• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکڑی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
دنیا کا سب سے اذیت ناک موت کا پھندا
مکڑی کے جالے میں پھنسا شکار بمشکل اس سے چھٹکارا پا سکتا ہے۔ دام اس قدر ماہرانہ طریقے سے تیار کیا جاتا ہے کہ اگر شکار اس میں سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے تو جالا اپنی لچک کھو دیتا ہے اور شکار پر اپنی گرفت اور مضبوط کر دیتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد جب شکار مکمل طور پر بے قوت ہو جاتا ہے تو جالا پہلے سے زیادہ مضبوط ہو کر مزید تن جاتا ہے۔اس طریقے سے مکڑی جو کسی کونے میں بیٹھی شکار کی مایوس کن کوشش دیکھ رہی ہوتی ہے باآسانی پھنسے ہوئے شکار کو ، جو اب تھک چکا ہوتا ہے، مار دیتی ہے۔
جب شکار جالے میں پھنس جاتا ہے تو یہی سمجھاجاتا ہے کہ جیسے جیسے وہ اس میں سے نکلنے کی کوشش کرے گا توجالا خراب ہو جائے گا اور کیڑا دام میں سے فرار ہو جائے گا۔ لیکن صورت حال اس کے بر عکس ثابت ہوتی ہے اور جالا مضبوط تر ہوجاتا ہے۔اورکیڑے کو مکمل طور پر بے حرکت کر دیتا ہے۔ جالے کی مضبوطی میں اضافہ کیسے ہوتا ہے جب اس میں پھنسا شکار اس سے چھٹکارا پانے کی کوشش کرتا ہے؟
جالے کی ساخت کا جائزہ لیا جائے تو اس سوال کا جواب ہمارے سامنے آتا ہے۔ مکڑی کے وہ دھاگے جو شکار کو گرفت میں لیتے ہیں ہوا میں موجود نمی کی وجہ سے ایک نئی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ تبدیلی مندرجہ ذیل طریقے سے وقوع میں آتی ہے۔ باغ کی مکڑی کے مرغولے دار دھاگے سیال سے ڈھکے دو ریشوں کے باہم مل جانے سے متشکل ہوتے ہیں ۔ یہ چپچپا سیال بنیادی ریشے بنانے والے غدود سے ایک مختلف غدے میں پیدا ہوتاہے۔مکڑی کے تار کش غدود سے نکلنے والے ریشمی دھاگوں پر مسلسل اس چپچپے مادے کی پتلی تہ چڑھائی جاتی ہے۔اس مادے کی چپچپی صفت کا منبع اس میں موجود گلائی کوپروٹینز (glycoproteins)(لحمیات اور کاربوہائیڈریٹ سے مل کر بننے والے مرکبات) ہیں۔ علاوہ ازیں یہ مادہ اسّی فی صد پانی پر مشتمل ہوتا ہے جو کافی مقدار میں دستیاب ہوتا ہے۔۲۹
جیسے ہی یہ چپچپا سیال ہوا میں موجود پانی سے جا ملتا ہے یہ ننھے قطروں میں تقسیم ہو جاتا ہے جو چھوٹے چھوٹے موتیوں کی مانند دھاگے کے ساتھ منسلک ہو جاتے ہیں۔ چپچپے دھاگے کو تیز تواتر کے ساتھ یکے بعد دیگرے سکیڑنے اور کھینچنے سے قطروں میں موجو درمیانی ریشے(core fibres)لپٹتے اور کھلتے جاتے ہیں۔درمیانی ریشوں اور چپچپی تہ کا سارا نظام ہر وقت زیرِ دباؤ رہتا ہے جس سے چپچپادھاگا ہر وقت تنا رہتاہے۔ تھپیڑے مارتی ہوئی ہوا یا خطا کھانے والے کیڑوں سے پیدا ہونے والی توانائی صرف ریشم ہی نہیں بلکہ پورا نظام جذب کرتا ہے۔
درمیانی ریشے اپنے حصے کا کام بھی سر انجام دیتے ہیں۔یہ پلاسٹک جیسے اور ایک مستحکم ربڑ کی طرح ہو تے ہیں اور اس بات سے فائدہ اٹھاتے ہیں کہ ناکارگی سے متعلق لچک (entropic elasticity)درجۂ حرارت پر انحصار کرتی ہے۔چونکہ شکار سے نکلنے والی زیادہ ترحرکی توانائی (kinetic energy)حرارت میں تبدیل ہوجاتی ہے اس لئے دھاگا گرم ہوجاتا ہے۔ یہ گرمائش ناکارگی کو بڑھاتی ہے جس کے نتیجے میں درمیانی ریشے مضبوط تر ہوتے جاتے ہیں۔ شکار سے نکلنے والی جذب شدہ توانائی دراصل شکار کے لئے استعمال ہونے والے دھاگے کومضبوط بناتی ہے اور ایسا صرف مکڑی کی آبی تہ چڑھانے کی باکمال تدبیرکے سبب ممکن ہوتاہے۔۳۰۔ا ن خصوصیات کے سبب مکڑی کا جالا فطرت کا سب سے اذیت ناک دام ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207

یہ بات جاننے کی خواہش پیدا ہوتی ہے کہ آیایہ خصوصیات دوسرے ریشمی دھاگوں میں بھی پائی جاتی ہیں کہ نہیں۔اگر ایسا ہوتا تو کیا ہوتا؟مثلاً اگر وزن سہنے والے دھاگوں کی کھینچے جانے کی گنجائش چپچپے دھاگوں جتنی ہوتی تو کیا ہوتا؟یقیناً مکڑی کے لئے خودیا اپنے شکار کو لے کر چلنا کافی دشوار ہو جاتا۔ دراصل شکار کرنے والے چپچپے دھاگوں کے بر عکس وزن سہنے والے ریشمی دھاگے ،جن سے جالے کا ڈھانچا تشکیل پاتا ہے، ایک مختلف مادے سے ڈھک دیے جاتے ہیں جو انہیں پانی سے محفوظ رکھتا ہے۔ کیونکہ وزن سہنے والے دھاگوں کا چپچپے دھاگوں جتنا لچک دار ہونا ضروری نہیں۔
جیسا کہ اوپر دیکھاگیا ،مکڑی کو جیسے اور جب ضرورت پیش آئے وہ مختلف کام انجام دینے والے اور مختلف ساخت کے ریشموں کے لئے مختلف مادوں کی تہ تیار کرلیتی ہے۔ مکڑی ان تمام تہوں کی مختلف طبیعی اورکیمیائی ا ثرات کے متعلق کیسے جانتی ہے؟یہ کہنا کہ مکڑی کو تربیت دی گئی یا اس نے تجربے یا اتفاق کے ذریعے یہ معلومات حاصل کر لیں ،ذہانت اور عقل سلیم کے علی الرغم دعویٰ کرنا ہے۔
اس مقام پر تھوڑا سا غورو فکر سوال کا صحیح جواب تلا ش کرلینے کے لئے کافی ہوگا۔ان تمام چیزوں کی منصوبہ بندی کرنے کے لئے مکڑی کو سب سے پہلے اوپر بیان کی گئیں تمام سالماتی ساختیات اور کیمیائی میکانیکی عمل جو سیال کو سخت بناتے ہیں سیکھنے ہوں گے۔ یہ تمام باتیں جان لینے کے بعد اسے ان چیزوں کی تیاری کا فیصلہ کرنا ہوگا جس کے بعد اسے اپنے جسم کے اندر کچھ تبدیلیاں لا کر نظام قائم کرنے ہوں گے تاکہ یہ ساری اشیاء تیار کر سکے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
یہ یقیناً ایک تخیلاتی منظر نامہ ہے۔جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ مکڑی کے جسم میں بہترین منصوبہ بندی اور اس کی بامقصد حرکات کی فطرت کے کسی واقعے یا کسی اور قوت کی روشنی میں توضیح نہیں کی جاسکتی۔ یہ بات کہ مکڑی یہ تمام امور ازخود سرانجام نہیں دے سکتی ایک ایسی حقیقیت ہے جسے ہر ذہین شخص دیکھ سکتا ہے۔ چناچہ مکڑی کی بامقصد اور سوچی سمجھی حرکات اور اسکی طبیعی ساخت کی گزرتے وقت کے ساتھ آنے والی تبدیلیوں یا کسی اور ارتقائی عمل کے ذریعے تشریح کرناناممکن ہے۔
فطرت میں تمام جاندار مکڑی کے جیسی یا اس سے بھی زیادہ مفصل خصوصیات کے حامل ہیں۔ان میں سے کسی بھی ایک صفت کا مشاہدہ ان جانداروں میں کی گئی عیاں منصوبہ بندی کی تصدیق کر دینے کے لئے کافی ہے۔ایک ایسی قوت کا وجود صاف ظاہر ہے جو ان تمام خصوصیات کومتعین کرتی ہے ۔مکڑیوں کی طبیعی منصوبہ بندی اور طور طریقے اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ ان جانداروں کو ایک خالق یا دوسرے الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے تخلیق کیا۔اس بات کو سمجھنے کے لئے ذہانت کا استعمال ہی کافی ہے۔ تمام جہانوں کے مالک اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے سامنے اس حقیقت کا اعلان اپنی آیت میں کیا ہے:

قَالَ رَ‌بُّ الْمَشْرِ‌قِ وَالْمَغْرِ‌بِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۖ إِن كُنتُمْ تَعْقِلُونَ ﴿٢٨﴾
’مشرق و مغرب اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب۔ اگر آپ لوگ کچھ عقل رکھتے ہیں۔‘(سورۃ الشعراء :۲۸)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
مکڑی کاریشم اور دفاعی شعبہ
صنعتی شعبے میں کسی بھی شے کی مضبوطی اور لچک انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔کسی بھی شے کی مضبوطی اس کے مختلف شعبہ جات میں استعمال کا دائرہ وسیع کرتی ہے اور اس کی لچک اسے زیادہ سہولت کے ساتھ کام میں لانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ مضبوطی اور لچک کے لحاظ سے مکڑی کا دھاگا دنیا کی سب بہترین شے ہے۔ اسی وجہ سے محقیقین نے بیسویں صدی کے آخری چوتھائی عرصے میں مکڑی کے ریشم پر اپنے مطالعات میں اضافہ کر دیا جن کے نتیجے میں وہ کیمیائی ذرائع کے ذریعے مکڑی کے جالے سے محض ملتی جلتی مگر نسبتاً گھٹیا معیارکی ایک شے تیار کر پائے ہیں ۔مختصر یہ کہ جدید ٹیکنالوجی اپنے تمام تر وسائل اور تحقیق کے باوجود ایسا دھاگا تیار نہیں کر سکی جس کی خصوصیات مکڑی کے تیار کردہ دھاگے کے مساوی ہوں۔
مکڑی کا دھاگا ایک ایسا لحمیہ ہے جو گلائیسین(glycine)، ایلانین(alanine)، سیرین(serine)اورٹائیرو سین(tyrosine)امینوترشوں( سادہ ترین قدرتی امینوترشے جو لحمیات میں پائے جاتے ہیں) پر مشتمل ہے۔ Du Pontکمپنی نے ریشم کا کیمیائی فارمولا دریافت کر کے اور اسے تشکیل دینے والے سالموں کی ترتیب تعین کر کے مختلف قسم کے مصنوعی ریشے تیار کئے ہیں ۔اس مصنوعی کثیر سالمی مرکب (polymer)کا ہربڑا سالمہ کاربن، آکسیجن، نائیٹروجن اور ہائیڈروجن جوہروں کی کئی ہزار سالماتی زنجیروں پر مشتمل ہے۔ یہ شے جسے کیولارKevlarکہتے ہیں اور آجکل مصنوعی طور پر تیار کیا جاتا ہے سب سے زیادہ بالیدہ نامیاتی ریشہ ہے۔ اپنی مضبوطی اور لچک کے اعتبارسے مصنوعی کیولار ریشے مکڑی کے ریشم کی طبیعی خصوصیات کے سب سے زیادہ قریب تر ہیں۔
Kevlar گاڑی کی حفاظتی پٹیوں اور حفاظتی لباس کی مختلف اشیاء میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہ ایک اہم شے ہے جو بڑی حد تک طیاروں اور بحری جہازوں کی صنعت میں خارجی مادے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ فائبر آپٹک (مہین بلوری ریشوں سے بنے بصری آلات) اور برقی میکانیکی تاریں ، رسی اور تار کی صنعت اور کھیلوں کے مختلف سامان بنانے میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ کیولار کے ریشے 'poly-paraphenylene terephthalamide'سے بنتے ہیں۔طویل سالماتی زنجیروں پر مشتمل یہ ریشہ اپنی ساخت کی بدولت موڑنے اور بطورِ دھاگا استعمال میں لانے کے لئے موزوں ہے۔ پائیداری اور ہلکے پن کی خصوصیات کی بنا پر یہ مادہ صنعت و حرفت کے بے شمار میدانوں میں استعمال میں لایا گیا ہے۔
دفاعی شعبہ ان اہم ترین شعبہ جات میں سے ایک ہے جن میں اس صدی کے اندر Kevlarاستعمال کیا گیا ہے۔گولی روک بنیانیں جنہیں فولاد سے بنایا جاتا تھا اب Kevlarریشوں سے بُنے گئے کپڑوں سے تیار کی جاتی ہیں اور عام کپڑے سے قطعی مختلف نہیں لگتیں۔Kevlarاپنی صدمہ روک خصوصیات کی بدولت گولی کی قوتِ تصادم کم کر دیتا ہے۔ تکنیکی نقطۂ نظرسے Kevlarایک اہم ترین دریافت ہونے کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ کارآمد بھی ہے۔تاہم ان تمام خصوصیات کے باوجود Kevlarریشوں کی صدمہ روک خصوصیات مکڑی کے ریشم کا محض ایک تہائی حصہ ہیں۔
یہاں ہر اس شخص کے لئے ا ہم نتائج اور تنبیہات موجود ہیں جو اس بات پر غور کرے کہ جدید ترین ٹیکنالوجی سے آراستہ سائنسی تحقیق کے مراکزبھی مکڑی کے تیارکردہ جالے کی محض ایک نسبتاً کم بالیدہ نقل تیار کر پائے ہیں ۔یہ موازنہ اس بات کا ایک ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جانداروں کو اپنی بے مثال قوتِ تخلیق سے بنایا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
لوگوں کی زندگی میں مکڑی کے ریشم کا مقام
مکڑی کے ریشم کی کیمیا پر تحقیق کے دوران خاص مشینوں کے ذریعے مکڑیوں میں سے دھاگے کھینچے جاتے ہیں۔ اس طرح ہر کیڑے سے بِنا اسے نقصان پہنچائے ۳۲۰ میٹر ریشم (تقریباً ۳ ملی گرام)یومیہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔
طبعی سائنس ایک اور میدان ہے جہاں اس طریقے سے تیار کردہ دھاگے استعمال میں لائے جاتے ہیں یا دوسرے الفاظ میں جہاں مکڑی نوعِ انسانی کو خدمت پیش کرتی ہے۔ امریکہ میں Wyoming Universityکے ماہرینِ ادویات Nephilaمکڑی کے دھاگے نسیجوں اور جوڑوں کے نہایت نازک عملِ جراحی (operations)میں دھاگوں کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
جالے، منصوبہ بندی کا حیرت انگیز نمونہ

مکڑی کا جالا مختلف دھاگوں پر مشتمل ہوتا ہے جن میں چوکھٹے کے وزن سہنے والے دھاگے ، ان پر بچھے شکار کو پکڑنے والے مرغولے دار دھاگے جن کی سطح چپچپے مادے سے ڈھکی ہوتی ہے،اور اس کے علاوہ تمام دھاگوں کو آپس میں جوڑنے والے دھاگے شامل ہیں۔چپچپی تہ سے ڈھکے مرغولے دار دھاگے جالے کا چوکھٹا تشکیل دینے والے دھاگوں سے مکمل طور پر جڑے نہیں ہوتے۔اس طرح جالے میں پھنسا کیڑا جتنا زیادہ اس میں سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے اتنا ہی زیادہ اس میں چپکتا چلا جاتا ہے۔ شکار کو پکڑنے والے یہ دھاگے جب کیڑے پر پوری طرح چپک جاتے ہیں تو رفتہ رفتہ اپنی لچک کھو کر مضبوط تر ، سخت اور بے لچک ہو جاتے ہیں۔یوں کیڑا پھنس کر بے حرکت ہوجاتا ہے اور اسے بے دردی سے ٹکڑے ٹکڑے کیا جاسکتا ہے۔بعد ازاں ، چوکھٹے کے بے لوچ دھاگوں میں جکڑے شکار ، جو غذا کے لپٹے ہوئے زندہ پارسل کی مانند لگتا ہے، کے پاس اس کے سوا کوئی چارا باقی نہیں رہتا کہ وہ مکڑی کے ہاتھوں اپنا کام تمام ہو جانے کا انتظار کرے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
جالے کی صدمہ روک صلاحیت
ایک مؤثراور قابلِ استعمال دام ثابت ہونے کے لئے جالے کا محض چپچپا ہونا یا مختلف خصوصیات کے حامل دھاگوں پر مشتمل ہونا ہی کافی نہیں۔مثال کے طور پر جالے کی بناوٹ ایسی ہونی چاہیے کہ وہ اُڑتے ہوئے کیڑے پکڑ سکے۔ اگر ہم جالے میں پھنسے کیڑے کا میزائل یا قزیفہ سے مقابلہ کریں تو یہ معلوم ہوگا کہ کیڑے کو محض روک دینا ہی کافی نہیں۔جالے میں پھنسے شکار کو بے حرکت کردینا ضروری ہے تاکہ مکڑی قریب آکر اس کا جائزہ لے اور اسے کاٹ سکے۔میزائل کو روک کر اسے بے حرکت کر دینا کوئی آسان کام نہیں۔
جالا بنانے والے دھاگے بیک وقت مضبوط اور لچک دار ہوتے ہیں۔ لیکن جالے کی لچک کا درجہ مختلف مقامات پر مختلف ہوتا ہے۔یہ لچک مندرجہ ذیل وجوہات کی بناء پر اہمیت کی حامل ہے۔
*اگر دھاگوں کی لچک کا درجہ ضرورت سے کم ہو تو جالے میں آ کر پھنسنے والا کیڑا ٹکرا کر وہیں لوٹ جائے گا جدھر سے وہ آیا تھاجیسے کہ کسی سخت کمانی سے ٹکرایا ہو۔
*اگر دھاگوں کی لچک کا درجہ ضرورت سے زیادہ ہو تو کیڑا جالے کو بہت سے زیادہ کھینچ دے گا ، چپچپے دھاگے ایک دوسرے کے ساتھ چپک جائیں گے اور جالا اپنی اصل شکل کھو دے گا۔
*دھاگے کی لچک کا حساب لگاتے وقت ہوا کے اثر کو بھی مدِ نظر رکھا جاتا ہے۔ چناچہ ہوا کے سبب کھینچا ہوا جالا اپنی سابقہ شکل میں واپس آجاتاہے۔
*لچک کا درجہ اس نسبت سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ جالا کس چیز سے جڑا ہے۔ مثال کے طور پر اگر وہ کسی پودے سے جڑا ہے تو اس میں اتنی لچک ہونی چاہیے کہ وہ پودے سے پیدا ہونے والی ہرحرکت کو جذب کر سکے۔
مرغولے دار شکاری دھاگے ایک دوسرے کے بہت نزدیک بچھے ہوتے ہیں۔ہلکی سی جنبش ان دھاگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ چپکا سکتی ہے جس کے نتیجے میں میدانِ دام میں بڑے بڑے خلا پیدا ہوسکتے ہیں۔ اسی وجہ سے زیادہ لچکدار، چپچپے شکاری دھاگے کم لچکدارخشک دھاگوں کے اوپر بچھائے جاتے ہیں۔ یہ حفاظتی قدم اس لئے لیا جاتا ہے تاکہ جالے میں فرار کے راستے یا سوراخ نہ بن سکیں۔
جیسا کہ اوپر دیکھا گیا جالے کے ہر خدوخال میں ایک معجزانہ ساخت جھلکتی ہے۔ہر ممکنہ صورت پر غور کیا گیا ہے۔ یہ صورتِحال ایک بار پھر نظریۂ ارتقاء کی حماقت منکشف کرتا ہے۔ بے شک یہ ممکن نہیں کہ اتفاق کے ذریعے پیدا ہونے والی تبدیلیاں مکڑی کو جالے کی صدمہ روک خصوصیات بنانا سکھا دیں۔یہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے مکڑی کو یہ صلاحیت عطا کی اور اسے بامقصد حرکات کے اظہار کے قابل بنایا۔

هُوَ اللَّـهُ الْخَالِقُ الْبَارِ‌ئُ الْمُصَوِّرُ‌ ۖ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ ۚ يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿٢٤﴾
’وہ اللہ ہی ہے جو تخلیق کا منصوبہ بنانے والا اور اس کو نافذ کرنے والا اور اس کے مطابق صورت گری کرنے والا ہے۔ اس کے لئے بہترین نام ہیں۔ ہر چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے اس کی تسبیح کر رہی ہے، اور وہ زبردست اور حکیم ہے۔‘( سورۃ الحشر: ۲۴)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
سہ ابعادی جالے
دو جہتی جالوں کی نسبت سہہ ابعادی(three-dimensional)جالے زیادہ پیچیدہ ساخت رکھتے ہیں۔یہ جالے چپٹے ہونے کے بجائے پیچیدہ سہہ ابعادی ساخت کے مالک ہوتے ہیں۔اس قسم کا جالا اون کے گولوں کے ڈھیر سے مشابہ ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے اس جالے کو دو ابعادی جالے کے مقابلے میں سنبھالنا زیادہ مشکل ہے۔اگر جالے میں کچھ ایسے کیڑے پھنس جائیں جو مکڑی کے لائق نہیں تو مکڑی کو مزید کام کرنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مکڑی اپنا جالا ایسی جگہوں پر بناتی ہے جہاں اس قسم کے جانوروں کا گزر نہ ہو۔
اس قسم کا جالا استعمال کرنے والی ایک مکڑی Black Widowہے۔ تعمیراتی مہارت رکھنے والی اس مکڑی کے جالے کے اندر ایک میکانیکی دام بھی پایا جاتا ہے۔یہ دام کثیف اور چپچپے حصے پر مشتمل ہوتا ہے۔ جالے کا یہ گولا زمین پر کم مضبوط یا کچے دھاگوں کے ذریعے باندھ دیا جاتا ہے۔جیسے ہی کوئی متحرک کیڑا جالے کے گولے سے چپک جاتا ہے، دھاگے ٹوٹ جاتے ہیں اور گولا زمین سے اوپر اٹھ جاتا ہے۔تھوڑی دیر بعد مکڑی دام کو سہہ جہتی جالے کے عین درمیان میں اوپر کھینچ لیتی ہے اور بے حرکت شکار کو مار ڈالتی ہے۔
ہمیں اس سہہ جہت دام کے نقشے اور مکڑی کے استعمال کردہ طریقے کا بغور جائزہ لینا چاہیے کیونکہ جالے کی منصوبہ بندی میں صاف طور پر ایک ذہانت جھلکتی ہے۔ تمام سہہ جہت جالوں میں، میکانیکی دام سمیت یا اس کے بغیر، اُڑتے ہوئے شکار کی رفتار گھٹانے کے لئے یہی طریقۂ کار استعمال ہوتا ہے۔یہ جالے منصوبہ بندی کے تحت بہت سے کچے دھاگوں کے ساتھ خاص طور پر بنے جاتے ہیں۔ ایک بار کیڑا پھنس جائے تو یہ کچے دھاگے ٹوٹ جاتے ہیں۔کیڑے کی حرکات سے پیدا ہونے والی توانائی چونکہ دھاگے توڑنے میں استعمال ہوتی ہے اس لئے اس کی رفتار کم ہو جاتی ہے۔ اور یوں شکار کو پکڑنے والے دھاگے تڑپتے ہوئے کیڑے کو پکڑ لیتے ہیں۔
بے شک مکڑی نے ارتقاء کے کسی نام نہاد سلسلے کے بعد ازخود ہی یہ جالا،جو بے عیب منصوبے کے تحت کام کرتا ہے، بننا نہیں سیکھا۔دیگر جانداروں کی طرح مکڑیاں بھی اللہ تعالیٰ کا حکم بجا لاتی ہیں۔رحمٰن اور رحیم ذاتِ باری تعالیٰ نے یہ حقیقت قرآنِ مجید کی ایک آیت میں بیان کی ہے۔

أَفَغَيْرَ‌ دِينِ اللَّـهِ يَبْغُونَ وَلَهُ أَسْلَمَ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ طَوْعًا وَكَرْ‌هًا وَإِلَيْهِ يُرْ‌جَعُونَ ﴿٨٣﴾
’۔۔۔ آسمانوں اور زمین کی ساری چیزیں،چاروناچار،اللہ ہی کی طابع فرمان ہیں اور اسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے۔‘ (سورۃ آل عمران:۸۳)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
جالے کی دیکھ بھال
مکڑیوں کے جالوں کو مسلسل دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ مرغولہ دار چپچپا حصہ بارش یا جالے سے چھٹکارا پانے کی کوشش کرتے ہوئے شکار کی وجہ سے خراب ہو سکتا ہے۔ مزید برآں، جالے پر چپکنے والی دھول مرغولہ دار دھاگوں کی چپچپاہٹ ختم کر دیتی ہے۔
ایک جالا اپنے جائے وقوع کے اعتبار سے بہت قلیل مدت میں حتیٰ کہ چوبیس گھنٹوں میں ہی کیڑے پکڑنے کی خصوصیات کھو سکتاہے۔ اسی وجہ سے جالا وقتاً فوقتاً پھاڑا اور دوبارہ بنایا جاتا ہے۔ مکڑی جالے کو توڑ کر، اُسے کھا کر ہضم کر لیتی ہے۔ وہ ہضم شدہ دھاگوں کے امینو ترشوں کو نیا جالا بنانے کے لئے استعمال کرتی ہے۔۳۱
مختلف انواع کی مکڑیاں جالے کے مختلف حصے کھاتی ہیں اور جالے کھانے کے اوقات بھی مختلف ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر باغ کی مکڑیاں جالے کے چوکھٹے کو چھوڑ کر صرف اس کا نصف قطر اور چپچپے مرغولے کھاتی ہیں۔
مدارینی علاقے کی مکڑیاں اپنے جالے اندھیرے میں بناتی ہیں اور صبح کے وقت کھا جاتی ہیں ۔معتدل آب و ہوا کے علاقوں کی مکڑیاں رات کے وقت اپنے جالے کھا جاتی ہیں اور دن میں ایک نیا جالا تعمیر کرتی ہیں کیونکہ ان علاقوں میں مدارینی علاقوں جتنے کیڑے مکوڑے پائے نہیں جاتے جس کی وجہ سے یہ اشد ضروری ہے کہ جالے سارا دن بنے رہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
شکار کے حساب سے جالا بُننا
مکڑیاں اپنے جالے ان جانوروں کے حجم کے مطابق بناتی ہیں جنہیں وہ شکار کرنا چا ہتی ہیں۔ مثال کے طور پر جنوب امریکی مکڑی تنگ سوراخوں والا ایک جالابنتی ہے جس کی مدد سے سفید چیونٹیاں باآسانی پکڑی جا سکتی ہیں ۔یہ چیونٹیاں ماہِ ستمبر میں نئے آشیانے تلاش کرنے کے لئے باہر نکلتی ہیں۔ایک کیڑے مثلاً ایک بڑی تتلی کو شکار کرتے وقت مکڑی جالے کے سوراخ چوڑے کر دیتی ہے اور جالے کی مضبوطی اور لچک بڑھا دیتی ہے۔
جالوں کے زاویے بھی بدلے جاتے ہیں اور یہ اس پر منحصر ہے کہ کس قسم کاشکار( اُڑنے، چلنے یا رینگنے والا) شکار کیا جائے گا۔اس سے نقصان بھی کم ہوتا ہے اور جالے کی شکار کو پھانسنے کی صلاحیت بھی بڑھ جاتی ہے۔
 
Top