردار کو اللہم صل علی محمد وعلی آل محمد وعلی اصحابہ وارزقنا شفاعتہ یوم القیامۃ واحشرنا فی زمرۃ اتباعہ وثبتنا علی متابعتہ والعمل بسنتہ امین۔

حدیث نمبر : 1565
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا غندر، حدثنا شعبة، عن قيس بن مسلم، عن طارق بن شهاب، عن أبي موسى ـ رضى الله عنه ـ قال قدمت على النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ فأمره بالحل‏.‏
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن جعفر غندر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قیس بن مسلم نے، ان سے طارق بن شہاب نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ( حجتہ الوداع کے موقع پر یمن سے ) حاضر ہوا تو آپ نے ( مجھ کو عمرہ کے بعد ) احرام کھول دینے کا حکم دیا۔

حدیث نمبر : 1566
حدثنا إسماعيل، قال حدثني مالك،‏.‏ وحدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن نافع، عن ابن عمر، عن حفصة ـ رضى الله عنهم ـ زوج النبي صلى الله عليه وسلم أنها قالت يا رسول الله، ما شأن الناس حلوا بعمرة ولم تحلل أنت من عمرتك قال ‏"‏إني لبدت رأسي، وقلدت هديي فلا أحل حتى أنحر‏"‏‏. ‏
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک رحمہ اللہ نے بیان کیا ( دوسری سند ) اور امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ نے خبردی، انہیں نافع نے اور انہیں ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا یا رسول اللہ ! کیا بات ہے اور لوگ تو عمرہ کرکے حلال ہو گئے لیکن آپ حلال نہیں ہوئے؟ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اپنے سر کی تلبید ( بالوں کو جمانے کے لیے ایک لیس دار چیز کا استعمال کرنا ) کی ہے اور اپنے ساتھ ہدی ( قربانی کا جانور ) لایا ہوں اس لیے میں قربانی کرنے سے پہلے احرام نہیں کھول سکتا۔

حدیث نمبر : 1567
حدثنا آدم، حدثنا شعبة، أخبرنا أبو جمرة، نصر بن عمران الضبعي قال تمتعت فنهاني ناس، فسألت ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ فأمرني، فرأيت في المنام كأن رجلا يقول لي حج مبرور وعمرة متقبلة، فأخبرت ابن عباس فقال سنة النبي صلى الله عليه وسلم فقال لي أقم عندي، فأجعل لك سهما من مالي‏.‏ قال شعبة فقلت لم فقال للرؤيا التي رأيت‏.‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابو جمرہ نصربن عمران ضبعی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے حج اور عمرہ کا ایک ساتھ احرام باندھا تو کچھ لوگوں نے مجھے منع کیا۔ اس لیے میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کے متعلق دریافت کیا۔ آپ نے تمتع کرنے کے لیے کہا۔ پھر میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ مجھ سے کہہ رہا ہے ” حج بھی مبرور ہوا اور عمرہ بھی قبول ہوا “ میں نے یہ خواب ابن عباس رضی اللہ عنہما کو سنایا، تو آپ نے فرمایا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ میرے یہاں قیام کر، میں اپنے پاس سے تمہارے لیے کچھ مقرر کرکے دیا کروں گا۔ شعبہ نے بیان کیا کہ میں نے ( ابو جمرہ سے ) پوچھا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ کیوں کیا تھا؟ ( یعنی مال کس بات پر دینے کے لیے کہا ) انہوں نے بیان کیا کہ اسی خواب کی وجہ سے جو میں نے دیکھا تھا۔

تشریح : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو ابو جمرہ کا یہ خواب بہت بھلا معلوم ہوا کیونکہ انہوں نے جو فتویٰ دیا تھا اس کی صحت اس سے نکلی۔ خواب کوئی شرعی حجت نہیں ہے۔ مگر نیک لوگوں کے خواب جب شرعی امور کی تائید میں ہوں تو ان کے صحیح ہونے کا ظن غالب ہوتا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے حج تمتع کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بتلایا اور سنت کے موافق جو کوئی کام کرے وہ ضرور اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہوگا۔ سنت کے موافق تھوڑی سی عبادت بھی خلاف سنت بڑی عبادت سے زیادہ ثواب رکھتی ہے۔ علمائے دین سے منقول ہے کہ ادنیٰ سنت کی پیروی جیسے فجر کی سنتوں کے بعد لیٹ جانا درجہ میں بڑے ثواب کی چیز ہے۔ یہ ساری نعمت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کفش برداری کی وجہ سے ملتی ہے۔ پروردگار کو کسی کی عبادت کی حاجت نہیں۔ اس کو یہی پسند ہے کہ اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی چال ڈھال اختیار کی جائے۔

حافظ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ویوخذ منہ اکرام من اخبر المرءبما یسرہ وفرح العالم بموافقتہ والاستسناس بالرویا لموافقۃ الدلیل الشرعی وعرض الرویا علی العالم والتکبیر عند المسرۃ والعمل بالادلۃ الظاہرۃ والتنبیہ علی اختلاف اہل العلم لیعمل بالراجح منہ الموافق للدلیل ( فتح ) یعنی اس سے یہ نکلا کہ اگر کوئی بھائی کسی کے پاس کوئی خوش کرنے والی خبر لائے تو وہ اس کا اکرام کرے اور یہ بھی کہ کسی عالم کی کوئی بات حق کے موافق پڑ جائے تو وہ خوشی کا اظہار کرسکتا ہے اور یہ بھی کہ دلیل شرعی کے موافق کوئی خواب نظر آجائے تو اس سے دلی مسرت حاصل کرنا جائز ہے اور یہ بھی کہ خواب کسی عالم کے سامنے پیش کرنا چاہیے اور یہ بھی کہ خوشی کے وقت نعرہ تکبیر بلند کرناد رست ہے اور یہ بھی کہ ظاہر دلائل پر عمل کرنا جائز ہے اور یہ بھی کہ اختلاف کے وقت اہل علم کو تنبیہ کی جاسکتی ہے کہ وہ اس پر عمل کریں جو دلیل سے راجح ثابت ہو۔

حدیث نمبر : 1568
حدثنا أبو نعيم، حدثنا أبو شهاب، قال قدمت متمتعا مكة بعمرة فدخلنا قبل التروية بثلاثة أيام، فقال لي أناس من أهل مكة تصير الآن حجتك مكية‏.‏ فدخلت على عطاء أستفتيه فقال حدثني جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ أنه حج مع النبي صلى الله عليه وسلم يوم ساق البدن معه، وقد أهلوا بالحج مفردا، فقال لهم ‏"‏أحلوا من إحرامكم بطواف البيت وبين الصفا والمروة، وقصروا ثم أقيموا حلالا، حتى إذا كان يوم التروية فأهلوا بالحج، واجعلوا التي قدمتم بها متعة‏"‏‏. ‏ فقالوا كيف نجعلها متعة وقد سمينا الحج فقال ‏"‏افعلوا ما أمرتكم، فلولا أني سقت الهدى لفعلت مثل الذي أمرتكم، ولكن لا يحل مني حرام حتى يبلغ الهدى محله‏"‏‏. ‏ ففعلوا‏.‏
سے ابو نعیم نے بیان کیا، ان سے ابوشہاب نے کہا کہ میں تمتع کی نیت سے عمرہ کا احرام باندھ کے یوم ترویہ سے تین دن پہلے مکہ پہنچا۔ اس پر مکہ کے کچھ لوگوں نے کہا اب تمہارا حج مکی ہوگا۔ میں عطاءبن ابی رباح کی خدمت میں حاضر ہوا۔ یہی پوچھنے کے لیے۔ انہو ں نے فرمایا کہ مجھ سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہ حج کیا تھا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ قربانی کے اونٹ لائے تھے ( یعنی حجتہ الوداع ) صحابہ نے صرف مفرد حج کا احرام باندھا تھا۔ لیکن آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ ( عمرہ کا احرام باندھ لو اور ) بیت اللہ کے طواف اور صفا مروہ کی سعی کے بعد اپنے احرام کھول ڈالو اور بال ترشوالو۔ یوم ترویہ تک برابر اسی طرح حلال رہو، پھر یوم ترویہ میں مکہ ہی سے حج کا احرام باندھو اور اس طرح اپنے حج مفرد کو جس کی تم نے پہلے نیت کی تھی، اب اسے تمتع بنالو۔ صحابہ نے عرض کی کہ ہم اسے تمتع کیسے بناسکتے ہیں؟ ہم تو حج کا احرام باندھ چکے ہیں۔ اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس طرح میں کہہ رہا ہوں ویسے ہی کرو۔ اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتی تو خود میں بھی اسی طرح کرتا جس طرح تم سے کہہ رہا ہوں۔ لیکن میں کیا کروں اب میرے لیے کوئی چیز اس وقت تک حلال نہیں ہوسکتی جب تک میرے قربانی کے جانوروں کی قربانی نہ ہوجائے۔ چنانچہ صحابہ نے آپ کے حکم کی تعمیل کی۔ ابوعبداللہ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے کہا کہ ابوشہاب کی اس حدیث کے سوا اور کوئی مرفوع حدیث مروی نہیں ہے۔

مکی حج سے یہ مراد ہے کہ مکہ والے جو مکہ ہی سے حج کرتے ہیں ان کو چونکہ تکلیف اور محنت کم ہوتی ہے لہٰذا ثواب بھی زیادہ نہیں ملتا۔ ان لوگوں کی غرض یہ تھی کہ جب تمتع کیا اور حج کا احرام مکہ سے باندھا، تو اب حج کا ثواب اتنا نہ ملے گا جتنا حج مفرد میں ملتا جس کا احرام باہر سے باندھا ہوتا۔ جابر رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کرکے مکہ والوں کا رد کیا اور ابو شہاب کا شبہ دور کردیا کہ تمتع میں ثواب کم ملے گا۔ تمتع تو سب قسموں میں افضل ہے اور اس میں افراد اور قران دونوں سے زیادہ ثواب ہے۔

حدیث نمبر : 1569
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا حجاج بن محمد الأعور، عن شعبة، عن عمرو بن مرة، عن سعيد بن المسيب، قال اختلف علي وعثمان ـ رضى الله عنهما ـ وهما بعسفان في المتعة، فقال علي ما تريد إلا أن تنهى عن أمر فعله النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ فلما رأى ذلك علي أهل بهما جميعا‏.‏
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حجاج بن محمد اعور نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے عمروبن مرہ نے، ان سے سعید بن مسیب نے کہ حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما عسفان آئے تو ان میں باہم تمتع کے سلسلے میں اختلاف ہوا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے اس سے آپ کیوں روک رہے ہیں؟ اس پر عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے اپنے حال پر رہنے دو۔ یہ دیکھ کر علی رضی اللہ عنہ نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام ایک ساتھ باندھا۔

تشریح : عسفان ایک مقام ہے مکہ سے 36 میل پر یہاں کے تربوز مشہور ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گو خود تمتع نہیں کیا تھا مگر دوسرے لوگوں کو اس کا حکم دیا تو گویا خود کیا۔ یہاں یہ اعتراض ہوتا ہے کہ بحث تو تمتع میں تھی پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قران کیا، اس کا کیا مطلب ہے۔ جواب یہ ہے کہ قران اور تمتع دونوں کا ایک ہی حکم ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ دونوں کو ناجائز سمجھتے تھے۔ عجیب بات ہے قرآن شریف میں صاف یہ موجودہے۔ فمن تمتع بالعمرۃ الی الحج اور احادیث صحیحہ متعدد صحابہ کی موجود ہیں۔ جن سے یہ ثابت ہوتاہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمتع کا حکم دیا۔ پھر ان صاحبوں کا اس سے منع کرنا سمجھ میں نہیں آتا۔ بعضوں نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما اس تمتع سے منع کرتے تھے۔کہ حج کی نیت کر کے حج کا فسخ کردینا اس کو عمرہ بنا دینا۔ مگر یہ بھی صراحتا احادیث سے ثابت ہے۔ بعضوں نے کہا یہ ممانعت بطور تنزیہ کے تھی۔ یعنی تمتع کو فضیلت کے خلاف جانتے تھے۔ یہ بھی صحیح نہیں ہے۔ اس لئے کہ حدیث سے صاف یہ ثابت ہے کہ تمتع سب سے افضل ہے۔ حاصل کلام یہ کہ یہ مقام مشکل ہے اور یہی وجہ تھی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کوحضرت علی رضی اللہ عنہما کے مقابل کچھ جواب نہ بن پڑا۔

اس سلسلہ میں حافظ صاحب فرماتے ہیں: فی قصۃ عثمان وعلی من الفوائد اشاعۃ العلم ما عندہ من العلم واظہارہ ومناظرۃ ولاۃ الامور وغیرہم فی تحقیقہ لمن قوی علی ذلک لقصد منا صحۃ المسلمین والبیان بالفضل مع القول وجواز استنباط من النص لان عثمان لم یخف علیہ ان التمتع اوالقران جائز ان وانما نہی عنہما لیعمل بالا فضل کما وقع لعمر ولکن خشی علی ان یحمل غیرہ النہی علی التحریم فاشاع جواز ذالک وکل منہما مجتہد ماجور۔ ( فتح الباری )
یعنی حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کے واقعہ مذکورہ میں بہت سے فوائد ہیں۔ مثلاً جو کچھ کسی کے پاس علم ہو اس کی اشاعت کرنا اور اہل اسلام کی خیر خواہی کے لئے امرحق کا اظہار کرنا یہاں تک کہ اگر مسلمان حاکموں سے مناظرہ تک کی نوبت پہنچ جائے تویہ بھی کرڈالنا اور کسی امرحق کا محض بیان ہی نہیں کرنا بلکہ اس پر عمل بھی کر کے دکھلادینااور نص سے کسی مسئلہ کا استنباط کرنا۔ کیونکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے یہ چیز مخفی نہ تھی حج تمتع اور قران بھی بھی جائز ہیں مگر انہوں نے افضل پر عمل کرنے کا خیال سے تمتع سے منع فرمایا۔ جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی واقع ہوا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسے اس پر محمول کیا کہ عوام الناس کہیں اس نہ کو تحریم پر محمول نہ کر بیٹھیں۔ اس لیے انہوں نے اس کے جواز کا اظہار فرمایا بلک ہ عمل بھی کر کے دکھلا دیا۔ پس ان میں دونوں ہی مجتہد ہیں اور ہر دو کو اجرو ثواب ملے گا۔

اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ نیک نیتی کے ساتھ کوئی فروعی اختلاف واقع ہو تو اس پر ایک دوسرے کو برا بھلا نہیں کہنا چاہئے۔ بلکہ صرف اپنی تحقیق پر عمل کرتے ہوئے دوسرے کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دینا چاہئے۔ ایسے فروعی امور میں اختلاف فہم کا ہوناقدرتی چیزہے۔جس کے لئے صدہا مثالیں سلف صالحین میں موجود ہیں۔ مگر صدافسوس کہ دور حاضرہ کے کم فہم علماءنے ایسے ہی اختلافات کو رائی کا پہاڑ بناکر امت کو تباہ وبرباد کر کے رکھ دیا۔ اللہم ارحم علی امۃ حبیبک۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : اگر کوئی لبیک میں حج کا نام لے

یعنی لبیک حج کی پکارے اور حج کا احرام باندھے تب بھی مکہ میں پہنچ کر حج کو فسخ کر سکتا ہے اور عمرہ کر کے احرام کھول سکتا ہے۔

حدیث نمبر : 1570
حدثنا مسدد، حدثنا حماد بن زيد، عن أيوب، قال سمعت مجاهدا، يقول حدثنا جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ قدمنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن نقول لبيك اللهم لبيك بالحج‏.‏ فأمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فجعلناها عمرة‏.‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، کہا کہ میں نے مجاہد سے سنا، انہو ںنے کہا کہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آئے تو ہم نے حج کی لبیک پکاری۔ پھر رسول االلہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہم نے اسے عمرہ بنالیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تمتع کاجاری ہونا

حدیث نمبر : 1571
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا همام، عن قتادة، قال حدثني مطرف، عن عمران ـ رضى الله عنه ـ قال تمتعنا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فنزل القرآن قال رجل برأيه ما شاء‏.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہمام بن یحییٰ نے قتادہ سے بیان کیا کہا کہ مجھ سے مطرف نے عمران بن حصین سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہم نے تمتع کیا تھا اور خود قرآن میں تمتع کا حکم نازل ہوا تھا۔ اب ایک شخص نے اپنی رائے سے جو چاہا کہہ دیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : اللہ کا سورہ بقرہ میں یہ فرمانا

{ذلك لمن لم يكن أهله حاضري المسجد الحرام}.
تمتع یا قربانی کا حکم ان لوگوں کے لئے ہے جن کے گھروالے مسجد حرام کے پا س نہ رہتے ہوں۔

تشریح : اختلاف ہے کہ حاضری المسجد الحرامکون لوگ ہیں۔ امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک اہل مکہ مراد ہیں۔ بعضوں کے نزدیک اہل حرم۔ ہمارے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور شافعی کا قول ہے کہ وہ لوگ مراد ہیںجو مکہ سے مسافت قصر کے اندر رہتے ہوں۔ حنفیہ کے نزدیک مکہ والوں کو تمتع درست نہیں اور شافعی رحمہ اللہ وغیرہ کا قول ہے کہ مکہ والے تمتع کرسکتے ہیں لیکن ان پر قربانی یا روزے دارجب نہیں اور ذلک کا اشارہ اسی طرف ہے یعنی یہ قربانی اور روزہ کا حکم۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ ذالک کا اشارہ تمتع کی طرف ہے یعنی تمتع اسی کو جائز ہے جو مسجد حرام کے پاس نہ رہتا ہو یعنی آفاقی ہو ( وحیدی )

حدیث نمبر : 1572
وقال أبو كامل فضيل بن حسين البصري حدثنا أبو معشر، حدثنا عثمان بن غياث، عن عكرمة، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ أنه سئل عن متعة الحج، فقال أهل المهاجرون والأنصار وأزواج النبي صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع وأهللنا، فلما قدمنا مكة قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏اجعلوا إهلالكم بالحج عمرة إلا من قلد الهدى‏"‏‏. ‏ فطفنا بالبيت وبالصفا والمروة وأتينا النساء، ولبسنا الثياب وقال ‏"‏من قلد الهدى فإنه لا يحل له حتى يبلغ الهدى محله‏"‏‏. ‏ ثم أمرنا عشية التروية أن نهل بالحج، فإذا فرغنا من المناسك جئنا فطفنا بالبيت وبالصفا والمروة فقد تم حجنا، وعلينا الهدى كما قال الله تعالى ‏{‏فما استيسر من الهدى فمن لم يجد فصيام ثلاثة أيام في الحج وسبعة إذا رجعتم‏}‏ إلى أمصاركم‏.‏ الشاة تجزي، فجمعوا نسكين في عام بين الحج والعمرة، فإن الله تعالى أنزله في كتابه وسنه نبيه صلى الله عليه وسلم وأباحه للناس غير أهل مكة، قال الله ‏{‏ذلك لمن لم يكن أهله حاضري المسجد الحرام‏}‏ وأشهر الحج التي ذكر الله تعالى شوال وذو القعدة وذو الحجة، فمن تمتع في هذه الأشهر فعليه دم أو صوم، والرفث الجماع، والفسوق المعاصي، والجدال المراء‏.
اور ابو کامل فضیل بن حسین بصری نے کہا کہ ہم سے ابو معشر یوسف بن یزید براءنے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عثمان بن غیاث نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے حج میں تمتع کے متعلق پوچھا گیا۔ آپ نے فرمایا کہ حجۃ الوداع کے موقع پر مہاجرین انصار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج اور ہم سب نے احرام باندھا تھا۔ جب ہم مکہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے احرام کو حج اور عمرہ دونوں کے لئے کرلو لیکن جو لوگ قربانی کا جانور اپنے ساتھ لائے ہیں۔ ( وہ عمرہ کرنے کے بعد حلال نہیں ہوں گے ) چنانچہ ہم نے بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کرلی تو اپنااحرام کھول ڈالا اور ہم اپنی بیویوں کے پاس گئے اور سلے ہوئے کپڑے پہنے۔ آپ نے فرمایا تھا کہ جس کے ساتھ قربانی کا جانور ہے وہ اس وقت تک حلال نہیں ہوسکتا جب تک ہدی اپنی جگہ نہ پہنچ لے ( یعنی قربانی نہ ہولے ) ہمیں ( جنہوں نے ہدی ساتھ نہیں لی تھی ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھویں تاریخ کی شام کو حکم دیاکہ ہم حج کا احرام باندھ لیں۔ پھر جب ہم مناسک حج سے فارغ ہوگئے تو ہم نے آکر بیت اللہ کا طواف او رصفا مروہ کی سعی کی، پھر ہمارا حج پورا ہوگیا اور اب قربانی ہم پر لازم ہوئی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ” جسے قربانی کا جانور میسر ہو ( تو وہ قربانی کرے ) اور اگر کسی کو قربانی کی طاقت نہ ہوتو تین روزے حج میں اور سات دن گھر واپس ہونے پر رکھے ( قربانی میں ) بکری بھی کافی ہے۔ تو لوگوں نے حج اور عمرہ دونوں عبادتیں ایک ہی سال میں ایک ساتھ ادا کیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود اپنی کتاب میں یہ حکم نازل کیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر خود عمل کر کے تمام لوگوں کے لئے جائز قرار دیا تھا۔ البتہ مکہ کے باشندوں کا اس سے استثناءہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ” یہ حکم ان لوگوں کے لئے ہے جن کے گھر والے مسجد الحرام کے پاس رہنے والے نہ ہوں “۔ اور حج کے جن مہینوں کا قرآن میں ذکر ہے وہ شوال، ذیقعدہ اور ذی الحجہ ہیں۔ ان مہینوں میں جو کوئی بھی تمتع کرے وہ یا قربانی دے یا اگر مقدور نہ ہو تو روزے رکھے۔ اور رفث کا معنی جماع ( یا فحش باتیں ) اور فسوق گناہ اور جدال لوگوں سے جھگڑنا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : مکہ میں داخل ہوتے وقت غسل کرنا

حدیث نمبر : 1573
حدثني يعقوب بن إبراهيم، حدثنا ابن علية، أخبرنا أيوب، عن نافع، قال كان ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ إذا دخل أدنى الحرم أمسك عن التلبية، ثم يبيت بذي طوى، ثم يصلي به الصبح ويغتسل، ويحدث أن نبي الله صلى الله عليه وسلم كان يفعل ذلك‏.‏
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا، انہیں ایوب سختیانی نے خبر دی، انہیں نافع نے، انہوں نے بیان کیا کہ جب عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما حرم کی سرحد کے قریب پہنچتے تو تلبیہ کہنا بند کردیتے۔ رات ذی طویٰ میں گزارتے، صبح کی نماز وہیں پڑھتے اور غسل کرتے ( پھر مکہ میں داخل ہوتے ) آپ بیا ن کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔

یہ غسل ہر ایک کے لئے مستحب ہے گو حائضہ یا نفاس والی عورت ہو۔ اگر کوئی تنعیم سے عمرے کا احرام باندھ کر آئے تو مکہ میں گھستے وقت پھر غسل کرنا مستحب نہیں کیونکہ تنعیم مکہ سے بہت قریب ہے۔ البتہ اگر دور سے احرام باندھ کر آیا ہو جیسے جعرانہ یا حدیبیہ سے تو پھر غسل کرلینا مستحب ہے ( قسطانی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : مکہ میں رات اور دن میں داخل ہونا

نسخہ مطبوعہ مصر میں اس کے بعد اتنی عبارت زیادہ ہے۔ بات النبی صلی اللہ علیہ وسلم بذی طویٰ حتی اصبح ثم دخل مکۃ یعنی آپ رات کو ذی طویٰ میں رہ گئے صبح تک پھر مکہ میں داخل ہوئے۔ ترجمہ باب میں رات کو بھی داخل ہونا مذکورہے۔ لیکن کوئی حدیث اس مضمون کی امام بخاری رحمہ اللہ نہیں لائے۔ اصحاب سنن نے روایت کیا کہ آپ جعرانہ کے عمرہ میں مکہ میں رات کو داخل ہوئے اور شاید امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرف اشارہ کیا۔ بعضوں نے یوں جواب دیا کہ ذی طویٰ خود مکہ ہے اور آپ شام کو وہاں پہنچے تھے۔ تو اس سے رات کو داخل ہونے کا جواز نکل آیا۔ بہرحال رات ہو یادن دونوں میں داخلہ جائز ہے۔
حافظ صاحب فرماتے ہیں: واما الدخول لیلا فلم یقع منہ صلی اللہ علیہ وسلم الا فی عمرۃ الجعرانۃ فان صلی اللہ علیہ وسلم احرم من الجعرانۃ ودخل مکۃ لیلا فقضی امر العمرۃ ثم رجع لیلا فاصبح بالجعرانۃ کبائت کما رواہ اصحاب السنن الثلاثۃ من حدیث معرش الکعبی وترجم علیہ النسائی دخول مکۃ لیلا وروی سعد بن منصور عن ابراہیم النخعی قال کانو یستحبون ان یدخلوامکۃ نہارا ویخرجوا منہا لیلاواخرج عن عطاءان شئتم فاد خلوا لیلاانکم لستم کر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہ کان امام فاحبِ ان یدخلہا نہا رالیراہ الناس انتہی وقضیۃ ہذا من کان اماما یقتدی بہ استحب لہ ان یدخلہا نہارا۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مکہ شریف میں رات کو داخل ہونا یہ صرف عمرہ جعرانہ میں ثابت ہے جب کہ آپ نے جعرانہ سے احرام باندھا اور رات کو آپ مکہ شریف میں داخل ہوئے اور اسی وقت عمرہ کر کے رات ہی کو واپس ہوگئے اور صبح آپ نے جعرانہ ہی میں کی۔ گویا آپ نے ساری رات یہیں گزاری ہے جیساکہ اصحاب سنن ثلاثہ نے روایت کیاہے۔ بلکہ امام نسائی نے اس پر باب باندھا کہ مکہ میں رات کو داخل ہونا اور ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ وہ مکہ شریف میں دن کو داخل ہونا مستحب گردانتے تھے اور رات کو واپس ہونا اور عطا ءنے کہا کہ اگر تم چاہو رات کو داخل ہوجاؤ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے نہیں ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم آپ امام اور مقتدیٰ تھے، آپ نے اسی کو پسند فرمایا کہ دن میں داخل ہوں اور لوگ آپ کو دیکھ کر مطمئن ہوں۔ خلاصہ یہ کہ جو کوئی بھی امام ہو اس کے ئے یہی مناسب ہے کہ دن میں مکہ شریف میں داخل ہو۔

حدیث نمبر : 1574
حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن عبيد الله، قال حدثني نافع، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال بات النبي صلى الله عليه وسلم بذي طوى حتى أصبح ثم دخل مكة‏.‏ وكان ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ يفعله‏.‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہو ں نے کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، انہو ں نے کہا کہ ہم سے عبید اللہ عمری نے بیان کیا، ان سے نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کیا، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی طویٰ میں رات گزاری۔ پھر جب صبح ہوئی تو آپ مکہ میں داخل ہوئے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی اسی طرح کرتے تھے۔
 
Top