• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٢ - حدیث نمبر٨١٤ تا ١٦٥٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : جو شخص پہلے طواف یعنی طواف قدوم کے بعد پھر کعبہ کے نزدیک نہ جائے اور عرفات میں حج کرنے کے لئے جائے

یعنی اس میں کوئی قباحت نہیں اگر کوئی نفل طواف حج سے پہلے نہ کرے اور کعبہ کے پاس بھی نہ جائے پھر حج سے فارغ ہو کر طواف الزیارۃ کرے جو فرض ہے۔

حدیث نمبر : 1625
حدثنا محمد بن أبي بكر، حدثنا فضيل، حدثنا موسى بن عقبة، أخبرني كريب، عن عبد الله بن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال قدم النبي صلى الله عليه وسلم مكة، فطاف وسعى بين الصفا والمروة، ولم يقرب الكعبة بعد طوافه بها حتى رجع من عرفة‏.‏
ہم سے محمد بن ابی بکر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے فضیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے کریب نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے خبر دی، ا نہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ تشریف لائے اور سات ( چکروں کے ساتھ ) طواف کیا۔ پھر صفا مروہ کی سعی کی۔ اس سعی کے بعد آپ کعبہ اس وقت تک نہیں گئے جب تک عرفات سے واپس نہ لوٹے۔

اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ حاجی کو طواف قدوم کے بعد پھر نفل طواف کرنا منع ہے، نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے کاموں میں مشغول ہوں گے اور کعبہ سے دور ٹھہرے تھے یعنی محصب میں۔ اس لئے حج سے فارع ہو نے تک آپ کو کعبہ میں آنے کی اور نفل طواف کرنے کی فرصت نہیں ملی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : اس شخص کے بارے میں جس نے طواف کی دو رکعتیں مسجد الحرام سے باہر پڑھیں

وصلى عمر ـ رضى الله عنه ـ خارجا من الحرم‏.‏
عمررضی اللہ عنہ نے بھی حرم سے باہر پڑھی تھیں۔

حدیث نمبر : 1626
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن محمد بن عبد الرحمن، عن عروة، عن زينب، عن أم سلمة ـ رضى الله عنها ـ شكوت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏ وحدثني محمد بن حرب حدثنا أبو مروان يحيى بن أبي زكرياء الغساني عن هشام عن عروة عن أم سلمة ـ رضى الله عنها ـ زوج النبي صلى الله عليه وسلم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال وهو بمكة، وأراد الخروج، ولم تكن أم سلمة طافت بالبيت وأرادت الخروج، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏إذا أقيمت صلاة الصبح فطوفي على بعيرك، والناس يصلون‏"‏‏. ‏ ففعلت ذلك، فلم تصل حتى خرجت‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہو ں نے کہا کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی، انہیں محمد بن عبدالرحمن نے، انہیں عروہ نے، انہیں زینب نے اور انہیں ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی۔ ( دوسری سند ) امام بخاری نے کہا کہ مجھ سے محمد بن حرب نے بیان کیا، انہو ں نے کہا کہ ہم سے ابو مروان یحییٰ ابن ابی زکریا غسانی نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے عروہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں تھے اور وہاں سے چلنے کا ارادہ ہوا توام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کعبہ کا طواف نہیں کیا اور وہ بھی روانگی کا ارادہ رکھتی تھیں آپ نے ان سے فرمایا کہ جب صبح کی نماز کھڑی ہو اور لوگ نماز پڑھنے میں مشغول ہوجائیں تو تم اپنی اونٹنی پر طواف کرلینا۔ چنانچہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے ایسا ہی کیا اور انہوں نے باہر نکلنے تک طواف کی نماز نہیں پڑھی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : اس سے متعلق کہ جس نے طواف کی دورکعتیں مقام ابراہیم کے پیچھے پڑھیں

حدیث نمبر : 1627
حدثنا آدم، حدثنا شعبة، حدثنا عمرو بن دينار، قال سمعت ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ يقول قدم النبي صلى الله عليه وسلم فطاف بالبيت سبعا وصلى خلف المقام ركعتين، ثم خرج إلى الصفا، وقد قال الله تعالى ‏{‏لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة‏}‏‏.‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا انہوں کہا کہ عم سے عمرو بن دینارنے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، انھوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( مکہ میں ) تشریف لائے تو آپ نے خانہ کعبہ کا سات چکروں سے طواف کیا اور مقام ابراہیم کے پیچھے دورکعت نماز پڑھی پھر صفا کی طرف ( سعی کرنے ) گئے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : صبح اور عصر کے بعد طواف کرنا

وكان ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ يصلي ركعتى الطواف ما لم تطلع الشمس‏.‏ وطاف عمر بعد الصبح، فركب حتى صلى الركعتين بذي طوى‏.‏
سورج نکلنے سے پہلے حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما طواف کی دو رکعت پڑھ لیتے تھے۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صبح کی نماز کے بعد طواف کیا پھر سوار ہوئے اور ( طواف کی ) دو رکعتیں ذی طویٰ میں پڑھیں۔

حدیث نمبر : 1628
حدثنا الحسن بن عمر البصري، حدثنا يزيد بن زريع، عن حبيب، عن عطاء، عن عروة، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أن ناسا، طافوا بالبيت بعد صلاة الصبح، ثم قعدوا إلى المذكر، حتى إذا طلعت الشمس قاموا يصلون فقالت عائشة ـ رضى الله عنها ـ قعدوا حتى إذا كانت الساعة التي تكره فيها الصلاة قاموا يصلون‏.‏
ہم سے حسن بن عمر بصری رحمہ اللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، ان سے حبیب نے، ان سے عطاءنے، ان سے عروہ نے، ان سے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ کچھ لوگوں نے صبح کی نماز کے بعد کعبہ کا طواف کیا۔ پھرایک وعظ کرنے والے کے پاس بیٹھ گئے اور جب سورج نکلنے لگا تو وہ لوگ نماز ( طواف کی دو رکعت ) پڑھنے کے لئے کھڑے ہوگئے۔ اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ( ناگواری کے ساتھ ) فرمایا جب سے تو یہ لوگ بیٹھے تھے اور جب وہ وقت آیا کہ جس میں نماز مکروہ ہے تو نماز کے لئے کھڑے ہوگئے۔

حدیث نمبر : 1629
حدثنا إبراهيم بن المنذر، حدثنا أبو ضمرة، حدثنا موسى بن عقبة، عن نافع، أن عبد الله ـ رضى الله عنه ـ قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم ينهى عن الصلاة عند طلوع الشمس وعند غروبها‏.

ہم سے ابراہیم بن منذر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابو ضمرہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سورج طلوع ہوتے اور غروب ہوتے وقت نماز پڑھنے سے روکتے تھے۔

حدیث نمبر : 1630
حدثني الحسن بن محمد ـ هو الزعفراني ـ حدثنا عبيدة بن حميد، حدثني عبد العزيز بن رفيع، قال رأيت عبد الله بن الزبير ـ رضى الله عنهما ـ يطوف بعد الفجر، ويصلي ركعتين‏.‏
ہم سے حسن بن محمد زعفرانی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبیدہ بن حمیدنے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبدالعزیز بن رفیع نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ آپ فجر کی نماز کے بعد طواف کررہے تھے اور پھر آپ نے دو رکعت ( طواف کی ) نماز پڑھی۔

حدیث نمبر : 1631
قال عبد العزيز ورأيت عبد الله بن الزبير يصلي ركعتين بعد العصر، ويخبر أن عائشة ـ رضى الله عنها ـ حدثته أن النبي صلى الله عليه وسلم لم يدخل بيتها إلا صلاهما‏.‏
عبدالعزیز نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو عصر کے بعد بھی دو رکعت نماز پڑھتے دیکھا تھا۔ وہ بتاتے تھے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی ان کے گھر آتے ( عصر کے بعد ) تو یہ دو رکعت ضرور پڑھتے تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : مریض آدمی سوار ہو کر طواف کرسکتا ہے

حدیث نمبر : 1632
حدثني إسحاق الواسطي، حدثنا خالد، عن خالد الحذاء، عن عكرمة، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم طاف بالبيت، وهو على بعير، كلما أتى على الركن أشار إليه بشىء في يده وكبر‏.
ہم سے اسحاق واسطی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد طحان نے خالد حذاء سے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے، ان سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کا طواف اونٹ پر سوار ہوکر کیا۔ آپ جب بھی ( طواف کرتے ہوئے ) حجر اسود کے نزدیک آتے تو اپنے ہاتھ کو ایک چیز ( چھڑی ) سے اشارہ کرتے اور تکبیر کہتے۔

تشریح : اس حدیث میں گویہ ذکر نہیں ہے کہ آپ بیمار تھے اور بظاہر ترجمہ باب سے مطابق نہیں ہے مگر امام بخاری رحمہ اللہ نے ابوداؤد کی روایت کی طرف اشارہ کیا جس میں صاف یہ ہے کہ آپ بیمار تھے۔ بعضوں نے کہا جب بغیر بیماری یا عذر کے سواری پر طواف درست ہوا تو بیماری میں بطریق اولیٰ درست ہوگا۔ اس طرح باب کا مطلب نکل آیا۔

حدیث نمبر : 1633
حدثنا عبد الله بن مسلمة، حدثنا مالك، عن محمد بن عبد الرحمن بن نوفل، عن عروة، عن زينب ابنة أم سلمة، عن أم سلمة ـ رضى الله عنها ـ قالت شكوت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم أني أشتكي‏.‏ فقال ‏"‏طوفي من وراء الناس وأنت راكبة‏"‏‏. ‏ فطفت ورسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي إلى جنب البيت، وهو يقرأ بالطور وكتاب مسطور‏.‏
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ ہم سے امام مالک رحمہ اللہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن عبدالرحمن بن نوفل نے، ان سے عروہ نے بیان کیا، ان سے زینب بنت ام سلمہ نے، ان سے ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ میں بیمار ہوگئی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر لوگوں کے پیچھے سے سوار ہوکر طواف کرلے۔ چنانچہ میں نے جب طواف کیا تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے بازو میں ( نماز کے اندر ) والطور وکتاب مسطور کی قرات کررہے تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج

باب : حاجیوں کو پانی پلانا

حدیث نمبر : 1634
حدثنا عبد الله بن أبي الأسود، حدثنا أبو ضمرة، حدثنا عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال استأذن العباس بن عبد المطلب ـ رضى الله عنه ـ رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يبيت بمكة ليالي منى من أجل سقايته، فأذن له‏.‏
ہم سے عبداللہ بن محمد بن ابی الاسود نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوضمرہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبیداللہ عمری نے بیان کیا، ان سے نافع نے، ان سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے پانی ( زمزم کا حاجیوں کو ) پلانے کے لیے منیٰ کے دنوں میں مکہ ٹھہرنے کی اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت دے دی۔

معلوم ہوا کہ اگر کوئی عذر نہ ہوتو گیارہویں بارہویں شب کو منیٰ ہی میں رہنا ضروری ہے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا عذر معقول تھا۔ حاجیوں کو زمزم سے پانی نکال کر پلانا ان کا قدیمی عہدہ تھا۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت دے دی۔

حدیث نمبر : 1635
حدثنا إسحاق، حدثنا خالد، عن خالد الحذاء، عن عكرمة، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم جاء إلى السقاية، فاستسقى، فقال العباس يا فضل اذهب إلى أمك، فأت رسول الله صلى الله عليه وسلم بشراب من عندها‏.‏ فقال ‏"‏اسقني‏"‏‏. ‏ قال يا رسول الله إنهم يجعلون أيديهم فيه‏.‏ قال ‏"‏اسقني‏"‏‏. ‏ فشرب منه، ثم أتى زمزم، وهم يسقون ويعملون فيها، فقال ‏"‏اعملوا، فإنكم على عمل صالح ـ ثم قال ـ لولا أن تغلبوا لنزلت حتى أضع الحبل على هذه‏"‏‏. ‏ ـ يعني عاتقه ـ وأشار إلى عاتقه‏.‏
ہم سے اسحاق بن شاہین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد طحان نے خالد حذاءسے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانی پلانے کی جگہ ( زمزم کے پاس ) تشریف لائے اور پانی مانگا ( حج کے موقع پر ) عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ فضل ! اپنی ماں کے یہاں جا اور ان کے یہاں سے کھجور کا شربت لا۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے ( یہی ) پانی پلاو۔ عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہر شخص اپنا ہاتھ اس میں ڈال دیتا ہے۔ اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہی کہتے رہے کہ مجھے ( یہی ) پانی پلاو۔ چنانچہ آپ نے پانی پیاپھر زمزم کے قریب آئے۔ لوگ کنویں سے پانی کھینچ رہے تھے اور کام کررہے تھے۔ آپ نے ( انہیں دیکھ کر ) فرمایا کام کرتے جاو کہ ایک اچھے کام پر لگے ہوئے ہو۔ پھر فرمایا ( اگر یہ خیال نہ ہو تاکہ آئندہ لوگ ) تمہیں پریشان کردیں گے تو میں بھی اترتا اور رسی اپنے اس پر رکھ لیتا۔ مراد آپ کی شانہ سے تھی۔ آپ نے اس کی طرف اشارہ کرکے کہا تھا۔

مطلب یہ ہے کہ اگر میں اتر کر خود پانی کھینچوں گا تو صدہا آدمی مجھ کو دیکھ کر پانی کھینچنے کے لیے دوڑ پڑیں گے اور تم کو تکلیف ہوگی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : زمزم کا بیان

تشریح : زمزم وہ مشہور کنواں ہے جو کعبے کے سامنے مسجد حرام میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کے پرمارنے سے پھوٹ نکلا تھا۔ کہتے ہیں زمزم اس کو اس لیے کہتے ہیں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے وہاں بات کی تھی۔ بعضوں نے کہا اس میں پانی بہت ہونے سے اس کا نام زمزم ہوا۔ زمزم عرب کی زبان میں بہت پانی کو کہتے ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ زمزم کا پانی جس مقصد کے لیے پیا جائے وہ حاصل ہوتا ہے۔

چاہ زمزم دنیا کا وہ قدیم تاریخی کنواں ہے جس کی ابتداءسیدنا ذبیح اللہ اسمٰعیل علیہ السلام کی شیرخواری سے شروع ہوتی ہے۔ یہ مبارک چشمہ پیاس کی بے تابی میں آپ کی ایڑیاں رگڑنے سے فوارہ کی طرح اس سنگلاخ زمین میں ابلا تھا۔ آپ کی والدہ حضرت ہاجرہ پانی کی تلاش میں صفا اور مروہ کے سات چکر لگاکر آئیں تو بچے کے زیر قدم یہ نعمت غیر مترقبہ دیکھ کر باغ باغ ہوگئیں۔ تو راۃ میں اس مبارک کنویں کا ذکر ان لفظوں میں ہے۔
”خدا کے فرشتے نے آسمان سے ہاجرہ کو پکارا اور اس سے کہا اے ہاجرہ! تجھ کو کیا ہوا مت ڈر کہ اس لڑکے کی آواز جہاں وہ پڑا ہے خدا نے سنی، اٹھ اور لڑکے کو اٹھا اور اسے اپنے ہاتھ سے سنبھال کہ میں اس کو ایک بڑی قوم بناؤں گا۔ پھر خدا نے اس کی آنکھیں کھولیں اور اس نے پانی کا ایک کنواں دیکھا اور جاکر اپنی مشک کو پانی سے بھرلیا اور لڑکے کو پلالیا۔“ ( توراۃ، سفر پیدائش، باب: 21 )
کہتے ہیں کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے بعد میں اس کو چار طرف سے کھود کر کنویں کی شکل میں کردیا تھا اور اب زمین کے اونچا ہوتے ہوتے اتنا گہرا ہوگیا۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بعد کئی دفعہ ایسا ہوا کہ زمزم کا چشمہ خشک ہوگیا جوں جوں یہ خشک ہوتا گیا لوگ اس کو گہرا کرتے گئے یہاں تک کہ وہ ایک گہرا کنواں بن گیا۔
مدتوں خانہ کعبہ کی تولیت بنو جرہم کے ہاتھوں میں رہی۔ جب بنو خزاعہ کو اقتدار حاصل ہوا تو بنو جرہم نے حجر اسود اور غلاف کعبہ کو زمزم میں ڈال دیا اور اس کا منہ بند کرکے بھاگ گئے بعد میں مدتوں تک یہ مبارک چشمہ غائب رہا۔ یہاں تک کہ عبدالمطلب نے بحکم الٰہی خواب میں اس کے صحیح مقام کو دیکھ کر اس کو نکالا۔ اس کے متعلق عبدالمطلب کا بیان ہے کہ میں سویا ہوا تھا کہ خواب میں مجھے ایک شخص نے کہا طیبہ کو کھودو۔ میں نے کہا کہ طیبہ کیا چیز ہے؟ وہ شخص بغیر جواب دئیے چلا گیا اور میں بیدار ہوگیا۔ دوسرے دن جب سویا تو خواب میں پھروہی شخص آیا اور کہا کہ مضنونہ کو کھودو۔ میں نے کہا کہ مضنونہ کیا چیز ہے؟ اتنے میں میری آنکھ کھل گئی اور وہ شخص غائب ہوگیا۔ تیسری رات پھر وہی واقعہ پیش آیا اور اب کی دفعہ اس شخص نے کہا کہ زمزم کو کھودو۔ میں نے کہا زمزم کیا ہے؟ اس نے کہا تمہارے دادا اسمٰعیل علیہ السلام کا چشمہ ہے۔ اس میں بہت پانی نکلے گا اور کھودنے میں تم کو زیادہ مشقت بھی نہ ہوگی۔ وہ اس جگہ ہے جہاں لوگ قربانیاں کرتے ہیں۔ ( عہد جاہلیت میں یہاں بتوں کے نام پر قربانیاں ہوتی تھیں ) وہاں چیونٹیوں کابل ہے۔ تم صبح کو ایک کوا وہاں چونچ سے زمین کریدتا ہوا دیکھو گے۔
صبح ہونے پر عبدالمطلب خود کدال لے کر کھڑے ہوگئے اور کھودنا شروع کردیا۔ تھوڑی ہی دیر میں پانی نمودار ہوگیا۔ جسے دیکھ کر انہوں نے زور سے تکبیر کہی۔ کہا جاتا ہے کہ چاہ زمزم میں سے دو سونے کے ہرن اور بہت سی تلواریں اور زرہیں بھی نکلیں۔ عبدالمطلب نے ہرنوں کا سونا تو خانہ کعبہ کے دروازوں پر لگادیا۔ تلواریں خود رکھ لیں۔ علامہ ابن خلدون لکھتے ہیں کہ یہ ہرن ایرانی زائروں نے کعبہ پر چڑھائے تھے۔
چاہ زمزم کمی آب کی وجہ سے کئی دفعہ کھودا گیا ہے۔ 223 ہجری میں اس کی اکثر دیواریں منہدم ہوگئیں اور اندر بہت سا ملبہ جمع ہوگیاتھا۔ اس وقت طائف کے ایک شخص محمد بن بشیر نامی نے اس کی مٹی نکالی اور بقدر ضرورت اس کی مرمت کی کہ پانی بھرپور آنے لگا۔
مشہور مؤرخ ازرقی کہتا ہے کہ اس وقت میں بھی کنویں کے اندر اترا تھا۔ میں نے دیکھا کہ اس میں تین طرف سے چشمے جاری ہیں۔ ایک حجر اسود کی جانب سے دوسرا جبل ابوقبیس کی طرف سے تیسرا مروہ کی طرف سے، تینوں مل کر کنویں کی گہرائی میں جمع ہوتے رہتے ہیں اور رات دن کتنا ہی کھینچومگر پانی نہیں ٹوٹتا۔
اسی مؤرخ کا قول ہے کہ میں نے قعر آب کی بھی پیمائش کی تو 40 ہاتھ کنویں کی تعمیر میں اور 26 ہاتھ پہاڑی غار میں، کل 69 ہاتھ پانی تھا۔ ممکن ہے آج کل زیادہ ہوگیا ہو۔
145ھ میں ابو جعفر منصور نے اس پر قبضہ بنایا اور اندر سنگ مرمر کافرش کیا۔ پھر مامون رشید نے چاہ زمزم کی مٹی نکلوا کر اس کو گہرا کیا۔
ایک مرتبہ کوئی دیوانہ کنویں کے اندر کود پڑا تھا۔ اس کے نکالنے کے لیے ساحل جدہ سے غواص بلائے گئے۔ بمشکل اس کی نعش ملی اور کنویں کو پاک صاف کرنے کے لیے بہت سا پانی نکالا گیا۔ اس لیے 1020ھ میں سلطان احمد خاں کے حکم سے چاہ زمزم کے اندر سطح آب سے سوا تین فٹ نیچے لوہے کا ایک جال ڈال دیا گیا۔ 1039 ھ میں سلطان مراد خاں مرحوم نے جب کعبہ شریف کو از سرنو تعمیر کیا تو چاہ زمزم کی بھی نئی بہترین تعمیر کی گئی۔ تہہ آب سے اوپر تک سنگ مرمر سے مزین کردیا اور زمین سے ایک گز اونچی 2 گز عریض منڈیر بنوادی۔ ارد گرد چاروں طرف دو دو گزتک سنگ مرمر کا فرش بناکر اس پر دیواریں اٹھادیں اور ان پر چھت پاٹ کر ایک کمرہ بنوادیا جس میں سبز جالیاں لگادیں۔

حدیث نمبر : 1636
وقال عبدان أخبرنا عبد الله، أخبرنا يونس، عن الزهري، قال أنس بن مالك كان أبو ذر ـ رضى الله عنه ـ يحدث أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏فرج سقفي وأنا بمكة، فنزل جبريل ـ عليه السلام ـ ففرج صدري، ثم غسله بماء زمزم، ثم جاء بطست من ذهب ممتلئ حكمة وإيمانا، فأفرغها في صدري، ثم أطبقه، ثم أخذ بيدي فعرج إلى السماء الدنيا‏.‏ قال جبريل لخازن السماء الدنيا افتح‏.‏ قال من هذا قال جبريل‏"‏‏. ‏
اور عبدان نے کہا کہ مجھ کو عبداللہ بن مبارک نے خبردی، انہوں نے کہا کہ ہمیں یونس نے خبردی، انہیں زہری نے، انہوں نے کہا کہ ہم سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابوذر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب میں مکہ میں تھا تو میری ( گھر کی ) چھت کھلی اور جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے۔ انہوں نے میرا سینہ چاک کیا اور اسے زمزم کے پانی سے دھویا۔ اس کے بعد ایک سونے کا طشت لائے جو حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا تھا۔ اسے انہوں نے میرے سینے میں ڈال دیا اور پھر سینہ بند کر دیا۔ اب وہ مجھے ہاتھ سے پکڑ کر آسمان دنیا کی طرف لے چلے۔ آسمان دنیا کے داروغہ سے جبریل نے کہا دروازہ کھولو۔ انہوں نے دریافت کیا کون صاحب ہیں؟ کہا جبریل !

حدیث نمبر : 1637
حدثنا محمد ـ هو ابن سلام ـ أخبرنا الفزاري، عن عاصم، عن الشعبي، أن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ حدثه قال سقيت رسول الله صلى الله عليه وسلم من زمزم فشرب وهو قائم‏.‏ قال عاصم فحلف عكرمة ما كان يومئذ إلا على بعير‏.‏
ہم سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں مروان بن معاویہ فزاری نے خبردی، انہیں عاصم نے اور انہیں شعبی نے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سے بیان کیا، کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زمزم کا پانی پلایا تھا۔ آپ نے پانی کھڑے ہوکر پیا تھا۔ عاصم نے بیان کیا کہ عکرمہ نے قسم کھاکر کہا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اس دن اونٹ پر سوار تھے۔

یہ معراج کی حدیث کا ایک ٹکڑا ہے۔ یہاں امام بخاری اس کو اس لیے لائے کہ اس سے زمزم کے پانی کی فضیلت نکلتی ہے۔ اس لیے کہ آپ کا سینہ اسی پانی سے دھویا گیا۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی احادیث زمزم کے پانی کی فضیلت میں وارد ہوئی ہیں مگر حضرت امیر المؤمنین فی الحدیث کی شرط پر یہی حدیث تھی۔ صحیح مسلم میں آب زمزم کو پانی کے ساتھ خوراک بھی قرار دیا گیا ہے اور بیماروں کے لیے دوا بھی فرمایا گیا ہے۔ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما میں مرفوعاً یہ بھی ہے کہ ماءزمزم لما شرب لہ کہ زمزم کا پانی جس لیے پیا جائے اللہ وہ دیتا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں وسمیت زمزم لکثرتہا یقال ماءزمزم ای کثیر وقیل لا جتما عہا یعنی اس کا نام زمزم اس لیے رکھا گیا کہ یہ بہت ہے اور ایسے ہی مقام پر بولا جاتا ہے۔ ماءزمزم ای کثیر یعنی یہ پانی بہت بڑی مقدار میں ہے اور اس کے جمع ہونے کی وجہ سے بھی اسے زمزم کہا گیاہے۔
مجاہد نے کہا کہ یہ لفظ ہزمۃ سے مشتق ہے۔ لفظ ہزمہ کے معنے ہیں ایڑیوں سے زمین میں اشارے کرنا۔ چونکہ مشہور ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے زمین پر ایڑی رگڑنے سے یہ چشمہ نکلا لہٰذا اسے زمزم کہا گیا۔ واللہ اعلم۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : قران کرنے والا ایک طواف کرے یا دو کرے

حدیث نمبر : 1638
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن عروة، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع، فأهللنا بعمرة، ثم قال ‏"‏من كان معه هدى فليهل بالحج والعمرة ثم لا يحل حتى يحل منهما‏"‏‏. ‏ فقدمت مكة، وأنا حائض، فلما قضينا حجنا أرسلني مع عبد الرحمن إلى التنعيم، فاعتمرت، فقال صلى الله عليه وسلم ‏"‏هذه مكان عمرتك‏"‏‏. ‏ فطاف الذين أهلوا بالعمرة، ثم حلوا، ثم طافوا طوافا آخر، بعد أن رجعوا من منى، وأما الذين جمعوا بين الحج والعمرة طافوا طوافا واحدا‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ نے ابن شہاب سے خبردی، انہیں عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ حجتہ الوداع میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ( مدینہ سے ) نکلے اور ہم نے عمرہ کا احرام باندھا۔ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے ساتھ قربانی کا جانور ہو وہ حج اور عمرہ دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھے۔ ایسے لوگ دونوں کے احرام سے ایک ساتھ حلال ہوں گے۔ میں بھی مکہ آئی تھی لیکن مجھے حیض آگیا تھا۔ اس لیے جب ہم نے حج کے کام پورے کرلیے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے عبدالرحمن کے ساتھ تنعیم کی طرف بھیجا۔ میں نے وہاں سے عمرہ کا احرام باندھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تمہارے اس عمرہ کے بدلہ میں ہے ( جسے تم نے حیض کی وجہ سے چھوڑ دیا تھا ) جن لوگوں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا انہوں نے سعی کے بعد احرام کھول دیا اور دوسرا طواف منٰی سے واپسی پر کیا لیکن جن لوگوں نے حج اور عمرہ کا احرام ایک ساتھ باندھا تھا انہوں نے صرف ایک طواف کیا۔

تشریح : تنعیم ایک مشہور مقام ہے جو مکہ سے تین میل دور ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی تطییب خاطر کے لیے وہاں بھیج کر عمرہ کا احرام باندھنے کے لیے فرمایا تھا۔ آخر حدیث میں ذکر ہے کہ جن لوگوں نے حج اور عمرہ کا ایک ہی احرام باندھا تھا۔ انہوں نے بھی ایک ہی طواف کیا اور ایک ہی سعی کی۔ جمہور علماءاور اہلحدیث کا یہی قول ہے کہ قارن کے لیے ایک ہی طواف اور ایک ہی سعی حج اور عمرہ دونوں کی طرف سے کافی ہے اورحضرت امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ نے دو طواف اور دو سعی لازم رکھے ہیں اور جن روایتوں سے دلیل لی ہے، وہ سب ضعیف ہیں ( وحیدی )

حدیث نمبر : 1639
حدثنا يعقوب بن إبراهيم، حدثنا ابن علية، عن أيوب، عن نافع، أن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ دخل ابنه عبد الله بن عبد الله، وظهره في الدار، فقال إني لا آمن أن يكون العام بين الناس قتال، فيصدوك عن البيت، فلو أقمت‏.‏ فقال قد خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم فحال كفار قريش بينه وبين البيت، فإن حيل بيني وبينه أفعل كما فعل رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏{‏لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة‏}‏ ثم قال أشهدكم أني قد أوجبت مع عمرتي حجا‏.‏ قال ثم قدم فطاف لهما طوافا واحدا‏.‏
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے نافع نے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کے لڑکے عبداللہ بن عبداللہ ان کے یہاں گئے۔ حج کے لیے سواری گھر میں کھڑی ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ مجھے خطرہ ہے کہ اس سال مسلمانوں میں آپس میں لڑائی ہوجائے گی اور آپ کو وہ بیت اللہ سے روک دیں گے۔ اس لیے اگر آپ نہ جاتے تو بہتر ہوتا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے گئے تھے ( عمرہ کرنے صلح حدیبیہ کے موقع پر ) اور کفار قریش نے آپ کو بیت اللہ تک پہنچنے سے روک دیا تھا۔ اس لیے اگر مجھے بھی روک دیا گیا تو میں بھی وہی کام کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا اور تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے عمرہ کے ساتھ حج ( اپنے اوپر ) واجب کرلیا ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر آپ مکہ آئے اور دونوں عمرہ اور حج کے لیے ایک ہی طواف کیا۔

حدیث نمبر : 1640
حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن نافع، أن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أراد الحج عام نزل الحجاج بابن الزبير‏.‏ فقيل له إن الناس كائن بينهم قتال، وإنا نخاف أن يصدوك‏.‏ فقال ‏{‏لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة‏}‏ إذا أصنع كما صنع رسول الله صلى الله عليه وسلم، إني أشهدكم أني قد أوجبت عمرة‏.‏ ثم خرج حتى إذا كان بظاهر البيداء قال ما شأن الحج والعمرة إلا واحد، أشهدكم أني قد أوجبت حجا مع عمرتي‏.‏ وأهدى هديا اشتراه بقديد ولم يزد على ذلك، فلم ينحر، ولم يحل من شىء حرم منه، ولم يحلق ولم يقصر حتى كان يوم النحر، فنحر وحلق، ورأى أن قد قضى طواف الحج، والعمرة بطوافه الأول‏.‏ وقال ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ كذلك فعل رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے نافع سے بیان کیا کہ جس سال حجاج عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے مقابلے میں لڑنے آیا تھا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے جب اس سال حج کا ارادہ کیا تو آپ سے کہا گیا کہ مسلمانوں میں باہم جنگ ہونے والی ہے اور یہ بھی خطرہ ہے کہ آپ کو حج سے روک دیا جائے۔ آپ نے فرمایا تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔ ایسے وقت میں میں بھی وہی کام کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔ تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے اوپر عمرہ واجب کرلیاہے۔ پھر آپ چلے اور جب بیداء کے میدان میں پہنچے تو آپ نے فرمایا کہ حج اور عمرہ تو ایک ہی طرح کے ہیں۔ میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے عمرہ کے ساتھ حج بھی واجب کر لیا ہے۔ آپ نے ایک قربانی بھی ساتھ لے لی جو مقام قدید سے خریدی تھی۔ اس کے سوا اور کچھ نہیں کیا۔ دسویں تاریخ سے پہلے نہ آپ نے قربانی کی نہ کسی ایسی چیز کو اپنے لیے جائز کیا جس سے ( احرام کی وجہ سے ) آپ رک گئے تھے۔ نہ سر منڈوایا نہ بال ترشوائے۔ آپ کا یہی خیال تھا کہ آپ نے ایک طواف سے حج اور عمرہ دونوں کا طواف ادا کرلیا ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی طرح کیا تھا۔

پہلے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے صرف عمرہ کا احرام باندھا تھا۔ پھر انہوں نے خیال کیا کہ صرف عمرہ کرنے سے حج اور عمرہ دونوں یعنی قران کرنا بہتر ہے تو حج کی بھی نیت باندھ لی اور پکار کرلوگوں سے اس لیے کہہ دیا کہ اور لوگ بھی ان کی پیروی کریں۔ بیداءمکہ اور مدینہ کے درمیان ذوالحلیفہ سے آگے ایک مقام ہے۔ قدید بھی جحفہ کے نزدیک ایک جگہ کا نام ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : ( کعبہ کا ) طواف وضو کرکے کرنا

حدیث نمبر : 1641
حدثنا أحمد بن عيسى، حدثنا ابن وهب، قال أخبرني عمرو بن الحارث، عن محمد بن عبد الرحمن بن نوفل القرشي، أنه سأل عروة بن الزبير فقال قد حج النبي صلى الله عليه وسلم فأخبرتني عائشة ـ رضى الله عنها ـ أنه أول شىء بدأ به حين قدم أنه توضأ ثم طاف بالبيت ثم لم تكن عمرة، ثم حج أبو بكر ـ رضى الله عنه ـ فكان أول شىء بدأ به الطواف بالبيت ثم لم تكن عمرة‏.‏ ثم عمر ـ رضى الله عنه ـ مثل ذلك‏.‏ ثم حج عثمان ـ رضى الله عنه ـ فرأيته أول شىء بدأ به الطواف بالبيت ثم لم تكن عمرة، ثم معاوية وعبد الله بن عمر، ثم حججت مع أبي الزبير بن العوام، فكان أول شىء بدأ به الطواف بالبيت، ثم لم تكن عمرة، ثم رأيت المهاجرين والأنصار يفعلون ذلك، ثم لم تكن عمرة، ثم آخر من رأيت فعل ذلك ابن عمر ثم لم ينقضها عمرة، وهذا ابن عمر عندهم فلا يسألونه، ولا أحد ممن مضى، ما كانوا يبدءون بشىء حتى يضعوا أقدامهم من الطواف بالبيت، ثم لا يحلون، وقد رأيت أمي وخالتي، حين تقدمان لا تبتدئان بشىء أول من البيت، تطوفان به، ثم لا تحلان‏.‏
سے احمد بن عیسیٰ نے بیا ن کیا، انہو ں نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے عمرو بن حارث نے خبردی، انہیں محمد بن عبدالرحمن بن نوفل قرشی نے، انہوں نے عروہ بن زبیر سے پوچھاتھا، عروہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسا کہ کہ معلوم ہے حج کیا تھا۔ مجھے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس کے متعلق خبردی کہ جب آپ مکہ معظمہ آئے تو سب سے پہلا کام یہ کیا کہ آپ نے وضو کیا، پھر کعبہ کاطواف کیا۔ یہ آپ کا عمرہ نہیںتھا۔ اس کے بعد ابو بکر رضی اللہ عنہ نے حج کیا اور آپ نے بھی سب سے پہلے کعبہ کا طواف کیا جب کہ یہ آپ کابھی عمرہ نہیںتھا۔ عمررضی اللہ عنہ نے بھی اسی طرح کیا۔ پھر عثمان رضی اللہ عنہ نے حج کیا میں نے دیکھا کہ سب سے پہلے آپ نے بھی کعبہ کا طواف کیا۔ آپ کا بھی یہ عمرہ نہیں تھا۔ پھر معاویہ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کا زمانہ آیا۔ پھر میں نے اپنے والد الزبیر بن عوام رضی اللہ عنہکے ساتھ بھی حج کیا۔ یہ ( سارے اکابر ) پہلے کعبہ ہی کے طواف سے شروع کرتے تھے جب کہ یہ عمرہ نہیں ہوتاتھا۔ اس کے بعد مہاجرین وانصار کو بھی میں نے دیکھا کہ وہ بھی اسی طرح کرتے رہے اور ان کا بھی یہ عمرہ نہیں ہوتاتھا۔ آخری ذات جسے میں نے اس طرح کرتے دیکھا، وہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی تھی۔ انہو ںنے بھی عمرہ نہیں کیا تھا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما ابھی موجود ہیں لیکن ان سے لوگ اس کے متعلق پوچھتے نہیں۔ اسی طرح جو حضرات گزر گئے، ان کا بھی مکہ میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلا قدم طواف کے لے اٹھتا تھا۔ پھر یہ بھی احرام نہیں کھولتے تھے۔ میں نے اپنی والدہ ( اسماءبنت ابی بکر رضی اللہ عنہما ) اور خالہ ( عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ) کو بھی دیکھا کہ جب وہ آتیں تو سب سے پہلے طواف کرتیں اور یہ اس کے بعد احرام نہیں کھولتی تھیں۔

حدیث نمبر : 1642
وقد أخبرتني أمي، أنها أهلت هي وأختها والزبير وفلان وفلان بعمرة، فلما مسحوا الركن حلوا‏.‏
اورمجھے میری والدہ نے خبر دی کہ انہوں نے اپنی بہن اور زبیر اور فلاں فلاں ( رضی اللہ عنہم ) کے ساتھ عمرہ کیا ہے یہ سب لوگ حجرا سود کا بوسہ لے لیتے تو عمرہ کا احرام کھول دیتے۔

تشریح : جمہور علما کے نزدیک طواف میں طہارت یعنی باوضوہونا شرط ہے۔ محمد بن عبدالرحمن بن نوفل نے عروہ سے کیا پوچھا اس روایت میں یہ مذکور نہیں ہے۔لیکن امام مسلم کی روایت میں اس کا بیان ہے کہ ایک عراقی نے محمد بن عبدالرحمن سے کہا کہ تم عروہ سے پوچھو اگر ایک شخص حج کا احرام باندھے تو طواف کر کے وہ حلال ہوسکتا ہے؟ اوراگر وہ کہیں نہیں ہوسکتاہے تو کہنا ایک شخص تو کہتے ہیں حلال ہوجاتاہے۔ محمد بن عبدالرحمن نے کہا میں نے عروہ سے پوچھا، انہوں نے کہا جو کوئی حج کا احرام باندھے وہ جب تک حج سے فارغ نہ ہوحلال نہیں ہوسکتا۔ میں نے کہا ایک شخص تو کہتے ہیں کہ وہ حلال ہوجاتا ہے۔ انہوں نے کہا اس نے بری بات کہی۔ آخر حدیث تک۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : صفااور مروہ کے درمیان کس طرح دوڑے

وقال ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ السعى من دار بني عباد إلى زقاق بني أبي حسين‏.‏
اور ابن عمررضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ بنی عباد کے گھروں سے لے کربنی ابی حسین کی گلی تک دوڑکر چلے ( باقی راہ میں معمولی چال سے )

حدیث نمبر : 1644
حدثنا محمد بن عبيد بن ميمون، حدثنا عيسى بن يونس، عن عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا طاف الطواف الأول خب ثلاثا ومشى أربعا، وكان يسعى بطن المسيل إذا طاف بين الصفا والمروة‏.‏ فقلت لنافع أكان عبد الله يمشي إذا بلغ الركن اليماني قال لا‏.‏ إلا أن يزاحم على الركن فإنه كان لا يدعه حتى يستلمه‏.‏
ہم نے محمدبن عبید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عیسیٰ یونس نے بیان کیا، ان سے عبید اللہ بن عمر نے، ان سے نافع نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلاطواف کرتے تو اس کے تین چکروں میں رمل کرتے اور بقیہ چار میں معمول کے مطابق چلتے اور جب صفا اور مروہ کی سعی کرتے تو آپ نالے کے نشیب میں دوڑا کرتے تھے۔ عبید اللہ نے کہا میں نے نافع سے پوچھا، ابن عمررضی اللہ عنہما جب رکن یمانی کے پاس پہنچتے تو کیا حسب معمول چلنے لگتے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں۔ البتہ اگر رکن یمانی پر ہجوم ہوتا تو حجرا سود کے پاس آکر آپ آہستہ چلنے لگتے کیونکہ وہ بغیر چومے اس کو نہیں چھوڑتے تھے۔

بنی عباد کا گھر اور بنی ابی الحسین کا کوچہ اس زمانہ میں مشہورہوگا۔ اب حاجیوں کی شناخت کے لئے دوڑنے کے مقام میں دوسبز منارے بنا دیئے گئے ہیں۔

حدیث نمبر : 1645
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، عن عمرو بن دينار، قال سألنا ابن عمر ـ رضى الله عنه ـ عن رجل، طاف بالبيت في عمرة، ولم يطف بين الصفا والمروة أيأتي امرأته فقال قدم النبي صلى الله عليه وسلم فطاف بالبيت سبعا، وصلى خلف المقام ركعتين، فطاف بين الصفا والمروة سبعا ‏{‏لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة‏}‏‏.‏
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے عمرو بن دینار سے بیان کہ ہم نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک ایسے شخص کے متعلق پوچھا جو عمرہ میں بیت اللہ کا طواف تو کر لے لیکن صفا اورمروہ کی سعی نہیں کرتا، کیاوہ اپنی بیوی سے صحبت کرسکتا ہے۔ انہوں نے جواب دیانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( مکہ ) تشریف لائے تو آپ نے بیت اللہ کا سات چکروں کے ساتھ طواف کیا اور مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نماز پڑھی۔ پھرصفا اور مروہ کی سات مرتبہ سعی کی اور تمہارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔

حدیث نمبر : 1646
وسألنا جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ فقال لا يقربنها حتى يطوف بين الصفا والمروة‏.‏
ہم نے اس کے متعلق جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے بھی پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ صفا اور مروہ کی سعی سے پہلے بیوی کے قریب بھی نہ جائے۔

حدیث نمبر : 1647
حدثنا المكي بن إبراهيم، عن ابن جريج، قال أخبرني عمرو بن دينار، قال سمعت ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال قدم النبي صلى الله عليه وسلم مكة، فطاف بالبيت، ثم صلى ركعتين، ثم سعى بين الصفا والمروة، ثم تلا ‏{‏لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة‏}‏‏.‏
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیاکہ مجھے عمروبن دینار نے خبردی، کہا کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، آپ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ تشریف لائے تو آپ نے بیت اللہ کا طواف کیا اور دورکعت نماز پڑھی پھر صفا اور مروہ کی سعی کی۔ اس کے بعد عبداللہ رضی اللہ عنہ نے یہ آیت اللہ تلاو ت کی ” تمہارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔ “

حدیث نمبر : 1648
حدثنا أحمد بن محمد، أخبرنا عبد الله، أخبرنا عاصم، قال قلت لأنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ أكنتم تكرهون السعى بين الصفا والمروة قال نعم‏.‏ لأنها كانت من شعائر الجاهلية، حتى أنزل الله ‏{‏إن الصفا والمروة من شعائر الله فمن حج البيت أو اعتمر فلا جناح عليه أن يطوف بهما‏}‏‏.‏
ہم سے احمد بن محمد مروزی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبردی، انہوں نے کہا کہ ہمیں عاصم احول نے خبردی، انہو ںنے کہا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ لوگ صفا اور مروہ کی سعی کو برا سمجھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا، ہاں ! کیونکہ یہ عہد جاہلیت کا شعار تھا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمادی ” صفااور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں۔ پس جو کوئی بیت اللہ کاحج یا عمرہ کرے اس پر ان کی سعی کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ “

مضمون اس روایت کے موافق ہے جو حضرت عائشہ سے اوپر گزری کہ انصار صفا اور مروہ کی سعی بری سمجھتے تھے۔

حدیث نمبر : 1649
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، عن عمرو بن دينار، عن عطاء، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال إنما سعى رسول الله صلى الله عليه وسلم بالبيت وبين الصفا والمروة ليري المشركين قوته‏.‏ زاد الحميدي: حدثنا سفيان: حدثنا عمرو، سمعت عطاء، عن ابن عباس: مثله.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے عطاء بن ابی رباح نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی اس طرح کی کہ مشرکین کو آپ اپنی قوت دکھلا سکیں۔ حمیدی نے یہ اضافہ کیا ہے کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عطاءسے سنا اور انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہی حدیث سنی۔

تشریح : حجرا سود کو چومنے یا چھونے کے بعد طواف کرنا چاہیے۔ طواف کیا ہے؟اپنے آپ کو محبوب پر فدا کرنا، قربان کرنا اور پروانہ وار گھوم کر اپنے عشق ومحبت کا ثبوت پیش کرنا۔ طواف کی فضیلت میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال من طاف بالبیت سبعا ولا یتکلم الا بسبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الااللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الابا اللہ محیت عنہ عشر سیئات وکتب لہ عشر حسنات ورفع لہ عشر درجات ومن طاف فتکلم وہو فی تلک الحال خاض فی الرحمۃ برجلیہ کخائض الماءبرجلیہ رواہ ابن ماجۃیعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس نے بیت اللہ شریف کا سات مرتبہ طواف کیا اور سوائے تسبیح و تحمید کے کوئی فضول کلام اپنی زبان سے نہ نکالا۔ اس کے دس گناہ معاف ہوتے ہیں اور دس نیکیاں اس کے نامہ اعمال میں لکھی جاتی ہیں اور اس کے دس درجے بلند ہوتے ہیں اور اگر کسی نے حالت طواف میں تسبیح وتحمید کے ساتھ لوگوں سے کچھ کلام بھی کیا وہ رحمت الٰہی میں اپنے دونوں پیروں تک داخل ہوجاتا ہے جیسے کوئی شخص اپنے پیروں تک پانی میں داخل ہوجائے۔

ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ مقصد یہ ہے کہ سوائے تسبیح وتحمیدکے اور کچھ کلام نہ کرنے والا اللہ کی رحمت میں اپنے قدموں سے سرتک داخل ہوجاتا ہے اور کلام کرنے والا صرف پیروں تک۔
طواف کی ترکیب یہ ہے کہ حجر اسود کو چومنے کے بعد بیت اللہ شریف کو بائیں ہاتھ کرکے رکن یمانی تک ذرا تیز تیزاس طرح چلیں کہ قدم قریب قریب پڑیں اور کندھے ہلیں۔ اسی اثناءمیں سبحان اللہ والحمداللہ ولا الہ الااللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باللہ! ان مبارک کلمات کو پڑھتا رہے اور اللہ تعالیٰ کی عظمت اس کی شان کاکامل دھیان رکھے۔ اس کی توحید کو پورے طورپر دل میں جگہ دے۔ اس پر پورے پورے توکل کا اظہار کرے۔ ساتھ ہی یہ دعا بھی پڑھے۔ اللہم قنعنی بمارزقنی وبارک لی فیہ واخلف علی کل غائبۃ لی بخیر ( نیل الاوطار ) ترجمہ:الٰہی مجھ کو جوکچھ تو نے نصیب کیا اس پر قناعت کرنے کی توفیق عطا کر اور اس میں بھی برکت دے! اور میرے اہل وعیال ومال اورمیری ہرپوشیدہ چیز کی تو خیریت کے ساتھ حفاظت فرما۔ اللہم انی اعوذبک من الشک والشرک والنفاق والشقاق وسوءالاخلاق، ( نیل ) الٰہی میں شرک سے، دین میں شک کرنے سے اور نفاق و دو غلے پن اور نافرمانی اور تمام بری عادتوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔

تسبیح وتحمید پڑھتا ہوا اور ان دعاؤں کو بار بار دہراتا ہوارکن یمانی پر دلکی چال سے چلے۔ رکن یمانی خانہ کعبہ کے جنوبی کونے کا نام ہے جس کو صرف چھونا چاہیے، بوسہ نہیں دینا چاہئے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اس کونے پرستر فرشتے مقر رہیں۔جب طواف کرنے والا حجر اسود سے ملتزم رکن عراقی اور میزاب رحمت پر سے ہوتا ہوا یہاںپہنچ کر دین ودنیا کی بھلائی کے لئے بارگاہ الٰہی میں خلوص دل کے ساتھ دعائیں کرتا ہے تو یہ فرشتے آمین کہتے ہیں۔رکن یمانی پر زیادہ تر یہ دعا پڑھنی چاہئے اللہم انی اسئلک العفو والعافیۃ فی الدیناوالآخرۃ ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ وقناعذاب النار ( مشکوۃ ) یعنی یا اللہ! میں تجھ سے دنیا اور آخرت میں سلامتی چاہتا ہوں، اے معبود برحق! تو مجھ کو دنیا و آخرت کی تمام نعمتیں عطا فرمااور دوزخ کی آگ سے ہم کو بچالے۔ رمل فقط تین چکروں میں کرنا چاہئے۔ رمل یہ مطلب ہے کہ تین پہلے پھیروں میں ذرا اکڑکر شانہ ہلاتے ہوئے چلا جائے۔ یہ رمل حجر اسود سے طواف شروع کرتے ہوئے رکن یمانی تک ہوتا ہے۔ رکن یمانی پر رمل کو موقوف کیا جائے اور حجر اسود تک باقی حصہ میں نیز باقی چار شوطوں میں معمولی چال چلا جائے۔ اس طوف میں اضطباع بھی کیا جاتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ احرام کی چادر کو داہنی بغل کے نیچے سے نکال کر بائیں شانے پر ڈال لیا جائے۔ ایک چکر پورا کر کے جب واپس حجراسود آؤ تو حجرا سود کی دعا پڑھ کر اس کو چوما یا ہاتھ لگایا جائے۔ اب ایک چکر پورا ہوا۔ اسی طرح دورسرا اور تیسرا پھیرا کرے۔ ان تین پھیروں میں رمل کرے۔ اس کے بعد چار پھیرے بغیر رمل کے کرے۔ ایک طواف کے لئے یہ ساتھ پھیرے ہوتے ہیں۔ جن کے بعد بیت اللہ کا ایک طواف پورا ہوگیا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بیت اللہ کا طواف مثل نماز کے ہے۔ اس میں باتیں کرنی منع ہیں۔ خدا کاذکر جتنا چاہے کرے۔ ایک طواف پورا کرچکنے کے بعد مقام ابراہیم پر طواف کی دو رکعت نماز پڑھے۔ اس پہلے طواف کا نام طواف قدوم ہے۔ رمل اور اضطباع اس کے سوا اور کسی طواف میں نہ کرنا چاہئے۔ مقام ابراہیم پر دورکعت نماز پڑھنے کے لئے آتے ہوئے مقام ابراہیم کو اپنے اور کعبہ شریف کے درمیان کرکے یہ آیت پڑھے: واتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ اِبرَاہِیمَ مُصَلیًّ ( البقرۃ: 125 ) پھر دورکعت دوگانہ پڑھے۔ پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ کافرون اور دوسری میں سورہ اخلاص پڑھے۔ اگر اضطباع کیا ہوا ہے اس کو کھول دے۔ سلام پھیر کر مندرجہ ذیل دعا نہایت انکساری سے پڑھے اور خلوص دل سے اپنے اور دوسروں کے لئے دعائیں مانگے۔
دعا یہ ہے:
اللہم انک تعلم سری وعلانیتی فاقبل معذرتی وتعلم حاجتی فاعظمنی سولی وتعلم ما فی نفسی فاغفر لی ذنوبی اللہم انی اسئلک ایمانا یباشر قلبی ویقینا صادقا حتی اعلم انہ لا یصیبنی الا ماکتب لی ورضا بما قسمت لی یا ارحم الراحمین ( طبرانی )
( ترجمہ ) یا اللہ !تو میری ظاہر وپوشیدہ حالت سے واقف ہے۔ پس میرے عذروں کو قبول فرما لے۔ تو میری حاجتوں سے بھی واقف ہے پس میرے سوال کو پورا کردے۔ تو میرے نفس کی حالت جانتا ہے پس میرے گناہوں کو بخش دے۔ اے مولا! میں ایساایمان چاہتا ہوں جو میرے دل میں رچ جائے اور یقین صادق کا طلبگارہوں یہاں تک کہ میرے دل میں جم جائے کہ مجھے وہی دکھ پہنچ سکتاہے جو تو لکھ چکا ہے اور میں قسمت کے لکھے پر ہر وقت راضی برضاہوں۔ اے سب سے بڑے مہربان! تو میری دعاقبول فرمالے۔ آمین۔

طواف کی فضیلت میں عمر وبن شعیب اپنے باپ سے، وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاالمرءیرید الطواف بالبیت اقبل یخوض الرحمۃ فاذادخلہ غمرتہ ثم لا یرفع قدما ولا یضع قدما الا کتب اللہ لہ بکل قدم خمس مائۃ حسنۃ وحط عنہ خمسۃ مائۃ سیئۃ ورفعت لہ خمس مائۃ درجۃ الحدیث ( درمنثور، ج : 120/1 )
یعنی انسان جب بیت اللہ شریف کے طواف کا ارادہ کرتا ہے تو رحمت الٰہی میں داخل ہوجاتا ہے پھر طواف شروع کرتے وقت رحمت الٰہی اس کو ڈھانپ لیتی ہے پھر وہ طواف میںجو بھی قدم اٹھا تا ہے اور زمین پر رکھتا ہے ہر ہر قدم کے بدلے اس کو پانچ سونیکیاں ملتی ہیں اور پانچ سوہ گنا معاف ہوتے ہیں اور اس کے پانچ سو درجے بلند کئے جاتے ہیں۔

جابر بن عبداللہ رضی اللہ روایت کرتے ہیں کہ جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامن طاف بالبیت سبعا وصلی خلف المقام رکعتین وشرب من ماءزمزم غفرت ذنوبہ کلہا بالغۃ ما بلغت یعنی جس نے بیت اللہ کا سات مرتبہ طواف کیا۔ پھر مقام ابراہیم کے پیچھے دورکعت نماز ادا کی اور زمزم کا پانی پیا اس کے جتنے بھی گناہوں سب معاف کردیئے جاتے ہیں۔ ( در منثور )
مسئلہ:
طواف شروع کرتے وقت حاجی اگر مفرد یعنی صرف حج کا احرام باندھ کر آیا ہے تو دل میں طواف قدوم کی نیت کرے اور اگر قارن یا متمتع ہے تو طواف عمرہ کی نیت کر کے طواف شروع کرے۔ یاد رہے کہ نیت دل کا فعل ہے، زبان سے کہنے کی حاجت نہیں ہے۔ بہت سے نا واقف حاجی صاحبان جب شروع میں حجر اسود کو آکر بوسہ دیتے ہیں اور طواف شروع کرتے ہیں تو تکبیرتحریمہ کی طرح تکبیر کہہ کر رفع یدین کرکے زبان سے نیت کرتے ہیں، یہ بے ثبوت ہے لہذا اس سے بچنا چاہئے ( زاد المعاد )
بیہقی کی روایت میں اس قدر ضرور آیا ہے کہ حجر اسود کو بوسہ دے کر دونوں ہاتھوں کو اس پر رکھ کر پھر ان ہاتھوں کو منہ پر پھیر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
طواف کرنے میں مرد و عورت کا یکساں حکم ہے۔ اتنا فرق ضرور ہے کہ عورت کسی طواف میں رمل اور اضطباع نہ کرے ( جلیل المناسک )
حیض اور نفاق والی عورت صرف طواف نہ کرے۔ باقی حج کے تمام کام بجا لائے۔ حضرت عائشہ کو حائضہ ہونے کی حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔
فافعلی ما یفعل الحاج غیر ان لا تطوفی بالبیت حتی تطہری ( متفق علیہ ) یعنی طواف بیت اللہ کے سوا اور سب کام کر جو حاجی کرتے ہیں یہاں تک کہ توپاک ہو۔ اگر حالت حیض ونفاس میں طواف کرلیا تو طواف ہوگیا۔ مگر فدیہ میں ایک بکری یا ایک اونٹ ذبح کرنا لازمی ہے۔ ( فتح الباری ) مستحاضہ عورت اور سلسل بول والے کو طواف کرنا درست ہے ( مشکوۃ )

بیت اللہ شریف میں پہنچ کر سوائے عذر حیض ونفاس کے باقی کسی طرح کا اور کیسا ہی عذر کیوںنہ ہو جب تک ہوش وحواس صحیح طور پر قائم ہیں اور راستہ صاف ہے تو محرم کوطواف قدوم اور سعی کرنا ضروری ہے۔
طواف کی قسمیں ! طواف چار طرح کا ہوتاہے
( 1 ) طواف قدوم جو بیت اللہ شریف میں پہلی دفعہ آتے ہی حجر اسود کو چھونے کے بعد کیا جاتاہے۔
( 2 ) طواف عمرہ جو عمرے کا احرام باندھ کر کیا جاتاہے۔
( 3 ) طواف افاضہ جو دسویں ذی الحجہ کو یوم نحر میں قربانی وغیرہ سے فارغ ہو کر اور احرام کھول کرکیا جاتاہے۔ اس کوطواف زیارت بھی کہتے ہیں۔
( 4 ) طواف وداع جو بیت اللہ شریف سے رخصت ہوتے وقت آخری طواف کیا جاتاہے۔
مسئلہ:
بہتر تو یہی ہے کہ ہر سات پھیروں کا جو ایک طواف کہلاتا ہے اس کے بعد مقام ابراہیم پر دورکعت نماز پڑھی جائے۔ لیکن اگر چند طواف ملا کر آخر میں صرف دو رکعت پڑھ لی جائیں تو بھی کافی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ایسا بھی کیا ہے۔ ( ایضاح الحجہ )
مسئلہ :
طواف قدوم، طواف عمرہ، طواف وداع میں ان دورکعتوں کے بعد بھی حجراسود کو بوسہ دینا چاہئے۔
تنبیہ:
ائمہ اربعہ اور تمام علمائے سلف وخلف کا متفقہ فیصلہ ہے کہ چومنا چاٹنا چھونا صرف حجر اسود اور رکن یمانی کے لئے ہے۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل روایت سے ظاہر ہوتا ہے۔عن ابن عمر قال لم ارالنبی صلی اللہ علیہ وسلم یستلم من البیت الا الرکنین الیمانین ( متفق علیہ ) یعنی ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں نے سوائے حجراسود اور رکن یمانی کے بیت اللہ کی کسی اور چیز کو چھوتے ہوئے کبھی بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا۔ پس استلام صرف ان ہی دو کے لئے ہے۔ان کے علاوہ مساجد ہوں یا مقابر اولیاءصلحاءہوں یا حجرات ومغارات رسل ہوں یا اور تاریخی یاد گاریں ہوں کسی کو چومنا چاٹنا چھونا ہرگز ہر گز جائز نہیں بلکہ ایسا کرنا بدعت ہے۔ جماعت سلف امت رحمہم اللہ مقام ابراہیم اور احجار مکہ کو بوسہ دینے سے قطعاً منع کیا کرتے تھے۔ پس حاجی صاحبان کو چاہئے کہ حجراسود اور رکن یمانی کے سوا اور کسی جگہ کے ساتھ یہ معاملات بالکل نہ کریں ورنہ نیکی برباد گناہ لازم کی مثال صادق آئے گی۔

بہت سے ناواقف بھائی مقام ابراہیم پر دو رکعت پڑھنے کے بعد مقام ابراہیم کے دروازے کی جالیوں کو پکڑ کر اور کڑوں میں ہاتھ ڈال کردعائیںکرتے ہیں۔ یہ بھی عوام کی ایجاد ہے جس کا سلف سے کوئی ثبوت نہیں۔ پس ایسی بدعات سے بچنا ضروری ہے۔ بدعت ایک زہر ہے جو تمام نیکیوںکو برباد کردیتا ہے۔حضرت ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا من احدث فی امرناہذا مالیس منہ فہو رد ( متفق علیہ ) یعنی جس نے ہمارے اس دین میں اپنی طرف سے کوئی نیا کام ایجاد کیا جس کا پتہ اس دین میں نہ ہو وہ مردود ہے۔

مقام ابراہیم پر دورکعت نماز ادا کر کے مقام ملتزم پر آنا چاہئے۔ یہ جگہ حجر اسود اور خانہ کعبہ کے دروازے کے بیچ میں ہے۔ یہاں پر سات پھیروں کے بعد دورکعت نماز کے بعد آنا چاہئے۔یہ دعا کی قبولیت کا مقام ہے یہاں کا پردہ پکڑ کر خانہ کعبہ سے لپٹ کر دیوار پر گال رکھ کر ہاتھ پھیلا کر دل کھول کو خوب رو رو کر دین ونیا کی بھلائی کے لئے دعائیں کریں۔ اس مقام پر یہ دعابھی مناسب ہے:اللہم لک الحمد حمدا یوافی نعمک ویکافی مزید ک احمد ک بجمیع محامد ک ماعملت وما اعلم علی جمیع نعمک ما علمت منہا ومالم اعلم وعلی کل حال اللہم صلی علی محمد وعلی آل محمد اللہم اعذنی من کل سوءوقنعنی بمارزقتنی وبارک لی فیہ اللہم اجعلنی من اکرم وفدک عندک والزمنی سبیل الاستقامۃ حتی القاک یا رب العالمین ( اذکار نووی )
( ترجمہ ) یا اللہ! کل تعریفوں کا مستحق تو ہی ہے میں تیری وہ تعریفیں کرتا ہوں جو تیری دی ہوئی نعمتوں کا شکریہ ہوسکیں اور اس شکریہ پر جو نعمتیں تیری جانب سے زیادہ ملیں ان کا بدلہ ہوسکیں۔ پھر میں تیری ان نعمتوں کو جانتا ہوں اور جن کو نہیں سب ہی کا ان خوبیوں کے ساتھ شکریہ ادا کرتا ہوں جن کا مجھ کو علم ہے اور جن کا نہیں غرض ہرحال میں میں تیری ہی تعریفیں کرتا ہوں۔ اے اللہ! اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل پر درود وسلام بھیج۔ یا اللہ! تو مجھ کو شیطان مردود سے اور ہر برائی سے پناہ میں رکھ اور جو کچھ تو نے مجھ کو دیا ہے اس پر قناعت کی توفیق عطا کر اور اس میں برکت دے۔ یا اللہ! تو مجھ کو بہترین مہمانوں میں شامل کر اور مرتے دم تک مجھ کو تو سیدھے راستے پر ثابت قدم رکھ یہاں تک کہ میری تجھ سے ملاقات ہو۔

یہ طواف جو کیا گیا طواف قدوم کہلاتا ہے۔ جو مکہ شریف یا میقات کے اندر رہتے ہیں، ان کے لئے یہ سنت نہیں ہے اور جو عمرہ کی نیت سے مکہ میں آئیں ان پر بھی طواف قدوم نہیں ہے۔ اس طواف سے فارغ ہوکر پھر حجر اسود کا استلام کیا جائے کہ یہ افتتاح سعی کا استلام ہے۔ پھر کمانی دار دروازے سے نکل سیدھے باب صفا کی طرف جائیں اور باب صفا سے نکلتے وقت یہ دعاءپڑھیں بسم اللہ والصلوۃ والسلام علی رسول اللہ رب اغفرلی ذنوبی وافتح لی ابواب فضلک ( ترمذی )
( ترجمہ ) ” اللہ کے مقدس نام کی برکت سے اور اللہ کے پیارے رسول پر درود وسلام بھیجتا ہوا باہر نکلتا ہوں۔ اے اللہ! میرے لئے اپنے فضل وکرم کے دروازے کھول دے۔ اس دعا کو پڑھتے ہوئے پہلے بایاں قدم مسجد حرام سے باہر کیا جائے پھر دایاں۔

کو ہ صفاپر چڑھائی!
باب صفا سے نکل کر سیدھے کوہ صفاپر جائیں۔ قریب ہونے پر آیت شریفہ ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ تلاوت کریں۔ پھرکہیں ابدا بما بداللہ ( چونکہ اللہ تعالیٰ نے ذکر میں پہلے صفا کا نام لیا ہے اس لئے میں بھی پہلے صفا ہی سے سعی شروع کرتا ہوں ) یہ کہہ کر سیڑھیوں سے پہاڑی کے اوپر اتنا چڑھ جائیں کہ بیت اللہ شریف کا پردوہ دکھائی دینے لگے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا تھا۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل روایت سے ظاہر ہے۔
عن ابی ہریرۃ قال اقبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فدخل مکۃ فاقبل الی الحجر فاستلمہ ثم طاف بالبیت ثم اتی الصفا فعلاہ حتی ینظر الی البیت الحدیث رواہ ابوداود یعنی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ شریف میں داخل ہوئے تو آپ نے حجر اسود کا استلام کیا، پھر طواف کیا۔ پھر آپ صفا کے اوپر چڑھ گئے۔ یہاں تک کہ بیت اللہ آپ کو نظر آنے لگا۔

پس اب قبلہ روہو کر دونوں ہاتھ اٹھا کر پہلے تین دفعہ کھڑے کھڑے اللہ اکبر کہیں۔ پھر یہ دعا پڑھیں۔ لاالہ الا اللہ وحدہ اللہ اکبر لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وہو علی شئی قدیر لا الہ الا اللہ وحدہ انجزو عدہ ونصر عبدہ وہزم الاحزاب وحدہ ( مسلم ) یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، ملک کا اصلی مالک وہی ہے، اسی کے لئے تمام تعریفیں ہیں۔ وہ جو چاہے سو ہوسکتا ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے جس نے غلبہ اسلام کی بابت اپنا وعدہ پورا کیا اور اپنے بندے کی امداد کی اور اس اکیلے نے تمام کفارومشرکین کے لشکروں کو بھگا دیا۔“

اس دعا کو پڑھ کر پھردرود شریف پڑھیں پھر خوب دل لگا کر جوچاہیں دعا مانگیں۔ تین دفعہ اسی طرح نعرہ تکبیر تین تین بار بلند کرکے مذکورہ بالادعا پڑھ کر درودشریف کے بعد خوب دعائیں کریں۔ یہ دعاکی قبولیت کی جگہ ہے۔ پھر واپسی سے پہلے مندرجہ ذیل دعا پڑھ کر ہاتھوں کو منہ پر پھیرلیں۔ اللہم انک قلت ادعونی استجب لکم اونک لا تخلف المیعاد انی اسئلک کماہدیتنی للاسلام ان لا تنزعہ منی حتی توفنی وانا مسلم ( موطا ) یا اللہ تو نے دعا قبول کرنے کا وعدہ کیا ہے تو کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ پس تونے جس طرح مجھے اسلامی زندگی نصیب فرمائی اسی طرح موت بھی مجھ کو اسلام کی حالت میں نصیب فرما۔

صفا اور مروہ کے درمیان سعی!

صفا اور مروہ کے درمیان دوڑنے کو سعی کہتے ہیں، یہ فرائض حج میں داخل ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث سے ظاہر ہے۔
عن صفیۃ بنت شیبۃ قال اخبر تنی بنت ابی تجراۃ قالت دخلت مع نسوۃ من قریش دار آل ابی حسین ننظر الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہو یسعی بین الصفا والمروۃ فرائیتہ یسعی وان میزرہ لیدور من شدۃ السعی وسمعتہ یقول اسعوا فان اللہ کتب علیکم السعی رواہ فی شرح السنۃ یعنی صفیہ بنت شیبہ روایت کرتی ہیں کہ مجھے بنت ابی تجراہ نے خبردی کہ میں قریش کی چند عورتوںکے ساتھ آل ابو حسین کے گھر داخل ہوئی۔ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صفا ومروہ کے درمیان سعی کرتے ہوئے دیکھ رہی تھیں۔ میں نے دیکھا کہ آپ سعی کر رہے تھے اور شدت سعی کی وجہ سے آپ کی ازار مبارک ہل رہی تھی۔ آپ فرماتے تھے لوگو سعی کرو، اللہ نے اس سعی کو تمہارے اوپر فرض کیا ہے۔

پس اب صفا سے اتر کر رب اغفرلی وارحم انک انت الاعز الاکرم ( طبرانی ) پڑھتے ہوئے آہستہ آہستہ چلیں۔ جب سبز میل کے پاس پہنچ جائیں ( جو بائیں طرف مسجدحرام کی دیوار سے ملی ہوئی منصوب ہے ) تو یہاں سے رمل کریں یعنی تیز رفتار دوڑتے ہوئے دوسرے سبز میل تک جائیں ( جوکہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے گھر کے مقابل ہے ) پھر یہاں سے آہستہ آہستہ اپنی چال پر چلتے ہوئے مروہ پہنچیں۔ راستے میں مذکورہ بالا دعا پڑھتے رہیں۔ جب مروہ پہنچیں تو پہلے دوسری سیڑھی پر چڑ ھ کر بیت اللہ کی جانب رخ کر کھڑے ہوں اور تھوڑا سا داہنی جانب مائل ہوجائیں تاکہ کعبہ کا استقبال اچھی طرح ہوجائے اگر چہ یہاں سے بیت اللہ بوجہ عمارات کے نظر نہیں آتا۔ پھر صفا کی دعائیں یہاں بھی اسی طرح پڑھیں جس طرح صفا پر پڑھی تھیں اور کافی دیر تک ذکرو ودعامیں مشغول رہیں کہ یہ بھی محل اجابت دعاہے۔پھر واپس صفا کو رب اغفروارحمپوری دعاءپڑھتے ہوئے معمولی چال سے سبز میل تک چلیں۔ پھر یہاں سے دوسرے میل تک تیز چلیں۔ اس میل پر پہنچ کر معمولی چال سے صفا پر پہنچیں۔ صفا سے مروہ تک آنا سعی کا ایک شوط کہلاتاہے۔ صفا پر واپس پہنچنے سے سعی کا دوسرا شوط پورا ہوجائے گا۔ اسی طرح سات شوط پورے کرنے ہوںگے۔ ساتواں شوط مروہ پر ختم ہوگا۔ ہر شوط میں مذکورہ بالا دعاؤ ں کے علاوہ سبحان اللہ والحمد اللہ ولا الہ الااللہخوب دل لگا کر پڑھنا چاہئے۔ چونکہ زمین اونچی ہوتی چلی گئی اس لئے صفا مروہ کی سیڑھیاں زمین میں دب گئی ہیں اور اب پہلی ہی سیڑھی پر کھڑے ہونے سے بیت اللہ کا نظر آنا ممکن ہے۔ لہٰذااب کئی درجوں پر چڑھنے کی ضرورت نہیں رہی۔ سعی میں کسی قسم کی تخصیص عورت کے لئے نہیں آئی۔ مرد عورت ایک ہی حکم میں ہیں۔

ضروری مسائل!

طواف یا سعی کی حالت میں نماز کی جماعت کھڑی ہوجائے تو طواف یا سعی کو چھوڑ کر جماعت میں شامل ہو جاناچاہئے۔ نیز پیشاب یا پائخانہ یا اور کوئی ضروری حاجت در پیش ہو تو اس سے فارغ ہو کر باوضو جہاں طواف یا سعی کو چھوڑ ا تھا وہیں سے باقی کو پورا کرے۔ بیمار کو پکڑ کریا چا رپائی یا سواری پر بیٹھا کر طواف اور سعی کرانی جائز ہے۔ قدامہ بن عبداللہ بن عمار روایت کرتے ہیں۔ رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یسعی بین الصفا والمروۃ علی بعیر ( مشکوۃ ) میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ آپ اونٹ پر سوار ہوکر مروہ کے درمیان سعی کررہے تھے۔ اس پر حافظ ابن حجر رضی اللہ عنہ فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ عذر کی وجہ سے آپ نے طواف وسعی میں سواری کا استعمال کیا تھا۔

قارن حج اور عمرے کا طواف اور سعی ایک ہی کرے۔ حج وعمرہ کے ئے علیحدہ علیحدہ دوبار طواف وسعی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ( بخاری مسلم ) عورتیں طواف اور سعی میں مردوں میں خلط ملط ہو کر نہ چلیں۔ ایک کنارہ ہوکر چلیں ( صحیحین )
سعی کے بعد!
صفا اور مروہ کی سعی سے فارغ ہونے کے بعد اگر حج تمتع کی نیت سے احرام باندھا گیا تھا تواب حجامت کرا کر حلال ہوجانا چاہئے۔ اور احرام حج قران یا حج افراد کا تھا تو نہ حجامت کرانی چاہئے نہ احرام کھولنا چاہئے۔ حج تمتع کرنے والے کے لئے مناسب ہے کہ مروہ پر بال کتروا دے اور دسویں ذی الحجہ کو منیٰ میں بال منڈوائے۔ عورت کو بال منڈوانے منع ہیں۔ ہاں چٹیا کی تھوڑی سی نوک کتر دینی چاہئے۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے۔ لیس علی النساءالحلق انما علی النساءالتقصیر ( ابوداؤد ) یعنی عورتوں کے لئے سرمنڈانا نہیں ہے بلکہ صرف چٹیامیں سے چند بال کاٹ ڈالنا کافی ہے۔ ان سب کاموں سے فارغ ہوکر چاہ زمزم کا پانی پینا چاہئے۔اس قدر کہ پیٹ اور پسلیاں خوب تن جائیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ منافق اتنا نہیں پیتا کہ اس کی پسلیاںتن جائیں۔ آبِ زمزم جس ارادے سے پیا جائے وہ پورا ہوتا ہے۔ شفا کے ارادے سے پیا جائے تو شفاملتی ہے۔ بھوک پیاس کی دوری کے لئے پیا جائے تو بھوک پیاس دور ہوتی ہے۔ اور اگر دشمن کے خوف سے، کسی آفت کے ڈر سے، روز محشر کی گھبراہٹ سے محفوظ رہنے کی نیت سے پیا جائے تو اس سے اللہ تعالیٰ امن دیتا ہے۔ ( حاکم، دارقطنی وغیرہ )

آبِ زمزم پینے کے آداب!

زمزم شریف کا پانی قبلہ رخ ہوکر کھڑے ہوکر پینا چاہیے۔ درمیان میں تین سانس لیں۔ ہر دفعہ شروع میں بسم اللہ اور آخر میں الحمد اللہ پڑھنا چاہئے اور پیتے وقت یہ دعا پڑھنی مسنون ہے۔
اللہم انی اسئلک علما نافعاورزقاواسعاو شفاءمن کل داء ( حاکم دارقطنی ) یا اللہ! میں تجھ سے علم نفع دینے والا اور روزی فراخ اور ہر بیماری سے شفا چاہتا ہوں۔
 
Top